|رپورٹ: مارکسزم کے دفاع میں |
24 سے 27 جولائی کے دوران دنیا بھر کے 50 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے 2 ہزار 800 سے زائد مارکس وادی عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) کی آن لائن عالمی کانگریس کے لیے اکٹھے ہوئے۔ یہ کانگریس دراصل 2020ء میں منعقد ہونی تھی مگر کرونا وباء کے باعث اسے تاخیر کا شکار ہونا پڑا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگرچہ وباء کی وجہ سے فزیکل کانگریس منعقد کرنا ناممکن تھا بہر حال آن لائن شرکت کی سہولت میسر ہونے کی وجہ سے ہزاروں کامریڈوں کو پہلی بار آئی ایم ٹی کی عالمی کانگریس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ کانگریس جوش و جذبے سے بھرپور تھی۔ ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور دور ہونے کے باوجود، کانگریس کے شرکاء پر چاروں دن ایک عالمی انقلابی تنظیم کے ذریعے جڑے رہنے کے باعث انتہائی قربت کا احساس حاوی رہا۔
ایک جانب جہاں امریکی ریاست کے مغربی کنارے میں موجود کامریڈوں کو شرکت کرنے کے لیے صبح 5 بجے جاگنا پڑتا تو وہاں دوسری طرف انڈونیشیا کے کامریڈوں کے لیے کانگریس مغرب کے وقت کے قریب شروع ہوتی۔ جن ممالک سے کامریڈوں نے شرکت کی، ان میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، آسٹریا، بنگلہ دیش، بیلجیم، بولیویا، برازیل، برطانیہ، کینیڈا، چِلی، ایل سلواڈور، گوئٹے مالا، کوستا ریکا، ہنڈوراس، کولمبیا، چیکوسلوواکیہ، ڈنمارک، ہالینڈ، فرانس، جرمنی، جارجیا، یونان، ہیٹی، ہنگری، بھارت، انڈونیشیا، آئرلینڈ، اٹلی، لائبیریا، موریتانیہ، میکسیکو، مراکش، میانمار، نیپال، نائیجیریا، ناروے، پاکستان، پیرو، پولینڈ، پرتگال، روس، جنوبی افریقہ، سپین، سری لنکا، سوڈان، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، تائیوان، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، وینیزویلا اور یوگوسلاویہ شامل ہیں۔
خاص کر جب نائجیریا سیکشن کے مندوب کامریڈ کزیم نے بات رکھی تو وہ کافی جذباتی لمحہ تھا۔ ویزے کے نسل پرستانہ قوانین کے باعث نائیجیریا کا کوئی مندوب ابھی تک کانگریس میں براہِ راست شریک نہیں ہو پایا تھا۔ اس دفعہ پہلی بار، ساری انٹرنیشنل نے فخر کے ساتھ ہمارے نائجیریا کے کامریڈوں کی شاندار سرگرمیوں کے بارے میں براہِ راست رپورٹ سنی۔
بڑے پیمانے پر ہونے کے باوجود یہ تقریب نظم و ضبط کا شاندار مظاہرہ تھا، جس میں انتظامی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سب کچھ بغیر رکاوٹ کے چلتا رہے۔ خصوصاً مترجمین کی ٹیم نے انتہائی سخت محنت کی اور بیک وقت دس زبانوں میں تراجم کیے۔
اس کا نتیجہ بھرپور کامیابی کی صورت میں نکلا۔ کانگریس کے جوش و خروش کا اظہار سوشل میڈیا پر #IMTCongress21 کے ہیش ٹیگ کے ذریعے ہوتا رہا۔ کینیڈا کے شہر ایڈمنٹن سے لے کر پاکستان کے کراچی تک اور روس کے لینن گراڈ سے لے کر برطانیہ کے مانچسٹر تک کامریڈز اپنی تصاویر اپلوڈ کرتے رہے، جن میں وہ ہر برّ اعظم اور دنیا کے ہر کونے میں ساتھ مل کر کانگریس میں شرکت کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔
سر کے بل کھڑی دنیا
کانگریس میں زندہ دلی کے ساتھ ہونے والا قیمتی بحث مباحثہ جس اعلیٰ سیاسی نقطہ نظر پر مبنی تھا، اس کی اور کسی تنظیم میں مثال نہیں ملتی۔
