| تحریر: خالد جمالی |
لیون ٹراٹسکی کو 75 سال قبل 20 اگست 1940ء کو قتل کر دیا گیا۔ مگر اسے مار کر بھی نہ مارا جاسکا۔ اس نے لکھا تھا ’’ہمیں واقعات میں علت و معلول کی ترتیب سمجھنا اور اس ترتیب میں کہیں اپنی جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ یہ ہر انقلابی کا اولین فریضہ ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ اس شخص کے لئے عظیم ترین ذاتی تسکین کا سبب ہے جو اپنے فرائض کو موجودہ عہد تک محدود نہیں کرتا ۔‘‘اسی طرح وہ خود اپنے عہد سے ارفع ہو گیا۔ لیون ٹراٹسکی ایک عظیم انقلابی مارکسسٹ، تنظیمی رہنما، عسکری ماہر، ادیب، مقرر اور لینن کے ہمراہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب یعنی 1917ء کے بالشویک انقلاب کا معمار تھا۔
ٹراٹسکی اپنی نوجوانی میں ہی انقلابی سیاست میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے لکھا کہ وہ اپنی تلاش میں تھا اور اس نے خود کو مزدوروں کو منظم کرنے میں تلاش کرلیا۔ وہ سکول چھوڑنے کے ایک سال بعد گرفتار ہوا۔ 1905ء کے روسی انقلاب میں 26 سال کی عمر میں وہ پیٹروگراڈ سوویت کا چیئر مین منتخب ہوا اور اس انقلاب میں شورش کو منظم کیا۔
RSDLPکی دوسری کانگریس جو 1903ء میں ہوئی اس میں پھوٹ (پارٹی کے منشویک اور بالشویک حصے میں تقسیم کا آغاز ہوا ) کے خلاف ٹراٹسکی نے جدوجہد کی۔ اس نے متعدد بار اعتراف کیا کہ وہ اس بارے میں غلط اور لینن درست تھا۔ مگر ٹراٹسکی اکیلا اس پھوٹ کے خلاف بھی نہیں تھا۔ علاوہ ازیں وہ 1904ء میں منشویکوں سے بحث کے بعد ان سے بھی الگ ہو گیا۔
لیون ٹراٹسکی نے اسی عرصے میں ’’مسلسل انقلاب‘‘ کا نظریہ وضع کیا۔ مسلسل انقلاب کا وہ سب سے بڑا علمبردار رہا۔ مسلسل انقلاب کے نظریے پر روزا لکسمبرگ اس سے اتفاق کرتی تھی۔
1905ء کے رد انقلاب کے بعد اپنی دوسری جلاوطنی کے دنوں میں یورپ میں ٹراٹسکی اور کامریڈ جوفے نئے انقلاب کا تناظر بنا چکے تھے۔ وہ دونوں بڑے اعتماد کے ساتھ نئے انقلاب کے منتظر تھے۔ مسلسل انقلاب کی وضاحت ایک نمایاں منشویک نے اپنی یاداشتوں میں ٹراٹسکی کے متعلق لکھتے ہوئے یوں کی ’’اپنے پرچے میں وہ(ٹراٹسکی) روس میں مسلسل انقلاب کی وکالت کرتا رہتا تھا۔ اس کی دلیل تھی کہ ایک مرتبہ انقلاب شروع ہو جائے تو پھر ختم نہیں ہوتا۔اس پر رومانوی ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔بالشویک اور منشویک اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔لیکن وہ حملوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی بات پر مضبوطی سے ڈٹا رہتا ہے‘‘۔ ٹراٹسکی نے لکھا ’’ مسلسل انقلاب نے اس کی ذاتی زندگی میں بڑا کردار ادا کیا اور مشرق کے ممالک کے لئے د ل خراش حقیقت بن گیا ہے‘‘۔
1950ء سے 70ء کی تین دہائیوں کے انقلابات ’’نظریہ مسلسل انقلاب‘‘ کا ثبوت ہیں۔ چین، افریقہ، مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ میں اس دوران ان گنت انقلابات یا بائیں بازو کے فوجی کُو ہوئے جن میں انقلاب کی قیادت کو نہ چاہتے ہوئے بھی سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا پڑا کیونکہ سرمایہ داری میں اصلاحات کی گنجائش ہی نہ تھا۔