|تحریر: آدم پال|
اس وقت پوری دنیا تیز ترین تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام بد ترین زوال کا شکار ہے اور پوری دنیا کو تباہی اور بربادی میں دھکیل رہا ہے۔ اس زوال پذیری کے اثرات دنیا کے تمام ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں اور سماج کا کوئی بھی شعبہ اس بربادی اور تباہی سے محفوظ نہیں۔ اس سارے عمل نے اس نظام کے کھوکھلے پن اور عوام دشمن اور خون آلود چہرے کو بھی دنیا میں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ ہر طرف جنگیں، خانہ جنگیاں، وبائیں، بھوک اور بیماری عوام پر مسلط کی جا رہی ہے جبکہ دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ امارت اور غربت کی اتنی بڑی خلیج تاریخ میں کبھی بھی موجود نہیں رہی جتنی آج ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج دنیا میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ پوری دنیا سے بھوک، بیماری اور غربت کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کو چلانے والے حکمران طبقے کے باعث یہ تمام تر وسائل عوام کو بربادی میں جھونکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے اسلحہ سازی اور دیگر ایسے شعبوں پر خرچ کیے جاتے ہیں جن سے تعمیر کی بجائے تخریب فروغ پاتی ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا زوال پوری دنیا میں طاقتوں کے توازن کو بھی مسلسل تبدیل کر رہا ہے اور امریکی سامراج پہلے کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو چکا ہے جبکہ چین، روس اور دیگر بہت سی سامراجی طاقتیں ابھرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں طاقتوں کا جو توازن قائم ہوا تھا اس میں امریکی سامراج سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے اور عالمی تھانیدار کی حیثیت سے ابھرا تھا۔ 90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے سٹالنزم کی زوال پذیری کے باعث انہدام نے امریکی سامراج کو پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع دیا تھا۔ اس دوران مشرقی یورپ میں سابقہ یوگوسلاویہ سے لے کر عراق اور افغانستان تک امریکی سامراج نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خونریزی اور بربادی کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ لیکن اس دوران امریکی سامراج کی طاقت بڑھنے کی بجائے کم ہوتی چلی گئی اور اس کا اثر و رسوخ پھیلنے کی بجائے سکڑنے لگا۔ اس دوران مالیاتی بحرانوں نے بھی امریکی معیشت کو کمزور کرنا شروع کر دیا جو ناگزیر طور پر امریکی ریاست اور اس کے سامراجی کردار پر بھی اثر انداز ہوا۔ آج امریکہ سمیت عالمی معیشت تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہی ہے اور ایک نئی بہت بڑی عالمی کساد بازاری اور مالیاتی بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ پہلے ہی روس اور یوکرائن کی جنگ کے باعث جہاں پورے یورپ میں سیاسی عدم استحکام پھیل رہا ہے وہاں تیل، گیس، گندم اور دیگر اجناس کی قیمتیں بھی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اور دنیا کے تمام ممالک افراط ِزر میں بہت بڑے اضافے کی لہر سے گزر رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا
اس تمام صورتحال کے اثرات جنوبی ایشیا پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور یہاں بھی طاقتوں کا توازن تبدیل ہو رہا ہے جبکہ اس خطے کے تمام ممالک بہت گہرے مالیاتی بحرانوں اور سیاسی تبدیلیوں سے گزررہے ہیں۔ ایک طرف جنوبی ایشیا کے ممالک کا حکمران طبقہ معاشی بحرانوں کا تمام تر نزلہ عوام پر منتقل کر رہا ہے اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف محنت کش طبقے کی بھی بہت بڑی تحریکیں اُبھر رہی ہیں اور حکمران طبقے کی حاکمیت کو للکار رہی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم پیش رفت سری لنکا میں ہوئی ہے جس کی معیشت مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے اور پورا ملک تاریخی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ پورے ملک میں اس وقت بنیادی ضروریات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور چولہا جلانے کے لیے آبادی کی اکثریت لکڑیاں جلانے پر مجبور ہے جبکہ گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کے لیے ایک ہفتے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ضروری ادویات سے لے کر بجلی پیدا کرنے کے لیے درکار ایندھن کی قلت کے باعث تمام تر معمول درہم برہم ہو چکا ہے اور عوام شدید اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس دوران لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل کر حکمران طبقے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جبکہ صدر راجہ پکشا مستعفی ہونے کے لیے تیار نہیں۔ عوام نے تمام سیاسی پارٹیوں بشمول اپوزیشن کو رد کر دیا ہے اور کسی کی بھی قیادت تسلیم کرنے لیے تیار نہیں۔ اس دوران ٹریڈ یونینز بھی تاخیر کے ساتھ ہی سہی لیکن متحرک ہو گئی ہیں اور ملک گیر سطح پر عام ہڑتالوں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے جو اس صورتحال میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ بحران ختم ہونے کے امکانات موجود نہیں اور مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی۔ اس وقت سری لنکا میں بالشویک پارٹی کی طرز پر انقلابی قوت موجود ہوتی تو ایک سوشلسٹ انقلاب کی جانب اہم پیش رفت ممکن تھی۔
خطے کے دیگر ممالک بھی اسی قسم کی صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ان پر بھی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت بھی دیوالیہ پن کی کھائی کے کنارے لڑکھڑا رہی ہے اور عالمی مالیاتی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئندہ ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصے میں پاکستان کی معیشت کی صورتحال سری لنکا جیسی ہو سکتی ہے اور معیشت دیوالیہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا سیاسی بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جبکہ حکمران طبقے کی پھوٹ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ امریکہ اور چین کی سامراجی طاقتوں کا ٹکراؤ بھی اس بحران کو انتہاؤں کی جانب لے جا رہا ہے اور اسے ایک ریاستی بحران میں تبدیل کر رہا ہے۔
