انتظامیہ کے مظالم کیخلاف احتجاجی تحریک چلانے کے اعلان!
[رپورٹ: علی بیگ]
کوکا کولا دنیا کی ایک انتہائی زیادہ منافع کمانے والی ملٹی نیشنل کمپنی ہے۔ لیکن اس تمام تر منافع کو حاصل کرنے کے لیے محنت کشوں کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جاتاہے جو اب انتہائی ظالمانہ حدود کو چھو رہا ہے۔ کوکاکولاپاکستان میں تقریباً5000 ملازم مستقل جبکہ بڑی تعداد غیر مستقل اور ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کر رہے ہیں۔ غیر مستقل ملازمین سے انتہائی کم تنخواہ پر انتہائی زیادہ کام لیا جاتاہے اور کوئی الاأنس اور بینیفٹ نہیں دیا جاتا۔
سی بی اے کے لیے ریفرنڈم کئی کئی سال تک نہیں کیا جاتا اور ورکروں کے حقیقی نمائندوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔اس خوفناک حد تک منافع بخش ادارے میں ملازمین کو روزگار کا کوئی تحفظ نہیں اور کچھ عرصے بعد بڑے پیمانے پرجبری برطرفیاں کی جاتی ہیں جس کے دوران احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس اور مقامی انتظامیہ کی مدد لی جاتی ہے۔ یونین عہدیداروں کو متعدد عدالتی کاروائیوں میں الجھایا جاتا ہے تا کہ وہ کھل کر ورکروں کے حقوق کا دفاع نہ کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے کمپنی وکیلوں کو بھاری فیسیں بھی ادا کرتی ہے۔ ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے پاکٹ یونین کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔
کوکا کولا کے ان تمام مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔
پورے پاکستان سے کوکا کولا کی فیکٹریوں کے مزدور راہنماؤں اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے کارکنان کا اجلاس 7اکتوبر بروز اتوار بختیار لیبرہال گوجرانوالہ میں منعقد کیا گیا۔اجلاس میں کوکاکولاکراچی، رحیم یار خان، ملتان، لاہور اور گوجرانوالہ کے راہنماؤں نے شرکت کی جبکہ پی ٹی یو ڈی سی کے مرکزی راہنما کامریڈ آدم پال نے لاہور سے خصوصی شرکت کی۔آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹر عمر نصیر نے بھی اجلا س میں شرکت کی۔اجلاس کی صدارت کوکاکولا کے مرکزی راہنما احسان قادری نے کی۔ پی ٹی یو ڈی سی گوجرانوالہ کے کارکنان نے ملک بھر سے آئے ہوئے کوکاکولا کے مزدور راہنماؤں کو خوش آمدید کہا اور ان کے اعزاز میں ہال میں بینر بھی آویزاں کیا۔اجلاس کے آغازپر کامریڈ آدم پال نے مہمانانِ گرامی کو اسٹیج پر مدعو کیا۔
مقررین میں سب سے پہلے کراچی سے آئے ہوئے کوکا کولا کے راہنما سعید اختر نے گفتگو کی اور اپنے یونٹ کے مسائل سے تمام حاضرین کو آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ 100سے زائد لوگوں کو جبری طور پر نکال دیا گیا ہے اور وہ فیکٹری کے باہر دھرنا دے کر ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ان پر شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ تھوڑی بہت رقم لے کر اپنے احتجاج سے دستبردار ہو جائیں لیکن ان کے ارادے پختہ ہیں اور وہ مزدور طبقے کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں ورکرز اتحاد یونین کے قیام کا مقصد اپنے حقوق کا دفاع کرنا اور پاکٹ یونین کی حقیقت کو ملازمین کے سامنے عیاں کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کراچی کے انتہائی دہشت زدہ حالات میں سیل کا کام کرنا انتہائی مشکل ہے۔لیکن اس کے باوجود ہم انتہائی جانفشانی سے کام کر رہے ہیں جس کے باعث کمپنی کواس سال کراچی میں 22فیصد گروتھ حاصل ہوئی ہے۔