تحریر:| آصف لاشاری|
آئے روز اخبارات قتل و غارت گری، چوری، ڈکیتی، غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل، اور ا س طرح کے ظلم و جبر کی ہزاروں واقعات سے بھرے ہوئے ملتے ہوئے ہیں۔ ان میں انصاف کے نہ ملنے کی فریادیں دیکھنے کو ملتی ہیں، اہل قتدار سے اور قانون کے اداروں سے انصاف مہیا کرنے کی منتیں اور سماجتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اخبارات میں رپورٹ ہونے والی خبروں کی اکثریت کا تعلق شہری درمیانے طبقے اور دیہات کے کسان طبقے کی زر، زمین اور زن پر ہونے والے جھگڑوں سے ہوتا ہے۔ ان اخبارات میں محنت کش طبقات کے اصل مسائل رپورٹ نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو وہ توڑ مروڑ کے مسخ شدہ شکل میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ محنت کشوں کی مالکان کے ظلم اور استحصال کے خلاف لڑی جانی والی لڑائیوں کا ذکر اخبارات میں بہت کم ملتا ہے۔ اجرتوں میں اضافے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ جس طرح کے لڑائی جھگڑے کے واقعات اخبارات میں رپورٹ ہوتے ہیں اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں سے زیادہ ترواقعات زر، زن اورزمین کی ملکیت کی وجہ سے ہوتے ہیں اور اکثر جھگڑے ایک ہی خاندان کے افراد کے درمیان ہوتے ہیں۔ اس سے نظر آتا ہے کہ خاندان کا ادارہ موجود نظام میں کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور خاندان کا یہ بحران نظام کے بحران کا نتیجہ ہے۔ اخبارات میں اس طرح کی خبروں پر لوگوں کا ردعمل نارمل ہوتا ہے۔ لوگوں کا یہ رویہ جہاں لوگوں کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے وہیں یہ لوگوں کا اس نظام پر سے ختم ہوتے ہوئے اعتبار کو بھی واضح دکھاتا ہے۔ زمین جائیداد کی ان لڑائیوں اور خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی وجوہات کیا ہیں اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی و غربت میں اضافے سے لوگوں میں بڑھتا ہوا معاشی عدم تحفظ کا احساس ، مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی، آبادی کی بڑی اکثریت کی تعلیم سے دوری، معاشرے میں پائی جانے والی بیگانگی اوردرمیانے طبقے کا امیر سے امیر تر ہونے کا نفسیاتی عارضہ شامل ہیں۔
ایسے میں ہمیں عدل و انصاف فراہم کرنے کے نعرے بھی سنائی دیتے ہیں اورکہا جاتا ہے کہ اگر معاشرے میں انصاف فراہم کر دیا جائے تو سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔ اس کے لئے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا پڑے گا کہ کیا موجودہ نظام میں حقیقی انصاف کا حصول واقعی ممکن ہے بھی یا نہیں؟ سب سے پہلے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انصاف ہے کیا؟ کیا ایک خاندان کے اندرمعاشی عدم تحفظ کا شکار، غربت میں گھرے افراد کی چند مرلے کی ملکیت پر ہونے والے جھگڑے میں ملوث افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنا ہی انصاف ہے؟ کیا ایسی سزاؤں سے یہ لڑائی جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں یا اس سے مسائل اور بڑھتے ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ اس سے کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہاں مگر پولیس کے محکمہ سے لے کر عدلیہ کے ججز اور وکلاء تک ان لڑائی جھگڑوں کے واقعات سے اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔ غربت میں گھرے لوگ چند مرلہ کی ملکیت کی خاطر لڑتے ہیں اور آخر میں ساری زمین جائیداد، وکلاء، ججز اور پولیس کو کھلا کر گھر آ بیٹھتے ہیں۔ ایک ہی طبقے کے دو افراد میں سے کسی کو جیل میں ڈال دینا انصاف نہیں ہے۔ انصاف یہ ہے کہ جوکسان دن رات جاگ کر کھیت کاشت کرتا ہے، اسے اس کھیت کی پیداوار کاپورا اجر ملنا چاہئے۔ یہ انصاف نہیں ہے کہ اس کی ساری پیداوار آڑھتی،ٖمل مالکان، فوڈ سنٹرز لے اڑیں اور کسان کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جائے۔ اس کی غربت اور تنگدستی میں اور اضافہ ہو جائے اور وہ اپنی ہی پیدا کردہ اجناس کے لیے ترستا رہے۔ انصاف یہ ہے کہ کسی فیکٹری، کارخانے میں کام کرنے والے محنت کش کو اس کی محنت کا پورا اجر ملے۔ یہ انصاف نہیں ہے کہ اس کی محنت سے پیدا کردہ دولت سے چند سکے اس کی طرف اس لیے اچھال دیے جائیں تا کہ وہ زندہ رہ سکے اور مزید کام کر سکے اور مزید کام کرنے والے مزدوروں کو جنم دے سکے۔ کیا انصاف یہی ہے کہ کم عمر بچے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے، ہوٹلوں، کیفے ٹیریاز، مکینک کی دکان، فیکٹریوں، کارخانوں اور گلی محلوں میں کم اجرت کے عوض کئی گھنٹے کام کریں اور ہر قدم پر گالی اور دھتکار سہیں۔یا انصاف یہی ہے کہ خواتین گھروں ،محلوں ،گلیوں ،فیکٹریوں ،کھیتوں ،دفتروں میں سخت محنت کرنے کے باوجود غیرت کے نام پر درندگی سے قتل ہوتی رہیں۔ چوری کے مرتکب شخص کے ہاتھ کاٹ دینا انصاف نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مسئلہ حل ہوتا ہے۔ حل یہ ہے کہ ان وجوہات، حالات کا خاتمہ کیا جائے جو ایک انسان کو چور ڈکیت بناتے ہیں ۔ جرائم کا خاتمہ مجرموں کو ختم کرنے سے نہیں بلکہ جرائم کی مادی وجوہات کے خاتمے سے ممکن ہو سکتا ہے۔
ایک طبقاتی نظام میں ریاست اور اس کے تمام اداروں کا کردار بھی طبقاتی ہوتا ہے۔ ریاست اور اس کے تمام اداروں کا مقصدتمام لوگوں کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنا نہیں بلکہ صاحب ملکیت طبقے کی ملکیت کی حفاظت کرنا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کتنے لوگوں میں، پولیس تھانوں، عدالتوں کے اخراجات اٹھانے کی سکت ہے؟ محنت کشوں کی اکثریت پولیس تھانوں، وکلاء اور عدالتوں کے چکر لگانے کی سکت نہیں رکھتی۔ اور محنت کش عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ پولیس تھانوں، عدالتوں میں ان کی طرف کیسا ہتک آمیز رویہ روا رکھا جاتا ہے اور صاحب دولت افراد کی کس طرح خوشامد اور چاپلوسی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں موجود لیبر کورٹس، لیبر دشمن اور مالکان کی رکھیل کا کردار رکھتی ہیں۔ پانچ مہینے کی رکی ہوئی تنخواہوں کے حصول کے لیے محنت کشوں کو پانچ سال ان کورٹس کے دھکے کھانے پڑتے ہیں مگر انصاف پھر بھی نہیں ملتا۔