مودی سرکار
جنوبی ایشیا کا سب سے اہم ملک انڈیا ہے جہاں ایک جانب معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے وہاں افق پر موجود تمام سیاسی پارٹیاں بھی عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہیں اور کسی کے پاس بھی عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام موجود نہیں۔ اس دوران کروڑوں کسانوں اور مزدوروں کی تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں جن کی قیادت کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس نہیں اور یہ تحریکیں حکمران طبقے کی پالیسیوں کو رد کر رہی ہیں۔ حکمران طبقہ ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے مذہبی فسادات اور دیگر روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہا ہے اور برطانوی سامراج کے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو مذہب، قوم اور دیگر بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس دوران تمام سیاسی پارٹیاں عوام کی حمایت جیتنے کی بجائے سرمایہ دار طبقے کی حمایت جیتنے کو ترجیح دے رہی ہیں اور اس عمل میں عوام کی نظروں میں بے نقاب ہو رہی ہیں۔ عالمی سطح پر طاقتوں کا تبدیل ہوتا ہوا توازن بھی انڈیا پر اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے اور خطے میں اس کا سامراجی کردار بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ کے بعد اس میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں جس کے باعث امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے انڈیا پر تنقید سامنے آئی ہے۔ اسی پس منظر میں مودی نے یورپ کے مختلف ممالک کا حالیہ دورہ کیا ہے جبکہ آئندہ عرصے میں چین کے صدر کا انڈیا کا دورہ بھی متوقع ہے۔ اس ساری صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینااہمیت کا حامل ہے تاکہ خطے میں ابھرنے والی تبدیلیوں کو سمجھا جا سکے۔
مہنگائی کا طوفان اورمعاشی بحران
انڈیا میں اس وقت مہنگائی کی ایک بہت بڑی لہر جاری ہے جس نے اس ملک کے کروڑوں محنت کشوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں سے لے کر سبزی اور روز مرہ کی اشیا کی قیمتوں میں بہت بڑا اضافہ ہو چکا ہے اور اس میں کمی کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔ 21 مارچ کو دہلی میں پٹرول کی قیمت 95 روپے فی لیٹر تھی جو 7 اپریل تک 106 روپے تک پہنچ گئی۔ یہی صورتحال دیگر تمام علاقوں کی ہے۔ اسی طرح گھروں میں استعمال ہونے والے گیس کے سلنڈر کی قیمت میں مئی کے آغاز میں یکمشت 50 روپے اضافہ کرتے ہوئے اس کی قیمت دہلی شہر میں ہزار روپے کی حد عبور کر گئی۔ اس سے پہلے 22 مارچ کو بھی اس قیمت میں 50 روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔ یہی صورتحال سبزیوں اور دوسری اشیا کی قیمتوں کی ہے جس میں ایک وقت میں دہلی شہر میں لیموں کی قیمت 300 روپے کلو تک پہنچ گئی تھی اور پورے ملک میں لیموں کی قیمت پر حکومت کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل میں افراط زر کی شرح 7 فیصد کی بلند سطح پر پہنچ گئی جبکہ ریزرو بینک کا ٹارگٹ اس شرح کو 4 فیصدتک رکھنا تھا اورزیادہ سے زیادہ 6 فیصد تک ہے۔ اس دوران خوراک کی اشیاء پر افراط زر 12 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو آبادی کی اکثریت کو شدید متاثر کر رہا ہے۔ یہ اعداد وشمار درست تصویر پیش نہیں کرتے اور حقیقی افراط زر اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن اگر سرکاری اعداد وشمار کو بھی درست مان لیا جائے تو مہنگائی کی سطح انتہائی بلند ہے۔ اس صورتحال میں حکمران جماعت بی جے پی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور وہ یہ جواب دے رہے ہیں کہ اس کی تمام تر ذمہ داری عالمی صورتحا ل پر ہے اور خاص کر یوکرائن اور روس کی جنگ کے باعث تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ اضافہ عوام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ مکمل سچ نہیں ہے اور مہنگائی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی مانیٹری پالیسی بھی ہے جس کے تحت گزشتہ چند سالوں میں بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپے گئے اور سرکاری شرح سود کو انتہائی کم سطح پر رکھا گیا تاکہ سرمایہ داروں کو زیادہ سے زیادہ سستے قرضے دیے جا سکیں۔ خاص طور پر کرونا وبا کے دوران معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے جو پالیسی اپنائی گئی وہ یہی تھی اور یہ وہی پالیسی ہے جو امریکہ اور یورپ کی حکومتیں بھی اپنا رہی تھیں۔ اس پالیسی کے تحت سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں تاریخی اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن اس کے باوجود نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور نہ ہی کسی بھی طرح سے غربت میں کمی ہوئی۔ اب اس پالیسی کے ناگزیر نتیجے کے طور پر افراط زر میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے اور مہنگائی بڑھ رہی ہے جس کا تمام تر بوجھ عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ مئی کے آغاز پر انڈیا کے ریزرو بینک کی جانب سے شرح سود میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے اور وہ 4.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے لیکن اس سے کچھ بھی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ امریکہ اور یورپ میں بھی اب یہی کچھ کیا جا رہا ہے اور وہاں بھی شرح سود میں معمولی سا اضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس معمولی اضافے سے ہی سٹاک ایکسچینجوں میں گراوٹ آنی شروع ہو گئی ہے اور ایک بہت بڑے مالیاتی بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ انڈیا میں بھی شرح سود میں اس اضافے کے بعد سرمایہ داروں کی جانب سے حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے بہت سے کاروبار دیوالیہ ہونے کی طرف جائیں گے۔ خاص طور پر آئی ٹی کے شعبے کے ایسے بہت سے نئے سٹارٹ اپ جنہیں یونی کارن بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کم از کم مالیت ایک ارب ڈالر ہوتی ہے اور گزشتہ عرصے میں انڈیا میں یہ بہت تیزی سے پھیلے تھے اور ان کے حجم میں بھی بہت اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح حکومتی سبسڈیوں اور مراعات پر چلنے والے بہت سے بڑے کاروبار اور بینک بھی متاثر ہو سکتے ہیں اور انڈیا میں ایک بہت بڑے مالیاتی بحران کا آغاز ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اگر شرح سود میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو افراط زر بے قابوہوتا چلا جائے گا اور غربت میں مزید کئی گنا اضافہ ہوگا۔ عالمی سطح پر اگر کسی بھی نئے واقعے کے باعث تیل، گیس اور دیگر اجناس کی قیمتوں مزید اضافہ ہوتا ہے تو انڈیا کی معیشت کے لیے مزید مشکلات بڑھیں گی۔