لیکن اس کے باوجود ملازمین کو برطرف کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکٹ یونین مزدوروں کے فنڈ پر غیر ملکی دوروں پر ضائع کر رہی ہے لیکن مزدوروں کے مفادات کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کی جا رہی۔ گزشتہ 3سال سے الیکشن نہیں کرایا گیا جس کے باعث یہ پاکٹ یونین سی بی اے کا حق کھو چکی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جلد از جلد الیکشن کرایا جائے۔انہوں نے کہا وہ مزدوروں کے حقوق کے لیے متحد ہیں اور آج کے اجلاس میں جو بھی فیصلے ہوں گے ان پر پورے جذبے سے عملدرآمد کریں گے۔
اس کے بعد ملتان سے آئے ہوئے ورکرز یونین کے فنانس سیکرٹری محمد رضوان نے مسائل سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ کمپنی کے بہت سے ملازمین کو مینجمنٹ میں تو نام نہاد طور پر شامل کیا گیا لیکن ان کا کام اور تنخواہ دیگر ورکروں کے برابر تھی۔2008ء میں ہم نے یونین بنائی تو کمپنی ہمارے خلاف عدالت میں چلی گئی۔ڈھائی سال کیس لڑنے کے بعد فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔ اب بھی انتظامیہ کی جانب سے مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور 38 SMOsکو جبری برطرف کر دی گیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کو نوکریوں پر دوبارہ بحال کیا جائے۔اس کے علاوہ سی بی اے کا الیکشن میں بھی التوا کا شکار ہے جس کی وجہ سے پاکٹ یونین انتظامیہ کے ساتھ مل کر مزدوروں کا استحصال کر رہی ہے۔ہم اب تک 240لوگوں کو دوبارہ نان مینجمنٹ سٹاف میں لے کر آئے ہیں اور ان کا یونین کا حق بحال کیا ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ باقی ورکر جنہیں نام نہاد مینجمنٹ سٹاف کا درجہ دیا گیا ہے لیکن ان سے کام ورکروں والا لیا جاتا ہے اور تنخواہ بھی وہی ہے، انہیں بھی یونین کاحق دیا جائے۔اس کے علاوہ ہماری یونین کو انتظامیہ تسلیم کرے۔انہوں نے بتایا کہ کمپنی کے بے تحاشا وسائل کو مزدوروں کے حقوق سلب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ مزدوروں کو عدالتی جنگ اور دیگر محاذوں پر اپنی محدود آمدن سے چندہ اکٹھا کر کے لڑنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارا عزم بلند ہے اور ہم اس طبقاتی جنگ کو جاری رکھیں گے۔
لاہور سے خرم شہزاد نے کہا کہ ہمارے یونٹ میں ہماری یونین کی کاوشوں سے نان مینجمنٹ سٹاف کی تعداد 135سے بڑھ کر 540 ہو چکی ہے۔اسی لیے ہم دسمبر میں ہونے والے سی بی اے کے الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کریں گے۔ہماری کامیابی کے خوف سے پاکٹ یونین نے بدمعاشی کی انتہا کر دی ہے۔مسلح غنڈوں کی مدد سے ورکروں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں انتظامیہ کے ایجنٹوں کی حمایت پر مجبور کیا جاتا ہے۔
گوجرانوالہ سے یونین کے جنرل سیکرٹری محمد یوسف نے بتایا کہ ہماری یونین کی کاوشوں سے40افراد کا روزگار محفوظ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے یونٹ میں انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باعث دو سی بی اے یونین ہیں۔ اس وقت سیالکوٹ کو ملا کر ہمارے پاس 50سے زائد ڈرائیور ہیں لیکن کمپنی جس طرح بتدریج مختلف شعبے تھرڈ پارٹی کو دے رہی ہے اسی پالیسی کے تحت ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی تھرڈ پارٹی کو دیا جا رہا ہے جو فیکٹری کی چار دیواری کے اندر بھی کام کرے گی۔