انڈیا: کلکتہ میں لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے بعد احتجاجی تحریک کا آغاز!

|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: علی عیسیٰ|

یومِ آزادی کی پُر وقار تقریبات اور جشن کے دوران ایک نوجوان ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد پھوٹنے والی احتجاجی تحریک مودی کے ہندوستان کا حقیقی عکس پیش کرتی ہے۔ انڈیا کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RC(I)) مقتول کو فوری انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتی ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داری کے نظام کے تحت لاکھوں لوگوں پر ہونے والے ظلم، زیادتی، جبر اور زہر آلود انسانی رشتوں کی مذمت کرتی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

مقتولہ 31 سالہ ایک پوسٹ گریجویٹ ٹرینی تھی، جو کلکتہ مغربی بنگال میں ریاست کے زیرِ انتظام آر جی کر (RG Kar) میڈیکل کالج اور ہسپتال میں زیر تعلیم تھی۔ ان پوسٹ گریجویٹ طلبہ کا شدید استحصال کیا جاتا ہے، جنہیں اپنی تعلیم اور تربیت کے دوران 36 گھنٹے کی شفٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ جمعے کے روز مشقت زدہ شفٹ سے فراغت کے بعد مذکورہ طالبہ ہسپتال کے سیمینار روم میں سو رہی تھی (طلبہ کے لیے آرام کرنے کے لیے کسی مقررہ جگہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے)، جب اسے نامعلوم حملہ آوروں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ اس حملے کے سلسلے میں ایک رضا کار پولیس افسر، سنجے رائے کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اس واقعے کے فوراً بعد، سوشل میڈیا پر احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی اور جلد ہی کلکتہ میں خواتین کی قیادت میں ’رات میں بھی جینا ہمارا حق ہے‘ کے نعرے کے تحت ایک احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا اور چند ہی دنوں میں یہ تحریک دہلی، چندی گڑھ، اتر پردیش، پٹنہ، گووا اور دیگر مقامات تک پھیل گئی۔

ظاہر ہے کہ بااثر شخصیات اور ریاستی ادارے مجرموں کو بچانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ آر جی کر کے پرنسپل نے ابتداء میں مقتولہ کے والدین کو بتایا کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کی ہے، جبکہ بعد میں پوسٹ مارٹم نے موت کی اصل وجہ ظاہر کر دی تھی۔

دریں اثنا، ریاستی حکومت نے کلکتہ میں مظاہروں کو کچلنے کے لیے غنڈے بھیجے ہیں۔ حکومتی غنڈوں نے مظاہرین کے بھیس میں آر جی کر (RG Kar) کو نقصان پہنچایا اور پولیس پر حملے کیے، جسے جواز بنا کر درجنوں مظاہرین پر تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں ہمارے کامریڈز بھی شامل ہیں۔

نام نہاد یوم آزادی کے موقع پر ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مرد و خواتین ہاتھوں میں پلے کارڈز اور جلتی ہوتی مشعلیں لیے کلکتہ کی سڑکوں پر موجود تھے۔ ایک طالبہ نے بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو دینے کے دوران اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا:

”ہمیں کب اپنی آزادی ملے گی؟ ہم کب بغیر کسی خوف کے کام کر پائیں گے؟“

تشدد کے شکار خواتین اور ڈاکٹر

دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بھارت میں بدترین غربت اور پسماندگی نے مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہندوستان میں عصمت دری اور خواتین کے خلاف تشدد وبا کی طرح پھیل چکا ہے، جس میں روزانہ تقریباً 90 جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ ایسے بے شمار واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔

ملک کے بیشتر حصوں میں اکیلی خاتون سڑک پر محفوظ نہیں ہے۔ دیہی غریب گاؤں دیہاتوں میں بچیوں کو پیدائش کے وقت یا تھوڑی دیر بعد ہی بڑی تعداد میں قتل کر دیا جاتا ہے جبکہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل معمول کا حصہ ہے۔

زیادتی اور تشدد کی شکار خواتین کو انصاف کی فراہمی کی بجائے پولیس کی جانب سے دھمکیوں اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے سبب انہیں اپنے ہی خاندانوں اور سماج کی طرف سے بدنامی کے خوف پر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔

جنسی تشدد کو فرقہ وارانہ جبر میں بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کی ایک مثال 2002ء کے گجرات فسادات ہیں، جہاں ہندو قوم پرست گروہوں نے سینکڑوں مسلمان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں۔ واضح رہے کہ ان میں مودی کا ایک بھیانک کردار تھا۔

