|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: یار یوسفزئی|
عالمی مارکسی رجحان اپنا نظریاتی میگزین ’مارکسزم کے دفاع میں‘ کا سرما 2021ء ایڈیشن شائع کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہے۔ اس حالیہ ایڈیشن میں تاریخی مادیت کے موضوع پر بات کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم ایلن ووڈز کا لکھا گیا اداریہ شائع کر رہے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس نئے میگزین کے پہلے شمارے نے ہماری سب سے رجائیت پسندانہ توقعات سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ہمارے قارئین نے مارکسی فلسفے کو ہماری جانب سے ترجیح دیے جانے کے عمل کو ہمارے قارئین کی جانب سے انتہائی گرمجوشی کے ساتھ سراہا گیا ہے، خصوصاً ما بعد جدیدی بکواس کے خلاف جدوجہد کو خوب پذیرائی ملی ہے۔
جیسا کہ ہم نے نشاندہی کی تھی، اس نام نہاد ’فلسفہ‘ کے متعدد پہلو ہیں۔ اس کے مضر اثرات کئی شعبوں کے اوپر مرتب ہوتے ہیں، اور اس کے اوپر ہماری یہ تنقید جاری رہے گی تاکہ انہیں ایک ایک کر کے بے نقاب کیا جا سکے۔ موجودہ شمارہ اس مخصوص موضوع کے نام کیا گیا ہے جس پر ما بعد جدیدیت کے منفی اثرات کے باعث سب سے تباہ کن نتائج بر آمد ہوئے ہیں؛ یعنی تاریخ کا مطالعہ۔
ہم طبقاتی سماج کے آغاز پر جوش ہولرائیڈ اور لاؤری او کونیل کی جانب سے سوچنے پر مجبور کرنے والا نیا مضمون پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں، جس کے ساتھ 2005ء میں لکھا گیا میرا مضمون ’تہذیب اور بربریت‘ بھی دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے، جو کچھ عرصے سے پڑھنے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
ما بعد جدیدیت اور تاریخ
ما بعد جدیدیت کے خود ساختہ فلسفی انسانی تاریخ کی عقلی بنیادوں پر وضاحت کے ممکنات سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق افراد کے اعمال کے پیچھے کارفرما اور ان کی نفسیات اور عادات کا تعین کرنے والے عمومی قوانین اور معروضی عناصر وجود نہیں رکھتے۔
اس نقطہ نظر سے، جو شدید موضوعیت کا نقطہ نظر ہے، تمام تاریخ کا تعین افراد کے اعمال کرتے ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس ہنگامہ خیز اور بے قانون سمندر کے اندر کوئی اندرونی منطق ڈھونڈنے کی کوشش کرنا اتنا ہی بیکار ہوگا جیسا کہ ایٹم سے چھوٹے انفرادی ذرے کی درست رفتار اور مقام کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا۔
کچھ حد تک سطحی کشش رکھنے کے باوجود، تاریخ کا یہ موضوعی نقطہ نظر اندر سے خالی ہے۔ چونکہ یہ ان قوانین کے وجود سے ہی انکاری ہے جس کے ذریعے انسانی سماج کا ارتقاء ہوا ہے، اس لیے یہ ان کو دریافت کرنے کی کوشش کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیتا ہے۔
اب اگر اس کے بارے میں سوچا جائے تو یہ ایک غیر معمولی دعویٰ ہے۔ جدید سائنس ہمیں سکھاتی ہے کہ کائنات کی ہر شے، سب سے چھوٹے مالیکیول اور ایٹم سے لے کر سب سے بڑی کہکشاؤں تک، قوانین کے مطابق چلتی ہے، اور وہ ان قوانین کی دریافت ہی ہے جو سائنس کا اہم فریضہ اور موضوع ہے۔
ہم کیسے اس بات کو تسلیم کر سکتے ہیں کہ ساری کائنات، سب سے چھوٹے ذرات سے لے کر دور دراز کی کہکشاؤں تک، اور تمام پرجاتیوں کے ارتقاء کا تعین قوانین کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود کچھ عجیب وجوہات کی بنا پر ہماری تاریخ کا معاملہ ایسا نہیں ہے؟
