|تحریر: آدم پال|
مودی حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے شہریت کے نئے عوام دشمن قانون کیخلاف اس وقت پورے ہندوستان میں بہت بڑی احتجاجی تحریک جاری ہے جس نے سوا ارب سے زائد آبادی کے اس ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہندوستان کی کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں اس نئے قانون کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور بڑی تعداد میں جلسے اور جلوس منعقد نہ ہوئے ہوں۔ ایسے علاقے جنہیں ایک طویل عرصے سے سیاسی طور پر لاتعلق قرار دے دیا گیا تھا اور وہاں عوامی ایشوز پراحتجاجی تحریکیں ایک لمبے عرصے سے پذیرائی حاصل نہیں کر سکیں تھی، وہاں بھی بہت بڑے احتجاج دیکھنے میں آئے ہیں اور پورے ہندوستان میں ایک نئی عوامی تحریک کا آغاز ہوا ہے جو نہ صرف ہندوستان کی سیاست اور سماج پر اہم اثرات مرتب کر رہی ہے بلکہ پورے خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
نئے قوانین کے مطابق ہندوستان کے ہر شہری کی ازسر نو شناخت کی جائے گی اور اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ ہندوستان میں رہنے والا کوئی بھی شخص اس ملک کا شہری ہے یا نہیں۔ جو افراد متعلقہ ریاستی حکام کو مطمئن کر پائیں گے انہیں شناختی کارڈ ایشو کر دیا جائے گا اور جو لوگ ایسا نہ کر پائے انہیں غیر ملکی قرار دے دیا جائے گا۔ اس طریقے سے غیر ملکی قرار پانے والے افراد کو مخصوص جیلوں میں منتقل کر دیا جائے گا اور اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس پر ابھی تک کوئی لائحہ عمل جاری نہیں کیا گیا۔ اس تمام تر عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور دسمبر میں ہندوستان کی پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے شہریت کے قانون (Citizenship Amendement Act) جسے CAAبھی کہا جاتا ہے کے بعد سے اس عمل کو قانونی اور آئینی حیثیت بھی مل گئی ہے۔
اس عمل میں سب سے پہلے 2020ء میں کی جانے والی مردم شماری کو بنیاد بنایا جارہا ہے جس میں ہندوستان میں رہنے والے ہر شہری سے اس کے کوائف اکٹھے کرنے کے علاوہ اس سے چند ایک ایسے سوالات بھی پوچھے جائیں گے جس سے یہ تعین ہو سکے کہ وہ گزشتہ دو یا تین نسلوں سے یہاں ہی رہتا آیا ہے اور اس لیے ہندوستان ہی کا شہری ہے۔ ان سوالوں میں والدین کی جائے پیدائش، پچھلی رہائش کا پتہ، فون نمبر، ووٹر نمبر کا اندراج شامل ہیں۔ یہ نئے سوالات مردم شماری کے فارم میں پہلی دفعہ شامل کیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر ملک کی آبادی کا ایک رجسٹر تیار کیا جائے گا جسے NPRیا نیشنل پاپولیشن رجسٹر کہا جا رہا ہے۔ اس رجسٹر میں اندراج کے لیے کسی بھی شخص کا دیا گیا بیان ہی قابل قبول ہوگا اور اس سے کسی بھی قسم کی دستاویزات طلب نہیں کی جائیں گی۔ لیکن اس سے اگلا مرحلہ اس شکنجے کو مزید سخت کرے گا جب نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یا NRCکو مرتب کیا جائے گا۔ اس رجسٹر میں اندراج کے بعد ہی شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا اور اس میں اندراج کے لیے ہر شخص کو اپنی شہریت کے ثبوت پیش کرنے پڑیں گے اور اپنی تین سے چا ر نسلوں کے ریکارڈ کی دستاویزات متعلقہ حکام کو فراہم کرنی ہوں گی۔ اگر یہ دستاویزات فراہم نہ کی جاسکیں تو پھر اس شخص کو ہندوستان کا شہری تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اسے ملک بدر کرنے کا بندوبست کیا جائے گا۔
اس تمام صورتحال نے ہندوستانی سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں جہاں سوا ارب کی آبادی کی اکثریت بد ترین غربت اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی۔ ایسے میں ریاستی اداروں کی کرپشن، لوٹ مار، رشوت ستانی اور بدعنوانی اپنے عروج پر ہے اور پولیس سمیت دیگر ریاستی اداروں کا جبر اور تشدد بد ترین شکل میں موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں پوری آبادی کے لیے اپنی گزشتہ تین سے چا ر نسلوں کے ملکی شہریت کے دستاویزی ثبوت فراہم کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہو گا اور یہ خدشہ موجود ہے کہ سیاسی مفادات کے تحت مخالفین کو اس قانون کے ذریعے نشانہ بنایا جائے گا اور انہیں مکمل طور پر رستے سے ہٹا دیا جائے گا۔