اس دوران انڈیا کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے تک انڈیا کا روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 77 روپے تک جا پہنچا تھا جبکہ اس سال کے آغاز پر یہ قیمت 74 روپے پر تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی چھ مہینے کے عرصے میں 640 ارب ڈالر سے کم ہو کر 600 ارب ڈالر تک آ گئے ہیں جس کی وجہ سے کرنسی کی قیمت شدید دباؤ کا شکا ر ہے۔ اس دوران ریزرو بینک نے کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے بھی کئی ارب ڈالر منڈی میں جھونکے لیکن اس کے باوجود کرنسی کی گراوٹ کا سفر جاری ہے۔
انڈیا کا تجارتی اور کرنٹ خسارہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے جو معاشی بحران کی شدت کی عکاسی کرتا ہے۔ مارچ میں تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا اور گزشتہ بارہ مہینے کا کل تجارتی خسارہ 200 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کو بتایا جاتا ہے لیکن اس دوران کوئلے کی درآمدات میں بھی 136 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اپریل کے آخر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی کی ایک شدید لہر نے جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے باعث وقت سے پہلے ہی انرجی کی ضروریات میں اضافہ ہوا۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کوئلے کی درآمد میں مزید اضافہ ہوا جو پھر ماحولیاتی تبدیلی پر منفی اثرات مرتب کرے گا اور موسموں کی شدت کو بڑھائے گا۔ اس دوران ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی انتہاوں کو پہنچ گئی اور شدید گرمی کے دوران کروڑوں لوگ بغیر بجلی کے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ کوئلے کے کاروبار سے انڈیا کے سرمایہ داروں نے تاریخ کے سب سے بڑے منافع کمائے اور ایک رپورٹ کے مطابق اڈانی گروپ کی کوئلے کی کمپنی کے منافعوں میں تین ہزار فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ لیکن اس عمل میں ملک کا تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا جس کا بوجھ محنت کش عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ انڈیا کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 23 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہے اور گزشتہ 9 سالوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ آنے والے عرصے میں اس میں مزید اضافے کے امکانات موجود ہیں۔
اس معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے حکمران طبقہ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن شرح سود میں اضافے کے باعث بہت سے کاروبار بڑھنے کی بجائے سکڑنے کی طرف جائیں گے۔ کرنسی کی قدر میں کمی سے اگر ایکسپورٹ بڑھنے کا امکان ہے تو اس سے امپورٹ بھی مہنگی ہو جائیں گی اور تجارتی خسارہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔
دوسری جانب بڑے پیمانے پر نجکاری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اہم ریاستی اداروں کو اونے پونے داموں سرمایہ داروں کو بیچا جا رہا ہے۔ ایئر انڈیا کو ٹاٹا کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جیون بیمہ کمپنی LIC (لائف انشورنس کارپوریشن) کی نجکاری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کمپنی کے انڈیا میں 29 کروڑصارف ہیں جنہوں نے اس سے پالیسی خرید رکھی ہے اور نجکاری کے عمل سے یہ تمام افراد متاثر ہوں گے۔ اس کمپنی کے لائف فنڈ کی مالیت 28.3 ٹریلین روپے ہے جسے اب بتدریج سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے لیے کھولا جا چکا ہے جبکہ جیون بیمہ کی قیمت جو اس سرکاری کمپنی کی جانب سے گیارہ ہزار روپے میں دی جاتی ہے پرائیوٹ کمپنیوں کے پچاس ہزار روپے کی سطح تک لائی جائے گی۔ اسی طرح ریلوے، اسٹیل اور دیگر بہت سے شعبوں کی نجکاری کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے جس سے لاکھوں افراد بیروزگار ہو رہے ہیں جبکہ ان اداروں کی عوام کے لیے دی گئی سہولیات کا معیار بھی گراوٹ کا شکار ہے۔
اس تمام عمل میں حکمران طبقے کی پالیسیاں مزید مہنگائی اور بیروزگاری کا باعث بنیں گی اور معاشی بحران بھی کم ہونے کی بجائے شدت اختیار کرے گا اورپورے ملک کی معیشت مزید بحران زدہ ہوتی جائے گی۔ اس تمام عمل کے اثرات ناگزیر طور پر سیاست اور سماج کے دیگر حصوں پر بھی مرتب ہوں گے اور تمام تر تضادات پھٹنے کی طرف بڑھیں گے۔
سیاسی بحران
گزشتہ عرصے میں انڈیا کی پانچ اہم ریاستوں میں انتخابات ہوئے جن میں سے چار میں مودی کی پارٹی بی جے پی نے کامیابی حاصل کی جبکہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی پہلی دفعہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ ان انتخابات کے بعد یہ واویلا ایک دفعہ پھر نظر آیا کہ بی جی پی ناقابل شکست ہے اور اس عفریت کو حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کو نظریاتی وابستگیوں سے بڑھ کر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت بی جے پی کی حالیہ اور پچھلی کامیابیوں کی ایک بڑی وجہ اپوزیشن پارٹیوں کی ناکامی ہے اوران انتخابات میں بھی یہ ناکامی واضح طور پر نظر آئی۔
