(یہ اقتباس ٹراٹسکی کی خود نوشت ’’میری زندگی‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ٹراٹسکی اس میں 1917ء میں روس میں اکتوبر انقلاب سے پیشتر اور بعد کے حالات بیان کر رہا ہے۔)
|تحریر: لیون ٹراٹسکی|
(۔۔۔۔) فن لینڈ کے بارڈر پر بلوسٹروفکو سٹیشن پر متحدہ انٹرنیشنلسٹ اوربالشویکوں کی مرکزی کمیٹی کے وفد نے ہمارا استقبال کیا۔ منشویکوں کی طرف سے کوئی نہیں آیاتھا۔ (۔۔۔ ) بالشویکوں کی نمائندگی لوہے کا ایک کاریگر خودوروف کر رہا تھا جو جلد ہی بعد میں پیٹرو گراڈ سوویٹ میں کارکنوں کے سیکشن کاچیئر مین بن گیا تھا۔ پیٹرو گراڈ میں فنس ٹرمینل پر ہمارا زبردست استقبال کیا گیا۔ یوریٹز کی اور فیدوروف نے تقریریں کیں جن کے جواب میں میں نے ایک دوسرے انقلاب کی تیاری پر زور دیا جوہمارا اپنا انقلاب ہونا تھا۔ انہوں نے جب اچانک مجھے ہوا میں اٹھا لیا تو مجھے ہالی فکس یاد آگیا۔ وہاں بھی میں اسی قسم کے تجربات سے دور چار ہوا تھا۔ لیکن اس دفعہ ہاتھ دوستوں کے تھے۔ ہمارے چاروں طرف جھنڈے اور بینر تھے۔ میں اپنی بیوی کاتمتماتا ہوا چہرہ اور بیٹوں کے زرد پڑتے ہوئے چہروں کی طرف دیکھ رہا تھا جنہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ خوشی کاموقع تھا یا غم کا۔ وہ ایک مرتبہ پہلے بھی انقلاب سے دھوکہ کھا چکے تھے۔
پلیٹ فارم کے آخر پر عین میرے پیچھے ڈی مان اور وینڈ رویلڈے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دانستہ عقب میں بیٹھے تھے کہ کہیں ہجوم میں مل نہ جائیں۔ نئے روسی وزیر نے اپنے بیلیجیئم کے ساتھیوں کے لئے کسی استقبالیہ تقریب کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ وینڈ رویلڈے اس سے پہلے کیا کرتا رہا تھا، اس کی یاد ہر ذہن میں ابھی تک تازہ تھی۔
سٹیشن کے استقبالیہ کے فوراً بعد میں ایک ایسے گرد باد میں پھنس گیا جس میں آدمی اور واقعات مجھے پانی کے تیز دھارے میں تنکے کی طرح بہاتے چلے گئے۔ بے حد اہم واقعات اب دھند لا رہے ہیں کہ میرا ذہن ان کی یادوں کی شدت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں سٹیشن سے سیدھا سوویت کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں چلاگیا تھا۔ شدیز جو اس وقت کمیٹی کاچیئرمین تھا، اس نے بڑے خشک انداز میں مجھے خوش آمدید کہا۔ بالشویکوں نے تحریک پیش کی کہ1905ء میں سوویت کا چیئر مین ہونے کی حیثیت سے مجھے کمیٹی کارکن چن لیا جائے۔ اس تحریک سے کمیٹی پریشانی کاشکار ہو گئی۔ منشویک اور پالولسٹ کانا پھوسی کرنے لگے۔ اس وقت تمام انقلابی اداروں میں ان کی اکثریت تھی۔ آخر مجھے بطور مشیر رکھ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مجھے کالی چائے اور ڈبل روٹی کے ساتھ رکنیت کا کارڈ دے دیا گیا۔(۔۔۔۔)