اس عمل کا آغاز شمال مشرقی ریاست آسام سے ہوا تھا جہاں پر یہ عمل مکمل کرنے کے بعد اسے اب پورے ہندوستان میں پھیلایا جا رہا ہے۔ آسام میں کانگریس کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت اس عمل کو شروع کرنے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ25 مارچ 1971ء میں جنگ کے آغاز کے بعد مشرقی پاکستان سے لاکھوں افراد غیر قانونی طور پر آسام میں آ گئے تھے۔ اس لیے اب آسام کی پوری آبادی کی رجسٹریشن کی جائے اور مقامی افراد کو غیر قانونی طور پر مقیم افراد سے الگ کیا جائے۔ اس کے لیے مقامی افراد کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی شناختی دستاویزات پیش کرنی ہوں گی اور جو لوگ ثابت نہیں کر پائیں گے انہیں غیر ملکی قرار دے دیا جائے گا۔ اس طویل عمل کے بعد 31 اگست 2019ء کو ایک رجسٹر شائع کیا گیا تھا جس میں 19 لاکھ افراد کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس عمل کے بعد آسام میں حکومت کیخلاف زبر دست احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا جس میں مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان مظاہروں میں ایک طرف تو قومی مسئلہ پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا جس میں آسام کے مقامی افراد اور بنگالی زبان بولنے والوں میں قومی تنازعہ ابھرا، جبکہ دوسری جانب مذہبی تنازعہ بھی ابھر کر سامنے آیا جس میں مسلمان ریاستی جبر کیخلاف آواز بلند کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ مشرقی ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی قومی تنازعہ پوری شدت سے ابھر آیا ہے جن میں منی پور سے لے کر ناگا لینڈ تک کی تمام چھوٹی ریاستیں شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں قبائلی افراد کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو نہ ہندو ہیں اور نہ ہی مسلمان بلکہ اپنے قدیم آسمانی مذاہب کے پیروکار ہیں۔
مودی کی عوام دشمن حکومت مذہبی منافرت اور قتل و غارت گری کو بھی سیاسی مفادات کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرتی ہے اور گجرات میں 2002ء میں ہونے والی خونریزی سے لے کر کشمیر میں حالیہ بد ترین ریاستی جبر تک ہر جگہ مودی نے مذہبی منافرت کو حکمرانی کے لیے ایک کار آمدہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان قوانین میں بھی مذہبی منافرت کو پھیلانے کی بنیادیں فراہم کی گئیں ہیں اور ہندوستان میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مودی اور اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس قانون کو لاگو کرتے وقت کہا تھا کہ اس قانون کا مقصد ہندوستان میں ہجرت کرکے آنے والے ایسے مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور انہیں یہاں کی شہریت دینا ہے جنہیں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس لیے اس قانون کے مطابق ان تین مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والی مذہبی اقلیتوں کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی تا کہ انہیں وہاں پر موجود جبر اور تشدد سے تحفظ دیا جا سکے۔
https://twitter.com/TheQuint/status/1207289486893170688
لیکن ا س نکتے پر بھی شدید عوامی رد عمل سامنے آیا ہے جس میں مودی کی ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ درحقیقت مودی اپنی مذہبی منافرت کے ایجنڈے کو پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتا ہے اورہندوستان کو ایک سیکولر ریاست سے تبدیل کر کے ایک ہندو ریاست بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔احتجاجی مظاہرین کے مطابق اگر مودی مظلوموں کا اتنا ہی ہمدرد ہے اور جبر اور تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کو ہندوستان کی شہریت دینا چاہتا ہے تو اسے میانمار(برما) کے مظلوم کیوں نہیں نظر آتے یا پھر چین کے صوبے سنکیانگ میں ریاستی جبر کا شکار ایغور قوم کے افراد کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ اسی طرح سری لنکا میں تامل ہندوؤں کو بد ترین ریاستی جبر سے تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کیوں نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے مظلوم افراد ہیں جو ان تین ممالک سمیت مختلف ممالک میں ظلم اور جبر کا شکار ہیں جنہیں مودی حکومت کی جانب سے کی جانے والی آئینی ترمیم میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ درحقیقت، احتجاجی مظاہرین اس عمل کو بھارتی آئین کی سیکولر بنیادوں پر حملہ قرار دے رہے ہیں جس کے مطابق کسی بھی شہری کی مذہب کی بنیاد پر شناخت نہیں کی جا سکتی۔ ہندوستان کے ایک اہم شہر حیدرآباد میں پچاس ہزار سے زائد افراد نے ایک جلسے میں مل کر بھارتی آئین کا ابتدائیہ یک زبان ہو کر پڑھا اور حکمرانوں کو اس آئین کی بنیادوں کی یاد دہانی کروائی۔
