|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: صبغت وائیں |
جارج ولہلم فریڈرک ہیگل 250 سال قبل 27 اگست 1770ء کو جرمنی کے شہر اسٹٹ گارٹ کے ایک پیٹی بورژوا خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ وہ ایک انسائیکلوپیڈک ذہن رکھنے والا ذہین و فطین انسان تھا، ہیگل نے جس شعبے میں کام کیا اس میں انقلاب برپا کر دیا۔ ہیگل کے خیالات کے اثرات سے صرفِ نظر کیا ہی نہیں جا سکتا، اور مارکسسٹ ہونے کے باعث ہم تو خاص طور پر اس کے احسانوں کے بھاری بوجھ تلے دبے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’سرمایہ‘ کے دوسرے جرمن ایڈیشن کے اختتامییمیں مارکس لکھتا ہے:
”ہیگلیائی جدلیات کے پراسراریت کے پہلو پر میں نے تقریباً تیس سال قبل تنقید کی تھی، یہ وہ وقت تھا جب اسے بطور فیشن لیا جاتا تھا۔ لیکن جس دوران میں داس کیپیٹل کی پہلی جلد پر کام کر رہا تھا؛ تو اس وقت کے تنک مزاج، مغرور اور معمولی درجے کے سورما [ ایپی گونز– بُشنر، ڈوہرنگ، اور دیگران] جو کہ اب مہذب جرمنی میں لمبی لمبی ہانکتے پائے جاتے ہیں، ہیگل کے ساتھ بالکل اسی طرز کا سلوک کر رہے تھے، جیسے کہ لیسنگؔ کے دور میں موسیٰ مینڈلسن نامی سورما سپینوزاؔ کے ساتھ کیا کرتا تھا، یعنی ایک ”عضوِ معطل“ [dead dog] کے جیسا۔ اسی باعث میں اس مفکرِ اعظم [ہیگل] کا شاگرد ہونے کا کھلم کھلا اعتراف کرتا ہوں، اور قدر کے نظریے کے باب میں جگہ جگہ پر میں نے اسی طرزِ اظہار سے استفادہ حاصل کیا ہے جو کہ ہیگل کے ساتھ مخصوص ہے۔
ہیگل کے ہاتھوں جدلیات جس پراسراریت کا شکار ہوئی وہ کسی طرح بھی اُس کی اس حیثیت پر قدغن نہیں لگاتی کہ وہ جدلیات کے کام کرنے کی عمومی ساخت کو جامع اور شعوری انداز میں بیان کرنے والا پہلا پیش کار تھا۔ ہیگل کے ہاں یہ جدلیات اپنے سر پر کھڑی ہے۔ اگر آپ پراسراریت کے اس خول کے اندر تعقلی مغز کو پانا چاہتے ہیں تو اس کو لازماً دوبارہ سے سیدھے کر کے دیکھنا پڑے گا۔“
بہرکیف، آج یونیورسٹیوں میں جو کچھ فلسفے کے ساتھ ہو رہا ہے، ہیگل کو ابھی تک ایک ”عضوِ معطل“ [Dead Dog] مان کر ہی چلا جا رہا ہے، اس کے خیالات کو جدید ترین مابعد جدیدی (Postmodernist) رجحانات کو جائز ٹھہرانے کی غرض سے مسلسل مجرمانہ طور پر مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہیگل نے مابعدجدیدیت، جو کہ بورژوا فلسفے کی گراوٹ کا بدترین اظہار ہے، کے بنیادی دلائل کو اس کے وجود میں آنے سے قبل ہی نیست و نابود کر دیا تھا۔ [جامعات کے] مدرسانہ کلامیے [Discourseجس کو ”بیانیہ“ بھی کہا جاتا ہے، لیکن بیانیہ آج کل نیرے ٹیو کو بھی کہا جا رہا ہے۔ اردو کے مابعد جدیدیت پسند Discourse کا ترجمہ زیادہ تر کلامیہ ہی کر رہے ہیں] میں ہیگل کے تصورات سے کھلم کھلا یا ڈھکے چھپے انداز میں رکھے گئے باقاعدہ بغض کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ بطور مارکسسٹ ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم جدلیات کا دفاع کریں، ہیگل کی اصطلاح میں بات کریں تو، ان نوسر بازوں کے گھٹیا حملوں سے ہیگل کے خیالات کے حقیقی جوہر کا تحفظ کریں۔
مابعد جدیدیت پسند جیسے کہ فُوکو، دریدا، ڈیلیوز اور بودریلار معروض [ہمارے ارد گرد موجود دنیا] کی نفی کرتے ہیں جس کو وہ ’مہا بیانیہ‘ یا ’یونیورسلز‘کہتے ہیں، جو کہ عمومیت یا غالب تصورات کے لیے متبادل الفاظ ہیں۔ اس کے بجائے وہ ایک ’تضادات‘ کی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں – جس کا مطلب ہے ایک منتشر Atomised [چھوٹے چھوٹے ذروں میں منقسم] دنیا – جہاں ”اتفاق“ کا ”لازمیت“ پر اختیار چلتا ہے اور موضوعیت کا معروض پر۔ یہ مان لیا جاتا ہے کہ سائنسی سوچ ”طاقت“ کے غالب کلامیے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں، اور اس وجہ سے علم محض جبر کا ایک ماخذ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس ساری بات کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتہا کی یک طرفہ سوچ موضوعیت پرستی اور اصطفائیت [Eclecticism ۔ جگہ جگہ سے چیزیں اکٹھی کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑنا] کو قانون کا درجہ دیتی ہے، اور ایک سائنسی اور بااصول سوچ کا رد کرتی ہے۔ لازمی طور پر یہ تمام باتیں جان بوجھ کر ڈالے گئے پیچ در پیچ الجھیڑوں سے تعمیر کی گئی چرب زبانی کی ایک ناقابلِ عبور دبیز دیوار کے پیچھے چھپائی گئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں دنیا کو دیکھنے کا ایک انتہا کا سطحی سا نظریہ ہاتھ لگتا ہے، جہاں تمام تصورات جائز ٹھہرتے ہیں اور جہاں موضوعی تصدیق کو کسی بھی تصور کی سچائی کے ثبوت کے طور پر کافی مانا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب ہیگل کسی بھی طرح کی ذہنی کاہلی، لاپرواہی اور سطحی پن کی شدت سے مخالفت کرتا ہے:
”واقفیت عامہ کیوں کہ جانا مانا ہوتا ہے اس واسطے علم کے درجے میں نہیں آتا۔ یہ دوسروں کے دیے گئے دھوکوں کی طرح خود کو دیا گیا سب سے عام دھوکا ہے، کہ کسی چیز پر اپنی رائے دینے کے لیے اس کی پہچان کرنے کے لیے اس کو پہلے سے جانی گئی فرض کر لیا جائے۔ (روح کی مظہریات۔ ہیگل۔ ہمارا ترجمہ)
جیسا کہ ہیگل دلیل دیتا ہے کہ کسی چیز کو جاننے کے لیے کچھ فرض کر لینا علم کی اعلیٰ سطح پر نہیں لے جا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ سچے علم کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، کہ اپنے تمام تعصبات کو اٹھا کے پھینک مارو اور ”ایک لمبی اور کٹھنائیوں بھری راہ“ کے لیے رختِ سفر باندھ لو، جو نفسِ مضمون پیشِ نظر ہے ”اس میں ڈوب جاؤ اور سرائیت کر جاؤ“؛ فطرت، انسانی سماج اور شعوری سوچ کو چلانے والے نادیدہ قوانین کو دریافت کرنے کے لیے ”اس کو اپنا آپ سونپ دو“۔ ایک منطقی بصیرت کے حصول کی خاطر محتاط اور بااصول جدوجہد ہیگل کا راہنما اصول ہے جو کہ اس کی تمام تحاریر کے اندر موجود ملتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کہ اس کو ممتاز بناتی ہے اور اس کو آج کے سارے نافذ کردہ فلسفے سے بالا تر لے جاتی ہے۔ اور اس جگہ بالکل ہی آغاز پر مابعد جدیدیوں کا رستہ ہیگل سے جدا ہو جاتا ہے اور ہیگل کے نظریات سے ان کے ناقابلِ مصالحت اختلافات جنم لے لیتے ہیں۔
قدیم اور جدید تصورات
ہم بھلا 250 سال پرانے فلسفی کے تصورات کا مطالعہ کیوں کرنا چاہیں گے؟ کیا یہ ’دقیانوسی‘ نظریات اس مدرسانہ حصار میں مقید سوچ کو مطمئن کر سکیں گے جو ’جدید تصورات‘ کا دم بھرتے ہوئے اس مدرسانہ ]غیر عملی[ خواہش میں مبتلا ہے کہ خود کو کسی طرح یوں پیش کرے گویا وہ ماضی سے یکسر لاتعلق ہے؟
پوسٹ ماڈرنسٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ فطرت یا انسانی تاریخ میں ترقی نام کی کسی بھی شے کا وجود نہیں ہے۔ غاروں کی دیواروں پر پائی جانے والی قدیمی انسانوں کی بنائی تصاویر سے لے کر، پکاسو اور لیونارڈو ڈاونچی کے شاہکاروں تک، کسی بھی چیز نے بنیادی طور پر ارتقا یا ترقی نہیں کی۔ ہومر سے لے کر شیکسپیئر تک اور یوہان سیبسٹین باخ سے لے کر لُڈ وِگ فان بیتھوون تک، بنیادی طور پر کہیں بھی کوئی ارتقا نہیں ہوا۔۔۔ بس یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نتیجتاً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ نیوٹن، ڈارون اور آئن سٹائن بنی نوع انسان کے لئے کسی بھی بنیادی پیش قدمی کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ یہ محض ’کلامیے‘ میں ایک حادثاتی تبدیلی ہے۔ مابعد جدیدیت پسندوں کا یہ احمقانہ دعویٰ کہ ترقی محض ہمارے تصورات کے گھڑے ہوئے ایک خیالِ خام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، قطع نظر اس کے کہ ہم اپنے خیالات کو حقیقت میں ڈھال کر بھی دکھا دیتے ہیں۔ لیکن ان معزز خواتین و حضرات کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ ان کے تصورات کا یہ مقصد ہے ہی نہیں کہ ان کو حقیقی دنیا کے کسی مادی مسئلے کے حل کے لیے استعمال کیا جائے۔
مارکسسٹ ہونے کی حیثیت سے، ہم ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم کسی بھی طرح سے خاص چنے ہوئے لوگ ہیں یا ہم نے کوئی ایسا جادوئی چراغ پا لیا ہے جس کو ہزاروں سال سے کوئی اور حاصل نہیں کر پایا تھا۔ ہم مارکسزم کو تاریخ میں بنی نوعِ انسان کے جمع کردہ تجربے کے طور پر لیتے ہیں۔ ہم فخریہ طور پر مفکرین کی ایک لمبی قطار میں سب سے آخر پر کھڑے ہیں جو ٹراٹسکی، لینن، مارکس اور اینگلس سے ہیگل سے ہوتی ہوئی روشن خیالی کے دور کے فرانسیسی مادیت پسندوں سے لے کر ارسطو، سقراط، ہراکلیتس اور تمام قدیم یونان کے فلاسفہ تک جاتی ہے۔ ہر ایک مرحلے پر ان عظماء نے انسانی معاشرے کے ارتقاء کی نمائندگی کی ہے، اور آگے بڑھنے کے نئے اقدامات کو فکری بنیادیں مہیا کی ہیں۔
بالکل اسی طرح کا نظریہ ہیگل کا بھی تھا۔ اس نے سابقہ نظریات کو یکسر طور پر مسترد کر دینے کی مخالفت کی۔ وہ سائنسی سوچ کی تاریخ کو اٹکل پچو لوگوں کے تیار کیے گئے انٹ شنٹ تصورات میں سے ایک کے طور پر نہیں دیکھتا تھا، بلکہ وہ اس کو انسانیت اور انسانی ثقافت کے ارتقاء کے عمومی عمل کی عکاسی کے طور پر دیکھتا ہے، جو کہ ان مخصوص قوانین کے تحت کام کرتا ہے جن کی راہ نمائی نیچے سے لے کر اعلیٰ تر شکل تک کی سوچ کرتی ہے۔
ارتقا کے ہر مرحلے میں، نئے نظریات دنیا اور اس میں ہمارے مقام کے متعلق ہماری تفہیم کی نشوونما میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ترقی کا ہر قدم خود اپنے ہی اندر اس فلسفے کے خاتمے کے بیجوں کا حامل بھی ہوتا ہے، جو کہ [پرانا فلسفہ] تب نئے مکاتبِ فکر کے ذریعے رد کر دیا جاتا ہے۔
