|تحریر: آدم پال|
عمران خان کی گرفتاری کے بعد کوئی عوامی تحریک تو نہیں ابھر سکی اور نہ ہی لاکھوں افراد اس کے لیے سڑکوں پر نکلے لیکن اس کے باوجود اس کے چند ہزار حامیوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلا دیا ہے۔ رہی سہی کسر کمزور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے پوری کر دی ہے جنہوں نے انٹرنیٹ کی بندش سے لے کر فوج کو بلانے جیسے اقدامات کر کے نیم ایمرجنسی جیسی کیفیت پیدا کر کے سنسنی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں ایک طرف تو موجودہ عوام دشمن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری بھی واضح ہو گئی ہے جو عوام پر مہنگائی اور بیروزگاری کے تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے اور عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹانے کے لیے اپنے سیاسی حریفوں کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب اپوزیشن کا خصی پن اور کمزوری بھی عیاں ہو گئی ہے جو ملکی تاریخ کی سب سے کمزور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی گرا نہیں پائے اور تمام تر پراپیگنڈے اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے کی واضح حمایت کے باوجود اپنے تمام حمایتیوں کو سڑکوں پر نہیں لا پائے۔
لیکن اس تمام لڑائی اور رسہ کشی نے ایک دفعہ پھر حکمران طبقے کی باہمی لڑائی اور ریاست کے بحران کو پوری دنیا پر عیاں کر دیا ہے۔ ایک طرف ملک کی معیشت دیوالیہ ہو رہی ہے تو دوسری طرف ملک کی سیاست بھی مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے جبکہ ریاست کا بحران تیزی سے گہرا ہوتا جا رہا ہے جو پورے سماج کو مزید تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کی وجہ اس کی کرپشن اور نیب کے مقدمے کو بنایا جا رہا ہے لیکن واضح ہے کہ اس تمام تر کشمکش کے پس پردہ محرکات مختلف ہیں۔ گزشتہ سال عمران خان کی حکومت گرنے کے وقت ہی واضح ہو گیا تھا کہ جرنیلوں میں دھڑے بندی کس سطح تک پہنچ چکی ہے اور پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصے میں یہ عمل ختم ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتا گیا ہے۔ اس دوران سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور دیگر پر الزامات سمیت بہت سے ایسے واقعات اور خبریں سامنے آئی ہیں جنہوں نے واضح کیا ہے کہ فوج کے مختلف جرنیل اس تمام عمل میں کس طرح اثر انداز ہو رہے تھے۔ عمران خان گزشتہ تمام عرصے میں اسٹیبلشمنٹ کے اندر اپنی حمایت کے بل بوتے پر ہی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھا اور ابھی بھی اس کے حامیوں کو یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک اہم دھڑا ان کی پشت پر موجود ہے۔ لاہور کے کور کمانڈر کے گھر پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کے حوالے سے سامنے آنے والی آڈیو لیکس سے بھی یہی تاثر ملا ہے کہ کسی اعلیٰ سطحی مقام سے تمام تر منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ملک بھر میں عمران خان کے تمام حامیوں کا فوجی تنصیبات کی طرف جانا کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی آشیر باد اور منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ممکن ہوا تھا۔
یہ دھڑے بندی اور ایک دوسرے پر حملے گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری تھے لیکن اب یہ باہمی لڑائی پہلے سے بلند سطح پر داخل ہو چکی ہے اور آنے والے عرصے میں اس میں مزید شدت آئے گی۔ اس وقت بر سر اقتدار دھڑا اپنی رٹ مسلط کرنے کے لیے واضح اقدامات اٹھا چکا ہے اور اس وقت ملک بھر میں تحریک انصاف کے کارکنان پر کریک ڈاؤن جاری ہے لیکن ساتھ ہی میڈیا اور دوسرے اہم اداروں میں موجود اپنے مخالف دھڑے پر بھی کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ عمران خان کو کچھ عرصے کے لیے اب پابند سلاسل ہی رکھا جائے گا یا پھر اسے نا اہل کرنے اور پھر اس کی پارٹی کو ہی کالعدم دینے کے امکانات پر بحث دکھائی دے رہی ہے۔