احتجاجی تحریک کے دباؤ کے تحت مودی کو دہلی میں ایک جلسے میں یہ کہنا پڑا کہ حکومت NRCکے اجرا کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی اور یہ کہ NRCکا NPRسے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بیان سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور وزیر داخلہ امیت شاہ اس سے پہلے مختلف جلسوں میں کہہ چکا ہے کہ جلد ہی پورے ملک میں NRCکا اجرا کیا جائے گا۔اس کے علاوہ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نئی جیلیں تعمیر نہیں کر رہی اور نہ ہی کسی کو غیر ملکی قرار دے کر جیلوں میں بھیجا جا رہا ہے۔ یہ بھی مکمل جھوٹ ہے اور مختلف ریاستوں میں ایسی جیلیں تیزی سے بن رہی ہیں جن میں غیر ملکی قرار دیے جانے والے افراد کو رکھا جائے گا۔ جبکہ آسام کی شمال مشرقی ریاست میں 2009ء سے ایسی ایک جیل قائم ہے اور اب ان کی تعداد چھ ہو چکی ہے۔ 2018ء میں بی جے پی کی حکومت نے ایک نئی جیل بنانے کے لیے 46کروڑ روپے سے زائد کا بجٹ بھی جاری کیا تھا۔ 2016ء سے اکتوبر 2019ء تک ان جیلوں میں 988افراد کو رکھا گیا جن میں سے 28کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اسی طرح بنگلور کے قریب بھی ایک ایسی ہی بڑی جیل بنائی جا رہی ہے جبکہ مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں بھی ایسی جیلوں کی تعمیر کے لیے زمین کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔
ان تمام ظالمانہ قوانین کیخلاف ابھرنے والی تحریک کا آغاز تو آسام سے ہی ہوا اور وہاں پر عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آئی جن پر بد ترین ریاستی جبر کیا گیا اور آنسو گیس، لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی۔ اس ریاستی جبر میں ایک طالب علم کی ہلاکت بھی ہوئی جس کے بعد تحریک کمزور پڑنے کی بجائے زیادہ شدت کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔اب تک اس احتجاجی تحریک میں ریاستی جبر کے نتیجے میں 28افراد ہلاک چکے ہیں جن میں سے 19کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔
دہلی میں اس کا آغاز شہر کے ایک اہم تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہوا جہاں سے لگ بھگ پانچ ہزارطلبہ نے اس عوام دشمن قانون کیخلاف ریلی نکالنے کا اعلان کیا لیکن اسے دہلی پولیس کی جانب سے بد ترین تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس اہلکار یونیورسٹی کی حدود کے اندر گھس گئے اور ہاسٹلوں کے اندر موجود پر امن طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی کی گئیں۔لیکن اس بد ترین جبر کے بعد تحریک دہلی سمیت پورے بھارت میں پھیل گئی اور ہر طرف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ دہلی کی ہی ایک اہم یونیورسٹی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) سے سینکڑوں طلبہ جامعہ ملیہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے باہر نکل آئے اور مودی حکومت کیخلاف بڑے پیمانے پر احتجاجوں میں حصہ لیا۔اس کے بعد دیگر تعلیمی اداروں سے بھی طلبہ باہر نکل آئے جبکہ دہلی کی تاریخی جامعہ مسجد کے باہر بھی ایک دن بہت بڑا احتجاج کیا گیا جس میں دلتوں (جنہیں اچھوت بھی کہا جاتا ہے)کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ایک لیڈر چندرشیکھر آزاد نے بھی اظہار یکجہتی کی تقریر کی جسے بعد ازاں گرفتار کر لیا گیا۔ دہلی میں اس سال ریاستی انتخابات ہونے ہیں جہاں پہلے ہی عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے اور اس دفعہ بھی اب بی جے پی کی جیت مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ دہلی کے ہی ایک علاقے شاہین باغ میں خواتین کا سخت ترین سردی میں ایک مرکزی شاہراہ پر دھرنا تین ہفتے سے مسلسل جاری ہے اور وہ بڑی تعداد میں اکٹھی ہو کر ان ظالمانہ قوانین کیخلاف احتجاج کر رہی ہیں۔
Women at #ShaheenBagh continue to protest amid heavy rain as well.
