|تحریر: انعم خان|
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے ایک امریکی خبر رساں ادارے کو دیئے گئے انٹر ویو میں کہا کہ مرد روبوٹ نہیں ہیں اورجب عورتیں مختصر لباس پہنیں گی تو ظاہر ہے کہ وہ مشتعل تو ہوں گے۔ مشکوک ذہنی صحت کے مالک اس موصوف نے پہلے بھی کئی بار اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس بار بھی اس کا بیان پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرخیوں میں ہے، سوشل میڈیا پر اس بیان کی وجہ سے عمران خان پر خوب لعن طعن کی گئی البتہ عمران خان کے حامیوں (جو یوتھیوں کے نام سے مشہور ہیں) اور رجعتی عناصر کی جانب سے اس بیان کا دفاع کیا گیا۔ دقیا نوسیت پر مبنی یہ بیان نہ صرف عمران خان بلکہ پاکستان کے سیاسی و معاشی حکمرانوں کی عمومی پسماندگی کو واضح کرتا ہے۔ خاص کرہماری”اپوزیشن“ کی اس مدعے پر بیان با زیاں تو قابل دید ہیں۔ خواتین کے حقوق کے ’علمبرداربنے ہوئے‘ یہ سابقہ حاکم عورت دشمنی اور خاص کر محنت کش خواتین سے دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ لاہور، کراچی اور حال ہی میں اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنے حقوق کے حصول کیلئے نکلنے والی ہیلتھ ورکر ز، ٹیچرز، نرسز کو ان حالیہ اور سابقہ حکمرانوں نے بارہا ننگے جبر کا نشانہ بنایا۔ اپنی سیاست کی دُکانیں چمکانے والے بلاول اور مریم کے مذمتی بیانات بھی کسی بیہودہ ڈھونگ سے کم نہیں ہیں۔ ملائیت اور طالبان کو فروغ دینے میں بھی ان جماعتوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ لیکن اپنی سیاسی دکانداری کے تحت یہ ایک طرف تو لبرل ’آؤٹ لک‘ دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ امریکی سامراج کی نظر ِکرم میسر رہے تو دوسری جانب پس پشت یہ ’تزویراتی گہرائی‘ کی پالیسی کے تحت اپنے معاشی مفادات کے لیے مذہبی وحشت اور ملاں مافیا کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ جس طرح حکمران جماعت ہر مسئلے کا بانی اس نام نہاد اپوزیشن کو گردانتی ہے اسی طرح بدلے میں یہ بھی لفظی گولا باری کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ باقی عوام دشمنی اور نظام کے تحفظ کے معاملے میں سب عملاً ایک ہی ہیں۔
مرضی کے خلاف، جبری طور پر یا دھمکا کر کسی سے بھی جنسی عمل کرنا ریپ کہلاتا ہے۔ اس اندوہناک وحشت کا شکار ہونے والوں کے لباس کو اس کی وجہ گرداننا ہمارے معاشرے میں موجود دوغلی اخلاقیات اور پدر شاہانہ نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے یہاں اکثریتی خواتین مختصر لباس پہنتی ہیں، اس لیے وہ مردوں میں شہوت کا باعث بنتی ہیں! جو کہ سراسر غلط ہے۔ جنسی جبر کرنے والوں کی شہوت کی نفسیات نہ صرف خواتین بلکہ چھوٹے اور بڑے بچوں (لڑکے اور لڑکیاں دونوں)، مردہ جسموں اور یہاں تک کہ بے زبان جانوروں (جن میں لباس سے منسلک شہوت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا) کو بھی اپنا شکار بناتی نظر آتی ہے۔ انتہائی بنیادی نوعیت کی مرد وزن کی فطری ضرورت، جو کہ مخصوص عمر کے بعد ہماری زندگیوں کا لازمی جزو بنتی ہے، جس کی تیاری وترویج کا بندوبست سماجی رسموں اور رشتوں کی صورت میں خود معاشرہ کرتا ہے، آخر کیسے وحشت ناک جنسی جبر کی صورت اختیار کر لیتی ہے؟ اس کا جواب خواتین کے کپڑوں (کیونکہ زیادہ تر ریپ کا شکار بننے والی خواتین ہی ہوتی ہیں) اور مردوں کی کمزوری، مجبوری یا عادت یا پھر فطر ت کو گرداننا معاملے کی گہرائی و سنجیدگی کو سمجھنے کے انکارکے مترادف ہے۔ کرۂارض پر پہلی بار انسانی معاشرے میں طبقاتی نظام کے آغازپر عورت کو بطور ملکیت ایک شے کے طور پر ’تحفظ‘ کے نام پر گھر کی چار دیواری میں قید کر دیا گیا تھا جسے مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے عورت کی تاریخی شکست قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے کی صنفی بنیادوں پر غیر فطری تقسیم کا آغاز بھی ہوا جو کہ مختلف طبقاتی سماجوں سے ہوتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام میں بھی پسماندہ معاشروں میں پدر شاہی یعنی مردانہ تسلط کی صورت میں رائج ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں مختلف تاریخی وجوہات کے سبب سرمایہ داری بغیر انقلاب کے رائج ہوئی، ماضی کی مختلف علاقائی و قبائلی روایات کے تحت سماجی ڈھانچہ چلتا تھا۔ امریکی اور خاص کر سعودی معاشی و سیاسی پشت پناہی میں ضیاء الباطل کے دور میں معاشرے کی جبری اسلام آئیزیشن کے عمل نے معاشرتی قدروں کو روندتے ہوئے مذہبی جنونیت کو ملائیت کی شکل میں فروغ دیا۔ دوسری جانب سرمایہ داری کے فروغ نے پدرشاہانہ قدروں کو فروغ دیا۔ مذہبی جنونیت نے جہاں معاشرے میں صنفی تقسیم کے غیر فطری جبر کو حاوی کیا وہیں اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کے معاشی دباؤ نے عورت اور بچوں کو بھی محنت کی منڈی میں دھکیلنا شروع کر دیا۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے معاشرے میں عورت کا گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا تودن بہ دن نا گزیر ہوتا چلا گیا لیکن دوسری جانب ملائیت کے فروغ نے مذہب کے نام پر جبرکے تحت خواتین کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی یاپھر سخت پردہ کر کے گھر سے باہر نکلنے کو ہی معاشرتی قدر قرار دیا۔ یوں صنفی تقسیم پر قائم دوغلی اخلاقیات نے جنم لیا، جنہیں در پردہ توڑکر سب کچھ کرنے کا چلن بھی عام ہوا۔ منافقت پر مبنی مذہبی اخلاقیات کے بظاہر سخت گیر شکنجے کے اندر ہی چھپ چھپا کر سب بد فعلیاں جاری رکھی جاتی ہیں، کیونکہ ایک طرف یہ اپنی بُنت میں غیر انسانی ہیں جبکہ دوسری جانب سرمایہ داری کے معاشی بحران کے سماجی اثرات کے تحت خود خاندان کے ادارے اور اس کے گرد موجود رشتوں کی شدید ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی جاری ہے، جس نے تمام اخلاقی حد بندیوں کو تہس نہس کر دیا ہے۔
موجودہ عہد میں مشترکہ خاندانی نظام (جو کہ سرمایہ دارانہ طر ز کے ساتھ غیر موافق ہے اور یہاں اسی لیے تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے) کی باقیات کے اندرونی معاملات جب سننے کو ملتے ہیں تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں، جو کہ حقیقت میں اس کی شکست کا اظہار ہیں۔ لیکن دوسری جانب سرمایہ داری کے ساتھ موافق انفرادی خاندانی نظام، مشترکہ خاندان کی جگہ لے کر اس کے سماجی تضادات حل کرنے سے قاصر ہے، جو کہ بننے کے ساتھ ساتھ ہی تیزی سے شکست خوردہ ہو رہا ہے۔ طوفان کی تیزی سے بڑھتے طلاق کے کیسز اس کی واضح مثال ہیں۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020ء میں صرف سندھ میں طلاق کے کیسز میں 722 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2019ء میں 632 کیس آئے تھے جبکہ سال 2020ء میں ان کی تعداد 5891 ہوگئی ہے! اسی طرح جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق صرف راولپنڈی شہر میں طلاق کے کیسز کی تعداد میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال 2020ء کے صرف چھ ماہ میں شہر میں 550 شادی شدہ جوڑوں نے خلاء کے سر ٹیفیکیٹ کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ جبکہ پہلے ہی شہر کی عدالتوں میں طلاق کے 2900 کیس شنوائی کے منتظرہیں۔ اسی طرح چینل 24 نیوزکی ایک رپورٹ کے مطابق فیصل آباد شہر میں سال 2020ء میں شادیوں سے زیادہ طلاق کے کیس سامنے آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں لوکل گورنمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اسی سال میں 24 ہزار 662 نکاح رجسٹر ہوئے جبکہ 24 ہزار 144 جوڑوں میں علیحدگی ہوئی۔ یہ خوفناک اعداد و شمار خاندان کے ادارے کی ٹوٹ پھوٹ کی شدت کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں گزشتہ سال کے آغاز سے کرونا وباء کی وجہ سے معمولات زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ محض کرونا وباء کا ”اچانک حادثہ“ نہیں ہے، بلکہ عرصے سے چلے آرہے تضادات نے اس شکست و ریخت کی صورت میں اپنا اظہار کیا ہے، یعنی ضرورت نے حادثے کی صورت میں اپنا اظہار کیا ہے۔ لیکن وبا سے پہلے کے عرصے میں یہ شرح ہولناک رفتار سے ہی بڑھ رہی تھی۔ سماجی اخلاقیات کا متضاد نوعیت کا بحران خاندان کے ادارے کے انہدام میں نہ صرف شادی کے رشتوں میں اپنا اظہار کر رہا ہے بلکہ دیگر تمام رشتے بھی، جن کا محور عزت و احترام سے ہٹ کر اب مالیاتی طاقت کے گرد گھومتا ہے، شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس سماجی بحران کا شکا ر صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد یعنی مرد و زن پر مشتمل پورا معاشرہ ہے۔ غیر فطری صنفی تقسیم نے سماج کی اجتماعی نفسیات کو اس حد تک گھائل کر دیا ہے کہ جنسی فرسٹریشن ہر خاص و عام اور مرد و زن کے روزمرہ کے طور اطوار، لب و لہجے اور گفتار و کردار سے ایسے جھلکتی ہے کہ چھپائے نہیں چھپتی۔ اسی جنسی فرسٹریشن کے کارن نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بھاری اکثریت کی شخصیت شادی سے قبل ہی اتنی برباد ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ کسی صحت مند انسانی رشتے کے قابل ہی نہیں رہتے، یہی خاندان کے ادارے کے بحران کے اہم محرکات ہیں اورا س جنسی فرسٹریشن سے جنم لینے والے نفسیاتی مرض و تناؤاور ہیجان اور سماجی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ میں مسلسل بڑھتا ہوا معاشی جبر جس میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت اورمہنگی تعلیم و علاج جیسے مسائل نے کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ یہی وہ تمام سماجی و معاشی عوا مل ہیں جو سب مل کر اس جنسی درندگی کے ماحول کو جنم دیتے ہیں جسے ہم ریپ اورجنسی ہراسانی کہتے ہیں۔
لیکن یہاں موجود ہمارے لبرل خواتین و حضرات عمران خان کے بیان کی مذمت اس کے مملکت کے سربراہ ہوتے ہوئے ایسی بات کرنے پر اور صرف کپڑوں کو اس کی وجہ قرار دینے پر کر رہے ہیں جو کہ مکمل فلم کے ایک سیکنڈ کے کلپ کے مترادف بھی نہیں ہے، جبکہ اگر ان کے پاس حل کی صورت میں جو آئیڈل معاشرہ ہے اس میں سرمایہ داری کے تحت ہی جسم کی ننگی تشہیر کے ذریعے عورت کی کموڈی فیکیشن کرنا ہے۔ یعنی سرمائے کے عوض اپنا جسم دکھانا اور بیچنا، جو کہ ملائیت کی دوسری انتہاء ہے، جس میں ملاں اور لبرل دونوں ہی نہ صرف عورت بلکہ عموماً ملکیت کے مقدس حق کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں اور اس طرح دونوں ہی اس طبقاتی نظام کا دفاع اور ترویج کرتے ہیں۔ لبرل حضرات جس”ترقی یافتہ جمہوری دنیا“ کے معاشرے کو ماڈل اور حل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جہاں پاکستان کے مقابلے میں جنسی تعلیم، قانون کی عملداری اور انسان دوست ریاستی مشینری وغیرہ بدرجہ اتم موجود ہے وہاں اس ترقی پذیر ملک سے زیادہ ریپ کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مثلاََ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک خاتون ریپ یا ریپ کی کوشش کا شکار بنتی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق صرف سال 2018ء میں ریپ، ریپ کی دھمکی اور ریپ کی کوشش کے 734,630 کیس رپورٹ ہوئے! یہ اعداد و شمار لبرلز کے آئیڈیل معاشرے کے تو ہو سکتے ہیں، ہم مارکسسٹوں کے آئیڈیل معاشرے کے نہیں! یہ ایک ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جہاں پاکستان کے مقابلے میں خواتین کو من مرضی کے کپڑے پہننے کی اجازت ہے، یہاں تک کہ جدید سرمایہ داری نے وہاں عورت و مرد کے جسم فروشی کرنے کو بھی روزی روٹی کمانے کا وسیلہ بنا کر اسے قانونی تحفظ دے دیا ہے۔ اس کے باوجود ریپ کے حوالے سے یہ ہولناک صورتحال ہونا درحقیقت سرمایہ دارانہ ’ترقی‘ کی قلعی کھولتے ہوئے اس نام نہادمثالی معاشرے کی حقیقت بیان کررہی ہے۔ سرمایہ داری اور اس کے حاکموں کے پاس نسل انسانی کے لیے ”ترقی“ کے نام پر بس یہ درندگی موجود ہے۔
سرمایہ دارانہ بنیادوں پر منافع خوری کی ہوس کی انفرادی مقابلے بازی کی دوڑ نے جہاں پیداوار کے اجتماعی کردارکو اپنے عروج پر پہنچایا وہیں اس انفرادی مقابلے کی نفسیات کو بھی ایسی جلا بخشی ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ طاقت و تسلط، انفرادی مقابلہ بازی کے ساتھ مل کر ایسے پدرشاہانہ معاشرے میں جہاں عورت کی حیثیت اپنی نام نہاد ترقی کے باوجود بھی ایک ملکیت میں رکھے جانے والی شے کی سی ہے، وہاں چاہے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پاکستان و بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک، جنسی تشدد کی یہی ہولناک کیفیت ہی بن سکتی ہے جو کہ اب موجود ہے اور جو سب کو خوفزدہ اور غم و غصے کا شکار کر رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے مذکورہ بالا متنازعہ بیان کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ سوشل میڈیا پر تو ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات نے بھی دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالی۔ یہ ایک تبدیل شدہ عہد کی غمازی ہے اور اس بات کا اظہار ہے کہ آئندہ اس ملک میں چلنے والی تمام اہم سیاسی اور انقلابی تحریکوں میں دنیا بھر کی طرح خواتین کلیدی کردار ادا کریں گی۔ لیکن لبرل اور فیمینسٹ دانشور مذمت اور طنزیہ دشنام طرازی سے آگے بڑھ کر اس بار بھی کوئی سنجیدہ سیاسی پروگرام یا نعرہ دینے سے قاصر رہی جس کی بنیاد پر اس سارے عوامی غم و غصے کو منظم و متحرک کرتے ہوئے اس پدرشاہانہ نفسیات کے خلاف خاطر خواہ عملی پیش رفت کو ممکن بنایا جا سکتا۔ ٹویٹر اور فیس بک پر چلائے جانے والے ٹرینڈ میں خواتین پہلی دفعہ جنسی ہراسانی کا شکار ہو جانے کے اپنے انفرادی تجربات، اس وقت اپنی عمر اور لباس کو شیئر کرتی رہیں۔ پراپیگنڈے کی حد تک اس طرح کے ٹرینڈ سے وقتی فائدہ تو لیا جا سکتا ہے مگر کوئی دیر پا سیاسی حاصلات نہیں جیتی جا سکتیں کیونکہ یہ اس معاملے کے حقیقی محرکات کی تفہیم اور تشریح سے یکسر عاری ٹرینڈ ہے۔ لبرلز کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ ہر سماجی مسئلے کو دوسرے تمام مسائل سے کاٹ کر دیکھتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں بھی عمران خان کے انتہائی قدامت پسندانہ بیانات کے رد عمل میں دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں، اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے یا ریپ کیے جانے کے ہر واقعے کو ایک الگ الگ اور انفرادی سانحہ بنا کر پیش کرتے ہیں، اور اسے ایک اجتماعی سماجی المیے کے طور پر سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ریپ یا جنسی ہراسانی کا کوئی بھی واقعہ اس کا شکار ہونے والے کے ذاتی فعل یا لباس وغیرہ کے باعث نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا معاشرہ جو مسلسل جنسی و