کامریڈ ہانس-گیرڈاوفنگر کی یاد میں (جون 1955ء- مارچ 2021ء)

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|

مجھے ابھی اپنے دیرینہ دوست اور کامریڈ ہانس-گیرڈ اوفنگر کی افسوسناک فوتگی کی خبر ملی۔ یہ میرے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور یقینا مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ خبر ایسے اچانک ملے گی۔ چند ہفتے قبل مجھے پتہ چلا کہ ہانس اور اس کی بیٹی روزا کو کورنا مرض لاحق ہو گیا ہے اوراس حوالے سے میں نے اسے ایک ای میل بھیجا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ صحت یاب ہو رہا ہے اور اپنی انقلابی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے بے تاب ہے۔ اس نے لکھا کہ:

”ہیلو ایلن۔۔ہمیں یاد رکھنے اور نیک تمنائیں پہنچانے پر آپ کا بہت شکریہ۔ واقعی پچھلے ہفتے ایک کٹھن موسمِ سرماء کے اختتام پر مثبت کورونا ٹیسٹ ہم سب کے لئے ایک پریشان کن جھٹکا تھا۔

اب ہمیں اپنی تمام قوتیں وائرس سے مقابلہ کرنے کے لئے مجتمع کرنی ہیں۔ صحت کی بحالی کے بعد ہم تنظیم کی تعمیر میں دوبارہ گرم جوشی سے سرگرم ہوں گے۔

میں عالمی تناظر (دستاویز) کا بغور مطالعہ کروں گا اور اگلی آن لائن IEC میٹنگ کے لئے بہت مشتاق ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہم سب کو اس دن کا انتظار ہے جب ہم ایک مرتبہ پھر ٹیورن اور باردونے خیاء یا کہیں اور ملاقات کریں گے“۔

Hans1

صد افسوس کہ اب ہماری ملاقات کہیں نہیں ہو پائے گی۔ کامریڈ ہانس-گیرڈ اب ہم میں موجود نہیں اور یہ ایک ایسا خلاء ہے جس کا پُر ہو پانا انتہائی مشکل ہوگا۔

ہانس کی بیوی اور کامریڈ ماریا کلارا کے ایک مختصر پیغام سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اس کی وفات بہت المناک تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ صحت یاب ہو رہا ہے (جیسا کہ اس کے پیغام سے پتہ چلتا ہے) اور حالیہ کورونا ٹیسٹ منفی تھا۔ لیکن یہ ایک سراب ثابت ہوا۔

اسے بخار کے ساتھ سانس لینے میں دشواری ہو گئی اور جمعہ کی صبح وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی وفات اور بھی زیادہ بڑا صدمہ ہے کیونکہ اس کی کوئی توقع نہیں کر رہا تھا۔ یہ نہ صرف ماریا کلارا اور روزا کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے بلکہ انٹرنیشنل بھی اس غم میں سوگوار ہے۔

میری ہانس-گیرڈ سے پہلی ملاقات 1970ء کی پر آشوب دہائی میں ہوئی تھی جب عالمی طبقاتی جدوجہد اپنی انتہاؤں پر تھی۔ اس وقت اس نے CWI میں شمولیت اختیار کی۔۔پرانی انٹرنیشنل جس کا بانی اور روحِ رواں شاندار نظریہ دان اور انقلابی قائد ٹیڈ گرانٹ تھا۔

یہ 1974ء کا سال تھا جب ایک نو عمر ہانس نے انٹرنیشنل کا جرمن سیکشن تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

مجھے معلوم ہے کہ نو عمر ہانس- گیرڈ پر ٹیڈ گرانٹ کا انتہائی طاقتور اور دور رس اثر پڑا اور یہ اثر ہانس کے لئے تمام عمر ایک مشعلِ راہ رہا۔ ٹیڈ کی طرح ہانس ہمیشہ نظریے پر کاربند رہا۔ وہ بلا کا ذہین تھا اور مارکسی نظریے پر اسے عبور حاصل تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اسی بنیاد پر وہ زندہ رہا اور مشکل ترین حالات سے مقابلہ بھی کرتا رہا۔

Hans CWI

ہانس CWI کی 1974ء میں ہونے والی تاسیسی گانگریس میں موجود تھا۔

بطور ایک انسان میں نے اسے ہمیشہ انتہائی حلیم، ملن سار اور ہنس مکھ پایا۔ اس کے پاس ہمیشہ کوئی لطیفہ ہوتا تھا۔ اس کا ایک محبوب لطیفہ انٹرنیشنل کی میٹنگ میں پرانے جرمن گانے Oh Du Lieber Augustin کو اپنے ہی انوکھے طرز میں گا کر ہمیں تنگ کرنا تھا جسے وہ کسی موسیقی کی تربیت کے باوجود بڑے جوش و خروش سے گایا کرتا تھا۔

سال 1992ء میں ملی ٹنٹ کی سپلٹ کے وقت ہانس- گیرڈ ایک لمحہ بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوا۔ اس نے فوراً ٹیڈ کی حمایت کی حالانکہ اس کا مطلب اقلیت میں شمولیت اختیار کرنا تھا۔ صرف غلیظ، ڈرپوک اور موقع پرست ہی اکثریت میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ted8296 n

