|تحریر: ارسلان غنی، ترجمہ: ولید خان|
ایک سال کی طویل جنگ کے بعد بالآخر انڈیا کے کسانوں نے دائیں بازو کی مودی سرکار اور اس کے آقا سرمایہ دار مالکان کو شکست کی دھول چٹا کر تینوں رجعتی زرعی قوانین منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ کسانوں کی عظیم فتح ہے جو ستمبر 2020ء سے جاری شاندار جرات مندانہ اور ثابت قدم جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس جدوجہد میں بڑے مدوجزر آئے لیکن کسانوں نے ہمت نہیں ہاری۔ (اس تحریک کے حوالے سے لکھے گئے ہمارے دیگر مضامین اور رپورٹس 1، 2، 3، 4، 5، 6) کسانوں اور پوری دنیا میں مودی سرکار کے خلاف ان کی جدوجہد کے حامیوں میں اس وقت بے پناہ خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے۔
غیر متزلزل جدوجہد
زرعی قوانین مودی سرکار کی دیو ہیکل کارپوریٹائزیشن کی کوششوں سے منسلک ہیں جن کا مقصد کسانوں کو زرعی اجناس کے لئے ریاست کی جانب سے دی جانے والی کم از کم قیمتوں کا خاتمہ کرنا تھا جن کے ذریعے کسانوں کو اجناس کی مناسب قیمت دی جاتی ہے تاکہ ان کا گزارا ہو سکے۔
نئے قوانین کے تحت کسانوں کو عالمی زرعی کاروباری اجارہ دار بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا جانا تھا اور اس کے بعد غربت، خودکشیوں، مفلسی اور اموات (ان کی شرح پہلے ہی بے قابو ہو چکی ہے) میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کے ساتھ بینکوں اور کمپنیوں کے قرضوں کا پہاڑ بھی سر چڑھ جاناتھا۔
کسانوں نے پچھلے سال پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں کے مختلف شہروں میں اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ سمیوکٹھ کسان مورچہ (SKM) کے پرچم تلے کسانوں کی مختلف تنظیموں نے دارالحکومت کی جانب مارچ کیا اور دہلی شہر کو جانے والی مرکزی شاہراہوں پر دھرنے منظم کر کے انہیں بند کر دیا۔
اس جدوجہد کوپوری دنیا اور انڈیا کے محنت کشوں اور سماج کی تمام پرتوں سے دیو ہیکل حمایت ملنی شروع ہو گئی۔ مودی سرکار نے کسان قائدین کے ساتھ مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع کردیا جو بعد میں ایک دھوکہ ثابت ہوا جس کا مقصد پورے عمل کو طوالت دے کر جدوجہد کو تھکانا تھا۔ کسان قائدین کو 11 ناکام مذاکراتی دوروں کے بعد اس حقیقت کا ادراک ہو گیا۔
اس جدوجہد میں تقریباً 700 کسان شہید ہوئے جن میں کریتی کسان یونین پنجاب کے صدر اور ہمارے انتہائی عزیز ہمدرد داتار سنگھ بھی شامل ہیں جو بدقسمتی سے دہلی کی سرحد پر ایک دھرنے میں جان لیوا دل کا دورہ پڑنے سے شہید ہو گئے۔
دارالحکومت کی سرحد پر کسانوں نے دن رات جدوجہد کی۔ ان پر پولیس نے ڈنڈے برسائے، مارا پیٹا اور مودی کے بدمعاشوں نے لکشمی پور میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا۔ کئی کسان پابندِ سلاسل ہوئے اور روایتی میڈیا نے زہریلے جھوٹ اور الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔
26 جنوری کو انڈین ریپبلک ڈے پر لاکھوں کسانوں نے دہلی پر مارچ کرتے ہوئے لال قلعے پر قبضہ کر لیا۔ اس دن کے واقعات کے بعد تحریک ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پھیل گئی۔ اس ڈرامائی عمل نے پوری صورتحال تبدیل کر کے رکھ دی۔