اسی باعث ڈرائیوروں کی نوکریوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوکاکولا گوجرانوالہ میں 600سے زائد ورکر ڈیلی ویجز پر ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کر رہے ہیں جنہیں 9ہزارا روپے ماہانہ کا بتایا جاتا ہے لیکن انہیں 5سے 6ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی حیثیت ٹھیکیدار کے غلام کی سی ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھر والوں کو چند ہزار روپے ایڈوانس دے کر انہیں گروی رکھ لیا جاتا ہے اور ان سے انتہائی ظالمانہ انداز میں کام لیا جاتا ہے۔ان ملازمین کو کوئی اوور ٹائم نہیں دیا جاتا، کوئی پرافٹ الاؤنس نہیں ملتا، کوئی میڈیکل الاؤنس کی سہولت نہیں،کوئی اولڈ ایج بینیفٹ نہیں۔ کوکاکولا میں ملازمت کرنے کے باوجود ان کے پاس کوئی سروس لیٹر نہیں، کوئی بونس نہیں حتیٰ کہ ہفتہ وار چھٹی کی اجازت بھی نہیں۔ اس تمام صورتحال سے غلام دارانہ دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
گزشتہ سال کمپنی نے 125افراد کو برطرف کیا جبکہ ان میں سے نصف لوگوں کے لیے کچھ رقم کا اعلان کیا گیا۔ پاکٹ یونین کی لوٹ مار کے باعث وہ اعلان کردہ رقم بھی کسی کو نہیں مل سکی صرف چند خوش قسمت اس اعلان کردہ رقم کا کچھ حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔
آنے والے دنوں میں انتظامیہ ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے گوجرانوالہ میں 133ملازمین کو جبری طور پر فارغ کرنے کا منصوبہ بنا یا جا رہا ہے۔اس ظلم کا ساتھ دینے کے لیے پولیس کی مدد بھی لی جاتی ہے اور فیکٹری گیٹ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کرا دی جاتی ہے تا کہ کوئی مزدور اپنا احتجاج کا حق استعمال نہ کر سکے۔ابھی بھی مزدوروں کو مختلف ہتھکنڈوں سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے تا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ مزدوروں کے حقیقی نمائندوں کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں غیر منصف عدالتوں کی کاروائیوں میں الجھا کر اور دوسرے طریقوں سے محنت کشوں کی آواز بلند کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
اس کے بعد رحیم یار خان سے یونین کے صدر ساجدحضور نے اپنے یونٹ کے مسائل پیش کیے۔ انہوں نے یکم ستمبر کا واقعہ سنایا جو کو کا کولا رحیم یارخان کا سیاہ ترین دن تھا۔ اسی روزاتحاد ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری احسان قادری کو بغیر کسی شوکاز نوٹس وقانونی تقاضے پورے کئے صبح 10بجے کے قریب HR قیصرسعید نے اپنے دفتر بلا کر Termination لیٹردیا اور سکیورٹی کے اہلکاروں کے ذریعے تشدد کرایا اور دھکے دیکر دفتر سے نکال دیا اور کہاکہ تجھے ہم عبرت کانشان بنا دیں گے۔ یاد رہے کہ یہ انتظامی کارروائی یونین بنانے اور ورکرز کو منیجمنٹ میں شامل کرنے کیخلاف شاندار او رکامیاب جدوجہدکرنے کی پاداش میں کی گئی۔ کیونکہ کوکاکولا پاکستان کی تمام فیکٹریوں کے سینکڑوں ورکرز کو غیر قانونی طور پر منیجمنٹ کٹیگری میں شامل کرکے ان ورکرز کو یونین بنانے اور دیگر مراعات و سہولیات سے محروم کردیاگیا تھا۔ کوکاکولا کی تمام فیکٹریوں میں اس ظلم کیخلاف جدوجہد کا فیصلہ کیاگیا اور تین سال کی جدوجہد کے نتیجے میں کوکا کولا انتظامیہ نے M-1 سے M-2 تک کے منیجمنٹ ورکرز کو ورکرز تسلیم کرنے کافیصلہ کیا۔ مگر انتظامیہ نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احسان قادری کو ورکرز کٹیگری میں شامل کرنے سے انکارکردیا اور احسان قادری کو پیشکش کی گئی کہ اس کو ترقی دیکر منیجر بنایاجائیگا مگر احسان قادری نے انکارکردیا۔ لہٰذا کوکا کولا فیکٹری رحیم یارخان کی انتظامیہ نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے یکم ستمبر کو احسان قادری کو غیر قانونی اور جبری برطرف کردیا۔ حالانکہ احسان قادری سمیت دیگر کارکنان کا کیس عدالت میں زیرسماعت ہے اور عدالت نے احسان قادری کو ملازمت کے تحفظ کا Stay Order جاری کیا ہوا ہے۔ عدالتی احکامات کی انتظامیہ نے کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ اس انتقامی کارروائی کیخلاف کارکنان میں شدید اشتعال پیدا ہوا اورانہوں نے کام بند کرکے HR منیجر کے دفتر کے سامنے پرامن دھرنا دیدیا اور انتظامیہ کیخلاف نعرے بازی کی اورمطالبہ کیا کہ غیر قانونی برطرفی ختم کی جائے اور Termination Letter واپس لیا جائے۔ اس دوران فیکٹری کے سامنے بھی ورکرز کی کثیر تعداد جمع ہوگئی اور انہوں نے فیکٹری گیٹ کے سامنے پرامن دھرنادیا اور مطالبہ کیا کہ احسان قادری کی غیر قانونی برطرف ختم کی جائے۔ فیکٹری کے اندر اور باہر ورکرز کا پرامن دھرنا 12 بجے سے 3بجے تک جاری رہا۔ مگر 3 بجے کے قریب لگ بھگ 300پولیس اہلکار فیکٹری میں داخل ہوگئے اور ورکرز پر بدترین لاٹھی چارج کیا اس طرح فیکٹری کے باہر ورکرزکے دھرنے پر بھی پولیس نے لاٹھی چارج کیا‘جس سے بیسیوں کارکنان زخمی ہوئے۔ دریں اثنا پولیس نے ورکرز اتحاد کے صدر ساجد حضور جنرل سیکرٹری احسان قادری سمیت 9 عہدیداران کو گرفتار کرلیا اور ان پر جھوٹامقدمہ بنالیا۔ دیگر عہدیداران وکارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور شدید خوف وہراس پھیلایاگیا۔ ہفتہ کی شام 4بجے PTUDC کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں PTUDC کے آرگنائزر حیدرچغتائی ‘لیبرایکشن کمیٹی کے چیئرمین نعیم مہاندرہ ‘ لیبرایکشن کمیٹی کے کنوینئر ربانی بلوچ ‘ PSF کے ڈسٹرکٹ آرگنائزر عمیریوسف ‘ BNTکے آرگنائزر ریاض عقیل ‘ ڈسٹرکٹ بار کے سابق صدر حسن نواز خان نیازی نے شرکت کی۔ اجلاس میں مطالبہ کیاگیا کہ احسان قادری کی غیرقانونی برطرفی ختم کی جائے‘ گرفتار عہدیداران اورکارکنان پر جھوٹے مقدمات ختم کرکے فوری رہا کیاجائے‘ کارکنان پربہیمانہ تشدد میں ملوث پولیس اہلکاران اور کوکاکولا منیجمنٹ کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس کے بعد پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپئن اور لیبرایکشن کمیٹی رحیم یارخان مختلف ٹریڈ یونین ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے کوکا کولا رحیم یارخان فیکٹری میں پولیس گردی کوکا کولا انتظامیہ کی مزدوروں کے خلاف انتقامی کاروائیوں‘ جبری برطرفیوں پولیس کاوحشیانہ لاٹھی چارج‘ مزدورر ہنماؤں کی گرفتاری اور جھوٹے مقدمات درج کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔انہوں نے اس واقعے کی مذمت میں قرارد اد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
اس کے بعدکوکاکولا پاکستان کے مرکزی راہنما احسان قادری کو خطاب کی دعوت دی گئی۔انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک طبقاتی اور نظریاتی جنگ کا آغاز کیا ہے اور اس میں ہماری کامیابی کی ضمانت ہمارا اتحاد ہے۔کسی ایک ورکر کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے جواب میں ہم پورے پاکستان کے کوکا کولا کے ورکر احتجاج کریں گے اور اس کے لیے پی ٹی یو ڈی سی کے پلیٹ فارم سے دوسری مزدور تنظیموں کو بھی اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔آج وقت کی سب سے بری ضرورت ٹریڈ یونین کے اندر تربیت کی ہے جس کے لیے ہمیں سٹڈی سرکل بھی منظم کرنا ہوں گے۔سیاسی لیڈر تمام واقعات کے ظہور پذیر ہونے کے بعد آتے ہیں لیکن مزدور لیڈر سب سے آگے کھڑا ہو کر لڑتا ہے اور قربانی دیتا ہے۔یہ کوکا کولا کمپنی ہمیں دو سال کی تنخواہ دے کر مزدور تحریک کے وسیع تر مقصد اور اجتماعی مفاد سے دور رکھنا چاہتی ہے لیکن ہم نے اس کمپنی کو اپنی عمر کا ایک اہم حصہ دیا ہے ہم ان ٹکروں کو ٹھکراتے ہیں اور اجتماعی مفاد کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
