|تحریر: ارسلان غنی، ترجمہ: ولید خان|
20 ستمبر کو حکومت کی جانب سے 3 کسان دشمن زرعی قوانین کی منظوری کے بعد ہندوستان میں کسانوں کی احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریر میں مذکورہ زرعی قوانین، ہندوستانی کسانوں کی جدوجہد، زرعی شعبے میں سرمایہ دارانہ انتشار اور انقلابی حل پر بحث کی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر 20 سے زائد ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان زرعی قوانین کی منظوری کے بعد 10ہزار سے زائد مقامات پر خودرو احتجاج پھوٹ پڑے جن میں لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ سے زائد کسان پنجاب سے لے کر بنگال اور بہار سے لے کر تامل ناڈو تک مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئے۔ سب سے بڑے احتجاج پنجاب اور ہریانہ کی زرعی ریاستوں میں دیکھنے کو ملے۔ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی ریاستوں میں بھی بڑے احتجاج ہوئے جو کہ زرعی لحاظ سے اہم ریاستیں گردانی جاتی ہیں۔ کسان تنظیموں کے علاوہ دیگر تنظیموں کی جانب سے بھی احتجاج منظم کیے گئے۔ 25 ستمبر کے روز کسانوں اور محنت کشوں نے مشترکہ طور پر ”بھارت بند“ کے نام سے پہیہ جام ہڑتال کی جس میں کئی ایک ریاستوں میں تمام سرکاری اور نجی ادارے بند رہے۔
ریاستی حملوں کے خلاف کسان کئی سالوں سے سراپا احتجاج ہیں مگر حالیہ احتجاج مقدار اور معیار، دونوں حوالوں سے بڑے ہیں۔ احتجاجی کسان دھرنوں، احتجاجی ریلیوں، غلہ گوداموں اور فیکٹریوں کی بندش، ریلوے لائنیں بلاک کرنے سمیت احتجاج کا ہر حربہ استعمال کررہے ہیں۔ کئی ایک جگہوں پر ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کرنے کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ پنجاب میں بھارتیہ کسان یونین بڑی زرعی کارپوریشنوں کی فیکٹریوں اور گوداموں کے محاصروں سمیت ٹال پلازوں اور پاور پلانٹس پر بھی دھرنے دے رہی ہے۔ دیگر کسان تنظیموں، بشمول کیرتی کسان یونین، آزاد کسان سنگھرش کمیٹی اورکسان سنگھرش کمیٹی نے جالندھر سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ منورنجن کالیا اور ہنس راج ہنس اور امرتسر سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ شوویت ملک کے گھروں کے باہر مشترکہ احتجاج کیا اور دھرنا دے دیا۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق احتجاجی کسانوں نے بیس سے زائد مقامات پر ریلائنس پٹرولیم (ارب پتی مکیش امبانی کی تیل کی کمپنی۔ مترجم) اور ایسار گروپ کے پٹرول پمپوں اور دفاترکا گھیراؤ کیا اور ان کو بند ہونے پر مجبور کردیا۔ پنجاب کے ضلع موگہ میں احتجاجیوں نے ہندوستان کے بڑے سرمایہ دار گروپ ادانی کے غلہ گوداموں پر دھاوا بول دیا اور ان پر قبضہ کر لیا۔
ہریانہ کی ریاست میں کسانوں نے کئی سڑکوں کو بلاک کردیا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق احتجاجی کسانوں نے کرک شتر، انبالہ اور جمنا نگر میں نا صرف کئی ایک اہم شاہراہوں بلکہ ریلوے لائنوں کو بلاک کرتے ہوئے دھرنا دے دیا۔ لبرل سرمایہ دار نواز کانگریس پارٹی کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی دھمکیوں کے باوجودکسان مزدور سنگھرش کمیٹی نے ریلوے لائنیں خالی کرنے سے انکار کر دیا۔
دائیں بازو کی ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ان ریاستوں سے منتخب اراکین پارلیمنٹ کو زرعی علاقوں کے دورے کرنے کے احکامات جاری کیے گئے کہ وہ ان علاقوں میں جا کر کسانو ں کو ان زرعی قوانین کے ’فوائد‘ سے آگاہ کریں۔ جب مذکورہ اراکین پارلیمنٹ اپنے اپنے علاقوں میں پہنچے تو غصے سے بھرے کسانوں نے شدید نعرے بازی اور کالے جھنڈوں سے ان کا استقبال کیا۔ شرمندگی سے بچنے کے لیے بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ نے کانگریس پر کسانوں کو اکسانے کا الزام دھر دیا۔ انڈین نیشنل کانگریس اپنی سرشت میں ایک مزدور دشمن اور کسان دشمن پارٹی ہے جو کہ حالیہ عرصے تک کسانوں کے احتجاجوں سے بالکل لاتعلق دکھائی دیتی تھی اور ان قوانین کی منظوری کے بعد بھی اس کا ردعمل محض علامتی بیان بازی تک محدود رہا۔ مضحکہ خیز امر تو یہ ہے کہ دائیں بازو کی سکھ پارٹی ’شرومنی اکالی دل‘ نے بھی کئی بی جے پی لیڈران کے گھروں کے باہر دھرنے دئیے۔ اکالی دل خود کئی دہائیوں سے پنجاب میں برسر اقتدار ہے اور اس وقت بھی مرکز میں بی جے پی اتحادی جماعت ہے۔
