رپورٹ: (ولید احمد خان)
’’ماحول سنسنی خیز تھا۔ لوگ انتہائی انہماک سے نا صرف اپنے کانوں بلکہ اپنے دل اور روح سے سن رہے تھے‘‘۔ اتحاد کانفرنس پر آئے ایک مندوب کے یہ الفاظ کانفرنس کی کیفیت کی بہترین غمازی کرتے ہیں۔ یہ کانفرنس پاکستان میں مارکسی انٹرنیشنلزم کی نئی شروعات میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔
اتحاد کانفرنس ان کامریڈز کی انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہے جو انٹرنیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی (IEC) کی متفقہ طور پر منظور فروری 2016ء کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسی میٹنگ بلانا ناگزیر ہو چکا تھا کیونکہ پاکستان سیکشن کی قیادت کا ایک حصہ انٹرنیشنل کے فیصلوں کے خلاف سرگرم تھا، یہاں تک کہ ممبران کو سیاسی بحث میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے سالانہ کانگریس بھی اسی دھڑے نے منسوخ کر دی۔
کانفرنس کا انعقاد نہایت قلیل مدت میں کیا گیا۔۔فقظ ایک ہفتہ کے نوٹس پر۔ لیکن اس کے علاوہ دیگر مسائل اور مشکلات کے باوجود کانفرنس بہت کامیاب ہو رہی ہے۔ بلوچستان سے ایک وفد موسم کی خرابی کے باعث پہنچ نہیں سکا ہے مگر آج رات اس کی آمد متوقع ہے۔ کل ملک کے مختلف حصوں سے اور مندوبین بھی متوقع ہیں۔
کامریڈز ملک کے تمام کونوں سے پہنچے ہوئے ہیں۔ کراچی، دادو (اندروں سندھ)، حب چوکی (بلوچستان)، ملتان، بہاولپور، لودھراں، لیہ، بھکر(جنوبی پنجاب)؛ فیصل آباد، سرگودھا، میانی (مرکزی پنجاب)، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، واہ (شمالی پنجاب)؛ راوالا کوٹ اور پلندری (کشمیر)۔ کل آنے والے مندوبین میں مالاکنڈ ، پشاور(خیبرپختونخواہ)، کوئٹہ (بلوچستان)؛ گجرانوالہ، کامونکی (مرکزی پنجاب) اور لاہور کے نزدیک شیخوپورہ سے کامریڈز شامل ہیں۔
سب سے زیادہ اہم چیز مجموعی طور پر شرکا کی نوخیزی ہے۔ زیادہ تر نوجوان اور سرگرم کامریڈز موجود ہیں جبکہ کچھ پختہ عمر تجربہ کار کامریڈز بھی موجود ہیں جن کا جوش و جذبہ قابلِ دید ہے۔ پہلی نشست کی صدارت کامریڈ انعم نے کی جو پاکستان سیکشن میں خواتین میں کام کی منتظم بھی ہیں۔ افتتاحی کلمات کامریڈ آفتاب نے ادا کئے جس میں انہوں نے کانفرنس منعقد کرنے کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے انٹرنیشنل کے مختلف سیکشن سے آئے یکجہتی پیغامات بھی پڑھ کر سنائے جن کا تعلق برطانیہ، اٹلی، سویڈن، آسٹریا، کینڈا، مراکش، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک سے تھا۔
