|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کوئٹہ|
بلوچستان میں اس سال ٹریفک حادثات میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ سال 2024ء کی پہلی سہ ماہی میں بلوچستان کی مرکزی شاہراہوں پر 167 ٹریفک حادثات پیش آئے، جن میں 121 افراد جاں بحق ہوئے۔ جبکہ دوسری سہ ماہی میں 170 حادثات پیش آئے جن میں 400 کے قریب افراد زخمی جبکہ 145 جاں بحق ہوئے۔ اگر مرکزی شاہراہوں کے علاوہ صوبے کی دیگر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی بات کی جائے تو صرف مارچ کے مہینے میں ہی 338 حادثات پیش آئے۔
اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں سالانہ 6000 سے 8000 لوگ ٹریفک حادثات میں اپنی جان کھو دیتے ہیں۔ جبکہ پچھلے پانچ سالوں میں 46000 حادثات پیش آئے جن میں 64000 افراد زخمی یا جاں بحق ہوئے۔ یہ اعداد و شمار صرف اور بلوچستان کی آٹھ قومی شاہراہوں کے ہیں جو 4500 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر قیمتی جانوں کا نقصان بلوچستان کے دیگر اہم مسائل کی طرح ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے کئی سالوں سے ژوب سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی شاہراہوں سمیت دیگر سڑکوں کو ون وے کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن مختلف حکومتوں اور بیوروکریسی کی کرپشن نے ان منصوبوں کو تعطل کا شکار بنایا ہوا ہے۔ ان منصوبوں کے مکمل ہونے تک بلوچستان کے عوام نے ان سڑکوں پر مزید کتنا خون بہانا ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں مختلف قومی شاہراہوں پر 1122 کے ریسکیو سینٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا مگر وہاں پر سہولیات مکمل طور پر ناپید ہوتی ہیں مذکورہ 1122 کے ریسکیو سینٹرز کے پاس صرف ایمبولنسز ہوتی ہیں جو کہ جائے حادثہ کے قریب کسی تحصیل یا ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ مگر حسب روایت ہسپتالوں میں آکسیجن گیس کا ملنا ایک خواب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر حادثات کے شکار نارمل مریضوں کی بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی شاہرائیں ہوں یا صوبے کے اندرونی شہروں تک جانے والی شاہراہیں یہ تمام تر دو رویہ ہوتی ہیں جہاں پر بے تحاشہ ٹریفک بھی ہوتی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ ایرانی ڈیزل اور پٹرول کا کام کرنے والی مختلف گاڑیوں کی بھرمار ہوتی ہے، جس کی وجہ سے روڈ حادثات ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ مگر اس ضمن میں بلوچستان سمیت وفاقی حکومت میں جتنے بھی ادوار گزرے ہیں انہوں نے صرف لب کشائی پر ہی اکتفا کیا ہے حالیہ کوئٹہ سے ژوب اور کوئٹہ سے خضدار تک سڑک کو ون وے کیا جا رہا ہے مگر یہ منصوبہ طوالت اختیار کیے جا رہا ہے جس پر صوبائی حکمرانوں سمیت یہاں کی کرپٹ بیوروکریسی اور دیگر سیاسی پارٹیاں مکمل طور پر خاموش ہیں۔
پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے آغاز سے ہی عالمی سامراج کا غلام اور تکنیکی لحاظ سے انتہائی پسماندہ رہا ہے۔ سونے، تانبے اور قسم قسم کے قیمتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان آج بھی زندگی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ حکمرانوں نے یہاں کسی قسم کا انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کیا جس کی وجہ سے آج روزانہ قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ملکی معیشت کی دیوالیہ ہوتی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آنے والے عرصے میں حکمران یہاں کسی قسم کا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی نہ اہلیت رکھتے ہیں نہ ہی کوئی ارادہ۔
حکمرانوں کی نا اہلی، پسماندگی، کرپشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ اب یہاں میونسپل سطح کے کسی کام کی بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی ترقی کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ حقیقی ترقی سرمایہ دارانہ نظام میں نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند معیشت میں ہی ممکن ہے جس کے لیے محنت کشوں اور نوجوانوں کو انقلابی نظریات سے لیس پارٹی کے بینر تلے منظم ہونا ہو گا اور سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا۔