29 ستمبر کو 31 کسان تنظیموں اور یونینوں کے ایک وفد نے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ سے ملاقات کی مگر امریندر سنگھ کے پاس سوائے خالی خولی باتوں کے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور اس نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا۔ امریندر سنگھ کی کھوکھلی لفاظی کے بعد کسانوں نے اکتوبر کے مہینے سے آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی (AIKSCC) کے بینر تلے متحد ہو کر اپنی جدوجہد میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا۔ آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی نے مذکورہ قوانین کی واپسی تک حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا۔ کسان سنگھرش کمیٹی اس وقت نومبر کے مہینے میں دارالحکومت دہلی کو بند کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ روایتی سیاسی پارٹیوں کی حمایت ہویا نہ ہو، دونوں ہی صورتوں میں وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
کسان کیوں سراپا احتجاج ہیں؟
ہندوستان کی سوا ارب سے زائد آبادی میں سے دو تہائی آبادی کا ذریعہ معاش زراعت کے ساتھ منسلک ہے۔ ہندوستان کے زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں 17 فیصد حصہ ہے جس کا حجم لگ بھگ 2.3 ٹریلین ڈالر بنتا ہے۔ 20 ستمبر کو مودی سرکار کی جانب سے پاس کیے جانے والے قوانین میں فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس بل 2020ء، فارمرز ایگریمنٹ آف پرائس اشورنس و فارم سروسز بل 2020ء اور ایسنشل کموڈیٹیز بل 2020ء شامل ہیں۔
مذکورہ قوانین زرعی شعبے سے مڈل مین اورتاجروں کا کردار کم کرتے ہوئے بڑی کارپوریشنوں کی راہ ہموار کریں گے کہ وہ براہ راست کسانوں کے ساتھ لین دین کرسکیں اور یہ سب کچھ کسانوں کی آزادی کے نام پر کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پیداوار بیچنے اور خریدنے میں آزاد ہوں گے۔ اس قانون کے تحت کسان اپنی پیداوار ایگریکلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی (APMC)، جو کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی کم از کم امدادی قیمت (MSP) کی گارنٹی دیتی ہے، سے باہربڑی کارپوریشنوں کو بیچ سکیں گے۔ کم از کم امدادی قیمت کسانوں کے لیے دراصل کم ازکم اجرت کی ہی ایک شکل ہے یعنی وہ کم از کم قیمت جو کہ ہر کسان کو اس کی پیداوار کے عوض ادا کی جاتی ہے۔ ایگریکلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی سے باہر کسانوں سے لین دین والی کمپنیاں کم از کم امدادی قیمت دینے کی پابند نہیں ہوں گی اور اس قسم کے لین دین کو فروغ دینے کی خاطر ان زرعی قوانین میں ٹیکس چھوٹیں متعارف کروائی گئی ہیں۔ یہ زرعی قوانین ذخیرہ اندوزی کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس میں وقت اور مقدار کی حدود و قیود کے بغیر پیداوار ذخیرہ کی جاسکے گی۔ نتیجتاًایسی فصلوں کی کاشت میں اضافہ ہوگا جو کہ ذخیرہ کی جاسکتی ہیں۔ مستقبل کے معاہدوں (پیداوار اور قیمتوں کے حوالے سے۔مترجم) کی بھی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور یوں اس شعبے کو بھی سٹے بازگِدھوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس سب سے یہ واضح ہے کہ مذکورہ قوانین بڑی مہارت کے ساتھ ترتیب دئیے گئے ہیں تا کہ سرمایہ دار کھل کر کسانوں کو نچوڑ سکیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسی ہندوستانی حکومت نے زرعی شعبے کو لبرلائز کرنے کی کوشش کی ہے۔ کانگریسی حکومتوں میں بھی ایسی کئی کوششیں کی گئیں۔ پچھلی حکومتوں کی لبرلائزیشن کی کوششوں نے کسانوں کو ایک گھن چکر میں پھنسا کر رکھ دیا جس میں پیداواری لاگت بڑھتی گئی، فصلوں کی پیداوار بے یقینی کا شکار ہوتی گئی، قیمتوں میں کمی آتی گئی، قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا اور جدید زرعی تکنیک کمیاب ہوتی چلی گئی۔ اس امر کی ہم آگے چل کر مزید وضاحت کریں گے۔