آج ہماری جدوجہد کے نتیجے میں ہمارے پاس رجسٹرڈ یونین ہے اور بڑی تعداد میں ساتھی ہیں۔اگر کمپنی کے پاس سرمائے کی طاقت ہے تو ہمارے پاس ہماری محنت ہمارے بازؤں کی طاقت ہے۔ہم اپنا سکون اور اپنے حقوق چھین کر حاصل کریں گے۔اس کے علاوہ ہم اپنی جدوجہد سے آئندہ کے لیے جبری برطرفیوں کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گے۔کوکاکولا کا ورکر نیند سے جاگ رہا ہے۔ جو ظلم اور زیادتی میرے ساتھ ہوئی وہ تلوار کسی ورکر پر بھی چل سکتی ہے۔ ہمیں مل کر اس ظلم کا مقابلہ کرنا ہو گا۔عدلیہ اور میڈیا سے ہمیں مدد کی کوئی توقع نہیں بلکہ صرف اور صرف مزدور طبقہ ہی ہمارا ساتھ دے گا۔ میرا کیس عدالت میں چل رہا ہے میرا مطالبہ ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے تا کہ تمام لوگ اس اندوہناک واقعہ کو دیکھ سکیں اور کوکاکولا انتظامیہ کے جبر کو ملاحظہ کریں۔
تمام یونین لیڈر ز کو تربیت حاصل کرنی چاہیے اور اس کے لیے PTUDCبہترین پلیٹ فارم ہے۔ہمارا دشمن بہت چالاکی سے ہم پر وار کرتا ہے اور ہمیں متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔صادق آباد میں فاطمہ فرٹیلائزر کے مزدوروں نے اپنی یکجہتی کے باعث 20سے زائد برطرف مزدوروں کو پولیس اور رینجرز کی موجودگی کے باوجود 24گھنٹے کے اندر بحال کروایا تھا۔کوکا کولا میں 200سے زائد جبری طور پر نکال دیے گئے ہیں اور ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم ان سب کو بحال کروائیں۔یہ ہم کسی دوسرے کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے کریں گے اور طبقاتی اور نظریاتی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔
APNECکے مرکزی نائب صدر اور گوجرانوالہ یونین آف جرنلسٹ کے راہنما ڈاکٹر عمر نصیر نے کہا کہ ہم کوکا کولا کی کمپئین کی ہر جگہ بھرپورکوریج کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ میڈیا کے مالکان اس احتجاجی کمپئین کو منظر عام پر نہیں آنے دیں گے لیکن ہم صحافی آپ کے مؤقف کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور کوکا کولا انتظامیہ کے مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ہم پوری کوشش کریں گے کہ مقامی میڈیا میں اس احتجاجی کمپئین کی بھرپور کوریج کریں۔
اس کے بعد کامریڈ آدم پال نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد عالمی سطح پر مزدور تحریک پر بڑے پیمانے پر حملے کیے گئے اور بے پناہ قربانیوں سے حاصل کی گئی مراعات کو عالمی سطح پر سرمایہ داروں اور حکمران طبقے نے چھیننا شروع کر دیا۔2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد ان حملوں میں شدت آچکی ہے اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور مزدوروں سے یورپ، امریکہ سمیت پوری دنیا سے مراعات چھینی جا رہی ہیں۔لیکن ان حملوں کے خلاف یورپ اور امریکہ میں محنت کشوں کی ایک نئی جدوجہد کا بھی آغاز ہو چکا ہے جس میں مزدور طبقے کے غدار نمائندوں کی کوئی جگہ نہیں۔اب صرف لڑاکا قیادت ہی مزدوروں کی ترجمانی کر رہی ہے اور مزدوروں کے مفادات کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر ہڑتالیں اور احتجاجی تحریکیں منظم کی جا رہی ہیں۔یونان، اسپین، اٹلی، پرتگال اور دیگر مغربی ممالک میں ہڑتالیں منظم کی جا رہی ہیں۔جبکہ 20اکتوبر کو برطانیہ میں بھی ایک ہڑتال منظم کی جا رہی ہے۔گزشتہ سال امریکہ میں آکو پائی وال سٹریٹ کی تحریک اس کی ایک واضح مثال ہے جب انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ہی دن 900سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