عمران خان اور اس کی پارٹی کا جنم اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ہی ہوا تھا اور جرنیلوں، ججوں اور حکمران طبقے کے دیگر حصوں کی جانب سے ہی اس کی پرورش کی گئی تھی اور اسے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ اقتدار کے دوران عمران خان اور تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ کی چمچہ گیری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور ہزاروں کارکنان کو اسٹیبلشمنٹ کے دفاع کے لیے بھرپور تیاری کروائی گئی اور انہیں سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی جلسوں تک ہر جگہ ایک منظم کمپین کے ذریعے جرنیلوں کے ترجمان کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس دوران عمران خان نے اپنی تمام تر سیاست کو جرنیلوں کے اشاروں کے تابع کر لیا اور ساتھ ہی امریکی سامراج سمیت تمام سامراجی طاقتوں کی غلامی کی بھی تمام حدیں عبور کر لیں۔ لیکن اس تمام تر تابعداری اور کاسہ لیسی کے باوجود جب عمران خان اور اس کی پارٹی جرنیلوں کے لیے ایک بوجھ بننا شروع ہوئی تو اسے اتار پھینکا گیا اور حکمران طبقے کے دوسرے دھڑے کو اقتدار دے دیا گیا۔ شریف برادران اور زرداری اور بلاول کی قیادت میں یہ وہی دھڑا تھا جس کے خلاف پہلے عمران خان کو استعمال کیا گیا اور ان سابقہ حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف کمپین عمران خان کے ذریعے لانچ کی گئی۔
اب یہی عمل عمران خان اور اس کی پارٹی کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے اور اب اس کی کرپشن اور لوٹ مار کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے اور اس کا سیاسی قد کم کرنے اور اس کی پارٹی کو اپنے لیے دوبارہ قابل استعمال بنانے کا آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن کے دوران ایسے تمام جراثیم کا تدارک کرنے کی کوشش کی جائے گی جو پچھلے عرصے میں اس پارٹی میں خود شامل کیے گئے تھے اور اسے اسٹیبشلمنٹ کے لیے قابل استعمال بنایا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس تمام عمل کا موازنہ اس ملک کی ماضی کی سیاست سے کر رہے ہیں جب جرنیل مختلف پارٹیوں کو ایک دوسرے سے لڑوا کر اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایسی ہی رسہ کشی دیکھنے کو ملی تھی جس میں متعدد دفعہ الیکشن کروائے گئے تھے۔ لیکن جنرل مشرف کی آمریت کے دوران جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت اکٹھی ہو گئی اور باہمی مفاہمت پر سمجھوتہ کر لیا تو جرنیلوں نے ایک نئی پارٹی کو گود میں لے لیا جو اس وقت کی قومی اسمبلی میں ایک سیٹ بھی بمشکل حاصل کر پائی تھی۔ اسی طرح اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اور موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت کے درمیان یہ بلی چوہے کا کھیل بھی جرنیلوں کی آشیر باد سے جاری ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے عمران خان کو دیگر پارٹیوں سے مفاہمت کرنی پڑے گی جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہیں۔ اسی طرح اس ملک کے جنم سے لے کر اب تک سیاستدانوں کے ساتھ فوج کے کیے جانے والے جبر اور غداری کے الزامات کا ذکر بھی مسلسل جاری ہے اور عمران خان کا موازنہ کبھی فاطمہ جناح اور کبھی بھٹو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ہنگاموں کا موازنہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہونے والے ہنگاموں سے بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس سارے عمل میں تمام تر بحثیں انتہائی سطحی اور بھونڈی ہیں اور کوئی بھی سماج میں جاری تبدیلیوں پر توجہ مرکوز نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اس ملک کے محنت کش طبقے کو کسی بھی بحث میں ایک بنیادی فریق کے طور پر ڈسکس کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ماضی میں موجودہ عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن اور آج کی بدلتی صورتحال میں اس توازن کے بگڑ جانے پر سنجیدہ بحث درکار ہے۔ ماضی میں سوویت یونین کی موجودگی کے باعث یہاں بھی نظریاتی سیاست کی موجودگی اور مختلف سیاسی قوتوں کی دائیں اور بائیں میں تقسیم موجود تھی جبکہ آج رائج الوقت تمام سیاسی قوتیں نظریاتی طور پر انتہائی دائیں بازو پر ہی موجود ہیں اور مزدور دشمن کاروائیوں میں مصروف رہی ہیں اور نظریاتی طور پر بھی محنت کش طبقے کو اپنا دشمن ہی سمجھتی ہیں۔ محنت کش طبقے کی سیاسی حوالے سے کوئی بھی نمائندگی اس وقت موجود نہیں اور استحصال کا شکار یہ طبقہ اس وقت رائج الوقت تمام پارٹیوں کو نہ صرف رد کر چکا ہے بلکہ ان سے شدید نفرت بھی کرتا ہے۔ اسی طرح موجودہ صورتحال میں ماضی کی نسبت سماج میں موجود معیاری تبدیلی کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور موجودہ سیاسی اور ریاستی بحران کے باعث معروض میں آنے والی معیاری تبدیلی کو زیر بحث لائے بغیر ماضی کے بنے بنائے فارمولے مسلط کرتے ہوئے تجزیے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی دھڑے بندی
حقیقت یہ ہے کہ آج اس ملک کی اسٹیبشلمنٹ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور آنے والے عرصے میں ان دھڑوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایک حصہ موجودہ آرمی چیف کی اور پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کی قیادت میں بر سر اقتدار ہے اور اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن جتنا زیادہ وہ گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اتنی ہی زیادہ صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر نکل جاتی ہے۔ مالیاتی دیوالیہ پن اور سامراجی طاقتوں کی اپنی کمزوریوں کے باعث آنے والے عرصے میں بھی یہ گرفت دیرپا اور مستحکم انداز میں مضبوط ہوتی دکھائی نہیں دیتی جس کی وجہ سے یہ دھڑا مسلسل ہیجان، افراتفری اور فرسٹریشن کا ہی شکار رہے گا اور اسی کیفیت میں ایک کے بعد دوسری غلطیاں کرتا چلا جائے گا جو اس کی اپنی تباہی کا موجب بنیں گی۔
اسی طرح دوسرا دھڑا بھی عمران خان کی قیادت میں موجود ہے جس کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے افراد موجود ہیں اور ان کی جڑیں فوجی افسران سے لے کر ججوں تک حکمران طبقے کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ یہ دھڑا طالبان کی بھی کھل کر حمایت کر چکا ہے اور کابل میں طالبان کی حکومت کا نہ صرف کھل کر خیر مقدم کیا گیا بلکہ ان کی عالمی سطح پر قبولیت کے لیے بھی متعدد کوششیں کرتا رہا جو کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اسی طرح اقتدار میں واپس آنے کے لیے یہ اب بھی امریکہ سے لے کر چین اور سعودیہ تک اپنا گٹھ جوڑ بنانے کی کوششیں کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح موجود برسر اقتدار ٹولے کو ہٹا کر انہیں اقتدار دیا جائے۔ اس حوالے سے اس دھڑے کی تمام تر سیاست کا محور بھی اقتدار کا حصول ہے جس کے لیے انہیں کسی بھی طاقت کی جھولی میں بیٹھنا پڑے، کہیں بھی سجدہ کرنا پڑے اور کسی کو بھی اپنا باپ بنانا پڑے اس کے لیے یہ ہر وقت تیار ہیں۔ ان کا کوئی نظریہ، کوئی ایمان اور کوئی وفاداری نہیں۔ انہیں اگر چین یا روس اقتدار دلا دیں تو یہ وقتی طور پر ان کے کاسہ لیس بن جائیں گے اور پھر اگر امریکہ سے ڈالروں کی بھیک ملنے کی امید ہو گی تو زبانیں لٹکاتے ہوئے اس کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیک دیں گے۔ان کا حتمی مقصد زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنا اور اپنی دولت اور جائیداد کا تحفظ ہے۔ اس کے لیے انہیں حب الوطنی سے لے کر ریاست مدینہ تک کوئی بھی چورن بیچنا پڑے یہ اس سے دریغ نہیں کرتے۔