اس وقت کانگریس سمیت کوئی بھی اپوزیشن پارٹی ملک میں موجود شدید معاشی بحران سے نجات کا کوئی بھی پروگرام پیش نہیں کر رہی اور نہ ہی ان کے پاس عوام کو روزگار سمیت دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ 2014ء میں جب مودی عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وزیر اعظم بنا تھا اس وقت اس نے ترقی اور خوشحالی کا ایک جھوٹا منصوبہ دیا تھا۔ اس سے پہلے کانگریس کی ایک دہائی کے اقتدار نے بیروزگاری اور مہنگائی میں شدید اضافہ کیا تھا اور عوام متبادل تلاش کررہے تھے اور سیاسی اُفق پر کوئی بھی پارٹی متبال فراہم نہیں کر رہی تھی۔ اس وقت مودی نے ایک طرف ”وِکاس“(ترقی) کا نعرہ دیا اور دوسری جانب سماج میں موجود طبقاتی تقسیم کے خلاف کھل کر نعرے بازی کی۔ مودی ہمیشہ سے ہی سرمایہ دار طبقے کا دلال رہا ہے اور نظریاتی طور پر اس سرمایہ دارانہ نظام کا حامی ہے لیکن انتخابات میں کامیابی کے لیے اس نے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے خاندان کی غربت کو سیاسی بحث کا موضوع بنایا اور کہا کہ وہ چائے بیچنے والے کا بیٹا ہے اور اس کا مقابلہ سیاسی شہزادوں سے ہے۔ اس بنیاد پر اس نے ملک کے ان علاقوں میں سے بھی حمایت حاصل کی جہاں بی جے پی ماضی میں کبھی امیدوار بھی نہیں ڈھونڈ سکتی تھی۔ اس دوران وہ مذہبی بنیاد پرستی اور مذہبی فسادات کو بھی استعمال کرتے رہے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ آٹھ سال میں مودی کے تمام نعروں کی قلعی کھل چکی ہے اور اس کا عوام دشمن چہرہ سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک متبادل معاشی اور سیاسی پروگرام پیش نہیں کر پارہی جس کے ذریعے مودی کو انتخابات میں شکست دی جا سکے۔ اسی لیے انتخابات میں تمام تر بحث ووٹروں کی مذہبی وابستگی یا ذات پات کی تقسیم اور علاقائی بنیادوں پر وفاداری تک محدود رہتی ہے اور مختلف پارٹیاں انہی بنیادوں پر جوڑ توڑ کر کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس تمام عمل میں بی جے پی کو اقتدار میں ہونے کے باعث فوقیت حاصل رہتی ہے اور وہ چھوٹی پارٹیوں کو مختلف لالچ کے ذریعے اپنے ساتھ ملا کر الیکشن جیت جاتی ہے۔ لیکن یہ تمام عمل عوام میں الیکشن کی اہمیت کو ہی کم کرنے کا باعث بن رہا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں پر اعتماد ختم ہونے کے باعث سرما یہ د ارانہ نظام کی پارلیمانی جمہوریت سے ہی اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی تحریک میں شامل کروڑوں افراد نے سڑکوں پر جدوجہد کے ذریعے ہی اپنا حق حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے کسی بھی پارٹی یا پارلیمانی کاروائی کا انتظار نہیں کیا۔
پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی کی وجہ قطعاً ان کا سیاسی پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی یہ پارٹی کسی بھی طرح عام لوگوں کی نمائندہ ہے۔ اس پارٹی کی قیادت میں بھی زیادہ تر دولت مند افراد ہی ہیں اور وہی اس کے تمام فیصلے کرتے ہیں۔ یہ پارٹی بھی سرمایہ داروں کی دلال ہے اور اس نے کسانوں کی تحریک سمیت ہر عوامی تحریک کی پرزور مخالفت کی ہے۔ دہلی میں اس پارٹی کی حکومت کے خلاف آنگن وادی خواتین محنت کش گزشتہ کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں اور ان پر بد ترین مظالم کیے جا رہے ہیں۔ یہی صورتحال دیگر محنت کشوں کو بھی درپیش ہے۔ پنجاب میں اس پارٹی کی کامیابی کی وجہ دوسری تمام پارٹیوں کا مکمل دیوالیہ پن تھا۔ کانگریس جو برسر اقتدار تھی، کی صوبائی قیادت بد ترین ٹوٹ پھوٹ اور لڑائی کا شکار تھی اور پارٹی تین حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ کسان دشمن اقدامات کرنے کی وجہ سے بی جے پی اور اکالی دل شدید نفرت کا سامنا کر رہی تھیں اور کھل کر اپنے امیدوار بھی سامنے نہیں لا پا رہی تھیں۔ اس کے علاوہ کسان تحریک کی قیادت بھی الیکشن کے عمل سے بد ظن تھی اور اس کا بائیکاٹ کر چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مختلف پارٹیوں کے ووٹ تقسیم ہونے اور کوئی واضح متبادل نہ ہونے کے باعث عام آدمی پارٹی کو کامیابی ملی۔ آنے والے عرصے میں اس کے عوام دشمن اقدامات سے اس کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی اور اس کی حمایت میں بھی کمی متوقع ہے۔
دوسری بہت سی ریاستوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ بنگال میں ممتا بینر جی کی پارٹی ترینمول کانگریس گزشتہ ایک دہائی سے برسر اقتدار ہے اور عوام دشمن کاروائیوں میں مصروف ہے۔ اس کی بنیاد دائیں بازو کی بنگالی قوم پرستی پر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بی جے پی مذہبی بنیادی پرستی اور بنگال کی مذہبی تقسیم کو استعمال کرتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کی نعرے بازی کر رہی ہے اور ریاست میں دوسری بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ ایک دہائی قبل اس ریاست میں بی جے پی کا وجود بھی نہیں تھا۔ یہ درحقیقت کمیونسٹ پارٹیوں کی نظریاتی غداریوں کا نتیجہ ہے جو اب نظریاتی طور پر مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ اس ریاست پر تین دہائیوں سے زائد عرصے تک حکومت کرنے کے بعد اب وہ چوتھے نمبر کی پارٹی بن چکے ہیں اور بائیں جانب سے کوئی بھی واضح پروگرام نہیں دے رہے۔ بہت سے کمیونسٹ بی جے پی کا دم چھلہ بن چکے ہیں اور بہت سے کانگریس سے امیدیں لگائیں بیٹھے ہیں۔ درحقیقت ان کے معاشی پروگرام اور بی جے پی کی پالیسیوں میں کوئی بھی فرق نہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان کو رد کیا ہے۔
اس وقت انڈیا کی تمام تر کمیونسٹ پارٹیاں کھل کر سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کر رہی ہیں اور اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی معاشی بحالی اور ترقی کے پروگرام دے رہی ہیں۔ اس نظام سے باہر کسی متبادل پر ان کا کسی بھی قسم کا یقین نہیں اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح کے انقلاب کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی تمام تر سیاست کا حتمی مقصد ریاستی سطح پر حکومتیں حاصل کرنا یا مخلوط حکومتوں کا حصہ بن کر وزارتیں لینا ہے۔ لوٹ مار، کرپشن اور سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے علاوہ ان کا کوئی بھی مقصد نہیں۔ درحقیقت یہ سٹالنزم کے زوال پذیر نظریات کا ہی حتمی نتیجہ ہے جو انہیں اس مقام تک لے آیا ہے اور وہ مزدور تحریک کو آگے لے جانے کی بجائے اس کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔
کیا انڈیا میں اس وقت فاشزم ہے؟