پیٹرو گراڈ کا گیریژن بہت وسیع تھا مگر اس میں زیادہ سختی نہیں برتی جاتی تھی۔ سپاہی مارچ کرتے وقت انقلابی گیت گا رہے تھے۔ ان کی ٹوپیوں پر سرخ ربن لہراتے دکھائی دیتے تھے۔ یہ کوئی ناقابل یقین خواب تھا۔ ٹرام کاریں سپاہیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ بڑی سڑکوں پرفوجی پر یڈ جاری تھی۔ سپاہی رائفلیں پکڑے ایک قطار میں چلتے اور پھر پیچھے مڑ جاتے۔ جنگ کا خوفناک عفریت ابھی تک انقلاب کے پیچھے کھڑا اس پر اپنا سایہ ڈال رہا تھا لیکن عوام کا جنگ پرسے اعتبار اٹھ گیاتھا۔ جنگ اس لیے جاری تھی کہ اسے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ ناگزیر ہو چکی تھی، یہ بات سمجھنے والا کوئی نہیں تھا، ’’انقلابی جمہوریت‘‘ کے نام نہاد راہنما بھی کیونکہ وہ ملکوں کے باہمی تعلقات خراب کرنے سے ہلاکت ناک حد تک خوفزدہ تھے۔
میں کرنسکی کو بالکل نہیں، تزرتلی کوتھوڑا سا اور شدیز کو خاص حد تک جانتا تھا۔ سکوبی لوف میرا پرانا شاگرد تھا۔ چرنوف سے بیرون ملک میرے کئی تقریری مقابلے ہوتے رہے تھے۔ گوتز سے میں پہلی مرتبہ ملا تھا۔ یہ سوویت جمہوریت کا حکمران گروہ تھا۔ تزرتلی بلاشبہ دوسرے سے بہت بہتر تھا۔ میں اسے 1907ء میں لندن کا نگریس کے موقع پر پہلی مرتبہ ملا تھا۔ اس وقت وہ دوسری ڈوما میں سوشل ڈیموکریٹک فریق کی نمائندگی کررہا تھا۔ ان ابتدائی دنوں میں بھی وہ ایک شاندار مقرر تھا جس کی اخلاقی برتری بڑی پراثر تھی۔ سائبیریا میں اس کے سخت محنت کے دنوں نے اس کی سیاسی حاکمیت میں اضافہ کیا تھا۔ اس نے ایک پختہ خیال آدمی کی حیثیت سے انقلابی حلقے میں واپس آکر اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کی پہلی صف میں جگہ بنالی تھی۔ وہ میرے مخالفوں میں ایک ایسا شخص تھا جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت تھی۔ لیکن جیسا کہ اکثر تاریخ میں ہوتا ہے، انقلاب نے ثابت کر دیا کہ تزرتلی انقلابی نہیں تھا۔ کسی گنجلک میں پڑنے سے بچنے کے لئے روسی انقلاب کوفقط روسی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ عالمی زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت تھی۔ مگر تزرتلی نے اسے جارجیا اور دوسرے ڈوما میں اپنے تجربے کے پس منظر میں دیکھا۔ اس کا سیاسی نقطہ نظر بڑا تنگ اور علم ادبی لحاظ سے فالتو قسم کا ثابت ہوا۔ وہ آزاد خیالی کی بے حد عزت کرتا تھا اور انقلاب کے بے پناہ امکانات کو ایک نیم تعلیم یافتہ بورژوا کی آنکھ سے دیکھتا اور ثقافت کی سلامتی کا بے حد فکر مند تھا۔ عوام اسے بتدریج ایک باغی ہجوم نظر آنے لگا۔ اس کے پہلے لفظ ہی سے میں نے جان لیا کہ وہ ایک دشمن شخص تھا۔ لینن اسے کند ذہن کہا کرتا تھا۔ یہ بڑا بے رحمانہ لقب تھا۔ تزرتلی ایک باصلاحیت مگر محدود نوعیت کا آدمی تھا۔
لینن کرنسکی کو ’’بیچارہ شیخی باز‘‘ کہا کرتا تھا۔ اب بھی اس میں کسی رد وبدل کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بڑا آگے آگے رہنے والا شخص تھا اور ابھی تک ایسا ہی ہے۔ تاریخی لمحے میں حکومت ہاتھ میں لینے کا شوقین۔ انقلاب کی طاقتور لہرنے ایسے ہیرو اپنے اوپر بٹھائے ہوئے ہیں جن کی اپنی ہی ایک چمک دھمک ہوتی ہے مگر عوام نے انہیں پہچانا نہیں ہوتا۔ کرنسکی پادری گوپان اور خرستل یوف کا پیروکار نکلا۔ وہ حالات کی پیداوار تھا اور واقعات کے دھارے میں اتفاقیہ داخل ہوگیا تھا۔ اس کی تقریریں پانی کاایک ریلا ہوتی تھیں۔ 1917ء میں اس پانی میں ابال آگیا اور یہ بھاپ کا بادل بن گیا۔ اسی بادل کے کناروں پر وہ روشنی کے ایک ہالے مانند چمکتا رہا۔