پہلی نشست کا عنوان ’عالمی تناظر‘ تھا جس پر بحث کا آغاز IMT کے انٹرنیشنل سکریٹریٹ سے آئے مندوب کامریڈ ایلن ووڈز نے کیا۔ یہ ایک شاندار خلاصہ تھا جس میں سرمایہ داری کے بحران کی وجوہات ، اس کی وجہ سے عالمی صورتحال میں سیاسی و سماجی تبدیلیاں، دنیا کے مختلف خطوں پر بالخصوص مشرقِ وسطیٰ پر مرتب ہونے والے اثرات اور امریکہ اور یورپ میں بائیں بازو کی سیاست کے ابھار پر روشنی ڈالی گئی۔ ’سوشلزم یا تو عالمگیر ہے یا پھر کچھ بھی نہیں‘ ایلن نے کہا۔ ’قوم پرستی اور عالمگیریت دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، جیسا کہ ہماری تحریک کے تاسیسی دستاویز ’’کمیونسٹ منشور‘‘ میں تحریر ہے‘۔ ایلن نے واضح کیا کہ سرمایہ داری اپنی زندگی کے دو سو سالوں کے سب سے گہرے اور تباہ کن بحران سے گزر رہی ہے۔ سال 2016ء کا آغاز عالمی بازارِ حصص میں شدید مندی سے ہوا جس سے سرمایہ داروں کا شدید اضطراب اور بے چینی واضح ہے۔ سرمایہ دار ایک نئے بحران سے انتہائی خوفزدہ ہیں جو اس سال کے ختم ہونے سے پہلے اپنا اظہار کر سکتا ہے کیونکہ اب کی بار سرمایہ داروں کے پاس اس بحران سے نمٹنے کیلئے کوئی ہتھیار موجود نہیں۔
ایلن نے اپنی گفتگو کے دوران سامراجیت کی شدید مزمت کی جو مشرقِ وسطیٰ میں انسانیت دشمن جرائم کی سفاکی سے مرتکب ہوئی ہے اور ساتھ ہی نام نہاد انسان دوست یورپی حکمران طبقے کی بھی شدید مزمت کی جو مہاجروں کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک کر رہا ہے۔ایلن نے لینن کے ان الفاظ کا حوالہ دیا ’’سرمایہ داری بغیر انت کے دہشت ہے‘‘۔
اپنے اختتامی کلمات میں ایلن نے کارل مارکس کے ان الفاظ کو دہرایا کہ اب انسانیت کے پاس دو ہی راستے ہیں۔۔ سوشلزم یا بربریت۔ حاضرین نے اس تمام تر بحث کا بھرپور جوش و جذبے سے تالیاں بجا کر خیر مقدم کیا اور ہال انقلاب! انقلاب! سوشلسٹ انقلاب! کے نعروں سے گونج اٹھا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد دوسری نشست جس کا عنوان’’ پاکستان سیکشن کے فرائض اور لائحہ عمل تھا‘‘کا آغاز کامریڈ آدم پال نے کیا۔ جذبات سے بھرپور تقریر میں انہوں نے نوجوانوں، محنت کشوں اور خواتین میں کام کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آدم نے ماضی میں پیپلز پارٹی کے حوالے سے موقع پرستانہ روش پرشدید تنقید کی جس کی وجہ سے پاکستان سیکشن کے کام میں سنجیدہ مشکلات کاسامنا رہا۔ اس تقریر کے بعد جسے تمام حاضرین نے سراہا ، بحث میں کامریڈز ماہ بلوس (ملتان)، خالد جمالی (دادو)، عمر (اسلام آباد)، یاسر (کشمیر)، اختر منیر (فیصل آباد)، شاہجہان (واہ)، راب سیول (انٹرنیشنل سیکریٹریٹ) اور پارس جان نے مزید اضافہ کیا۔
ان مباحثوں کا کردار پاکستان سیکشن کی سابقہ منعقدہ کانگریسوں سے یکساں مختلف تھا کیونکہ پہلی بار سرگرم عام ممبران کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقعہ ملا۔ پہلے بحثیں پسِ پردہ قابو میں رکھی جاتیں تھیں اور ایک تماشائی کردار کی حامل تھیں، اب کامریڈز اپنے خیالات کا اظہار کھل کر اور بھرپور اندازسے کر رہے ہیں۔ اس کا تمام موجود لوگوں پر زبردست اثر پڑا ہے۔
اگر پہلے دن کی سرگرمیوں کو سمیٹا جائے تو اس تاریخی کانفرنس نے IMT کے پاکستان میں شاندار مستقبل کو عیاں کر دیا ہے۔
پہلے دن کی سرگرمیوں کے اختتام پر ٹریڈ یونین، نوجونوں اور خواتین میں کام کے حوالے سے کمیشن ہوئے۔ کانفرنس کی کاروائیوں کا دوبارہ آغاز کل سے ہو گا۔