|تحریر: آدم پال|
گزشتہ چند دنوں میں اس ملک کے حکمران طبقے کی ہونے والی لڑائی پورے ملک کے عوام کے سامنے کھل کر نظر آئی جس میں مزدور طبقہ محض تماشائی بنا رہا۔ عمران خان اور اس کی پشت پر موجود اسٹیبلشمنٹ کا دھڑا اقتدار کی ہوس میں پاگل بھینسے کی طرح ہر شے تہہ وبالا کرنے پر تلا ہوا ہے جبکہ حکومت میں موجود دھڑا اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے ہر صورت اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا ہے۔ عمران خان اور اس کے حمایتی ریاستی دھڑے کا مقصد بھی اقتدار کی ہوس کو پورا کرنا اور لوٹ مار کی گنگا میں نہانا ہے جبکہ شہباز شریف اور زرداری کی قیادت میں موجود حکومت بھی کرپشن کے نئے ریکارڈ بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ محنت کش عوام ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے بھی زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور انہیں صرف اپنی اقتدار کی لڑائی میں خام مال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دونوں دھڑوں کی پشت پر موجود اسٹیبلشمنٹ کے افراد کا کردار بھی کھل کر واضح ہو چکا ہے اور اب پورے ملک میں بحث کا موضوع بھی ہے۔ جرنیلوں کی اس ملک کی سیاست میں مداخلت کی ایک لمبی تاریخ ہے اور براہ راست مارشل لاء کے طویل ادوار بھی اس ملک پر مسلط رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جرنیلوں کے کاروباروں کا حجم بھی وسعت اختیار کر چکا ہے اور سیاست پر ان کی جکڑ بندی بھی مضبوط ہو چکی ہے۔ خود کونیوٹرل کہلانے والے اس ملک کی معیشت کے ایک تہائی سے بھی زیادہ حصے پر براہ راست قابض ہیں جبکہ بالواسطہ قبضہ اس کے علاوہ ہے۔ ایسے میں اپنے کاروباروں اور منافع کی ہوس کو جاری رکھنے کے لیے سیاست کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا ان کی کاروباری ضرورت بن جاتا ہے۔
یہ تمام مداخلت گزشتہ چند ہفتوں میں واضح طور پر نظر آ رہی ہے جب حکومت کی تبدیلی میں نیوٹرل کا کردار مسلسل زیر بحث ہے اور ان نیوٹرلز کے اپنے درمیان جاری اقتدار کی لڑائی ہر خاص و عام میں بحث کا موضوع ہے جس میں پنڈی اور پشاور دھڑے کا ذکر تواتر سے ہو رہا ہے۔ واضح ہو چکا ہے کہ کچھ جرنیل اور افسران عمران خان کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور اسے اقتدار میں لانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب موجودہ حکومت کی پشت پر بھی ایک دھڑا موجود ہے۔ اس دھڑے بندی کی طاقت کا توازن کیا ہے اور یہ کس طرح خود کو دوسرے پر فوقیت دلانے کی کوشش کر رہا ہے اس کا اظہار مختلف سرگرمیوں سے ہوتا رہتا ہے اور سوشل میڈیا پر اس پر بہت سے تبصرے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حال ہی میں پشاور کے کور کمانڈر جنرل فیض کا کابل کا دورہ بہت سے تبصروں کا موضوع رہا جبکہ آئی ایس پی آر یا وزارت خارجہ کی جانب سے اس دورے کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ اسی طرح امریکی سامرج کے کردار اور اس کی حمایت کی بھیک بھی مختلف دھڑوں کی جانب سے مسلسل نظر آرہی ہے جبکہ عمران خان روس اور چین کی جانب بھی امداد طلب سے نظروں دیکھتا نظرآتا ہے لیکن اس کی شنوائی کہیں سے نہیں ہو رہی اور اسے دھتکارا جا رہا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چند ہفتوں میں عدالتوں کو جس طرح اس دھڑے بندی میں کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کیا گیا ہے اور تمام تر قانونی اور آئینی ضابطے بالائے طاق رکھ کر عدالتی فیصلے کروائے گئے ہیں اس سے ہر کسی کو واضح ہو جاتا ہے کہ نیوٹرل کا جھکاؤ کس جانب ہے اور کون سا دھڑا کس سیاسی پارٹی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہا ہے۔ عدالتیں بھی قانون پر عمل کرنے کی بجائے کھلم کھلا سیاسی کردار کی حامل ہو چکی ہیں اور عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنا یا قانونی تقاضوں کو پورا کرنا ان کے ایجنڈے سے خارج ہوچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے تمام دھڑے فیصلہ کن لڑائی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس لڑائی میں اس بنیاد کو ہی ختم کر تے جا رہے ہیں جس پر خود ان کا وجود قائم ہے۔