سکوبیلیف جب ویانا میں ایک طالبعلم تھا تو وہ میری راہنمائی میں سیاست میں داخل ہوا۔ وہ ’’پراودا‘‘ کا ادارتی بورڈ چھوڑ کر کوہ قاف چلاگیا تاکہ چوتھے ڈوما کے انتخاب میں اپنی قسمت آزما سکے۔ وہاں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ ڈوما میں وہ منشویکوں کے زیر اثر آگیا۔ فروری انقلاب میں وہ ان کے ساتھ تھا۔ عرصے سے ہمارے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔وہ مجھے پیٹرو گراڈ میں نیا نیا وزیر محنت کی حیثیت سے ملا اور مجلس عاملہ کے اجلاس میں بڑے والہانہ انداز میں میری طرف آیا اور پوچھا کہ یہ جوسب کچھ ہو رہا تھا، اس کے بارے میں میرا خیال تھا۔ ’’ابھی تو تمہاری صلاحیتیں چمکنی ہیں‘‘ میں نے جواب دیا۔ میری یہ پشین گوئی چھ ماہ میں درست ثابت ہوئی اور سکوبیلیف نے ہنس کر بعد میں مجھے یاد دہانی کرائی۔ اکتوبر انقلاب کی فتح کے فوراً بعد اس نے بالشویک ہونے کا اعلان کر دیا۔ لینن اور میں اسے پارٹی میں لینے کے مخالف تھے۔ اب وہ سٹالن کا آدمی ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔
مجھے اور میری بیوی بچوں کو کیف ہوسٹل میں بڑی مشکل سے رہنے کو ایک کمرہ ملا۔ (۔۔۔۔) جولائی کے دنوں کے بعد جن کا ذکر میں بعد میں کروں گا، پیٹرو گراڈ کی سٹرکیں اور گلیاں بالشویکوں کے خلاف بہتانوں اور الزام تراشیوں سے بھر گئیں۔ کرنسکی حکومت نے مجھے گرفتار کرلیا۔ اور یوں جلاوطنی سے واپسی کے دوماہ بعد میں نے خود کو کرسٹی کے جانے پہچانے قید خانے میں پایا۔ ایمہرسٹ کے کرنل مورس نے اخبارات میں میری گرفتاری کی خبر بڑے اطمینان سے پڑھی ہوگی۔ وہ اکیلا ہی نہیں اس کے اطمینان میں اور لوگ بھی شامل ہوں گے۔ گھر پر میرے بیٹے بڑے غیر مطمئن تھے۔ یہ کس قسم کا انقلاب تھا۔ وہ ماں سے ملامت بھرے لہجے میں پوچھتے۔ باپ کو پہلے فوجی نظر بندی میں اور اب جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ یہ سب کیا تھا؟ ماں نے انہیں بتایا کہ یہ حقیقی انقلاب نہیں تھا۔ لیکن تشکیک ان کے دلوں میں گھر بنا چکی تھی۔
’’انقلابی جمہوریت‘‘ کی قید سے رہائی کے بعد ہم ایک بڑی بورژوا عمارت کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں کرائے پررہنے لگے۔ یہ عمارت ایک آزاد خیال صحافی کی بیوہ کی تھی۔ اکتوبر انقلاب کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ مجھے پیٹرو گراڈ سویت کا چیئرمین بنا دیا گیا تھا۔ پریس نے ہر ممکن طریقے سے مجھ پر حملے شروع کر دئیے۔ ہم ہر روز دشمنی اور نفرت میں گھر تے جا رہے تھے۔ ہماری باورچن آنا اوسی پوفنا جب ’’ہاؤس کمیٹی‘‘ میں راشن وغیرہ لینے جاتی تو اسے دوسری عورتوں کے لعن طعن کا نشانہ بننا پڑتا۔ میرے بڑے بیٹے کا سکول میں مذاق اڑایا جاتا اور اسے ’’چیئرمین‘‘ کہا جاتا۔ جب میری بیوی کام سے واپس آتی تو عمارت کا نگران اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھتا۔ زینہ چڑھنا ایک عذاب بن گیا تھا۔ ہماری مالکہ مکان فون پر ہم سے پوچھتی رہتی کہ اس کافرنیچر کیا ابھی تک ٹوٹ پھوٹ سے بچا ہوا تھا۔ مگر ہم کہاں جاتے؟ شہر میں کوئی اور خالی مکان نہیں تھا۔
صور تحال بتدریج ناقابل برداشت ہو تی جارہی تھی۔ پھر ایک دن میرے گھر کا گھیراؤ ایک دم ختم ہو گیا جیسے کسی طاقتور ہاتھ نے اسے ہٹا دیا تھا۔ اب جب کبھی عمارت کا نگران میری بیوی سے ملتا تو وہ اسے بڑے آداب سے جھک کر سلام کرتا۔ ہاؤس کمیٹی میں ہماری باورچن کو اب راشن کسی تاخیر کے بغیر ملنے لگا۔ اب کوئی ہمارے منہ پر دروازہ بند نہیں کرتا تھا۔ یہ تبدیلی کیسے آگئی تھی؟ اس میں کس جادو گر کا ہاتھ تھا؟ وہ جادو گرنکولائی مارکن تھا مجھے اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتانا پڑے گا۔ کیونکہ یہ مارکن ہی تھا جس کی وساطت سے اکتوبر انقلاب فتح سے ہم کنار ہو ا تھا۔
مارکن بالٹک کی بحری فوج میں ایک جہاز ران تھا۔ وہ توپچی تھا اور ایک بالشویک بھی۔ شروع میں اسے اپنے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ آگے کی طرف بڑھنا اور پہل کرنا اس کی فطرت نہیں تھی۔ وہ کوئی مقرر بھی نہیں تھا لفظ بڑی مشکل سے اس کی زبان پر چڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ شرمیلا اور کاہل الوجود بھی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کاہلی اس کے وجود میں رچی ہوئی تھی۔ وہ بڑا خشک مزاج تھا۔ جب اس نے میرے کنبے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لے لی تو میں اسے بمشکل جانتا تھا۔ وہ میرے بیٹوں کوباہر لے کر جاتا۔ انہیں چائے پلاتا۔ کسی کنٹین سے سینڈوچ کھلاتا اور انہیں وہ ساری خوشیاں مہیا کرتا جن کا ان تاریک دنوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وہ کسی تکلف کے بغیر ہمارے گھر آجاتا اور پوچھتا رہتا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تو تھا۔ مجھے اس کی موجودگی کا کبھی احساس نہیں ہوا تھا۔ میرے بیٹوں اور ہماری باورچن اوسی پوفنا سے اسے معلوم ہوا کہ ہم دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے۔ مارکن جہاز رانوں کے ایک گروہ کے ساتھ نگران اعلیٰ اور ہاؤس کمیٹی کو ملا۔ اس نے یقیناً کوئی بہت اچھے الفاظ استعمال کیے ہوں گے کہ ہمارے اردگرد کی ہر چیز اچانک تبدیل ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر انقلاب سے پہلے میں جس عمارت میں رہتا تھا وہاں پرولتاریہ کی آمریت قائم تھی۔ بعد میں مجھے اپنے بچوں کی وساطت سے معلوم ہوا کہ مارکن جوان کا دوست بن چکا تھا، اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا تھا۔
