|ترجمہ: تصور ایوب|
’’سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اور اور ہمارے صبر کا پیمانہ بھی‘‘۔ یہ عبارت لندن میں طلبہ کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس پر حکومتوں کی غیر فعالیت کے خلاف ہونے والی ہڑتال اور احتجاجی ریلی میں ایک پلے کارڈ پر درج تھی۔ #YouthStrike4Climate کے نعرے کے تحت دنیا بھر کی نوجوان نسل ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات، جو ہمارے عہد کا ایک دہکتا ہوا معاملہ ہے، پر حکومتوں کی توجہ دلانے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ تحریک گذشتہ برس اگست میں ایک سویڈش طالب علم گریٹا تھنبرگ کے ہفتہ وار احتجاجوں سے شروع ہوئی اور آج نوجوانوں کی ہڑتالیں بین الاقوامی سطح پر پھیل چکی ہیں۔ ہر ملک میں صورت حال کم و بیش ایک سی ہے: پرجوش نوجوان نسل ایک سیاسی سرگرمی کا حصہ بن رہی ہے اور نظام کی تبدیلی اور فوری اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے کو قابو کیا جا سکے اور ماحولیاتی تباہی سے بچا جا سکے۔
اب ماحولیاتی تبدیلی کوئی کل(مستقبل) کی بات کی نہیں رہی۔ سمندری طوفان پہلے سے زیادہ شدید ہو چکے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں، لوگ گرمی کی شدت سے مر رہے ہیں، خشک سالی، سیلاب اور قحط ہر جگہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس طرح کے شدید موسمی حالات اب کوئی شاذو نادر نہیں بلکہ معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔
سمندر پلاسٹک اور کیمیائی فضلات سے آلودہ ہورہے ہیں، جس سے مچھلیاں اور دوسری سمندری حیات مر رہی ہے۔ زیرزمین پانی یا تو ختم ہورہا ہے یا آلودہ، جس سے اس بیش قیمتی خزانے کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ ہر سال اس ماحول کی تباہی کے سبب بہت سی انواع معدوم ہوتی جارہی ہیں۔
اس تمام تر تباہی کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ خطرناک کیمیائی مادوں اور کاربن کے اخراج کو روکنے کی ضرورت ہے۔ بڑے پیمانے پر تخفیفی اقدامات جیسے، سیلابوں کے خلاف حفاظتی بند اور نئے جنگلات لگانے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سرمایہ داروں پر مشتمل حکمران طبقہ اور ان کے سیاسی نمائندگان ان تمام تر فوری اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اس(ماحولیاتی تبدیلی) عالمگیر مسئلے سے نبردآزما ہونے کیلئے ایک عالمگیر حل ضروری ہے، لیکن سرمایہ درانہ حکومتیں خصی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسئلے میں حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ، سیاسی جرأت کا فقدان ہرگز نہیں ہے۔ عالمی لیڈران اس سوال پر خاموش اس وجہ سے نہیں ہیں کہ ان میں کسی قسم کے ولولے کی کمی ہے، بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کے ان لیڈروں کا اصل کام سرمایہ درانہ نظام کا دفاع کرنا ہے نہ کہ اس سیارے پر زندگی کو محفوظ بنانا۔
ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی طرف سے ہونیوالی کانفرنس میں گریٹا تھنبرگ کا کہنا تھا کہ
’’ اگر اس نظام میں اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں تو ہمیں اس نظام کو ہی بدل دینا چاہیے۔ ہم یہاں عالمی لیڈران سے کسی قسم کی بھیک مانگنے نہیں آئے۔ آپ نے ہمیں ماضی میں نظر انداز کیا ہے اور یقیناًآپ مستقبل میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ آپ کے حیلے بہانے ختم ہوتے جارہے ہیں اور ہمار پاس وقت ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہم آپ کو یہاں صرف اتنا بتانے آئے ہیں کہ ایک تبدیلی آ رہی ہے خواہ آپ اسے پسند کریں یا نا کریں۔ اصل طاقت عوام کی طاقت ہے‘‘۔
گریٹا تھنبرگ کے یہ الفاظ مسئلے کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ گریٹا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وہ حکومتوں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ سائنسی شواہد اور سائنسدانوں کی تجاویز پر کان دھریں۔ لیکن سرمایہ داروں اور کے نمائندہ سیاستدانوں کو اخلاقی دلائل سے قائل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ اعداد و شمار ان پہ کوئی اثر کرتے ہیں۔ آخر کار ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم اس خوبصورت زمین کی حفاظت کی ذمہ داری ان مٹھی بھر امیر لوگوں کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑ سکتے، کیونکہ ان کا تو واحد مقصد ہی عام انسانوں کی قیمت پر اپنے منافعوں کو بڑھاوا دینا ہے۔
یہ سرمایہ داری ہی ہے جو ہمارے سیارے کو تباہ کر رہی ہے۔ یہ وقتی منافعوں کی نہ بجھنے والی پیاس ہی ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی معیار اور زندگی کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ گرتے جارہے ہیں۔ یہ بڑے بڑے کاروباری ہی ہیں جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کے کیا پیدا کرنا ہے اور کیسے پیدا کرنا ہے، لیکن یہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس معیشت کو نام نہاد ’’نادیدہ ہاتھوں‘‘ کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ہی سرمایہ درانہ منڈی کی افراتفری ہے۔