نفسیاتی مریض پیدا کرنے کے کارخانے میں تبدیل ہو چکا ہو، اس میں ہوس کا شکار بنانے کے لیے عمر، لباس، رشتے اور قوم وغیرہ کی بجائے عمومی پدر شاہانہ نفسیات بنیادی محرک ہوتی ہے، ہاں البتہ رتبہ اور طبقاتی پس منظر اتنا فیصلہ کن سماجی مظہر ہے کہ جنونیت کی اس کیفیت میں بھی کوئی جنسی بھیڑیا اس کو پامال کرنے کی جسارت نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاذ ونادر ہی حکمران طبقے کی کسی عورت کو اس درندگی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ جبکہ آئے روز محنت کش خواتین اور چھوٹے لاوارث بچے ہی ہوس کے اس چولہے کا ایندھن بنتے ہیں۔
مارکسزم سماجی کلیت کے مطالعے کی سائنس ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ سماج میں خود کشیوں کی تعداد میں برق رفتار اضافہ ہوتا رہے، فرقہ واریت اور لسانیت تیزی سے بڑھتی رہے، ریاستی انتشار سماج کو خانہ جنگی کے دہانے پر لے آئے، بدامنی اور بدعنوانی عروج پر ہو، تعلیم اور علاج عام لوگوں کے لیے عیاشی قرار دے دی جائے، طبقاتی خلیج کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں پر پہنچ چکی ہو مگر ان تمام سماجی مظاہر کے متوازی لبرلز اور فیمینسٹوں کی سوچ کے مطابق عورت کو سماج میں اس کا جائز مقام مل جائے، ہراسانی اور ریپ کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔ ریپ اور جنسی ہراسانی کے خلاف جدوجہد بلاشبہ وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے مگر یہ مرد کے خلاف عورت کی جدوجہد نہیں ہونی چاہئیے بلکہ اسے نجکاری، بے روزگاری اور مہنگائی وغیرہ کے خلاف طلبہ اور محنت کشوں کی اس ظالم وحشیانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کا اہم حصہ سمجھتے ہوئے ہی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔
شخصی آزادی اور ا نسانی ترقی کا نعرہ لے کر آنے والا سرمایہ دارانہ نظام اب کتنی تیزی سے گل سڑ رہا ہے اس کی مثال نہ صرف مالیاتی بحرانوں میں ملتی ہے بلکہ یہ صنفی تشدد کی تمام اشکال کی صورت میں بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ ملائیت کی گندگی سے نجات، یعنی ریاست کی مذہب سے علیحدگی جیسے بورژوا جمہوری تقاضے کی تکمیل اور حقیقی انسانی آزادی جس کی بنیاد انفرادی کی بجائے اجتماعی نوعیت کی ہو گی، کیونکہ معاشرے کی انقلابی بنیادوں پر تعمیر نو ہی وہ مواد فراہم کرے گی جس میں انسانی جنسی درندگی تو دور، انسان کی کسی بھی طرح توہین نہیں کی جاسکے گی۔ جنسی تشدد سمیت انسان دشمنی کی تمام اشکال کے خاتمے کے لیے اس قوت کو منظم و متحرک کرنے کی ضرورت ہے جو اس آخری طبقاتی معاشرے کو چلانے کا باعث ہے جو کہ عالمی محنت کش طبقہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں مختلف اصناف، رنگ، نسل، مذہب، قومیت میں ہونے کے باوجود ایک نامیاتی کل ہے اور اب حالات کے تھپیڑے اسے سیاست کے عملی میدان میں دھکیل رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ساری دنیا میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کی قیادت میں خواتین نے قابل تقلید کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی خواتین کو بھی مذہبی قدامت اور حکمران طبقے کے شاونزم اور معاشی دہشت گردی کے خلاف اپنے مرد ساتھیوں کے شانہ بشانہ عملی سیاست میں آگے بڑھنا ہو گا تاکہ ایک وزیر اعظم سے ہی نجات نہ حاصل کی جائے بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور نظریئے کو ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے جو ایسے مکروہ، متعفن اور غلیظ لوگوں کو ہم پر مسلط ہونے کے مواقع عطا کرتا ہے۔ مزاحمت اورسوشلسٹ انقلاب کے علاوہ کوئی راہ نجات نہیں۔