بلاشبہ نوعِ انسان انفرادی اور اجتماعی دونوں طور پر پیچیدہ ہے۔ آخر یہ انسانی دماغ ہی ہے جو ساری کائنات میں سب سے پیچیدہ عضو ہے، اور تاریخ کا تعین متعدد مختلف ذہنوں کے شدید پیچیدہ باہمی تعلقات سے ہوتا ہے، جو کافی مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مگر یہ صاف جھوٹ ہے کہ انسانی عادات کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ اینگلز نے بہت پہلے نشاندہی کی تھی کہ، اگرچہ اس بات کی پیشگوئی کرنا نا ممکن ہے کہ ایک انفرادی مرد یا خاتون کب مریں گے، بہر حال اجتماعی طور پر یہ اندازہ لگانا بالکل ممکن ہے، انشورنس کمپنیاں اسی طرح بڑے منافعے کماتی ہیں۔
اسی طرح، اگرچہ ایٹم سے چھوٹے واحد ذرے کی رفتار اور مقام کے بارے میں درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، مگر ان ذرات کی بہت بڑی تعداد کے بارے میں اس قسم کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ جدلیات میں اسے مقدار سے معیار میں تبدیلی کا عمل کہا جاتا ہے۔
تاریخی مادیت
مارکسی طریقہ کار ان خفیہ عناصر کا تجزیہ کرتا ہے جنہوں نے ابتدائی قبائلی سماجوں سے لے کر جدید دور تک انسانی معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کیا ہے۔ مارکسزم جس طریقے سے اس پیچیدہ سفر کا تجزیہ کرتا ہے اسے تاریخ کا مادی نقطہ نظر کہا جاتا ہے۔
اکثر اوقات، مارکسزم کے طریقہ کار اور اس کے تاریخی تجزیے کو مسخ کر کے اس کے اوپر تنقید کی جاتی ہے۔ بھوسے کا انسان کھڑا کر کے اسے دوبارہ گرانا سب سے آسان کام ہے۔ عمومی طور پر یہ الزام دھرا جاتا ہے کہ مارکس اور اینگلز نے ”سب کچھ معاشیات تک محدود کیا ہے۔“ اس مضحکہ خیز مسخ شدہ خاکے کا مارکسزم سے کوئی لینا دینا نہیں۔
جس بات پر مارکسزم زور دیتا ہے، اور اس بیان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، کہ آخری تجزیے میں کسی سماجی و معاشی نظام کی زندگی کا تعین ذرائع پیداوار کو ترقی دینے کی اہلیت سے ہوتا ہے، یعنی وہ مادی بنیادیں جس کے اوپر سماج، ثقافت اور تہذیب تعمیر ہوتی ہے۔
یہ سائنسی طریقہ کار ہمیں تاریخ کو غیر منسلک اور غیر متوقع حادثات کے سلسلے کے طور پر نہیں بلکہ آپس میں جڑے ہوئے ایک واضح عمل کے طور پر دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ یہ عمل اور ردعمل کا سلسلہ ہے جس میں سیاسیات، معاشیات اور سماجی ترقی کے سارے پہلو آتے ہیں۔
ان تمام عناصر کے باہمی پیچیدہ جدلیاتی تعلق کو سامنے لانا تاریخی مادیت کا فریضہ ہے۔ بنی نوعِ انسان محنت کے ذریعے فطرت کو مسلسل تبدیل کرتی رہتی ہے، اور اس عمل میں خود کو بھی تبدیل کرتی ہے۔
ایک رجعتی نظریہ
یہ خیال کہ تاریخ قوانین کے تحت نہیں چلتی، کہ یہ محض غیر منسلک بے ترتیب واقعات کا سلسلہ ہے، موجودہ نظام کے دفاع کرنے والوں کے لیے مناسب خیال ہے، جن کے لیے سرمایہ داری (یا اس سے ملتا جلتا کچھ) ہمیشہ موجود رہی ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی۔
مگر یہ تسلی بخش نظریہ حقائق کی بنیادوں پر نہیں بنایا گیا۔ حتیٰ کہ تاریخ کا سب سے سطحی شاہد بھی فوراً واضح ترتیب کی موجودگی کو دیکھ سکتا ہے۔ بعض واقعات مسلسل رونما ہوتے رہتے ہیں؛ سماجی و معاشی نظام، سماجوں اور تہذیبوں کا عروج و زوال، معاشی بحرانات، جنگیں اور انقلابات۔
جیسا کہ انسان جنم لیتا ہے، بڑا ہوتا ہے، بلوغت کو پہنچتا ہے، اور پھر زوال کے مرحلے میں داخل ہو کر موت پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے، اور جیسا کہ ارتقاء میں جمود کے لمبے عرصے کے بعد اچانک دھماکے واقع ہو کر ترقی یا زوال کی راہ ہموار کرتے ہیں، اسی طرح کا عمل تاریخ کے اندر کسی مخصوص سماجی و معاشی نظام کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔
غلام دارانہ سماج کے بعد جاگیرداری آئی، جس کے بعد سرمایہ داری آئی، جو تین سو سالوں سے غالب سماجی و معاشی نظام ہے۔ ان صدیوں کے دوران سائنس، صنعت، زراعت اور ٹیکنالوجی میں تاریخ کے سب سے حیران کن انقلابات دیکھنے کو ملے۔ مگر اب یہ نظام اپنی آخری حدوں کو پہنچ چکا ہے۔ آج ہم اس کے زوال کے عہد میں زندہ ہیں، جس میں سرمایہ داری بسترِ مرگ پر پڑی ہے۔