2011ء کا عرب انقلاب تیونس سے اٹھا تو پھیلتا ہی چلا گیا، یہی صورتحال امریکہ سے اٹھنے والی آکو پائی وال سٹریٹ تحریک اور آج یورپ میں جاری آسٹیریٹی مخالف تحریکوں کی ہے۔تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ انقلابات سرحدوں کا احترام نہیں کرتے لیکن ان کی کامیابی کی حتمی ضمانت انقلابی پارٹی کی قیادت ہوا کرتی ہے۔ لینن اس معقولے کو اکثر دہرایا کرتا تھا کہ حقیقی اندھے وہ ہیں جو دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔آج عالمی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیاں بچے کھچے سٹالنسٹ بائیں بازو کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
پہلی عالمی جنگ سے قبل اور اس کے دوران لیون ٹراٹسکی دوسری انٹرنیشنل کے بہت سے نمایاں نظریہ دانوں کی غداری اور موقع پرستی کے خلاف مسلسل لکھتا رہا۔ ٹراٹسکی نے لکھا ’’موجودہ جنگ ایک طرف نجی ملکیت اور دوسری طرف ریاستی حدود کے خلاف عالمی سطح پر سرمایہ داری کی پیداواری طاقتوں کی شورش تھی‘‘۔ ٹراٹسکی نے’’ جنگ اور انٹرنیشنل ‘‘ نامی ایک کتاب عالمی جنگ کے آغاز میں 1914ء میں لکھی۔ یہ کتاب جرمن سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے خلاف تھی جو کہ دوسری انٹرنیشنل کی دوسری بڑی پارٹی تھی۔ہیل مان(ایک صحافی اور جنگجو وطن پرست) نے اس کتاب کو پاگل پن قرار دیا ۔ ایک جرمن عدالت نے یہ کتاب لکھنے کی گستاخی پہ ٹراٹسکی کو اس کی غیر موجودگی میں قید کی سزا بھی سنا ڈالی۔ بعد میں یہ کتاب یورپ اور امریکہ کی متعدد زبانوں میں شائع ہوئی۔اکتوبر انقلاب کے بعد سوویت جمہوریہ نے اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع کیے۔ 1924ء کہ بعد اس کتاب کو ایک دم غائب کر دیا گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران ٹراٹسکی یورپ کے متعدد ممالک سے نکالا گیا۔ فروری انقلاب 1917ء کے وقت وہ نیویارک (امریکہ) میں مقیم تھا۔ جب اسے فروری انقلاب کا علم ہوا تو وہ جلد از جلد روس روانہ ہوا، اس پیشین گوئی کے ساتھ کہ اس کے بعد کا انقلاب ہمارا انقلاب ہے۔ برطانوی حکومت نے واپسی پر اسے ایک ماہ قید رکھا۔ ولادیمیر لینن اپریل 1917ء میں روس پہنچ گیا تھا۔ ٹراٹسکی اسی سال مئی کی شروعات میں روس پہنچا۔ مارچ 1917ء میں لینن جنیواسے ’’باہر سے خطوط‘‘ کے عنوان سے مضامین پیٹروگراڈ روانہ کرتا رہا اور ٹراٹسکی مارچ 1917ء میں نیویارک میں انقلاب کے تناظر پرمضامین کا سلسلہ لکھتا رہا ۔ ٹراٹسکی نے لکھا ’’اگرچہ ہم ایک دوسرے سے جدا تھے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں تھے مگر صورتحال کے بارے میں ہمارا تجزیہ اور پیشین گوئی ایک جیسی ہی تھی۔‘‘
لینن کے اپریل میں روس آنے سے پہلے1917ء میں فروری انقلاب کے بعد قائم ہونے والی کرنسکی حکومت کی طرف بالشویکوں کا رویہ مصالحت پرستانہ تھا۔روس میں موجود بالشویک قیادت پرولتاری آمریت کو پالیسی کا حصہ بنانے کو تیار نہیں تھی اور یہ لینن کے تناظر سے تضاد تھا۔ لینن اپریل تھیسز اور اپریل کانفرنسز کرنے پہ مجبور ہوا۔تب جا کر لینن اس لائق ہوا کہ پارٹی کی قیادت کو صحیح سمت دی جائے۔لینن نے عوام سے اپنے نااہل رہنماؤ ں کے متعلق معذرت کا اظہار کیا تھا۔