پاکستان میں بھی محنت کشوں کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ ہے جسے میڈیا اور کورس کی کتابوں میں نہیں بتایا جاتا۔اسی ملک میں مزدوروں نے فیکٹریوں پر قبضے کیے، ٹریڈ یونین تحریک میں جان کی قربانیاں دیں اور اپنے طبقے کو بڑے پیمانے پر مفادات لے کر دیے۔شہید عارف شاہ انہی راہنماؤں میں سے ایک تھا جسے 1996ء میں سرمایہ داروں نے قتل کروا دیا جس کے بعد PTUDCکا قیام عمل میں آیا۔PTUDCکوئی یونین یا فیڈریشن نہیں بلکہ کوئی بھی محنت کش اپنی یونین اور فیڈریشن میں رہتے ہوئے اس کمپئین کا ممبر بن سکتا ہے جس کا مقصدمحنت کش طبقے کے حقوق کا دفاع ہے۔ ہمارا نعرہ ہے ایک کا زخم سب کا زخم۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جس کو محنت کشوں کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ سوشلزم کا نعرہ پہلی دفعہ پیپلز پارٹی نے ہی بلند کیا لیکن آج اس کی قیادت اپنے بنیادی نظریات سے انحراف کر چکی ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سال میں مزدور دشمن پالیسیوں کو ختم کرنے کی بجائے انہیں زیادہ شدت کے ساتھ لاگو کیا گیا۔زیادہ بڑے پیمانے پر مہنگائی اور بیروزگاری کا عذاب مسلط کیاگیا۔اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ظلم و ستم کی کھلی چھٹی دے دی گئی اور لیبر انسپکشن کے قانون کو بھی بحال نہیں کیا گیا۔انہی پالیسیوں کے نتیجے میں بلدیہ ٹاؤن کراچی میں فیکٹری کے جلنے جیسے واقعات رونما ہوئے جو تمام حکمران طبقے کے ظلم کا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ دار کا منافع مزدور کی محنت کا مرہونِ منت ہے اور اپنے منافعوں کو بڑھانے کے لیے سرمایہ دار مزدور کا استحصال بڑھاتا چلا جاتا ہے۔آج ورکروں کے پاس روزگار کا تحفظ نہیں ہے اور انتظامیہ کسی بھی وقت انہیں برطرف کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ مستقل ملازمین کی جگہ ٹھیکیداری نظام کو ترجیح دی جا رہی ہے اور ورکروں کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔لیکن ان تمام حربوں کا جواب ہمارا اتحاد ہے۔ ہم جب تک متحد ہیں سرمایہ دار کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ کوکا کولا کی تمام یونینوں کا ایک اہم مطالبہ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کی مستقلی کا بھی ہونا چاہیے تا کہ انہیں بھی اپنے ساتھ اس جدوجہد میں ساتھ شریک کیا جائے اور اپنی طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ہر یونٹ میں سینکڑوں کنٹریکٹ ملازمین کو اس مہم میں اپنے ساتھ نہ ملانے سے تحریک مزدوروں کے محض ایک حصے کے مطالبات کی عکاس ہوگی اور مزدوروں کا سب سے اہم اور بڑا حصہ عملاََ الگ تھلگ کھڑا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ PTUDCپورے پاکستان میں مزدوروں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لیے پروگرام منعقد کرتی رہتی ہے جس میں کوکا کولا کے ورکروں کو بھرپور شرکت کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست اور جدوجہد سے جب نظریات نکل جائیں تو صرف مفادات رہ جاتے ہیں۔ ہمیں محنت کش طبقے کو سوشلزم کے انقلابی نظریات پر یکجا کرنا ہو گا۔انہوں نے تجاویز دیتے ہوئے کہاکہ