اس دوران ملک کا مالیاتی بحران بھی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور دیوالیہ پن کے امکانات حقیقت بننے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک ڈالر کی قیمت دو سوروپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے اور اب تین سو کی حد کی جانب سفر کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کے لیے ملک کے عوام کی کھالیں ادھیڑنے کی ذمہ داری ہر سیاسی پارٹی اپنی باری پرپورا کر چکی ہے اور اب ایک دفعہ پھر اپنی پرانی ڈیوٹی ادا کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ لیکن لوٹ مار کے لیے دستیاب وسائل پہلے کی نسبت کم ہو چکے ہیں جس کے باعث ان حکمرانوں کی آپسی لڑائی بڑھتی جا رہی ہے اور گلی کے آوارہ کتوں کی طرح ایک دوسرے پر بھونکنے کا سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔
عمران خان کا فلاپ شو
عمران خان نے اقتدار سے باہر نکلتے ہی جارحانہ انداز میں فوج کے مخالف دھڑے پر شدید تنقید کا آغاز کر دیا جس کے باعث اسے درمیانے طبقے کی مخصوص پرتوں میں کچھ حمایت ملی تھی اور اس کے جلسے بھی چند ہزار افراد کی شرکت کے ساتھ نسبتاً کامیاب رہے۔ اس میں فوج کے اندر موجود درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی پرتیں اور ریٹائرڈ افسران کی حمایت بھی شامل تھی جو عمومی سماجی بدحالی اور مستقبل سے مایوسی کے باعث اپنی فرسٹریشن میں عمران خان کو واپس اقتدار میں لانا چاہتے تھے۔ اس حمایت کو دیکھتے ہوئے عمران خان اور اس کی پشت پر موجود جرنیل زیادہ بے باکی سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں لگ گئے اور اسی حمایت کے بل بوتے پر دوبارہ اقتدار میں آنے کی تیاری کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کے مظالم کو بالکل بھی سیاسی بحث سے غائب کر دیا اور اس دوران ہونے والی تاریخ کی بد ترین مہنگائی، بیروزگاری اور جمہوری آزادیوں پرلگنے والی بد ترین پابندیوں کا ذکر تک نہ کیا۔ اس ملک کا حکمران طبقہ ایک جھوٹی کہانی اور تاریخ سنا کر عوام کو بیوقوف بنانے میں خود کو ماہر سمجھتا ہے اور عمران خان بھی اپنی تقریروں میں اپنے دور اقتدار میں ملکی ترقی کے جھوٹے قصے سنا رہا تھا جس پر کسی کو بھی یقین نہیں تھا۔ لوگوں کی شرکت کی وجہ عمران خان کی محبت کی بجائے موجودہ حکومت سے شدید نفرت تھی۔
اس دوران درمیانے طبقے کی اس پرت کے جذبات کو استعمال کرنے کے لیے امریکی غلامی سے نجات کا نعرہ بھی لگایا گیا اور حب الوطنی کے مردہ گھوڑے کو بھی کوڑے مار کر جگانے کی کوششیں کی گئیں۔ اس ملک کے درمیانے طبقے ایک حصے میں بیہودہ اور منافقانہ نرگسیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہ خود کو بلا وجہ ہی دنیا کے افضل ترین انسان سمجھتے ہیں اور دنیا کی تمام سپر پاورز کو شکست دینے کے خوابوں میں محو رہتے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی استاد جنرل حمید گل کی تمام گفتگو اسی خیالی پلاؤ کے گرد گھومتی تھی جس میں وہ طالبان کی بربریت کے ذریعے نشاۃِ ثانیہ کے خواب دیکھتے تھے۔ یہ خواب دیکھنے والے اکثر افراد کی عملی زندگی میں ان کے کردار میں ہر طرح کی بد عنوانی، جھوٹ، بے ایمانی اور انسان دشمنی رچی بسی نظر آتی ہے اور وہ کسی بھی قسم کے دھوکے اور فراڈ کو یا جھوٹ بولنے کو غلط نہیں سمجھتے۔ عمران خان سمیت اس کے تمام فالوورز جھوٹ اور منافقت کا دفاع کرتے ہوئے عام نظر آتے ہیں اور وقتی فائدے کے لیے ہر قسم کی مفاد پرستی اور بے ایمانی ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی طرح یہ افرادطبقہ امرا سے بہت زیادہ مرعوب ہوتے ہیں اور ان جیسے بننا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے کوئی بھی جرم کرنا پڑے۔ درحقیقت ان کی امریکہ یا مغرب دشمنی کی بنیاد بھی وہاں کے سرمایہ دارانہ نظام یا سامراجی مظالم سے نفرت نہیں بلکہ ان کا احساس کمتری ہی ہے اور وہ مغربی تہذیب کی چکا چوند کے سامنے خود کو انتہائی بونا محسوس کرتے ہیں اور اسی باعث حسد کی آگ میں جلنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت مغربی اقدار کی بیہودہ نقالی بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ گزشتہ سات دہائیوں میں ان کی اپنی شناخت اس ملک کے حکمران طبقے نے ان سے چھین کر انہیں ہوا میں معلق کر دیا ہے اور اسی لیے یہ کبھی ترکی کے ارتغرل، کبھی دبئی کے شیوخ، کبھی وسطی ایشیائی جنگجو سرداروں اور کبھی ایران کے شاہوں میں اپنے اسلاف کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور کنفیوژن ان کے رگ و پے میں سرایت نظر آتی ہے۔ اس تمام تر کنفیوژن، پھکڑ پن، بیہودگی اور منافقانہ سطحیت کی تجسیم عمران خان کی شخصیت میں نظر آتی ہے اس لیے یہ اسے اپنا لیڈر قرار دے کر اس کی اندھی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران بہت سے افراد نواز شریف، زرداری اور دیگر عوام دشمن پارٹیوں سے نفرت کے باعث بھی اس گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن قیادت کنفیوژن اور پراگندگی کی معراج پر پہنچے افراد کے ہاتھ میں ہی رہتی ہے۔
عمران خان نے اپنی تقریروں میں جہاں امریکہ کی مخالفت کی نعرے بازی کی وہاں آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر کوئی تنقید نظر نہیں آئی اور نہ ہی اس نے عالمی مالیاتی اداروں کی اس ملک میں دہائیوں سے جاری لوٹ مار پر کوئی بیان دیا۔ اس ملک میں کروڑوں لوگ انتہائی غربت اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اس ملک کے حکمران طبقات سے شدید نفرت ان کے دلوں میں سلگ رہی ہے لیکن عمران خان اپنی تمام تر فرسٹریشن اور نام نہاد غصے میں بھی ان افراد کو متوجہ نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ ان کے لیے کوئی پیغام دینا چاہتا تھا کیونکہ وہ خود ان سے خوفزدہ ہے اوروہ جانتا ہے کہ اگر ایک دفعہ یہ متحرک ہو گئے تو اس نظام کو بھی بہا لے جائیں گے جس کی باگ ڈور وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا اس ملک کے محنت کشوں کو عمران خان پر کوئی اعتماد نہیں اور نہ ہی اس کی بیہودہ تقریروں اور کھوکھلی لفاظی میں انہیں کوئی کبھی کوئی کشش محسوس ہوتی ہے۔ اس کی پشت پر موجود دھڑا بھی یہ ریڈ لائن کراس کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا کیونکہ وہ خود اس نظام کے باعث ہی فیض یاب ہو رہے ہیں اور ان کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والے تمام سیاسی جلسوں میں ملک کے معاشی مسائل کے حل کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی، جن سرکاری ہسپتالوں اور دیگر اداروں کو سرمایہ داروں کو نوچنے کے لیے عمران خان نے بیچ دیا ان کی واپسی کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ کسی بھی عوام ایشوزپر احتجاجی تحریک برپا کرنے کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور تمام تر سیاسی گفتگو کا موضوع چند شخصیات بالخصوص خواتین اور ان پر فقرے کسنے کی بیہودگی ہی نظر آتی رہی۔
یہی وجہ ہے کہ اسی طرح کے کردار کی حامل دیگر شخصیات سپریم کورٹ کے ججوں سے لے کر جرنیلوں تک سب عمران خان سے لاڈ پیار کر رہے ہیں اور اس کے حامی اسلام آباد میں سر عام جلاؤ گھیراؤ کرنے کے بعد بھی اپنے پر تعیش محلوں میں آرام کرنے کے لیے لگژری گاڑیوں میں واپس لوٹ گئے ہیں۔ دوسری جانب مزدور طبقے کے چھوٹے سے چھوٹے احتجاج کو بھی ریاست کے بد ترین جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی عدالتیں مزدور لیڈروں پر دہشت گردی کے مقدمے بنا کر انہیں سخت ترین سزائیں سناتی ہیں اور انہیں کئی سالوں تک تاریخیں بھگتنے کے لیے عدالتوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں عدالتی عملے کو رشوتیں دے کر اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اس سارے عمل میں اس ریاست کے طبقاتی کردار کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس دوران تحریک انصاف کے جلوسوں پر تھوڑی بہت سختی بھی دیکھنے میں آئی جس میں کچھ کارکنان کو پنجاب میں گرفتار بھی کیا گیا جبکہ آنسو گیس اور شیلنگ بھی ہوئی جو یقینا قابل مذمت ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بھی حکومت میں موجود دھڑے کی فرسٹریشن اور کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے جو ملک کو در پیش معاشی بحران کی وجہ سے شدید ہیجان میں مبتلا ہے اور آئی ایم ایف کے احکامات کی بجا آوری میں درپیش مشکلات کے باعث شش و پنج کا شکارہے۔
ایک طرف مزید ڈیڑھ سال تک اقتدار میں رہ کر لوٹ مار کرنے کے مواقع دیکھ کر ان کے منہ میں پانی آرہا ہے جبکہ مہنگائی اور بیروزگاری کے عوام پر حملے کرنے کے بعد عوامی غم و غصے کا خوف انہیں نئے الیکشنوں کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اس صورتحال میں لالچی کتے والی کہانی ضرور یاد آتی ہے جو منہ میں ہڈی ڈالے جب نہر پر سے گزر رہا تھا تو پانی میں اپنا عکس دیکھ کر اسے ایک دوسری ہڈی نظر آئی اوراس نے وہ ہڈی حاصل کرنے کے لیے چھلانگ لگا دی جس سے وہ پہلی ہڈی سے بھی محروم ہو گیا۔ موجودہ حکومت کی بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے اور وہ اقتدار کی ہڈی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے اور نگل بھی نہیں پا رہے۔
معاشی بحران
اس صورتحال میں ملک کا معاشی بحران مزید گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس میں کمی کے کوئی امکانات دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ آئی ایم ایف نے واضح طور پر حکم صادر کر دیا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں سو روپے فی لیٹر تک اضافہ کیا جائے، بجلی کی قیمتوں سمیت دیگر ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جائے تو پھر ہی وہ قرضے کی اگلی قسط جاری کریں گے۔ اس دوران سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک سے بھی مدد کی اپیلیں رد ہو چکی ہیں اور ملک دیوالیہ پن کی کھائی کی جانب لڑھک رہا ہے۔ دیوالیہ ہونے کا مطلب ہے کہ ملک پٹرول اور ڈیزل امپورٹ نہیں کر سکے گا جس کے باعث ملک میں اس کی شدید قلت ہوجائے گی۔ اس ملک میں بجلی کا ستر فیصد سے بھی زائد فرنس آئل سے پیدا کیا جاتا ہے اس لیے امپورٹ نہ کر پانے کے باعث بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ دنوں اور ہفتوں تک پھیل جائے گا جو شدید گرمی کی لہر کے باعث ہزاروں افراد کی اموات کا باعث بنے گا۔ لوڈ شیڈنگ کے باعث پانی کی قلت بھی شدید تر ہو جائے گی اور پینے کے پانی سمیت دیگر استعمال کا پانی بھی نایاب ہو جائے گا۔ اس طرح انتہائی اہم اجناس اور استعمال کی اشیا بھی امپورٹ کی جاتی ہیں جو ڈیفالٹ کرنے کی صورت میں موجود نہیں ہوں گی اور چائے کی پتی سے لے کر گندم تک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے اور آٹے کی قیمت دوگنا یا تین گنا تک پہنچ سکتی ہے۔ ادویات سے لے کر صنعتوں کے لیے درکار خام مال بھی دستیاب نہیں ہو سکے گااور ایکسپورٹ سمیت دیگر تمام صنعتیں بندہونے کا خدشہ موجود ہو گا۔ عالمی سطح پر پہلے ہی یوکرائن کی جنگ کے باعث اس سال گندم کے شدید بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جس میں لاکھوں افراد کے بھوک سے مرنے کے امکانات ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی معیشت کا دیوالیہ پن یہاں کے عوام کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہو گا اور پورا سماج ایک آتش فشاں بن جائے گا۔
