|تحریر: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
18 اگست کو ملک کے کٹھ پتلی وزیرِ اعظم عمران خان نے دنیا نیوز پر کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ حکومت تیزی سے سرکاری ملازمین کی پنشن کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس کے مطابق ریاست 470 ارب روپیہ ہر سال پنشنوں میں ”ضائع“ کر دیتی ہے جسے دیگر کاموں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک کمیٹی کام کر رہی ہے اور غیر ملکی ماہرین سے رائے بھی لی جا رہی ہے۔ پنشن ختم کرنے کا کام کورونا وبا کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا لیکن اب اس پر تیزی سے کام جاری ہے جس کے حوالے سے بہت جلد عوام کو”خوش خبری“ سنائی جائے گی۔ منصوبہ یہ ہے کہ موجودہ پنشن فنڈ کو سرمایہ کار فنڈ میں تبدیل کرتے ہوئے پنشن کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔ یہ ذکر نہیں ہوا کہ کیا اس میں ٰفوجی، عدالتی اور سول بیوروکریسی کی پنشنیں بھی شامل ہوں گی یا نہیں، لیکن ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ شب خون صرف چھوٹے سول سرکاری ملازمین پر ہی مارا جائے گاحالانکہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 470 ارب روپے کے پنشن اخراجات میں 369 ارب روپے فوجی پنشنوں اور 111 ارب روپے سول پنشنوں کی مد میں رکھے گئے ہیں اور ان رقوم کا بھی ایک بڑا حصہ فوجی و سول ریاستی اشرافیہ کی پنشنوں پر خرچ ہوتا ہے نہ کہ چھوٹے سول ملازمین اور عام فوجیوں پر۔ مزید برآں اسٹیبلشمنٹ اور عالمی مالیاتی اداروں کے غلام اس عوام دشمن وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنشنز ملکی خزانے پر سرکلر ڈیبٹ سے بھی بڑا بوجھ ہیں۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ اس مزدور دشمن بھیڑئیے کو گردشی قرضوں کی مد میں نجی پاور کمپنیوں کو کھلائے جانے والے ہزاروں ارب نہیں چبھتے لیکن ساری عمر محنت مزدوری کرنے اور سماج کو چلانے کے لئے درکار اہم ترین فرائض سرانجام دینے والے چھوٹے سرکاری ملازمین کی پنشنیں بہت دکھ رہی ہیں۔
یاد رہے کہ پچھلے چند ماہ سے خبریں گردش کر رہی تھیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت پنشنوں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے عوامی اداروں اور دیگر سرکاری محکموں سے قبل از وقت جبری ریٹائرمنٹ اور نام نہاد رضاکارانہ برخاستگی کروانے کے لئے حکومتی کمیٹیاں کام بھی کر رہی ہیں۔ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کا وفادار اور وزیرِ اعظم کا ”اصلاحات“ پر معاون ڈاکٹر عشرت حسین اس حوالے سے خصوصی کام کر رہا ہے۔ IMF نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کے ذمے واجب الادا پنشنوں اور تنخواہوں کا تخمینہ اگلے مالی سال تک 700 ارب روپے سے تجاوز کر سکتا ہے اور ان دونوں کو فریز ہونا چاہیے۔ ایک تجویز یہ دی جا رہی ہے کہ حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں سے پنشن کی کٹوتی کروا کر ریٹائرڈ ملازمین کو دی جائے اور موجودہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر یہی طریقہ کار جاری رکھا جائے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ ملازمین سے پنشن کی مد میں پیسہ کاٹ کر اس کا ایک پنشن فنڈ بنایا جائے جو قومی یا نجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرے (اسٹاک شئیرز، بانڈز، جوائنٹ وینچرز وغیرہ) اور اس سے حاصل ہونے والے منافع سے پنشنیں ادا کی جائیں۔ یاد رہے کہ پنشن فنڈ کے اس طرح کے استعمال کا حشر ہم نے 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران میں دیکھا تھا جب سرمایہ داروں کی ہی منافع خوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے ان کو بچانے کی خاطر مزدوروں سے پوچھے بغیر ان کے پنشن فنڈز کو امریکہ اور دیگر ممالک نے بڑی کمپنیوں اور نجی بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے جھونک دیا۔ آج بھی ان فنڈز کے حالات برباد ہیں اور کروڑوں ملازمین کی ریٹائرڈ لائف خراب ہو چکی ہے۔
روزگار فراہم کرنا اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اسی چیز کا ٹیکس لیتی ہے۔ لیکن IMF و دیگر عالمی سامراجی مالیاتی اداروں اور ملکی نجی بینکوں کے قرضہ جات کی ادائیگیاں اور نام نہاد دفاعی اخراجات اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ کی عیاشیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں، عوامی فلاح و بہبود، تنخواہوں میں اضافے اور اب پنشنوں کے لئے بھی پیسہ نہیں بچ رہا جبکہ عوام کی ہڈیوں سے ٹیکس نچوڑا جا رہا ہے اور سرمایہ داروں و ریاستی اشرافیہ کی تجوریاں بھرنے کے لئے دھڑا دھڑ نئے قرضے لئے جا رہے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ، مزدوروں کی عمر بھر کی محنت پر اس ریاستی ڈاکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ فوری طور پر پنشنوں کو ختم کرنے، ان کی ہیئت تبدیل کرنے اور جبری برخاستگی پر کام کرنے والی تمام کمیٹیوں کو ختم کیا جائے۔ جس سرمایہ دار حکمران طبقے نے عالمی مالیاتی اداروں اور ملکی نجی بینکوں سے اپنے مفادات کے لئے قرضے لئے ہیں انہیں واپس کرنے کے ذمہ دار بھی وہی ہیں نہ کہ عوام کیونکہ یہ قرضے نہ عوامی فلاح پر خرچ کیے گئے اور نہ ہی ان سے پوچھ کر لیے گئے۔ اسی طرح فوجی و سول اشرافیہ کی عیاشیوں اور دیگر غیر اہم ریاستی اخراجات کا بھی فوری خاتمہ کرتے ہوئے محنت کشوں کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ کیا جائے اور عوامی فلاحی اخراجات کا بجٹ بڑھایا جائے۔