بلاشبہ بعض لوگ تمام تاریخی سفر کو، عظیم تاریخ دان ایڈورڈ گبون کے الفاظ میں ”انسانیت کے جرائم، حماقتوں اور بد قسمتی کی فہرست“ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مگر سطح کے نیچے گہرائی میں دیکھا جائے تو بنیادی قوتیں اپنے اثرات مرتب کر رہی ہوتی ہیں۔
ہر نیا سماجی و معاشی نظام پیداواری قوتوں کی مزید ترقی کے امکانات سامنے لاتا ہے اور اسی طرح فطرت کے اوپر انسانی قوت کو بڑھاتا ہے۔ اس طریقے سے، وہ مادی بنیادیں تیار ہو چکی ہیں جس کو اینگلز نے جبر کی اکلیم سے آزادی کی اکلیم میں انسانیت کی جست قرار دیا ہے۔
یہ سوشلزم کا فریضہ ہے کہ انسانی ترقی کی اس دیوہیکل خفیہ صلاحیت کو بروئے کار لائے جسے سرمایہ داری نے پیدا تو کر لیا ہے، مگر اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔ یہی ہمارا فریضہ ہے۔ اور اس کو بروئے کار لانے کی اولین شرط موجودہ نظم و ضبط کا خاتمہ کر کے سماج کو نئی اور بہتر بنیادوں پر تعمیر کرنا ہے۔
اس خاتمے کے عمل کا سب سے ضروری قدم موجودہ نظام کی بوسیدہ نظریاتی بنیادوں کا خاتمہ ہے، اور ہم اسی فریضے کو نبھا رہے ہیں۔
ایلن ووڈز
لندن، ستمبر 2021ء
’مارکسزم کے دفاع میں‘ میگزین کو سبسکرائب کریں!
اس میگزین کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوتے ہیں۔ قارئین اسے سبسکرائب کر کے سال میں چار دفعہ گھر کی دہلیز پر حاصل کر سکتے ہیں۔ یا آپ ہمارے ڈیجیٹل ایڈیشن کو بھی سبسکرائب کر سکتے ہیں جس کی سافٹ کاپی آپ کو ای میل پر موصول ہو جائے گی۔
نئے شمارے کا پہلا مضمون ”طبقاتی سماج کا آغاز“ ہے، جس میں جوش ہولرائیڈ اور لاؤری او کونیل طبقاتی سماج کے آغاز کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ابتدائی تہذیبوں کی ترقی کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم سمجھنے کے اہل ہو جاتے ہیں کہ سرمایہ داری کے تحت طبقاتی استحصال اور جبر ہمیشہ سے موجود نہیں تھا۔ اور اگر اس سے پہلے ایک غیر طبقاتی معاشرہ موجود تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ استحصال اور جبر سے بھرپور اس نظام کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔
دوسرے مضمون ”تہذیب، بربریت اور تاریخ کا مارکسی نقطہ نظر“ میں ایلن ووڈز اس خیال کو بے نقاب کرتا ہے کہ تاریخ واقعات اور حادثات کا بے ترتیب سلسلہ ہے۔ تاریخی مادیت کا طریقہ کار ترقی کے واضح نقوش کو بے نقاب کرتا ہے جن کا آغاز انسانی سماج کے ابتدائی دنوں سے ہوا۔ اس مضمون میں بورژوا تاریخ دانوں کے قنوطیت پسند اور رجعتی خیالات کا پردہ چاک کیا گیا ہے، جس میں ایلن ووڈز ان سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے کہ کیا تاریخی ارتقاء وجود رکھتی ہے اور کیا سماج کو سرمایہ داری سے آگے لے جانا ممکن ہے؟
جیسا کہ اینگلز نے وضاحت کی تھی، معاشی اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ، نظریاتی جدوجہد کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اس جدوجہد کے اندر ’مارکسزم کے دفاع میں‘ میگزین بھی شریک ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں طبقاتی جنگ کے سپاہیوں کے ایک اہم ہتھیار کا کردار ادا کرنا ہے، جس میں نظریاتی سوالات اور مزدور تحریک کو درپیش مسائل کے حوالے سے ایک سنجیدہ مارکسی تجزیہ موجود ہوتا ہے۔
وہ تمام محنت کش اور نوجوان جو خود کو انقلابی فلسفے اور مارکسزم کے طریقہ کار سے لیس کرنا چاہتے ہیں، انہیں لازمی طور پر یہ میگزین پڑھنے کی ضرورت ہے۔ سبسکرائب کرنے کے لیے یہاں کلک کریں؛ اپنے کامریڈز، تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کا مطالعہ کریں، اور آنے والے دیوہیکل واقعات کی تیاری کریں۔