ہر وہ نظریہ جو کہ تاریخ کے ایک مقام پر سچائی کا حامل ہے وقت کے ساتھ چل پانے سے معذور ہو جاتا ہے اور اس کو ایسے نظریات سے تبدیل کرنا پڑتا ہے جو کہ اس سے زیادہ سچے ہوں۔ یا جیسا کہ ہیگل کی وضاحت ہے، ہر چیز جو کہ تعقلی [منطقی، معقول۔ درست] کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے خود اپنے ہی اندر کے تضادات کے باعث عدم تعقلی [غیرمنطقی، نامعقول، نادرست] میں ڈھل جاتی ہے اور اگلے مرحلوں میں انجام کو پہنچتی ہے۔ لیکن پرانا فلسفہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس کا جوہر نئے مکاتبِ فکر میں محفوظ ہو جاتا ہے جو کہ اس کی جگہ نمودار ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، فیثا غورثی مکتبِ فکر ریاضی کے میدان میں اپنے نتائج کے لئے مشہور ہے۔ اس مکتب کا اس بات پر یقین تھا کہ اعداد اور ریاضی ہی دنیا کی اصل حقیقت ہے اور اسی وجہ سے اعداد کے مابین تعلق پر جاں فشانی سے جانچ پڑتال کی گئی۔ تاہم، جس چیز کے بارے زیادہ لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ فیثاغورثیت ایک مذہبی مسلک تھا۔ اس کے ارکان انتہائی سخت اصولوں کے تحت زندگی بسر کرتے تھے، انہیں سخت قسم کی رسومات پر عمل کرنا پڑتا تھا، جیسے کہ ان کو گوشت اور پھلیاں کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ ان پہلے مکاتبِ فکر میں سے تھے جنہوں نے موت کے بعد کی زندگی پر اور روح کی منتقلی کو اپنا عقیدہ بنایا تھا۔ در حقیقت، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فیثا غورثی مکتب فلسفیانہ عینیت پرستی کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ عینیت پرستی وہ تصور ہے جس کے مطابق ہماری دنیا کا بنیادی جزو خیال کو مانا جاتا ہے جب کہ مادی حقیقت ان تصورات کا عکس ہے۔ تمام کے تمام مذاہب اسی زمرے میں آتے ہیں اور انجام کار ہر قسم کی عینیت پرستی کسی نہ کسی مذہبی سوچ ہی کی جانب لے جاتی ہے۔
فیثا غورثی مکتب بنا ہی ٹوٹنے کے لیے تھا۔ اس کے پراسرار اور پُرتصوف رسوم اور رواج کو گمنامی کی دھند میں کھوئے عرصے بیت چکے ہیں۔ اس کے باوجود شاید ہی کوئی ایسا سکول کا طالب علم ملے جس کو ریاضی کے میدان میں ان کی عظیم الشان دریافتوں کے بارے میں نہ پڑھایا جاتا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم ان کے بارے میں یہ کہیں کہ فلسفیانہ عینیت پرستی کے بانی ہی پہلے ایسے مفکر بھی تھے جنہوں نے ایک منظم بنیاد پر مقداری اور عددی تحقیقات کیں۔ لیکن مقدار کی یہ والی منظم تحقیقات خود مذہب کے ہاتھوں۔۔۔ جیسا کہ تصورات کی تاریخ میں نئی پیش رفتوں پر اکثر ہوتا آیا ہے۔۔۔ مبالغہ آمیز، مسخ شدہ اور پراسراریت کے دبیز پردوں میں ملفوف ہو کر طے پا رہی تھیں۔ لیکن جب ایک بار اس ]فیثا غورثی مکتب[ کے یکطرفہ پن اور پراسراریت کی چادر اتار دی گئی تو یہ سائنس اور دیگر تمام انسانی علوم کے شعبوں میں سنگِ بنیاد ثابت ہوا۔
وہ عمل جس کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے فلسفے کی ساری تاریخ اس سے بھری پُری ہے۔ تصورات کے ایک رجحان کے زوال اور کسی دوسرے کے اس کی جگہ سنبھالنے کے عمل میں حادثاتی[یا اتفاقی] اور غیر ضروری پہلوؤں کو مسترد کر دیا جاتا ہے، جبکہ پرانے والے کا اصلی جوہر برقرار رہتا ہے اور نئے کے اندر رچ بس جاتا ہے۔ اوپر بیان کردہ عمل کی عام ترین زبان میں تشریح یوں ہی کی جا سکتی ہے۔
یقینا یہ عمل ترقی کا ایک ایسا گراف نہیں ہے جو کہ بلاتعطل اوپر کی جانب محو سفر ہے۔ ترقی کے ادوار میں گاہے بگاہے عارضی طور پر پسپائی بھی دیکھی جا سکتی ہے، جو کہ مزید پیش قدمی کی راہ ہموار کرنے کے لیے لازمی اقدام کے طور پر لی جا سکتی ہے۔ قدیم یونانی فلسفہ شاندار دریافتوں سے لبریز تھا، جس میں سب سے اہم تھی جدلیات: یعنی وہ نظریہ جس میں دنیا کو ایک آپس میں جڑے ہوئے ایک ایسے کُل کی صورت میں دیکھا جاتا ہے جو کہ اپنے اندرونی تضادات کے باعث ہمیشہ حالتِ تبدیلی میں رہتا ہے۔ لیکن اس دور کے تکنیکی اور سائنسی علم کے حوالے سے یہ نظریہ جو ]اپنے زمانے کے لحاظ سے[ کہیں آگے کا تھا اور ان کاموں میں مددگار نہیں تھا جو اس وقت کے انسان کو فوری طور پر درپیش تھے۔ اسی وجہ سے اس کو قریب قریب بھلا ہی ڈالا گیا۔ صدیاں تک یونانی فلسفے کے دقیانوسی عینیت پرست پہلوؤں نے ہی قرونِ وسطیٰ کے مدرسانہ فلسفے کی تشکیل میں بنیاد سازی کا کام کیا۔ جدلیات کی جگہ، ان فلاسفہ نے مابعدالطبعیاتی طریقِ کار اپنایا، جو کہ دنیا کو اشیا کے ایک ایسے جامد اجماع کی صورت دیکھتا ہے جو کہ زمان اور مکان ]وقت اور جگہ[ میں اپنی اپنی جگہ پر ساکت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہر تو یہ ایک ایسا قدم تھا جو کہ پیچھے کی جانب کو تھا، لیکن یہ ایک لازمی پسپائی تھی۔ جیسا کہ اینگلز لُڈوِگ فیوئر باخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کے خاتمے میں وضاحت کرتا ہے:
”سوچنے اور تحقیق کرنے کا وہ پرانا طریق کار جس کو ہیگل ”مابعدالطبعیاتی“ کہتا ہے جس میں چیزوں پر تحقیق اسی طرح سے کی جاتی ہے جیسی کہ وہ ہیں، یعنی ساکت اور جامد، یہ طریقِ کار، جس کی باقیات ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں ہیں، اپنے زمانے میں بڑے تاریخی جواز کا حامل تھا۔ قبل اس کے کہ عوامل کی تحقیقات ممکن ہوتیں، چیزوں کا مطالعہ ضروری تھا۔ یہ مشاہدہ کرنے سے قبل کہ کس چیز میں کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں یہ جاننا ضروری تھا کہ وہ چیز ہے کیا۔ طبیعی سائنسوں میں بالکل یہی صورت حال تھی۔ پرانی مابعدالطبعیات جو چیزوں کو بنا ہوا تیار مال سمجھتی تھی ایک ایسی طبیعی سائنس سے پیدا ہوئی تھی جو بے جان اور جان دار چیزوں کا مطالعہ تیار شدہ مال کی حیثیت سے کرتی تھی۔ لیکن جب یہ تحقیقات اتنی آگے بڑھ گئیں کہ فیصلہ کُن قدم آگے بڑھا پانا ممکن ہوا یعنی ان تبدیلیوں کی باقاعدہ تحقیقات تک آنا ممکن ہوا جن سے یہ چیزیں خود فطرت میں گزرتی ہیں تو فلسفے کی دنیا میں کہن زدہ مابعدالطبعیات کی آخری گھڑی بھی آ گئی۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اگر طبیعی سائنس پچھلی صدی کے خاتمے تک زیادہ تر ]معلومات[ جمع کرنے والی سائنس، مختتم ]تیار شدہ[ چیزوں کی سائنس تھی تو ہماری صدی میں یہ لازمی طور پر ترتیب دینے والی سائنس ہو گئی، عوامل کی سائنس، ان چیزوں کے آغاز و ارتقا اور ان باہمی تعلقات کی سائنس جو ان تمام قدرتی عوامل کو ایک عظیم کُلیت [یعنی ایک واحد وجود] میں مربوط کرتی ہے۔ عضویات کی سائنس جو پودوں اور جانوروں کے اجسام میں ہونے والے عوامل کی تحقیقات کرتی ہے، جنینیات کی سائنس، جو کسی جسم کے ارتقا کا جرثومے سے لے کر پختگی تک مطالعہ کرتی ہے، ارضیات کی سائنس جو زمین کی سطح کی تدریجی تشکیل کی تحقیق کرتی ہے۔۔۔ یہ سب ہماری ہی صدی کی پیداوار ہے۔“ (لُڈوِگ فیوئر باخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ۔ فریڈرک اینگلز)
یہ ہیگل ہی تھا جس نے فلسفہ میں جدلیات کو اس کی مناسب جگہ پر بحال کیا۔ اس کا اس طرح کے معنوں میں نہ تو خالص [original، نیا، اصلی یا اپنے آپ میں مکمل] ہونے کا کوئی دعویٰ تھا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ جیسا کہ ہمارے مابعد جدیدیت پسند دوست خواہش رکھتے ہیں۔ اس نے پیچھے گزرے تمام کے تمام فلسفوں کے سچے جوہر کو ان کے حادثاتی اور مبالغہ آمیز پہلوؤں سے جدا کرتے ہوئے ان پر تنقید کے ذریعے اپنے فلسفے کی تعمیر کی۔ اس طرح سے اس کا نظریہ ایک جانب تو ماضی سے انقلابی انداز میں جدا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے ماضی کے مکاتبِ فکر کے تقریباً تمام کار ہائے نمایاں کو اپنے اندر سمو کر محفوظ کر لیا تھا۔
اگر ہم فلسفے کی تاریخ کو یوں دیکھیں تو جو کچھ ہمارے پاس آج موجود ہے وہ مختلف فلسفوں کے عروج و زوال کا اتفاقی اور بے اصولا (نتیجہ) نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری دنیا میں جاری و ساری قوانین کے بارے میں ہمارے مسلسل گہرائی میں اترتے علم میں کمتر درجوں سے اعلیٰ تر درجوں کی جانب محوِ سفر سوچ کی بنتروں کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔ ہمارے مابعد جدیدیت پسند دوست جو کہ اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں خوش قسمتی سے اس بات سے مکمل طور پر لاعلم ہیں کہ وہ طوطوں کی مانند جن تصورات کی رٹائی کر رہے ہیں وہ ہیگل کے سامنے دقیانوسی اور فرسودہ ہیں۔ ان کی متعلقیت پرستی [اضافیت، نسبتیت، علاقیت Relativism] اورموضوعیت پرستی (داخلیت پرستی، Subjectivism) فلسفے کی تاریخ میں ہر جگہ کھوجی جا سکتی ہے، اگر ہم پیچھے جا کر یونانی سوفسطائی اور متعلقیت [Relativity] کے دیگر مکتب دیکھیں۔۔۔ مزید تاکید کے ساتھ یہ یاد رہے کہ سوفسطائی بہرحال تخلیقی اور انقلابی تھے۔ ان کی متعلقیت دنیا کے کثیر پہلو ہونے پر اصرار کرتی تھی اور یونانی طبقاتی نظام کی منافقت کو نمایاں کرتی تھی۔ جہاں تک مابعد جدیدیت پسندوں کی متعلقیت کا سوال ہے، یہ مکمل طور پر غیر پختہ اور رجعت پرستانہ ہے، جو کہ خارجی حقیقت کا یکسر انکار کرتی ہے اور سرمایہ دارانہ اخلاقیات کے گھٹیا ترین پہلوؤں کا دفاع کرتی ہے، جیسے کہ انفرادیت اور ’انکارِ کُل‘(Nihilism) کا۔ یہ نظریات فکرِ انسانی میں تنزلی کے رجحان کا اظہار کرتے ہیں، جو کہ عمومی ترقی کا تو نہیں لیکن طبقاتی سماج کے اندر رہتے ہوئے ترقی کے خاتمے کا عکاس ہے۔
نئے اور پرانے تصورات پر یوں بات کرنا گویا کہ یہ ایک دوسرے سے جدا ہوا بند خانوں میں مقید ہیں، بالکل احمقانہ بات ہے۔ جو کچھ بھی آج موجود ہے، لازم ہے کہ وہ اپنے اندر کے تضادات کے باعث انجام کار ختم ہو اور نئے مظاہر کو ایک اعلیٰ درجے کی جانب پیش قدمی کی راہ فراہم کرے۔ اور دوسری جانب جو کچھ نیا ہے وہ اپنے بھیتری جوہر میں گزر چکے قدیم کو ملفوف کیے ہوئے ہے۔ یہ قانون محض جدلیات ہی پر صادر نہیں ہوتا بلکہ یہ تمام ارتقا کے اندر جاری و ساری ہے۔