خواتین کے خلاف تشدد جیسے مسائل کے علاوہ اکثر مفلوک الحال اور چھوٹے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو روزانہ استحصال اور بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق 75 فیصد سے زیادہ بھارتی ڈاکٹروں کو کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2019ء میں، کلکتہ کے نیل رتن سرکار میڈیکل کالج اور ہسپتال (NRSMCH) میں دو جونیئر ڈاکٹروں پر ایک مشتعل ہجوم نے حملہ کیا تھا، جس کی وجہ سے شہر بھر کے ڈاکٹر غصے میں آ گئے اور انہوں نے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ جمعے کے روز خواتین اور ڈاکٹروں پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ 2012ء میں، ایک 22 سالہ فزیو تھراپی انٹرن کے ساتھ دہلی میں ایک بس کے اندر اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کا واقعہ پیش آیا، جس کے رد عمل میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہروں کے سبب قانون میں سطحی تبدیلیاں کی گئیں، جن کا اب تک خواتین یا ڈاکٹروں کی حفاظت میں کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔

پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز نئی احتجاجی تحریک کی صفِ اول میں ہیں۔ فیڈریشن آف ریزیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (FORDA) نے پیر کو قومی سطح پر انتخابی خدمات کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ FORDA نے منگل کو یہ کاروائی معطل کر دی، جب وزیرِ صحت جگت پرکاش نڈا نے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مرکزی تحفظ ایکٹ (قانون جو ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے) کی فی الفور منظوری کے احکامات صادر کیے۔ واضح رہے کہ یہ قانون 2022ء سے پارلیمنٹ میں زیر التوا رہا ہے۔

لیکن فیڈریشن آف آل انڈیا میڈیکل ایسوسی ایشنز (FAIMA)، دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS) اور اندرا گاندھی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے صاف شفاف تحقیقات اور ڈاکٹروں پر تشدد کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے تک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

وہ آر جی کر کے پرنسپل کی برطرفی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، جو اب تک صرف کلکتہ کے ایک مختلف ہسپتال میں ایک منافع بخش نئی پوزیشن پر منتقل کیا گیا ہے۔

موقع پرستی

حال ہی میں عام انتخابات میں مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس (TMC) کی شکست کی وجہ سے مودی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار رہی ہے۔ اسی وجہ سے، اس صورتحال کو غنیمت جانتے ہوئے، بی جے پی پارٹی اپنے لیے راہ ہموار کر رہی ہے۔ انہوں نے کلکتہ میں زیادتی اور قتل کی سطحی مذمت کر کے اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرنے کے لیے مغربی بنگال کی TMC حکومت کی رہنما ممتا بنرجی کی برطرفی کی مہم چلائی ہے۔

TMCکی قیادت خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، بعض وزراء مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب پارٹی کی مرکزی قیادت ان احتجاجی مظاہروں کو مغربی بنگال کو بدنام کرنے کے لیے بی جے پی اور CPI(M) کی سیاسی چال قرار دے رہی ہے۔ اسی طرح، کل اپوزیشن تنظیموں اور بی جے پی کی طرف سے متضاد ریلیاں نکالی گئیں، جن میں بی جے پی نے بنرجی کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔

در حقیقت، تمام سیاسی پارٹیاں بشمول بی جے پی خواتین پر جاری صنفی جبر پر کوئی ٹھوس موقف نہیں رکھتیں۔ مودی سرکار کے دوران (سوائے 2020ء کے، جب COVID-19 کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کم ہوئے) جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

2022ء میں، گجرات فسادات کے دوران 11 جنسی درندوں کو مودی سرکار کے حکم پر رہا کیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان حیوانوں کو بی جے پی کے حمایت یافتہ ہندو قوم پرست غنڈوؤں نے خوش آمدید کہا اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے۔ عوام کے غم و غصے کے بعد، ان مجرموں کو دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔

مختصراً، مودی جیسا درندہ صفت حکمران فقط اپنی سیاسی ساخت بچانے کے لیے ایک نوجوان ڈاکٹر کی لاش کا سہارا لے رہا ہے، جسے مودی کے ہی پیدا کردہ جبر و تشدد کے ماحول میں بے رحمی سے قتل کیا گیا۔

حکمران طبقے کی مختلف جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی گندی سیاسی چال بازی یقیناً دل شکن ہے، خاص طور پر اس وقت میں جب یہ واقعات سرکاری ہسپتالوں میں پیش آئے اور ہسپتالوں کے اعلیٰ حکام کی جانب سے انہیں چھپانے کی کوشش کی گئی۔ عین ممکن ہے کہ حکومت اس سے واقف ہو، اگرچہ اس کا براہ راست عمل دخل نظر نہیں آ رہا۔

اسی طرح اگر بنرجی کی انتظامیہ کو گرا دیا جائے، تو اس فتح کا سہرا صرف اور صرف اس احتجاجی تحریک کے سر جائے گا، جوکہ مودی کی مرکزی حکومت کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہو گا۔

سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے

مظاہرین نے مظاہروں میں سیاستدانوں کی شرکت پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ احتجاج میں تمام پارٹیوں کے جھنڈے لانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ پوری سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بے پناہ نفرت کا اظہار ہے، جن کے ہاتھ بے شمار خواتین اور نوجوان ڈاکٹروں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