کمیونسٹ پارٹیوں سمیت تمام لبرل اس وقت انڈیا میں فاشزم کی آمد کا واویلا کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت انڈیا میں فاشزم کا راج ہے اور مودی دراصل ہٹلر کا دوسرا جنم ہے۔ اس حوالے سے آئے دن ہٹلر اور مودی کے موازنے پیش کیے جاتے ہیں اور مختلف انداز میں فاشزم کی موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مودی ایک انتہائی عوام دشمن شخص ہے اور اس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ذاتی حیثیت میں اس کے فاشسٹ مقاصد بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس بنیاد پر مودی کی موجودہ حکومت کوبالکل بھی فاشسٹ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں اس وقت فاشزم موجود ہے۔ بی جے پی کی بنیاد پر موجود RSS (راشٹریہ سمائک سیوک سنگھ) یقیناً ایک فاشسٹ تنظیم ہے اور اس کی نظریاتی بنیادیں مسولینی کے نظریات پر ہی رکھی گئی ہیں لیکن اپنے تمام تر مزدور دشمن زہریلے نظریات کے باوجود وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور انڈیا میں ابھی تک فاشزم کا راج نہیں آ سکا۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ انڈیا کا کروڑوں پر محیط مزدور طبقہ ہے جس کی انقلابی روایات ہیں اور وہ گزشتہ ایک عرصے سے عام ہڑتالوں اور دیگر طریقوں سے نہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلا چکا ہے بلکہ حکمران طبقے کو بہت سے اقدامات سے روک بھی چکا ہے۔ فاشزم کی موجودگی میں مزدور طبقے کو منظم ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی اور ہر طرح کی مزدور تنظیموں اور ان کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ سرمایہ دار طبقہ فاشزم کو مزدور تنظیموں کو توڑنے کے لیے بلڈوزر کی طرح استعمال کرتا ہے۔ انڈیا کے سرمایہ دار طبقے میں کچھ افراد کی یہ خواہش ضرور ہو سکتی ہے اور وہ انڈیا کے مزدور طبقے کی طاقت کو توڑنے کے لیے مختلف حملے بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود انڈیا میں نہ صرف مزدورتنظیمیں بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ وہ انتہائی فعال بھی ہیں اور ملک گیر عام ہڑتالیں بھی منظم کر رہی ہیں جس میں کروڑوں مزدور حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح کمیونسٹ پارٹیاں اور دیگر جماعتیں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور زور و شور سے الیکشنوں میں حصہ بھی لے رہی ہیں۔ یہاں تک کہ کیرالا کی ریاست میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ ایسے میں مودی کے ہٹلر سے تمام موازنے غلط اور مبالغہ آمیز ہیں اوریہ مارکسی بنیادوں پرقطعاًدرست تجزیہ نہیں ہے۔
درحقیقت کمیونسٹ پارٹیاں اور لبرل فاشزم کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے لیے موقع پرستی کے رستے ہموار کرتی ہیں اور انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد یا مخلوط حکومتیں بنانے کے لیے اس بہانے کو استعمال کرتی ہیں۔ انہی غلط تجزیوں کو بنیاد بنا کر بہار سمیت مختلف ریاستوں کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹیوں نے RJD جیسی دائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنایا جبکہ مہاراشٹرا میں کانگریس شیو سینا جیسی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہے۔ یہی موقع پرستی اور مفاد پرستی دیگر ریاستوں اور مرکز میں بھی نظر آتی ہے جہاں ہر قسم کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بغل گیر ہوا جاتا ہے۔
اس عمل کی دوسری انتہا بھی نظر آتی ہے جہاں کسانوں اور مزدوروں کی حقیقی تحریکوں کو رد کر دیا جاتا ہے اور فاشزم کی تکرار کرنے والے یہی افراد ان عوامی تحریکوں کے خلاف سرمایہ دار طبقے اور مودی کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں تاریخی کامیابی حاصل کرنے والی کسان تحریک کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا۔
کسان تحریک کی تاریخی کامیابی
مودی کی زراعت اور کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف ابھرنے والی کسان تحریک مختلف حوالوں سے اہمیت کی حامل تھی اور اس کی کامیابی نے اس خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مودی کے لاگو کردہ قوانین کے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں کو زراعت پر مکمل اجارہ داری حاصل ہوجانی تھی اور زراعت سے وابستہ 70 کروڑافراد کی زندگیاں جہنم بن جانی تھیں۔ پہلے ہی انڈیا میں ہر سال ہزاروں کسان قرضوں کے جال میں پھنسنے کی وجہ سے خود کشیاں کر لیتے ہیں جبکہ لاکھوں کسان اپنی زمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پھر انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان نئے قوانین سے منڈی میں اجناس کی کم ازکم قیمت کے تعین کی پالیسی کا خاتمہ ہو جانا تھا اور آڑھتیوں اور بڑی کمپنیوں نے کسانوں سے فصل اونے پونے داموں خرید کر ذخیرہ اندوزی کرنی تھی اور اسے مہنگے داموں فروخت کرنا تھا۔ اس طرح شہروں میں رہنے والے افراد مہنگائی سے شدید متاثر ہونے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے اقدامات کیے گئے تھے جن سے کسان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہونا تھا جبکہ فروخت کے وقت یہ قیمت وصول کرنا مشکل تھا۔ پہلے ہی کسانوں کی بڑی تعداد ایسے ہی مسائل سے دوچار ہے اور بہت سی فصلیں پیداواری لاگت سے کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ ان قوانین کے بعد اس عمل کو قانونی حیثیت حاصل ہوجانی تھی اور یہ عمل وسعت اختیار کر لینا تھا۔ ان قوانین کے خلاف تحریک میں لاکھوں کسانوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک دہلی شہر کے باہر مختلف جگہوں پر دھرنا دیے رکھا اور مختلف طریقوں سے احتجاج کو جاری رکھا جس کے باعث مودی حکومت یہ قوانین واپس لینے پر مجبور ہوئی اور اپنی شکست تسلیم کی۔
