|تحریر: آدم پال|
ہندوستان میں عام انتخابات کا سلسلہ جاری ہے جس میں 90کروڑ ووٹرز کو رائے دہی کا حق موجود ہے۔ ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے پر محیط اس سلسلے کے نتائج کا اعلان 23مئی کو کیا جائے گا۔ نریندر مودی کی گزشتہ پانچ سالوں سے جاری بد ترین مزدور دشمن حکومت جاری رہتی ہے یا اختتام پذیر ہوتی ہے اس کا فیصلہ انتخابات کے نتائج سے ہی ہوگا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ مودی کی بی جے پی سمیت تمام پارٹیاں شدید بحران کا شکار ہیں اور عوام کو مسائل کا کوئی بھی واضح حل دینے سے قاصر ہیں۔ مودی کے گزشتہ پانچ سالہ دور سے قبل کانگریس کا دس سالہ مسلسل اقتدار کا دور بھی عوام کو غربت اور ذلت سے نہیں نکال سکا بلکہ ہر آنے والا دن کروڑوں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کرتا رہا۔ ایسے ہی آنے والے عرصے میں بھی مودی اور اس کے مخالفین سمیت تمام سیاسی قوتوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے سوائے جھوٹی تسلیوں کے کچھ بھی نہیں۔
ہندوستان کا شمار اس وقت دنیا کی بڑی معیشتوں میں کیا جا رہا ہے اور یہ امکان موجود ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ ملک برطانیہ کی معیشت کو پیچھے دھکیل کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ یہاں موجود ارب پتیوں کے منافعوں میں گزشتہ عرصے میں تیز ترین اضافہ ہوا ہے اور ان کی دولت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ صرف مودی کے پانچ سالہ اقتدار میں امبانی اور اڈانی کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور سرکاری سطح پر انہیں بہت بڑے ٹھیکے دلوائے گئے ہیں جن میں ہندوستان کو ملنے والے فرانسیسی جنگی جہاز رافیل کی مینوفیکچرنگ کا ٹھیکہ بھی شامل ہے۔ ان تمام بد عنوانیوں کے الزامات کامودی کو انتخابات میں اپوزیشن کی جانب سے سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح بینکوں اور مالیاتی اداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مودی کی جانب سے نوٹ بندی جیسا عوام دشمن اقدام بھی کیا گیاجس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد گرمی میں لائنوں میں کھڑا رہنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ ملکی معیشت میں موجودہ 86فیصد نوٹوں کو اچانک بند کر دیا گیا اور ہر شخص کو بینک اکاؤنٹ کھلوانے پر مجبور کیا گیا۔ اس کا مقصد بینکوں میں موجودہ نقد زر کے حجم میں اضافہ تھا۔ اس کے علاوہ جی ایس ٹی کے نام پر ٹیکسوں کے ایک نئے نظام کا نفاذ کیا گیا جس سے چھوٹے کاروباروں کو شدید نقصان پہنچا لیکن بڑے سرمایہ داروں کے منافعوں میں وسیع اضافہ ہوا۔ان تمام اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہندوستان کی معیشت کو بہترین اندازمیں چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ یہ جمہوریت کا تسلسل بھی موجود ہے جس میں زیادہ رخنہ اندازی بھی نہیں کی گئی۔
مودی کے پانچ سالہ دور میں سرمایہ داروں کے منافعوں کو تقویت دینے کے لیے بڑے پیمانے پر مزدور دشمن اقدامات بھی کیے گئے جن میں مزدور یونینوں پر بہت بڑے حملے کیے گئے۔ سرمایہ داروں کے لیے کام کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے روزانہ کی پابندی کو قانونی طور پر ختم کر دیا گیا اور مستقل ملازمت کی فراہمی جیسے کلیدی نکتوں کو بھی قانون سے ختم کرا دیا گیا۔ گو کہ ہندوستان کے محنت کشوں کی ایک وسیع اکثریت انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہے جس میں کئی کئی ماہ اجرت ادا ہی نہیں کی جاتی اور مستقل ملازمت ایک خواب بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود قانون سازی کے ذریعے بھی اس شدید ترین استحصال کو سرکاری حیثیت دے دی گئی۔ اس کے علاوہ یونین سازی میں بھی نئی مشکلات کھڑی کی گئیں جبکہ کم از کم اجرت میں بھی افراط زر کے تناسب سے اضافہ نہیں کیا گیا۔ ان تمام حملوں کیخلاف ملک بھی میں کروڑوں محنت کشوں نے بہت طاقتور ہڑتالیں کیں اور مزاحمت ابھی بھی موجود ہے لیکن ہندوستان کی ریاست انتہائی ڈھٹائی سے ان مزدور دشمن اقدامات کا دفاع کر رہی ہے اور سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے کروڑوں محنت کشوں کی بلی چڑھائی جا رہی ہے۔