اس سے بچنے کے حکومت کے پاس بہت سے راستے ہیں۔ جن میں دفاعی بجٹ میں بڑی کٹوتی سے لے کر فوج کے کاروباروں پر ٹیکس لاگو کرنا، سرمایہ داروں کی سینکڑوں ارب روپے کی سبسڈی کا خاتمہ اور کارپوریٹ منافعوں پر ٹیکسوں میں اضافہ اور دیگر ایسے بہت سے اقدامات ہیں۔ لیکن اس ملک کے حکمران اپنے ہی خلاف کیوں اقدامات کریں گے کیونکہ ملک دیوالیہ ہونے کے بعد یہ بیرون ملک باآسانی منتقل ہو سکتے ہیں اور وہاں موجود اپنی لوٹی ہوئی دولت اور جائیدادوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جرنیل، جج اور بیوروکریٹ سب شامل ہیں۔ دوسری جانب یہ حکمران اپنی دولت کی حفاظت کے لیے عوام پر ٹیکس لگانے کی طرف جائیں گے اور ان کی بچی کھچی آمدن بھی ہڑپ کریں گے اور ایک حصہ آئی ایم ایف کو دیں گے لیکن اپنے منافعوں اور دولت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اس عمل کے نتیجے میں عوامی غم و غصہ لازمی طور پربڑھے گا اور اسے کنٹرول کرنے کی حکمت عملی ہی درحقیقت ان کی سوچ کا محور ہے۔
عوام کے غم و غصے کو زائل کرنے کے لیے جہاں اپوزیشن کی کھوکھلی نعرے بازی اور جھوٹی بیان بازی نان ایشوز کو بحث کا موضوع بناتی ہے وہیں ریاستی جبر کے آلے کو بھی تیز کیا جاتا ہے اور عوام کو باور کروایا جاتا ہے کہ اگر وہ باہر سڑکوں پر نکلے تو ان پر بد ترین تشدد اور جبر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جہاں جبر کرنے والے سکیورٹی والے ریاستی ادارے حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں وہاں عدالتیں، بیوروکریسی اور پارلیمنٹ اور جمہوریت کا ناٹک بھی بہت کام آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل الیکشن کا ذکر اکثر سننے کو ملتا ہے اور اسے تمام مسائل کا حل قرار دیا جاتا ہے۔ الیکشنوں کے ذریعے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے حکمران طبقے کے ہی مختلف گروہ میدان میں اتارے جاتے ہیں اور سرمایہ دار طبقے کے ہی مختلف نمائندے آپس میں مد مقابل ہوتے ہیں۔ عوام کو صرف نعرے مارنے یا پھر ووٹ ڈالنے کا حق دیا جاتا ہے گو کہ ووٹ گننے اور نتائج کا اعلان کرنے کا فیصلہ یہاں جی ایچ کیو میں ہی اکثر ہوتاآیا ہے۔ آنے والے عرصے میں اس دھوکے کو حکمران طبقہ اپناقتدار بچانے اور اپنی حاکمیت کا نظام قائم رکھنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔
لیکن موجودہ صورتحال میں یہ کھیل ان کے گلے بھی پڑ سکتا ہے اور الیکشن کی سرگرمی کسی عوامی تحریک کو ابھارنے کا باعث بھی بن سکتی ہے جبکہ حکمران طبقے کی آپس کی لڑائی بھی ان الیکشنوں کو خونریز بنا سکتی ہے اور ان کی بھیانک حقیقت عوام پر عیاں کر سکتی ہے۔ دوسری جانب الیکشنوں سے بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا اور ریاست کے مختلف دھڑوں میں جاری لڑائی شدید تر ہو گی اور مختلف سامراجی طاقتوں کی جانب جھکاؤ بھی مسلسل تبدیل ہوتا ہوا ریاستی اداروں کو کمزور کرے گا۔ معاشی بحران بھی حل ہوتا نظر نہیں آتا جو اس تمام تر لڑائی کو مزید گہرا کرتا ہوا دیوالیہ پن کی جانب بڑھتا چلا جائے گا جس میں افراط زر اور روپے کی قدر کسی بھی لمحے بے قابو ہو کر کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔
اس تمام تر کھلواڑ کا انت محنت کش طبقے کی فیصلہ کن انداز میں پیش قدمی ہی کر سکتی ہے۔ کوئی بھی ایک واقعہ اس ملک میں عوامی تحریک کو بھڑکا سکتا ہے جو سماج کے کسی بھی ایک شعبے سے شروع ہو کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور کھوکھلی سیاسی پارٹیوں اور ماضی کے مزاروں کو رد کرتے ہوئے ایک نئی اور تازہ دم سیاست افق پر نمودار کر سکتی ہے۔ اس تحریک کی قیادت وہی کرسکتا ہے جو تمام حقیقی ایشوز اور سلگتے مسائل کو حل کرنے کا پروگرام اور لائحہ عمل دے اور یقینا اس سرمایہ دارانہ نظام اور عوام دشمن ریاست کی حدود میں کوئی بھی حل ممکن نہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس تمام تر ظلم اور جبر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے جس کے لیے انقلابی پارٹی کی تعمیر آج کے انقلابیوں کا اولین فریضہ ہے۔