|تحریر: ظریف رند|
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اکتیس اکتوبر کی شومئی شام کا سوا چھ بجے کا بدقسمت لمحہ جس میں ہمارے پیارے اٹھارہ سالہ جوان سال بھائی میر حاصل رند بزدل مسلح درندوں کی گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ گھر کے باہر مین روڈ پر اپنے بھائیوں کے آگے آگے پیدل چلتے ہوئے اپنے گھر سے تقریباً پچاس میٹر کے فاصلے پر موجود اپنی بہن کے گھر سے اپنے گھر آرہے تھے۔ بزدل حملہ آور پہلے سے گھر کے باہر کھجور کے باغات میں تاک لگائے بیٹھے تھے اور موقع پاتے ہی گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی جس دوران شہید حاصل جان سر پر گولی لگنے سے اسی وقت گر گئے جبکہ دیگر بھائی دیواروں کا سہارا لیتے ہوئے گھر کے اندر تک با حفاظت پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
میرے وہ پہلے ہاتھ تھے جنہوں نے اپنے پیارے بہادر بھائی کو اپنی آغوش میں تھاما اور ان کو اٹھا کر گھر کے اندر تک لے آیا۔ اس وقت تک شہید کی سانسیں چل رہی تھی مگر حالت انتہائی نازک تھی۔ گھر میں لوگوں کی بھیڑ لگنا شروع ہوئی، ماں بہنوں کی چیخ و پکار کانوں کے پردوں کو چیر کر روح کو تار تار کر رہی تھی مگر اس دوران جس شخص کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ ایک ڈاکٹر کی تھی جو حادثے کے آدھے گھنٹے بعد بھی نہیں پہنچا تھا اور ہم سب چِلّا کر کہہ رہے تھے کہ کوئی ڈاکٹر لے آئے مگر بدبخت قوم کی بدحال کیفیت کہ یہاں نہ کوئی ڈاکٹر میسر ہے نہ ہسپتال جہاں فوری طبی امداد کی سہولت موجود ہو۔ بالآخر کسی دل سوختہ ساتھی نے جا کر ایک ڈاکٹر کو گھر سے نکال کر لے آیا اور ڈاکٹر صاحب نے ڈرپ میں درد کی گولی ملا کر لگاتے ہوئے زخمی بچے کو فوراً تربت یعنی ڈسٹرکٹ سول ہسپتال منتقل کرنے کا مشورہ دیا اور واپس چل دیئے۔ ایمبولینس کا خواب تو یہاں بیوقوفانہ ہی ہے، خیر۔۔۔ بچے کو پِک اپ کے میں ڈال کر ہم تربت شہر کے لئے روانہ ہوگئے جو ہمارے گاؤں بلیدہ سے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے مگر یہ کچی سڑک کا سفر کم سے کم دو گھنٹے کی سخت ازیت کے بعد ہی پورا کیا جا سکتا ہے جس میں راستے کے دو ایف سی کی چیک پوسٹیں اور ان کے تفتیشی مراحل تذلیل میں ہر اضافے کا کام پورا کر لیتی ہیں۔ خیر۔۔۔ دوران سفر اپنے بچے کو تڑپتے اور موت سے مسلسل لڑتے دیکھنے کا تلخ ترین تجربہ میری زندگی میں ہمیشہ کیلئے نقش ہیں اور ساتھ ہی اْن کا مْسکرانا جب میں ان کو ہوش میں رکھنے کیلئے باتیں کر رہا تھا اور آخر میں بچے کا میرا ہاتھ زور سے تھام لینا یہ وہ کربناک لمحے تھے جو درد میں تڑپتے اپنے بچے کو دیکھ کر مجھے سہنا پڑ رہے تھے۔ تقریباً تربت شہر کے قریب کچا راستہ ختم ہونے کو تھا اور پکی سڑک جو آج کل پاکستان کی تقدیر بدلنے والا ’’اکنامک کوریڈور‘‘ کے نام سے مشہور ہے، پر گاڑی مْڑنے کے قریب ہی تھی کہ ہماری گاڑی کوئی پانچ منٹ کیلئے انجن زیادہ گرم ہونے کے باعث بند ہوگئی اور میں نے حاصل جان کو آواز دی کہ گھبراؤ مت دیکھو ہم تربت پہنچ گئے ہیں تو حاصل جان آخری بار مْسکرایا اور میری گود میں اپنی آخری سانس لی! اْف۔۔۔ ایسا لگا کہ آسمان میرے سر پر آگرا ہو مگر ہماری بے بسی کہ سب کچھ ہونے کی صلاحیت دنیا میں موجود ہونے کے باوجود ہم اپنے بچوں کو فوری طبی امداد دینے کی سہولت تک نہیں رکھتے۔ خیر! دل کی تسلی کیلئے تربت ہسپتال گئے اور ہسپتال کی اسٹریچر پر بچے کو لٹانے اور نااہل انتظامیہ کی منہ دکھائی کی بیہودہ رسم و رواج پورا کرکے شہید کو واپس گھر کو لے آئے اور یکم نومبر کی صبح انہیں دھرتی ماں کی آغوش میں ہمیشہ کیلئے سْلا دیا گیا۔
