[تحریر: ماہ بلوص اسد]
تقریباََ چار ارب سال پہلے اس کرۂ ارض پرحادثاتی طور پر چند معدنی عناصر نے زندگی کی صورت اختیار کی۔ ایک ادھورے پروکریوٹک (Prokeryotic) خلیے سے زندگی کا آغاز ہوا جو کہ چارارب سالوں میں ارتقا پاتے ہوئے آ ج اس کرۂ ارض پر مختلف انواع و اقسام کے 80 لاکھ سے زائد جانداروں کی شکل میں موجود ہیں اوراوسطاًہر ایک گھنٹے میں نیا جاندار دریافت ہورہا ہے۔ مادے کا زندگی کی شکل اختیار کرجانا اس کائنات کا اہم ترین واقعہ تھا اور اس سے بھی اہم انسانی دماغ کے ذریعے مادے کا اپنے ہی بارے میں باشعور ہوجانا تھا۔ انسانی ذہن اور اس کے باشعور ہونے کے ارتقائی عمل میں جسمانی محنت کا کلیدی کردار ہے، جو کہ انسان کی جنگل کی زندگی کا خاصا تھی۔ عہد وحشت اور عہد بربریت کے طویل ادوار کے بعد جب انسان فطرت کے ساتھ لڑائی کے نتیجے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو عہد تہذیب کا آغاز ہوا، اور دنیا کی عظیم تہذیبیں ظہور پذیر ہوئیں۔ اس عہد کیااہم خصوصیات میں دھاتوں کا استعمال، دریاؤں کے ساتھ جڑت، منظم شہر، لکھائی کا آغاز اور بہت سے فنون کی ابتدا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی دور میں ہی انسان کو وہ فارغ وقت میسر آیا جس میں اس نے فطرت کے بارے میں سوچنا سمجھنا شروع کیا اور اسی دور میں ہمیں فلسفے آغاز ہوتا نظر آتا ہے۔ انڈین، یونانی، فارسی، چینی اور مصری تہذیبوں میں عظیم فلسفے کی ابتدا ہوئی اور یہیں سے ہی فلسفے کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے جس میں سب سے اہم کردار یونانی فلسفیوں کا ہے۔
فلسفہ دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا طریقہ کار ہے۔ کوئی انسان چاہے کتنا ہی انکار کرے، شعوری یا غیر شعوری طور پرکسی نہ کسی فلسفے کا علمبردار ہوتا ہے۔ جب انسان مہذب دور میں جسمانی مشقت سے کسی حد تک آزاد ہوا تو اس نے دنیا کو دیکھنا اور سمجھنا شروع کیا۔ تاہم اس ابتدائی دور میں سائنسی اور دیگر علوم، خصوصاََتکنیک کی کمی کی وجہ سے فلسفہ مذہب کے لبادے میں قید رہا۔ یہ یونانی فلسفی ہی تھے جنہوں نے دنیا کو سمجھنے کے لیے مذہب سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فلسفے کو مادی بنیادیں فراہم کیں۔ اس کے بعد انسانی سماج نے کئی شکلیں اختیار کیں۔ ہر نیا سماج پچھلے سماج سے بغاوت کی صورت ظہور پذیر ہوا۔ اس بغاوت میں پچھلے نظام کی ہر چیز چیلنج ہو جاتی تھی۔ ۔ ۔ سماجی رشتے، عقائد، معیشت، ثقافت، عمومی سوچ اور فلسفہ بھی۔ فلسفے کا تاریخی سفر کسی سیدھی لکیر پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ تضادات سے بھرپور ہے۔ غلا م داری سماج نے قدیم اشتراکیت کے فلسفے کو، جاگیرداری سماج نے غلام داری کے اور صنعتی سماج نے جاگیرداری سماج کے فلسفوں کو چیلنج کیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہر فلسفہ اپنے سے قبل فلسفے کی نفی کر کے ایک تضاد کے نتیجے میں جنم لیتا ہے اور ہر نیا فلسفہ اپنے سے پرانے فلسفے کے کچھ حصوں کو اپنے اندر ضم بھی کر لیتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی سماج میں متضاد فلسفوں کا جنم لینا اس سماج میں موجود متضاد طبقوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ہی نظام کے اندر تضاد پک رہا ہوتا ہے جو کہ اپنا اظہار بڑے واقعات کی، مثلاََ جنگوں، بحرانوں اور انقلابات کی صورت میں کرتا ہے۔ تاریخ کا سفر کم از کم اب تک اسی طرح سے جاری و ساری رہا ہے۔
ذرائع پیداوار کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا کو سمجھنا اور بھی آسان ہوتا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار اور تکنیک کی جو ترقی دو سو سالوں میں ہوئی اس کی مثال ہمیں پوری انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی (سوائے سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کی ابتدائی دہائیوں کے)۔ اس عہد میں تکنیک میں جدت اور سائنس کی حاصلات، فلسفے کی اہمیت پر سبقت لے گئیں۔ ہر نظام کی طرح موجودہ نظام میں بھی بہت سے فلسفے سامنے آئے، جن میں سے بیشتر فلسفوں کا مطمأ نظر اسی نظام کی بقا تھا۔ لیکن کچھ سوالات جواب طلب ہیں۔ ۔ ۔ فلسفہ کا کردار کیا ہے؟کیا سائنس کی بے پناہ ترقی کے پیش نظر آج بھی ہمیں اس کی ضرورت ہے؟ کیا انسان کی فطرت کے خلاف جدوجہد مکمل ہو چکی ہے؟ کیا یہ کبھی مکمل ہو سکتی ہے؟ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج کے دور کی تمام تر ترقی اور حاصلات سے کیا دنیا کے تمام انسان مستفید ہو رہے ہیں؟ DNA اور Stem Cell پر ہونے والی ریسرچ سے کیا دنیا میں بیماری کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ زراعت میں نئی دریافتوں، ایجادات اور حاصلات سے کیا بھوک ختم ہوگئی ہے؟ کیا آج، اکیسویں صدی میں دنیا کے تمام تر انسان لکھنا پڑھنا جانتے ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب نہ صرف نفی میں ہیبلکہ یہ تمام مسائل پہلے سے زیادہ گھمبیر صورت اختیار کر چکے ہیں اور وجہ منافع پر مبنی یہ طبقاتی نظام ہے جہاں تمام تر ترقی، حاصلات، علوم، سکولوں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کی خدمات برائے فروخت ہیں۔ ان سہولیات تک محض ایک مخصوص طبقے کو رسائی حاصل ہے اور انسانوں کی اکثریت ان سے محروم ہے۔ ایک عہد میں سماج کو ترقی دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کا کردارآج اپنی الٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ انسان کی ہزاروں سالوں کی محنت، علم اور فلسفے کو بورژوا طبقے نے اپنی تجوریوں میں قید کر لیا ہے۔ جو سوچ اور فلسفے سرمائے کے پجاریوں نے پیش کئے ہیں وہ محض اسی متروک نظام کادفاع کرتے ہیں۔ جو فلسفے اس نظام کو رد کرتے ہیں انہیں مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ منافع خوری پر مبنی اس نظام میں سوچ اور فلسفے سمیت ہر چیز برائے فروخت ہے۔ غربت سے بدحال آبادی کی اکثریت کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ نوجوانوں کی بات کی جائے تو ایک عام طالب علم کو مقابلے بازی کی دوڑ میں مصروف رکھا جاتا ہے اور سوال کرنا جرم بنا دیا گیا ہے۔
آج کے جدید عہد میں ہماری زندگی ہمارے آباؤ اجداد سے قدرے آسان ہے۔ ہر نسل اپنے سے پچھلی نسل سے بہتر صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اگر کوئی طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے فلسفے کو نہیں سمجھ سکتااور یہ فلسفہ بہت مشکل ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ تمام تر فلسفہ ہماری میراث ہے۔ وقت، تاریخ اور واقعات ہر فلسفے کی تجربہ گاہ ہوتے ہیں۔ انسان ایک زندہ وجود ہے اور اس سے بھی اہم کہ وہ معروضی کائنات کے بارے میں باشعور ہے۔ زندگی، شعور اور فلسفے کاکروڑوں سالوں کا ارتقا ہماری میراث ہے، جس سے ہمیں مستفید ہونا چاہئے۔ تمام تر جاندارخوراک حاصل کرتے ہیں، افزائشِ نسل کرتے ہیں اور مر جاتے ہیں، لیکن انسان کی زندگی اتنی سادہ نہیں ہے۔ انسان نے اجتماعی محنت اور شعور سے فطرت کو سمجھاہے۔ اس نے اپنے ماضی کو سمجھا ہے اور بہتر مستقبل کے لئے جدوجہد کی ہے، یہ خصوصیت کسی اور جاندار میں نہیں ہے۔
موجودہ نظام کے زوال کے عہد میں فلسفے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تاریخ کا سفررک نہیں سکتا۔ ہمیں شعوری طور پر اس کی نئی سمت کے لئے سوال کرنا چاہئے۔ ایک نئی تبدیلی کے لیے متبادل طرز فکر کی تلاش ضروری ہے لیکن متبادل فلسفہ کیا ہو سکتاہے؟اٹھارویں صدی میں صنعتی سرمایہ داری کے عروج کا وقت تھا۔ نو مولود سرمایہ داری نے سماج کو بے پناہ ترقی دی لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے داخلی تضادات کے زیر اثر مارکسزم کی شکل میں اپنی نفی کو بھی جنم دیا۔ تب سے لے کر آج تک بیشتر فلسفے مارکسزم کو رد کرتے یا اسے مسخ کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہی کچھ ڈارونزم کے ساتھ بھی ہوا۔ لیکن فلسفہ صرف افراد کی ذاتی سوچ کا نام نہیں ہوتا۔ فلسفہ (چاہے وہ خیال پرست ہی کیوں نہ ہو) کسی بھی عہد کی ٹھوس مادی حقیقتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ مارکسزم کی فلسفیانہ بنیاد جدلیاتی مادیت ہے۔ فلسفہ میں مارکس کا انقلابی کردار یہ ہے کہ اس نے ہیگل کی جدلیات کو خیال پرستی کے خول سے نکال کرمادہ پرستی کی بنیاد پر استوار کیا۔ جدلیاتی مادیت کی اساس مسلسل تبدیلی کا عمل ہے۔ اینگلز نے اپنی کتاب ’فطرت کی جدلیات‘ میں لکھا تھا کہ’’ مادہ اور حرکت (جسے اب ہم توانائی کہتے ہیں) کبھی الگ نہیں ہوسکتے۔ ۔ ۔ حرکت مادے کی ہی ایک خاصیت ہے۔ حتیٰ کہ سکوت بھی حرکت کی ایک خاص قسم ہے۔‘‘ آج کی جدید سائنس کی حاصلات بھی جدلیاتی مادیت کو درست ثابت کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں لکھی گئی ایلن ووڈز اور ٹیڈ گرانٹ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس‘‘ کو آج دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں حوالے کی کتاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ مارکس نے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کا تجزیہ کرنے کے بعد سوشلزم کو مادی بنیادیں فراہم کیں اور متبادل طرزِ معیشت (منصوبہ بند معیشت) کا نظریہ پیش کیا۔
روس میں سٹالنزم کے انہدام کے بعدسرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے جشن منائے اور واویلہ کیا کہ سوشلزم اور مارکسزم ناکام ہو گئے ہیں ا ورسرمایہ دارانہ نظام ہی انسانوں کے لیے آخری نظام ہے۔ بمشکل ڈیڑھ دہائی ہی گزری تھی کہ ان کا جشن، ماتم میں بدل چکا ہے۔ جوئے اور سٹہ بازی کی معیشت نے سرمایہ داری کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے جو معاشی ابھار دیا تھا وہ 2008ء کے بعد سے اپنی الٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس نظام کے تمام معیشت دان اور فلسفی اپنے نظام کو بچانے کے لیے کوئی نئی ترکیب یا فلسفہ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ جو تراکیب بھی وہ استعمال کرتے ہیں وہ بحران کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔ آج وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’مارکس درست تھا۔‘‘ جس فلسفے کی موت کا اعلان وہ کرچکے تھے، آج اپنے نظام کے بحران کو سمجھنے کے لیے دوبارہ اسی کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ مارکسزم آج دنیا بھر کے تمام محنت کشوں اورنوجوانوں کے لیے واحد متبادل فلسفہ ہے۔ مارکسزم کا فلسفہ سوچ کا وہ ’ایمبریو‘ ہے جس سے نیا سماج جنم لے سکتا ہے۔ تبدیلی نا گزیر ہے، لیکن اسے درست سمت دینے کے لئے، اس سماج کو بدلنے کے لئے، اپنی علمی وراثت کو چند سرمایہ داروں کی قید سے آزادی دلانے کے لئے ضروری ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم فلسفے کو سمجھیں تا کہ دنیا کو سمجھ اورتبدیل کر سکیں۔ ایلن وڈز اپنی نئی کتاب ’’مارکسزم: عہد حاضرکا واحد سچ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ماضی میں فلسفیوں کی جانب سے جو بیشتر سوالات اٹھائے گئے، انہیں سائنس نے حل کیاہے لیکن اس کے باوجود یہ سمجھ لینا بھی ایک بہت بڑی غلطی ہوگی کہ فلسفہ سائنس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ فلسفے کے دو پہلو ایسے ہیں جو آج تک مستند ہیں۔ وہ ہیں رسمی منطق اور جدلیات۔ اینگلز کا اصرار تھا کہ ’’سائنس کیلئے تصوف میں پھنسی ہوئی جدلیات ایک مطلق ضرورت بن جاتی ہے۔‘‘ بلاشبہ جدلیات کے پاس کوئی جادوئی صفت نہیں ہے کہ وہ جدید فزکس کو درپیش مسائل حل کرسکے۔ اس کے باوجود بھی ایک جامع اور مربوط فلسفہ سائنسی تحقیق کی رہنمائی میں نتیجہ خیز معاونت کرسکتا اور اسے غیر منطقی اور تصوفانہ مفروضوں سے بچانے میں کردار ادا کرسکتاہے۔ ان غیر منطقی مفروضوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آج سائنس کو جن بے شمار مسائل کا سامنا ہے اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ٹھوس فلسفیانہ بنیادوں سے محروم ہے۔‘‘
اس وقت پرانا سماج اپنے قدموں پر کھڑا کھڑا مر رہاہے۔ ایک نیا سماج جنم لینے کا منتظر ہے۔ ایک ایسا نیا سماج جہاں تضاد انسانوں کے درمیان نہیں بلکہ انسان اور فطرت کے مابین ہوگا۔ جہاں فطری عوامل کو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ہراقلیطس نے کہا تھا کہ ’’فطرت چھپانا پسند کرتی ہے‘‘، لیکن جس طرح فطرت چھپانا پسند کرتی ہے ویسے ہی انسان جاننا پسند کرتا ہے۔ جیت کس کی ہوگی، یہ نسل انسانی کی کاوش پر منحصر ہے!