|تحریر: پارس جان|
یوں تو ہر سال اس ملک کے بے شرم حکمران اور نا اہل ریاستی مشینری نام نہاد آزادی کا جشن منا کر اور بھوکی ننگی عوام کو اس بیہودہ جشن میں ملوث کر کے اپنی خجالت کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہی ہیں مگر اب کی بار تو ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی نئی نویلی آزادی ہاتھ لگی ہو۔ سنا ہے اقوامِ متحدہ میں بھی اس مملکتِ خداداد کے ستر سال کی تکمیل کے سلسلے میں ناچ گانے کا کوئی خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ ملک کے کچھ اہم شہروں میں سعودی اور ترک طیاروں کی ہوائی ’کارستانیاں‘ بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ نہ صرف ٹی وی چینلوں پر بلکہ اہم شاہراہوں اور گلی کوچوں میں ملی نغموں کی بوچھاڑ اور سبز ہلالی جھنڈیوں اور جھنڈوں کی بھرمار دکھائی دے رہی ہے۔ نیوز چینلز خاص طور پر ایک ایسے پاکستان کی تصویر کشی کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جس میں ہر شہری خوشحال، تندرست و توانا اور وطنِ عزیز کے حالات سے مکمل طور پر مطمئن اوراحسان مند ہے۔ یہ ایک اوسط درجے کی ذہنیت کے کسی بھی عام انسان کے عمومی تجربے سے نہ صرف مختلف بلکہ متضاد کیفیت ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی خود سرکاری اداروں کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 80 فیصد پاکستانی زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ میڈیا بلکہ عمومی طور پر ریاست کے تمام ادارے اور حکمران طبقات کے تمام نمائندے زمینی حقائق سے کس حد تک کٹ چکے ہیں۔ میڈیا مالکان کو تو واقعی خوشیاں منانی بھی چاہئیں کیونکہ ان کو تو ہر قسم کا جھوٹ لگاتار اور بلا تکرار بولنے کی مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ آجکل تو انہوں نے نئے نئے جھوٹ ایجاد کرنے میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے۔ جیسے گزشتہ دنوں ہمیں ایک نیوز چینل کی وساطت سے پتہ چلا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا ہے اور 250 سے زیادہ بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، اب کوئی نواز شریف کے جلسوں میں 25 لاکھ کی شرکت کروا دیتا ہے تو کوئی عمران خان کے جلسوں کو تاریخ ساز ثابت کردیتا ہے اور ہر روز حکومت کے گرنے کا عندیہ دے دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس قسم کے مبالغہ آرائی تک بڑھے ہوئے ’آزادی کے متوالوں‘ کے چونچلے در اصل سماج کی اس بنیادی بنتر کا ہی اظہار ہیں کہ اصل میں ہم جس میں رہتے ہیں وہ ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔
ایک امیروں کا پاکستان اور دوسرا غریبوں کا پاکستان۔ ایک جاگیرداروں کا پاکستان اور دوسرا ہاریوں اور کسانوں کا پاکستان۔ ایک سرمایہ داروں کا پاکستان اور دوسرا محنت کشوں کا پاکستان۔ ایک بیوروکریٹوں، جرنیلوں، ججوں اور میڈیا مالکان کا پاکستان اور دوسرا نہتے، لاچاروں، بیماروں اور مسکینوں کا پاکستان۔ مختصر یہ کہ ایک مٹھی بھر اجارہ داروں کا پاکستان اور دوسرا سسکتی اور بلکتی ہوئی اکثریت کا پاکستان۔ اور دوسرا پاکستان پہلے پاکستان کے مکمل طور پر قبضے اور تصرف میں ہے، اس لیے وہ ابھی آزادی کا جشن منانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جبکہ پہلے پاکستان کو دوسرے پاکستان کے استحصال، لوٹ مار اور جبرو تشدد کی مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ اب وہ ظلم و جبرکے نت نئے طریقے متعارف کرواتے رہتے ہیں اس لیے ان کا جشن بھی انوکھا اور جدید ہی ہونا چاہیے۔ سب سے بھیانک کردار ہر وقت پہلے پاکستان کی صف میں شامل ہونے کی امید میں پالتو جانوروں کی طرح زبان لٹکائے ہوئے مڈل کلاسیوں کا ہے جو ہر وقت محنت کشوں کو اس بنا پر بے غیرت اور بے حس قرار دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے کہ یہ ان پڑھ جاہل آزادی کے جشن میں پورے جوش وخروش سے شریک نہیں ہوتے۔ انہیں آزادی کی قدرو قیمت کا کیا اندازہ وغیرہ وغیرہ۔ اب ان جاہلوں کو وہ تہذیب اور تعلیم و تربیت کوئی کہیں سے مستعار ہی لادے جو انہیں بھوک کا جشن منانے، فاقہ کشی میں رقص کرنے، درد اور تکلیف سے کراہتے ہوئے ملی نغمے گانے اوردھماکوں کی جھنکار پر آزادی کے نشے میں سرشار دھمال ڈالنے کی توفیق عنایت کرے۔
جھوٹ کے ان تمام تر پلندوں سے الگ تھلگ حقائق بہت مختلف اور چونکا دینے والے ہیں۔ ریاست اپنی تاریخ کے کبھی نہ دیکھے گئے بحران سے گزر رہی ہے۔ بھارت دشمنی تو خیر اس ریاست کے خمیر میں موجود ہے کیونکہ وہ ایک ایسی قوم کی ریاست ہے جس قوم کا عدالتِ عظمیٰ کے ہمارے عظیم چیف جسٹس صاحب نام لینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ مگر اب سعودی عرب اور ایران جیسے اہم ہمسایہ مسلمان ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور ہر بارسعودی شہزادوں کو خوش کرنے کی کوشش، ایران سے ٹکراؤ کی فضا ہموار کر دیتی ہے اور جب دونوں کی طرف ایک متناسب رویہ اپنانے کا دکھاوا کیا جاتا ہے تو سعودی آقاؤں کی تمام کاسہ لیسیاں غارت چلی جاتی ہیں۔ در اصل نام نہاد مسلم امہ کے چوغے میں چھپے وحشی سعودی حکمران پاکستانی ریاست اور حکمران طبقے کو اپنی رکھیل اور دم چھلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اب جب وہ خود بحران میں ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں ان کا اثرو رسوخ ان کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے تو وہ پاکستانیوں سے زیادہ اطاعت اور جی حضوری کے امیدوار ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس افغانستان جسے پاکستان اپنے ایک صوبے کے طور پر چلانے کا دعویدار رہا ہے، میں بھی ایران کا عمل دخل کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اس سے سعودی شہزادوں کی ناراضگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی کیفیت چین اور امریکہ کے ساتھ خارجہ تعلقات کے پر انتشار اتار چڑھاؤ کو جنم دے گی جس کا پہلے ہی آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ اپنی اس بغل بچہ ریاست کی اتنی سنگین بے وفائی پر اسے کبھی معاف نہیں کر سکتا۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر مدر آف آل بمز کا استعمال واضح پیغام تھا۔ یوں وہ چین کی دسترس سے اپنی کالونی کو پوری طاقت سے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ریاست کا اندرونی کھچاؤ اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال نے پاکستانی ریاست جو پہلے سے ہی بہت شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے، کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔ تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ اور خود اپنے آپ کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔ پھر ریاستی اداروں کا یہ خلفشار سیاسی میدان میں اپنا اظہار کرنے پر مجبور ہے۔ جہاں ایک طرف اس 70ویں یومِ آزادی کے موقع پر ریاست یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہاں ’سب اچھا چل رہا ہے‘ اور ’ناکام ریاست‘ کا لیبل غیر موزوں ہے، عین اسی وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کرنے کی سعی لاحاصل کرنے کا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ شاید ہی تاریخ میں پہلے کبھی کسی بھی ملک میں ایسا ہوا ہوکہ حکومت سراپا احتجاج ہو۔ اصل میں وزیرِ اعظم کی نا اہلی نے جو سرمایہ دارانہ نکتہ نظر سے اس وقت ایک بہت نا مناسب فیصلہ تھا، ایک ایسا پینڈورا بکس کھول دیا ہے جس کو بند کرنا اب مشکل سے ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس بحران کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکمران طبقہ اب ماضی کے طریقوں اور اوزاروں سے اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکا ہے۔ یہی وہ گمبھیر ہوتا ہوا سیاسی خلا ہے جس میں انقلابی کیفیت کے بیج موجود ہیں۔
یہ حکمران طبقات 70 سالوں میں کوئی ایک بھی قومی جمہوری فریضہ پورا نہیں کر پائے۔ جاگیرداری کا خاتمہ کرنے کی بجائے انہوں نے جاگیرداروں اور ملاؤں سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ 11 اگست 1947 ء کی محمد علی جناح کی دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کو حوالہ بنا کر کچھ خوش فہم ماضی میں یہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک سیکولر ریاست بن سکے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ذولفقار علی بھٹو کی جیل کی کال کوٹھری میں لکھی جانے والی کتاب ’اگر مجھے قتل کر دیا گیا ‘ کے ایک اقتباس کو رٹا لگا کر اور طوطے کی طرح اس کو دوہرا کر کچھ سابقہ انقلابی اس واہمے کا شکار ہیں کہ شاید پیپلز پارٹی میں محنت کشوں کے ’وکیلوں‘ کے اقتدار کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ حقیقت میں شروع سے ہی ریاست پر مذہبی جنونیوں اور جاگیرداروں کی گرفت مضبوط رہی ہے اور سرمایہ دار سامراجیوں کے آلہ کار ہونے اور مطلوبہ شرحِ منافع کے حصول کے لیے ٹیکس اور بجلی چوری اور دیگر ہر طرح کی بدعنوانی کی وجہ سے ریاستی اداروں کے بہت زیادہ مرہونِ منت رہے ہیں اور جواباً ان اداروں نے معیشت اور سیاست پر کھلم کھلا اجارہ داری قائم کر لی ہے اور یہ حکمران طبقہ اب محض ان کے رحم و کرم پر ہی زندہ ہے۔ اس تعلق سے نسبتی سی بھی روگردانی ایک نئے سیاسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے جسے کچھ سادہ لوح ’جمہوریت اور آمریت ‘ کے ٹکراؤ کا نام دے بیٹھتے ہیں۔ حقیقت میں اس ملک میں جمہوریت اور آمریت میں کوئی ٹکراؤ ہے ہی نہیں یہ دونوں سگی بہنیں ہیں۔ ہاں آمریت چونکہ بڑی بہن ہے لہٰذا اس کی عزت اور اطاعت چھوٹی بہن پر واجب ہے۔ اور چھوٹی چونکہ بہت ہی ’چھوٹی‘ ہے اس لیے کبھی کبھی کوئی معصومانہ سی ضد کر بیٹھتی ہے اور بڑی کی طرف سے حسبِ ضرورت ایک طماچہ رسید کر دیا جاتا ہے۔ اسی طماچے کو پاکستان کے بھٹکے ہوئے سابقہ بائیں بازو کے حلقوں میں ’قومی جمہوری انقلا ب‘ کے اتارچڑھاؤ کے ’نازک‘ مرحلے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
میڈیا کے تمام تر شورو غوغے کے باوجود پاکستانی نہ تو کبھی ایک قوم بن سکے ہیں اور نہ ہی بن پائیں گے۔ طبقاتی تضادات کے ساتھ ساتھ یہاں کے ریاستی ادارے اور حکمران اور ان کے سامراجی آقامظلوم قوموں کا شدید ترین معاشی اور سیاسی استحصال کیے بغیر اپنے اقتدار اور لوٹ مار کو دوام نہیں بخش سکتے۔ جوں جوں ریاستی بحران، علاقائی سفارتی و سٹریٹجک خلفشار اور معاشی گراوٹ بڑھتی جا رہی ہے مظلوم قومیتوں اور خصوصاً بلوچستان میں جبر اور وحشت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ کچھ ٹی وی چینلز بلوچی زبان میں ملی نغمے چلا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات ماند پڑگئے ہیں یا بلوچ قوم کے دل جیت لیے گئے ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کیونکہ عملاً ایسے کوئی بھی اقدامات نہیں کیے گئے جن سے یہ ممکن ہو سکتا۔ الٹا تیس ہزار سے زائد بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں نے بلوچوں کے ہر زخم کو ناسو ر میں تبدیل کر دیا ہے۔ بلوچستان میں گرنے والی ہر مسخ شدہ لاش ’پاکستانی قومیت‘ کو مضبوط اور مستحکم نہیں کرتی بلکہ اسے اور زیادہ متعفن اور نا قابلِ برداشت بنا دیتی ہے۔ بلوچستان میں مذہبی جنونیوں کی پرورش کر کے ریاست کسی حد تک قومی آزادی کی تحریک کا ’توڑ ‘ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن اس توڑ کوفیصلہ کن فتح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ مذہبی جنونی بھی طاقت کے نشے میں بدمست ہو کر اپنے ہی آقاؤں کے کنٹرول سے باہر بھی ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر ایسی کیفیت میں جب بلوچستان علاقائی اور عالمی سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، یہ خونی کھیل ریاستی پالیسی سازوں کو بہت مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔ قومی آزادی کی تحریک کی بلوچستان میں وقتی پسپائی کی بڑی وجہ ریاست کی ’چست چالاکیوں‘ سے زیادہ خود تحریک کی موضوعی کمزوری رہی ہے۔ جہاں ایک طرف سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک بین الاقوامی سیاسی پیشرفت کے زیرِ اثر بلوچستان کی قومی تحریک میں بھی نظریاتی ابہام پیدا ہوا وہیں مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی تاریخی محدودیت نے بھی ریاست کو موقع فراہم کیا کہ وہ بلوچستان کی تحریکِ آزادی کو مکمل طور پر پاکستان کے دیگر مظلوم قوموں اور طبقات سے کاٹ کر رکھ دے۔ بلوچستان سے سندھی، پنجابی اور سرائیکی محنت کشوں کی لاشوں کے تسلسل نے بھی بڑے پیمانے پر بلوچ تحریک کی حمایت میں کمی کی اور خود بلوچستان کے اندر بھی ایک وقت تک پایا جانے والے جذبہ حریت اور انقلابی جو ش وخروش بھی وقتی طور پر ماند پڑ گیا۔ اور ریاست بآسانی خلا کو اپنے دم چھلے مذہبی عناصر سے پر کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ بلوچستان کی تحریک ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ہے سراسر غلط ہو گا۔
بلوچستان کی قومی تحریک کی اپنی کچھ مخصوصیت ہو سکتی ہے مگر انسانی تاریخ ایسی بے شمار تحریکوں اور قربانیوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ ماضی میں بے شمار قومی آزادی کی تحریکیں کامیاب بھی ہوئی ہیں اور ناکام بھی۔ وہ سب بلوچستان سمیت اس وقت آزادی کی لڑائی لڑنے والے تمام انقلابیوں اور حریت پسندوں کا اثاثہ اور ورثہ ہیں جن سے سبق سیکھنے اور توانائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر تحریک میں وقتی ٹھہراؤ اور زوال آ سکتا ہے مگر اگلی نسل پھر نئے جذبوں سے ماضی سے سیکھتی ہوئی اور اپنی خامیوں کو درست کرتی ہوئی حتمی فتح کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔ یورپ میں سرمایہ داری نے اپنی ترقی پسندی کے دور میں قومی جمہوری انقلاب کے ذریعے قومی تحریکوں کو ایک راستہ دیا تھا مگر سرمایہ دارانہ نظام کے سامراجیت کے مرحلے کی تکمیل کے بعد باقی ماندہ دنیا میں قومی جمہوری انقلاب کے راستے مسدود ہو کر رہ گئے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد صرف اور صرف ایک مثال نظر آتی ہے جہاں حقیقی معنوں میں مظلوم قومیتوں کو آزادی نصیب ہوئی ہو۔ وہ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے نہیں بلکہ سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے سوویت یونین کے قیام کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس کے بعد دنیا بھر کی قومی آزادی کی تحریکوں کا ایک عروج نظر آتا ہے۔ اور بہت ساری مظلوم قومیتیں مظلوم طبقات کی قیادت میں آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ بعد ازاں سوویت بیورو کریسی نے ان عظیم رویات سے منہ موڑ کر دوبارہ قومی بنیادوں پر ٹوٹ پھوٹ کی راہ ہموار کی اور اس کے زیرِ اثر بہت سی قومی تحریکیں بھی زوال پذیر ہو گئیں۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان میں تحریک نے پھر شدت پکڑی مگر وہ تحریک بھی پاکستان میں PTCL کے محنت کشوں کی تحریک اور بعد میں KESC کی تحریک اور ابھی گزشتہ برس PIAکے محنت کشوں کی عظیم تحریک کی طرح علیحدگی (Isolation) میں محبوس ہو کر ان سب تحریکوں کو ایک لڑی میں جوڑنے والی کسی سیاسی قوت کی عدم موجودگی کے باعث شکست خوردہ ہو گئی۔ مگر آج ہم دنیا بھر میں پھر تحریکوں اور انقلابات کے ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں اور ایسی کیفیت میں نہ صرف پاکستان میں صنعتی مزدوروں، کسانوں، نرسوں، اساتذہ، ڈاکٹروں اور طلبہ میں تحرک کی ابتدائی علامات نظر آنا شروع ہوئی ہیں بلکہ بلوچستان میں بھی آئندہ برسوں میں عوامی غم و غصہ کوئی نہ کوئی سیاسی اظہار ضرور کرے گا۔ اور اب کی بار اگر مسلح جدوجہد کی بجائے اس کا مرکز شہری علاقوں کی طرف منتقل ہو گیا تو اس تحریک کو خطے کی دیگر تحریکوں کے ساتھ جڑ کر ایک انقلاب کی شکل اختیار کر جانے سے روکنا اس شکستہ حال ریاست کے بس کی بات نہیں رہی ہے گی۔ ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ کا اظہار سندھ میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کی حالیہ لہر سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے اقدامات سے سندھ میں بھی نفرت اور تعصب میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب اس نفرت کو زائل کرنے والی پیپلز پارٹی بھی اپنے تاریخی سیاسی کردار سے مکمل طور پر دستبردار ہو کر سٹیٹس کو کی نمائندہ جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اگر سندھ میں طلبہ یا محنت کشوں کی کوئی بھی تحریک بنتی ہے تو وہ بھی بے قابو ہو کر ایک انقلابی کیفیت پر منتج ہو سکتی ہے۔
پنجاب سمیت باقی ماندہ پاکستان کی صورتحال بھی کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ حکمرانوں کے ترقی اور خوشحالی کے دعووں کے برعکس بیروزگاری اور غربت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس ملک کی معیشت کا انحصار سب سے بڑھ کر بیرونِ ملک کام کرنے والے محنت کشوں کی بھیجی جانے والی رقوم پر ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ماضی میں یہ ترسیلاتِ زر 16 سے 18 ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہوا کرتی تھیں لیکن عالمی معیشت کے بحران کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں سے ان میں کمی آنا شروع ہوئی ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر تو چلتا ہی انہی محنت کشوں کی بھیجی گئی رقوم پر ہے۔ ان ترسیلاتِ زر میں کمی سے کشمیر کا معاشی اور سماجی بحران شدت اختیار کرسکتا ہے جو کسی سیاسی تحریک کی شکل میں پھٹ کر سامنے آ سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک تاریخ ساز مزاحمتی تحریکِ آزادی اپنے عروج پر ہے۔ پہلے مرحلے میں ترسیلاتِ زرمیں اس کمی کی وجہ یورپ اور امریکہ وغیرہ سے ترسیلاتِ زر میں کمی تھی مگر 10 ارب ڈالر سے زائد رقوم سالانہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے موصول ہوتی تھیں اورابھی حال ہی میں ان ممالک کا معاشی بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں محنت کش واپس وطن آنے پر مجبور ہو رہے ہیں جس کے سبب ایک طرف تو پہلے سے موجود بیروزگاروں کی فوج ظفر موج میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف پاکستانی منڈی کی اوسط قوتِ خرید بڑے پیمانے پر گر رہی ہے۔ قرضوں کے بلبوتے پر ابھی تک تو زرِ مبادلہ کے ذخائر کو کسی حد تک برقرار رکھا گیا ہے مگر یہ تیزی سے سکڑ سکتے ہیں۔ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کریٹیکل سطح تک پہنچ رہے ہیں۔ گردشی قرضہ 800 ارب سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر ایک بھیانک مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی کا عفریت قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔ روپے کی قدر تیزی سے گر سکتی ہے۔ عوام پر بے تحاشا ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں اور تعلیم، صحت اور دیگر عوامی بہبود کے شعبوں کی نجکاری پہلے سے خستہ حال سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کو مکمل تباہی کے دہانے پر لے جا سکتی ہے۔
سی پیک سے منسوب کی جانے والی دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے لیے چینی نائب وزیرِ اعظم پاکستان کے 70 سالہ جشنِ آزادی میں شریک ہونے پاکستان آئے ہیں مگر درحقیقت وہ سیاسی بحران کی کیفیت میں اپنی سرمایہ کاری کے ہر ممکن تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی ریاستی اداروں کو مزید تنبیہہ کرنے آئے ہیں۔ عالمی معاشی بحران آنے والے دنوں میں خود چین کی نام نہاد معاشی برتری کی قلعی کھول کر رکھ دے گا جبکہ پاکستان کے پالیسی ساز تمام تر بحران کی کیفیت سے نکلنے کے لیے سی پیک کو ہی نسخۂ کیمیا بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے مترادف ہے۔ ساری سیاسی پارٹیاں چینی سامراج کی طرف سے کمیشنوں کی شکل میں پھینکے جانے والی ہڈیوں کی آس لگائے بیٹھی ہیں اور عوام کی کسمپرسی اور بے بسی کی پرسش کرنے والا کوئی نہیں۔ محنت کش عوام کو خود اپنے دفاع کے لیے متحد اور منظم ہونا ہو گا۔ حکمران طبقے کی حالیہ لڑائیوں میں ایک دوسرے پر شدید کیے جانے والے حملے عوام کے سامنے رہی سہی سب قیادتوں کو ننگا کر رہے ہیں۔ عوام سیکھ رہے ہیں کہ یہ سب اپنی اپنی جگہ سچ بول رہے ہیں۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ لیکن انہیں سیاسی افق پر کوئی ایسا متبادل دکھائی نہیں دے رہا جو ان کی امیدوں اور خواہشات کا محور بن سکے۔ ایسے میں یہ انقلابیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ جرات اور عزم کے ساتھ اپنے متبادل سائنسی نظریات عوام کی وسیع تر پرتوں تک پہنچائیں۔ عوام ظاہر ہے کہ انہیں ایک دم دیوانہ وار قبول نہیں کر لیں گے۔ وہ انہیں ایک بار نہیں بار بار پرکھیں گے۔ ان کے ساتھ اتنے بڑے بڑے دھوکے ہوئے ہیں کہ وہ اب بہت محتاط بھی ہوں گے اور ہچکچاہٹ کا شکار بھی۔ مگر جب ایک دفعہ کسی انقلابی قیادت نے ان کے اعتماد کو جیت لیا تو وہ میدانِ عمل میں اترنے سے ذرا بھی اجتناب نہیں کریں گے۔ عوام کی مختلف پرتیں بار بار اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، لڑنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا۔ مڈل کلاس کے اندر بھی ہیجان بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں انقلابی قوتوں کے امتحان کی گھڑی قریب آتی جا رہی ہے۔