تحریر بالا یاداشتیں اس بدقسمت لمحے کی ہیں جس میں ہم نے اپنے بازو کو کھویا اور ان یاداشتوں کا تذکرہ کرنے کا مقصد دوست و احباب کو آگاہی فراہم کرنا ہے جو الگ الگ میسیج کے ذریعے پوری آگاہی چاہ رہے تھے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حاصل جان سے اس نوعمری میں ان کی زندگی آخر کس نے اور کیوں چھین لی اور پسماندگان پر قیامت کے طوفان کیوں ڈھائے؟
حاصل رند ایک طالب علم، ایک اسپورٹس مین اور بی ایس او کا ایک سرگرم کارکن تھا اور اہل علاقہ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ تمام نوجوانوں کا چہیتا تھا۔ کرکٹ میں علاقے کا سب سے بہترین کھلاڑی ہونے کے ناطے تمام کھلاڑیوں کا ہیرو اور دوست تھا۔ کرکٹ میں میں ان کا گیم اتنا اچھا تھا کہ پچھلے سال یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کراچی اکیڈمی میں ٹیم سلیکٹرز نے جب ان کو کھیلتے دیکھا تو فوراً یو بی ایل ٹیم میں شامل ہونے کی آفر دی مگر نظام کا جبر کہ اگلے دن ہی اْن کے کوچ صاحب نے کہا کہ ’’آپ سلیکٹ تو ہو گئے ہیں مگر یہاں یا تو پرچی یعنی مضبوط ریفرینس چلتا ہے یا بنڈل یعنی پیسہ، آپ کیا لا سکتے ہو؟‘‘ ہم میں دونوں کی گنجائش نہیں تھی اس لئے شہید سب چھوڑ چھاڑ کر واپس گھر لوٹ آیا اور مجھ سے کہا ’’بھائی، جہاں کامیابی پرچی یا بنڈل کی محتاج ہو، وہ مجھے نہیں چاہئے‘‘۔ میں سمجھ گیا تھا کہ بچے کو اس نظام نے ایک بہت بڑا سبق سکھا دیا ہے۔ واپس پھر سے اپنے روٹین میں مصروف تھے جب 7 اپریل کا واقعہ ہوا جس میں مسلح افراد کے ایک ٹولے نے بھاری اسلحے کے ساتھ ہمارے گھر کے مہمان خانے پر بمباری کی اور ایک مزدور مہمان نصیب اللہ لانگو کو شہید اور فاضل بلوچ کو زخمی کر گئے جبکہ شہید حاصل سمیت میرے دیگر دو بھائی اور باقی مہمان خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ تفتیش کے بعد پتا چلا کہ سات اپریل کا یہ بہیمانہ حملہ ’لشکر بلوچستان‘ نامی کالعدم تنظیم کے علاقائی کارندوں نے کی تھی جس پر ہم نے قوم پرست سیاسی تنظیموں اور علاقائی معتبرین سمیت ہر بااثر حلقے سے رجوع کیا تاکہ اس غیر مہذب عمل کی وجوہات کا سْراغ لگا سکیں۔ جیسا کہ حملہ آور ایک نام نہاد قوم پرست مسلح تنظیم سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی نزدیکیاں مزاحمتی تنظیموں سے تھیں تو ہم اپنے محدود رابطوں کے ذریعے سے بارہا ان مزاحمتی تنظیموں کے قائدین کو یہ پیغام پہنچاتے رہے کہ آپ مزاحمت کار خود کو قوم کے محافظ اور سپاہی کہتے ہیں اور بے گناہ قوم پر ایسے گھناؤنے حملہ کرنے والے اور بلوچی چادر و چار دیواری کو پامال کرنے والے آپ کی صفوں میں موجود ہیں اور آپ کی دسترس میں ہیں، تو آپ کو ان کا احتساب کرنا چاہئے، مگر ہماری بات پت کائی کان نہ دھرا گیا اور بالآخر یہ ہوا کہ حملہ آور تنظیم کے مکران کے کمانڈر فاروق عرف صدام سمیت علاقائی کمانڈر خالد تْری عرف راشد آلو اپنے تمام ساتھیوں سمیت حملے کے دو تین مہینے کے اندر ریاست کے آگے سرنڈر ہوئے اور ان مزاحمت کاروں کیلئے سب سے بڑے دشمن بن گئے جو اس سے پہلے ان مجرموں کو تحفظ دیتے رہے تھے۔
