|تحریر: ارسلان غنی، ترجمہ: ولید خان|
انڈیا کے طول و عرض سے لاکھوں کسان اور مختلف اتحادی تنظیموں کے ممبران دہلی کی طرف ایک غیر معینہ مدت دھرنے کے لئے مارچ کر رہے ہیں۔ ”دہلی چلو“ مارچ کا آغاز 26 نومبر 2020ء کو ہوا۔ مرکزی مطالبات میں مودی سرکار میں منظور ہونے والے حالیہ تینوں کسان قوانین کا خاتمہ شامل ہے۔ اس وقت کسانوں نے دہلی کے پانچ داخلی راستوں کو بند کیا ہوا ہے اور شہر جانے والی ٹریفک کو مفلوج کر دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کسانوں نے جزوی طور پر شہر کا گھیراؤ کیا ہوا ہے۔ پولیس اور پیراملٹری فورسز نے مارچ میں شامل کسانوں پر لاٹھیوں، آنسو گیس شیلوں اور واٹر کینن کے ذریعے شدید حملہ کیا جس کے نتیجے میں متعدد کسان زخمی ہو گئے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریاست احتجاجی قائدین کو داخلی راستے کھولنے اور را شٹرا پتی بھَون (پارلیمنٹ) سے 20 کلومیٹر دور دہلی کی مضافات میں موجود براری میدان میں دھرنامنظم کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ براری میدان پیراملٹری کی بھاری نفری میں ایک کھلی جیل کی مانند ہے۔ کسان وہاں جانے کو تیار نہیں اور ابھی بھی دہلی کی سنگھو اور ٹکری حدود پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔
کسانوں کو پورے ملک کے طول و عرض سے مزدوروں، ٹریڈ یونینوں اور تنظیموں سے یکجہتی اور حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ 26 نومبر کو ٹریڈ یونینز کی جانب سے ایک روزہ ملک گیر عام ہڑتال کے بعد پہلی مرتبہ دہلی ٹرانسپورٹ کی مزدور یونینوں نے دھمکی دی کہ اگر سرکار کسانوں کے مطالبات نہیں مانتی تو وہ غیر معینہ مدت ہڑتال کر کے دہلی کی سڑکیں مفلوج کر دیں گے۔ ان میں نجی گاڑیوں، ٹیکسیوں، آٹو رکشوں، بسوں اور ٹرکوں کے مزدور شامل ہیں۔ ان کے یونین قائدین نے کسان احتجاجوں میں حصہ لیا اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مرکز کو کسانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے دو دن کی مہلت دی ہے۔
طلبہ اور اساتذہ کی تنظیمیں اور یونینیں بھی احتجاجی کسانوں کے ساتھ یکجہتی کر رہے ہیں۔ مودی سرکار کے ظلم و جبر میں پسی ہوئی مختلف مذہبی اقلیتیں بھی دہلی کی جانب اس مارچ کا استقبال کر رہی ہیں۔
ابھی تک سرکار کسان احتجاجوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ حتیٰ کہ اس صورتحال کو حل کرنے کے لئے وزیرِ اعظم مودی، وزیرِ داخلہ امیت شاہ اور وزیرِ زراعت تومر کی ایمرجنسی میٹنگ بھی بے نتیجہ رہی۔ مودی بہت بڑی میڈیا مہم کے ذریعے نئے زرعی قوانین کے انڈین معیشت اور سماج پر مثبت اثرات کا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ اس نے جھوٹ بولا ہے کہ کسانوں کے دیوہیکل احتجاج سرکار کو کمزور کرنے کے لئے حزبِ اختلاف کی سازش ہے۔
دیگر BJP قائدین اور دائیں بازو سے منسلک میڈیا کسانوں کے خلاف صبح شام زہر اگلتے ہوئے احتجاجیوں پر ملک دشمن بدمعاش، خالصتانی قوم پرست، نکسل وادی، شاہین باغ کے جہادی، بیرونی فنڈ پر چلنے والے ایجنٹ وغیرہ کے لیبل لگا رہے ہیں۔ وہ کینہ پرور نفرت کو استعمال کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو باغیانہ احتجاج سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ درحقیقت حزبِ اختلاف بڑی حد تک ان احتجاجوں سے لاتعلق ہی ہے۔ ذرائع ابلاغ نے تو ثبوت بھی پیش کر دیئے کہ کس طرح بیرونی فنڈنگ کے ذریعے انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے! ان کی بحث یہ ہے کہ تمام شرکاء ملک دشمن ہیں اور ان پر سخت ترین بغاوت کے کیس بننے چاہیئں۔
سرکار نے پنجاب سے 30 تنظیموں کو چنا ہے تاکہ کسانوں کیلئے بنائے گئے قوانین میں معمولی تبدیلیاں کی جائیں، کیونکہ وہ ان قوانین کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔ وہ کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس کے ساتھ وہ قرضوں کے خاتمے اور دیگر معاشی مطالبات کو سرے سے مذاکرات میں شامل ہی نہیں کرنا چاہتی۔
