|تحریر: نعمان بشواس، ترجمہ: انعم خان|
کام کے ناقابلِ برداشت حالات اور کم اجرتوں کے خلاف 31 جنوری سے دہلی سٹیٹ آنگن وادی ورکرز اینڈ ہیلپرز یونین (ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو) کے ممبران کی ہڑتال جاری ہے۔ ان کی شاندار جدوجہد پورے بھارت کے محنت کشوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آنگن وادی ایک طرح کے بچوں کے نگہداشت کے مراکز ہیں، جنہیں بھارتی حکومت نے 1975ء میں بچوں کی نشوونما کی مربوط سہولیات کے پروگرام کے طور پر شروع کیا تھا تاکہ بچوں میں بھوک اور غذائی قلت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ بھی آنگن وادی کی ورکرز اور سہولت کار خواتین (پاکستان میں موجود لیڈی ہیلتھ ورکرزکی طرح) آبادیوں میں خواتین کو زچگی کے دوران مشورں اور احتیاط جیسی وسیع سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں؛ یہ ورکرز اور سہولت کار بھارتی صحتِ عامہ میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ کرونا وباء کے آغاز سے ہی خوارک اور ویکسینیشنز کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے یہ ورکرز اور سہولت کار صف اول پر موجود تھیں۔
اتنا اہم کردار ادا کرنے کے باوجود بھی انہیں (سرکاری) ملازم کا درجہ نہیں دیا گیا۔ انہیں باقاعدہ اجرت کی بجائے مفت سہولت فراہم کرنے کے عوض اعزازیہ رقم ادا کی جاتی ہے۔ بھارت میں اوسط اجرت 31 ہزار 900 روپے ہے۔ ان اعداد وشمار میں وسیع پیمانے کی نابرابری ہونے کے باوجود، آنگن وادی ورکرز اور سہولت کار بالترتیب 3 ہزار 500 اور 2 ہزار 500 ماہانہ وظیفہ کے طور پر وصول کرتی ہیں، اس کے علاوہ مختلف ریاستوں کی حکومتیں اپنے اپنے حساب سے اس رقم میں حصہ ڈالتی ہیں۔
اس وقت دہلی ریاست میں آنگن وادی ورکرز اور سہولت کار بالترتیب 9 ہزار 698 اور 4 ہزار 839 روپے ماہانہ کماتی ہیں۔ انہیں سال بھر میں بیس چھٹیاں کرنے کی اجازت ہے۔ البتہ، کہا جاتا ہے کہ اتنی کم اجرت سے بھی ہر بار چھٹی کرنے پر کٹوتی کی جاتی ہے۔
صرف دہلی میں ہی 22 ہزار کے لگ بھگ آنگن وادی ورکرز اور سہولت کار ان مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ پورے بھارت میں خوفناک حالات اور کم اجرت کا سامنا کرنے والے آنگن وادی ورکرز اور سہولت کاروں کی تعداد تو لاکھوں میں ہے۔
ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کی ایک ممبر رجنی نے اپنے انٹرویو میں کہا:
”ہمارے کام کے کوئی مخصوص اوقاتِ کار بھی نہیں ہیں۔ ویسے تو ہمارا کام کرنے کا وقت صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے ہونا چاہیے۔ البتہ رات بارہ بجے بھی ہمارے سپروائزر ہمیں بلا کر کام کرنے کا کہتے ہیں۔ ہمارے مراکز میں جان بوجھ کر ہمارا کھانا لانے میں تاخیر کی جاتی ہے اور ہمیں شام 5 بجے تک وہاں روکا جاتا ہے۔“
ایک اور یونین ممبر راگنی کا کہنا تھا:
”2017-18ء میں کیجریوال حکومت کی جانب سے ہمیں دیے گئے فون بھی ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔ ہم میں سے زیادہ تر کے پاس اپنے موبائل فون نہیں ہیں، اس کے باوجود بھی ہمیں اپنی جیب سے انٹرنیٹ کے پیسے بھرنے پڑتے ہیں کیونکہ ہمیں پوشن ٹریکر ایپ میں ضروری ڈیٹا اپلوڈ کرنا ہوتا ہے۔ اضافی اخراجات کی واپسی کو تو بھول جائیں۔۔۔ہمیں ایک ماسک تک فراہم نہیں کیا گیا۔ دوسروں کو امداد فراہم کرنے میں خرچ ہونے والے ہمارے کام کے معاوضوں سے لے کر ہماری ذاتی بچتوں تک، ہمیں کبھی بھی کسی کی واپس ادائیگی نہیں کی گئی۔“
ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو نے مندرجہ ذیل مطالبات سامنے رکھے ہیں:
۔ اعزازی رقم میں ورکرز اور سہولت کاروں کے لیے بالترتیب 25 ہزار اور 20 ہزار روپے کا فوری اضافہ کیا جائے۔
َ۔ یکم اکتوبر 2018ء کو مرکزی حکومت کی جانب سے کیے گئے اعلان کے مطابق ورکرز اور سہولت کاروں کے اعزازیے کی رقوم میں اضافہ کیا گیا تھا مگر اس کی ادائیگی نہیں کی گئی، دہلی اور مرکزی حکومتیں اس اضافے کے بقایاجات (57 ہزار اور 28 ہزار 500 روپے) کی فوری ادائیگی 38 مہینوں تک یقینی بنائیں۔
۔ دہلی اور مرکز کی حکومتیں ’سہیلی معاون مراکز‘ قائم کریں اور آنگن وادی ورکرز اور سہولت کاروں کے متعلق نئی تعلیمی پالیسی کے فیصلوں کو واپس لیا جائے۔ آنگن وادی کی محنت کش خواتین کے لیے کام کے اوقاتِ کار کو بڑھانے کے فیصلے کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
۔ آنگن وادی محنت کشوں کو ریٹائرمنٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
لڑاکا طبقاتی جدوجہد
ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کی جانب سے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کے اعلان کے فوری بعد ہی ورکرز اور سہولت کاروں نے عام آدمی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی رہائش گاہ کے باہر احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا۔
ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو نے پورے دہلی میں کئی بڑی احتجاجی ریلیاں اور مارچ منظم کئے ہیں۔ اس میں ان کی یونین کے ہزاروں ممبران نے شرکت کی۔
جیسے ہی غیر معینہ مدت کی ہڑتال آگے بڑھی، آنگن وادی کی محنت کش خواتین نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے وہاں نگہداشت کے مراکز قائم کر لیے۔ 13 فروری کو ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کی قیادت کی سرپرستی میں پروگریسیو ڈاکٹرز لیگ کی جانب سے کیجریوال کی رہائش گاہ کے قریب میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔
اس طرز کی یکجہتی اور لڑاکا عمل میں تمام بھارتی مزدور تحریک کے لیے اسباق موجود ہیں، جن سے سیکھتے ہوئے مزدور تحریک کو تعمیر کیا جانا چاہیے۔ محنت کش طبقے کی سب سے زیادہ استحصال زدہ اور مظلوم پرت کی جانب سے اس غیر معینہ مدت کی ہڑتال میں موجود عزم اور ولولہ ان یونین کنفیڈریشن قائدین کی محدود فہم و فراست کے بالکل برعکس ہے، جنہوں نے 28 اور 29 مارچ کو دو روزہ ملک گیر عام ہڑتال کی کال دی تھی، جس میں پچھلی ہڑتالوں کی نسبت کم (متوقع 20 کروڑ کی بجائے 5 کروڑ) محنت کشوں نے شرکت کی۔
محنت کشوں کی اس مایوس کن تعداد میں شرکت کو ایک حوالے سے یونین قیادت کی جانب سے ہڑتال کو دو دن تک محدود کرنے کے عمل میں سمجھا جاسکتا ہے، جس کا مقصد محنت کش طبقے میں بھرے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنا تھا۔ حالیہ سالوں میں اس سے کئی گنا بڑی ملک گیر عام ہڑتالیں منعقد کی جا چکی ہیں مگر ان کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے، جسے دیکھتے ہوئے محنت کش اب کی بار اس قسم کی علامتی کارروائی میں اپنا وقت ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ضرورت غیر معینہ مدت کی ایک ملک گیر عام ہڑتال کی ہے جس کا واضح ہدف گلی سڑی مودی حکومت کا خاتمہ کرنا ہو۔ بڑی یونینز کو آنگن وادی محنت کشوں کے لڑاکا طریقہ کار کی مثال پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
