|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: سرخا رام|
دنیا کے غریب ترین ممالک بڑھتے ہوئے قرضوں کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ کورونا وباء نے ان کے ریاستی خزانوں کے اوپر بھاری بوجھ میں مزید اضافہ کیا۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک کی آمدنی کا اہم ذریعہ خام مال ہے جو پہلے ہی سے اس کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے۔ حالیہ بحران نے جہاں ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستوں پر گہرے نقوش چھوڑے، وہاں یہ ممالک بالکل بے یار و مددگار ہو کر رہ گئے۔
جوبلی ڈیٹ کیمپئین (برطانوی خیراتی ادارہ) کے مطابق دنیا کے 52 ممالک ابھی سے قرضوں کے بحران کا شکار ہیں اور اس کے علاوہ مزید 63 کو یہ خطرہ لاحق ہے۔ آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ اس سال ”ابھرتی ہوئی“ معیشتوں کے قرض کی شرح جی ڈی پی کے دس فیصد تک بڑھ جانے کا امکان ہے۔
چند سال پہلے معیشت دان ان میں سے کئی ممالک کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے، جب خام مال کی خصوصاً چین میں بہت مانگ تھی اور ان سے تیار کی جانے والی اشیاء کی قیمتیں عروج پر تھیں۔ اس عرصے میں BRICS (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) اور ابھرتی ہوئی منڈی کے خیالات عام تھے۔ 2014ء میں خام مال کی منڈی زوال کا شکار ہو گئی اور اب یہ ممالک ایک ایک کرکے شدید بحران میں داخل ہو چکے ہیں جن میں صرف چین ابھی کے لیے بحران کو ٹالنے میں کامیاب ہوا ہے۔
اگرچہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی نسبت ان ممالک کے قرضوں میں بڑھوتری کم پیمانے پر ہے مگر وہ ان کی ادائیگی پیسے چھاپ کر (Quantitative Easing) نہیں کر سکتے۔ تھوڑی مدت کے لیے بھی نہیں کر سکتے۔ ان ممالک میں نجی بانڈ مارکیٹیں (جہاں بانڈز کی صورت میں قرضوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے) مارچ کے مہینے سے بند پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کے مطابق کسی بھی صحارہ کی جنوبی افریقی حکومت نے مارچ کے مہینے سے نئے بانڈز جاری نہیں کیے۔
ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے خسارے تاریخی بلند ترین سطح پر ہیں (اس سال امریکی ریاست کا وفاقی خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 15 فیصد تک پہنچ جائے گا) جس کو وہ بے مثال مقدار میں پیسے چھاپ کر ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نتیجتاً دس سالہ بانڈز کے لیے ادھار کی قیمت 1 فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔ جرمن اور فرانسیسی بانڈز تو منفی میں جا چکے ہیں۔ جنوبی افریقی بانڈز بڑے فرق کے ساتھ تقریباً 9.5 فیصد پر ہیں۔
ان ممالک نے اب تک جو قرضے لیے ہیں، وہ اب 2001ء کی سطح پر ہیں جب بہت بڑی مقدار میں قرضے لیے گئے تھے۔ جوبلی ڈیٹ کمپئین کے مطابق اس سال 76 غریب ترین ممالک باقی حکومتوں کو 1800 سو کروڑ ڈالر، عالمی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو 1200 کروڑ ڈالر اور نجی قرض خواہوں، بینکوں اور ہیج فنڈ (سرمایہ کار کمپنیوں) کو 1000 کروڑ ڈالر قرض واپس ادا کریں گے۔