پچھلے حملے سے حالیہ حملے کے دورانیے میں ہمیں مسلسل ڈرایا دھمکایا جاتا رہا اور ہمارے گھر والوں کو بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے جس کی نشاندہی ہم بارہا کرتے رہے ہیں اور بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو با خبر کرتے ہیں رہے مگر کہیں سے بھی کسی قسم کا سنجیدہ رسپانس ہمیں نہیں ملا۔ 7 اپریل کے واقعے پر ایک ذمہ دار مزاحمتی تنظیم کا ترجمان جریدہ ’سنگر‘ کا مئی 2016 کا پرچہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سنگر کے نمائندگان پوری چھان بین کرنے کے بعد خود ہمیں بے گناہ اور لشکر بلوچستان نامی تنظیم کو قصوروار ٹھرا رہا ہے اور دوبارہ دھونس دھمکیوں کی بھی تصدیق کر رہا ہے مگر اس کے باوجود ذمہ دار حلقوں کی جانب سے مجرموں کی روک تھام اور ان کی غنڈہ گردی پر خاموشی اختیار کرنا ایک المیہ تھا اور ساتھ ہی ہمیں یہ مشورہ دینا کہ ہاں یہ مسلح مجرم کل تک ہمارے کیمپ میں تھے اب باہر ہیں تو آپ اپنے مسئلے کو ذاتی طور پر ہینڈل کریں، یعنی قومی آزادی کے نام پر مسلح کئے گئے غنڈہ گرد عناصر جب تک قومی جدوجہد کا نقاب اوڑھے ہوئے ہیں اس پر کوئی منہ نہ کھولے اور جیسے ہی وہ اپنے اصل روپ میں واپس آئیں تو ان کے کئے گئے ’کارنامے‘ ذاتی بن جاتے ہیں؟ اس طرح کی غیر سنجیدگی نے ہماری زندگیوں کو عذاب بنا رکھا ہے اور پچھلے سات مہینے سے ہم بے روزگاری، پابندی اور بچے تعلیمی اداروں سے دور اپنے گھر کے اندر قیدی کی زندگی گزار رہے تھے کہ ہم پر دوسرا بڑا حملہ کیا گیا ۔ اس حملے پر سیاسی حلقوں اور قوم کی پاسبانی کے دعویدار مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے خاموشی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہم خصوصی طور پر مسلح تنظیموں کی خاموشی پر سوال اٹھانا اس لئے بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے علاقے کے جغرافیہ کے حوالے سے اس طرح کے واقعات کا الزام سیدھا مسلح تنظیموں کے سر لگتا ہے کیونکہ بلیدہ جیسے علاقے میں جہاں دن کی روشنی میں اہل علاقہ کو رہائشی ایریا چھوڑ کر پچاس سے سو میٹر کے فاصلے پر موجود پہاڑی علاقے کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہے اور مسلح تنظیموں نے پہاڑی کی طرف پکنک منانے اور گھاس لکڑی وغیرہ جمع کرنے تک پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو پھر آخر کس طرح شہید حاصل رند کے قاتلوں کو حملے کے بعد پہاڑی علاقے کی طرف جانے کی اجازت مل گئی اور وہ بھی موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر گولیاں چلاتے ہوئے اور کیسے شاد مانی مناتے ہوئے تنظیمی ایریا میں گھسنے کی ان کی ہمت ہوئی؟ یقینی طور کوئی بھی ذی شعور شخص اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ علاقائی مسلح تنظیموں کے کارندوں کی حملہ آوروں کو بھرپور سپورٹ حاصل تھی یا پھر یہی مسلح تنظیمی کارندے ہی تھے جنہوں نے یہ حملہ کیا تھا مگر ان نام نہاد قومی آزادی کے علمبرداروں میں اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ ذمہ داری قبول کر سکیں۔ آخر کس کے ایماء پر اور کس کے احکامات پر شہید حاصل جان جیسی مستقبل کی روشن شمع کو بجھا دیا گیا؟ ہم اپنی مزید تحقیق کر رہے ہیں اور ملوث افراد کی نشاندہی ثبوت کے ساتھ جلد سب کے سامنے بھی لائیں گے۔