1۔کوکا کولا کے ورکروں کے مسائل کے حل کے لیے ملکی سطح پر کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جومخصوص مدت کے بعد باقاعدہ میٹنگ کرے اور فیصلہ سازی کرے۔
2۔ ملک گیر مہم کے آغاز کے لئے اسلام آباد سے کراچی تک تمام کوکا کولا یونٹس میں باری باری احتجاجی مہم کے جلسوں کا شیڈول طے کیا جائے۔مہم ایک شہر سے دوسرے شہر میں اخباری اور الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور تشہیر کے ساتھ آگے بڑھے۔ان جلسوں کو بھرپور بنانے کے لئے پہلے ان شہروں میں ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔یہ کمیٹیاں اس شہر،تحصیل،ضلع اور علاقے کی تمام ٹریڈ یونینز،صحافیوں،وکلاء،سیاسی کارکنان،سماجی تنظیموں سے موثر رابطے کرکے ان کو اس تحریک میں شامل کرائیں،جلسے سے پہلے متذکرہ تنظیموں کے اس مسئلے کی حمایت میں پریس ریلیز جاری کرائے جائیں۔تمام کوکا کولا یونٹس والے شہروں میں احتجاجی بینرز آویزاں کئے جائیں اور ہوسکے تو وال چاکنگ بھی کرائی جائے۔جس میں برطرفیوں،مقدمات اور دیگر انتقامی کاروائیوں کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں تحریر ہو۔
3۔ سارے شہروں میں جلسے کرنے کے بعد پھر ایک دن ملک گیر مظاہروں کی کال دی جائے اور کوکا کولا یونٹس کے علاوہ ملک بھر میں پی ٹی یو ڈی سی کی مدد سے اسی دن مظاہرے کئے جائیں۔
4۔ اس تحریک کواس انداز میں منظم کیا جائے کہ مہم جوئی نہ ہو اور تحریک بتدریج آگے بڑھے۔
5۔ساری مہم کی میڈیا کوریج اور ہر جلسے کی قراردادوں،تصاویراور ویڈیو کو پی ٹی یو ڈی سی کے ذریعے دنیا بھر کے محنت کشوں تک پہنچایا جائے اور ان سے اظہار یکجہتی کی اپیل کی جائے۔
6۔ ہر یونٹ میں سٹڈی سرکل قائم کئے جائیں جو ہر ماہ میں کم ازم کم ایک دفعہ ورکروں کی ٹریڈیونین کی تربیت کے حوالے سے میٹنگ کریں۔
کامریڈ آدم پال نے آخر میں کہا کہ 1886ء میں شکاگوکے شہیدوں کی قربانی کے نتیجے میں 8گھنٹے کے کام کے اوقات کار کا تعین ہوا تھا جو آج پوری دنیا کے محنت کشوں کا بنیادی حق بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا آئندہ بھی ہم اپنی جدوجہد کے ذریعے بڑی حاصلات لے سکتے ہیں اور ان سرمایہ داروں کے ظلم کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد اوپن بحث کا آغاز کیا گیا جس میں لاہور سے آغا خان، گوجرانوالہ سے عمران اکبر، صبغت اللہ اور قاضی سلمان، سیالکوٹ سے نیسلے کے سابقہ ملازم عمر شاہد اور احسان قادری نے حصہ لیا۔
بحث کے دوران جو تجاویز شامنے آئیں وہ یہ ہیں
1۔ تمام یونٹس میں کارکنان کے بازؤں پر احتجاجاًکالی پٹیاں لگوائی جائیں۔
2۔ کوکا کولا کی قیادت پر مشتمل ایک ملکی سطح کی ایکشن کمیٹی تشکیل دی جائے۔
3۔ کوکا کولا سے متعلق مسائل،مطالبات اور قراردادوں اور لائحہ عمل پر ایک پمفلٹ لکھ کر شائع کرایا جائے اور اس کوملک گیر سطح پر پھیلا دیا جائے۔
4۔ اس کمپئین کو منظم کرنے کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے جس میں تمام ورکر حصہ ڈالیں۔
ان تمام تجاویز کو متفقہ طور منظور کر لیا گیا اور ملکی سطح پر ایک ایکشن کمیٹی بھی منتخب کی گئی۔
آخر میں گوجرانوالہ یونین کے صدر محمد قیصر نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کامیاب اجلاس پر سب کو مبارکباد پیش کی۔
متعلقہ:
کوکاکولا فیکٹری غنی چورنگی کراچی سے محنت کشوں کی برطرفیاں
کولا کولارحیم یارخان: کارکنان پر انتظامیہ اورپولیس کا بدترین تشدد وجبر