آئی ایم ایف نے کورونا وباء کے پیشِ نظر، خصوصاً کم اور درمیانی آمدن والے ممالک کے لیے 10 ہزار کروڑ ڈالر کی فخریہ پیشکش کی تھی مگر اس کا ایک بڑا حصّہ قرض ادائیگی پر خرچ ہو جائے گا۔ مزید برآں اس سے قرض کے ناقابلِ برداشت انبار میں اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف کو ان کروڑوں لوگوں سے کوئی غرض نہیں جو اس کی پالیسیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر آئی ایم ایف بھی دیکھ رہا ہے کہ صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہے۔ ایک جانب اگر یہ ممالک دیوالیہ ہو جاتے ہیں تو سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں دیوالیہ پن کی ایک بڑی لہر اٹھ سکتی ہے جس سے مغربی بینکوں کے نظام کی بنیادیں لرزنا شروع ہو جائیں گی۔ اسی طرح اگر دوسری جانب حکومتیں قرض واپس کرنے کی کوشش کریں گی تو وہ انقلابی تحریکوں کے لیے چنگاری ثابت ہوگی۔
اس لیے اب آئی ایم ایف نے قرض واپسی کی مدت 2021ء تک بڑھا دی ہے۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ یہ سال کسی طرح گزر جائے تو پھر اگلے سال وہ معمول کے مطابق سابقہ نو آبادیوں کا خون چوسنا جاری کر دیں گے۔ ان کو ہم ایک بری خبر دیتے چلیں کہ ایسا نہیں ہونے والا۔
قرضوں کا ٹائم بم
یہ حقیقت کہ اس پیسے کا ایک بڑا حصّہ واپس نہیں کیا جائے گا، اب قرض خواہوں پر آشکار ہو رہی ہے اور لبنان، ارجنٹینا اور ایکواڈور کے اندر قرضوں کو ایک نئی ترتیب دی جا چکی ہے۔ زیمبیا اور روانڈا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
یہ قرض غریب ممالک کے لیے ایک چکی کے مترادف ہے جس میں وہ پستے چلے جا رہے ہیں۔ سرمایہ کاری وغیرہ کو عموماً اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگر اکثر اوقات ادھار، ملک کے باشندوں کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ قرض دار ممالک کو خریداری کا (عموماً اسلحے کی) قابل بنایا جا سکے اور اس کے علاوہ اس عمل میں شریک سب لوگوں کے لیے پیسے بٹورنے کے بڑے مواقع میسر آتے ہیں۔
اس حوالے سے موزمبیق کی مثال لی جا سکتی ہے جہاں کریڈٹ سوئس (سوئٹزرلینڈ میں واقع عالمی سرمایہ کار کمپنی) کے کچھ بڑے بڑے بینکاروں نے حکومت کو 200 کروڑ ڈالر کا غیر قانونی قرضہ دیا جس کو مچھلیاں پکڑنے کی کشتیوں اور پولیس کی گشتی کشتیوں پر خرچ کیا گیا اور جسے بعد ازاں کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اس میں 50 کروڑ ڈالر کا سرے سے کوئی حساب ہی موجود نہیں۔ اس کے علاوہ امریکی ریاست کے سرکاری وکیلوں کا دعویٰ ہے کہ کشتیوں کی خریداری پر بمشکل 100 کروڑ ڈالر خرچ کیا گیا جس میں سے 15 کروڑ ڈالر موزمبیق کے سرکاری افسران کی جیبوں میں اور 5 کروڑ ڈالر قرض کا انتظام کرنے والے بینکاروں کی جیبوں میں چلے گئے۔ اگرچہ موزمبیق نے قرض واپسی روک دی ہے مگر ان کی قانونی حیثیت ابھی تک واضح نہیں ہے۔ کریڈٹ سوئس نے قرض جاری کرتے ہی اسے جلد بیچ دیا اور موزمبیق نے حالات کو سدھارنے کے لیے اب برطانیہ میں عدالتی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
اس نوعیت کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں مگر یہ واقعہ منظر عام پر اس لیے آ گیا کیونکہ اس نے موزمبیق کی معیشت کو ڈبونے میں بڑا کردار ادا کیا۔ حقیقت یہی ہے کہ سابقہ نو آبادیوں میں اس قسم کے واقعات عام ہیں جن کی پشت پناہی مغربی بینک اور حکومتیں کرتی ہیں۔
قرض کا یہ انبار اب سامراجی ممالک کے مالی استحکام کے لیے خطرے کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ عالمی معیشت میں ترقی کے بغیر قرض دار ممالک کے لیے قرض واپس کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ قرض واپسی کی مدت میں طوالت اور مزید قرضوں کی وصولی سے اس لمحے کو صرف ملتوی ہی کیا جا سکتا ہے جب اس بوجھ سے موجودہ نظام کی کمر ٹوٹ جائے گی۔