بلوچستان کے طول و عرض میں دیکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد میں شہید حاصل جان جیسے نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے جس میں سے جتنوں کے قتل کے الزام ریاستی اداروں پر لگے ہیں لگ بھگ اتنے ہی مزاحمتی تنظیموں پر لگے ہیں اور ان میں سے اکثریت کے قتل پر چپ کے روزے رکھے گئے ہیں۔ یہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ بہت سے لوگ محض اپنی ذاتی دشمنیاں نکالنے، بدلہ پورا کرنے اور ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے ان مسلح تنظیموں میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اپنے مقاصد پورا کرنے کے بعد کنارہ کش ہوئے ہیں مگر جہاں کسی نے تنقید کرنے کی ہمت کی ہے اسے قومی غداری کا سرٹیفکیٹ تھما کر قتل کیا گیا ہے۔ ان مزاحمت کاروں کو اکثر و بیشتر احتساب اور انصاف کے دعوے کرتے دیکھا اور سنا گیا ہے مگر کہیں پر بھی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ان مزاحمتی تنظیموں میں اتنا گند جمع ہو چکا ہے کہ اسے صاف کرنے کے چکر میں تنظیم خود ڈھیر ہو سکتی ہے۔ اس خوف سے قیادت مصالحت کی دلدل میں بری طرح پھنس چکی ہے اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ میسر نہیں ہے۔ غیر سنجیدہ اور غیر سائنسی حکمت عملی کی وجہ سے مزاحمت کاروں کے لئے عوامی حمایت پچھلے عرصے کی نسبت نا ہونے کے برابر ہے مگر پھر بھی بلند و بانگ دعووں سے اپنا مصنوعی وجود برقرار رکھنے کی کوشش بدستور جاری ہے اور کئی نوجوانوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ عظیم انقلابی رہبر ’ارنسٹو چی گویرا‘ نے کہا تھا کہ ’’نجات دہندہ وجود نہیں رکھتے، لوگ خود اپنی نجات خود حاصل کر تے ہیں‘‘۔ جو تحریک عوام سے کٹی اور عوامی شعور سے نتھی نا ہو اسے عوام میں قطعی طور پر قبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ بلوچستان کی موجودہ سیاسی کیفیت ضیا الحق کے آمریت کی سی ہے جس میں فوجی حکمرانی تو موجود ہے مگر تمام کی تمام سیاسی جماعتیں وفاق کی حمایت میں ہیں اور مایوسی کے عالم میں عوام ان نام نہاد پارٹیوں کے سائے تلے پناہ گزین بنے بیٹھے ہیں اور دوسری جانب آزادی کی خواہاں تنظیمیں دیگر ممالک میں پناہ و حمایت جیتنے کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کی مزاحمتی تنظیموں کو سمجھ لینا چاہئے کہ جس کام یا نظام میں مزید اصلاح کی گنجائش موجود نا ہو، تو اسے ختم کرنا ہی سود مند رہتا ہے وگر نہ خانہ جنگی ہی بلوچ قوم کا مقدر بنے گی!
اگر سنجیدگی سے شہید حاصل جان کے بارے میں معلومات لی جائیں تو حاصل جان اس نوعمری میں بلوچ قوم کے استحصال اور قومی جبر کے خلاف لڑنے والا دھرتی کا ایک نڈر سپوت تھا اور مفلوک لحال عوام کیلئے درد دل رکھتا تھا۔ مگر قوم دشمن قوتوں کو روشنی کا یہ چراغ برداشت نہیں ہوا۔ حاصل رند بی ایس او کے سچے نظریات کا داعی تھا اور قومی و طبقاتی جبر اور ہر قسم کی تعصباتی تفریق و استحصال کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر لڑنے کو پر عزم تھا۔ شہید حاصل رند نے اس دنیا سے کوچ کرتے ہوئے جہاں اپنے عزیز و اقارب اور ساتھیوں کو سوگوار کیا ہے وہیں اپنے خون سے ایک نئے عزم اور ان تاریکیوں کے خلاف مسلسل جدوجہد کی ایک نئی شمع کو روشن کیا ہے اور ہم اس کی روشنی کو دنیا بھر میں پھیلانے کا عہد کرتے ہیں!