”مزید برآں، ایک فلسفیانہ کام کے لیے یہ کوشش کہ وہ اسی جیسے دیگر کاموں کے ساتھ کیسے منسلک ہو سکتی ہے ایک غیر متعلقہ کام ہے اور سچائی کے ادراک کے لیے جو کچھ اہم ہوتا ہے، اسی میں بھلا دیا جاتا ہے۔ عام ذہن سچ اور جھوٹ کے مقابلے میں آ جانے پر ان میں تمیز کرتے وقت جتنا زیادہ کٹر پن کا شکار ہو گا اتنا ہی وہ کسی ایک فلسفیانہ نظام سے توقع کرے گا کہ اس کو یا تو تسلیم کر لیا جائے یا پھر رد کر دیا جائے۔ لہٰذا ایسے فلسفیانہ نظام کے بارے میں کسی وضاحتی بیان دیتے وقت یا تو اس کی توثیق کر دی جاتی ہے، یا پھر جھٹلا دیا جاتا ہے۔ اس کو یہ علم نہیں کہ فلسفیانہ نظاموں کے مابین اختلافات سچائی کے مسلسل ارتقا کے باعث ہیں، اس کے برعکس اس کو ان نظاموں کے مختلف ہونے میں محض تضادات ]کہ ان میں سے یہ درست ہے، اور وہ غلط ہے[ نظر آتے ہیں۔ کلی پھول کے کھلنے میں غائب ہو جاتی ہے، اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ پھول کلی کی تنسیخ ہے۔ بالکل اسی طرح جب پھل سامنے آ جاتا ہے تو پھول کی سچائی اس کی باری ختم ہو جانے پر عدم سچائی میں تبدیل ہو جاتی ہے کیوں کہ اب پودے کی سچائی پھول نہیں رہی، بلکہ پھل ہے۔ یہ مرحلے محض ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ یہ دوسرے کو ہٹا کر اس کی جگہ ہی آ سکتے ہیں کیوں کہ یہ ایک دوسرے کے نقیض ہیں [نقیض Contradictory، متضاد Contrary سے تھوڑا مختلف لفظ ہے۔ نقیض یعنی اس طرح کے تعلق میں ہیں کہ اگر ان میں سے ایک موجود ہو تو دوسرا نہیں رہ سکتا] ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی موروثی فطرت کی وہ سرگرمی جو کہ مسلسل بہاؤ میں رہتی ہے ان تمام مرحلوں کو ایک نامیاتی وحدت کے” حرکی عناصر“ [Moments] بنا دیتی ہے [یعنی ایک زندہ جسم کی نمو کے مختلف مرحلے]، جہاں وہ نہ صرف یہ کہ وہ ایک دوسرے سے تضاد نہیں رکھتے، بلکہ جہاں ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے اسی طرح ناگزیر ٹھہرتا ہے، جیسے کہ دوسرا پہلے کے لیے؛ اور ان میں سے ہر ایک مرحلے کی یہ یکساں لازمیت ہی اِس کُلیت کی زندگی کی تشکیل کرتی ہے۔ لیکن ایک فلسفیانہ نظام [کسی نئے فلسفی] کو رد کر دینے والا عام طور پر یہ نہیں جانتا کہ جس کو وہ رد کر رہا ہے اپنے اس فلسفے سے کیا کرنا چاہتا ہے؛ اور وہ جو کہ ان کے مابین جدلیاتی تضاد کو سمجھ رہا ہے [تاریخِ فلسفہ کا عالم] ایک عمومی اصول کے طور پر یہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس کو یک طرفہ پن سے نجات کیسے دلائے، یا دوسرے لفظوں میں، اس کو اپنی آزادی میں یوں قائم رکھا جائے کہ اپنی باری پر آنے والے لازمی ’حرکی مرحلوں‘ کی پہچان کی جائے جو کہ ایک تضاد کی صورت سامنے آتے ہوئے بظاہر ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔“ – (خیال کی مظہریات، ہیگل)
ثنویت، وحدانیت اور ہیگل کا فلسفے میں انقلاب
نچلے مدارج سے لے کر اوپر تک، انسانی سماج اور انسانی سوچ کے عمومی ارتقا میں کوئی مرحلہ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا۔ ان تصورات کے انقلابی معنی کو سمجھ پانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ لیکن ہیگل ان نتائج پر سیدھے سبھاؤ طریقے سے ہرگز نہیں پہنچ پایا تھا۔ بے شک اس کو فرانسیسی انقلاب سے دلی لگاؤ تھا، لیکن سیاسی حیثیت میں وہ ایک رجعت پسند اور جرمن ریاست کا ایک پُرجوش حامی تھا۔ سوال یہ ہے کہ: اگر تو وہ واقعی ایک رجعت پسند تھا تو اس نے اتنے انقلابی اصول کیسے تشکیل دے دیے؟ اور: اگر اس نے اتنے انقلابی اصولوں کی تشکیل کی تھی تو پھر وہ سیاسی طور پر ایک رجعت پسند ہی کیوں بنا رہا؟
اپنے وقت میں اپنے خیالات کو تشکیل کرتے وقت ہیگل اپنے ہم عصر فلسفیانہ رجحانات میں سے بعض کی کمزوریوں کے خلاف جدوجہد کر رہا تھا۔ ایک محاذ پر اس کی جدوجہد رینے ڈیکارٹ (René Descartes) جیسے عقلیت پسندوں (Rationalists) کے خلاف تھی، جس نے یہ مشہور خیال گھڑا تھا کہ ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں“۔ ڈیکارٹ کے خیالات یوں انقلابی تھے کہ انہوں نے کیتھولک کلیسا کی حیثیت اور اس نے جو یورپی معاشرے کا جینا حرام کر رکھا تھا، اس کو بڑی دلیری سے نشانہ بنایا۔ بجائے اس کے کہ وہ رجعت پرست اہلِ کلیسا کے صوابدیدی [اپنے من مانے] احکامات کی فرمان برداری کرتا، ڈیکارٹ نے ان کو للکارا کہ وہ اپنی حیثیت کو ثابت کریں کہ وہ جائز ہے۔ وہ نہایت ہی بے رحمی کے ساتھ اس رجعت پرستی پر حملہ آور ہوا اور ان کے خدا سمیت ہر چیز سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی تعقل کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ لیکن ڈیکارٹ کے دعوے کا ایک کمزور پہلو بھی تھا، وہ یہ تھا کہ سچائی کو صرف استخراجی منطق [یعنی پہلے سے ”مان لیے گئے“ کچھ مفرضات کو درست مان لیا جائے اور باقی تحقیق اسی کو مانتے ہوئے اس کے ذیل میں کی جائے] کی راہ پر چل کر ہی پایا جا سکتا ہے، جس کا ثبوت انسانی وجدان کے اندرون ہی میں پایا جاتا ہے اور اس کا ہمارے گرد کی دنیا سے اور مادی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ دوسری جانب، ہیگل تجربیت پسندوں (Empiricists) کی بھی خبر لے رہا تھا، جن میں ڈیوِڈ ہیوم جیسے بڑے نام بھی شامل تھے جو کہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ براہِ راست تجربہ اور احساسات (Senses) ہی علم کے حقیقی اکیلے ماخَذ ہیں۔ تجربیت پسندوں کے ہاں آخری تجزیے میں علم معلومات کا یا حقائق کا محض ایک اکٹھ تھا، جس کی عمومیت (Generalisation) نہیں بنائی جا سکتی، جس کو عقلی طور پر نہیں جانا جا سکتا یا پھر یہ کہ انسانی شعور اس کا تجزیہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ہیگل سے بالکل پہلے کا فلسفی اعمانوئیل کانٹ ان دونوں دھڑوں [عقلیت پسندی اور تجربیت پسندی] کی کشتیوں میں ایک ٹانگ ادھر اور دوسری ادھر رکھے کھڑا تھا۔ کانٹ کی دریافتوں کے شاندار سلسلے تھے، دوسری چیزوں کے علاوہ فلکیات کے میدان میں بھی ایسا ہی تھا۔ اس کا سب سے اہم کام بہرحال تجربیت پسندوں اور عقلیت پسندوں کو مصنوعی طور پر یکجا کرنے کی ناکام کوشش تھا۔ کانٹ نے فلسفیانہ ثنویت [دو نظریات کو ایک ساتھ، لیکن الگ الگ رکھتے ہوئے لے کر چلنا] کی تشکیل کی جس کا نظریہ یہ تھا کہ تصورات کی دنیا اور مادی دنیا دونوں وجود رکھتی ہیں، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے لاتعلق ہیں۔
کانٹ کے مطابق انسان کے شعور سے باہر اور اس سے آزاد ایک مادی دنیا کا وجود ہے۔ لیکن، انفرادی حیثیت میں بنی نوعِ انسان کے داخلی نقطہ نظر کی وجہ سے، ہم اس دنیا کی چیزوں کو پوری طرح سے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کیوں کہ ہم اس دنیا کا محض ظاہراً ہی جائزہ لے سکتے ہیں، اس لیے ہم، کانٹ کے الفاظ میں، شے فی الذات کا اِدراک نہیں کر سکتے۔ اس طرح دنیا پر تحقیق کر کے علم اور سچائی کو نہیں پایا جا سکتا، چہ جائے کہ ہماری مدد کو خاص طرح کے بدیہی [جو علم تجربے سے حاصل نہ ہو۔ کانٹ کے مطابق یہ انسان میں پیدائشی ہوتا ہے۔] قبل تجربی (a priori) [رمزیوں مقولے یا زمرے بھی کہے جاتے ہیں] Categories کا ایک سلسلہ نہ ہو جیسے کہ مقدار، معیار، لازمیت، تضاد، وغیرہ۔ یہی وہ رمزیے ہیں جن کی مدد سے ہم بیرونی دنیا کے متعلق کچھ معلومات تشکیل دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بدیہی رمزیے آتے کہاں سے ہیں اور انسان کے ذہن میں اس کے بیج کیسے بوئے جاتے ہیں، کانٹ اس بات کی وضاحت نہ کر پایا۔
کانٹ کا فلسفہ، آج ہیگل کے فلسفے کے برعکس، بورژوا مدرسانہ حلقوں میں کہیں زیادہ مقبول ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کانٹیئن مدرسانہ انڈسٹری اب تو ان کوششوں میں مصروفِ عمل ہے کہ اپنا دائرہ ہیگل کی فکر تک پھیلا دے۔ یہ لوگ ہیگل کی فکر کو مسخ کرنے والا یہ دعویٰ سامنے لا رہے ہیں کہ ہیگل کا کام حقیقت میں کانٹ کا براہِ راست تسلسل ہے۔ ہیگل پر کام کرنے والے مشہورمحققین، جیسے کہ ٹیری پِن کارڈ اور رابرٹ بی۔پیپِن یہ دعوے کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ ہیگل کا کانٹ سے کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔
معروفِ زمانہ کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے کیا گیا ہیگل کی ”منطق کی سائنس“ کا نیا ترجمہ جس کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں بطور معتبر انگریزی ترجمے کے پھیلایا جا رہا ہے، ایک تسلسل کے ساتھ [ایک ڈھٹائی کے ساتھ کہیں تو بہتر ہو گا] ہر جگہ پر جرمن الفاظ Denken اور Denkend (جن کا انگریزی میں سادہ معنی ”تفکر“ یا Thinking ہے) کا ترجمہ Discourse یا کلامیہ اور Discursive یا پیچیدہ یا مسلسل تبدیل ہوتا رہنے والا [جس کی وجہ سے کوئی چیز جانی نہیں جا سکتی] کیا جا رہا ہے۔ یہ جعل سازی سے کھلم کھلا ہیگل کے تصورات کو جھٹلانے کا عمل ہے اور ترجمے کی تمام اخلاقیات کی قانون شکنی ہے۔ مابعد جدیدیت کی موضوعی عینیت پرستی کو نقب لگا کر چوروں کی طرح ہیگل کے کام میں گھسیڑ دینا ایک کھلم کھلا مجرمانہ عمل ہے۔ اس لفظ کے چناؤ کا دفاع کرتے ہوئے مترجم جارج ڈی جووانیؔ تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کرتا ہے کہ ”منطق کا موضوعِ بحث ’شے فی الذات‘ یا اس کے مظہری ظاہرات (Phenomenal Manifestations) ہیں ہی نہیں، اب کوئی اس کے ’فی الذات‘ [یا بالذات in-itself] کو جوہر کے طور پر لے یا آزادی کے، لیکن خود یہ ہے کلامیہ ہی۔“ – (منطق کی سائنس، کیمبرج ہیگل ٹرانسلیشن، ہیگل—ہماری تاکید emphasis)