سیاسی بحران
کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے BJP اس وقت اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ پارٹی میں داخلی تضادات کسانوں کے بڑھتے قدم کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں BJP کے پنجاب کے جنرل سیکرٹری اور پنجاب یوتھ ونگ کے انچارج نے کسانوں کے احتجاجوں کی وجہ سے استعفے دے دیئے ہیں۔ ہریانہ سے ایک ممبر اسمبلی نے مویشی بورڈ کی سربراہی سے استعفیٰ دیتے ہوئے کسانوں کی حمایت کا اعلان کر ڈالا ہے۔ کئی BJP اتحادی این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) اتحاد چھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ پنجاب کی SAD پارٹی (شِرومانی اکالی دَل) پہلے ہی اتحاد سے علیحدہ ہو چکی ہے اور اب راجستھان میں آر ایل پی (راشٹریہ لوک تانترک پارٹی) سمیت کئی پارٹیاں بھی پر تول رہی ہیں۔
سیاسی بحران حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو بھی ننگا کر رہا ہے جن کے پاس مزدوروں اور کسانوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ وہ زرعی قوانین کو منظور کرنے کے طریقہ کار پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن ان کے مواد سے مکمل طور پر متفق ہیں۔
عام طور پر پنجابی کسانوں کے نمائندے کے طور پر پیش کی جانے والی شِرومانی اکالی دَل مکمل طور پر اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ دہلی پر حکومت کرنے والی دائیں بازو کی جماعت عام آدمی پارٹی، قوانین کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے کیونکہ اس میں کسانوں اور مزدوروں کے احتجاجوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ کانگریس بھی کوئی متبادل پیش نہیں کر پا رہی۔ کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے کسانوں کے لئے ”مضبوط حمایت“ کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی ممبران سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاجیوں میں کھانا تقسیم کریں۔ اتر پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ اکھی لیش یادو اور مہاراشٹر پر حاکم انتہائی دائیں بازو کی شیو سینا پارٹی نے اپنی تنقید کواحتجاجوں کے دوران کسانوں پر کئے جانے والے تشدد تک محدود رکھا ہوا ہے۔
مزدوروں اور کسانوں کے احتجاجوں نے نام نہاد لیفٹ کی پارٹیوں کو بھی بری طرح ننگا کر دیا ہے جن میں ہندوستان کے مزدوروں اور کسانوں کو کوئی متبادل پیش کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ بائیں بازو کی پانچ پارٹیوں CPI(کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا)، CPI-M (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ)، CPI-ML (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لینن اسٹ)، RSP (ریولوشنری سوشلسٹ پارٹی) اور AIFB (آل انڈیا فارورڈ بلاک) کے جنرل سیکرٹریوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اپنی تنقید زرعی قوانین کو پارلیمنٹ میں منظور کروانے کے طریقہ کار تک محدود رکھتے ہوئے ”جمہوری عمل اور روایات“ کے لئے مضبوط حمایت کا اظہار کیا ہے۔ بائیں بازو کی تقریباً تمام پارٹیوں کے کسان ونگ ہیں اور کسان مارچ کی قیادت کے لئے اپنے قائدین کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن وہاں سے کوئی آواز نہیں آ رہی۔ کسان مارچ کی قیادت کرنے کے لئے اپنے کیڈر کو متحرک کرنے کے بجائے انہوں نے اپنے کیڈر اور ممبران کو ہدایت دی کہ وہ اپنے قصبوں میں ”مقامی حالات کے تحت“ یکجہتی کا اظہار کریں جس کا مطلب یہ ہے کہ گھر بیٹھو اور کچھ نہ کرو۔ مہاراشٹر، مادھیا پردیش اور راجستھان میں کسانوں میں قابلِ ذکر کیڈر کی موجودگی کے باوجود دہلی کی جانب مارچ کے حوالے سے کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ بہر حال سرکاری ذرائع کے مطابق CPI-M کے کچھ عناصر نے ریاست کی جانب سے کسانوں پر واٹر کینن کے استعمال کے خلاف احتجاجاََ راجپالیم میں سٹیٹ بینک آف انڈیا کی ایک برانچ پر قبضہ کر لیا۔
