|تحریر: یاسر ارشاد|
پاکستان اور ہندوستان کے مابین دو روزہ فضائی جھڑپوں کے علاوہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بڑھتے ہوئے دو طرفہ فائرنگ کے سلسلے نے ان دو ایٹمی طاقتوں کو ایک بار پھر جنگ کی کھائی میں دھکیلنا شروع کردیا ہے۔ اس حالیہ عمل نے تمام تر صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور پاک بھارت کشیدگی معیاری حوالے سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس سے قبل تنازعہ کو ایک محدود حد تک کنٹرول میں رکھ کر چلایا جا رہا تھا لیکن ان دودنوں میں ہونے والے واقعات نے ایک بالکل نئی صورتحال کو جنم دیا ہے جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ گو کہ کشیدگی پہلے بھی کئی دفعہ بڑھی ہے اور جنگیں بھی ہوئی ہیں لیکن آج صورتحال ماضی کی نسبت یکسر مختلف ہے جس کی ایک وجہ عالمی سطح اور بالخصوص اس خطے میں طاقتوں کے توازن میں ہونے والی تبدیلی بھی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک ایک لمبے عرصے سے براہ راست جارحیت کی بجائے پراکسیوں کے ذریعے ایک دوسرے پر وار کرنے پر اکتفا کر رہے تھے۔ لیکن اب واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ ان پراکسیوں کا وقت ختم ہو چکا ہے اور براہ راست لڑائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال آنے ولے لمبے عرصے تک جاری رہنے کا امکان ہے جس میں کسی موقع پر ایک باقاعدہ جنگ کے امکانات بھی ابھر سکتے ہیں۔ اسی امکان نے حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور جہاں وہ پرانے مہروں کی متروکیت سے پریشان ہیں وہاں کوئی نئی حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا ابھی تک کوئی خاکہ بھی کسی کے پاس موجود نہیں۔
درحقیقت، ان دونوں ممالک کا جنم ہی اس جنگی کھائی کے کنارے ہوا تھاجس سے یہ آج تک کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکے اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کوئی زیادہ امکانات موجود ہیں۔ حالیہ جنگی جھڑپوں کا بھی زیادہ تر سلسلہ ہمیشہ کی طرح ابھی تک کشمیر تک محدود ہے اور جنگ کا نقطۂ آغاز بھی کشمیر میں ہونے والا دہشت گردی کا ایک واقعہ ہے، اگرچہ بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستان کی سرحد کے اندر بھی بم گرائے ہیں۔ لیکن جنگی جھڑپوں کا زیادہ تر سلسلہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری کے آر پار ہی محدود ہے جس میں پاکستان کے سیالکوٹ سے ملحقہ علاقے جو جموں کے ساتھ لگتے ہیں، شامل ہیں۔ ان کے علاوہ یہ ساری جنگ پھر کشمیرکے علاقے اور کشمیریوں کے خون سے ہی لڑی جارہی ہے۔ 1947ء میں ان ممالک کے جنم کے ساتھ ہی کشمیر پر ان کے سامراجی قبضے کے نتیجے میں جس کیفیت نے جنم لیا تھا، اس کے باعث کشمیر کا خطہ گزشتہ 70سالوں سے ایک میدانِ جنگ بنا دیا گیا ہے۔ کشمیر پر ان ممالک کے سامراجی قبضے کے عذابوں کے ساتھ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو دبانے کے لیے کیے جانے والے قتل عام کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے درمیان جنگوں کی بربادیوں کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خمیازہ کشمیریوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے ذرائع ابلاغ بڑے پیمانے پر جنگی جنون اور قومی شاونزم ابھارنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ لبرلز کے کچھ خوفزدہ حصے اور قنوطیت پسند نام نہاد بایاں بازو امن کے حق میں نحیف سی آواز بلند کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے امن کی پیش کش پر ان سب کی باچھیں کھل گئی ہیں اور ہر قسم کے طبقاتی امتیاز کو فراموش کرتے ہوئے حکمران طبقے کے لبرل حصوں کی آواز میں آواز ملانے کی تگ ودو کررہے ہیں۔