ایلن ووڈز نے پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری تاریخی بحران کی منظر کشی کرتے ہوئے کانگریس کا آغاز کیا، جو 300 سالہ تاریخ کا بد ترین بحران ہے۔ اگرچہ پچھلی کئی دہائیوں سے تیار ہونے والے اس بحران کی وجہ کرونا وباء نہیں تھی، مگر اب بحران اور وباء کو ایک دوسرے سے الگ کرنا بھی ممکن نہیں۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ وباء جیسے غیر متوقع حادثے نے سماجی نظام کی بوسیدگی کا پردہ چاک کیا ہے۔ حکمران طبقے کے اپنے مدبرین کی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایلن نے کہا کہ مالکان بحران کے مکافاتِ عمل سے خوب واقف ہیں۔ مگر پھر بھی، عظیم انقلابِ فرانس سے قبل ملکہ فرانس میری انطونیا اور فرانسیسی اشرافیہ کی طرح، اکثریتی انسانیت کی بے مثال اذیتوں کے باوجود آج سرمایہ دار طبقہ اپنی بیہودہ عیاشی میں مدہوش ہے۔
ایک جانب بھارتی شہروں میں وباء کا شکار بننے والوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی آخری رسومات سے محروم ہیں، جبکہ دوسری جانب دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں 2020ء سے 5 ٹریلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
جہاں ایک طرف ایمازون کے محنت کش جیف بیزوس کے گوداموں میں شدید تھکاوٹ اور گھٹن کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں تو وہیں ان کا مالک دنیا کا پہلا ’خلائی سیاح‘ بننے کے لیے زمینی حدود کو چیر کر سفر کر رہا ہے۔ جیسا کہ ایلن نے وضاحت کی، ان کی کوئی بھی بیہودگی بھلائی نہیں جائے گی۔ وباء نے حکمران طبقے کی بوسیدگی، کرپشن اور نا اہلی سے پردہ ہٹا دیا ہے، جو اس بھیانک خواب کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اس نے کروڑہا لوگوں کے دلوں میں ابلتے ہوئے غصّے کو مزید بھڑکا دیا ہے۔
مگر جیسا کہ ایلن نے وضاحت کی، ان کے نظام کو صفحہ ہستی سے محض انقلاب کے ذریعے مٹایا جا سکتا ہے۔ اور اس کے لیے مارکسزم کے دو ٹوک نظریات پر مبنی محنت کش طبقے کی ایک انقلابی پارٹی درکار ہے۔
Comrades in the US tuning in for the last day of the IMT World Congress! From New Jersey, Louisville Kentucky, Phoenix, and many other cities from coast to coast!#IMTCongress21 pic.twitter.com/YmM9DqMebA
— Revolutionary Communists of America (@communistsus) July 27, 2021
عوام کے بیچ ابلتا ہوا انقلابی غیظ و غضب
انقلابی زمین پر بہت اچھی طرح سے ہل چلایا جا چکا ہے، اور اس کے بیج اب زمین کو چیر کر سطح پر نمودار ہو رہے ہیں۔ سال 2019ء کے اندر ایکواڈور، چِلی، عراق، لبنان سمیت دیگر ممالک میں انقلابی تحریکیں دیکھنے کو ملیں۔ اور اس سال چِلی میں ہونے والے دھماکہ خیز واقعات؛ کولمبیا میں تاریخی عام ہڑتال؛ برازیل میں بولسونارو مخالف تحریک کا ابھار، جو ہماری کانگریس کے دنوں میں جاری رہی؛ پیرو کے صدارتی انتخابات میں ٹریڈ یونین کے سرگرم رکن کی جیت؛ بھارتی کسانوں کی بغاوتی تحریک؛ میانمار کے جرنیلوں کے خلاف تحریک کا ابھار؛ برطانیہ کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین (یونیسن) میں بائیں بازو کا قیادت میں آنا، اور کئی دیگر دیوہیکل واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔
یہ مختلف نوعیت کے واقعات دراصل انقلابی شعور کی بیداری کی علامات ہیں۔ سماج میں پائے جانے والے عمومی غم و غصّے کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ متزلزل اور عارضی بحالی بھی نئی صنعتی تحریکوں کے لیے بڑا محرک ثابت ہو سکتی ہے، جس سے مزدور تحریک کو کافی توانائی ملے گی۔
ایلن کے تعارفی خطاب کے بعد، کامریڈوں نے دنیا بھر سے رپورٹیں پیش کیں، اور موجودہ بحران کے مختلف پہلوؤں پر بات رکھی؛ افغانستان میں امریکی سامراجیت کی شکست، سکینڈی نیویا (ڈنمارک، سویڈن اور ناروے) کی سوشل ڈیموکریسی کے انہدام، ٹریڈ یونینوں کے کردار، اور کیوبن انقلاب کی حاصلات کا دفاع کرنے کے لیے مارکس وادیوں کے طریقہ کار پر بات رکھی گئی۔
کانگریس میں عالمی تناظر پر تفصیلاً اور توانائی سے بھرپور بحث مباحثے کیے گئے، جس نے تمام کامریڈوں کی توجہ عہدِ حاضر کے فرائض اور دیوہیکل واقعات کی جانب مبذول کروائی اور اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ عالمی مارکسی رجحان کے پاس مستقبل میں ایک طاقتور قوت بننے کے کئی مواقع موجود ہیں۔
انقلابی نظریے کے دفاع میں
البتہ ایک ایسی پارٹی کی تعمیر جو مزدور تحریک کی قیادت حاصل کر کے اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچا پائے یعنی ایک سوشلسٹ انقلاب کر پائے، کیلئے ایسے ہزاروں منظم اور سرگرم انقلابی کارکنوں کو تیار کرنا ہوگا جو مارکسزم کے نظریات اور طریقہ کار پر عبور رکھتے ہوں۔
کانگریس کا نعرہ، ”انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک ممکن نہیں“، لینن کی شاہکار کتاب ’کیا کِیا جائے؟‘ سے لیا گیا تھا، جس کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کانگریس کو آگے بڑھایا گیا۔ اس مقصد کی خاطر، کانگریس میں ’مارکسی فلسفے کی جدوجہد‘ کے عنوان پر خصوصی سیشن رکھا گیا۔
اس سیشن پر ابتدائی بات، آئی ایم ٹی کے عالمی قائدین میں سے ایک، فریڈ ویسٹن نے رکھی۔
بادشاہ کنوٹ کی طرح، جس نے سمندری موجوں کو روکنے کی کوشش کی تھی (گیارویں صدی عیسوی میں انگلستان، ڈنمارک اور ناروے کے بادشاہ سے متعلق مشہور ایک کہانی، جب اس نے اپنا تخت ساحلِ سمندر پر رکھا اور موجوں کو حکم دیا کہ رک جاؤ اور مجھے گیلا نہ کرو)، آج حکمران طبقہ بھی تمام اقسام کی الجھنیں اور جھوٹے خیالات پھیلا کر طبقاتی جدوجہد کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آج بورژوا فلسفے کا بنیادی مقصد یہی ہے۔ مگر جیسا کہ فریڈ نے وضاحت کی، ان کی تمام کوششوں کو بالآخر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
اس کے برعکس، مارکسی نظریات کی قوت اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ وہ سچے ہیں، اور اس کی وضاحت دینے اور بحران سے نکلنے کا راستہ دکھانے کی اہلیت ہی وہ وجہ ہے جس کی بناء پر آئی ایم ٹی، جو نظریے پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتی، نے حالیہ برسوں میں مقبولیت حاصل کی ہے۔