ماضی کے کسان احتجاج
زرعی شعبے کی لبرلائزیشن کی کوششوں کی طرح یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسان برسر احتجاج ہیں۔ پچھلے عرصے میں ہونے والے تمام کسان احتجاجوں کی بڑی مانگیں کم و بیش ایک ہی تھیں جن میں قرضوں کی معافی اور کم ازکم امدادی قیمت میں اضافہ شامل تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسان احتجاجوں کے حجم اور شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پچھلے سال نومبر میں ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنر شپ (RCEP) کے خلاف کسانوں کے احتجاج ابھرے جس کے تحت کئی زرعی مصنوعات پر عائد امپورٹ محصولات میں کمی کی جا رہی تھی جو کہ مقامی کسانوں کے لیے موت کا پیغام تھا۔ اسی طرح فروری 2019ء میں مہاراشٹر میں 44 ارب ڈالر مالیت کی ایک آئل ریفائنری کے قیام کے حکومتی منصوبے کے خلاف کسانوں کے احتجاج پھوٹ پڑے کیونکہ یہ منصوبہ مقامی آم اور کاجو کے باغات کے ساتھ ساتھ ماہی گیری کو برباد کرکے رکھ دیتا۔
دسمبر 2018ء میں قرضوں کے بڑھتے بوجھ کے خلاف راجستھان کی ریاست میں کسانوں نے احتجاج کیے۔ نتیجتاً انتخابی مہم کے دوران کانگریسی لیڈر راہول گاندھی نے دو لاکھ روپے تک کے قرضے معاف کرنے کا وعدہ کیا۔ مگر یہ وعدہ آج تک وعدہ ہی رہا اور کسان قرض کی دلدل میں مزید دھنس چکے ہیں۔ ستمبر 2018ء میں کسانوں نے دارالحکومت دہلی کو مفلوج کرکے رکھ دیا اور قرض معافی بڑھانے، ایندھن کی قیمتوں میں کمی، کم ازکم امدادی قیمت میں اضافے اور نجکاری کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ جواب میں کسانوں کو واٹر کینن اور پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ کسانوں کے دیگر قابل ذکر احتجاجوں میں 2016ء میں دہلی میں ہونے والے احتجاج ہیں جب کرناٹک حکومت نے دریائے کاویری کا پانی ریاست تامل ناڈو کو دینے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں پانی کی شدید قلت سے فصلیں برباد ہو گئیں اور کسانوں کی خودکشیوں میں سب سے بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے دہلی کی جانب مارچ کیا اور حکومت سے ریلیف پیکج دینے کا مطالبہ کیا۔ 2016ء میں مدھیہ پردیش پولیس نے اس وقت کسانوں کے احتجاج پر فائر کھول دئیے جب وہ حکومت اور تاجروں سے فصلوں کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں چھ کسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کئی سالوں پر محیط ان کٹی ہوئی اور الگ تھلگ جدوجہدوں نے کسانوں کو سوچ بچار اور اپنے اقدامات کی شدت میں اضافے پر مجبور کردیا۔ اور یہی اس وقت ہم ملک کے طول و عرض میں ہوتا دیکھ رہے ہیں جب کسان (ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے۔مترجم) پیش بندی کے ساتھ ملک گیر بڑے بڑے احتجاج اور دھرنے دے رہے ہیں۔ تاہم احتجاجی کسانوں میں تاحال یہ خوش فہمی موجود ہے کہ ریاست، پارلیمان اور عدلیہ ان کی شکایات سنیں گے اور مطالبات تسلیم کرلیے جائیں گے۔ بہر کیف حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اس بحرانی عہد میں کسانوں کے حالات زندگی میں بہتری ممکن نہیں۔
ہندوستانی زرعی شعبے کے حالات
کسان قرضے لے کر بیج اور دیگر ضروری وسائل مہنگے داموں خریدتے ہیں، پورا خاندان مہینوں کھیتوں کو اپنے خون پسینے سے سینچتا ہے اور آخر پر اپنی تیار فصل کوڑیوں کے مول مڈل مینوں اور تاجروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ آمدنی کا ایک قابل ذکر حصہ قرض اتارنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ پچھلے ایک سال میں بیجوں اور کھادوں کی قیمت میں سب سے بڑااضافہ دیکھنے میں آیا جب کھادوں کی قیمت میں 25 فیصد اور بیجوں کی قیمت میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔ اگرچہ کرم کش ادویات کی قیمتوں میں تو اضافہ نہیں ہوا مگر فی ہیکٹر مطلوبہ مقدار میں اضافے کی وجہ سے لاگت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سالوں میں ایندھن، جو کہ زراعت میں استعمال ہونے والا ایک اہم عنصر ہے، کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔
(ان حالات میں) کوآپریٹوز، مڈل مین، بینکوں اور مائیکرو فنانس کمپنیوں کے ایجنٹوں کی شکل میں موجود مگرمچھ مشکل میں گھرے کسانوں کو اپنی ’خدمات‘ پیش کرتے ہیں۔ قرضوں کے اس سلسلے کا کوئی انت نہیں ہوتا اور نتیجتاً قرض اور اس پرسود کا پہاڑ کھڑا ہوجاتا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے تازہ ترین اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت زرعی قرضوں کا حجم 187 ارب ڈالر کے برابر پہنچ چکا ہے اور زرعی پیداوار کے مقابلے میں ان قرضوں کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ کسانوں پر چڑھے یہ قرضے، کسانوں میں خودکشیوں کی ایک بڑی وجہ بتائے جاتے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر مہینے ایک ہزار کسان خودکشیاں کرتے ہیں جبکہ ریاست مہاراشٹر میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے جہاں تین سو کسان ہر مہینے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ اصل حقائق اس سے کئی گنا تلخ ہیں۔
کسانوں کی آمدنی زیر کاشت کھیت کے رقبے کے براہ راست متناسب ہے۔ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ایک کسان اسی وقت جینے کے قابل اجرت کما سکتا ہے جب کھیت کا رقبہ پانچ ایکڑ سے زائد ہو۔ لیکن ہندوستان میں 86 فیصد زرعی رقبے چھوٹے رقبوں کے زمرے میں آتے ہیں یعنی 5 ایکڑ یا اس سے کم۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندوستانی کسانوں کی ایک بھاری اکثریت بمشکل اتنا کما پاتی ہے کہ زندہ رہ سکے یا بصورت دیگر بھاری بھر کم قرضوں میں جکڑے ہوئی ہے۔ فصل کو پہنچنے والا معمولی سا نقصان بھی کسانوں اور ان کے خاندانوں کے لیے قیامت خیز ہوتا ہے چاہے اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہویا منڈی کا بیٹھ جانا۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو نوازنے کی مسلسل حکومتی کوششیں کسانوں کی آمدنی کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ سال 2017ء اور 2018ء میں مودی سرکار کی جانب سے متعدد زرعی درآمدات پر امپورٹ محصولات میں کمی کے نتیجے میں کسانوں کی آمدنی بری طرح متاثر ہوئی۔ تاجروں اور مڈل مینوں نے سارا بوجھ کسانوں پر منتقل کر دیا اور خود کو نقصان سے بچا لیا۔
کسانوں میں بڑھتے اضطراب کی ایک اور وجہ اخراجات میں ہر لحظہ ہوتے اضافے کے مقابلے میں آمدنی میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونا بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے زرعی سپلائی چین کے ہر قدم پر منہ کھولے بیٹھے منافع خور مگرمچھ کسان سے زیادہ سے زیادہ قدر نچوڑنے کے درپے ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ قرضے کے مسلسل بڑھتے پہاڑ کے سامنے کسان کو اپنی گراں محنت بھی بے وقعت معلوم ہونے لگتی ہے۔ زرعی منڈیوں میں بیٹھے مگرمچھوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسان کو رتی برابر رقم بھی نہ بچے۔ قرضے دینے والے مگرمچھ قرض دے کر کسانوں کو لوٹتے ہیں۔ بڑھتی لاگت، بیگانگی، قرضوں اور مڈل مینوں کی پہنائی غلامی کی بیڑیوں سے جنم لینے والا اضطراب جہاں ایک طرف کسانوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہا ہے تو دوسری جانب ان کو احتجاج کی راہ اپنانے پر بھی مجبور کر رہاہے۔
تین زرعی قوانین
اگرچہ تمام ریاستوں میں زرعی مارکیٹ کمیٹیوں کی تشکیل حکومت کی جانب سے کی جاتی ہے مگر حقیقت میں اس کو نجی منافع خور اور کارٹیل ہی کنٹرول کر تے ہیں۔ بڑی کارپوریشنوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ چھوٹے اور پیٹی بورژوا کھلاڑیوں کو منڈی سے باہر کیا جائے اور زرعی پیداوار کو اپنے قبضے میں کرتے ہوئے منڈی پر غلبہ حاصل کیا جائے۔ ایک لمبے عرصے سے سائنس اور تکنیک میں کم سرمایہ کاری کی بدولت ہندوستان زرعی ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق زرعی تکنیک منڈی کے پوٹینشل کا محض ایک فیصد استعمال کر رہی ہے۔ جدید زرعی تکنیک سے لیس کارگل، آرچر ڈینیلز مڈلینڈ، اے ڈی ایم سی، ڈئیراینڈ کو، مونسانٹو، سِین جینٹا، بائیر اور بی اے ایس ایف جیسی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہندوستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں زرعی پیداوار اپنے قبضوں میں لے رہی ہیں۔ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ہندوستانی حکومت ہزاروں چھوٹی کمپنیوں اور مڈل مینوں کے بجائے ہمیشہ ان ملٹی نیشنل گِدھوں کا کھلی بانہوں سے استقبال کرے گی کہ وہ آئیں اور زرعی شعبے کو لوٹیں۔ اکثریت میں موجود چھوٹے کسانوں پر ’منڈی نظام‘ کے لائسنس یافتہ خریداروں یعنی مڈل مین اور تاجروں کے دیو ہیکل قرضے چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ مڈل مین ایک وقت میں 500 سے 1000 کسانوں کو کنٹرول کرتے ہوئے شدید معاشی اور سیاسی استحصال کرتے ہیں اور انتخابات میں پاور بروکر بنے ہوتے ہیں۔ وہ غلامی پر مجبور قرضوں میں گھرے کسانوں کو کاروبار سے متعلق مطالبوں کے حصول کے لئے حکومتی دفاتر کے سامنے احتجاجوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مڈل مین بغیر ضمانت کے قرضے دینے کے ساتھ کسانوں کے لئے اگلی فصل کی کاشت، کرم کش ادویات اور بیج کے حوالے سے انفارمیشن کا بھی ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً اس سارے کھلواڑ میں مڈل مین اندھی لوٹ مار کرتے ہیں اور کسان ساری عمر غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔
بڑی کارپوریشنوں کے لئے ’منڈی نظام‘ جنگل کا قانون ہے جس میں کمیشن ایجنٹ، مڈل مین اور کرپٹ حکومتی اہلکار تمام دائمی بیوروکریٹک گھمن گھیریوں میں شتر بے مہار بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے مودی کے فارم قانون کا مقصد کارپوریشنوں کو ’منڈی نظام‘ سے باہر خرید و فروخت کی آزادی دینا ہے۔ اس لین دین کو ٹیکس چھوٹوں کے ذریعے دلکش بنایا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت مڈل مینوں کا زرعی منظر نامے سے خاتمہ ہو جائے گااور بڑے تاجر اور کارپوریشنیں غلبہ حاصل کر لیں گی۔ کوئی شک نہیں کہ غریب کسانوں پر اس قانون کے اثرات پڑیں گے لیکن اس سارے عمل میں مڈل مین بھی ختم ہو جائیں گے۔
اس قانون کے ذریعے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنی پیداوار فروخت کر سکتے ہیں اور سطحی طور پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت کسانوں کو آزاد کر کے بااختیار کرنا چاہتی ہے۔ لیکن قانون صرف منڈی کے بڑے کھلاڑیوں کے لئے ہی سود مند ہے جنہیں قیمتوں کا تعین کرنے کی آزادی ہو گی اور اس طرح قیمتوں کو کم کر کے کسانوں کو بھوکا مارا جائے گا جبکہ عام عوام اس پیداوار کو گراں قدر پر خریدنے میں مجبور ہو گی۔ ایک ایسا ملک جو گلوبل ہنگر انڈیکس کے 107 ممالک کی فہرست میں 94 نمبر پر ہے اور جس کی ایک تہائی عوام خواراک کی کمی کا شکار ہے، وہاں ایسی پالیسیوں کا نتیجہ قحط ہی ہو سکتا ہے۔
سرمایہ داری کا انتشار
APMC کے تحت بھی کسانوں کے بجائے منڈی کو تاجر کنٹرول کرتے ہیں اور ’منڈی کی قوتوں‘ کے تحت فیصلہ کرتے ہیں کہ کونسی فصل کاشت ہو گی۔ اس کا نتیجہ کئی سالوں سے انڈیا میں اناج کے دیو ہیکل ذخیرہ اندوزی میں نکل رہا ہے۔ اس وقت ریاستی گوداموں میں 100 ارب ٹن گندم ذخیرہ ہے اور اس کی عوام میں تقسیم کے کوئی امکانات نہیں۔ حکومت کم قیمت پر اناج تقسیم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ نجی زرعی مافیا کا شدید دباؤ ہے کہ منڈی خراب ہو جائے گی۔ کروڑوں افراد بھوک سے بلک رہے ہیں لیکن کورونا وباء کے دوران بھی حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔
غرباء میں اناج تقسیم کرنے کے بجائے اپریل 2020ء میں مودی سرکار نے فیصلہ کیا کہ انڈیا کے گرین ایجنڈا کے تحت چاول کے ذخائرایتھنول بنانے والی کمپنیوں کو بیچ دیئے جائیں۔ پھر اناج کا ایک بہت بڑا ذخیرہ انڈیا میں غرباء کو دستیاب سے کم قیمت پر مویش چارے کے طور پر یورپ اور امریکہ برآمد کر دیا جاتا ہے۔
ایک اور مثال ہے کہ 2018ء میں ہلدی کی قیمت برھنے پر مڈل مینوں نے کسانوں کو ہلدی کاشت کرنے پر مجبور کیا۔ وافر فصل کے نتیجے میں 2019ء میں ہلدی کی قیمت 24 فیصد کم ہو گئی جس کے نتیجے میں تھوک ذخائر بڑھ گئے اور خاص طور پر مہاراشٹرا میں کسان خودکشیاں بڑھ گئیں۔