کیا امن ان جنگوں کا متبادل ہے؟
جس طرح جنگوں اور اسلحے کا کاروبار کرنے والوں کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً جنگوں کا ماحول بناتے رہتے ہیں اسی طرح امن کے نام پر این جی اوز کا کاروبار کرنے والے بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ ان کی پشت پناہی پر بھی اکثر اسلحہ بنانے والی کمپنیاں یا ایسے ہی کاروباری افراد موجود ہوتے ہیں۔ یہ دونوں دھڑے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور جنگ اور امن کے کاروبار کے ذریعے عوام کو محکوم رکھا جاتا ہے۔
اس وقت سبھی قنوطیت پسند ان جنگجو حکمرانوں کے ساتھ مل کر امن امن کا جو راگ الاپ رہے ہیں اس سے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر یہ جنگ رک جائے گی اور امن ہوجائے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کیا امن یعنی حالیہ دو روزہ تناؤ سے پہلے کی کیفیت اس دو روزہ جھڑپوں اور موجودہ غیر یقینی صورتحال کا متبادل ہے؟ کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پچھلی صورتحال جس نے موجودہ تناؤ کو جنم دیاوہ ٹھیک ہے اور یہ ٹھیک نہیں؟ کیا ہم سماجوں کے ارتقا کے بالکل عمومی قوانین سے ہی لاعلمی کا اظہار نہیں کررہے؟ یا پھر ایک بڑی جنگ کے خوف نے ہماری فکر ودانش کے بانجھ پن کا پردہ فاش کردیا ہے۔
سرمایہ داری نظام کے اندر عمومی طور پر بھی اور خاص کر موجودہ عالمی زوال کی کیفیت میںآج کوئی دیرپاامن ممکن نہیں خاص طور پر اس وقت جب اس نظام کی شکست و ریخت اس کے اندر دہائیوں سے مجتمع ہونے والے ہر قسم کے تضادات کو پھاڑ کر سطح پر لارہی ہے۔ اس نظام کے اندر امن و جنگ دو ایسی کیفیات ہیں جو ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہیں کہ امن آجائے تو جنگوں کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا اور وہ بنیادیں ہی مٹ جائیں گی جو جنگوں کو جنم دیتی ہیں۔ بلکہ جنگ وجدل اور امن اس نظام کے زندہ رہنے کے دو ایسے طریقہ کار ہیں جن میں سے کسی ایک کا استعمال جلد یا بدیر دوسرے کو ناگزیر بنا دیتا ہے۔ امن ہوتا ہے اسی لیے کچھ عرصے بعد جنگ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے اور اسی طرح جنگیں بھی ہوتی رہتی ہیں تو امن کی ضرورت بھی باقی ہے۔ یہ ایسا گھن چکر ہے جو خود حکمران طبقے اور اس نظام کی ضروریات کے تحت چلتا ہے۔ جس وقت میں جس کی ضرورت حاوی ہوجائے وہ کچھ تاخیر کے ساتھ ہی سہی آجاتا ہے۔ اس لیے اس سرمایہ داراستحصالی امن کو ان حکمران طبقات کے لیے بھیانک حد تک منافع بخش جنگوں کامتبادل بنا کر پیش کرنا اس خطے کے اربوں انسانوں کی ذلتوں، محرومیوں، ریاستی و قومی جبر سے نجات کے بنیادی نظریات سے غداری ہے۔
کس کا امن؟