اس اوپر کے اقتباس میں کلامیے سے مراد حقیقت میں انسانی ثقافت ہے۔ موضوعیت پرستی کی اس شکل اور کانٹ کی موضوعیت پرستی میں فرق بس یہ ہے کہ ڈی جووانیؔ نے (فُوکو، دریدا اور نسبتاً آج کے دور کے مابعد جدیدیت پسندوں کی پیروی کرتے ہوئے) موضوعیت پرستی کو ایک تک محدود کرنے کی بجائے بہت سے لوگوں میں پھیلا کر اس کو ’اجتماعیت پسند‘ بنا دیا ہے۔ یعنی انسانیت شے فی الذات کو جان نہیں سکتی۔ لیکن فطرت اور سماج کے قوانین کو اس بات کا پابند ٹھہرا دینا کہ وہ انسانی ذہن کے وسیلے سے متعین کیے جائیں گے، بے شک اس میں بہت سے اذہان ہی کیوں نہ ہوں، بنیادی طور پر یہ بالکل وہی بند گلی ہے، جہاں آن کر کانٹ کا فلسفہ رک گیا تھا۔ ڈی جووانیؔ ہیگل کی منطق کو زبردستی کانٹیئن ازم کے تابوت میں قید کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر ہم ہیگل کے منطقی رمزیوں کو حقیقت اور خارج سے کاٹ کر دیکھنا چاہیں تو پھر یہ کانٹ کے تجریدی رمزیوں سے قطعاً مختلف نہیں رہ جاتے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس تصور پر تنقید ہی ہیگل کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ کانٹ کے نظریات کو اور ثنویت کی دیگر تمام کی تمام شکلوں کو تباہ کُن ضرب لگاتا ہے:
”تنقیدی فلسفے [کانٹ کا فلسفہ مراد ہے۔ مصنف] کا بنیادی طور پر کام ہی شے اور سوچ کے مابین علیحدگی کروانا ہے، اور یہ پچھلے تمام ادوار کے نکالے گئے نتائج سے الٹ ہے، جب کہ پچھلے ادوار میں ان دونوں کا اتفاق ایک جانی مانی حقیقت تھی۔ ان دونوں [کانٹ کے فلسفے اور پچھلے ادوار کے فلسفے کے اخذ کردہ نتائج] کے درمیان تضاد ہی وہ نقطہ ہے جس پر جدید فلسفہ [پچھلے فلسفے سے] مختلف ہے۔ اس دوران لوگوں کی فطرتی سوجھ بوجھ نے بھی اس [جدید فلسفے] کو جھٹلایا ہے۔ عام زندگی میں ہم لوگوں کو خود کو یاد نہیں کروانا پڑتا کہ یہ سچائی کو جاننے کا عمل ہے، اور سوچتے ہوئے ہم کسی بھی قسم کا تامل کیے بغیر یہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ سوچ شے کے ساتھ منسلک ہے۔ اور یہی یقین سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس دور کی بیمارانہ صورت حال کا غماز ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے یہ مایوس کُن عقیدہ اپنا لیا ہے کہ ہمارا علم محض موضوعی ہے، اور یہ کہ ہمارے لیے اس موضوعیت سے باہر جا پانے کا کوئی چارہ نہیں ہے۔ جب کہ، یہ سامنے کی بات ہے کہ سچائی خارجی حقیقت ہے، اور اسی [خارجی حقیقت] کو ہر ایک کے فہم کی تشکیل کا سزاوار ہونا چاہیے، یعنی جب کوئی ایک فردِ واحد اس اصول سے اتفاق نہیں کرتا تو اس کی تفہیم پر غلط ہونے کی مُہر لگا دی جاتی ہے۔ جدید نظریات، اس کے برعکس، محض تفہیم کی حقیقت کو اعلیٰ درجے کی اہمیت دیتے ہیں [کسی کی تفہیم سے تفہیم لی جانے کو ہیگل غلط بتا رہا ہے، اس کی بجائے وہ خارجی حقیقت سے تفہیم لینے کو درست بتا رہا ہے]، اور ہماری اس تفہیم سے [اچھا، برا] کچھ بھی مطلب نکلے، اس کے مفاد کے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اس کے قائل ہو جائیں — ایسا معیار نہیں ہے جس سے ہم اس کی سچائی کی جانچ کر سکیں۔
اوپر ہم نے بتایا ہے کہ سچائی کو جاننا قدیم زمانوں سے ذہن کا امتیازی حق مانا چلا آ رہا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کا اطلاق ہر اس شے پر ہوتا ہے جو کہ فطرت کے اندر اور باہر ہے، ایک لفظ میں کہیں تو، ’خارجی دنیا‘، اپنے آپ میں ویسی ہی ہے جیسی کہ یہ سوچ میں ہے، اور سوچنا ہمارے سوچے جانے والے وجود کی سچائی کو منظر عام پر لانا ہے، وہی جو کہ یہ ہو سکتا ہے۔ فلسفے کا کام صرف یہ ہے کہ دنیا نے تمام ادوار میں سوچ کے بارے جو تصور قائم کیا ہے اس کو عام عوام کے شعور کے لیے سامنے لا کر رکھے۔ اس لحاظ سے فلسفہ کوئی نیا قدم نہیں اٹھاتا؛ اور ہماری موجودہ بحث ہمیں ایک نتیجے تک لے جاتی ہے جو کہ بنی نوعِ انسان کی فطرتی سوجھ بوجھ کے مطابق ہے۔“ (انسائیکلو پیڈیا منطق، ہیگل)
اگر تو ذہن حقیقت کا جیسی کہ یہ ہے ادراک کرنے سے قاصر ہے اور ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ہمارے تجربے میں آئے اور جس کا ہونا، اپنے ذہن کی شبیہوں سے ماورا یا پھر جیسے کہ یہ ہمارے تجربے میں آتی ہے، ثابت ہو سکے تو پھر ہم کسی بھی چیز یا [اپنے علاوہ] کسی دیگر شخص کے ہونے کے بارے میں کیسے یقین کر سکتے ہیں؟ کانٹ نے اپنے ذہن کے بارے میں کچھ نہیں لکھا، لیکن اس نے عمومی ذہن اور سوچ کے بارے میں لکھا ہے۔ لیکن ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر خارجی حقیقت کا جوہر انسان کی پہنچ سے باہر ہوتا تو وہ کبھی بھی اس ذہن ’فی الذات‘ کو نہ سمجھ پاتا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کانٹ لکھنے کی اور فلسفے سازی کرنے کی زحمت ہی کیوں کرتا جب کہ وہ خارج میں اپنے خیالات کو سمجھنے والی دنیا کے بارے میں پُریقین ہی نہیں تھا؟ یہ ہر طرح کی عینیت پرستی کا بنیادی نقص ہے، جو کہ اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے کہ تصورات کی دنیا کس طرح سے مادی دنیا سے جڑی ہوئی ہے۔
کانٹ نے حقیقت میں یہ کیا کہ وہ ثنویت کو اس کی منطقی حدود تک لے گیا، اور ایسا کرتے ہوئے اس کی معذوری کو بے نقاب کر گیا۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے جو حاصل کیا وہ آج کے مابعد جدیدیت پسندوں کے مقابلے میں کہیں بڑھ کے تھا، جو نیچے کی جانب جاتے ہوئے، موضوعیت کی بند گلی کی بے شمار قدموں سے روندی ہوئی پرانی راہ پر نئے تصورات کی ایک مایوس کُن کھوج کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن ہیگل یہاں رُکا نہیں۔ کانٹ اور دیگر عقلیت پسند فلسفیوں پر اس کی تنقید جدلیاتی منطق کی تشکیل میں ایک سنگِ بنیاد کی حیثیت اختیار کر گئی۔ فلسفہ اور خاص طور پر مَنطِق ایک منفرد نوعیت کی سائنس ہے۔ یہ سوچ کے متعلق سوچ ہے۔ محض عام سوچ نہیں، بلکہ سائنسی سوچ۔ لیکن کون اس قسم کی سائنس کے ساتھ کسی بھی چیز کو درست یا غلط ثابت کر سکتا ہے؟ نظریاتی حد تک، ہر شخص اپنے خیالوں کے اندر اپنی منطق کے ثبوت فراہم کر سکتا ہے۔ جب تک فلسفے کو ”نری سوچ“ اور ”نرے وجدان“ [ویسے کانٹ کو پڑھتے ہوئے اس لفظ Intuition کے معنے ”حسی ادراک“ کے لیے جاتے ہیں۔ اس طرح اگر اس لفظ کا معنی یہ لیا جائے کہ ایک طرف ”نری سوچ“ اور دوسری طرف ”نری حسیات“، تو بھی معنی وہی بنتا ہے۔ یعنی دونوں ایک دوسرے سے ارتباط میں نہیں آتے، لہٰذا ہم آہنگ نہیں ہوئے] کے دائرے میں رکھا گیا تھا، تب تک تو اس کے ارتقاء پر سخت قسم کے حدود و قیود تھے۔ یہ بات کانٹ کے اس دعوے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں وہ کہتا ہے کہ منطق کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جا سکتا تھا ارسطو کہہ چکا تھا۔
کانٹ یہاں ارسطو کی صوری منطق [Formal Logic۔ جس کا فقرے کی شکل (Form) دیکھ کر پتا چل سکے] کی بات کر رہا تھا، جو کہ اصولِ عینیت [Law of Identity] پر بنیاد رکھتی ہے، جس کو مختصراً (A=A)کے تصور سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ انتہائی سادگی سے بیان کریں تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہر چیز خود اپنے برابر ہے۔ یہ عام روزمرہ زندگی کے حساب سے درست بات ہے۔ ہم (A) کے حرفِ تہجی کو آسانی سے پہچان لیتے ہیں، اسی طرح کسی بھی دیگر مظہر پر یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ لیکن ہیگل نے یہاں یہ نکتہ اٹھایا کہ ایک تجریدی (A) کا کہیں وجود نہیں ہے— اگر آپ خورد بین کے نیچے رکھ کر دیکھیں تو دنیا میں دو ایک جیسے (A) آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ (A) کسی چیز کا نمائندہ ہے، جیسے کہ ایک کتا۔ لیکن دنیا میں کوئی دو کتے ایسے نہیں ملیں گے جو ایک جیسے ہوں۔ کتوں کی مختلف نسلیں ہیں، مختلف جنسیں ہوں گی اور ہر انفرادی کتے میں دوسروں سے لامتناہی فرق ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر انفرادی کتا ایک مسلسل بڑھوتری، تبدیلی اور ارتقاء کے عمل سے گزر رہا ہو گا۔ تو اس طرح سے اس قانونِ عینیت کی سچائی کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ ایک کتا زمان اور مکان (Time and Space یعنی وقت اور جگہ) سے ماورا ہو کر خود اپنے برابر ہے۔ لیکن یہ ایک مکمل طور پر کھوکھلا بیان ہے جو کہ ہمیں کچھ بھی نہیں بتاتا۔ یقینا عام زندگی میں، یہ ایک عملی حقیقت ہے کہ: ایک کتا، کتا ہے۔ لیکن کسی سائنسی نظریے کو اس قسم کی منطق کے ساتھ محدود کر دینا مایوس کُن ہو گا۔
بہرحال، جس طرح سے عقلیت پسند کانٹ کی ہمراہی میں یہ چاہتے تھے کہ شعور اور سوچ کو معروضیت سے کاٹ کر اور درحقیقت اس کو مادی دنیا سے الگ کر کے جکڑ کر رکھا جائے، اس سے منطق کی کسی اعلیٰ بنتر کا حصول ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ زیرِ بحث زمانہ سولہویں سے اٹھارہویں صدی کا ہے، جہاں ساری دنیا ہی سرمایہ داری کے ابھرنے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے ہونے والی پیش رفتوں کی وجہ سے ایک جوار بھاٹے اور افراتفری کی حالت میں تھی۔ اور یہاں فلسفہ اپنے سے اس علم کی دنیا کو جدا کرنے والی ایک دیوار کی تعمیر میں مصروف تھا۔
تجریدی موضوعی خیالات حقیقی دنیا کے بہاؤ اور اس میں ہونے والی تسلسل کے ساتھ تبدیلی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ عمومی، تجریدی تصورات، جن کو ان کے ارتقاء کے عمل میں نہیں دیکھا جاتا اور جو حقیقت اور جزئیات کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھے جاتے بے کار اور سطحی ہیں۔ وہ وہی معنی فراہم کر سکتے ہیں جو آپ ان سے چاہتے ہیں۔ فلسفے اور مادی سائنسوں کے درمیان موجود دیوار ڈھانے کی ضرورت ہے۔