فریڈ کا کہنا تھا کہ دیگر تمام تنظیمیں جو خود کو ’بایاں بازو‘ کہلواتی ہیں، نظریے کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں، جو اسے ایک اضافی چیز سمجھتے ہیں، یا پھر بند کمروں میں بیٹھے ’نظریہ دانوں‘ کا بیکار مشغلہ۔ در حقیقت، انقلابی نظریہ جب انقلابی تحرک کے ساتھ مل جائے تو وہ بیکار ہر گز نہیں رہتا۔ 1843ء میں لکھے گئے مارکس کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے فریڈ نے وضاحت کی کہ:
”تنقید کا ہتھیار، بلاشبہ، ہتھیار کی تنقید کی جگہ نہیں لے سکتا، مادی قوت کا تختہ مادی قوت کے ذریعے ہی الٹا جا سکتا ہے؛ البتہ نظریہ بھی مادی قوت بن جاتی ہے جب اسے عوامی حمایت حاصل ہو جائے۔“
مارکسزم سب سے پہلے ایک فلسفیانہ نقطہ نظر کا نام ہے؛ جدلیاتی مادیت کا فلسفہ، جس کی بنیادی خصوصیات پر فریڈ نے بات رکھی۔ مگر یہ فلسفہ بذاتِ خود آسمان سے نہیں ٹپکا۔ یہ ہزاروں سال پر محیط انسان اور اس کی سوچ، اور فلسفے کی ارتقائی سفر کا سب سے اعلیٰ ما حاصل ہے۔
کانگریس کے دوران اعلان کیا گیا کہ آنے والے موسمِ خزاں میں آئی ایم ٹی ایلن ووڈز کی کتاب ’فلسفہ کی تاریخ‘ شائع کرے گی، جس میں مارکس اور اینگلز کے دور تک فلسفے کی ارتقاء پر نظر ڈالی جائے گی، جب اسے واضح سائنسی بنیادیں میسر آئیں۔
یہ کتاب مارکسی فلسفے پر لکھی جانے والی ایلن کی اگلی کتاب کے لیے پسِ منظر مہیا کرنے کا کام کرے گی۔ شائع ہونے کے بعد، یہ کتابیں انقلابیوں کی نئی نسل کے لیے جدوجہد کے میدان میں طاقتور ہتھیار ثابت ہوں گی۔
آئی ایم ٹی کی مطبوعات کسی ’بیزار کن نظریے‘ پر مبنی نہیں ہوتیں جن میں نوجوان دلچسپی نہیں رکھتے، بلکہ اس کے برعکس ہماری صفوں میں شامل ہوتی محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی پرتیں انہیں ذوق و شوق کے ساتھ پڑھتی ہیں۔ نظریے کے لیے موجود اس پیاس کا اندازہ آئی ایم ٹی کی بُک شاپ ’ویل ریڈ بکس‘ کی مقبولیت سے ہوتا ہے۔ صرف پچھلے 12 مہینوں میں، کتابوں کی سیل میں دو گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے، جہاں 2020ء میں 10 ہزار 300 سے زائد کتابیں فروخت کی گئیں، جبکہ دنیا بھر میں آئی ایم ٹی کی دیگر بُک شاپس بھی اسی طرز پر رواں دواں ہیں۔
نظریاتی دلچسپی کا یہ اظہار دوبارہ سے جاری شدہ ’مارکسزم کے دفاع میں‘ میگزین کے حوالے سے نظر آنے والے بے تحاشا اشتیاق سے ہوتا ہے، جو سہ ماہی بنیادوں پر چھپنے والا بین الاقوامی نظریاتی جریدہ ہے۔ ابھی تک انگریزی، جرمن، ہسپانوی اور سویڈش زبانوں میں اس کی 6 ہزار کاپیاں پرنٹ کی جا چکی ہیں، جبکہ انڈونیشیائی، پرتگالی اور دیگر تراجم ابھی آنا باقی ہیں۔
یہ کانگریس آئی ایم ٹی کی جانب سے صوفیانہ اور خیال پرستانہ بکواسیات، جن کو آج کے بورژوا سماج میں ’فلسفے‘ کا نام دیا جاتا ہے، کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا ایک اہم موڑ تھا، یہ مہم آئندہ کئی سالوں تک جاری رہے گی اور ایک طاقتور مارکسی رجحان تعمیر کرنے کے لیے بنیادیں فراہم کرے گی۔
انقلابی تنظیم کی تعمیر
مارکسی نظریے کے سیشن کے بعد، کامریڈوں نے دنیا بھر میں عالمی مارکسی رجحان کی تعمیر میں ہونے والی پیشرفت پر روشنی ڈالی۔ عالمی سطح پر، صرف 2020ء کے شروع سے ہی اب تک آئی ایم ٹی کے ممبران کی تعداد میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بعض سیکشنز میں، جیسا کہ امریکی سیکشن میں، ہماری بڑھوتری 87 فیصد ہوئی ہے؛ اور اسی عرصے میں، انڈونیشیا کے اندر سیکشن کی بڑھوتری 150 فیصد تک دیکھنے میں آئی!