اس کشیدگی سے پہلے کی کیفیت جس کو ’امن‘ کہا جاتا ہے اور جس کے سبھی بھگوڑے اور خود حکمران طبقات کے کچھ حصے اتنے داعی ہیں، آخر وہ کس کا امن ہے؟ کیا ان دو ممالک کے محنت کش اپنی عملی زندگی میں کبھی امن نامی اس چڑیا کو دیکھ سکتے ہیں؟ کیا بھارتی مقبوضہ کشمیر سمیت ہندوستان کے بیشتر خطوں میں جو ریاستی جارحیت کی جارہی ہے ان خطے کے لوگوں کے حالات زندگی میں کوئی فرق آیا ہے؟ کیا وہ دو دن پہلے بھی آگ وخون کی دلدل میں دھنسے ہوئے نہیں تھے؟ اسی طرح پاکستانی ریاست جن علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نام پر ریاستی جارحیت کررہی ہے ان لوگوں کے لیے اس لفظ کے کوئی معنی ہیں؟ کیا مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیوں پر مجبور غریب اور محنت کش ان دونوں کی جھڑپوں کے باعث زیادہ تعداد میں خودکشیاں کرنے لگے ہیں اور صورتحال دو دن پہلے کی حالت میں واپس چلے جانے سے یہ سلسلہ رک جائے گا؟ کیا ان ریاستوں کی اپنے ملک کے محنت کش عوام کے خلاف جاری طبقاتی جنگ کسی نام نہاد امن کی وجہ سے رک جائے گی؟ جنگ کے حوالے سے یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ وہ عمومی طور پر بربادی ہی لاتی ہے اور اس کے باعث پہلے سے تباہ حال غریب عوام مزید برباد ہوں گے لیکن اس دلیل کی بنیاد پر بھی اس امن کو جنگ کامتبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ سماجی ارتقا کے تاریخی عمل کا نتیجہ ہے اور تاریخی حرکت کے عام قوانین کے تحت اس نظام کا بحران جلد یا بدیر مختلف ممالک کی اپنی جغرافیائی اور تاریخی مخصوصیت کے ساتھ اس قسم کے واقعات کو جنم دے رہا ہے اور آنے والے عرصے میں اس بحران کی شدت کے باعث پرامن تصادموں کے شدت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ نئے تصادموں کے امکانات بھی جنم لیں گے۔ ان امکانات اور تصادموں کو روکنے کی ہر خواہش بانجھ ہے جو محض اسی حکمران طبقے ہی کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔ خود یہ حکمران طبقہ اس مرتے ہوئے نظام کے باعث جنم لینے والے اس قسم کے مسائل کو ابھرنے سے روکنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات کی کوئی سلگتی ہوئی خواہش نہیں ہے کہ وہ جنگ کریں بلکہ ایک تبدیل شدہ صورتحال کے باعث وہ مجبوراً اس جانب دھکیلے گئے ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر موجودہ تصادم زیادہ شدت اور وسعت نہیں اختیار کرتا تو کیا ان بنیادی وجوہات اور تضادات کا خاتمہ ہوجائے گا کہ اگلے عرصے میں یہ ممالک دوبارہ اسی قسم کے تصادم کے خطرے سے دوچار نہیں ہوں گے۔ تاریخ کی ابجد سے واقف فرد بھی اس کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ آنے والے عرصے میں ان ممالک کے درمیان جنگی جھڑپوں اور تصادموں کے امکانات مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ امن کس کے لیے ہے؟ ان ممالک کے محنت کشوں کی اکثریت کی حالت اتنی ابتر ہوتی جارہی ہے کہ ان کے لیے جنگ اور امن کاامتیاز ہی مٹتا جارہاہے۔ حکمران طبقات بیرونی دشمن کے خوف وخطرے کو مسلط کرکے اپنے خلاف ابھرنے والی نفرت کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں درمیانے طبقے کے کچھ حصوں کے ساتھ سبھی فیشن ایبل خواتین وحضرات، سامراج کی آلہ کار این جی اوز اور نام نہاد بائیں بازو کی کچھ ہستیاں حکمرانوں کے ساتھ یک زبان ہوکر اپنے محب وطن اور مہذب شہری ہونے کا ثبوت فراہم کرر ہے ہیں۔ حکمرانوں کے ہی اس وحشیانہ، استحصالی اور جابرانہ امن کو ان ظالمانہ جنگوں کامتبادل بنایا جارہاہے۔ حکمرانوں کا یہ امن و جنگ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جو آخری تجزیے میں اس نظام کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اگر اس کو امن کہا جا سکتا ہے تو یہ صرف حکمران طبقات کی لوٹ مار اور عیاشیوں کا یا درمیانے طبقے کے کچھ نودولتیوں کا امن ہے جس کو کسی بڑے جنگی تصادم سے تباہی کا خطرہ ہو سکتا ہے!