جب سوویت پربالشویکوں کاقبضہ ہو گیا تو بالشویکوں کی مخالفت میں مرکزی مجلس عاملہ نے سوویت کو کسی بھی اخبار سے محروم کرنے کی خاطر سارے میڈیا کی حمایت حاصل کرلی۔ ہمیں ایک نئے اخبار کی ضرورت تھی۔ میں نے مارکن سے مشورہ طلب کیا، وہ نجانے کہاں غائب ہو گیا۔ اخبار کے مالکوں سے ملتا رہا اور چند دنوں میں اس نے ہمارے لئے ایک اخبار کا انتظام کر دیا۔ ہم نے اس اخبار کانام ’’کارکن اور سپاہی‘‘ رکھا۔ مارکن اخبار کو ٹھیک طرح چلانے کے لئے دن رات کام کرتا رہتا۔ اکتوبر انقلاب کے خطرناک دنوں میں اس کا مضبوط جسم اور سنولایا ہوا چہرہ ہر نازک لمحہ پردکھائی دیتا۔ وہ مجھے صرف یہ بتانے کے لئے آتا رہتا کہ ہر کام طریقے سے ہو رہا تھا۔ اور پوچھتا کیا مجھے کسی چیز کی ضرورت تھی؟ وہ اپنا دائرہ وسیع کر رہا تھا اور پیٹرو گراڈ میں پرولتاریہ کی آمریت مضبوط کرنے میں مصروف تھا۔
(۔۔۔۔)جب مجھے وزارت خارجہ کا سربراہ بنایا گیا تو میرا خیال تھا کہ میرے لیے کام کرنا بہت مشکل ہوگا۔ نائب وزیر سے ٹائسپسٹ تک ہر کوئی میرے خلاف سازش میں مصروف تھا۔ فائلیں الماریوں میں بند کر کے چابیاں گنوادی گئی تھیں۔ میں نے مارکن کو بلایا جو راست اقدام کا راز جانتا تھا۔ اس نے دو تین سفارت کاروں کو چوبیس گھنٹے کے لئے کمروں میں بند کر دیا۔ اگلے دن مارکن نے چابیاں میرے سامنے رکھ دیں اور مجھے دفتر خارجہ آنے کی دعوت دی۔ میں سمولنی میں انقلاب کے کام میں مصروف تھا اور میرے پاس دفتر خارجہ جانے کا وقت نہیں تھا۔ لہٰذا میں نے مارکن کو قائم مقام وزیر خارجہ بنا دیا۔ وہ اپنا کام بڑی جلدی سیکھ گیا۔
اس نے نک چڑھے اہلکاروں کو باہر نکال دیا۔ دفتر کی ترتیبِ نوکی۔ سفارت کاروں کے سامان میں جونا جائز آشیا آتی تھیں وہ ضبط کر کے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں۔ محافظ خانے سے بے حد خفیہ دستاویزات نکلوائیں اور انہیں اپنی ذمہ داری پر شائع کروایا۔ مارکن کے پاس کوئی تعلیمی سند نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس کی تحریر غلطیوں سے خالی تھی۔ اس کا تبصرہ بعض اوقات غیر متوقع ہوتا تھا لیکن مجموعی طور پر جہاں ان کی سخت ضرورت تھی۔ بیرن بون، کوہل مان اور کاونت زرنن اس کے کتابچے برسٹ لٹووسک جیل میں بڑے شوق سے پڑھتے رہتے تھے۔
پھر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ مارکن نے کئی شگاف پر کر دیئے۔ مارکن نے مشرقی علاقے میں دریائے وولگا پر نیوی کی کمان سنبھال لی اور دشمن کو دور تک پیچھے دھکیل دیا۔ جب مجھے معلوم ہوتا کہ نازک اور خطرناک مواقع پر مارکن موجود تھا تو مجھے اطمینان کے ساتھ سکھ کا سانس لینے کی مہلت مل جاتی۔ لیکن اس کاوقت آگیا تھا۔ کاما کے محاذ پر دشمن کی ایک گولی نے اس مضبوط جہاز ران کے پاؤں لرزا دئیے۔ جب مجھے اس کی موت کا تار ملا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بہت بڑا ستون دھڑام سے گر پڑا تھا۔ اس کی تصویر میرے بیٹوں کی میز پر پڑی تھی جس میں اس کی جہاز رانوں والی ٹوپی میں سرخ ربن لگا ہوا تھا۔