لیکن اس سارے عمل میں ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہندوستان کے محنت کشوں کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے اور اس نظام کے تحت کسی بھی طرح سے کوئی بہتری ممکن نہیں۔ ہندوستان میں اس سے قبل ریاستی سرمایہ داری کا تجربہ وسیع پیمانے پر کیا جا چکا ہے جس میں مقامی سرمایہ داروں کو عالمی سرمایہ داروں سے ریاستی سطح پر تحفظ فراہم کیا گیا تھا اور انہیں ملکی منڈی میں اپنی اشیا بغیر کسی مقابلے کے فروخت کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ سرکاری سرپرستی میں انہیں بڑے پیمانے پر مراعات دی گئی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ کامیابی کے ساتھ جاری نہ رہ سکا اور نوے کی دہائی میں ہندوستان اپنی منڈی عالمی سرمایہ داروں کے لیے کھولنے پر مجبور ہوا۔ اس کے بعد سے نیو لبرلزم کے حملے مسلسل جاری ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔
نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور لبرلائزیشن کے نام پر ہندوستان کے عوام کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو دن رات اپنی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ من موہن سنگھ کے بطور وزیر اعظم دس سالہ دور میں اس تمام تر عمل میں تیزی آئی اور بڑے پیمانے پر مزدور دشمن اقدامات کیے گئے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کے اتحاد نے بھی 2005ء کے انتخابات میں تاریخی کامیابی کے بعد کانگریس کی مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی اور ان نیو لبرل پالیسیوں کو نافذ کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان انتخابات میں بائیں بازوکے اتحاد کو لوک سبھا میں 60نشستیں حاصل ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ عوام کے اس اعتماد کو قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور مزدور دشمن اقدامات کا ساتھ دینے پر انہیں اگلے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ صرف مرکز میں بلکہ مغربی بنگال کی ریاست میں بائیں بازو کی حکومت کے 34سالہ اقتدار کا خاتمہ بھی انہی نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کے باعث ہوا جس میں سرمایہ داروں کو کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دی گئی اور مزاحمت کرنے والوں پر گولیاں چلا کر انہیں ہلاک بھی کیا گیا۔
مودی کے پانچ سالہ دور میں ان پالیسیوں کے نفاذ میں شدت آئی ہے اور ہندوستان کی سرمایہ دارانہ ریاست نے سیکولر ازم کا نقاب بھی اتار پھینکا ہے اور اپنے استحصال کو جاری رکھنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی کا گھناؤنا ہتھیار بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پورے ملک میں بنیادی جمہوری حقوق کو غصب کیا جا رہا ہے اور میڈیا کی آزادی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے کچھ معروف صحافیوں کو قتل بھی کر دیا گیا ہے جبکہ اقلیتوں اور نچلی ذات کے افراد پر حملوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں 40لاکھ کے قریب اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے اور ان سے شہریت اور ووٹ کا بنیادی حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ مظلوم قومیتوں پر جبر میں اضافہ ہوا ہے اور اس جبر میں اضافے کے لیے قانون سازی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے فوجی جبر سے لے کر دہشت گردی تک ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے اور بیرونی دشمن کا خوف ابھار کر داخلی سطح پر جبر میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں رہنے والے بہت سے دانشوروں، سیاستدانوں اور صحافیوں وغیرہ کا خیال ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار اس ریاست کے تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا شروع کر دیں تو ملک میں موجود تمام مسائل کو نہ صرف حل کیا جا سکتا ہے بلکہ تیزی ترین ترقی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے ہندوستان کی مثال اہمیت کی حامل ہے جہاں عوام کی بڑی تعداد غربت اور ذلت کی گہرائیوں میں گرتی جا رہی ہے اور وہاں پر مسائل حل ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ تیز ترین گروتھ ریٹ نے یہاں کے سرمایہ داروں کے منافعوں میں تو ہوشربا اضافہ کیا ہے اور ان کی دولت کئی گنا بڑھ گئی ہے لیکن کروڑوں محنت کش عوام کی زندگیوں میں زہر بھرتا جا رہا ہے اور وہ موت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہندوستان کی معیشت کا سات فیصد کاگروتھ ریٹ دنیامیں سب سے زیادہ ہے حتیٰ کہ چین کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حاصل ہونے والی یہ ترقی عوام کو غربت اور جہالت سے نہیں نکال سکی بلکہ وہاں بیروزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے، کسانوں کی خود کشیاں بڑھی ہیں، کم از کم اجرت میں کمی ہوئی ہے اور کام کے اوقات کار میں عمومی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات میں بھی بہتری آنے کی بجائے زوال آیا ہے۔ اس حوالے سے واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی عوام کو خوشحالی نہیں دے سکتی۔
اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر جمہوریت کو بھی تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ خاص کر پاکستان جیسے معاشروں میں دانشوروں کی جانب سے یہ پراپیگنڈہ پھیلایا جاتا ہے کہ اگر یہاں جمہوری اداروں کو پنپنے کا موقع ملے تو تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بھی عوام کے حقیقی نمائندوں کے بجائے سرمایہ داروں کے گماشتے ہی اقتدار میں آتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو۔ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی ایک ٹیلی فون کال لیک ہوئی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ ”کانگریس تو اپنی دکان ہے“۔ اسی طرح تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی سرمایہ دار کی دکان ہیں جہاں سے وہ اپنی مرضی کا سودا خرید لیتے ہیں۔ لینن نے ایک صدی قبل ہی واضح کر دیا تھا کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ایک ناٹک اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس میں حکومت کا مقصد صرف سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کے تمام اہم فیصلے منتخب سیاستدان ہی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں محنت کش طبقے کے حقوق کا دفاع کرنے کی بجائے تمام حکومتیں سرمایہ داروں کے مفادات کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام میں سیاست حکمران طبقے کی لونڈی کا ہی کردار ادا کرتی ہے۔
اسی طرح عدلیہ، الیکشن کمیشن، میڈیااور دیگر اداروں کا کردار بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست میں ان اداروں کی آزاد حیثیت پر زور دیا جاتا ہے خاص طور پر پاکستان میں یہ پراپیگنڈہ عام نظر آتا ہے کہ ان اداروں پر اگر جبر ختم کر دیا جائے اور آئین اور قانون کے مطابق فیصلے ہونا شروع ہو جائیں تو تمام مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ان اداروں کے آزادانہ کردار میں بھی حکمران طبقے کے مفادات کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے جس میں یہ ادارے محنت کشوں کے لیے کام کرنے کی بجائے سرمایہ داروں کے لیے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مظلوم قومیتوں پر جبر بھی جاری ہے اور خاص کر کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ریاست کے تمام ادارے یکجا ہو کر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ آئین اور قانون کی پاسداری کرنے والے بھی اس جبر میں براہ راست شریک ہیں لیکن اس کے باوجود وہ تحریک تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ دیگر مظلوم قومیتوں کے ساتھ بھی یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے جہاں یہ نام نہاد آزادادارے اپنا نقاب اتار کر اپنا گھناؤنا چہرہ عیاں کر دیتے ہیں۔