ہیگل کے مطابق منطق، سائنس اور انسانی سماج سے کٹا ہوا ایک خاص میدان نہیں تھا۔ بلکہ مختصراً یہ تمام مثبت سائنسوں کی اعلیٰ ترین بُنتر ہے جنہوں نے اس ہڈی کے ڈھانچے پر گوشت چڑھایا تھا۔ مادی سائنسوں کے میدان میں، البتہ، ہیگل نے تجربیت پسند مکتب کی مخالفت کی، جن میں ہیگل نے اپنے سامنے ہیومؔ کو سرِفہرست رکھا۔ تجربیت پسند مکتب بنیادی طور پر یہ بحث کرتا ہے کہ اس دنیا کو سمجھ پانے کے لیے عدم ارتباطی تجربہ [Immediate یعنی ایسا تجربہ جس پر سوچا نہ گیا ہو۔ یہاں اس کا ترجمہ ’براہِ راست‘ کرنا درست نہیں ہو گا] ہی کافی ہے۔ یعنی کہ منطقی سوچ بچار اور عمومیت کی تشکیل غیرضروری ہے۔ ہیگل یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ سچائی مقرونی [Concrete: ہماری سوچ سے باہر مادی حقیقت] ہے۔ لیکن اس کے مطابق، حقائق کی ڈھیریاں لگا دینا علم کی جانب نہیں لے جاتا جب تک آپ یہ نہیں جانتے کہ ان حقائق کی قسم وار درجہ بندی کیسے کرنی ہے۔ یا پھر، یونانی فلسفی ہیراقلیطسؔ کے الفاظ میں یوں کہیں کہ، ”جاہل ارواح کے حامل انسانوں کے لیے آنکھیں اور کان جھوٹے گواہ ہیں“۔
عمومیت کی تشکیل کرنے کی صلاحیت بنی نوعِ انسان کی ہستی کا ایک لازمی انگ ہے۔ یہ تمام انسانی تعلقات کی بنیاد کی تشکیل کرتا ہے۔ درحقیقت، جیسا کہ ہیگل نشاندہی کرتا ہے، ”کوئی اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے“۔ ہمیں سادے ترین مظہر تک کی وضاحت کرنے اور اس کے سیر حاصل اِدراک کے لیے بھی عمومیت کی تشکیل کرنی پڑتی ہے۔ ہر مفرد لفظ ایک عمومیت ہے، اور کسی بھی چیز کی زیادہ تفصیل کے ساتھ وضاحت ہمیں زیادہ عمومی اصطلاحات کی جانب لے جائے گی۔ اس صلاحیت کے بغیر، انسانی سماج ایک دن بھی نہیں نکال سکتا۔ ہیگل کے مطابق عقلیت پسندی اور تجربیت پسندی دونوں فلسفے ایک جیسی تجریدی ]بے معنی، گمراہ کُن[ اندازِ خیال (Position) اختیار کرتے ہیں: ”۔۔۔ جیسے کہ ایک کھوکھلی وسعت ہے، ویسی ہی ایک گہرائی ہے اور وہ بھی خالی ہے“۔ (روح کی مظہریات)۔ شعوری فکر کا لب لباب یہ ہے کہ ان گنت مظاہر کی بالکل درست طریقے سے درجہ بندی کی جائے اور ان کے مابین وہ باہمی روابط اور تعلقات دیکھے جائیں جو کہ خالی آنکھ سے سیدھے سبھاؤ نظر نہیں آتے۔
یہ عمومیتیں ہمارے اجتماعی تجربے کی بدولت سامنے آتی ہیں، جو کہ ایک جاری عمل کی صورت میں ہماری دنیا کے بارے جان کاری کو مسلسل گہرا اور انقلابات سے دوچار کرتی چلی جاتی ہیں۔ ایک کتے کا وہ عمومی تصور جو ہم سب کے ذہنوں میں ہے دنیا کے کسی کتے سے ہوبہو نہیں ملتا۔ لیکن، تاریخ میں ان گنت کتوں کے ساتھ دوچار ہونے اور ان کو دیکھنے کے باعث ہم نے اپنے شعور میں ایک کتے کی شبیہ کی تجرید علیحدہ کی ہے؛ ایک ایسی شبیہ جو کہ اس کے اتفاقی اوصاف کو جھاڑ کر، چھان پھٹک کر کتے کے لازمی ترین جوہری خاصوں سے مزین ہے۔ ایک تجریدی، یونیورسل کتے کا یہ عمومی تصور، ان تمام اصولوں اور عوامل کے ہمراہ جو کہ اس کو چلاتے ہیں، ان تصورات سے کہیں زیادہ بڑی سچائی کا حامل ہوتا ہے جو کہ ہم ایک انفرادی کتے کو دیکھ کر وقت کے کسی ایک خاص لمحے میں بنا پاتے ہیں۔ ہماری دنیا کو چلانے والے قوانین کے بارے میں اس عمومی نظریے کے بغیر ہم کسی سائنس کی تعمیر و ترقی کرنے کے قابل نہ ہوتے— یہاں تک کہ اس بارے میں ہمارے پاس ابتدائی ترین علم بھی نہ ہوتا۔
تجربیت پسند فطرت کے عمومی قوانین کے بارے بنی نوع انسانی کی عمومی زبان میں کتابیں لکھ کر نادانستگی میں اس بات کا اعتراف تو بہرحال کرتے ہی ہیں کہ ان کے نکالے گئے نتیجے لاحاصل ہیں۔ اس طرح سے وہ بالکل عقلیت پسندوں ہی کی طرح کے [بے معنی] نتائج پر پہنچتے ہیں۔
آج کی مابعد جدیدیت پسندی اپنی فطرت میں مانگے تانگے کے نظریات پر گزارا کرنے والا نظریہ ہے، اس نے عقلیت پسندوں اور تجربیت پسندوں، دونوں کے نظریات کے بے ڈھنگے ترین حصے لے لیے ہیں۔ ایک جانب اس نے تجربیت سے ’تخالف‘ (Difference) اور ’انقطاع‘ (Discontinuity) کے تصورات کو ’ہم آہنگی‘ [Identity۔ اس کا ترجمہ شناخت بھی کرتے ہیں۔ لیکن ’ہم آہنگی‘ بہتر ہے] اور باہمی ربط (Interaction) کی مخالفت کے لیے اپنے راہنما اصول کے طور پر اپنایا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسی دنیا سامنے آتی ہے جو بنیادی طور پر کسی بھی قسم کی کُلیت سے محروم اتھاہ گہرائیوں میں گرتے ہوئے تار تار اور پارہ پارہ ہو رہی ہے۔ اس بنیاد پر مابعد جدیدیت منطقی سوچ کے کسی بھی ایک نظام — جس کو یہ ’مہا بیانیے‘، ’نظریہ لزومت‘ اور ’نظریہ آفاقیت‘ (Universalism) کہتے ہیں — سے انکاری ہے جس کا عمومی طور پر اطلاق ہو پائے۔ اس طرح سے ’مہا بیانیوں‘ اور تعمیمی فکر کا مطلقاً انکار کرتے ہوئے یقینی طور پر یہ مہا ترین، بے ڈول ترین، عمومی ترین اور ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والا قابلِ فہم بیان داغ دیتا ہے۔ دوسری جانب، کانٹ کی موضوعیت پرستی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے موضوعی نقطہ ہائے نظر کی بنا پر ہمارے حقیقت کو پانے کے امکان کو رد کرتے ہیں۔ یوں یہ ثنویت کی بھی ایک بھدی شکل ہے۔
لیکن ہیگل نے یکتائیت (Monism) کے حق میں اس ثنویت (Dualism) کو رد کرتے ہوئے بند گلی میں سے راہ کھوج نکالی جہاں کہ فلسفہ پہنچ کر رک چکا تھا۔ یکتائیت وہ نظریہ ہے جس میں خیالات کو اور مادی حقیقت کو اک دوجے سے کٹا ہوا نہیں مانا جاتا، بلکہ یہ دونوں ایک ہی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں۔ ہیگل کی یکتائیت ایک مطلق عینیت پسندی تھی جو کہ دوسرے لفظوں میں معروضی عینیت پسندی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ کانٹ اور دوسرے عقلیت پسندوں کے برخلاف، ہیگل نے معروضی دنیا کو موضوعی دنیا سے الگ نہیں کیا۔ اس کے مطابق، محض ایک ہی دنیا کا وجود ہے، اور وہ خیال کی دنیا ہے۔ جو کہ ہیگل کے مطابق خارجی ہے، قدرت اور فکر کو چلانے والے قوانین جدلیات ہیں، جو کہ خود کا اظہار مادی حقیقت کے ذریعے کرتے ہیں۔ یہ کسی ایک انسان کی جدلیاتی فکر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مطلق خیال یا مطلق روح کے ہونے کا خاص انداز ہے۔ فلسفیانہ تفکر سے ہم مطلق قوانین سے استخراج کر سکتے ہیں اور دنیا پر ان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
اس معروضی عینیت پسندی کا ایک دو رُخا خاصہ ہے۔ اولاً، یہ بہرحال ایک مذہبی تصور ہے، اور ہیگل نے اس حقیقت کو کبھی بھی نہیں چھپایا:
”عام آدمی کا اس موضوعی عینیت پرستی کو استثنیٰ کے طور پرلینا بے وجہ نہیں ہے، جس میں شعور کے تمام واقعات کو محض ایک ایسی ذاتی دنیا تک محدود کر دیا گیا ہو جو کہ صرف ہم نے تخلیق کی ہے۔ اس کے بجائے اس معاملے کا درست بیان وہی ہو گا جو ذیل میں دیا گیا ہے۔ وہ اشیا جو ہمارے شعور میں براہ راست ہیں محض مظہریات ہیں، یہ صرف ہمارے لیے نہیں ہیں، بلکہ [خود ان اشیا کی] اپنی فطرت میں؛ اور ان اشیا کے درست اور مناسب معاملے میں، محدود جیسی کہ یہ ہیں، ان کا اپنا وجود ان کے اپنے آپ میں نہیں بلکہ یونیورسل الٰہی نظریے میں ملتا ہے۔ چیزوں کا یہ نظریہ، واقعی اسی طرح سے عینیت پرستانہ ہے جیسا کہ کانٹ کا ہے؛ لیکن تنقیدی فلسفے کی موضوعی عینیت پرستی کے برعکس اس کو مطلق عینیت پسندی کے نام سے پکارا جانا چاہیے۔ مطلق عینیت پسندی، بہرحال، اس سطحی (Vulgar) حقیقت پسندی سے اگرچہ کہیں آگے کی چیز ہے لیکن یہ کسی بھی طرح سے صرف فلسفے تک محدود نہیں ہے۔ یہ سارے مذہب کے جڑ میں موجود ہے؛ کیوں کہ مذہب بھی اس حقیقی دنیا کے متعلق، جس کو ہم دیکھتے ہیں، جو کہ تمام موجودات کا مجموعہ ہے، خدا کی تخلیق اور اسی کے زیر نگرانی ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔“ (منطق کا انسائیکلوپیڈیا، ہیگل)
ثانیاً، اس قدامت پرستانہ مذہبی پہلو کے باوجود معروضی عینیت پسندی نے فلسفے کے لیے آگے ایک بڑا قدم اٹھانے کی راہ کھول دی۔ یہ حقیقت ہے کہ ثنویت کی کمیوں، کوتاہیوں پر قابو پا کر ہی ہیگل نے اپنی جدلیات کی تعمیر کی ہے۔ کیوں کہ جب ہیگل نے مذہب کو تعقلی بنیادوں پر استوار کیا تو، اس نے منطقی فکر کو بھی تجرباتی سائنسوں سے جوڑ دیا۔ اب کسی بھی تصور ]کو اپنی سچائی منوانے[ کے لیے محض تجریدی بنیادوں پر دیے گئے دلائل کافی نہ تھے، کیوں کہ اب اس تصور کے لیے مادی دنیا میں اپنی صداقت کو ثابت کرنا لازم تھا۔ اب تجرباتی سائینسوں کی بے کراں مادی دنیا کا در فلسفیانہ تحقیق کے لیے وا ہو چکا تھا۔ منطق اور سائنسی سوچ نے بھول بھلیوں والے چکر دار اسلوب کے باوجود اپنا کام جاری رکھنے کے لیے ایسا مقام پا لیا جو کہ لوگوں کے انفرادی ذہن سے بالا تر تھا:
”فلسفے کے آغاز کا باعث ایسی ہی فکری بھوک تھی۔ اس کا نقطہئ آغاز تجربہ ہے؛ اس نام کے تحت ہمارا عدم ارتباطی [Immediate۔ جو خارج کے ساتھ تعلق میں نہ آیا ہو، اپنے آپ تک محدود] شعور اور اس سے حاصل شدہ نتائج [Inductions ۔ استقرا] شامل ہیں۔۔۔ وہ سائنسیں جو کہ تجربے کی بنیاد پر استوار ہیں، ذہن پر ایک محرک کی طرح کوشش کرتی ہیں کہ اس بنتر پر قابو پا سکیں جس میں کہ ان کے گونا گوں مِندرجات کو پیش کیا جاتا ہے، اور ان مندرجات کو لازمی سچائی کے درجے تک پہنچایا جائے۔ چوں کہ سائنس کے حقائق ایک بڑا سا انبار ہونے کا پہلو رکھتے ہیں، جس میں چیزیں اک دوجے کے پہلو بہ پہلو آ رہی ہیں، گویا کہ یہ محض دی گئی اور پیش کی گئی ہیں — جیسے کہ، خلاصہ کلام، کسی بھی قسم کے لازمی یا ناگزیر تعلق سے عاری ہوں۔ اس محرک کے نتیجے میں، فکر کو اس کی غیر حقیقی عالم گیریت اور اس کی متخیلہ یا ایسی نری ممکنہ تسکین سے گھسیٹ کر باہر لایا جاتا ہے، اور اس کو اپنے خود کے ارتقاء کی جانب ہانکا جاتا ہے۔ ایک طرف تو اس ارتقاء کا صرف یہ مطلب ہے کہ فکر سائنس کی جانب سے پیش کیے گئے مندرجات کو ویسے ہی ان کی جزیات کی تمام تر تخصیص کے ہمراہ جمع کرتی ہے۔ دوسری طرف یہ ان مندرجات کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ حقیقی تخلیقی فکر کی سرگرمی کی پیروی کریں، اور صرف سچائی کی منطق کے تعین کردہ ایک آزاد ارتقاء کے نقطہ نگاہ کو پیش کرے“۔ (انسائیکلوپیڈیا منطق، ہیگل)
