تحریر: |آصف لاشاری|
دنیا بھر میں سامراجیت کا کھلواڑ جاری ہے اور ہر جگہ ہی یہ نظام اپنی وحشتوں سمیت پنجے گاڑے ہوئے ہے اور مزید بربادیاں پھیلائے جا رہا ہے ۔ کہیں یہ کشت و خون کی صورت میں، کہیں غربت و بیروزگاری اور خودکشیوں کی صورت میں اور کہیں سامراجی حملوں اور بنیاد پرستی کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ آج افغانستان اور عراق سمیت زیادہ ترمشرق وسطیٰ سامراجیوں کی پالیسیوں اور ان کے گھناؤنے کھیلوں کے نتائج بھگت رہا ہے اور وہاں پچھلے چند سالوں میں لاکھوں لوگ سامراجیوں کے اس خونی کھلواڑ میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ کروڑوں لوگ بالواسطہ اس کا شکار بنے ہیں۔ کئی شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوئے ہیں اور لاکھوں لوگ اکیسویں صدی میں ضرورت کی ہر چیز دنیا میں وافر مقدار میں ہونے کے باوجود بھوک سے مرے ہیں اور ابھی بھی مر رہے ہیں۔
ہم جس معا شرے میں رہتے ہیں وہاں نوجوانوں کا ایک حصہ جہادیوں سے ہمدردی رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ جہادی تنظیمیں سامراجیت کے خلاف اور مسلم امہ(جو خود میں ایک مغالطہ ہے) کے مفادات کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ایسے میں وہ سامراجیت کے مظالم اور خطوں کی بربادی کی مثالوں سے ان جہادی تنظیموں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی سماج میں ایسے نوجوان اور لوگ بھی ہیں جو تمام قتل و غارت اور انسانیت کی بربادی کی ذمہ داری مذہب پر ڈالتے ہیں اور سامراج کو معصوم ثابت کرنے پر بضد نظر آتے ہیں۔
ایسے میں کسی درست نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سامراجیت ہے کیا ؟ اور ہمیں اس کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا اور سامراجیت اور جہادیت یا بنیاد پرستی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس تعلق کو سمجھنا پڑے گا۔
ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی اکثریت سامراجیت یا سامراج کو مکمل طریقے سے نہیں سمجھتی ہے اس لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سامراجیت ہے کیا؟ لینن نے اپنی کتاب ’’سامراجیت، سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں سامراجیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
آسان الفاظ میں جب کوئی ریاست یا کسی ریاست کا حکمران طبقہ یا سرمایہ دار طبقہ اپنے مفادات کے لیے کسی خطے یا ملک میں مداخلت کرتاہے، وہ مداخلت چاہے براہ راست فوجی حملے سے ہو یا براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے اس مظہر کو سامراجیت کا نام دیا جاتا ہے اور موجودہ دور کی سرمایہ داری کا کردار سامراجی ہے۔ آج ہمیں دنیا بھر کے حکمران طبقات کے درمیان مفاداتی لڑائیاں نظر آتی ہیں اور دنیا بھر کے حکمرانوں کے اپنے سامراجی عزائم ہیں اور دنیا بھر میں سامراجی اپنے مفادات کے لیے مذہب، قومیت اور لسانیت کو استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں جہادیوں اور سامراجیت کے آپس میں تعلق کو واضح کرنے کے لیے ماضی کی طرف جانا پڑے گا اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی کہ ہمیں اب جو جہادی تنظیمیں اور تحریکیں نظرآتی ہیں ان کا آغاز کب، کیسے اور کن حالات میں ہوا اور جہاد کے نام پر برپا کی جانی والی بربریت کی بنیاد کیا ہے؟ یقینی طور پر ہمیں بنیاد پرستی کی بنیادوں کو کسی آسمانی صحیفے میں تلاش کرنے کی بجائے اس خطے کے سماجی حالات میں تلاش کرنا چاہئے۔
اکتوبر 1917ء کو ہونے والے بالشویک انقلاب نے دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کو جھنجوڑا اور پوری دنیا پر محنت کشوں کی اس فتح کے اثرات مرتب ہوئے اور دنیا کے ہر خطے میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوتیں ہوئیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں استحصال زدہ عوام اپنے حقوق کے لیے تاریخ کے میدان میں داخل ہوئے۔ دنیا بھر میں برپا ہونے والی بغاوتوں میں سے کئی سوویت یونین میں موجود سٹالنسٹ بیوروکریسی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اور کئی دوسری وجوہات کی بنا پر جن میں سامراجی مداخلت، محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے لیے مذہبی، نسلی اور قومی تعصبات کا استعمال شامل ہیں، ایک کامیاب انقلاب میں تبدیل نہیں ہو سکیں۔ دنیا کی تاریخ میں ہمیں جہاں بھی انقلاب ناکام ہوتے دکھائی دیے ہیں وہاں ہمیں رد انقلاب کی بربریت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمیں بیسویں صدی میں مشرق وسطیٰ میں بہت سی بغاوتیں برپا ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں بہت مضبوط کمیونسٹ پارٹیاں موجود رہی ہیں۔ عراق، شام، الجیریا، ایران اور سوڈان میں بیسویں صدی کے دوسرے وسط میں سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ، مقامی و غیر ملکی سامراج کی لوٹ مار کے خلاف بغاوتیں برپا ہوئیں۔ یہ بغاوتیں کمیونسٹ پارٹیوں کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کے مفادات کی پالیسیوں کی وجہ سے ناکام ہوئیں اور ان پارٹیوں کے ناکام ہونے سے پیدا ہونے والے خلا میں مذہبی انتہا پسند قوتوں کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کمیونسٹ پارٹیاں منتشر ہو گئیں اور بہت سے کمیونسٹ ’سابقہ کمیونسٹ‘ ہو گئے۔ اس عمل نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ماضی میں امریکی سامراج نے سرمایہ داری کے خلاف ابھرنے والی بغاوتوں کے خلاف جن مذہبی شدت پسند قوتوں کو پیدا کیا، ان کی تربیت کی، انہیں فنڈنگ کی اب ان تحریکوں کے ناکام ہو جانے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وہی قوتیں جو امریکی سامراج نے خود پیدا کی تھیں اب امریکہ دشمن بن گئیں اور امریکہ نے ان تنظیموں کو دنیا کے خلاف خطرہ قرار دے دیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کو تقویت فراہم کرنے کے لیے اور اپنے سامراجی عزائم کے لیے کسی نہ کسی دشمن کی ضرورت تھی وہ ضرورت اس نے اپنی بنائی ہوئی ان جہادی تنظیموں سے پوری کر لی۔
کمیونسٹ پارٹیوں کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو مشرق وسطیٰ میں اور دوسرے خطوں میں اسلامی شدت پسند تنظیموں نے پر کیا اور یوں یہ امریکہ اور مقامی حکمرانوں کے خلاف مصنوعی نعرے بازی اور استحصال اور نا انصافی کے خلاف خطبات کے ذریعے لوگوں میں اپنی بنیادیں بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان مذہبی تنظیموں کی اشرافیہ اور حکمران طبقے کے خلاف بیان بازی اور جہاد کے اعلان سے استحصال زدہ عوام کی لمپنائزڈپرتوں کو اپنے غصے کا اظہار ملا اور اس طرح یہ تنظیمیں سماج کی پسماندہ پرتوں کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوتی گئیں۔
ان تنظیموں کی کامیابی کی دوسری وجوہات امریکی سامراج کی پشت پناہی، مقامی روایتی حکمرانوں کے ساتھ ان کے تعلقات، قبائلیوں کی مالیاتی امداد اور عرب حکمرانوں کی امداد وغیرہ شامل تھیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ابھرنے والی بغاوتوں کو ختم کرنے کے لیے ان مذہبی شدت پسند تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی تھی اور ان کے جنم سے لے کر اب تک ان تنظیموں کے سامراج کے ساتھ گہرے تعلقات رہے ہیں اور ذاتی مفادات کی غرض سے ان تعلقات میں کبھی تعطل بھی آجاتا ہے مگر ذاتی مفادات کے تحت تعلقات پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تب سے لے کر اب تک ان جہادی تنظیموں کے نام بدلتے رہے ہیں مگر ان کا کردار ایک ہی رہا ہے۔ ہمیں اس سب سے سامراج اور جہادی تنظیموں کے آپسی تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔ یہ مذہبی جہادی تنظیمیں سرمایہ داری کے تحفظ کے لیے ہی بنائی گئی تھیں اس لیے یہ سامراجیت (جو سرمایہ داری کی ہی شکل ہے) کا خاتمہ کیسے کر سکتی ہیں؟ ایسا سوچنا بیوقوفی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور اسی طرح سامراج بھی ان مذہبی شدت پسند تنظیموں کو چاہے بھی تو ختم نہیں کر سکتا کیونکہ پہلے غربت، محرومی اور بربادی کو ختم کیے بغیر ان جہادی تنظیموں کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ دوسرے سامراج کو اپنے نظام کو تقویت فراہم کرنے کے لیے ان تنظیموں کی ضرورت ہے۔
سامراجیت کو شکست دینے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا بھر سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے اور یہ کام یہ جہادی تنظیمیں کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتیں۔ ان جہادی تنظیموں کے دہشتگردی کے حملوں سے سامراج کو تقویت ملتی ہے اور اس کا بہانہ بنا کر وہ دنیا بھر میں عام مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتا ہے جس سے فائدہ پھر ان جہادی تنظیموں کو ہوتا ہے جو بڑی تعداد میں مسلمان نوجوانوں کو اپنی تنظیموں میں بھرتی کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہمیں لبرل حضرات نظرآتے ہیں جو امریکی سامراج کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں اور سارا لزام مذہب پر ڈال دیتے ہیں۔ ان حضرات کو دنیا بھر میں امریکہ کی طرف سے بہایا جانے والا خون نظر نہیں آتا۔ یہ لبرل حضرات سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہیں اور اسے ایک فطری اور انصاف پر مبنی نظام سمجھتے ہیں۔ مذہبی جہادی تنظیمیں ہوں یا لبرل حضرات یہ دونوں ہی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ہیں۔
سامراج اور جہادی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی ہیں۔ یہ ایک دوسرے کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ یہ مذہبی جہادی تنظیمیں کل بھی سامراج دوست تھیں، کل بھی یہ حکمران طبقے کی حامی اور محنت کشوں کی دشمن تھیں اور آج بھی یہ سرمایہ داروں کی دوست اور محنت کشوں کی دشمن ہیں کیونکہ اسی نظام سے ہی ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ دنیا بھر کے استحصال زدہ کروڑوں محنت کش ہی وہ قوت ہیں جو دنیا بھر کی دولت کو پیدا کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتے ہیں اور محنت کش طبقہ ہی وہ قوت ہے جو دنیا بھر سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سامراجیت اور اس کے پیدا کردہ مذہبی درندوں کو ختم کر سکتا ہے۔