انڈیا: کلکتہ کی جادیوپور یونیورسٹی میں طلبہ تحریک کا آغاز

|تحریر: ریوولوشنری کمیونسٹس آف انڈیا|

جادیوپور یونیورسٹی انڈیا (Jadavpur University) کے طلبہ کوریاستی غنڈوں کے حملوں کا سامنا ہے، جو کہ کیمپسز میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر جاری ریاستی کریک ڈاؤن کا ہی تسلسل ہے۔ یکم مارچ کو بائیں بازو کے ایک طالبعلم کو اس وقت ہسپتال منتقل کیا گیا جب ایک پرامن احتجاج کے دوران اسے حکومتی وزیر کے پروٹوکول کے قافلے کی گاڑی نے کچل دیا۔ انڈیا کے انقلابی کمیونسٹ اجتماع کی آزادی پر ان بے ہودہ حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف ابھرنے والی احتجاجی تحریک سے مکمل یکجہتی کرتے ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

کلکتہ میں واقع جادیوپور یونیورسٹی ایک لمبے عرصے سے بائیں بازو کی سیاست کا گڑھ مانی جاتی ہے۔ یہ یونیورسٹی طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کی ایک مضبوط تاریخ رکھتی ہے، یہاں کے طلبہ نے کئی تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر نیکسلائٹ تحریک کے دوران بہت بڑی تعداد میں طلبہ انقلابی جدوجہد کا حصہ بنے، جس نے اس تحریک کی انقلابی وراثت کو مزید مستحکم کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ آج بھی جادیوپور میں طلبہ اور مزدوروں کی یونینز کے انتخابات میں بائیں بازو کی تنظیمیں بی جی پی اور کانگریس کو شکست دیتی ہیں، حالانکہ ان دونوں پارٹیوں کا اثر و رسوخ ریاست کے دیگر حصوں میں بڑھ رہا ہے۔

تاہم کئی سالوں سے مغربی بنگال میں طلبہ یونین کے انتخابات معطل ہیں۔ جمہوری نمائندگی کے لیے طلبہ کے بار ہا اور واضح مطالبات کے باوجود، حکمران جماعت ترنمول کانگریس نے نہ صرف ان اپیلوں کو مکمل نظرانداز کیا ہے بلکہ ان بنیادی جمہوری حقوق کی بحالی کی ہر کوشش کو روکے رکھا ہے۔ طلبہ نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے کیمپس میں جمہوریت بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ کو اپنے مسائل کے خلاف آواز اٹھانے یا ادارہ جاتی شکایات کے ازالے کے لیے کوئی مؤثر پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہے۔

یکم مارچ کے واقعات

یہ صورتحال اس وقت زیادہ سنگین ہوئی جب جادیو پور یونیورسٹی میں منعقد سالانہ ویسٹ بنگال کالج اینڈ یونیورسٹی پروفیسرز ایسوسی ایشن (WBCUPA) کے پروگرام کے دوران ریاستی وزیر تعلیم براتیا باسو موجود تھا۔ اس دورے کے جواب میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے، جن میں عام طلبہ کی کثیر تعداد شامل تھی، احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان کا بنیادی مطالبہ طلبہ یونین کے انتخابات کی بحالی اور سہ فریقی میٹنگ تھا جس میں وزیر تعلیم، یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ نمائندگان شامل ہوں تاکہ تعلیمی اصلاحات، یونیورسٹی میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور جمہوری حقوق جیسے مسائل پہ بات چیت ہو سکے۔

تاہم وزیر تعلیم نے نہ صرف بات کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس نے آمرانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے پر امن احتجاج کو پر تشدد طریقے سے منتشر کرنے کے لیے کانگریسی غنڈے بھیج دیے۔ کانگریسی غنڈوں کا یہ حملہ سفاک اور اشتعال انگیز تھا، جس کے نتیجے میں شدید بدنظمی اور ہنگامہ آرائی ہوئی، جس کے نتیجے میں کئی طلبہ کو سنگین چوٹیں آئیں۔ یہ تصادم تشدد کے ذریعے اختلاف رائے کو دبانے کی ریاستی پالیسی کو بے نقاب کرتا ہے حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مقدس احاطے میں بھی۔