اس طرح ہیگل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ علم تجربے کی ملاوٹ سے پاک کسی تجریدی موضوعی سوچ تک محدود نہیں ہے۔ ہماری دنیا اور ہماری سوچ کو چلانے والے بنیادی قوانین انسانوں سے آزاد ہیں، اور فلسفیانہ تفکر کے ذریعے انسان ان کو سمجھنے کے اہل ہیں۔ تاہم، ہیگل کے مطابق، ان قوانین کی تحقیق کرنے کے لئے بنیادی جگہ ابھی تک انسانی ذہن کے اندر ہی ہے۔ منطق پر اس کی دو تصانیف اور ایک مظاہرات پر بنیادی طور پر شعور میں کار فرما قوانین سے متعلق ہیں۔ یقینا حقیقت میں، یہ کسی ابدی الٰہی وجود کے قوانین نہیں ہیں، بلکہ قدرت کے قوانین کا ایک ملتا جلتا سا عکس ہیں۔
ہیگل کی یکتائیت [Monism] ہمارے [اندر کے] موضوعی تصورات کو خارجی دنیا پر مسلط کرنے والے فرسودہ فلسفیانہ طریقِ کار کے لیے ایک موت کا پیغام تھی۔ اس کی بجائے اس نے معروضی دنیا کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے کا تقاضا کیا، جس کی بدولت ان قوانین کو دریافت کیا جا سکے جو کہ یہ نظام چلانے کے سزاوار ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کو صحیح معنوں میں ہیگل کا فلسفے میں انقلاب کہا جا سکتا ہے، اور اسی خاص پہلو کو مسخ کرنے کی کوششیں مابعد جدیدیت پسند کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ ہیگل کو مادیت پسند نظریے کے بالکل قریب تر کر دیتا ہے اور اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی فلسفیانہ عمارت کی تعمیر مادی دنیا سے لی گئی مثالوں کی بنیادوں پر کرے۔
یہ کوئی الگ تھلگ مظاہر پر مشتمل زمان اور مکان میں ساکت جامد دنیا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا کُل ہے، جس میں ہر چیز ایک آپسی تعلق میں جڑی ہوئی ہے اور مسلسل بہاؤ میں ہے۔ لہٰذا جدلیات اصولِ عینیت یا (A=A) کی بنیاد پر قائم نہیں، بلکہ یہ اس تصور پر قائم ہے کہ A، A کے برابر تو ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ’غیرA‘ (not A) کے بھی برابر ہے۔ ہر چیز وہی ہے، جو کہ وہ خود ہے، لیکن عین اسی وقت وہ کچھ اور چیز بھی ہے—- یا پھر دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ، ہر چیز تضادات پر مشتمل ہے اور ان تضادات کا آپسی اختلاط ہی ہے جو کہ کائنات میں نہ رکنے والی حرکت اور تبدیلی کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ وجود کی نچلی بنتروں سے اعلیٰ تر کی جانب پیش قدمی جاری رکھے۔
جدلیات
”ہونا (Being)، جو ابھی غیر معین عدم ارتباطی (Indeterminate Immediate) ہو، دراصل کچھ نہیں (Nothing) ہے، اور کچھ نہ ہونے سے نہ تو زیادہ ہے نہ ہی کم ہے۔“
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، مابعد جدیدیت تاریخ اور فطرت کی (رد) تشکیل کرنے والے مقتدر اصول میں ’فرق‘ کو سامنے لاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ اس دنیا اور انسانی سماج میں موجود لامتناہی گوناگونی کو رمزیوں، مرحلوں، درجوں اور حدود کے فریبانہ دعوے کرتے ہوئے جھٹلاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک اور سلسلے میں، ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ ہر چیز ’نویکلی‘ [Nuanced۔ ’نیوانسٹ‘ فرانسیسی لفظ ہے، اس کے لیے مجبوراً پنجابی لفظ ’نویکلا‘ لیا۔ تاکہ اس کو New سے الگ رکھا جا سکے] ہے۔ لیکن اگر ہر چیز ہی ”نویکلی“ یا باقی سب چیزوں سے الگ تھلگ اور مختلف ہے، اگر ایسی کوئی چیزیں نہیں ہیں جن کی زمان اور مکان میں درجہ بندی یا منصوبہ بندی کی جا سکتی ہو، تو ہم سب مکمل طور ایک جیسی چیزوں پر مشتمل ساکت و جامد دنیا میں جا پہنچیں گے —- یہ اس ’نویکلے پن‘ سے قطعی طور پر الٹ ہو گا۔ ہیگل یقینا نویکلے پن کا اس طرح سے مخالف نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ [چیزوں کی] لامتناہی اقسام اور تمام مظاہر میں بہاؤ کا جاری و ساری ہونا تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اس کے نزدیک، نویکلے پن اور درجہ بندی جیسے تصورات یقینی طور پر ایک چیز کے دوسری چیز میں تبدیل ہونے کے جیسے ہیں نہ کہ عمومی طور پر اشیاء، تصورات یا ارتقاء کی ٹوٹ پھوٹ۔
وہ اپنی منطق کی ابتدائی سطروں ہی میں مابعد جدیدیت کی دلیل کو باآسانی رد کر دیتا ہے، جو کہ ’نرے ہونے‘ [یا نرا وجود۔ Pure Being] کے بالکل سادے سے تصور سے شروع ہوتا ہے۔ نرے ہونے سے ہیگل کا مطلب ایسا وجود ہے جو کہ زمان اور مکان میں مکمل طور پر غیر متعین اور یکساں ہے؛ جس کی کوئی سرحد نہیں، کوئی خاصے نہیں اور کچھ بھی ایسا نہیں جو کہ اس کے متعلق کچھ بتایا جا سکے۔ لیکن، جیسا کہ ہیگل ہمیں سمجھا رہا ہے کہ، ہم اس قسم کے ہونے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ہم جو بھی کہیں گے وہ اس کو محدود کرے گا اور اس کی تعریف کرے گا اور اس طرح سے ایسا کرتے ہی وہ مزید’نرا ہونا‘ نہیں رہے گا۔ لیکن اس نری شکل میں ہونے کے خاصے’نہ ہونے‘ (Nothing) سے ہرگز مختلف نہیں ہوتے۔ لہٰذا ’غیر متعین ہونا‘ ’نہ ہونا‘ بن جاتا ہے۔ نہ ہونا، اسی طرح، بطور ایک تصور کے، سوچا ہی نہیں جا سکتا جب تک اس کو کسی قسم کے کچھ معنی نہ دیے جائیں، جو کہ نرے ہونے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ پس اس سے قبل کہ ان کے بارے ہم اپنی کوئی سوچ قائم کر پائیں یہ دو تصورات ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہاں، اس ہونے اور نہ ہونے کے ملاپ میں ہماری ملاقات ایک نئے رمزیے ’بننے‘ (Becoming) سے ہوتی ہے:
نرا ہونا اور نرا نہ ہونا اس طرح سے ایک ہی چیز ہیں۔ جو سچ ہے وہ نہ تو ہونا ہے نہ ہی نہ ہونا، بلکہ وہ ہونے کا نہ ہونے میں عبور ہے—- جو گزرتا نہیں ’بلکہ گزر چکا ہے‘ —-، اور نہ ہونے دد کا ہونے میں ]عبور ہے[۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے غیر ممتاز نہیں ہیں، اس طرح سے، پہلے والی بات کے برعکس، وہ ایک جیسے نہیں ہیں، یہ کہ وہ مطلقاً مختلف ہیں، اور اس کے علاوہ یہ غیر جدا اور لازم و ملزوم ہیں اور یہ کہ ان میں سے ہر ایک فوری طور پر اپنے مخالف میں معدوم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ان کی سچائی ان میں سے ہر ایک کے دوسرے میں فوری معدوم ہو جانے کی حرکت ہے: یعنی بننا۔۔۔“ (منطق کی سائنس، ہیگل)
فکر کے اس تجریدی تجربے میں ہیگل جدلیات کے بنیادی اصولوں کا خاکہ پیش کر رہا ہے—- یہ کہ تبدیلی اور تضاد سارے حقیقی ’ہونے‘ کی بنیاد ہے۔ ”۔۔۔ زمین و آسمان میں کہیں ایک بھی ایسی چیز نہیں جس کے اندر ہونا اور نہ ہونا دونوں نہ پائے جاتے ہوں۔“(ایضاً)
تمام مظاہر، اپنے منطقی انجام کو جا رہے ہیں، یہ بالآخر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جائیں گے۔ ہر چیز بلا روک ٹوک تبدیلی کی حالت میں ہے؛ وجود میں آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ جیسے ہی کوئی پیدا ہوتا ہے، اس کی موت کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ہر انسانی خلیہ جو کہ تخلیق ہوا ہے آخر کار خاتمے کو پہنچے گا۔ ایک مخصوص مرحلے پر ہمارے خلیوں کی پیدائش کا عمل ان کی موت کی نسبت آہستہ شرح کے ساتھ ہونا شروع ہو جاتا ہے جو کہ ہمارے زوال کے دور کا آغاز ہوتا ہے، جو کہ موت کے ساتھ ہی ایک اور اہم مرحلے میں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ہماری موت انسانیت کا خاتمہ نہیں ہوتی۔ بالکل اسی طرح سے جیسے ہماری پیدائش اس کی شروعات نہیں ہوتی۔ ہم اپنے والدین کی اولاد ہیں جو کہ اسی طرح سے نسل ہا نسل سے چلے آ رہے ہیں۔ وغیرہ۔
ہم اس سلسلہئ نسب کو انسانی ارتقاء میں، پہلے یک خلوی جانداروں اور اس دھرتی پر زندگی کی شروعات تک مزید پیچھے پُرکھوں تک جاتے ہوئے کھوج سکتے ہیں۔ ہر قدم پر، نئی انواع ایک پیش قدمی کی نمائندہ ہیں۔ انواع کی کثیر تعداد لمبا عرصہ ہوا معدوم ہو چکی ہے، جب کہ نئی انواع ماحول کے ساتھ نسبتاً زیادہ پیچیدہ مطابقت پذیری کے ساتھ ان کی جگہ لے چکی ہیں۔ لیکن یہاں بالکل فلسفے کے ارتقاء ہی کی طرح، ہم دیکھتے ہیں کہ ہر اٹھا ہوا اگلا قدم محض اٹکل پچو سے اور قطعی شروعات سے نہیں ہوتا۔ نئی پرجاتیاں پرانیوں کی نفی تو کرتی ہی ہیں لیکن ان کے کچھ لازمیت کے حامل اجزا کو خود میں محفوظ بھی کر لیتی ہیں۔ یہ سب کچھ جنین کے ارتقا میں موجود ہے، جو کہ اس مخصوص پرجاتی کے ارتقاء میں گزرے تمام مرحلے دکھاتا ہے—- اگرچہ ایسا ایک سیدھے سادے میکانکی ڈھب سے نہیں ہوتا۔
مسلسل ہونے والی تبدیلی اور سارے مظاہر کا بننا بگڑنا مادے کے وجود کی بنیادی وضع (Mode) کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ تبدیلی خارج سے مسلط کردہ نہیں ہے، بلکہ یہ مظاہر کے داخلی تضادات کے باعث ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے نرا ہونا لازمی طور پر اپنے الٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے، موت بھی ویسے ہی زندگی کی وارث ہے۔