اگرچہ 50 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے کامریڈوں نے شرکت کی بہر حال ان میں سے 32 ممالک کے اندر آئی ایم ٹی کے باقاعدہ سیکشنز اور گروہ موجود ہیں۔ البتہ جہاں ہمارے انفرادی رابطے اور کامریڈ موجود ہیں، وہاں اب ہم نئے گروہ قائم کر رہے ہیں، اور جہاں ہمارے گروہ موجود ہیں، وہاں پر ہم نئے سیکشنز کی مضبوط بنیادیں ڈال رہے ہیں۔ اس قسم کے دو گروہوں جن کا تعلق یوگوسلاویہ اور پولینڈ سے ہے، کو نئے سیکشنز کے طور پر منظور کرنے کے لیے ووٹنگ کرائی گئی، جس میں سب نے جوش و خروش کے ساتھ متفقہ طور پر اس کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد دیگر ممالک کے اندر آئی ایم ٹی کے حامیوں کے متحدہ گروہ موجود ہیں، جہاں مستقبل قریب میں انتہائی اہمیت کے حامل نئے سیکشنز کی بنیادیں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
ایک ایسے طاقتور مارکسی رجحان، جو تاریخ کا دھارا بدل دینے کا اہل ہو، تعمیر کرنے کی خواہش کا سب سے اعلیٰ اظہار شاید کانگریس میں فنڈ کے لیے کی جانے والی اپیل کے نا قابلِ یقین جواب میں نظر آیا۔
کامریڈوں سے دلجوئی کے ساتھ فنڈ دینے کی درخواست کرتے ہوئے، امریکہ سے تعلق رکھنے والے جان پیٹرسن نے ’جہنم کے گڑھے میں‘ مارکسی قوت تعمیر کرنے کے نئے امکانات پر بات رکھی۔ دو سال کے عرصے میں، آئی ایم ٹی کے امریکی سیکشن کی ویب سائٹ پر تنظیم میں شمولیت کی خاطر رابطے کرنے والوں کی تعداد میں تین سے چار گنا تک کا اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے امریکی کامریڈوں کی تعداد میں بڑھوتری، اور ان کے جوش و جذبے کا اظہار ان کی جانب سے جمع شدہ فنڈ کی رقم کو بعد میں دوگنا کرنے سے ہوا۔
آئی ایم ٹی کے پاکستانی سیکشن سے تعلق رکھنے والے آدم پال نے بین الاقوامیت کے نام پر تمام کامریڈوں سے جتنا ممکن ہو فنڈ دینے کی درخواست کی۔ پچھلے کچھ سالوں میں، دنیا بھر سے آئی ایم ٹی کے کامریڈوں نے پاکستان کے گرفتار شدہ کامریڈوں کی رہائی کے لیے کئی دفعہ کامیاب مہمیں چلائی ہیں، جس سے بین الاقوامی یکجہتی کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔
پاکستان جیسے ’غیر ترقی یافتہ‘ سرمایہ دارانہ اقوام میں بحران کے باعث کروڑوں افراد مصائب و آلام کا شکار ہیں، جہاں کامریڈوں کے لیے انٹرنیشنل کی تعمیر میں فنڈ دینے کا مطلب ایک وقت کا کھانا، تعلیمی فیس یا ضروری ادویات چھوڑنا ہو سکتا ہے۔ پھر بھی، جیسا کہ آدم نے وضاحت کی، برّصغیر میں سوشلزم کی فتح کروڑوں افراد کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے، اور اسی لیے سینکڑوں کامریڈ ہر ممکنہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
قربانی کے اس جذبے کے ساتھ، فنڈ کے لیے مجموعی طور پر 3 لاکھ 70 ہزار سے زائد یوروز جمع کیے گئے، جو پچھلے سال عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے منعقد ہونے والے عالمی سکول کے فنڈ کے مقابلے میں 1 لاکھ 30 ہزار یوروز کا اضافہ ہے۔
دنیا بھر میں یکے بعد دیگرے مختلف ممالک کے اندر، جبکہ دیگر رجحانات بحران کا شکار ہو کر مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں، عالمی مارکسی رجحان آگے کی جانب رواں دواں ہے، مستقبل کے بارے میں پُر اعتماد ہے اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لیے خود کو مکمل طور پر وقف کیا ہوا ہے۔
یہ آر یا پار ہونے کا وقت ہے۔ جیسا کہ ایلن ووڈز نے کانگریس کے اختتامی کلمات میں وضاحت کی:
”سوشلسٹ انقلاب کا اصل ہدف کیا ہے؟ یہ محض بہتر معیارِ زندگی کا حصول نہیں۔ یہ اس سے کئی گنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مقصد ان چیزوں کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنا ہے جو ماضی میں ہمیشہ محض مخفی قوت کے طور پر وجود رکھتی آئی تھیں۔ ثقافت کی عظیم کتاب ہر مرد اور خاتون کے پڑھنے کے لیے کھول دی جائے گی، ہماری مراد ضرورت کے جہان سے حقیقی آزادی کے جہان میں انسانیت کی جست ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں۔ یہی واحد مقصد اس قابل ہے کہ انسانی تاریخ کے اس اہم موڑ پر اس کے لیے لڑا جائے اور قربانیاں دی جائیں۔“