مئی 1917ء میں ٹراٹسکی کو بالشویکوں نے پیٹروگراڈ سوویت کا چیئر مین منتخب کرنے کی کوشش کی۔ اسے رکن منتخب کیا گیا۔بعد میں چیئر مین منتخب ہوا۔آنے والے دن بہت برے تھے۔ پیٹروگراڈ کی سڑکیں اور گلیاں بالشویکوں کے خلاف بہتانوں اور الزامات سے بھر گئیں۔ لینن،زینوویف اور متعدد رہنما زیر زمین چلے گئے۔ ٹراٹسکی کو کرنسکی حکومت نے گرفتار کر لیا۔ پھر وہ رہا کر دیا گیا۔ یہ ٹراٹسکی ہی تھا جس نے لینن کی غیر حاضری میں بالشویکوں اور مزدوروں کی رہنمائی کی۔ ٹراٹسکی نے لکھا ’’پارٹی کے بالشویک ارکان نے جس گرم جوشی اور محبت سے میرا شکریہ ادا کیا ، مجھے آج بھی یاد ہے‘‘۔ مارٹوف نے کہا ’’لینن ہمارے درمیان نہیں ہے، جو دوسرے موجود ہیں ان میں ٹراٹسکی ہی عقل کی بات کرتا ہے‘‘۔سمولنی محل (جس کو مجلس عاملہ کا دفتر بنا دیا گیا تھا) سے مزدور آمریت پیٹروگراڈ میں پھیلتی گئی۔ پھر پورے ملک میں پھیل گئی۔
انقلاب کے بعد ٹراٹسکی کو پہلا وزیر خارجہ بنایا گیا، پھر جنگی امور کا وزیر ۔ اسی اثنا میں اتحادی افواج نے عالمی جنگ ختم کر دی پھر 21 ممالک نے مل کر سوویت جمہوریہ پر حملہ کر دیا۔ سرخ افواج نے 21 ممالک کی فوج کو شکست فاش دی۔ ٹراٹسکی نے ڈھائی سال ٹرین میں سفر کرتے ہوئے سرخ فوج کی کمانڈ کی۔ ٹراٹسکی نے جنگ کے موضوع پر پانچ جلدیں تحریر کیں۔ بالشویک انقلاب کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ ایک اہم فتح تھی مگر انقلاب ایک رجعتی صورتحال کے بھنور میں آگیا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویکوں نے ایک ملک میں انقلاب کو محدود رکھنے کا کبھی نہیں سوچا تھا۔ بالشویکوں کی حکومت کا دارومدار انقلاب کے دوسرے ممالک میں پھیلنے پر تھا، خاص کر جرمنی میں۔ جرمنی میں جلد ہی انقلابی صورتحال بنی،1918ء میں، پھر 1919ء میں، پھر 1921ء میں اور پھر1923ء میں مگر یہ سب انقلابی شورشیں ٹھوس قیادت اور بالشویک پارٹی کی عدم موجودگی میں ناکام رہیں۔
روسی انقلاب کو خانہ جنگی،21 ممالک کی جارحیت اور انقلاب کے نہ پھیلنے نے زوال پذیر کرنا شروع کر دیا جس سے بیوروکریسی مضبوط ہونا شروع ہو گئی۔اس رجعت نے جوزف سٹالن کی صورت میں اپنا لیڈر تراش لیا ۔ بیوروکریسی اور سٹالن انقلاب کی ہر زندہ یاد سے چھٹکارہ پانا چاہتے تھے۔ لینن اور ٹراٹسکی نے اس رجعت سے جنگ کرنا شروع کر دی۔ لینن نے مرکزی کمیٹی سے گزارش کی کہ سٹالن کو پارٹی کے اہم عہدے (جنرل سیکرٹری) سے ہٹایا جائے۔ لینن نے سٹالن کے متعلق کہا تھا ’’سٹالن بڑا بدتمیز ہے‘‘۔ لینن کی موت اور جرمنی کے 1923ء کے رد انقلاب نے اور ٹرائیکا(سٹالن، زینوویف، کامینیف) نے رجعت کا راستہ مزید ہموار کیا۔ ٹراٹسکی نے لیفٹ اپوزیشن بنائی۔ 1927ء میں ٹراٹسکی کو جبری جلا وطن کر دیا گیا اور لیفٹ اپوزیشن کو کچل دیا گیا۔ جرمنی کا 1923ء، برطانیہ کا 1926ء، چین کا 1927ء اور اسپین کا 1936ء کا انقلاب سٹالن کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ سٹالن نے مرکزی کمیٹی کے تمام ممبران کو راستے سے ہٹا دیا، اس نے جلد ہی بخارن کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ کامینیف اور زینوویف کو جھکایا۔ 1925ء میں زینوویف نے ٹراٹسکی سے اعتراف کیاکہ ’’سٹالن 1924ء کے بعد سے آپ کو ختم کرنے کا عہد کر چکا ہے۔ سب سے پہلے وہ لیفٹ اپوزیشن کو ختم کرنا اور پھر تم کو ختم کرنا چاہتا ہے‘‘۔ سٹالن نے ریاستی مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے سب سے پہلے بالشویکوں اور ٹراٹسکی پر بہتان تراشی شروع کر دی۔ ٹراٹسکی نے جم کر اپنا اور بالشویک روایات کا دفاع کیا۔ ٹراٹسکی نے اپنی آپ بیتی کے متعلق لکھا ’’ان صفحات میں بھی میں نے وہ جدوجہد جاری رکھی جس کے لئے میری ساری زندگی وقف ہے‘‘۔ ٹراٹسکی نے سٹالنزم کے خلاف جدوجہد میں’’انقلاب سے غداری‘‘ جیسی کتاب تحریر کی۔ٹراٹسکی جلا وطنی میں ترکی، فرانس، ناروے سے ہوتا ہوا بالآخر میکسیکو پہنچا۔
فروری 1938ء میں ٹراٹسکی کے بیٹے لیون سیدوف کو سٹالن کی خفیہ پولیس نے پیرس میں قتل کر دیا۔ ٹراٹسکی نے 1939ء میں اسٹالن کی بائیو گرافی لکھنے کا آغاز کیا۔ اس وجہ سے سٹالن بہت طیش میں آ گیا۔ ٹراٹسکی کا سایہ اس کے دماغ پہ حاوی ہوگیا۔ سٹالن کو ہر دن ٹراٹسکی کے متعلق رپورٹ دی جاتی تھی۔ نتالیہ سیدوف ( ٹراٹسکی کی بیوی) نے لکھا ’’1936ء کے ماسکو ٹرائل کے بعد ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ ہمیں کسی بھی وقت قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
لیون ٹراٹسکی پر پہلا قاتلانہ حملہ 24 مئی 1940ء کو اس کے گھر پر 20 قاتلوں کے گروہ نے کیا۔ ان لوگو ں نے اس عمارت کو تباہ کر دیا ۔ ٹراٹسکی، اس کی بیوی اور اس کا پوتا بال بال بچ گئے۔ ٹراٹسکی نے اس وقت پیشین گوئی کی ’’اگلی بار کوئی اور طریقہ استعمال ہوگا۔‘‘
جیکسن مونارڈ کے فرضی نام سے سٹالن کی خفیہ پولیس KGB کے قاتل رامون مرکیڈر نے ایک امریکی ٹراٹسکائیٹ لڑکی سلویا ایگلوف کے ذریعے ٹراٹسکی تک رسائی حاصل کی اور موقع ملنے پر برف کاٹنے والی ہتھوڑی سے ٹراٹسکی کے سر پر وار کئے ۔شدید زخمی ہونے کے باوجود ٹراٹسکی ہوش میں رہا اور اپنے کامریڈز سے مرکیڈر کو نہ مارنے کی اپیل کی۔ ٹراٹسکی کو فوراً ہسپتال لایا گیا۔ اگلے دن شام کو 7بج کر25منٹ پر ٹراٹسکی فوت ہو گیا۔
میکسیکو کی حکومت نے رامون مرکیڈر کو20 سال کی قید کی سزا سنائی۔ وہ1960ء میں رہا ہوا۔ پہلے وہ ہوانا (کیوبا) گیا پھر وہاں سے 1961ء میں ماسکو آیا۔ جہاں پر اسے بغیر کسی بڑی تقریب کے ’’Hero of Soviet Union‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا اور اسے ماسکو ہی میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس کا ملک سے باہر جانا منع تھا۔ پھر رامون مرکیڈر کینسر میں مبتلا ہوا، تب اسے علاج کے لئے کیوبا بھیجا گیا جہاں پہ وہ 1978 ء میں مر گیا۔ حال ہی میں کیوبا کے ایک ادیب لیو نارڈ پیڈورا نے مرکیڈر کی زندگی پر شاندار ناول ’’The Man Who Loved Dogs‘‘ تحریر کیا ہے۔
لیون ٹراٹسکی کی موت بے شک ایک بڑا نقصان تھا مگر سٹالن نہ سمجھ پایہ کہ نظریات کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ لیون ٹراٹسکی کی تحریریں مارکسزم کی بیش بہا دولت ہیں، ناقابل فراموش گیان کا ذریعہ ہیں۔ ٹراٹسکی سٹالنزم کی غداریوں اور مارکسزم سے نظریاتی انحراف کے خلاف انقلابی مارکسزم اور بالشویزم کی جدوجہد کرتے ہوئے مارا گیا۔ یہ جدوجہد نسل انسان کے مستقبل کے لئے جدوجہد ہے جسے آج بھی عالمی مارکسی رجحان آگے بڑھا رہا ہے۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!