یہی صورتحال بر سر اقتدار دھڑے کی بھی ہے جو کسی بھی سیاسی مؤقف پر ہر طرح کا کمپرومائز اور مفاہمت کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ درحقیقت ان تمام دھڑوں کے حواری بھی ان سے یہی مطالبہ اور امید رکھتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے اقتدار میں آؤ اور ہمیں بھی لوٹ مار میں شریک کرو۔ یہ تمام حواری جانتے ہیں کہ مذہب کارڈ سے لے کر قوم پرستی اور حب الوطنی سمیت تمام تر سیاست صرف وقتی مفاد کے حصول کے لیے ہے اور کسی کو بھی عوام کی فلاح و بہبود یا ملک کی خوشحالی سے کوئی سروکار نہیں۔ مہنگائی یا بیروزگاری کا کبھی کبھار ذکر بھی صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس ان مسائل سے نپٹنے کا کوئی سنجیدہ حل موجود ہے۔ لیکن اس تمام عمل میں بحران گہرا ہو رہا ہے اور پورا ملک خونی دلدل میں دھنس رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی دھڑے بندی کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
امریکی سامراج کا زوال
ماضی سے موازنہ کیا جائے تو اس وقت ملک کی اسٹیبلشمنٹ عموماً ایک پیج پر ہی نظر آتی تھی اور آرمی چیف کے احکامات اور پھر اس سے بھی زیادہ واشنگٹن سے آنے والی لائن فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہوتی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا کی از سر نو مختلف بلاکس میں تقسیم ہوئی اور اس دوران پاکستان کا جنم ہوا اس وقت سے لے کر اب تک امریکی سامراج ہی یہاں پر فیصلہ کن کردار کا حامل رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے لے کر رائج الوقت سیاست تک حکمران طبقے کو ایک پیج پر جوڑے رکھا ہے۔ لیکن گزشتہ عرصے میں امریکی سامراج کی گرفت کمزور ہوتی ہوئی نظر آئی جس کی وجہ سے یہاں کی اسٹیبشلمنٹ کی باہمی لڑائی بھی بڑھتی گئی۔ خاص طور پر افغانستان میں امریکی سامراج کی ذلت آمیز شکست کے بعد اس کا خصی پن اور کمزوری پوری دنیا پر عیاں ہوگئی اور اس پورے خطے میں طاقتوں کا توازن بھی تبدیل ہوتا نظر آیا۔ ایسے میں یہاں کی اسٹیبلشمنٹ میں موجود دراڑیں بھی کھل کر واضح ہونی شروع ہوئیں جو آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے پر کھل کر سطح پر اپنا اظہار کرنے لگیں۔ اس سارے عمل میں ملک کی معیشت بھی دیوالیہ پن کی جانب بڑھتی رہی اور پورا سماج ایک گہری کھائی میں لڑھکتا چلا گیا۔ سماج میں موجود بے چینی اور حکمران طبقے کے خلاف غم و غصے نے حکمران طبقے کی اس باہمی لڑائی کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا اور اب وہ سڑکوں اور چوکوں چوراہوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔ لاہور کے کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کرنے اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے تمام افراد وہی تھے جو کچھ عرصہ پہلے تک جرنیلوں کو اپنا باپ سمجھتے تھے اور انہی کی آشیر باد سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے اور اپنے سیاسی دشمنوں کے خلاف زہر بھی اگل رہے تھے۔ اسی طرح پشاور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں کی قیادت ہر جگہ ایسے ہی افراد کر رہے تھے جو جرنیلوں کے وفادار رہے ہیں اور ان کی آشیر باد سے ماضی میں ایسی ہی کاروائیاں مخالفین پر کر رہے تھے۔ لیکن اب ان کی پشت پر موجود اسٹیبلشمنٹ دو حصوں میں بٹ چکی ہے اور ایک حصہ دوسرے کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے انہیں استعمال کر رہا ہے۔ ماضی میں طالبان سے لے کر مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک تک بہت سی دیگر سیاسی اور مذہبی بنیاد پرست جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ اپنے مذموم مقاصد کے لیے عوام دشمن کاروائیوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہے لیکن آج یہ تمام قوتیں آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں جبکہ عوام کی حمایت کسی کے ساتھ بھی نہیں اور ان کے سامنے ان کی حقیقت بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔
اس تمام عمل میں حکمران طبقے کی سیاست کے تمام داؤ پیچ واضح ہو چکے ہیں اور جرنیلوں کے سیاست میں مداخلت کی تمام خفیہ طریقے اور بلیک میلنگ کے ہتھکنڈے بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اسی طرح جرنیلوں کی کرپشن، لوٹ مار اور دیگر بہت سے غیر قانونی نیٹ ورکس کی تفصیلات یوٹیوب کی سینکڑوں ویڈیوز میں موجود ہیں۔ ان میں افغانستان اور ایران سے ہونے والی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے لے کر منی لانڈرنگ اور دیگر بہت سے کالے دھندوں کی تفصیلات فوج کے ہی سابقہ افسروں کی جانب سے فراہم کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ذریعے کیسے مختلف جرنیل اربوں پتی یا پھر کھربوں پتی بن چکے ہیں اس کی تفصیلات منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کے لاہور کے ڈیفنس کے سودوں کے لیے موجود فرنٹ مینوں کے نام اور دیگر تفصیلات بھی اب خاص و عام تک پہنچ چکی ہیں۔ لیکن موجودہ فوجی قیادت میں کون کتنا حصہ وصول کر رہا ہے اس حوالے سے تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ ہو سکتا ہے یہ تفصیلات فراہم کرنے والے شاید اپنا حصہ ملنے کی امید لگا کر بیٹھے ہوں یا پھر مستقبل میں اقتدار میں آ کر مزید لوٹ مار کے منصوبے بنا رہے ہوں، اسی لیے ان تفصیلات کو سامنے لانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ واضح ہو چکا ہے کہ جرنیلوں کے معیشت کے کلیدی شعبوں میں مداخلت پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے اور سیاست میں مداخلت کی وجہ بھی اس تمام تر لوٹ مار کا تحفظ کرنے کے لیے ہے جس سے واپسی موجودہ نظام میں کسی بھی صورت ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ اس لوٹ مار کے تحفظ کے لیے الیکشنوں کے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دینے سے لے کر سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنے تک تمام حربے استعمال کرنا اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بن جاتا ہے اور اگر وہ اس عمل کو کنٹرول نہیں کرتے تو لوٹ مار کو بھی جاری نہیں رکھ سکتے۔
الیکشنوں کا فراڈ
بہت سے لوگ عمران خان اور اس کے دھڑے کے الیکشن کے مطالبے کو بنیاد بنا کر کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک جائز مطالبہ ہے اور الیکشن کے بعد تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ دوسری جانب جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے بھی بہت سے سوالیہ نشان ابھر رہے ہیں اور ہر قسم کے آپشن زیر غور ہیں جس میں براہ راست مارشل لا سے لے کر ایمرجنسی یا ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ تک تمام امکانات پر بحث شامل ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک کنٹرولڈ اور پہلے سے طے شدہ نتائج کے ساتھ الیکشن کروانے کی ضرورت بھی شدت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ جس بڑے پیمانے پر حکومت عوام پر معاشی حملے کر رہی ہے اور عوام کا غم و غصہ جس تیزی سے اُبل رہا ہے اس میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے فراڈ الیکشن کے ذریعے نام نہاد جمہوریت کا جھانسہ دینا پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس جمہوری فراڈ کے ذریعے عوام کو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ ان پر حکمرانی کرنے والے ان کے اپنے ہی منتخب کردہ نمائندے ہیں اس لیے مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر تمام مسائل کے ذمہ دار عوام خود ہیں۔ لیکن ا س ملک میں انتخابی عمل پر پہلے بھی عوام کا بھروسہ نہیں تھا اور انتہائی کم تعداد ہی پولنگ بوتھ تک جا کر ووٹنگ کے عمل کا حصہ بنتی تھی گو کہ سرکاری اعداد و شمار میں جھوٹ بول کر یہ شرح مصنوعی طور پر زیادہ دکھائی جاتی ہے۔