دائیں بازو کی جارحیت
پچھلے کئی سالوں میں مزدوروں اور کسانوں کے ہونے والے احتجاجوں نے پنجاب اور انڈیا کے دیگر علاقوں میں تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کی ساکھ نیست و نابود کر دی ہے۔ مودی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حزبِ اختلاف کی پارٹیاں برباد ہو چکی ہیں اور وہ عوامی تحریکوں میں قابلِ ذکر حمایت حاصل نہیں کر سکتیں۔ وہ BJP کے حامیوں پر تکیہ کئے بیٹھا ہے اور اپنی روایتی فرقہ پرست منافرت کو زیادہ زہریلا کرتے ہوئے اپنی سرکار کو درپیش تمام تحریکوں پر اپنی جہالت، جبر اور دباؤ کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔
اس نے احتجاجیوں پر پیراملٹری فورسز اور واٹر کینن کو بے دریغ استعمال کیا ہے اور وہ کسی صورت قوانین کی منسوخی کے لئے تیار نہیں۔ BJP پوری ریاستی مشینری کو متحرک کر رہی ہے تاکہ احتجاجیوں پر بغاوت اور دیگر کیس بنائے جائیں تاکہ وہ کئی سال گراں قدر اور کرپٹ عدلیہ اور پولیس کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں یا پھر جیلیں کاٹیں۔
کسانوں کے احتجاجوں کے دوران سرکار نے مذاکرات میں نئے مزدور اور کسان مخالف قوانین شامل کر دیئے ہیں جن میں بجلی (ترمیم) کا قانون 2020ء بھی شامل ہے تاکہ مذاکرات طویل اور اعصاب شکن ہوں اور بلآخر فتح سرکار کی ہو۔
پھر مودی کسانوں کے اتحاد کو توڑنے کی کوششوں میں اپنی مرضی سے مذاکرات کے لئے تنظیموں کو منتخب کر رہا ہے۔ پہلے سرکار نے پنجاب میں 30 تنظیموں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ پھر اس فہرست میں 6 اور تنظیمیں شامل کر لی گئیں۔ اب وہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ان تمام تنظیموں کے صرف 7 نمائندوں سے مذاکرات ہوں گے۔ منتخب شدہ 30 تنظیموں کے قائدین نے فوراً ہی اپنے آپ کو AIKSCC (آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی) سے علیحدہ کرنا شروع کر دیا اور اب وہ سرکار کے ساتھ مذاکرات میں اپنے مطالبات منوانے کی فضاء تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے AIKSCC کے نمائندوں کے کسی بھی ریلی سے مخاطب ہونے پر پابندی بھی لگا دی ہے۔ اس وجہ سے پنجاب کی 30 تنظیموں اور پورے انڈیا بشمول پنجاب سے 500 تنظیموں کی نمائندہ AIKSCC کے درمیان شدید تناؤ بڑھ رہا ہے۔
جیسے جیسے کسانوں کے مطالبات آگے بڑھتے جا رہے ہیں جیسے کہ قرضوں کی منسوخی اور پیداواری لاگت میں کمی کا مطالبہ کرنا، آڑھتی، مہاجن اور بیوپاری، جو کسانوں میں اپنی تنظیموں کے ذریعے گھس بیٹھے ہیں یا پھر کئی کسان تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں، کے کاروباروں کیلئے یہ مطالبات موت کا پیغام ہیں۔ وہ مذاکرات میں سے ”قرضوں کی منسوخی“ کا مطالبہ سرے سے نکال دینا چاہتے ہیں یا پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکار کسانوں کے قرضوں کی منسوخی کے نتیجے میں قرضوں کی ذمہ داری خود لے۔ دونوں صورتوں میں یہ تنظیمیں مذاکرات اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی ہیں اور AIKSCC سمیت ان تمام تنظیموں سے چھٹکارا چاہتی ہیں جو قرضوں کی منسوخی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
کسانوں کو سرکار کی جانب سے بنائی جانے والی ان تمام سازشوں کو سختی سے کچل دینا چاہیے جو کسان اتحاد کو توڑنے کیلئے ہیں۔ اسی طرح ان تمام مفاد پرست لیڈران کو بھی ننگا کرنا چاہیے جو اپنے مفادات کیلئے کسانوں کی تحریک کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