اسی طرح ہندوستان میں نچلی ذاتوں اور اقلیتوں پر بڑے پیمانے پر جبر موجود ہے اور تمام قوانین، کوٹہ سسٹم اور نام نہاد سیکولر ازم کے باوجود اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ کوٹہ سسٹم کے ذریعے نچلی ذاتوں کی محرومی ختم ہونے کی بجائے بڑھی ہے اور اس ایشو پر سیاست کرنے والی پارٹیوں نے بھی لوٹ مار کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ آج سات دہائیوں کے بعد واضح ہو چکا ہے کہ کوٹہ سسٹم اور دیگر ایسے ہی اقدامات کے ذریعے نچلی ذاتوں پر جبر کو ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف اس جبر کو قائم رکھتا ہے بلکہ اس میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست درحقیقت اس تضاد کو مذہبی تضادات کی طر ح عوام کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور محنت کش طبقے کی جڑت کو توڑنے کے لیے ان تضادات کو وقتاً فوقتاً جان بوجھ کر بھڑکایا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔
سرمایہ دارانہ ریاست کی حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی آئین اور قانون کے ذریعے ان تضادات کو حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان تضادات کو اب زیادہ شدت سے بھڑکایا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ استحصال میں شدت آتی جا رہی ہے اور حکمران طبقے کا جبر بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے مذہب اور ذات پات کے نام پر دنگے اور فساد بڑھتے جا رہے ہیں۔ مودی کے پانچ سالہ دور میں جہاں سرمایہ داروں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دی گئی اورتمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں مزدور دشمن کاروائیوں کی اجازت دی گئی وہاں طبقاتی لڑائی کا رخ موڑنے کے لیے مذہبی فسادات، ذات پات کے نام پر قتل و غارت اور بیرونی دشمن اور جنگ کے حربوں کو بھی پورے زور و شور سے استعمال کیا گیا۔ بیرونی دشمن کا خوف ابھار کر عوامی تحریکوں کو کچلنے کا حکمران طبقے کا ایک پرانا طریقہ کار ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ طریقہ کار بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا اور انتخابات سے قبل پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر بمباری بھی کی گئی جو کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ لیکن ان تمام حربوں سے وقتی طور پر تو طبقاتی کشمکش کو پسپا کیا جا سکتا ہے لیکن عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا اس لیے وہ مسلسل ابھرتے رہیں گے اور حکمران طبقے کے مسلط کردہ تعصبات کو چیرتے ہوئے طبقاتی لڑائی کو سطح پر لے کر آئیں گے۔ آج واضح ہو چکا ہے ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ان مسائل کا کوئی بھی حل موجود نہیں اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ان تمام تر تضادات کو حقیقی طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داروں کی تمام تر دولت ضبط کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کا قیام ہی یہاں عوام کو حقیقی خوشی اور ترقی دے سکتا ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ آ ج ہندوستان کی رائج الوقت سیاست میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اس ایجنڈے پر کاربند نہیں اور سب اسی نظام کے تحت اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان پارٹیوں کو کئی دفعہ رد کر چکے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس کو اپنی طویل تاریخ کی بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ ابھی تک اس شکست سے پوری طرح باہر نہیں نکل سکی۔ ان انتخابات میں پریانکا گاندھی کو اندرا گاندھی کو دوسرا جنم بنا کر پیش کرنے کی حکمت عملی بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ بہت سے حوالوں سے راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا مؤقف مودی سے زیادہ رجعتی اور عوام دشمن ہے اور اسے ابھی تک زیادہ بڑی پذیرائی ملتی دکھائی نہیں دی۔ اسی طرح اتر پردیش کی دو کٹر دشمن پارٹیاں اب ساتھ مل چکی ہیں جو ان کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بھوجن سماج پارٹی کئی دفعہ اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں لیکن نچلی ذات کے افراد کو غربت اور ذلت کے چنگل سے نجات نہیں دلا سکیں۔ بہار میں نتیش کمار اور لالو پرشاد یادیو کی پارٹیوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ مغربی بنگال میں کمیونسٹوں اور اب برسر اقتدار ممتا بینرجی کی پارٹی ترینمول کانگریس کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ تامل ناڈو میں ریاست کے اقتدار پرمسلسل قابض دونوں پارٹیاں بھی شدید بحران اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی بھی نعرے بازی اور کھوکھلے ناٹکوں کے سوا کچھ نہیں کر سکی۔ دیگر ریاستوں میں بھی ملتی جلتی صورتحال ہے۔ ایسے میں کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی جانب سے سماج کی مکمل تبدیلی اور سرمایہ دار طبقے کو اکھاڑ پھینکنے کا واضح پروگرام نہیں دیا گیا جو اس وقت کی شدید ضرورت ہے۔ گزشتہ عرصے میں پورے ملک میں کسانوں کے بہت بڑے بڑے لانگ مارچ ہوئے ہیں، طلبہ تحریکیں ابھری ہیں اور ملک گیر عام ہڑتالیں ہوئی ہیں لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی ان تحریکوں کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہی اور گھسے پٹے نعروں اور مہروں کے ساتھ میدان میں اتری ہیں۔ سب سے بڑا سوالیہ نشان کمیونسٹ پارٹیوں پر ہے جو عوام کو متبادل فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کو ہی اپنا دیوتا تسلیم کر چکی ہیں۔ اسی نظرئیے کو اپنانے کے باعث وہ غلیظ ترین کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ اسی باعث بنگال کے بعد تری پورہ کی چھوٹی سی ریاست میں بھی ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔بائیں بازو کے نام پرمسلح جدوجہد کے غلط طریقہ کار نے بھی مزدور تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ریاست کو جبر کے مزید مواقع فراہم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مضبوط پرولتاریہ میں بنیادیں بنانے کی بجائے سماج کے پسماندہ حصوں کا رخ کیا ہے۔ یہ قوتیں انتہائی پسماندگی کی کھائی میں گرنے کے ساتھ ساتھ متعدد دفعہ موقع پرستی کا شکار بھی ہوئی ہیں۔ اس تمام تر غلط طریقہ کار کی بنیاد مرحلہ واریت کا غلط سٹالنسٹ نظریہ ہے جو پوری دنیا میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کا واحد رستہ ٹراٹسکی کا نظریہئ مسلسل انقلاب ہے۔
اسی صورتحال کے باعث یہ امکانات موجود ہیں کہ مودی ایک نسبتاً کمزور مخلوط حکومت میں دوبارہ بر سر اقتدار آجائے۔ اپنے دوسرے اقتدار میں وہ محنت کشوں پر زیادہ بد ترین حملے کرے گا اور سرمایہ دار طبقے کی دلالی میں کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ کسی دوسری پارٹی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں بھی حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ گوکہ کمزور حکومت کے لیے سرمایہ داروں کی کھلی دلالی کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ایسے میں مذہبی بنیاد پرستی، جنگی جنون، اقلیتوں اور مظلوم قومیتوں پر جبر میں اضافہ ہوگا۔ لیکن اس کے خلاف مزاحمت اور تحریکوں میں بھی اضافہ ہوگا اور عوام اپنے حقوق کو چھیننے کے لیے بار بار باہر نکلیں گے۔ آنے والا عرصہ پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی طبقاتی کشمکش میں شدت کا عرصہ ہوگا جس میں عوام دشمن قوتوں کیخلاف بڑے پیمانے پر تحریکیں بھی نظر آئیں گی۔ انہی تحریکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے نظریات کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوگا اور حقیقی انقلابی قوتوں کو کامیابی کے وسیع مواقع ملیں گے۔یہی قوتیں اس خطے سمیت پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