لیکن اب انتخابی عمل سمیت پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر تمام ریاستی اداروں کی بنیادیں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو چکی ہیں اور عوام کو ان اداروں کے ذریعے دھوکہ دینے کا عمل پہلے جیسی قبولیت بھی حاصل نہیں کر پائے گا۔ اسی طرح الیکشن کے عمل سے خود اسٹیبشلمنٹ بھی خوفزدہ ہے اور کسی بھی ایسی سیاسی پارٹی یا گروہ کو اس عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دے سکتی جو پوری طرح اس کے کنٹرول میں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو مکمل طور پر کنٹرول میں لیے بغیر اس عمل کا آغاز نہیں کیا جا رہا۔ پچھلے عام انتخابات سے پہلے یہی کچھ نون لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا اور نواز شریف کو اس عمل سے باہر کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ جرنیلوں کے مکمل کنٹرول میں نہیں تھا۔ اس سے قبل بینظیر بھٹو کو بھی 2008ء کے عام انتخابات سے قبل منظر نامے سے ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ اس کی موجودگی میں انتخابات کے نتائج جرنیلوں کی مرضی کے مطابق مرتب نہیں کیے جا سکتے تھے۔ اس وقت بینظیر بھٹو کی کال پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر موجود تھے اور اس کی ماضی کی تمام تر کرپشن اور مزدور دشمن پالیسیوں اور غداریوں کے باوجود اس کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے تھے۔ اس وقت کی اسٹیبشلمنٹ کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا۔ لیکن بینظیر کے قتل کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کیا جا سکا بلکہ اس کے بعد جو عوامی رد عمل آیا اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ پسپائی پر مجبور ہوئی اور اقتدار پیپلز پارٹی کو ہی دینا پڑا۔ لیکن اس پارٹی کی قیادت نے عوام دشمنی کے جو نئے ریکارڈ بنائے اس نے پیپلز پارٹی کی حمایت پورے ملک میں ختم کر دی ہے اور آج سندھ سمیت پورے ملک میں اس پارٹی کے خلاف عوام کی شدید نفرت اور حقارت موجود ہے اور یہ پارٹی اب محض جرنیلوں کے دم چھلے تک محدود ہو چکی ہے۔
اسی طرح ماضی میں ایم کیو ایم سمیت بہت سی پارٹیوں کو آپریشنوں کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر باہر نکلیں۔ آج ایم کیو ایم اگر ختم ہوئی ہے تو اس کی وجہ اس کی مشرف دور اور بعد ازاں اقتدار کے دوران مسلط کی جانے والی عوام دشمن پالیسیاں ہیں اور وہ لوگ جو ماضی میں اس پارٹی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے آج اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ آج کراچی اور حیدرآباد کے مہاجروں کے درمیانے طبقے میں اپنی حمایت کھونے کے بعد یہ پارٹی ہوا میں معلق ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ اس کو اکٹھا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے تاکہ اسے اپنے مفادات کے لیے دوبارہ استعمال کر سکے۔
تحریک انصاف کی بنیاد بھی اس ملک کے درمیانے طبقے میں ہی ہے اور یہ پارٹی کبھی بھی محنت کش طبقے میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکی۔ فوج کے افسران میں بھی اس پارٹی کی حمایت کی یہی وجہ ہے کہ یہ افسران درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ گزشتہ چند دہائیوں سے جرنیلوں کی اکثریت بھی درمیانے طبقے سے ہی آ رہی ہے جو فوج کے ادارے کے کردار میں تبدیلی میں بھی اپنا اظہار کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کے شدید مالیاتی بحران اور دیوالیہ پن کے باعث درمیانہ طبقہ شدید ہیجان کا شکار ہے اور اس کی کوئی واضح سمت اور قیادت موجود نہیں۔ عمران خان کی شکل میں اس طبقے کے بحران کا مجسم اظہار بھی نظر آتا ہے۔ نرگسیت کا شکار یہ طبقہ انتہائی سطحی ذہانت کا حامل ہے اور تاریخ، جغرافیے، سماج اور عالمی سیاست کے بارے میں اس کے خیالات انتہائی کنفیوزڈ، رجعتی اور پسماندہ ہیں۔ مفاد پرستی، موقع پرستی، چالاکی، عیاری اور مکاری جیسی اخلاقی گراوٹ کو یہ طبقہ اعلیٰ ترین قابلیت سمجھتا ہے اور منافقین، جھوٹے، مکار ترین، عیار ترین اور مطلب پرست افراد کی دل سے عزت کرتا ہے۔ دوسری جانب سچ بولنے اور اصولوں پر چلنے والے، دولت کی ہوس سے بیگانے اور نظریات پر سودے بازی نہ کرنے والے افراد کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔ درمیانے طبقے کی یہ اخلاقیات اور معیارات اس وقت سیاست سے لے کر میڈیا اور دانشوروں تک سماج کے ہر شعبے میں حاوی نظر آتے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں جنرل قمر باجوہ اور فیض حمید کی بہت سی کاروائیوں کی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں جن سے ان کے ذاتی کردار اور شخصیت کو زیادہ بہتر انداز میں جاننے کا موقع ملا ہے۔ اس میں بھی یہی واضح ہوا ہے کہ پروفیشنل دیانتداری اور ایک سپاہی والی جرات اور عزم تو ایک طرف یہ افراد کسی بھی طور مہذب سماج کا حصہ بننے کے لائق نہیں۔ یہی کچھ حکمران طبقے کے دیگر بہت سے افراد کے متعلق کہا جا سکتا ہے جس میں عمران خان سے لے کر نواز شریف، زرداری اور دیگر سیاستدان شامل تو ہیں ہی لیکن اب اس میں سپریم کورٹ کے ججوں سے لے کر بہت سے علمائے دین بھی شامل ہو چکے ہیں۔ ایسے زوال پذیر اور گراوٹ کا شکار سماج میں موجود اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی سیاسی قوتیں بھی انہی رجحانات کی عکاسی کریں گی اور ان کی سیاست بھی ایسی ہی غیر اخلاقی، مفاد پرستانہ اور انسان دشمن ہو گی۔
مزدور طبقے کا کردار فیصلہ کن ہوگا
اس ملک کی اشرافیہ کے تمام دھڑوں میں ایک رجحان مشترک ہے اور وہ عوام دشمنی ہے۔ اس ملک کے تمام دانشور، سیاستدان، فوجی افسران، جج اور بیوروکریٹ عوام کو جاہل، گھٹیا اور زمین پر بوجھ قرار دیتے ہیں اور عوام کو درپیش مسائل کی وجہ بھی خود عوام کو ہی گردانتے ہیں۔ کبھی آبادی میں اضافے کو بنیاد بنا کر غلط طور پر عوام کو مسائل میں اضافے کی وجہ گردانا جاتا ہے اور کبھی ان کے مسلط کردہ سیاسی لیڈر کی پیروی نہ کرنے پر ان کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ درحقیقت اس ملک کے اکثر پڑھے لکھے افراد اور اشرافیہ جمہوریت کے ہی خلاف ہے اور سمجھتی ہے کہ اس ملک کے عوام خود اپنے نمائندے نہیں چن سکتے اس لیے چند جرنیلوں یا صحافیوں یا پھر سامراجی طاقتوں کو یہ اہم فیصلے کرنے چاہییں۔ ان فیصلوں کے نتیجے تو ہم پہلے ہی بھگت رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کے سیاسی شعور کو غیر اہم اور پست قرار دیا جاتا ہے۔ اگر عمران خان اور اس کے حواریوں کے پیٹ میں آج کل جمہوریت کے تسلسل کے مروڑ اٹھ رہے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ اس وقت اقتدار سے باہر ہیں۔ جیسے ہی ان کو اقتدار ملے گا یہ بھی وہی کچھ کریں گے جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ ویسے بھی پرویز الٰہی سے لے کر شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید تک آمریتوں کے پیدا کردہ سیاست دانوں کی قیادت سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔
لیکن حکمران طبقے کی تمام خواہشات کے باوجود محنت کش طبقہ نہ صرف سیاسی طور پر با شعور ہے بلکہ آنے والے عرصے میں اس شعور کا عملی اظہار بھی کرے گا۔ اس ملک کی سیاست کو فیصلہ کن انداز میں اگر کوئی تبدیل کر سکتا ہے تو وہ واحد طاقت اس ملک کا محنت کش طبقہ ہے۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی اس طبقے کے ذریعے اقتدار میں نہیں آنا چاہتی اور تحریک انصاف کے لیڈر تمام تر پکڑ دھکڑ کے باوجود جرنیلوں اور سامراجی طاقتوں سے ہی امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں جو ان کے طبقاتی کردار کی عکاسی کرتا ہے اور ان کی نظریاتی بنیاد کا نتیجہ ہے۔ تمام پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ہی اقتدار میں آنا چاہتی ہیں اور ان کی تمام تر سیاست کا محور بھی یہی عوام دشمن قوتیں ہیں۔ محنت کش طبقے کے مسائل پر نہ تو کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے گفتگو کی جا رہی ہے اور نہ ہی ان مسائل کے حل پر کوئی بحث موجود ہے۔ میڈیا سے لے دانشوروں تک ہر جگہ حکمران طبقے کی دھڑے بندی پر بحثیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ محنت کش طبقے کی سیاسی میدان میں مداخلت کے حوالے سے کوئی تجزیہ اور تناظر موجود نہیں۔