اتر پردیش اور ملک کے دیگر حصوں سے کسانوں کا دیوہیکل ہجوم سڑکوں پر نکل آیا اور مودی نے ابتدائی اکٹھوں پر پولیس چڑھا دی تاکہ دیگر ریاستوں میں تحریک کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ لیکن خلافِ توقع مشتعل کسانوں کے اور بھی دیو ہیکل ہجوم باہر نکل آئے۔ وہ تحریک جو اپنے آغاز میں ریاست کے مغربی حصوں تک محدود تھی اب دیگر حصوں اور ہمسایہ ریاستوں میں بھی پھیل گئی۔
روایتی پارٹیوں کا دیوالیہ پن
کانگریس، SAD (ایک دائیں بازو کی سکھ پارٹی)، کمیونسٹ پارٹی – ایم (CPI-M) اور دیگر کے قائدین سمیت تمام روایتی سیاسی پارٹیوں نے مجرمانہ کردار ادا کرتے ہوئے اپنے آپ کو کسانوں کی جدوجہد سے فاصلے پر رکھا۔ ایک مرتبہ جب اس جدوجہد کو عوامی پذیرائی حاصل ہو گئی تو پھر یہ پارٹیاں تحریک کے کناروں پر ناچتی رہیں۔
کچھ اثناء میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں انہیں ڈرامے بھی کرنے پڑے۔ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی شرومانی اکالی دل (SAD) پارٹی نے آغاز میں فوراً مودی کے ساتھ کھڑے ہو کر کسان دشمن قوانین کی حمایت کی۔ لیکن کسانوں کے جمِ غفیر کے غیض وغضب کے سامنے انہوں نے جلد ہی پینترا بدل لیا۔
کانگریس اور دیگر پارٹیاں اخلاقی طور پر مکمل دیوالیہ ثابت ہوئیں اور کسانوں کی حمایت کے لئے ان کے پاس کوئی بنیاد ہی موجود نہیں تھی۔۔اپنے دورِ حکومت میں یہ پارٹیاں خود زراعت کی کارپوریٹائزیشن اور کسان مخالف اقدامات کی مجرم تھیں۔
CPI-M کی سٹالنسٹ قیادت، جو بنگالی کسانوں کے قصائیوں کے نام سے مشہور ہے، بے شرمی سے اس جدوجہد سے دور رہی اور انتہائی رجعتی قائدین کی قیادت میں حزبِ اختلاف پارٹیوں کے سائے میں چھپی رہی۔
ڈاکوؤں کے اس پلید اتحاد کی علامتی حمایت کے باوجود ان کے اقدامات کسان جدوجہد میں کوئی ایک مثبت کردار ادا کرنے میں شرمناک انداز میں ناکام ہوئے۔ ان پارٹیوں نے اپنے عام ممبران کو کسان جدوجہد سے کاٹ کر رکھا تاکہ وہ کسانوں کی ریڈیکل اور باغیانہ تحریک سے متاثر نہ ہو جائیں۔
تمام پارٹیاں مودی کی استحصالی پالیسیوں سے مکمل متفق ہیں۔ ان کا اختلاف بس ان کو لاگو کرنے کے طریقہ کار پر ہے۔
کرپٹ انڈین عدلیہ اور مرکزی انتظامہ کا گھناؤنا کردار بھی بے نقاب ہو گیا۔ آغاز میں کسان قائدین کو ”عظیم“ اور ”آزاد“ سپریم کورٹ سے غلط فہمیاں تھیں کہ وہ یہ معاملہ حل کر دے گی۔
لیکن سپریم کورٹ نے بس اتنا کیا کہ کسان دشمن قائدین، ماہرین اور پروفیسروں کی ایک کمیٹی بنا دی تاکہ ”اس معاملے کی جانچ پڑتال کی جائے“۔ یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔ جہاں تک سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے تو عدلیہ کبھی بھی آزاد نہیں ہوتی۔۔اور یہ تجربہ کسانوں کے لئے ایک ناقابلِ فراموش سبق تھا۔
کسانوں نے مودی اور اس کے سرمایہ دار مالکان کو صرف اپنے اتحاد اور قوت کے بل بوتے پر شکست دی ہے۔ انہوں نے ریاستی مشینری کا سہارا لے کر کسانوں اور مزدوروں کا شدید استحصال کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام پر کاری وار کیا ہے۔ کسانوں نے اس مشینری کو شکست فاش دی ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ فتح انڈیا کے سب سے بڑے کاروباریوں، اڈانی اور امبانی سمیت مودی اور اس کے تمام ڈاکوؤں کے لئے بھیانک خواب ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ پوری صورتحال کا ازسرِ نو جائزہ لینے اور اپنی چالبازیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے۔
شاندار کامیابی پر کسانوں کو مبارک باد! مودی کے خلاف مزدوروں اور کسانوں کو متحد جدوجہد کی جانب بڑھنا ہوگا!