1991ء میں تجارتی پالیسیوں کی لبرلائزیشن کے بعد ہندوستانی زراعت میں بے پناہ بیرونی سرمایہ کاری ہوئی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو استحصال کرنے کے لئے خصوصی حقوق دیئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیپسی کو (پیپسی بنانے والی کمپنی۔مترجم) نے آلو کاشت کرنے پر گجرات کے کسانوں پر 1 کروڑ روپے کا ہرجانہ کر دیا جس کے نتیجے میں کسانوں کے تحفظ کے لئے شدید عوامی ردِ عمل آیا۔ انڈیا میں مختلف فصلوں کی درج ذیل اجارہ داریاں ہیں:
ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق زراعت میں پچھلے دس سالوں میں 246 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ پچھلے سال بیرونی سرمایہ کاری انڈیا کے پورے زرعی جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ تھی۔ فارم قانون کے تحت کسان بڑی کمپنیوں کے خلاف کسی بھی سول کورٹ سے قانونی چارہ جوئی نہیں کر سکتے۔ قیاس ہے کہ بڑے سرمایہ دار کسانوں کے ساتھ اگلے 10 سے 20 سالوں کی فصل کے معاہدے کریں گے جس سے سٹہ بازی کا ایک نیا بازار گرم ہو جائے گا۔
روایتی سیاست کا دیوالیہ پن
1947ء میں برطانوی استعماروں کو محنت کشوں اور غرباء نے عظیم الشان تحریکوں کے نتیجے میں خطے سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور 1947ء میں آزادی کے بعد سے ہندوستانی معیشت اور سیاست سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک ہے۔ لیکن مزدور تحریک کمیونسٹ پارٹیوں کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے سبب اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ آزادی کے بعد ہندوستانی قیادت سرمایہ دار نواز پارٹیوں کی جھولی میں آ گری جو آج تک ملک پر قابض ہیں۔ لیکن آج نظام کی قریب المرگی میں ہندوستانی سیاست، معیشت اور اس میں موجود انتظامیہ گل سڑ کر ختم ہو چکی ہے۔ تعفن زدہ سرمایہ داری کرپشن اور جرائم کو جنم دیتی ہے جس کی بنیاد پر آج ہندوستانی حکمرانوں کا تعین ہوتا ہے۔ میڈیا کی اپنی رپورٹوں کے مطابق ہندوستانی پارلیمان کی اکثریت کرپٹ ٹھگوں، قاتلوں، ریپ کے مرتکب اور بدمعاشوں سے بھری ہوئی ہے۔ کالا دھن ہندوستانی جمہوریت کے ہر مسام سے رس رہا ہے۔ روایتی سیاست محض لوٹ کے مال پر ہندوستانی سرمایہ داروں کی آپسی لڑائی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
ہر سیاسی پارٹی اور اتحاد مخصوص سرمایہ داروں کے مفادات کا آئینہ دار ہے اور ممبران پارلیمان ان کے کرائے کے سپاہی ہیں۔ پارلیمان میں منظور ہونے والی تمام پالیسیوں اور قوانین کا مقصد دیو ہیکل عوامی پیسے اور وسائل کی نجی ملکیت میں منتقلی ہے۔ ان قوانین کی ہمیشہ ’شراکت داری‘، ’عوام دوست‘، ’ترقی کا حصول‘ وغیرہ جیسے میٹھے الفاظ سے لیپا پوتی کی جاتی ہے۔ موجودہ زرعی قوانین کے حوالے سے بھی یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان کا مقصد غریب کسانوں کی مدد ہے۔ ہندوستانی سرمایہ دارانہ قانون سازی کی فطرت میں ہی جھوٹ اور دھوکے بازی ہے۔
وزیرِ اعظم نریندرا مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ کم از کم امدادی قیمت قائم رہے گی اور حکومت کسانوں کی مدد اور حمایت میں زیادہ سے زیادہ اقدامات کرے گی۔ لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس نے اعلانات کے برعکس اقدامات کئے۔ حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیوں پر بھی عوامی وسائل کی لوٹ مار کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
صوبہِ پنجاب میں کانگریس حکومت کے وزیرِ اعلیٰ امریندر سنگھ اور فنانس وزیر منپریت سنگھ نے مختلف کمیٹیوں میں مودی کے زرعی قوانین کی تیاریوں کے دوران حمایت کی۔ لیکن کسانوں کے احتجاج شروع ہونے ساتھ ہی انہوں نے فوری طور پر اپنی پوزیشن بدل لی۔ کانگریس پارٹی کا دامن بھی دورانِ اقتدار APMC قوانین میں تبدیلیاں کر کے نجکاری اور لبرلائزیشن بڑھانے کی وجہ سے داغ دار ہے۔ 2013ء میں UPA حکومت (یونائیٹڈ پراگریسو الائنس۔مترجم) نے 1.23 ارب ڈالر کے برابر کارپوریشنوں کو پیسے دیئے تاکہ وہ اپنی اشیاء کی مارکیٹنگ کر سکیں۔ 2004ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کانگریس حکومت نے تمام ریاستوں کو قائل کیا کہ وہ 03 APMC Act 20 لاگو کر کے ریاست کی زرعی منڈیوں کو لبرلائز کریں۔ کانگریس حکومت کے دوران مختلف ریاستوں نے نجی زرعی قوانین منظور کئے جن کے تحت انڈیا میں بڑے پیمانے پر نجی زراعت کا آغاز ہوا اور دیو ہیکل ملٹی نیشنل کمپنیوں کو منڈی میں گھسنے کا موقع ملا۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، رجعتی SAD کا پنجاب میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ ان کی طاقت اور سماجی حمایت کی بنیاد بڑے سکھ گردواروں کا کنٹرول ہے جس کے ذریعے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے۔ پارٹی، مذہبی بنیاد پرستی اور پنجابی قوم پرستی کے مرکب کے ذریعے مزدور دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ یہ ہمیشہ روایتی پارٹیوں کے برسرِ اقتدار اتحادوں کا حصہ رہے ہیں جن میں آج مرکز میں موجود بی جے پی بھی شامل ہے۔ ہر تاریخی مرحلے پر پارٹی نے غریب کسانوں کو بیچا ہے۔ SAD قیادت زرعی قوانین کی حمایت کرتے ہوئے انہیں ’انقلابی‘ قرار دے رہی ہے۔ ہرسمرت کور کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف عوام کو گمراہ کر رہی ہے اور حقیقت میں یہ بہت اچھے قوانین ہیں۔ لیکن پھر سڑکوں پر کسانوں اور مزدوروں کے دیو ہیکل ہجوم کے نمودار ہوتے ہی انہوں نے فوری یو ٹرن لیتے ہوئے ان قوانین کی مخالفت شروع کر دی۔
انڈیا میں کمیونسٹ پارٹیوں کی حالت روایتی پارٹیوں سے مختلف نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے کمیونسٹ اصولوں سے منحرف ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ طبقاتی جدوجہد کو ترک کر کے اب وہ متوسط طبقے کو متوجہ کرنے کے لئے ’شخصی سیاست‘ کو گلے لگا رہی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے کنٹرول میں کیرالہ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں قیادت نہ صرف لبرل ازم کی مخالفت کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ انتہائی گرمجوشی سے اسے لاگو بھی کر رہی ہے۔ عوام ان کی لبرل پالیسیوں سے تنگ آ چکی ہے اور ان کی مخالف پارٹیوں کو ووٹ ڈال دیتی ہے جو اکثر رائٹ ونگ ہوتی ہیں۔ اس سے کمیونسٹ پارٹیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انڈیا میں اس وقت رائٹ ونگ فسطائیت کی عمومی لہر موجود ہے یعنی جمہوریت اور سیکولرازم خطرات کا شکار ہیں اور ان کے دفاع کے لئے انہیں دیگر دائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے فسطائی بی جے پی کی مخالفت کرنی چاہیئے۔ یہ لائحہ عمل ردِ انقلابی موقع پرستی کی انتہاء ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) اور دیگر لبائیں بازو کی پارٹیاں بھی کسانوں کی ہمدرد نہیں ہیں۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور سرمایہ داروں کی حمایت میں مغربی بنگال کی CPIM حکومت نے احتجاجی کسانوں پر گولی چلاکر انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ ہندوستانی کسان اور مزدور ان گنت واقعات سے آشنا ہیں جیسے سنگور میں کسانوں کی زمینوں پر قبضے، نندی گرام میں کسانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ، ماریچھ جھاپی میں دلت کسانوں (نچلی ذات) کو زبردستی بے دخل کرنے پر قتلِ عام اور خونی آپریشن لال گڑھ (ماؤسٹوں کے خلاف نام نہاد آپریشن)۔ یہ تمام واقعات ایک ایسی ریاست میں ہوئے جہاں نام نہاد’کمیونسٹ‘ دہائیوں سے اقتدار میں موجود ہیں۔
موجودہ کسان احتجاجوں میں تمام بڑی کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس کا عنوان ’ہندوستانی پارلیمان کی بربادی پر پرزور احتجاج‘تھا۔ انہوں نے کسانوں کی جدوجہد کی تشریح یہ کی کہ یہ ہندوستانی پارلیمان کی اقدار قائم رکھنے کی جدوجہد ہے جس میں تمام ہندوستانی کمیونسٹ پارٹیوں کو طبقاتی سیاست بالائے طاق رکھتے ہوئے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیئے۔ اعلامیے میں کسان مخالف قانون کی بنیاد سرمایہ داری اور پارلیمان پر کوئی تنقید نہیں کی گئی بلکہ تنقید کو پارلیمان میں قانون سازی کے حوالے سے بی جے پی پر تنقید تک محدود کر دیا گیا۔ اعلامیے میں کسانوں کو درپیش مسائل کے حل پر کوئی بات نہیں کی گئی جن میں نجکاری اور لبرل پالیسیاں شامل ہیں اور جن کو ایک حقیقی کمیونسٹ سیاست فوری طور پر ختم کر سکتی ہے۔
سرمایہ داری کا خاتمہ، اہم ضرورت!