آگے بڑھنے کا فوری راستہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوانین خوفناک ہیں اور کسانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے۔ لیکن کسان کئی سالوں سے موجودہ قوانین اور تمام مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام میں مسلسل ریاست، آڑھتیوں اور بینکوں کے جبرواستحصال کا شکار ہیں۔ دہلی کی جانب کسان مارچ کا درست فیصلہ ان کے عوامی شعور کی معیاری بڑھوتری کی غمازی کرتا ہے۔
کسان صرف اپنی قوتوں پر انحصار کر سکتے ہیں۔ کوئی آڑھتی اور حزبِ اختلاف کی کوئی پارٹی انہیں بچانے نہیں آئے گی۔ کسان کئی نسلوں سے نظام کے مختلف افراد کے ظلم و جبر کا شکار رہے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کا یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔
اگر کسان پسپائی اختیار کرتے ہیں اور کمزوری دکھاتے ہیں تو دائیں بازو اور ریاست ان پر اور زیادہ وحشی حملے کریں گے۔ ریاست کسانوں کی زندگیاں جہنم بنا دے گی، ظلم و جبر اور استحصال کی انتہاء کر دی جائے گی اور ماضی میں 1984ء (سکھوں کے خلاف خونی آپریشن کا سال۔ مترجم) اور 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں ہونے والا قتلِ عام ایک معمولی سا واقعہ محسوس ہوگا۔
کسانوں کو مزدوروں اور ٹریڈ یونینوں کے ساتھ اتحاد بناتے ہوئے اس وقت تک غیر معینہ مدت کیلئے ملک گیر عام ہڑتال کرنی چاہیئے جب تک ان کے مطالبات مان نہیں لئے جاتے۔ ایک دن کی عام ہڑتالیں ایک دیوہیکل قدم ہے اور محنت کش طبقے کی بے پناہ قوت کا اظہار ہیں لیکن ابھی تک یہ مزدوروں کو درپیش دیرینہ مسائل حل نہیں کر سکیں۔ اس دوران مودی نے کئی ٹریڈ یونین مخالف قوانین منظور کروائے ہیں اور ایک دن کی عام ہڑتال انہیں منسوخ نہیں کرا سکتی۔ وہ مسلسل بے دھڑک مزدور دشمن قوانین منظور کروا رہا ہے اور اس کا راستہ روکنے کاواحد طریقہ غیر معینہ مدت ملک گیر عام ہڑتال ہے۔
اگر کسانوں کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو انہیں مودی سرکار کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیئے۔ انہیں اس سفاک اور جابر ریاست کو ختم کر کے پورا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہیئے تاکہ سماج کو اپنے مفادات کے تحت منظم کیا جا سکے۔ ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال کے لئے کسانوں کو مختلف سیکٹر جیسے کھاد اور کیرم کش ادویات فیکٹریوں، زرعی مشینری فیکٹریوں، ٹرانسپورٹ، بینکوں، انشورنس کمپنیوں، بجلی پیدا وار، پانی سپلائی، صحت، تعلیم اور دیگر کے مزدوروں کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوتِ عام دینی چاہیئے۔
یہ ہڑتال نہ صرف نئے کسان دشمن قوانین کو منسوخ کرنے کا ذریعہ بنے گی بلکہ عوام دشمن سرکار کا خاتمہ بھی کر دے گی۔ اور پھر یہ ہڑتال سوال اٹھائے گی کہ حقیقی طور پر سماج کون چلاتا ہے؟ مزدور اور کسان یا پھر بینکار، کرپٹ سیاست دان، بیوروکریٹ اور پر تعیش گھروں میں رہنے والے اور دولت میں ڈوبے غلیظ سرمایہ دار؟ یہ ہڑتال سرمایہ دارانہ نظام پر بھی سوال اٹھائے گی جو پورے ملک کے طول و عرض میں مزدوروں کا استحصال کرتا ہے اور اس کا متبادل صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہے جو کارپوریٹ ساہوکاروں اور سفاک ریاست کے ہاتھوں کروڑوں ظلم و جبر کی شکار عوام کو بہتر زندگی کی ضمانت دے سکتی ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ:
1۔ نریندرا مودی اور امیت شاہ کا فوری استعفیٰ لیا جائے۔
2۔ تمام کسان دشمن اور مزدور دشمن قوانین کو منسوخ کیا جائے۔
3۔ کسانوں کے تمام قرضوں کو منسوخ کیا جائے۔
4۔ دہلی کے تمام طلبہ، مزدور اور نوجوان جنتر منتر میں کسانوں کے ساتھ شامل ہوں۔
5۔ ایک روزہ عام ہڑتال کے بجائے مطالبات کے پورا ہونے تک غیر معینہ مدت ملک گیر عام ہڑتال کی جائے۔
مودی سرکار مردہ باد!
انڈین کسانوں کی جدوجہد زندہ باد!
مزدور کسان اتحاد زندہ باد!
غیر معینہ مدت ملک گیر عام ہڑتال زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!