یہ تبدیلی تسلسل کے ساتھ اور سکون سے رونما نہیں ہوتی، بلکہ یہ نسبتاً سکون کے ادوار میں سے گزرتے ہوئے یکسر تند و تیز مراحل کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایک بار جب کوئی جسم کسی خاص مرحلے پر پہنچ جاتا ہے تو آخر کار زوال پذیری رفتار پکڑ لیتی ہے۔ بالکل اسی طرح، پیٹ کے اندر بچہ جب ایک خاص عمر کا ہو جاتا ہے تو پیدائش کا عمل تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔
سماجی انقلابات کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ ایک سماج کی بات کریں تو جب وہ ایک خاص مرحلے کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی پیداواری قوتوں کا اپنے وقت کے پیداواری تعلقات کے ساتھ تصادم شروع ہو جاتا ہے۔ حکمران طبقے کے مفادات ابھرتے ہوئے انقلابی طبقے کے ساتھ ایک واضح تضاد میں آ جاتے ہیں، جو کہ ایک نئے اور ترقی یافتہ پیداواری تعلقات کی غمازی کرتا ہے۔ جب یہ عمل ایک خاص نقطے پر پہنچ جاتا ہے تو ایک چھوٹا سا حادثاتی واقعہ بھی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
حکمران طبقے کے مفادات ابھرتے ہوئے انقلابی طبقے کے لوگوں کے ساتھ سخت مخالفت کرتے ہیں، جو پیداوار کے نئے اور زیادہ جدید تعلقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک بار جب یہ عمل نازک مقام پر پہنچ جاتا ہے تو، کوئی بھی حادثاتی واقعہ انقلاب برپا کرسکتا ہے۔
تضاد ہی سارے ارتقا اور پیش رفت کا بنیادی منبع ہے۔ ہیگل وضاحت کرتا ہے:
”سائنسی پیش رفت کے حصول کے لیے جو کچھ بھی درکار ہے —اور اس انتہائی سادی بات کو سمجھ پانے کے لیے کوشش کرنا انتہائی ضروری ہے — وہ یہ ہے کہ اس منطقی اصول کو جانا جائے کہ نفی بھی اسی طرح سے ہے جیسے کہ مثبت، یا جو اپنے اندر تضاد کا حامل ہے خود کو ]مکمل طور پر یا قطعی طور پر[معدوم نہیں کر دیتا، تجریدی کچھ نہ ہونے میں، بلکہ اپنے جوہر میں محض مخصوص مافیہا کی نفی کرتا ہے، دیگر الفاظ میں، یہ کہ ایسی نفی ساری اور ہر طرح کی نفی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مخصوص شے کی نفی ہے جو کہ ]منطقی طور پر اگلے مرحلے میں جاتے ہوئے[ انجام پذیر ہو رہی ہے،۔۔۔ نفی۔۔۔ ایک نیا خیال ہے لیکن پہلے والے کی نسبت اعلیٰ تر اور ترقی یافتہ، بلکہ اس سے بھی کچھ آگے کی چیز ہے، اور یہ اپنا اور اپنے مخالف کا مجموعہ ہے۔ (منطق کی سائنس، ہیگل)
یہ عمل فطرت اور سماج میں ہر سطح پر ہوتا ہے۔ اس طرح فلسفیانہ اصولوں کو کسی تخلیقی دانش مند کے ذہن میں بنے خاکے کے مطابق پہلے سے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ان کو لازمی طور پر ان چیزوں میں سے دریافت کرنا ہو گا جو ہمارے زیرِ مطالعہ ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، جیسا کہ ہیگل دلیل دیتا ہے کہ، وہ مواد جس کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں اس کی نامیاتی زندگی کے اندرونی قوانین کو [درست طور پر] سمجھ پانے کے لیے ہمیں خود کو اس کے ”سپرد کرنا“ [Surrender] ہو گا۔ ایسا کرتے ہوئے ہم ان تفاصیل اور قوانین کو دریافت کریں گے جو ساری فطرت اور انسانی سماج میں خود کو نقل [Replicate] کرتے ہیں۔
”مہا بیانیے“(Grand Narratives) اور ”آفاقیت پسندی“ (Universalism) کا مدرسانہ رد حقیقت میں فطرت کی گہرائی میں موجود کسی بھی اصول کے ہونے کا بھی انکار ہے۔ہمیں بتائے جانے والے یہ تصورات ]یہ کہ معروضی دنیا پر کام کرتے ہوئے عقل کے استعمال سے بنائے گئے عام تصورات نادرست ہیں، یا ناممکن ہیں [ اشرافی نقطہ نظر کے حامل ہیں اور ہم کو ’یوٹوپیا‘، یا اگر ہم فوکوؔ کا لفظ استعمال کریں تو ’ہیٹرو ٹوپیا‘ کی]کی تخیلاتی دنیا[ کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں —- جن کا ہم ]ان مہابیانیوں یا عمومیتوں کے بغیر[ تخیل کر سکتے ہیں۔ لیکن ہیگل تجریدی موضوعی آزادی کی ہر بات کی مخالفت کرتا ہے۔ بغیر لازمیت کے—- یا پھر کسی بھی قانون سے بالا—- آزادی کی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اصلی آزادی ان قوانین کی تفہیم ہے جو کہ ارتقاء کا تعین کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر تو فطرت کسی بھی قسم کے قانون کے بغیر صوابدیدی [من مانے] انداز میں عمل کرتی ہے تو آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اگر کشش ثقل ایک بے ترتیب اندھی طاقت ہوتی، تو لوگ خلا میں ہر جانب ہی اڑتے پھرتے— یہ مانتے ہوئے کہ [محض سوچ کر] ٹھوس مادہ بھی بنایا جا سکتا ہے! ہم علم اور تجربے کے بارے میں کیسے بات کرسکتے ہیں؟ قانون کی یہی ناگزیریت لازمی طور پر بنی نوع انسان اور انسانی سوچ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اگر معروضی قوانین نہیں، تو پھر ہمارے اعمال اور ارادوں کا حتمی تنظیم کنندہ کیا ہوگا؟ انسانوں کی مرضی سے بالا مخصوص قوانین اور رسم و رواج اور روایات کی پیروی کیے بنا کسی سماج کا وجود ممکن نہیں ہے۔
ہیگل کے بقول حقیقی آزادی، لازمیت کو رد کرنا نہیں بلکہ اس کی تفہیم ہے۔ اپنی دنیا کے قوانین کو ہم جتنا بہتر طریقے سے جان لیتے ہیں، اتنا ہی بہتر انداز میں ہم ان کو انسانیت کی فلاح کے لئے استعمال میں لا سکتے ہیں۔
ہیگل کے نظریات کی بند گلی
تاہم، مسئلہ یہ تھا کہ ہیگل کے خیال میں یہ قوانین فطرت کے ارتقاء کے قوانین نہیں ہیں، بلکہ یہ مطلق روح یا مطلق خیال کے ارتقاء کے قوانین ہیں – جس کے متعلق اینگلز نے لکھا ہے کہ ہیگل مطلقاً کچھ نہیں کہتا۔ اینگلز وضاحت کرتا ہے:
[،ہیگل کے مطابق،] ”مطلق تصور کا وجود —نہیں معلوم کہاں — نہ صرف ازل سے ہے، بلکہ وہ ساری موجودہ دنیا کی حقیقی جان دار روح بھی ہے۔ وہ اپنے آپ میں ان سب ابتدائی مدارج کے دوران ارتقا کرتا رہتا ہے جن کی تفصیلی بحث ”منطق“ میں کی جاتی ہے اور جو سب خود اس میں شامل ہیں۔ پھر وہ فطرت میں تبدیل ہو کر اپنے کو ”علیحدہ“ کر لیتا ہے اور پھر وہاں، اپنے ہونے کے شعور کے بغیر، فطرت کی لازمیت کا بہروپ بھرتے ہوئے، ایک نئے ارتقاء سے گزرتے ہوئے، بالآخر انسان میں اپنے ہونے کے احساس کے طور پر (خود شعوری) واپس آ جاتا ہے۔ یہ والا اپنے ہونے کا احساس [خود شعوری] پھر سے اپنا کچا پکا اظہار کچی پکی شکل میں تاریخ میں کرتا ہے یہاں تک کہ آخر کار یہ مطلق تصور دوبارہ مکمل طور پر ہیگل کے فلسفے کی صورت میں اپنے آپ میں واپس آ جاتا ہے۔ ہیگل کے مطابق، فطرت اور تاریخ میں نظر آنے والا جدلیاتی ارتقاء — یعنی نیچے سے اوپر جانے والی ارتقائی حرکت کا منطقی ربط، جو کہ اس تمام پُر پیچ حرکات اور وقتی پسپائیوں کے درمیان اپنی جگہ بناتا ہے — اس تصور کی خود حرکتی کی محض ایک نقل ہے جس کا کسی کو نہیں معلوم کہ ازلوں سے آتے ہوئے یہ کدھر کو جا رہا ہے، لیکن ہر حال میں کسی بھی سوچنے والے انسانی دماغ [کی سوچ] سے آزاد ہے۔“ (لڈ وگ فیوئرباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ، فریڈرک اینگلز)
لیکن مطلق روح — خیال، تصور، ذہن وغیرہ — اپنی خود کی ’روح‘ میں مکمل طور پر غیر ہیگلیائی عناصر ہیں، جو کہ ہیگل کی کسی بھی طرح کی تحقیقات میں سے برآمد نہیں ہوتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر آپ ہیگل کے کام میں سے ”مطلق“ کو نکال دیں تو پھر بھی اس کے تمام بنیادی نکات ویسے کے ویسے ہی رہیں گے۔ یہ ایسے لگتا ہے جیسے ایک مکان کی تعمیر مکمل ہو جانے کے بعد اس کے ]بنانے میں معاون[ بانس، پھٹے وغیرہ پڑے ہوں۔ ہیگل یہ کبھی نہیں بتا سکتا کہ یہ خیالِ مطلق کس طرح سے اس مادی دنیا کے ساتھ ساتھ وجود پذیر ہے، جس کے ذریعے اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس طرح سے ہیگل کے فلسفے کا پچھلا دروازہ ثنویت کی ایک شکل کے لیے کھلا رہ چکا ہے، اور یہی وہ پچھلا دروازہ ہے جس کو اب ’مدرسانہ دانش ور‘ ہیگل کی حقیقی حاصلات کو مسخ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
مزید یہ کہ، ہیگل کے طریقِ کار سے سیدھے سادے انداز میں ہمیں جو بنیادی سوجھ مل سکتی ہے وہ فطرت اور انسانی سماج میں نچلے درجوں سے اعلیٰ درجوں کی جانب کبھی نہ رکنے والا تبدیلی کا عمل، اور اس عمل کو چلانے والے قوانین کے بارے میں مسلسل گہری ہوتی ہوئی انسانیت کی تفہیم ہے۔ اس عمل کے کوئی حتمی مقاصد یا حدود نہیں ہیں، کیوں کہ جیسا کہ ہیگل کا کہنا ہے کہ: ”یہ حقیقت کہ کوئی چیز حد کے طور پر متعین ہے، یہ نشاندہی کرتی ہے کہ حد تو پہلے ہی عبور کی جا چکی ہے۔“ اور پھرہیگل تاریخ اور انسانی فکر کے لئے ایک حد اور حتمی مقصد بتاتا ہے۔ سماجی حد تک یہ مقصد، جرمن ریاست ہے، اور فلسفے میں، یہ ہیگلیائی جدلیات ہے۔
ہیگل نے ہر قسم کی خاکہ بندی پر [Schematism، کانٹ کا فلسفہ، جس میں خارجی حقیقت کو انسانی عقل کے موضوعی اصولوں کی مدد سے ”جانا“ جاتا ہے] اور، فلسفے پر، اگر لفظ [فلسفہ] کے حقیقت پر لاگو کیے جانے والے ایک علیحدہ نظام کے طور پر کلاسیکی معنی لیے جائیں، اپنے نکالے ہوئے نتائج سے ایک مہلک وار کر دیا تھا۔ اور ایسا کرتے کرتے اس نے ان سب سے بڑی خاکہ بندی [Schema] اور نظام کھڑا کر دیا۔
یہ ہم بھلا کیسے بتا سکتے ہیں کہ اس نے یہ نتائج کیوں نکالے؟ ہیگل ایک مسیحی اور پیٹی بورژوا شخص تھا، وہ بھی اس وقت جب جرمنی اپنے گردونواح کے ممالک میں خاصا پسماندگی کا شکار تھا۔ 30 سال کی جنگ کی تباہ کاری نے ملک کی ترقی کو جامد کر کے رکھ چھوڑا تھا۔ فرانس، برطانیہ اور ہالینڈ جیسے ممالک کی اقوام اپنے بورژوا انقلابات کے سر پر دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھیں۔ لیکن جرمنی میں کوئی انقلاب نہیں آیا تھا، اور وہ ابھی تک جاگیردارانہ ملکیتی رشتوں ہی کے چنگل میں پھڑپھڑا رہا تھا۔