ٹیڈ گرانٹ (بائیں جانب) کی طرح ہانس بھی ہمیشہ نظریے کے ساتھ مخلص رہا۔

اینگلز نے لکھا تھا کہ ”مارکس اور میں ہمیشہ اقلیت میں رہے اور ہمیں ایک اقلیت ہونے پر فخر تھا“۔ ان کی طرح ہانس بھی کبھی اقلیت میں ہونے اور اپنے نظریات کی خاطر مسلسل جدوجہد کرنے پر خوفزدہ نہیں ہوا۔

اس کے بعد ہانس نے عالمی مارکسی رجحان کو تعمیر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ انتہائی دشورا حالات میں اعصاب شکن کام تھا۔ جرمن سیکشن کے پرانے کیڈر کی اکثریت افسر شاہانہ ٹیف آمریت کی سازشوں سے مایوس ہو چکی تھی۔ وہ سپلٹ سے پہلے ہی غیر فعال ہو گئے۔

لیکن ہانس-گیرڈ اپنی تمام عمر کامریڈ اور شریکِ حیات ماریا کلارا اور کامریڈ کرسٹوف اور دیگر کے ساتھ ثابت قدمی سے مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔

آہنی عزم اس کامریڈ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ کبھی ایسا لگتا تھا کہ یہ انتہائی ضدی انسان ہے۔ لیکن ایک حقیقی انقلابی کے لئے یہ ضدی پن انتہائی اہم خصوصیت ہے۔ یہی ہمیں تمام مشکلات اور رکاوٹوں سے بالاتر ہو کر آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔

Hans young comrades

یہ ہانس ہی کی دہائیوں پر مبنی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ایک پھلتا پھولتا اور صحت مند جرمن سیکشن موجود ہے جو سرگرم نوجوان انقلابیوں کی ایک پوری نئی نسل پر مبنی ہے۔ ہمیں بھرپور اعتماد ہے کہ وہ ہانس-

اور یہی کام ہانس-گیرڈ نے کیا۔ اس نے کبھی اپنا مورچہ نہیں چھوڑا اور ہر حال میں نظریات کا علم بلند رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ ٹیڈ ہر کامریڈ کو رخصت کرتے ہوئے یہی کہا کرتا تھا، ”سرخ علم بلند رکھو“۔

اور کامریڈ ہانس-گیرڈ نے آخری سانس تک یہی کیا۔

یہ ہانس ہی کی دہائیوں پر مبنی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ایک پھلتا پھولتا اور صحت مند جرمن سیکشن موجود ہے جو سرگرم نوجوان انقلابیوں کی ایک پوری نئی نسل پر مبنی ہے۔ ہمیں بھرپور اعتماد ہے کہ وہ ہانس-گیرڈ کی دہائیوں سے جاری جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اور اس کی فراہم کردہ حوصلہ افزائی کے سائے میں اپنے مقاصد میں فتح یاب ہوں گے۔

Hans Bardoneccia

باردونے خیاء میں عالمی مارکسی رجحان کے کامریڈز کے ساتھ ہانس کی یادگار تصویر۔ (2015)

اس شاندار انسان کے حوالے سے میرے اندر ان گنت جذبات ہیں جن کا میں اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں آخر میں ایک نظم کے انتہائی طاقتور اختتامی الفاظ ہانس کی نظر کرنا چاہوں گا، یہ نظم سکول کے دنوں سے میرے ذہن پر نقش ہے۔ لیکن میں خود کبھی یہ نظم تلاش نہ کر پایا، نہ ہی جان پایا کہ یہ کس شاعر کی ہے۔ اور پھر ایک دن ہانس-گیرڈ نے مجھے بتایا کہ اس نے یہ نظم تلاش کر لی ہے۔ میں ہمیشہ سمجھتا تھا کہ اس کا نام ”Die Fechter“ (تیغ باز) ہے لیکن میں غلط تھا۔ یہ عظیم جرمن شاعر جوسیف وون آئخین دورف کی ہے اور اس کا نام ”Trost“ ہے جس کا مطلب ”تشفی“ ہے۔ اس کے اختتامی الفاظ ہیں:

جنگل میں پرانے زمانے کے سورماؤں کا ایک گرا ہوا گھر ہے،
جس کے قدیم کیواڑوں اور راہداریوں سے ہر سال پیش گوئیوں کے مطابق بہار پھوٹتی ہے۔

اور جب دو شمشیرزنوں کی قوت اور ہمت جواب دے جاتی ہے تو ہمیشہ نئی نسلیں جنم لیتی ہیں جو ان کی لڑائی کو آخر تک پہنچانے کا بیڑا اٹھاتی ہیں۔

ماریا کلارا اور روزا کے لئے ہم انقلابی سلام، محبت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان المناک لمحات میں انٹرنیشنل کا ہر ممبر آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔

Comments are closed.