(۔۔۔۔) میری زندگی بڑے بڑے جلسے جلسوں کا بھنوربن کر رہ گئی۔ جب میں پیڑو گراڈ پہنچا تو میں نے دیکھا کہ سارے مقرروں کی آوازیں رندھ چکی تھیں اور وہ بے آواز ہو چکے تھے۔ 1905ء کے انقلاب نے مجھے اپنی آواز کی حفاظت کرنا سکھا دی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ میں کبھی اپنے آپے سے باہر نہیں ہوا تھا۔ ہر جگہ جلسے ہو رہے تھے، سڑکوں پر، چوراہوں میں، سکولوں میں، کالجوں میں، تھیٹروں میں اور صنعتی اداروں میں۔ میں تھکا ٹوٹا عموماً آدھی رات کوگھر لوٹتا تھا۔ آدھی نیند کی حالت میں بھی دشمن کے خلاف میرے ذہن میں بہترین دلائل در آتے تھے۔ صبح کے سات بجے یا اس سے دروازے پر کوئی پوشیدہ طاقت ایک دم ابھر کر سامنے آجاتی اور کہیں کسی نہ کسی میٹنگ میں جانا پڑ جاتا۔ ہر دفعہ مجھے ایسے محسوس ہوتا جیسے میری ہمت جواب دے جائے گی۔ ایسے موقعہ پر کوئی پوشیدہ طاقت ایک دم ابھر کر سامنے آجاتی اور میں گھنٹہ دو گھنٹے متواتر بولتا چلاجاتا۔اس وقت مجھے دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے پارٹی کے کارکنوں اور نمائندوں نے گھیرے میں لیا ہوتا۔ میں نے ان کے علاقوں میں بھی تقریر کے لئے جانا تھا جو گھنٹوں سے میرے منتظر ہوتے تھے۔ وہ لوگ نئے لفظ سننے کے کس قدر مشتاق تھے۔
ماڈرن سرکس میں بڑے بڑے جلسے میرے لئے خاص اہمیت کے حامل تھے۔ میرے مخالفوں کے نزدیک بھی وہ بڑے جلسے تھے مگر وہ اسے کسی دوسری نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ ماڈرن سرکس کو میرا خاص قلعہ سمجھتے اور وہاں بولنے کی جرات نہ کرتے۔ جب میں سوویت کے اجلاس میں مصالحت پسندوں پر حملہ آور ہوتا تو نعرے لگنے لگتے کہ ’’یہ تمہارا ماڈرن سرکس نہیں ہے۔‘‘ میں سرکس میں عموماً شام کے وقت یا رات گئے تقریر کرتا تھا۔ میرے سامعین محنت کشوں، فوج کے سپاہیوں، محنت کرنے والی ماؤوں اور دارالحکومت کے افتاد گان خاک پر مشتمل ہوتے تھے۔ سارا چوک بھر جاتا۔ انسانی بدن ممکن حد تک سکڑ کر ایک دوسرے کے لئے جگہ بناتے رہتے۔ نوعمر لڑکے اپنے باپوں کے کندھوں پر چڑھے ہوتے۔ مائیں دودھ پیتے بچوں کو سینے سے لگائے ہوتیں، کوئی سگریٹ نہ پیتا۔ اردگرد کے مکانوں کی بالکونیاں انسانی جسموں کے زیادہ بوجھ سے گرنے کے خطر میں مبتلا ہو جاتیں۔ میں سٹیج پر پہنچنے کے لئے انسانوں کی ایک تنگ سرنگ میں سے گزر کر جاتا۔ بعض اوقات مجھے ہاتھوں پر اٹھا کر اسٹیج تک لے جایا جاتا۔ لوگوں کے ہجوم اور سانسوں کی وجہ سے ماڈرن سرکس کی فضا بھاری ہو جاتی۔ اور میرے آنے پر خاص قسم کے جذباتی نعروں سے بھر جاتی۔ میرے اردگرد کہنیوں، چھاتیوں اور سروں کادباؤ بڑھتا چلا جاتا۔ جب میں تقریر کے دوران اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتا تو وہ کسی نہ کسی دوسرے ہاتھ یا بدن سے چھو جاتا۔ پھر تشکر بھری کوئی آنکھ میرے طرف اٹھ جاتی جوکہہ رہی ہوتی کہ میرا ہاتھ لگنے سے اس نے بر انہیں منایا تھا اورمیں اپنی تقریر جاری رکھوں۔ کوئی مقرر خواہ کتنا ہی تھکاوٹ سے چور ہو اپنے چاہنے والوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کرتازہ دم ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا جیسے میں اس بڑے ہجوم کے دل کی بات کہہ رہا تھا۔ ایسے مواقع پر میرے لاشعور کی تہہ میں چھپی ہوئی کئی باتیں ابھر ابھر کر سامنے آتی رہتیں اور یوں لگتا کہ میں اپنے آپ سے باہر کھڑا اپنے آپ کوسن رہا تھا۔ اور اپنے خیالوں کے ساتھ چلنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
(۔۔۔۔) جلسے کے بعد ویران سڑکوں پراندھیرے میں چلتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دیتی۔ گذشتہ رات اور اس سے پہلی رات بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اپنے ریوالور پر ہاتھ رکھتے ہوئے میں تیزی سے مڑا اور چند پیچھے کی طرف چل کر کھڑا ہو گیا۔
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے سختی سے پوچھا۔ ایک پر خلوص چہرے والا نوجواں میرے کھڑا تھا۔
’’ آپ مجھے اپنی حفاظت کرنے کی اجازت دیں، سرکس میں آنے والے بعض لوگ آپ کے دشمن بھی ہیں۔‘‘ وہ ایک طالب علم تھا جس کا نام پوزننسکی تھا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ انقلاب کا سارا عرصہ میرے ساتھ بڑے خاص خاص مواقع پر جاتا رہا اور بڑی ذمہ داری سے اپنا فرض نبھاتا رہا۔ وہ میرے ذاتی تحفظ کا ذمہ دار تھا۔ فوجی کاروائیوں کے دوران میں میرے انتظامی امور کا ذمہ دار بن جاتا۔ دکانوں سے میرے لئے ضروری کتابیں لے کر آتا۔ جنگ کے لئے دستوں کو تیار کرتا اورخود بھی محاذ جنگ پر لڑتا۔ بعد میں وہ میرے دشمنوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ اب وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے، مجھے امید ہے مستقبل ہمیں پھر اکٹھا کر دے گا۔ دسمبر کو ماڈرن سرکس میں لوگو ں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے میں نے سوویت حکومت کی کارکردگی پر ایک رپورٹ پیش کی۔ میں نے زار اور کرنسکی کی حکومتوں کے دوران میں ہونے والی خط وکتابت کو شائع کرنے کی اہمیت کی وضاحت کی۔ میں نے اپنے وفادار سامعین کو بتایا کہ لوگ ایسے معاہدوں کے لئے اپنا خون نہیں بہاتے جوان کی مرضی سے طے نہ پائے ہوں، جو انہوں نے پڑھے اور دیکھے نہ ہوں۔ اس پر سوویت کے اندر موجود مصالحت پسندوں نے مجھے ملامت کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ’’ہمارے ساتھ ایسی زبان میں گفتگو مت کرو یہ تمہارا ماڈرن سرکس نہیں ہے‘‘ میں نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا ’’ مجھے ایک ہی زبان آتی ہے اور وہ ہے انقلاب کی زبان۔ میں یہ زبان عوامی جلسوں میں بولتا ہوں۔ یہی زبان میں اتحادیوں اورجرمنوں کے لئے استعمال کروں گا۔‘‘ اخباروں کی رپورٹ کی مطابق اس موقع پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ماڈرن سرکس سے میرا رابطہ فروری میں ختم ہو گیا جب میں ماسکو چلا گیا۔