اس تحریک کو توڑنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کیے گئے لیکن کسانوں نے اپنی جڑت اور بلند شعور کے باعث ہر ہتھکنڈے کا مقابلہ کیا۔ پنجاب اور ہریانہ سے اُبھرنے والی اس تحریک کو آغاز میں توڑنے کے لیے علاقائی بنیادوں پر کسانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور ان دو ریاستوں میں موجود پانی کے تنازعے سے لے کر مذہب کے ایشو کو استعمال کیا گیا لیکن کسانوں نے اپنی جڑت کو برقرار رکھا اور مودی کے خلاف دھرنا دینے کا آغاز کیا۔ اسی طرح 26 جنوری (یوم جمہوریہ) کو جب لاکھوں کسانوں نے ٹریکٹر مارچ کے ذریعے دہلی میں موجود پارلیمنٹ کے گھیراؤ کا فیصلہ کیا اور لاکھوں ٹریکٹر دہلی کی سرحد پر جمع ہوگئے تو ہندو اور سکھ مذہب کے درمیان فسادکا کارڈ کھیلا گیا اور اپنے کارندے کسانوں کے درمیان شامل کروا کر لال قلعے پر سکھوں کا جھنڈا لہرا دیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ سکھوں کی تحریک ہے اور ان کا اصل مقصد اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔ کسانوں کی قیادت نے اس حملے کا بھی مقابلہ کیا اور شر پسند عناصر کو اپنی صفوں سے نکال دیا اور واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کا حتمی مقصد ان قوانین کی واپسی کا ہی ہے۔ اس دوران مودی سرکار نے پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے ذریعے جبر اور تشدد کا بھی استعمال کیاجس سے سینکڑوں کسان زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد یہ تحریک اتر پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گئی اور مزید لاکھوں کسان اس تحریک میں شامل ہو گئے اور دہلی شہر کی مشرقی سرحدوں کو بھی دھرنوں کے ذریعے بند کر دیا گیا۔ اس دوران بی جے پی حکومت کے وزیروں کی بدمعاشی اور جبر بھی بڑھتا گیا جس میں ایک واقعے کے نتیجے میں اتر پردیش کے علاقے لکھم پور کھیڑی میں چار کسانوں کوگاڑی تلے روند کر قتل کر دیا گیا جس کے بعد ہنگاموں کا آغاز ہو گیا۔ اس کے باوجود تحریک جاری رہی اور اس نے سردی اور گرمی کے سخت موسموں کے ساتھ ساتھ کرونا وبا کا بھی مقابلہ کیا اور آخر کار فتح سے ہمکنار ہوئی۔
اس تحریک میں سماج کی بہت سی پسماندہ پرتیں بھی شامل ہوئیں اور دورافتادہ علاقوں کے کسان بھی متحرک ہو کر جلسے جلوسوں اور دھرنوں کا حصہ بنے۔ لاکھوں خواتین بھی اس میں شامل رہیں اور مختلف جگہوں پر انتہائی جرات اور دلیری سے تمام تر مشکل حالات کا مقابلہ کیا۔ درحقیقت اس تحریک نے انڈیا کے سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی کی جس میں دیہاتی علاقوں سے ایسی سماجی پرتیں جو ماضی میں دائیں بازو کا ایندھن ہوا کرتی تھیں وہ مودی حکومت کے خلاف متحرک ہوتی نظر آئیں۔ اس تحریک کا زیادہ تر مرکز شمالی ہندوستان تھا جس میں اتر پردیش، پنجاب اور ہریانہ سب سے آگے تھے۔ یہ علاقے انڈیا کی سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیاد میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور فوج سے لے کر دیگر ریاستی اداروں میں اہم فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن اس تحریک میں ہمیں ان سماجی پرتوں کا غم و غصہ اور حالات کے خلاف ایک احتجاج واضح طور پر نظر آیا جو اہم سماجی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ اتر پردیش کی بھارتیہ کسان یونین کا ایک دھڑا ماضی میں بی جے پی کے ساتھ جڑ گیا تھا لیکن اس تحریک میں وہ واپس حکومت مخالف صف میں شامل ہوتا نظر آیا۔ اسی طرح مودی سرکار نے ہندو مسلم فساد کے ذریعے اس تحریک کو توڑنے کی متعدد کوششیں کیں جس کے لیے اتر پردیش میں بہت سا خام مال اور مواد آسانی سے دستیاب ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس تحریک کو نہیں توڑ سکے۔ کسان سماج کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انقلاب کی قیادت مزدور طبقہ ہی کرتا ہے جس کی وجہ اس کا ذرائع پیداوار کے ساتھ منظم تعلق ہوتا ہے۔ مزدور طبقے کا مخصوص طبقاتی کردار ہی اسے ایک سوشلسٹ انقلاب کے لیے قائدانہ صلاحیت عطا کرتا ہے اور اس کے بلند طبقاتی شعور کی بنیاد بنتا ہے۔ لیکن اس تحریک میں مخصوص وجوہا ت کی بنا پر ہمیں کسانوں کی جانب سے بلند سیاسی شعور کا اظہار نظر آیا جسے جدلیاتی مادیت کے فلسفے سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ کسانوں نے ایک روزہ یا دو روزہ جدوجہد کی بجائے غیر معینہ مدت کی جدوجہد کے ذریعے کامیابی حاصل کر کے مزدور طبقے کے لیے بھی مثال قائم کی ہے اور واضح کیا ہے کہ عام ہڑتال کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے اسے غیر معینہ مدت تک بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ مودی کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف جدوجہدکو کامیابی دلائی جا سکے۔ اسی طرح دائیں سے لے کر بائیں بازو تک کی تمام سیاسی پارٹیوں پر مکمل عدم اعتماد بھی کسانوں کے بلند سیاسی شعور کی عکاسی کرتا ہے اور انہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں کو رد کرتے ہوئے اپنی اجتماعی قیادت خود تراشی اور سمیکوت کسان مورچے SKM کے ذریعے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ مودی سرکارکی جانب سے مذاکرات اورقانون میں ترامیم کی مختلف تجاویز کو بھی سختی سے رد کیا اور فیصلہ کن انداز میں ان قوانین کے واپس لیے جانے کے مطالبے پر ہی ڈٹے رہے۔ اس حوالے سے وقتی طور پر مایوسیوں اور تنقید کا بھی سامنا کیا لیکن حتمی طور پر کامیابی حاصل کی جو آئندہ اُبھرنے والی تحریکوں کے لیے اسباق سے بھری ہوئی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور دیگر اداروں کے حملوں کا بھی جواب دیا جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
کمیونسٹ پارٹیاں اپنے زوال پذیر نظریات اور مفادات کے باعث اس تحریک کی مخالفت کر رہی تھیں۔ ان کے مطابق مودی کے یہ قوانین سرمایہ داری کے لیے انتہائی فائدہ مند تھے اور کسان اپنی رجعتیت اور پسماندگی کے باعث ان کے رستے میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ ان کے مطابق یہ امیر کسانوں کی تحریک تھی اور یہ سماج کو سرمایہ دارانہ جدیدیت سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے اور پورے ملک کو پسماندگی اور رجعتیت میں دھکیل رہے تھے۔ لیکن واضح طور پر اس تحریک میں لاکھوں چھوٹے کسان اور عام دیہی آبادی بھی شامل تھی اور کسانوں نے ٹریڈ یونین کے ساتھ یکجہتی کی متعدد اپیلیں کیں اور مودی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑائی لڑنے کی دعوت دی۔ لیکن کمیونسٹ پارٹیوں اور دیگر کے زیر اثر یہ ٹریڈ یونین قیادتیں اس تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کر سکیں اور مودی کی حکومت گرانے کا ایک نادر موقع ضائع کر دیا گیا۔ اگر کسانوں کے ساتھ ٹریڈ یونینیں بھی اپنے مطالبات کے ساتھ تحریک کے ساتھ شامل ہو جاتیں اور غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کا اعلان کر دیا جاتا تو نہ صرف مودی کی حکومت کو گرایا جا سکتا تھا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کا بھی آغاز ہو سکتا تھا۔ لیکن کمیونسٹ پارٹیوں کی نظریاتی غداریوں کے باعث یہ موقع ضائع ہوگیا۔