جرمنی ٹیکنالوجی، پیداوار، ریاستی ڈھانچے اور مِلکیتی رشتوں کے معاملے میں بہت پیچھے تھا۔ تاہم، خیالات بلا روک ٹوک سرحدوں کے آر پار جا سکتے ہیں۔ روشن خیالی کے دوران یورپ میں فلسفے کی کڑی جدوجہد کے محرک کے باعث جرمن نظریہ دانوں نے شان دار ترقی کی اور یہ لوگ سماج کی سب سے اعلیٰ درجے کی پرت بن گئے۔ لیکن یہ لوگ خود کو جاگیردارانہ سطحیت اور پیٹی بورژوا تنگ نظری کی زنجیروں سے آزاد نہیں کروا سکے، جو ان کو ہر جانب سے جکڑے ہوئے تھیں۔ یہ ہیگل کے تصورات میں ملنے والے ابہام کی مادی بنیادیں ہیں جو کہ ہیگل کو مسلسل مادیت پسندی کی باہری حدود پر، بنا ان کو عبور کیے رکھتی ہیں۔ ہیگل کی تحاریر میں جھلکنے والے خیال پرست اور قدامت پرست پہلو خیالِ مطلق نہیں ہیں، بلکہ وہ ہیگل کا اپنا ذاتی اور سماجی نقطہ نظر ہے۔ اس کا میدان، یعنی فلسفہ، ہیگل کے حساب سے تاریخ کے پہیے کو حرکت میں لانے کی طاقت لیے ہے اور یہ اس کا ذاتی فلسفہ ہے جو کہ اس عمل کو آخری انتہا تک پہنچاتا ہے۔
مزید برآں، ہیگل کو اس بات سے خاصا نقصان پہنچا کہ اس کو جو دور ملا وہ سائنس کی اہم ترین ترقی کے دور سے پہلے کا تھا، جیسے کہ حیاتیات، ارضیات اور کیمیاء، جنہوں نے انکشاف کیا کہ جدلیات کا کردار فطرت میں ہر سطح پر موجود ہے۔ ایک لحاظ سے ہیگل کی جدلیات اپنے جوہر میں ایک شاندار مفروضہ تھا، لیکن اس کے باوجود یہ ایک ایسا مفروضہ تھا جو کہ پراسراریت کے دبیز پردوں میں ملفوف تھا، جو کہ مادی دنیا کے لیے اس کے کارآمد ہونے کی راہ میں حارج تھا۔ یہ بنیادی کوتاہی ہیگلیائی مکتب کو اس کی وفات کے فوری بعد پارہ پارہ کر دینے کی جانب لے گئی۔
ہیگل سے مارکس تک
یہ فریضہ مارکس اور اینگلز پر آن پڑا تھا کہ وہ ہیگل کے فلسفے کے انقلابی جوہر کو عینیت پرستی کی قید و بند سے نجات دلواتے۔ اس طرح جدلیات کو ان بنیادوں پر انقلابی عمل کے لیے ایک طاقتور ہتھیار میں تبدیل کر دیا گیا:
”پس جدلیات نے خود کو سائنس کے عمومی قوانینِ حرکت تک محدود کر لیا ہے، ان خارجی قوانین کے دونوں سیٹ اپنی ماہیت میں ایک جیسے ہی ہیں، لیکن دنیا میں اور انسانی سوچ میں مختلف]طرح سے کام کرتے[ ہیں —- انسانی ذہن ان قوانین کا استعمال شعوری طور پر کرتا ہے،جب کہ فطرت میں اور آج تک کی انسانی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں، ان قوانین نے اپنا اظہار غیرشعوری انداز میں ایک خارجی لازمیت کے طور پر واقعات کے ایک ایسے لامتناہی سلسلے کے بیچ میں کیا ہے جو بظاہر اتفاقات لگتے ہیں۔ اس طرح سے جدلیات جو کہ محض تصورات میں تھی، اب خود حقیقی دنیا کی جدلیاتی حرکت کا شعوری عکس بن گئی اور اس طرح ہیگل کی جدلیات کوالٹا دیا گیا؛ بلکہ یوں کہیں کہ سر کے بجائے جس پر وہ کھڑی تھی،اس کے پیروں پر کھڑا کر دیا گیا۔ اور اب یہ مادیت پسند جدلیات ہے، جو کہ برسوں سے ہمارے کام کا بہترین اوزار اور تیز ترین ہتھیار بن چکی ہے۔۔۔“ (لڈ وگ فیوئر باخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ، فریڈرک اینگلز)
لینن نے ایک بار کہا تھا کہ: ”مارکسزم قادر مطلق ہے کیوں کہ یہ سچا ہے“۔ اس بات سے اس کا مطلب یہ تھا کہ مارکسزم اپنے تصورات مادی دنیا سے لیتا ہے۔ اس کا کوئی لگا بندھا خاکہ بندی کا نظریہ نہیں ہے جو کہ یہ حقیقت پر ٹھونستا ہو، بلکہ یہ خود ہمارے گرد موجود دنیا کی محتاط انداز میں کی گئی تحقیقات کا ایک نتیجہ ہے۔ اس طرح سے مارکسزم، لفظ فلسفہ کے کلاسیکی معنوں کے مطابق ایک فلسفہ نہیں ہے۔
مارکسسٹ مادیت پسند ہیں۔ عینیت پرستوں کے برخلاف ہم اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ مادی دنیا کے علاوہ کسی شے کا وجود نہیں ہے۔ انسانی سوچ اور تصورات اس دنیا کے نامکمل عکس ہیں؛ اور جدلیات کے قوانین تصورات کے قوانین نہیں ہیں، بلکہ یہ فطرت کے اندر کام کرنے والے قوانین اپنی عمومی ترین سطح پر ہیں۔ ہم اس دنیا سے تعلق میں آ کر اس قابل ہوتے ہیں کہ ان قوانین کو دریافت کر پائیں۔ انسان اور انسانی ذہن ایک مخصوص طریقے سے منظم ہوئے مادے کی پیداوار ہیں۔ فرد اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ لیکن، جب ہم ایک قدم پیچھے کو جاتے ہیں تو آہنی قوانین ہمارے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں جو کہ انسانوں کی مرضی سے آزاد، اور اکثر اوقات اس کے خلاف عمل پیرا ہوتے ہیں۔
عام محنت کش طبقے کی اکثریت ماسوائے ایک پرسکون زندگی کے اور کچھ نہیں چاہتی۔ فی الواقع، ان کو طبقاتی سماج کی جانب سے ڈالی گئی ناقابلِ عبور رکاوٹوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا، ہم خاص طور پر انہی لوگوں کو جو کہ پوری شدومد سے ایک متوازن زندگی کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہیں بڑے پیمانے پردل جمعی کے ساتھ انقلابی نتائج تک پہنچا دیکھتے ہیں۔
انسانی تاریخ ان قوانین کو انتہائی شاندار انداز میں ظاہر کرتی ہے۔ کسی بھی چیز سے پہلے، انسانوں کو کھانے پینے، سونے اور زندہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کی جستجو میں انسان اپنے اوزاروں اور ذرائع پیداوار میں ارتقاء کرتے ہیں، جو ان کی افزودگیئ محن (پروڈکٹیویٹی) میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں انسانوں میں سے کچھ کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے کام کرنا ضروری نہیں رہتا۔ یہ لوگ دوسروں کے ذریعے سے تیار شدہ زائد پیداوار پر اپنا گزارا کر سکتا ہے۔ اس جگہ سے ہم طبقاتی سماج کا ابھرنا دیکھ سکتے ہیں، جس کا اپنا سارا دار و مدار ہی بجائے خود اس زائد پیداوار ]کو ہتھیانے[ کی جدوجہد پر ہے۔
طبقاتی سماج کے ہر مرحلے پر، پیداواری قوتوں کا ارتقاء انسانیت کے لیے عظیم پیش قدمی کے ساتھ راہ نمائی کرتا رہا۔ ابتدائی طبقاتی سماج شہری انقلابوں کے ساتھ ہم قدم رہے، جو کہ انسانیت کے لیے ایک عظیم الشان پیش قدمی تھی۔ غلامی پر مبنی بعد والے طبقاتی سماج سائنس، ثقافت اور فلسفے کے بے نظیر ثمرات کے ساتھ سامنے آئے۔ لیکن غلامی جو کہ قدیم روم میں اپنے عروج کو جا پہنچی تھی، خود اپنے ہی تضادات کے بوجھ تلے دب گئی تھی۔ غلامانہ سماج کے کھنڈرات میں سے جاگیرداری نمودار ہوئی تھی، اور وہ بھی ایک وقت آنے پر ]ترقی کی راہ میں [ پاؤں کی بیڑی بن گئی جس کو بورژوازی نے اٹھا کے باہر پھینکا۔
ہر مرحلے پر کسی بھی طبقاتی سماج کا مکمل عروج اس کے زوال کی جانب لے جاتا ہے اور دوسرا نظام اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ ہیگل فلسفے کے ارتقاء کے قوانین کو دنیا کے اندر سے تلاشنے کے لیے کوشاں تھا۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ فلسفے کے اپنے خود کے اندرونی قوانین ہیں، اس کے باوجود یہ سماج اور پیداواری قوتوں کے ارتقاء کے ساتھ مکمل طور پر نتھی ہیں۔ فلسفے کے مکاتبِ فکر کا عروج و زوال ہمیشہ طبقات اور طبقاتی سماجوں کی مختلف پرتوں کے عروج و زوال سے مطابقت رکھتا ہے۔
لازمی ہے کہ ہر انقلابی طبقے کے پاس ایک انقلابی فلسفہ ہو۔ جاگیرداری اور مذہبی قدامت پرستی کے خلاف جنگ کی بنیادوں پر بورژوا طبقہ اقتدار میں آیا تھا۔ یہ دنیا میں سچائی کو ظاہر کرنے کی لڑائی لڑنے اور جاگیردارانہ سماج کی منافقت اور نامعقولیت کو ننگا کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس کی جیت انسانیت کے لیے ایک بڑا قدم تھا۔ سرمایہ داری کے تحت پیداواری قوتوں کو بے نظیر ترقی ملی، پہلی مرتبہ ایسی صلاحیت ملی تھی جس سے تمام انسانیت کو غربت سے باہر نکالنا اور اس کی عمومی خواہشات کی تکمیل ممکن تھی۔ لیکن سرمایہ داری بھی اپنی حدود تک پہنچ گئی اور اب انسانی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ بن چکی ہے۔ سچ کہنا ازخود نظام کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے، کیوں کہ یہ اس کی گلی سڑی اور کہن زدہ فطرت کو واشگاف کر دیتا ہے۔
آج کے انقلابی طبقے یعنی محنت کش طبقے کا فلسفہ لازمی طور پر جدلیاتی مادیت ہی ہو گا۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو کہ حقیقت کو بالکل ویسے ہی لیتا ہے جیسے کہ وہ حقیقت میں ہے، یعنی اس کی کُلیت میں اور اس کی حرکت میں۔ محنت کش طبقہ ہر قسم کے طبقاتی سماج کے، ہر قسم کے جبر کے، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے واہموں کے، تعصبات کے، اور ان تمام خرافات کے خاتمے کی لڑائی لڑ رہا ہے، جو کہ تصوراتی پیداواریں ہیں اور طبقاتی سماج کا سہارا ہیں۔ ہمیں ایک مکمل طور پر مادیت پسند فلسفے کی ضرورت ہے جو کہ انسانی سماج کی حرکت کے قوانین کو سمجھے، جس کو ہم نہ صرف یہ کہ تبدیل کرنے کے لیے، بلکہ بطور ایک کُل کے انسانی ضروریات کے عین مطابق تبدیل کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ سماج کے اندر محنت کش طبقہ بطور اس کے گورکن کے تیار ہو رہا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو کہ ایک ہی بار میں تمام آنے والی انسانیت کو طبقاتی سماج کی بربریت سے نجات دلا سکتا ہے، اور انسانیت کو اس کی اپنی تقدیر کا مالک بنا سکتا ہے۔ سچائی اب محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں ایک انقلابی ہتھیار بن چکی ہے۔
لہٰذا مارکسسٹوں کے لیے، آزادی آج اس عمل کو تسلیم کرنے، اس کو بجائے لاشعوری عنصر کے طور پر لینے کے، ایک شعوری عنصر مان کر اس میں شمولیت اختیار کرنے، اور انسانیت کو طبقاتی سماج کی اس بند گلی میں سے نکالنے کے لیے مل کر زور لگانے کی ضرورت ہے۔ پس ہم انسانی سماج کے حقیقی طور پر آزاد اور ہم آہنگ ارتقاء کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ اس جدوجہد میں، جدلیات ہمارا سب سے بڑی طاقت والا ہتھیار ہے، اس کے لیے ہم پر ہیگل کا ایک عظیم احسان ہے اور ہمارے سامنے یہ مقصد ہے کہ اس عظیم وراثت پر ہونے والے ہر حملے اور اس کو مسخ کرنے کی کوششوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر اس کا دفاع کریں۔
نوٹ: [ ] بریکٹوں میں الفاظ مترجم کے ہیں۔