— Tarique Anwer (@tanwer_m) January 8, 2020
Hats off to their spirit!#CAA_NRC_Protests pic.twitter.com/r0vnz2F1y6
اتر پردیش میں بی جے پی کے عوام دشمن وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے بد ترین ریاستی جبر کی ایک نئی مثال قائم کر دی اور احتجاجی مظاہرین پر پولیس نے گولی چلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ میرٹھ، مظفر نگر، بجنور اور دیگر بہت سے شہروں میں بہت بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے جن پر نہ صرف پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس کے دستوں نے بد ترین جبر کیا اور مظاہرین کو ہلاک اور زخمی کیا بلکہ سینکڑوں افراد پر جعلی مقدمات بھی قائم کیے گئے اور انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔اس ریاستی جبر میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں نے بھی پولیس کے ساتھ مل کر مظاہرین پر تشدد کیااور انہیں مودی کے حق میں نعرے لگانے پرتشدد کے ساتھ مجبور کیا۔ یو پی سمیت بہت سی ریاستوں میں دفعہ 144 بھی نافذ کی گئی اور موبائل سروس اور انٹرنیٹ کو بھی بند کر دیا گیا تا کہ احتجاجی مظاہروں کو روکا جا سکے۔ لیکن اس کے باوجود مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔
#MumbaikarsAgainstCAB
— Mumbai Against Injustice (@MumbAgainstCAB) December 22, 2019
This is Dharavi shouting #Azadi ! pic.twitter.com/aZmlyQUx2c
ممبئی میں ہونے والے مظاہروں نے درحقیقت اس تحریک کی گہرائی اور وسعت کا کھل کر اظہار کیا۔ اس جدید شہر میں ایک طویل عرصے سے عوامی ایشوز پر کوئی بڑی تحریک دیکھنے میں نہیں آئی تھی جبکہ ماضی میں یہ شہر ٹریڈ یونین سرگرمیوں اور بائیں بازو کی سیاست کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ لیکن 70ء کی دہائی کی تحریکوں کے بعد پسپائی نظر آئی اور بال ٹھاکرے جیسے عوام دشمن افراد کا سیاست پر غلبہ ہو گیا۔ لیکن اب یہاں پر پھر ایک تحریک کاابھار نظر آیا اور دھاروی کی جھونپڑ پٹی سے ہزاروں افراد کا احتجاج ممبئی کی سڑکوں پر رواں دواں نظر آیا۔ آزاد میدان میں ہونے والا عوام کے جم غفیر کا احتجاج بھی اہمیت کا حامل ہے جہاں پر ممبئی میں ایک نئی طلبہ قیادت ابھرتی ہوئی دکھائی دی۔ اسی طرح بہار میں بہت بڑا احتجاجی جلسہ ہوا جس کی قیادت کنہیا کمار نے کی۔ کنہیا گزشتہ چار سالوں سے طلبہ سیاست میں ایک ملک گیر سطح کے قائد کے طور پر ابھرا ہے اور اب کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے انتخابی سیاست میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ لیکن اس ایشو پر ایک لاکھ سے زائد افراد کا احتجاج منعقد کرنا شاید اس نے خود بھی نہیں سوچا ہو گا۔اس کے علاوہ کلکتہ،بنگلور، مدراس سمیت تمام اہم شہروں میں احتجاج اور مظاہرے نظر آئے اور پورے ملک میں لاکھوں افراد اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔
اس تحریک کا ایک اہم پہلو اپوزیشن پارٹیوں کی ناکامی ہے جو اس تحریک کی قیادت کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔ کانگریس نے اس تحریک کے آغاز میں کوئی بھی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا اور تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔درحقیقت ان تمام تر پالیسیوں کی منصوبہ بندی کانگریس کے ادوار میں ہی کی گئی تھی جنہیں اب مودی حکومت عملی جامہ پہنا رہی ہے۔لیکن جب یہ تحریک عوامی شکل اختیار کر گئی تو مجبوراً کانگریس کی قیادت کو بیان بازی کرنی پڑی۔ پریانکا گاندھی، جو اتر پردیش کی سیاست میں سرگرم ہوتی ہے، اسے بھی کچھ مظاہروں میں مجبوری کے تحت شریک ہونا پڑا جس کی خوب پبلسٹی کی گئی لیکن ابھی تک کانگریس اس تحریک کو قیادت فراہم نہیں کر سکی جو درحقیقت اس کی سیاست کے دیوالیہ پن کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ اتر پردیش میں اکلیش یادیو کی قیادت میں سماج وادی پارٹی SPاور مایاوتی کی قیادت میں بھوجن سماج پارٹیBSP بھی اپوزیشن میں ہونے کے باوجودواضح مؤقف اختیار نہیں کر سکیں اور ان کی خاموشی کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر میں اُدھے ٹھاکرے کی قیادت میں بننے والی حالیہ مخلوط حکومت بی جے پی کیخلاف مفاد پرستی اور اقتدار کے حصول کی ایک بہت بڑی کشمکش کے بعد اقتدار میں آئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ تحریک کے حوالے سے واضح مؤقف اختیار نہیں کر سکی۔ گوکہ تحریک کے دباؤ کے تحت انہیں کہنا پڑا کہ وہ اس ریاست میں جیلیں نہیں بننے دیں گے۔
سب سے زیادہ مخالفت مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی اور اس کی پارٹی ترینمول کانگریس کی جانب سے نظر آئی ہے جس کی وجہ اس کا اپنا ڈولتا ہوا اقتدار ہے اور اسے خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی اس کو شکست دے دے گی۔ اسی لیے اس نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ریاست میں NRCکو لاگو نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح کیرالا میں کمیونسٹ پارٹیوں کے اتحاد کی حکومت نے بھی اس قانون کو یکسر رد کیا ہے اور اس کیخلاف پوری ریاست میں کانگریس کے ساتھ مل کراحتجاج منظم کر رہی ہیں۔
ابھی تک تمام تر مزاحمت کی بنیاد ہندوستان کے سیکولر آئین کو بنایا گیا ہے اور کمیونسٹ پارٹیوں سے لے کر طلبہ لیڈروں، لبرل دانشوروں اورصحافیوں تک ہرمقرر اور تجزیہ نگار اسی بنیاد پر اس قانون کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔اس کے علاوہ اس تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کی بجائے مختلف مذہبی گروہوں اور ذات پات کے اتحاداور یگانگت پر زور دیا جا رہا ہے جو درحقیقت سامراجی طاقتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے حکمرانوں کا ایجنڈا ہے جس کی بنیاد پر ہی اس قسم کی منافرت پر مبنی سیاست کو زہریلا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سے انگریز سامراج نے منصوبہ بندی کے تحت اس ایجنڈے کو ہندوستان پر مسلط کیا جسے گاندھی اور دوسرے لیڈروں نے مذہبی رواداری کے نام پر فروغ دیا اور بٹوارے کی راہ ہموار کی۔ لیکن درحقیقت یہ قانون اس آئین کی حدود اور بوسیدگی کو بھی واضح کرتا ہے جو آج کے دور میں ہندوستان میں رہنے والے عام شہریوں کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے۔ آج ہندوستان کی ریاست ایک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اورصرف گزشتہ تین سالوں میں پچاس لاکھ سے زیادہ افراد بیروزگا رہو چکے ہیں۔ آنے والے چند ماہ میں سرکاری ائیرلائن ائیر انڈیا سمیت اہم اداروں کی بھی نجکاری کی جائے گی جس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ صنعتیں پہلے ہی بڑی تعداد میں بند ہو رہی ہیں جبکہ نجی بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ جس چمکتے ہندوستان کا وعدہ مودی نے انتخابات سے قبل کیا تھا وہ آج غربت اور ذلت کی گہرائیوں میں دھنستا جا رہا ہے۔ ماضی میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی ترقی سے ہندوستان کے امیر ترین افراد کی دولت میں تو بے تحاشا اضافہ ہوا ہے لیکن محنت کشوں کی زندگیوں میں رونقیں نہیں آ سکیں۔ آج وہ نام نہاد ترقی بھی اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے اور بد ترین مالیاتی بحران ہندوستان کی معیشت پر نازل ہو چکا ہے۔ اسی بحران نے ہندوستان کی ریاست کو بھی کمزور کیا ہے اور وہ اپنی بقا کے لیے غیر معمولی فیصلے کرنے پر مجبور ہے۔
