|تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ|
30 اپریل کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ گلگت میں 370 ارب روپے کے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کیا۔ تفصیلات کے مطابق یہ خصوصی ترقیاتی فنڈ آئندہ پانچ سالوں کے اندر خرچ ہو گا۔ اس فنڈ سے جی بی میں بجلی کے شدید بحران پہ قابو پانے کیلئے 170 ارب روپے کی لاگت سے 250 میگاواٹ بجلی کے 9 منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا گیاہے۔ 35 ارب روپے کی لاگت سے سڑکوں کے پانچ منصوبے، سیاحت کیلئے 6 ارب روپے جبکہ صحت اور تعلیم کیلئے 17 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ ہزار نوجوانوں کو تعلیمی وظائف اور ہنر سکھانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ نیز نوجوانوں کو پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں میں وظائف دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ گلگت، سکردو اور چلاس کے ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے اور گلگت و سکردو میں میڈیکل کالج قائم کرنے کا بھی اعلان ہواہے۔ صاف پانی اور سیوریج کے منصوبوں کیلئے 8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاؤہ آئی ٹی اور ٹیلی کام انفر اسٹرکچر اور 25 چھوٹے اور درمیانے انڈسٹریل یونٹ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
بظاہر تو یہ جی بی کے لئے ایک بڑا پیکج لگتا ہے مگر یہاں سب سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں اگر کوئی سیاسی حادثہ نہ ہوا تو بھی عمران خان کے پاس مشکل سے دو سال باقی ہیں اور انتخابات کے بعد آنے والی حکومت پہ منحصرہو گا کہ وہ اس سیاسی پیکج کو جاری رکھتی ہے یا نہیں۔ اگر عمران خان کی حکومت قائم بھی رہتی ہے تو بھی اس پیکج پر عمل درآمد ہونا غیر یقینی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی دھوکے بازی اور فراڈ کے بہت سے واقعات عوام پر عیاں ہو چکے ہیں اور یہ حکمران اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرنے والے حکمرانوں نے اب تک چار کروڑ کے قریب روزگار چھین لیے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ بھوک اور بیماری کے باعث ہلاک ہوئے ہیں جن کے قتل کی ذمہ دار یہی حکومت ہے۔
گلگت بلتستان کے لیے اس پیکج کی تیاری بھی لگتا ہے انتہائی عجلت میں کی گئی ہے۔ گویا کہ پیکج تیار کرنے والوں کو جی بی کے عوام کے حقیقی مسائل کا علم ہی نہیں تھا کہ جی بی میں سب سے بڑا مسئلہ صحت، تعلیم اور روزگار کاہے۔ ناقص اور ملاوٹ شدہ خوراک اور اس سے منسلک غیر معیاری اشیاء کے استعمال کر نے اور علاج معالجے کی بنیادی سہولیات ناپیدہونے کی وجہ سے سالانہ ہزاروں لوگ پیچیدہ بیماریوں میں مبتلاہو کر اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کرانے پہ مجبور ہیں۔ ماحولیات کی تباہی اور بڑھتی آلودگی کی وجہ سے نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں مگر پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست نے پچھلی سات دہائیوں میں ایک بھی معیاری ہسپتال جی بی میں قائم نہیں کیا۔ پچھلے دس سالوں سے میڈیکل کالج قائم کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے مگر ابھی تک عملی طور پہ میڈیکل کالج کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ایک میڈیکل کالج ان سے بن نہیں رہا ہے اور اب دو میڈیکل کالجوں کا اعلان سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ہی کیا گیا ہے۔ جہاں تک خطے میں تعلیمی مسائل کا تعلق ہے تواس کے لیے کہنے کو قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی قائم کی گئی ہے مگر اس یونیورسٹی کا معیار پاکستان کی کسی غیر معیاری یونیورسٹی سے بھی زیادہ خراب ہے۔ اہم شعبے ہی موجود نہیں، یونیورسٹی میں اعلیٰ درسگاہ والا ماحول ہی نہیں، KIU کے اندر سیکورٹی اسٹاف کی شکل میں کی ایک فوج رکھی گئی ہے جس کے اہلکار پوری یونیورسٹی میں د ندناتے پھرتے ہیں اور یہ یونیورسٹی کم کوئی فوجی چھاؤنی زیادہ لگتی ہے۔ اتنی سخت سیکورٹی کے باوجود آئے روز جنسی ہراسانی، بدعنوانی، تعمیراتی منصوبوں، امتحانی نظام اور ٹرانسپورٹ سسٹم میں اسکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیں۔ آئے روز داخلہ، امتحانی اور سمیسٹر کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہے۔ ابھی کل ہی KIU کے سینکڑوں طلباء و طالبات نے ٹرانسپورٹ کی فیسوں میں اچانک اضافے کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے۔ جبکہ بلتستان یونیورسٹی کی صورت حال اس سے بھی بدتر ہے۔ پچھلے دو سالوں سے بلتستان کے طلبہ وی سی سمیت یونیورسٹی کے دیگر نااہل انتظامی افسران کی اقربا پروری اور بد عنوانیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں مگر صدر مملکت پاکستان دونوں یونیورسٹیوں کے چانسلر ہونے کے باوجود کوئی اقدام نہیں کر رہاکیونکہ صدر صاحب کو سیر سپاٹے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔
حکمرانوں کے قول و فعل میں کھلا تضاد دیکھیں کہ ایک طرف قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی میں آئے روز فیسوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف یہاں کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں، بہت سے غریب گھرانوں کے طلبہ نے بھاری فیسوں کی وجہ سے یونیورسٹی کی تعلیم ہی ادھوری چھوڑ دی ہے اور دوسری طرف نئے پیکج کے تحت پاکستان کی یونیورسٹیوں میں وظائف دینے کا اعلان کرکے یہاں کے طلبہ کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق کیا جا رہا ہے۔ جی بی میں کالجوں اور سکولوں کا معیار انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ان کالجوں اور سکولوں میں کسی قسم کی جدید سہولتیں میسر نہیں۔ روزگار دینے کیلئے نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے سنٹر بنانے کا اعلان کیا گیا ہیمگر جو اس وقت ڈھائی لاکھ سے زیادہ نوجوان لڑکے لڑکیاں اور محنت کش بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں ان کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی اس نام نہاد پیکج میں نظر نہیں آتا۔ روزگار کیلئے 25 چھوٹے اور درمیانے درجے کے انڈسٹریل یونٹس لگانے کی بات کی گئی ہے مگر یہ انڈسٹریل یونٹس سرکاری شعبے میں لگیں گے یا پرائیویٹ سیکٹر میں لگیں گے اور یہ کس نوعیت کی انڈسٹریز ہوں گی، کوئی وضاحت نہیں۔ بجلی اور گیس کی عدم موجودگی میں یہاں یہ انڈسٹریز کیسے قائم ہوں گی، یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جو کہ اس پیکج کا کھوکھلا پن ظاہر کرتا ہے۔ عمران خان کی سرکار نے ملک سے بے روزگاری کے خاتمے کیلئے نوجوانوں کو کم شرح سود پہ آسان قرضے دینے کا اعلان کیا تھا مگر پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح جی بی کے بے روزگاروں کو یہ قرضے نہیں دیے جا رہے بلکہ بے روزگاری کے نام پہ بڑے کاروباری، بڑے دکاندار اور سرمایہ دار ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس طرح دیگر اعلانات کی طرح حکومت کا یہ اعلان بھی دھوکہ ثابت ہواہے۔
بجلی کے سنگین بحران پہ قابو پانے کیلئے 140 ارب کے 9 ہائیڈل اور کلین انرجی کے منصوبے لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب تک جی بی میں بجلی کے شدید بحران کی بنیادی وجہ یہاں کی مختلف وادیوں کے نالہ جات میں چھوٹے چھوٹے بجلی گھر بنانا ہے جن پہ اب تک اربوں نہیں کھربوں روپے لگائے گئے ہیں جو کہ صرف گرمیوں کے چار پانچ مہینے چلتے ہیں باقی سات آٹھ مہینے نالہ جات میں پانی کم یا خشک ہونے کی وجہ سے یہ چھوٹے پاور ہاؤسز بند رہتے ہیں۔ نئے پیکج میں بھی نالہ جات پہ 9 نئے بجلی کے منصوبے تعمیر کرنے کا ذکرہے جن کا حشر بھی سابقہ چھوٹے منصوبوں جیسا ہو گا۔ اگر حکمرانوں کا مقصد واقعی جی بی میں بجلی کا بحران حل کرنا ہوتا تو وہ ان سارے پیسوں سے یہاں کے کسی ایک دریا پہ ایک درمیانہ ڈیم کا منصوبہ بناتے یا کم از کم بونجی ڈیم جو پچھلی دو دہائیوں سے التوا کا شکار ہے اس ڈیم پہ کام شروع کرنے پر یہ فنڈ لگاتے جس سے 7500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ جی بی کی تمام ضروریات زیادہ سے زیادہ 500 میگاواٹ ہے باقی 7000 میگاواٹ سستی ہائیڈل بجلی سے خود پاکستان کے غریب محنت کش عوام کو بڑا ریلیف ملتا مگر عالمی سرمائے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے غریب دشمن ایجنڈے پہ پالیسیاں بنانے والے حکمران پاکستانی غریب عوام کو کوئی ریلیف دینے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔ وہ محنت کش عوام کے جسموں سے مہنگی بجلی، مہنگا تیل، مہنگی گیس، مہنگا آٹا اور مہنگی چینی کیذریعے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنا چاہتے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے وقت میں جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کے نتیجے میں جی بی میں بھی انتخابات پورے ملک کے ساتھ دو سال بعد یا اس سے بھی پہلے منعقد ہونے جا رہے ہیں اور عمران خان نے آنے والے الیکشن کی منصوبہ بندی کے طور پہ اس بظاہر بڑے پیکج کا اعلان کیاہے تاکہ آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ مل سکے۔
اس پیکج سے حسب روایت ٹھیکوں کی بندر بھانٹ کی شکل میں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان، دیگر اعلیٰ افسران اور جی بی کے وزراء کو ان میگا پراجیکٹس میں میگا کرپشن کے مواقع ملیں گے۔ باقی رقومات بڑے ٹھیکیدار ہضم کریں گے اور یہاں کے محنت کش عوام کے حصے میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔ یہی کچھ تو پچھلی سات دہائیوں سے پاکستان بھر سمیت جی بی میں بھی ہو رہا ہے۔ جس نظام حکومت میں حکومتی وزراء، مشیران، ممبران اسمبلی، سویلین و فوجی افسران ہر وقت احتساب اور ان کی تبدیلی کے لئے محنت کش عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے، وہاں کرپشن لوٹ مار اور بدعنوانیوں کا راج ہو گا۔ ترقیاتی رقومات افسران اور وزراء کے بینک بیلنس بڑھانے کا ذریعہ بنیں گے اور محنت کش عوام کے ہاتھوں میں سوائے غربت،بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر ان گنت مسائل آئیں گے۔ اس لیے اس سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کے کسی بنیادی مسئلے کا حل موجود نہیں۔
عمران خان سرکار اگر واقعی جی بی کے عوام کی ہمدرد ہوتی تو ان نام نہاد پیکجز کی بجائے جی بی میں غربت اور پسماندگی کو پیش نظر رکھ کر تعلیم اور علاج معالجہ مفت کرنے کا اعلان کرتی۔ قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی میں تمام ضروری شعبہ جات کے آغاز اور تعلیم کو مفت کرنے کا اعلان کرتی۔ طلبہ یونینز کے انتخابات کرواکر تعلیمی اداروں کے اندرونی معاملات میں طلبہ نمائندوں کو شامل ہونے کا حق دیا جاتا۔ جی بی میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کا ٹریننگ کالج قائم ہوتا اور موجودہ ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرکے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی شدید کمی کو پورا کیا جاتا۔ نقلی اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار کو یکسر بند کروایا جاتا۔ اسی طرح بجلی کے شدید بحران کے حل کیلئے ہنگامی بنیادوں پہ جی بی کے دریاؤں پہ چھوٹے چھوٹے ڈیمز تعمیر کرکے ماہرین کی مستند رپورٹس کے مطابق جی بی کے دریاؤں سے ایک لاکھ میگاواٹ سے زیادہ سستی ترین ہائیڈل بجلی تیار کراکے جی بی کے ساتھ پورے ملک کے محنت کش عوام کوفراہم کی جاتی اور انہیں دنیا کی مہنگی ترین بجلی کے بوجھ سے آزاد کرایا جاتا۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک کے ساتھ جی بی میں بھی روزگار کے وسیع مواقع پیداہوتے، مگر سابقہ حکومتوں کی طرح پی ٹی آئی سرکار بھی صرف بڑے سرمایہ داروں اشرافیہ اور عالمی سرمائے کی بالادستی کی بنیاد پہ بننے والی عوام دشمن پالیسیوں پہ چل رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جو بھی پارٹی سرکار بنائے گی وہ بظاہر عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت نظر آئے گی مگر وہ صرف سرمایہ داروں، بڑے ٹھیکیداروں،اشرافیہ اور عالمی سرمائے کے مفادات کے مطابق چلنے کی پابند ہو گی۔ ان عوام دشمن حکمرانوں سے نجات صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