اس سب کے باوجود کسان تحریک نے واضح کر دیا ہے کہ مودی حکومت ناقابل شکست نہیں اور درست قیادت، جرات اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے شکست دی جا سکتی ہے۔ یہی کامیابی آنے والے عرصے میں بہت سی نئی تحریکوں کو ابھارے گی اور مودی کے خلاف عوام کا غم وغصہ پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے اُبھرے گا۔ دہلی میں 22 ہزار آنگن وادی مزدور خواتین کی جدوجہد بھی غیر معینہ مدت کی ہڑتال کے ذریعے تین ماہ میں کامیابیاں حاصل کر چکی ہے اور آنے والے عرصے میں مزید ایسی تحریکیں ابھریں گی جو مروجہ ٹریڈ یونین قیادت اور سیاسی پارٹیوں کی حاکمیت کو بھی رد کریں گی۔
حکمرانوں کے ہتھکنڈے
حکمران طبقہ بھی معاشی بحران اور سماجی تبدیلیوں کو محسوس کر رہا ہے اور انہیں بھی بہت بڑی عوامی تحریک کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی لیے مودی سرکار کی جانب سے مذہبی فسادات کو جان بوجھ کر سماج پر مسلط کیا جا رہا ہے اور اس میں عدالتوں سے لے کر اپوزیشن پارٹیوں تک تمام قوتیں مودی کا ساتھ دے رہی ہیں۔ کرناٹکا ہائی کورٹ کی جانب سے لگائے جانے والے حجاب بین سے لے کر نوراتری کے تہوار کے موقع پر ہونے والے ہندو مسلم فسادات تک تمام تر رجعتیت اوپر سے مسلط کی جارہی ہے اور سماج کو مذہبی بنیادوں پر لڑائی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں لڑائی کروانے کی کوششیں بھی بدستور جاری ہیں اور ان دو ریاستوں کے مشترکہ دارلحکومت چندی گڑھ کومتنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں کی لڑائیوں کو فسادات میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مظلوم قومیتوں پر مودی کا جبر بھی بدستور جاری ہے اور کشمیر پر تاریخ کے بد ترین مظالم کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جہاں کشمیر کی خود مختاری کو جبری طور پر ختم کیا گیا اور وہاں موجود ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جبری طور پر جیلوں میں ڈالا گیا اور ہر طرح کی سیاسی سرگرمی پرپابندی لگاتے ہوئے پوری ریاست میں بدترین کرفیو لگایا گیا وہاں اب اس ریاست کی ڈیمو گرافی کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے اور دوسری جگہوں سے آبادکاروں کی آمد کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح آسام اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں میں بھی قومی جبر بڑھایا جا رہا ہے اور وہاں کے وسائل کو سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے لیے کھولا جا رہا ہے۔ اس سے ایک طرف ماحولیاتی تبدیلی بدتر ہو رہی ہے اور دوسرا ان علاقوں کے مقامی افراد بدترین معاشی اور سماجی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مودی سرکار کے مختلف وزیر ہندی زبان کو پورے ملک میں مسلط کرنے کے بیانات دے رہے ہیں جس سے دیگر زبانیں بولنے والے افراد میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ درحقیقت مودی سرکار محنت کش طبقے کی طبقاتی جڑت کو توڑنے کے لیے مذہب، قوم، زبان سمیت ہر تعصب کو استعمال کر رہی ہے اور سماج پر رجعتیت مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود مزدور طبقہ ان تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور ملک گیر سطح پر انتہائی شاندار طبقاتی جڑت اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں مودی سرکار کی مذہبی تقسیم کے نعروں کا جواب مذہبی یگانگت اور سیکولر ازم جیسے کھوکھلے نعروں سے دیتی ہیں اور اسی سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر رہتے ہوئے ہر ایک کے لیے مذہبی اور قومی آزادی حاصل کرنے کی خواہشمند ہیں۔ درحقیقت یہ ریاست بظاہر سیکولر ہے لیکن اس کی بنیاد میں برطانوی سامراج اور یہاں کے مقامی حکمران طبقے نے مذہبی تعصبات اور نفرت انڈیل دی تھی جس میں بٹوارے کے وقت لاکھوں انسانوں کا خون شامل ہوا تھا۔ اسی وقت سے یہ ریاست مذہبی تقسیم کو اپنی حکمرانی جاری رکھنے کے لیے استعمال کرتی آئی ہے۔ کانگریس کے دور میں بھی ہزاروں افراد مذہبی فسادات میں مارے گئے اور بی جے پی کے موجودہ اقتدار کا راستہ کانگریس کی پالیسیوں نے ہی ہموار کیا ہے۔ مذہبی بنیادوں پرلوگوں کو یکجا کرنے کا نعرہ ہی دراصل غلط ہے اور مذہبی تقسیم کا باعث بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں طبقاتی جڑت اور سماج کی طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کا نعرہ بلند کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت کوئی بھی اپوزیشن پارٹی نہیں کر رہی۔ لیکن محنت کش طبقہ عملی طور پر حکمران طبقے کے اس زہر کا مقابلہ کر رہا ہے اور اپنی جدوجہد کے رستے پر گامزن ہے جس میں آنے والے عرصے میں بڑی لڑائیاں نظر آئیں گی۔ انقلابی اور رد انقلابی قوتوں کی یہی کشمکش آنے والے عرصے کی سیاست کا بھی تعین کرے گی اور پرانی سیاسی قوتوں کو رد کرتے ہوئے نئی سیاسی تحریکیں اور پارٹیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔
بیرونی تضادات