غداریاں
بدقسمتی سے، یوں دکھائی دے رہا ہے کہ یونینز کی اعلیٰ قیادتیں جدوجہد کو محدود کرنے اور مالکان سے معاہدے کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز (سی آئی ٹی یو) کی قیادت نے خود سے منسلک دہلی آنگن وادی ورکرز اینڈ ہیلپرز یونین (ڈی اے ڈبلیو ایچ یو) کے ذریعے افسران سے ایک غلیظ معاہدہ کرنے کی کوشش کی۔ ڈی اے ڈبلیو ایچ یو، غیر معینہ مدت کی ہڑتال منعقد کرنے والی ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو سے ایک الگ یونین ہے۔ ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو نے سی آئی ٹی یو اور اس سے منسلک تنظیموں کی اعلانیہ غداری کی بالکل بجا طور پر مذمت کی ہے۔
ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو درست طور پر نشاندہی کرتی ہے:
”ہم ایک بار پھر کہہ رہے ہیں کہ کیجریوال حکومت کے ساتھ ہونے والے کسی دلال یا مصنوعی یونین کے کسی بھی مصنوعی سمجھوتے کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو ہی 22 ہزار آنگن وادی محنت کشوں اور ان کے مفادات کی نمائندگی کرنے والی واحد یونین ہے۔ ہماری یونین کو نظر انداز کرنے کی کسی بھی سازش کی کیجریوال حکومت کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔“
بھارتی ریاستی افواج نے بھی اس جدوجہد کے خلاف اپنا مکروہ اور رجعتی کردار آشکار کر دیا ہے۔ ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کی ایک رپورٹ کے مطابق:
”11 فروری 2022ء کو یونین کی جانب سے ہونے والی ’خبردار ریلی‘ کے دوران دہلی پولیس نے محنت کش خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی۔ خواتین کی پرامن ریلی کے شروع ہونے سے پہلے ہی اسے روکنے کے لیے دہلی پولیس نے اپنا وحشیانہ چہرہ دکھایا۔ مرد پولیس اہلکاروں نے احتجاج کرتی خواتین کے ساتھ بد سلوکی کر کے انہیں سڑکوں پر گھسیٹا، جس کے سبب کئی خواتین شدید زخمی بھی ہوئیں۔ دہلی پولیس کا عورت دشمن چہرہ ایک بار پھر سب کے سامنے عیاں ہوا ہے۔ عورت کو اپنے پیروں کی جوتی سمجھنے والے پولیس اہلکاروں نے خواتین پر حملہ کیا، لیکن ہزاروں خواتین بہ آوازِ بلند نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔ پولیس کے وحشیانہ تشدد کے باوجود بھی ان محنت کش خواتین کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور وہ اب بھی اسی بہادری کے ساتھ اپنے مطالبات پر ڈٹی ہوئی ہیں۔“
15 مارچ کو ایک بار پھر پولیس نے ان نڈر خواتین پر حملہ کیا۔ کئی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان میں سے ایک خاتون ورکر اس پرامن احتجاج کے دوران بے ہوش بھی ہوگئی۔
پولیس مزدور دشمن حکومت اور پارٹیوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ یہ سب سرمایہ دارانہ معاشرے کے بیہودہ تعصبات کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ سفاکی سے محنت کشوں کی جانب سے تمام خطرات کے خلاف بھارتی سرمایہ دارانہ نظام کا دفاع کریں گے۔
ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کی تاریخی ہڑتال کے جواب میں دہلی کے لیفٹینٹ گورنر انیل بیجال نے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے رجعتی قانون (ایسینشیل سروسز مینٹیننس ایکٹ: ای ایس ایم اے) کی آڑ میں ہڑتال پر حملہ کروایا، جو کہ ریاست کو طاقت کے زور پر ہڑتال توڑنے کی آزادی دیتا ہے۔ ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کی صدر شیوانی کا کہنا تھا:
”حکومت تو آنگن وادی ورکرز اور ہیلپرز کو سرکاری ملازم کا درجہ تک نہیں دیتی۔ وہ ہمیں اعزازی رقم پر کام کرنے والے رضاکار سمجھتے ہیں (یعنی سرکاری اعتبار سے ہم کوئی کام نہیں کر رہے یا خدمات مہیا نہیں کر رہے)۔ تو پھر دہلی کے عزت مآب لیفٹینٹ گورنر نے کس حساب سے ہم پر ای ایس ایم اے کا اطلاق کیا؟ ظاہر ہے، یہ عمل سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔“
ای ایس ایم اے کے اطلاق کے سبب ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو نے عارضی طور پر ہڑتال روک دی ہے۔ شیوانی کا کہنا تھا کہ ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو اس قانون کے اطلاق کے خلاف عدالت میں کیس کرے گی؛ اور اگر عدالت ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کے خلاف فیصلہ کرے تو شیوانی کا کہنا تھا کہ اس صورت میں وہ ”سول نافرمانی کر کے ای ایس ایم اے کی خلاف ورزی کریں گے اور ہڑتال کو دوبارہ جاری کریں گے۔“
آگے کیسے بڑھا جائے؟
آنگن وادی محنت کشوں کے احتجاج ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تامل ناڈو میں بھی آنگن وادی ورکرز اور ہیلپرز انہی مطالبات کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
عوام تمام سیاسی پارٹیوں سے نفرت کرتے ہیں جنہوں نے خود کو عمل میں مزدور اور کسان دشمن ثابت کیا ہے۔ ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو سرمایہ دارانہ عدالتوں سے انصاف کی فراہمی کے معاملے پر اعتماد نہ کرنے میں بھی بالکل درست ہے، کیونکہ ان عدالتوں کے وجود کا حتمی مقصد ہی نجی ملکیت اور بڑے کاروباریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ اسی لیے اگر عدالت یونین کے خلاف فیصلہ کرتی ہے تو اس صورت میں محنت کشوں کا اپنی جدوجہد جاری رکھنا بالکل درست ہوگا۔
پورے بھارت میں آنگن وادی ورکرز اور سہولت کار لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو کے مطالبات کو ملک بھر کے محنت کشوں کے مطالبات کے ساتھ جوڑتے ہوئے آنگن وادی ورکرز اور سہولت کاروں کی ملک گیر ہڑتال کو منظم کیا جانا چاہیے۔ آنگن وادی ورکرز اور سہولت کاروں کی جدوجہد کو پورے بھارت کے محنت کشوں کی جدوجہد سے جوڑنا ہوگا؛ جسے پھر کسانوں کی جدوجہد سے بھی جوڑنا ہوگا۔
اس جدوجہد کو غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی صورت آگے بڑھانا ہوگا، جس میں بھارتی معاشرے کی تمام استحصال زدہ اور مظلوم پرتیں شامل ہوں، اور اس کا رُخ ان کی تمام تر اذیتوں کی جڑ کی جانب موڑنا پڑے گا؛ یعنی رجعتی مودی حکومت، خون چوسنے والا بھارتی سرمایہ دارانہ نظام، اور وہ ملٹی نیشنل سرمایہ دارانہ کارپوریشنز جن کو وہ ایمانداری کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