انہی فیصلوں میں سے ایک فیصلہ 5 اگست کو کشمیر کے حوالے سے کیا گیا تھا جب اس کی مخصوص حیثیت کا خاتمہ کر دیا گیا اور وہاں پر رہنے والے لاکھوں افراد کو ان کے گھروں میں ہی قید کر دیا گیا۔ یہ جبر گزشتہ پانچ ماہ سے ابھی تک جاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود آزادی کی اس تحریک کو کچلا نہیں جا سکا اور وہاں پر عوامی تحریک ابھی بھی موجود ہے۔ بلکہ وہ تحریک اب پورے ہندوستان کی تحریک بن چکی ہے اور کشمیر میں لگنے والاآزادی کا نعرہ اب پورے ہندوستان میں لگ رہا ہے۔ کشمیر میں قومی آزادی کے لیے لگنے والا یہ نعرہ اب پورے ہندوستان میں غربت، لاعلاجی، بیروزگاری،ناخواندگی اورریاستی جبر سے آزادی کے نعرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس تحریک کا سب سے اہم پہلو یہی ہے کہ کشمیر کی تحریک کی طرح اس نے بھی تمام پرانی قیادتوں کو رد کر دیا ہے اور نئی قیادتوں کو تراش کر سامنے لا رہی ہے۔ درحقیقت، یہ تحریک ہندوستان سمیت پورے خطے میں ایک بہت بڑے سیاسی اور سماجی عمل کا آغاز ہے جو اس خطے میں اہم تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔ پاکستان کی ریاست ابھی تک اس تحریک کو مودی کیخلاف اپنے مفادات کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس عمل میں یہ اس تحریک کو اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے رہی ہے۔ پاکستان کی ریاست اس تحریک کی حمایت کرنے کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ملک کی شہریت دینے کا اعلان نہیں کر رہی۔ یہاں رہنے والے لاکھوں مہاجرین پہلے ہی مختلف قسم کے جبر اور مظالم کا شکار ہیں خواہ وہ افغانستان سے ہجرت کر کے آئے ہوں یا بنگلہ دیش اورہندوستان سے۔ اس کے علاوہ غربت، مہنگائی،بیروزگاری، نجکاری،مذہبی جبر،قومی جبر اور سرمایہ د ارانہ نظام کی بدترین لوٹ مار اور استحصال یہاں بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ایسے میں اس تحریک کے شعلے یہاں بھی پھیل سکتے ہیں اور دونوں ریاستیں ابھرتی ہوئی ان عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے جنگ کا ناٹک بھی کر سکتی ہیں۔کیونکہ دونوں طرف مہنگائی میں بد ترین اضافہ ہو رہا ہے اور دونوں ممالک کے حکمرانوں کے پاس اپنے اپنے مالیاتی بحرانوں سے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں۔بنگلہ دیش کی حکومت نے پہلے ہی اس تحریک سے خود کو محفوظ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے اور ہندوستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں انٹرنیٹ کو بند کردیا گیا ہے۔
حکمرانوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود آنے والے عرصے میں یہ تحریکیں شدت اختیار کریں گی۔ 8جنوری کو ہندوستان میں ہونے والی ملک گیر عام ہڑتال اس میں کلیدی کردار ادا کرے گی جس کی کال کمیونسٹ پارٹیوں اور ٹریڈ یونین قیادتوں کی جانب سے دی گئی ہے۔ لیکن آنے والے عرصے میں اس تحریک کا کردار بھی مزید واضح ہوتا جائے گا اور محنت کشوں کا سوال آئین کی چندشقوں میں تبدیلی سے بڑھ کر اس سرمایہ دارانہ نظام پر اٹھے گا جس کے ہوتے ہوئے نہ تو مذہبی اور قومی جبر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔ ان تمام مسائل کا حل صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کو اکھاڑ پھینکے گا اور ایک جمہوری مزدور ریاست تعمیر کرے گا۔ایک ایسی جمہوری سوشلسٹ ریاست جس میں نہ صرف قومی اور مذہبی جبر بلکہ ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہوگا اور امیر اور غریب پر مبنی یہ طبقاتی نظام ہی مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