خارجہ پالیسی بھی درحقیقت داخلی تضادات اور سیاست کا ہی تسلسل ہوتی ہے اور انڈیا میں بھی یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 2019ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے لیے مودی نے پاکستان دشمنی کا کارڈ استعمال کیا اور سرجیکل سٹرائیک کے ذریعے اپنی کامیابی کا رستہ ہموار کیا۔ اسی طرح چین سے دشمنی کا بھی واویلا کیا جا رہا ہے اور چین کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر اس کو منہ توڑ جواب دینے کے بیانات بھی آئے روز نظر آتے ہیں۔ درحقیقت سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے عرصے میں انڈیا تیزی سے امریکی سامراج کے دائرہ اثر کی جانب بڑھتا گیا ہے اور مودی کی حکومت کے دوران اس عمل میں کافی تیزی آئی ہے اور انڈیا امریکہ کے بہت قریب ہوا ہے۔ خاص طور پر ٹرمپ اور مودی کی دوستی اس عمل کو نئی انتہاؤں پر لے گئی اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے۔ اس دوران امریکہ اور چین کی دشمنی بھی کھل کر نظر آئی اور ٹرمپ نے چین پر کھل کر تجارتی پابندیاں لگا کر تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس عمل میں انڈیا اور امریکہ نے مل کر بحر الکاہل اور بحر ہند میں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ کوششوں کا آغاز کردیا اور امریکہ کے حواریوں جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر Quad کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا جس کے بہت سے اجلاس ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ اب پوری دنیا میں اس کا سب سے بڑا دشمن چین ہے اور وہ بحرالکاہل اور بحر ہند میں اس کی اجارہ داری کسی بھی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ اس دوران امریکہ اور انڈیا کے بہت سے دفاعی معاہدے بھی ہوئے اور دونوں ممالک حساس معلومات کا تبادلہ بھی ایک دوسرے سے کرنے لگے۔ اس دوران انڈیا کی معیشت کا حجم بھی تیزی سے بڑھ رہا تھا اور وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی تھی جس پر امریکی سرمایہ داروں کی لالچی نظریں بھی لگی تھیں اور وہ ایک تجارتی معاہدہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن دوسری جانب انڈیا کا سرمایہ دار طبقہ بھی زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنا چاہتا تھا جس کے باعث یہ تجارتی معاہدہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ لیکن چین کو خطے میں روکنے کے لیے سٹریٹیجک تعاون تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔
اس دوران انڈیا اور چین کی باہمی تجارت نہ صرف جاری رہی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور اب وہ 100 ارب ڈالر سالانہ کے حجم سے بڑھ چکی ہے۔ یعنی ایک جانب انڈیا اور چین کے خطے میں سٹریٹیجک اختلافات ہیں اور دونوں خطے میں سامراجی مفادات کے تحت زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہیں دوسری طرف یہ دونوں سرمایہ دارانہ ممالک ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون پر بھی مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لداخ میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں شدید تنازعے اور غم و غصے کے باعث ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکیں اور باقاعدہ جنگ کی صورتحال اختیار نہیں کر سکیں۔ یہ تنازعہ ابھی بھی موجود ہے اور دیگر بہت سے سرحدی علاقوں میں بھی مختلف تنازعات موجود ہیں لیکن دونوں ممالک ابھی تک اس تنازعے کو بھڑکنے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، لیکن ساتھ ہی اپنی سٹریٹیجک برتری بھی کھونا نہیں چاہتے۔
اس دوران امریکی سامراج کی کمزوری بھی دنیا پر عیاں ہوگئی ہے اور اس کی سامراجی طاقت میں مزید کمزوری آئی ہے جس کی وجہ سے انڈیا نے بھی اس کے ساتھ تعلقات کو اسی کے مطابق تبدیل کیا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا انڈیا کو بہت بڑا دھچکا لگا تھا اور جنوبی ایشیا میں اس کے سامراجی مفادات کو ٹھیس پہنچی تھی جبکہ افغانستان میں اس کی سرمایہ کاری بھی غیر محفوظ ہوگئی تھی۔ اس وقت انتہائی دائیں بازو کے حلقوں نے بھی مودی کی امریکہ کے ساتھ دوستی کی پینگوں پر سخت تنقید کی تھی۔ اس کے بعد روس اور یوکرائن کی جنگ نے بھی امریکی سامراج اور اس کے یورپی اتحادیوں کی کمزوری کو عیاں کر دیا تھا اور وہ اپنے اتحادی یوکرائن کو روس سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ اس موقع پر انڈیا نے روس کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو امریکہ کے ساتھ دوستی پر ترجیح دی اور اس جنگ میں یوکرائین کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ روس سے سستا تیل خریدنے اور تجارتی تعلقات بحال رکھنے کا اعلان کیا۔ اس دوران امریکہ کے ساتھ بنایا گیا Quad بھی غیر فعال ہو گیا اور مختلف طریقوں سے امریکہ نے اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔ لیکن انڈیا کی منڈی کو کوئی بھی سامراجی طاقت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور تمام تر ناراضگی کے باوجود اس کو اپنی جانب کھینچنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا حالیہ انڈیا کا دورہ اور مودی کی یورپ یاترا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دوسری جانب انڈیا چین کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کرے گا اور اپنے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہی خارجہ پالیسی کو ترتیب دے گا۔ اس دوران وہ جہاں نسبتاً آزادانہ پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کرے گا وہاں عالمی مالیاتی بحران اور دیگرسیاسی اور عسکری واقعات اسے کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری جانب دھکیلیں گے۔ یہی تمام صورتحال سماج میں موجود تضادات کو مزید گہرا کریں گے اور کوئی بھی ایک واقعہ بڑی ریاستی سطح پر بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ سری لنکا سمیت خطے کے کسی بھی دوسرے ملک میں ہونے والے واقعات بھی صورتحال پر اثر انداز ہوں گے اور عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے چھوٹی جنگوں یا محدود عسکری کاروائیوں کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایسا کوئی بھی اقدام خطے میں موجود حکمران طبقات کے باہمی تضادات اور سماج کی طبقاتی تقسیم کے تضاد کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھانے کا باعث بنیں گے۔ اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام میں استحکام، ترقی اور خوشحالی کا کوئی امکان نہیں اور ہر جانب عدم استحکام، بھوک، بربادی اور خونریزی کے امکانات ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے اس خطے میں رہنے والے پونے دو ارب افراد کو ظلم اور بربریت سے نجات دلائی جا سکتی ہے اور جنگوں، اسلحے کی دوڑ اور حکمرانوں کی لوٹ مار سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی اس پورے خطے میں امن کی ضامن ہے اور عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب پہلا قدم بن سکتی ہے۔