لیکن آنے والے عرصے میں اس طبقے کو سیاسی میدان سے زیادہ دیر کے لیے دور نہیں رکھا جا سکتا اور وہ پوری قوت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلائے گا۔ جب محنت کش طبقہ سڑکوں پر نکلے گا تو وہ سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں نہیں ہو گا بلکہ وہ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ہوگا جس کو دیکھ کر ہی حکمرانوں کے دل دہل جائیں گے۔ اتنی بڑی تعداد میں باہر نکلنے والوں کو جلاؤ گھیراؤ یا پولیس پر پتھراؤ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس نظام اور ذرائع پیداوار پر قبضے کا سوال اٹھاتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی تحریکیں انقلابی کیفیت کو جنم دیتی ہیں اور یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اقتدار پر سرمایہ دار طبقہ قبضہ قائم رکھے گا یا پھر محنت کش طبقہ یہ قبضہ چھڑائے گا۔ ان انقلابی کیفیات میں نجی ملکیت کے ادارے پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور محنت کش طبقہ صنعتوں، بینکوں اور معیشت کے دیگر کلیدی شعبوں کو اپنے اجتماعی کنٹرول میں لینے کی جانب بڑھتا ہے۔ انقلابی تحریکوں میں ریاستی ادارے ہوا میں معلق ہو جاتے ہیں اور درحقیقت پرانے فرسودہ ریاستی اداروں کو اکھاڑ کر مزدور ریاست کے قیام کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے۔ انقلابی تحریکوں کے فیصلے سپریم کورٹ کے ججوں یا جرنیلوں کے ڈرائنگ رومز میں نہیں ہوتے بلکہ فیکٹریوں، کھیتوں کھلیانوں اور چوکوں اور چوراہوں پر ہوتے ہیں۔ مجرموں کو سزا دینے کے لیے کسی جج کو رشوت دینا یا بلیک میل نہیں کرنا پڑتا بلکہ عوامی عدالتیں خود عوام کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچاتی ہیں۔ انقلابی تحریکیں سامراجی طاقتوں سے ڈالروں کی بھیک نہیں مانگتیں بلکہ سماج میں موجود تمام دولت کو قبضے میں لیتے ہوئے طبقاتی نظام کا خاتمہ کرنے کی جانب بڑھتی ہیں اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا آغاز ہوتا ہے۔ اس موقع پر انقلابی نظریات اور پروگرام سے لیس سب سے لڑاکا پارٹی ہی انقلابی تحریک کی قیادت کر سکتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتی ہے۔انقلابی کیفیت میں انقلابی نظریات پر منظم چند ہزار کی تنظیم تیزی سے عوامی حمایت جیتتی ہوئی لاکھوں کی پارٹی بن سکتی ہے۔ یہ عمل ماضی میں کئی دفعہ دہرایا جا چکا ہے اور لاکھوں کی پارٹیاں چند افراد کے گروہ تک محدود ہو جاتی ہیں جبکہ درست نظریات اور سیاسی پروگرام پیش کرنے والی چھوٹی تنظیمیں لاکھوں عوام کی قیادت کرتی نظر آتی ہیں۔
اس وقت اُفق پر موجود تمام سیاسی پارٹیوں کا اس تناظر اور پروگرام سے اختلاف ہے اور کوئی بھی سیاستدان، دانشور یا تجزیہ نگار اس ملک میں ایک انقلابی تحریک کے ابھرنے کی پیش گوئی نہیں کر رہا۔ یہاں پر انارکی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے یا پھر خانہ جنگی، خونریزی اور ملک ٹوٹنے کی بحثیں نظر آتی ہیں۔ لیکن جس صورتحال کے امکانات سب سے زیادہ روشن ہوتے جا رہے ہیں وہ ایک انقلاب ہے۔ آنے والے عرصے میں اس ملک کا محنت کش طبقہ اپنے خلاف ہونے والے تمام حملوں کا جواب دینے کے لیے باہر نکل سکتا ہے اور حکمران طبقے کی اس سیاست کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک نئے سماج کی جانب سفر کا آغاز کرے گا۔ یہ سب کچھ یہاں پہلے بھی ہو چکا ہے اور 1968-69ء کی انقلابی تحریک میں واضح طور پر نظر آیا جب ماضی کی تمام سیاست دفن ہو گئی تھی اور سوشلزم کا نعرہ پورے ملک میں گونجنا شروع ہو گیا تھا۔ آنے والے عرصے میں یہ عمل پہلے سے کئی گنا بڑے پیمانے پر دہرایا جائے گا اور انقلابی تحریک کا ایک نیا جنم ہوگا۔ یہ تمام عملی یقیناً سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا اور اس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ لیکن عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا زوال اور حکمران طبقے کی کمزوری انقلابی قوتوں کو آگے بڑھنے کے بہت سے مواقع فراہم کرے گی۔ اس موقع پر اگر بالشویک نظریات کے ساتھ ایک انقلابی پارٹی موجود ہوئی تو یہ نسل ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