پچھلے چند سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی ہندوستانی کسانوں نے بے پناہ جرات اور اول العزمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس مرتبہ انہیں ادراک ہے کہ عمومی سیاست میں ان کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں اور اس لئے ان کی تحریک میں ان کے لئے کوئی جگہ بھی نہیں۔ AIKSCC نے 5 نومبر کو پورے ملک میں ہڑتال اور 27 نومبر کو دہلی کی طرف مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ کمیٹی ممبران مختلف تنظیموں سے مشترکہ حکمتِ عملی کے لئے رابطہ کر رہے ہیں جن میں لیبر یونینز بھی شامل ہیں۔
کانگریس، CPI(M)، TMC اور دیگر پارٹیاں کسانوں کی حالتِ زار پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں۔ ان کے پاس ’جمہوریت‘، ’سیکولرازم‘ اور سرمایہ داری کے تحت ’منصف عدلیہ‘ کے علاوہ اور کوئی راگ موجود نہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں کا ماضی اور حال پوری طرح ننگا ہو چکا ہے۔ عوام کھلے عام ان کی مزدور اور کسان دشمن فطرت پر تنقید کر رہے ہیں۔
مودی حکومت کی ساکھ تیزی سے خاکستر ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب میں SAD اور ہریانہ میں جنک جنتا پارٹی (JJP نام نہاد سوشل ڈیموکریٹ پارٹی) جیسی اتحادی پارٹیاں بھی بی جے پی سے علیحدہ ہو رہی ہیں۔ کسان مظاہروں نے بی جے پی کے اپنے ممبران کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حال ہی میں پنجاب کے بی جے پی جنرل سیکرٹری نے اپنا استعفیٰ دیا ہے۔
کسانوں کی جرات مندانہ اور قابل داد جدوجہد کے باوجود کچھ ایسی بندشیں موجود ہیں جن کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو اپنی صفوں میں موجود غداروں کی نشاندہی ہونی چاہیئے۔ ان میں پیٹی بورژوا مڈل مین اور کسان یونینوں اور تنظیموں کے کچھ کرپٹ قائد بھی شامل ہیں۔ یہ کیریئر اسٹ گھس بیٹھیے کسان تحریکوں کو ہر مرحلے پر گمراہ کرنے کی کوششیں کریں گے اور بعد میں موقع پرستی کرتے ہوئے پوری تحریک کو ہی بیچ ڈالیں گے۔
موجودہ مظاہرے پچھلے چند سالوں میں ہونے والے کسان مظاہروں سے معیاری اور مقداری حوالوں سے زیادہ بلند سطح پر ہیں۔ اس کی وجہ گلی سڑی سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران ہے جس نے کسانوں کے عمومی معیارِ زندگی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ نظام ایک اچھی زندگی، پیداوار کا جائز منافع اور سب سے بڑھ کر اپنی زمین اور پیداوار پر کنٹرول کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔
اس نظام میں کسانوں کے پاس کوئی متبادل راستہ موجود نہیں۔ وہ شہروں کی طرف ہجرت بھی نہیں کر سکتے جہاں پہلے ہی بیروزگاری بھیانک اور کورونا وائرس بے قابو ہو چکا ہے۔ ایک ہی راستہ بچا ہے کہ اپنی ذرائع پیداوار کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا جائے۔ وہ یہ کام اکیلے نہیں کر سکتے۔ انہیں مزدوروں کی یکجہتی درکار ہے جو زراعت سے منسلک صنعتوں پر قبضہ کریں۔ آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی کو پورے انڈیا میں موجود تمام ٹریڈ یونینز سے اپیل کرتے ہوئے غیر معینہ مدت عام ہڑتال کی کال دینی چاہیئے۔
ایک غیر معینہ مدت عام ہرتال نہ صرف کرپٹ دائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹ دے گی بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کردے گی۔ پھر ہی سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا عمل شروع ہو سکتا ہے کیونکہ غیر معینہ مدت عام ہرتال واضح طور پر سوال کھڑا کر دیتی ہے کہ حقیقی طور پر سماج کو چلانے والے کون ہیں۔ یقیناً سماج کو چلانے والے پرتعیش گھروں میں رہنے والے سرمایہ دار، بینکار اور سیاست دان نہیں بلکہ محنت کش طبقہ ہے۔
صرف اس خون آشام سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے اور ایک مزدور ریاست تعمیر کر کے ہی انڈیا میں زراعت اور صنعت پر سرمایہ داروں کا تسلط ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت بینکوں، کمپنیوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی طاقت کو ختم کر دے گی۔ کسانوں کو مفت صحت اور تعلیم کی سہولیات کے ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کیا جائے گا۔ صرف ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت میں کسانوں کے تمام قرضے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیئے جائیں گے اور کسان اپنے مقدر کے فیصلے خود کریں گے۔ اس کام کے لئے اوزار طبقاتی جدوجہد ہے اور انڈیا میں محنت کش طبقے کو انقلابی بنیادوں پر منظم ہونے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہیں جن کی بنیاد بالشویزم کے نظریات ہوں تاکہ اس جدوجہد کو جیتا جا سکے۔