تاہم، جنسی جبر اور بھارت کا زوال پذیر نظامِ صحت سیاسی نوعیت کے معاملات ہیں۔ یہ مکروہ اور خونخوار سرمایہ دارانہ نظام اور شاؤنسٹ ہندو وتا نظریہ جس کا مودی محافظ بنا پھرتا ہے، در حقیقت بھارتی معاشرت کی سماجی بیماری کا بنیادی منبع ہیں۔ ان کے خلاف سیاسی طریقے سے لڑنا بے حد ضروری ہے۔

اس تحریک کو صرف خواتین کے سوال کے طور پر دیکھنا بے حد غلط ہے۔ مغربی بنگال کی سربراہ ایک عورت ہے اور اس سے پچھلے ہفتے کے واقعے کا شکار ہونے والی متاثرہ کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ دراصل، بنرجی کی انتظامیہ نے مظاہروں پر تشدد کے لیے پولیس اور غنڈے بھیجے ہیں۔ اسی دوران، مودی نے شیخ حسینہ کو پناہ دی ہے جس نے بنگلہ دیش میں سینکڑوں بنگالی طلبہ کو احتجاج کرنے کی پاداش میں قتل کروایا تھا۔

بورژوا سیاستدان، چاہے وہ عورتیں ہوں یا مرد، اپنے طبقاتی مفادات کو تمام دیگر امور سے بالاتر رکھتے ہیں۔ محنت کش طبقہ، نوجوان اور غریب کسان، خواتین اور مرد، سب کو انقلابی کمیونزم کے جھنڈے تلے لڑنا چاہیے تاکہ ہر قسم کے جبر کی جڑ یعنی اس نظام کا خاتمہ کیا جا سکے۔

خواتین کے خلاف جبر کا خاتمہ کرو، سرمایہ داری کا خاتمہ کرو

ہندوستانی سماج میں ایک شدید غصہ پنپ رہا ہے جو حالیہ برسوں میں بے مثال جدوجہدوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے، جن میں تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتالیں اور مودی کے نفرت انگیز زرعی بل کے خلاف کسانوں کی فتح یاب تحریک شامل ہے۔

بھارت میں ایسے حالات موجود ہیں جو بنگلہ دیش کی طرح بڑے پیمانے پر تحریک کو بھڑکا سکتے ہیں۔ آر جی کر میں نوجوان ڈاکٹر کا قتل بارود کے ڈھیر کو بھڑکانے کی ایک چنگاری ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی سطح پر سرکشیاں سر اٹھائیں گی اور یہ مودی اور عوام کے مابین ایک فیصلہ کن لڑائی ہو گی۔ ہمیں اس وقت کے لیے تیاری کرنی چاہیے!

انڈیا کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی مظاہرین اور ہڑتالی نوجوان ڈاکٹروں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتی ہے۔ خواتین کے خلاف جبر و تشدد ایک وبا ہے جو پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ لہٰذا موجودہ تحریک کو بھارت کے طول و عرض میں پھیلاتے ہوئے تمام مظلوم پرتوں کے غصے کو ایک درست سمت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہ کیس مرکزی تحقیقاتی بیورو (CBI) کے حوالے کیا جائے، اگر یہاں مجرموں کی شناخت ہو جاتی ہے اور انہیں سزا بھی دی جاتی ہے (جو کہ یقینی نہیں ہے)، تو مستقبل میں بھارتی ریاست کی جانب سے خواتین یا نوجوان ڈاکٹروں کے تحفظ کی امید لگانا احمقانہ عمل ہو گا۔ ہم نے ماضی میں نئے قانونی تحفظات کے وعدے سنے ہیں جن سے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید بدتر ہوتے گئے ہیں۔

کانگریس کی نام نہاد بورژوا اپوزیشن سے بھی کوئی خوش فہمی وابستہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ تمام حکمران اس تحریک کو اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ راہول گاندھی اور اس کے ساتھیوں کا مقصد صرف اسی بیمار نظام پر ایک زیادہ ’معزز‘ چہرے کا خول چڑھانا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنسی جبر اور خواتین کا قتل ایک بوسیدہ سماج کا زہر آلود ثمر ہیں۔ انڈیا کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنیں اور ان ہولناکیوں سے آزاد، ایک باوقار مستقبل کے لیے ہماری جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔

ہمارا نعرہ ہے:

تحریک کو مضبوط کرو، ڈاکٹروں کی ہڑتال کو آگے بڑھاؤ؛ انصاف حاصل کرنے تک مکمل ہڑتال!

ایک کا دکھ، سب کا دکھ؛ تمام محنت کش، کسان اور بائیں بازو کی تنظیموں کو اس لڑائی میں شامل ہونا چاہیے!

بنرجی، مودی اور آر جی کر کی انتظامیہ قاتل ہیں! تمام مجرموں کو سزا دی جائے!

خواتین کے خلاف صنفی جبر کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمیں سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا!

Comments are closed.