بڑی بڑی کارپوریشنز لاگت میں کمی، مخالفین پر سبقت لے جانے، نئی منڈیوں پر قبضے اوراپنے منافعوں میں بڑھوتری کی خاطر جب اور جہاں ضروری سمجھیں گے ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائے گئے قوانین کو روند ڈالیں گے۔
ووکس ویگن امیشن سکینڈل اس کی واضح مثال ہے؛ جس میں ڈیزل کاریں بنانے والی بڑی بڑی کمپنیاں دھوئیں کے اخراج سے متعلق ٹیسٹوں میں ہیر پھیر کی مرتکب پائی گئیں تاکہ اخراج سے متعلق سخت معیارات سے بچا جا سکے۔ جبکہ انہی سیاستدانوں نے ڈیزل گاڑیوں پر ٹیکس چھوٹ دی جس کا نتیجہ شہری آب و ہوا کے آلودہ ہونے کی صورت میں نکلا۔
مائیکرو پلاسٹکس اس کی ایک اور مثال ہیں۔ اپنے منافعوں کے لیے سرگرداں کمپنیاں سمندروں کو آلودہ اور سمندری حیات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس کام کے اثرات کی نہ صرف وقت سے پہلے پیش گوئی کی جاسکتی تھی بلکہ اس سے بچا بھی جا سکتا تھا، لیکن یہ نظام اسی وقت حرکت میں آتا ہے جب تباہی پھر چکی ہوتی ہے اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ایسے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
سرمایہ داری کے دلداہ سیاستدان اس تباہی کا کوئی حل پیش نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس اس کا یہی حل ہے کہ عام لوگ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور خود سے سوچیں کے ہماری روز مرہ زندگی میں وہ کونسے کام ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں۔
اس سوچ بچار سے جو’’حل‘‘ پیش کیے جاتے ہیں وہ مکمل طور پر رجعتی ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ آسٹیریٹی کو ’’ماحول دوست‘‘ لبادا پہنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں جس میں محنت کشوں اور غریبوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہوتا ہے کہ وہ سرمایہ داروں اور اس متعفن نظام کے پیدا کردہ اس مسئلے کے حل کے لیے کمر کس لیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ لبرل انفرادیت پسندانہ ’’حل‘‘ حقائق کے سامنے ایک منٹ بھی ٹھہر نہیں پاتا۔حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کی 100 بڑی کمپنیاں( خاص کر فوسل فیولز پیدا کرنے والی) 70 فی صد گرین ہاؤ س گیسوں کے اخراج کی ذمہ دار ہیں۔
اس سے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کا الزام کس پر عائد ہوتا ہے۔ لیکن یہ آگے بڑھنے کے راستے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ یہ بڑی بڑی اجارہ داریاں ماحولیاتی تباہی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ ان کو نیشنلائز کرتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوگا تاکہ پیداوار کی منصوبہ بندی اور مضر ماحول گیسوں کے اخراج کو روکنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال کی راہ ہموار کی جا سکے۔
کام کی جگہوں پر بہترین سائنسی دماغوں کی قابلیت اور مزدورں کے ہنر کو اکٹھا کرتے ہوئے اور پیداوار کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے تابع کرتے ہوئے ہی ہم اس دنیا کی تمام تر سائنسی صلاحیتوں اور ذرائع کو انسانیت اور اس سیارے کی خدمت کیلئے استعمال کر سکتے۔
آج دنیا بھر میں بائیں بازو کی سیاسی اور سماجی تحریکیں اپنے عروج پر ہیں۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف طلبہ کی ان لڑکا ہڑتالوں کو وسیع تر تحریکوں کے ساتھ جوڑا جائے اور نوجوان اور مزدور متحد ہوکر سوشلسٹ ماحولیاتی پالیسیوں کے لیے لڑائی کو منظم کریں۔
کچھ ممالک میں ان طلبہ نے درست طور پر حمایت کیلئے ٹریڈ یونینز کا رخ کیا ہے۔ یہ بالکل درست طریقۂ کار ہے۔اب یونینز کو بھی ایک ہڑتال کی صورت میں ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ صرف نوجوانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ محنت کش بھی اس سے یکساں متاثر ہورہے ہیں۔
سوشلسٹ پروگرام سے لیس ایک منظم محنت کش طبقے کو دنیاکی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ جیسا کہ مارکس وادی ہمیشہ کہتے ہیں کہ محنت کش طبقہ کی اجازت کے بغیر کوئی برقی قمقمہ روشن نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی پہیہ گھوم سکتا ہے۔
صرف اور صرف اس قاتل سرمایہ داری کو دفن کرتے ہوئے اور ایک سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ ہی ہم اس سیارے کی دولت کو جمہوری انداز میں تصرف میں لا سکتے ہیں۔ سماج کی ایک سوشلسٹ تبدیلی سے ہی ہم پیداوار کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے تمام تر آبادی کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔
آج سائنس اور ٹیکنالوجی میں اتنی طاقت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے عفریت سے نمٹا جا سکتا ہے، لیکن سرمایہ داری کی حدود میں یہ قوتیں کرۂ ارض کو بچانے کی بجائے تباہ کر رہی ہیں۔ سوشلزم یا بربریت، آج ہمارے سامنے یہی دو راستے ہیں۔ اس بربریت سے بچنے کیلئے ہمیں ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔
15 مارچ کے لیے زیادہ سے زیادہ تحرک!
سرمایہ داری تمام مسائل کی جڑ ہے ، حل صرف سوشلزم !
آئی ایم ٹی کا حصہ بنو!