کس کی جنگ؟
جنگ کے حوالے سے بنیادی سوال یہی ہے کہ یہ کس کی جنگ ہے۔ طبقاتی سماج کی ہزاروں سال کی تاریخ میں ہزاروں چھوٹی بڑی جنگیں لڑی گئیں جن میں ہر جنگ کا آخری اور حتمی مقصد اس عہد کے حکمران طبقات کی لوٹ مار کوجاری رکھنا یا اس میں اضافہ کرنا مقصود تھا؛ سوائے ان چند ایک جنگوں کے جو سماج کی ایک نظام سے دوسرے نظام میں تبدیلی کے عمل میں انقلابی جنگوں کے طور پر لڑی گئیں۔ لیکن ہر جنگ لڑنے کے لیے حکمران طبقات کو کسی نظریے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لبادے میں حکمران طبقات اپنے مفادات پوشیدہ رکھتے ہیں۔ سرمایہ داری کے عہد میں یہ نظریہ کسی نہ کسی شکل میں قوم پرستی کا نظریہ ہی ہوتا ہے چاہے اس میں کسی پرانے نظریے کے کچھ عناصر کی آمیزش ہی کیوں نہ ہو۔ چونکہ ہر جنگ کو عملی طور پرلڑنے والوں یعنی سپاہیوں کے سامنے ایک بڑامقصد ہونا ضروری ہے اور اسی طرح اپنے ملک کے عوام کی اکثریت کی بھی اس جنگ کے لیے حمایت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پاک و ہند کے حکمران طبقات کشمیر کے مسئلے کو وجۂ تنازعہ کے ساتھ ساتھ مذہبی دشمنی کو بھی استعمال کرتے آئے ہیں۔ 70سالوں سے قریباً چار جنگیں اور کنٹرول لائن پر مسلسل کشیدگی کے ذریعے اس دشمنی کو فروغ دیا جاتا رہا ہے جس کا حقیقی مقصد نہ توکبھی کشمیر کو دوسرے کے قبضے سے چھڑانا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کو مکمل طور پر فتح کرنا رہا ہے۔ بلکہ ایک مسلسل جنگی تناؤ، حالت جنگ اور چھوٹی موٹی جھڑپوں کے ذریعے اپنے اپنے ملک کے عوام پر اس سرمائے کے نظام کی حاکمیت کو برقرار رکھنا رہا ہے جس کے لیے دو ایک کھلی جنگیں بھی کی گئیں۔ یہ بنیادی طور پر اس نظام کو برقرار رکھنے کی لڑائی ہے جس میں اگر پورے کشمیر پر قبضہ کسی ریاست کے حکمران طبقات کا خواب بھی ہے تو اس کے پیچھے بھی اس نظام کی منافع خوری اور توسیع پسندی کی ہوس شامل ہے۔
جنگوں کو زیادہ ترداخلی سیاست کے ایک خارجی اوزار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ جرمنی کے ایک جرنیل نے کہا تھا کہ ’’ جنگ داخلی سیاست کو خارجی پرتشدد ذرائع سے جاری رکھنے کا عمل ہوتا ہے‘‘۔ داخلی سیاست سے مراد ملک کے اندر رائج نظام کی ضروریات اور تقاضے ہوتے ہیں اور اس بنیاد پر دیکھا جائے تو ان ممالک میں گلا سڑا سرمایہ دارانہ نظام ہی ان جنگوں کو جنم دینے کا باعث ہے۔ یہ نظام جو ملک کے اندر محنت کش عوام کے خون کے ساتھ ان کی ہڈیوں کا گودا تک نچوڑ لینے کے درپے ہے، اسی نظام کے تحفظ کی ضرورت ان خونریز جنگوں کو جنم دیتی ہے۔ اس استحصالی نظام کو اکھاڑے بغیر حکمران طبقات کی ان بربادیوں کو نہیں روکا جاسکتاجو مختلف شکلوں میں نسلِ انسانی کو تباہ کرتی جارہی ہیں۔ فلسطین سے کشمیر تک اور افغانستان سے عراق تک پھیلی ہوئی بربادی اسی نظام کے بحران کی پیداوار ہے۔
ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
جنگ تاریخی عوامل میں سب سے فیصلہ کن اقدام ہوتا ہے جس میں ہر طبقے کی فکرودانش اور نظریات کو عمل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ عام طور پر قوموں کے مابین جنگیں انقلابیوں کے لیے طبقاتی جنگوں سے زیادہ بڑا امتحان ہوتا ہے۔ قوموں کے درمیان جنگوں میں حکمران طبقات حب الوطنی کو اپنے بنیادی اوزار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کسی ملک کے حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے اس جنگ کے خلاف ایسا مؤقف پیش کرنا جو حکمران طبقات کے خلاف ہو عام طور پر زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کرپاتا خاص کر جنگوں کے آغاز پر۔ لیکن یہی وہ وقت ہوتا ہے جب جنگ کے حوالے سے زمانۂ امن میں فروغ دیا جانے والامؤقف سامنے لانا ضروری ہے۔ نہ تو یہ جنگیں اور نہ ہی اس نظام کے تحت امن اس خطے کے محنت کشوں کے مسائل کا حل ہے اس لیے ہم ان جنگوں کی بھی اتنی ہی مخالفت کرتے ہیں جتنی کہ اس نام نہاد امن کی۔ ہم ہرگز یہ نہیں سمجھتے کہ اگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوتی تو (اگر معاشی اور طبقاتی حملوں کے ذریعے ہونے والے قتل عام کو ایک طرف رکھ بھی دیا جائے) پھر بھی کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت، کنڑول لائن پر ہونے والی فائرنگ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عام عوام، غریبوں اور سیاسی کارکنان کا ہونے والا قتل عام بند ہوجائے گا۔ اسی لیے ہم اس جنگ کے مقابلے میں استحصالی امن کا نعرہ بلند کرنے کی بجائے ان دونوں کی حقیقت کو محنت کش طبقے کے سامنے ننگا کرنے کا انقلابی فریضہ ہر حال میں جاری رکھیں گے۔ قوموں کے درمیان جنگ میں سب سے بنیادی اس سوال کو ہمیشہ دبا دیا جا تا ہے کہ آخر یہ جنگیں ہوتی کیوں ہیں اور آخری تجزیے میں ا ن جنگوں کا فائدہ کس طبقے کو ہوتا ہے نہ کہ پوری قوم کو۔
امن کی خواہش انسان کی سب سے بنیادی خواہش ہے یعنی زندہ رہنے کی خواہش۔ لیکن محنت کش طبقے کی زندگی کے لیے جس امن کی ضرورت ہے وہ اس نظام کو اس کی جنگی بربادیوں اور استحصالی امن سمیت اکھاڑ پھینکنے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہم درمیانے طبقے اور لبرلز کے خوف کی بنیادوں سے بخوبی واقف ہیں جو انہیں اس طرح کے تناؤ کی کیفیت میں پھر اسی حکمران طبقے کے قدموں میں سجدہ ریز کردیتی ہیں۔ اس نظام کے تضادات کے حد سے زیادہ بڑھ جانے کے باعث جب حکمران طبقہ معمول کے وقتوں کے سبھی راستے بند کرکے امن یا جنگ کے آخری دو آپشن ان کے سامنے رکھتا ہے تو ان کی ساری مزاحمت اور دانش یوں غائب ہوجاتی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور خوف سے لرزتے ہوئے یہ حکمران طبقے کے امن کے قصیدے پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ اتنی فکری جرأت نہیں رکھتے کہ یہ کہہ سکیں کہ یہ دونوں غلط ہیں اور ایک تیسرا رستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان نام نہاد لبرلز کی تمام ترقی پسندی اورمزاحمت درحقیقت اسی نظام ہی کی بنیادوں اور اس میں موجود گنجائش پر قائم ہے۔ جب بھی حالات کا تناؤ بڑھ کر اس نام نہاد ترقی پسندی کے لیے عام حالات میں موجود گنجائش کو کم یا بالکل ختم کردیتا ہے تو ان کے پاس تیسراکوئی راستہ بچتا ہی نہیں۔ اس لیے غیر معمولی حالات میں یہ ہمیشہ اپنی نامیاتی اور فطری جگہ پر پہنچ جایا کرتے ہیں۔ رہا سوال محنت کش طبقے کا تو وہ حکمران طبقے کی سبھی لڑائیوں کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے چل رہا ہے اور اب اس کی تھکان ان حدوں کو چھو رہی جس کے بعد لمبے عرصے تک اس سے یہ بوجھ نہیں اٹھایا جائے گا۔ ہم سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کی جانے والی ہر جنگ کی ہمیشہ مخالفت کریں گے لیکن اس کے متبادل کے طور پر استحصالی امن کا پرچار ہرگز نہیں کریں گے۔ بلکہ یہ وضاحت کریں گے کہ حقیقی امن صرف سوشلسٹ انقلاب کو فتح مند کرنے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