جونہی صورتحال مزید کشیدہ ہوئی توکچھ طلبہ نے وزیر کی گاڑی کے آگے بیٹھ کے احتجاج کیا اور اسے جانے سے روک دیا۔ اس کے بعد ہولناک ریاستی تشدد کا واقعہ پیش آیا، رپورٹس کے مطابق قافلے نے بے رحمی سے ہجوم میں گاڑی دوڑا دی جس سے مظاہرین کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں، ایک سٹوڈنٹ شدید زخمی ہو گیا اور اب ہسپتال میں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ جان بوجھ کر کی گئی اس جارحیت نے طلبہ میں فوری اور شدید ردعمل کو جنم دیا۔ اس وحشیانہ حملے پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کیمپس بھر میں طلبہ نے غیر معینہ مدت تک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اس ہڑتال کی حمایت میں پورے ملک میں (اور دیگر ملکوں میں بھی) مختلف بائیں بازو کی تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئیں، جبکہ یونیورسٹی کی مزدور یونین نے بھی کام بند کر نے کا اعلان کر دیا۔

ہم ٹی ایم سی حکومت کی جانب سے پُر امن احتجاج کرنے والے طلبہ پر کیے جانے والے اس وحشیانہ حملے کی دو ٹوک اور شدید مذمت کرتے ہیں۔ یکم مارچ کے واقعات ایک بڑے اور تشویشناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں، یعنی تعلیمی اداروں میں جمہوری نظام کو منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے۔ جادیوپور یونیورسٹی کی طرح ملک بھر کے دیگر کئی تعلیمی ادارے طلبہ یونین کے انتخابات کے حوالے سے طویل معطلی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم اور ریسرچ پر حکومتی فنڈنگ مسلسل کم کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی ادارے بنیادی انفراسٹرکچر کے حوالے سے شدید بحران کا شکار ہیں۔

ہم طلبہ یونین کے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں!

جمہوری طور پر منتخب شدہ طلبہ یونین کی غیر موجودگی نے اہم اداروں جیسے کہ اندرونی شکایات کمیٹی (Internal Complaints Committe) اور اینٹی ریگنگ سیلز (Anti Ragging Cells) کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، جس کی وجہ سے یہ غیر فعال ہو چکے ہیں۔ طلبہ کی نگرانی کے بغیر یہ کمیٹیاں خاص طور پر خواتین، جنسی اقلیتوں اور پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو انصاف دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ وکٹم بلیمنگ، کردار کشی کرنا اور ہراسمنٹ جیسے واقعات معمول بن چکے ہیں، جبکہ طلبہ کو انصاف کے حصول کے لیے بیوروکریٹک رکاوٹوں اور پدرشاہانہ تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح، ’غیر سیاسی‘ ماحول برقرار رکھنے کے جھوٹے بہانے کی آڑ میں کیمپسز کے اندر دائیں بازو کے نظریات کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اڑیسہ کی یونیورسٹی کلنگا انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل ٹیکنالوجی (KIIT) میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ، جس میں ایک نیپالی طالبعلم کی شکایت کو بی جے پی کے اثر و رسوخ کے تحت آئی سی سی نے مسترد کر دیا، اس بات کی سنگین یاد دہانی ہے کہ کس طرح دائیں بازو کی قوتیں مخالف آوازوں کو دبانے اور انہیں نظر انداز کرنے کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار استعمال کر رہی ہیں۔