کسان بہت زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں اور پوری عالمی محنت کش تحریک کو ان کی فتح کو عظیم سلام پیش کرنا چاہیئے۔۔انہوں نے واقعتاً اپنی فتح کا جشن منانے کا حق جیتا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی اور عالمی محنت کش طبقے کے لئے ایک شاندار مثال قائم کر دی ہے۔ صرف ایک ثابت قدم اور غیر مصالحانہ جدوجہد کے ذریعے ہی فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔
عالمی مارکسی رجحان (IMT) نے پہلے دن سے کسان جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ IMT نے کسان جدوجہد پر مضامین اور رپورٹس شائع کیں اور کریتی کسان یونین پنجاب کے شہید قائد داتار سنگھ کا انٹرویو کیا۔ IMT کے کامریڈز نے عالمی طور پر مختلف ممالک میں محنت کشوں کی تنظیموں اور ٹریڈ یونینز میں کسان جدوجہد کا پیغام پہنچایا۔ ٹریڈ یونینز میں قرار دادیں پیش کی گئیں اور عالمی محنت کش تحریک کے کئی نامور ممبران کی جانب سے یکجہتی کے پیغامات موصول ہوئے۔
ہمارے کامریڈز اور ہمدردوں نے جدوجہد میں انقلابی نظریات اور تناظر کے ساتھ مداخلت کی جنہیں کسانوں کی جانب سے شاندار پذیرائی ملی۔ ہمارے ہمدرد IMT کے پیغامات جدوجہد میں لے کر گئے اور انہیں کسانوں اور ان کی تنظیموں تک پہنچایا۔ ان میں سے ایک کلیدی پیغام مزدور، کسان مشترکہ جدوجہد سے ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال کے ذریعے مودی سرکار کا خاتمہ بھی تھا۔
یہ پیغام کسانوں کے اپنے تجربات سے ہم آہنگ تھا جنہوں نے حالات و واقعات کے تحت خود یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انہیں مستعدی سے محنت کش طبقے کی تنظیموں تک پہنچ کر مزدوروں اور کسانوں کی مشترکہ جدوجہد منظم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ لیکن ہندوستانی ٹریڈ یونینز کی سٹالنسٹ قیادت نے انتہائی بے شرمی سے اپنے ممبران کو کسان جدوجہد سے کاٹ کر رکھا۔ ان کی عدم شمولیت کے باوجود کسان انتہائی بہادری سے پارلیمنٹ کی جانب مارچ پر چل نکلے۔۔یہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کے لئے ڈوب مرنے کا مقام تھا اور اس مارچ کے ذریعے کسانوں نے عام مزدور وں کے لئے ایک نئی مشعلِ راہ روشن کی۔
ہندوستانی کسانوں کی یہ عظیم الشان فتح ہے۔ مستقبل میں کئی لڑائیاں ہوں گی، خاص طور پر مودی اور اس کے ڈاکو ساتھی ایک مرتبہ صورتحال کا ازسرِ نو جائزہ لے کر اپنی بکھری قوت کو اکٹھا کر کے ایک مرتبہ پھر زراعت کی کارپوریٹائزیشن کے لئے حملہ آور ہوں گے۔
لیکن اب ہندوستانی کسان پہلے سے زیادہ ہوشیار، منظم اور شعور یافتہ ہو چکا ہے اور ان میں ہر بڑے حملے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس فتح کے ہندوستانی سیاست پر بے پناہ اثرات مرتب ہوں گے اور آنے والے وقت میں سیاست ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو جائے گی۔
اس تحریک میں عوام کے سامنے کمیونسٹ پارٹیوں سمیت تمام حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کا دیوالیہ پن اور پورے سیاسی افق اور ریاستی اداروں کی غلاظت ننگی ہو چکی ہے۔
اس فتح کے محنت کش طبقے کے شعور پر حیران کن اثرات مرتب ہوں گے۔ پچھلے سات سالوں میں مودی کو ناقابلِ شکست بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب کسانوں نے اسے اور اس کی پوری سرکار کو شرمناک شکست دے دی ہے۔
اگلا قدم نجکاری کی پالیسی کے خلاف جدوجہد ہے جس کے خلاف 26 نومبر 2021ء کو ایک عام ہڑتال منظم ہو رہی ہے۔ کسانوں کو اس ہڑتال کی حمایت کرنی چاہیئے اور مزدوروں کے ساتھ اتحاد قائم کرتے ہوئے ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال کے لئے منظم ہو کر اس سرکار کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیئے۔
ہندوستان کے کسانوں اور مزدوروں کو ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جس کا پروگرام ان کی ضروریات کا ترجمان ہو۔ محنت کش طبقے کے مقاصد صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات پر مبنی ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو اس دیوہیکل فریضے کو لے کر آگے بڑھے۔
ہندوستانی کسانوں کو عظیم الشان فتح مبارک!
ہندوستانی کسانوں کی جدوجہد زندہ باد!
مودی اور اس کے سرمایہ دار مالکان مردہ باد!
کسانو اور مزدورو، متحد ہو اور جدوجہد کرو!