اس بحران کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ تعلیم کی نجکاری اور مرکزیت، جو کانگریس کے دورِ حکومت میں شروع کی گئی تھی، نئی تعلیمی پالیسی (NEP) کے تحت مزید تیز ہو گئی ہے۔ NEP نے تعلیم کو مزید تجارتی بنیادوں پر لا کھڑا کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ شعبہ محض منافع خوری کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں صرف مغربی بنگال میں 8 ہزار سے زیادہ سرکاری سکول بند کر دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں طلبہ کی سستی تعلیم تک رسائی ختم کر دی گئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے تعلیمی اداروں کو فیکٹریوں میں تبدیل کر دیا ہے جو گلوبل مارکیٹ میں سستی مزدوری پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں، جس سے تعلیم کی انقلابی صلاحیت چھین لی گئی ہے۔

یکم مارچ کے واقعات نے طلبہ تحریک میں ایک بنیادی چیلنج کا انکشاف کیا ہے، یعنی لیڈرشپ اور پروگرام کا فقدان۔

اس اہم موڑ پر یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ہم بنیادی حقیقت کو سمجھیں، یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے عہد میں، یہ سرمایہ دارانہ نظام کی فطری خصوصیت ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کبھی بھی طلبہ اور مزدوروں کے جائز مطالبات کو نہیں مانتی۔ یہ ریاست منظم یونینز کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ریاست ان یونینز کو توڑتی ہے، جابرانہ قوانین اور پرتشدد کاروائیوں کے ذریعے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا گلہ دباتی ہے۔ طلبہ، مزدوروں، خواتین اور تمام مظلوم پرتوں کو کبھی بھی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں حقیقی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی۔

انصاف کے لیے! جمہوریت کے لیے! انقلاب کے لیے!

مسئلے کا حل محض وزراء یا حکومتوں کی تبدیلی میں نہیں ہے۔ مسئلہ بنیادی ڈھانچے کا ہے۔ توقع کے مطابق، سرمایہ دارانہ ریاست نے یکم مارچ کے احتجاج کی پاداش میں بائیں بازو کے ایک طالبعلم، ساحل کو جھوٹے الزامات میں ملوث کر کے گرفتار کر لیا ہے جبکہ دیگر افراد پر بھی جھوٹے مقدمات قائم کیے ہیں۔ سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ عدلیہ سے انصاف کی توقع کرنا بے سود ہے۔ یہ ایک ظالمانہ فریب ہے۔ تلوار اور گردن کے درمیان کوئی مکالمہ نہیں ہو سکتا۔

ہمیں اس وقت سرمایہ دارانہ ریاست کے خلاف طلبہ اور مزدوروں کی منظم، متحد اور لڑاکا تحریک کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر صورت ایک ایسی انقلابی قوت تعمیر کرنی ہو گی جو اس ظالمانہ ڈھانچے کو چیلنج کر سکے جو نا برابری اور استحصال کو برقرار رکھتا ہے۔ بالآخر جب تک ہم اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ نہیں پھینکتے تب تک ہم آزاد نہیں ہو سکتے۔ ہمیں بنیاد کی تبدیلی کے لیے آواز اٹھانی چاہیے، جہاں طلبہ اور مزدورشانہ بشانہ سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لیے لڑ سکیں، جس سماج کو محنت کش طبقہ ہم سب کے مفاد کے لیے جمہوری طور پر چلائے گا۔

ہم بائیں بازو کے کارکنان، طلبہ اور مزدوروں سے کہتے ہیں کہ متحد ہو کر سڑکوں پہ آئیں اور جمہوری حقوق کی لڑائی لڑیں۔

طلبہ اور مزدوروں کی انقلابی ایکتا زندہ باد!

ہمارے فوری مطالبات

1۔کامریڈ ساحل کو فوری اور غیر مشروط رہائی دی جائے، جنھیں غلط طور پر قید رکھا گیا ہے۔

2۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف بنائے گئے تمام جھوٹے مقدمات واپس لیے جائیں۔

3۔ مغربی بنگال کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کیا جائے اور ان کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔

Comments are closed.