’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کی قوت محرکہ سرمایہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا سرمایہ کیا چیز ہے؟ سرمایہ محنت کشوں کی لوٹی ہوئی محنت کی مجتمع شدہ شکل ہے۔ یہ وہ قدر زائد ہے جو محنت کش سے پیداوار کے عمل میں چھین لی جاتی ہے۔ سرمایہ دار پیداواری عمل میں چند گھنٹوں کی محنت کے برابراجرت دے کر محنت کش سے زیادہ گھنٹے کام لیتا ہے اوراجرت سے زیادہ گھنٹوں کا کا م سرمایہ دار کا منافع یا قدر زائد کہلاتا ہے۔ کارل مارکس نے ’’داس کیپیٹل ‘‘ میں سرمایہ داری، اس کی تاریخ،کے اصلی کردار کاجدلیاتی مادیت کے ذریعے سائنسی تجزیہ پیش کیا اور اس نظام میں محنت کشوں کی قوت محنت کے استحصال کو سائنسی طریقہ کار سے ثابت کیا۔ مارکس نے ثابت کیا کہ سرمایہ داروں کا منافع در اصل وہی قدر ہی جو محنت کشوں سے پیداواری عمل میں لوٹ لی جاتی ہے۔ محنت کشوں کو ان کی چند گھنٹوں کی قوت محنت کی قدر دے کر ان سے فاضل کام کرایا جاتا ہے جو بعد میں سرمایہ داروں کے منافعوں کا تعین کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی فیکٹری میں محنت کش کو 300 روپے یومیہ اجرت دی جاتی ہے اور وہ محنت کش چار گھنٹوں میں اس اجرت کے برابر کام کر لیتا ہے مگر اس کے بعد بھی محنت کش کو کام کرنا پڑتا ہے اور باقی گھنٹوں کا کام جو محنت کش اجرت سے زائد کرتا ہے اس سے جو قدر پیدا ہوتی ہے اس پر سرمایہ دار کی ملکیت ہوتی ہے اور یہی قدر سرمایہ داروں کے منافعوں کا تعین کرتی ہے۔ اس لیے سرمایہ داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ محنت کشوں سے زیادہ سے زیادہ گھنٹوں کام لیں اور محنت کشوں کی اجرتوں کو کم سے کم تر کریں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ محنت کشوں کی اجرت میں اضافے اور کام کے اوقات کار کے کم ہونے کا مطلب ہے، سرمایہ داروں کے شرح منافع میں گراوٹ۔اور شرح منافع میں گراوٹ سرمایہ دار کبھی برداشت نہیں کر سکتے چاہے اس شرح منافع کے حصول کے لیے انہیں کتنی ہی انسانی جانوں کا ضیاع کیوں نہ کرنا پڑے۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں جہاں ریاستی انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو اور کسی قسم کا کوئی قانون موجود نہ ہو اور نہ ہی قانون پر عملداری موجود ہو، وہاں فیکٹریوں میں استحصال کا شکار محنت کش طبقے کو کہیں زیادہ استحصال کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں قیمتوں کے تعین کا کوئی قانون موجود بھی ہے تو بھی اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ پاکستانی فیکٹریوں میں بننے والی مصنوعات اور غیرملکی مصنوعات اپنی قدر سے کہیں زیادہ قیمت پر بیچی جاتی ہیں اور اور یہ فیکٹریاں ڈسٹری بیوٹرز سے لے کر چھوٹے دکان دار تک سب کوان مصنوعات کی فروخت پربڑے بڑے کمیشن ادا کرتی ہیں۔ چونکہ پاکستان میں قیمتوں کے تعین اور قیمتوں پر عملدرآمد کا کوئی نظام موجود نہیں ہے اس لیے زیادہ تر اجناس دکان دار اپنی مرضی کی قیمتوں سے بیچتے ہیں۔ لوٹ مار کے اس تمام عمل کا دکان دار طبقے کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ مہنگی اشیاء خریدنے کا حساب مہنگی اشیاء بیچ کر پورا کر لیتے ہیں اور یوں ساری لوٹ مار اور فیکٹریوں کے منافعوں سے لے کر، ڈسٹری بیوٹرز، دکان داروں کے کمیشن تک کا بوجھ محنت کی منڈی میں اپنی محنت فروخت کرنے والا محنت کش ادا کرتا ہے۔ چونکہ محنت کش کے پاس صرف اس کی قوت محنت ہوتی ہے اور زندہ رہنے کی سہولت کو حاصل کرنے کی خاطر وہ اپنی اس اکلوتی ملکیت کو سرمایہ دار کی طے کردہ اجرت پر بیچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے اوپر پڑنے والی اس تمام لوٹ مار کا بوجھ کسی اور پر نہیں ڈال سکتا اور دن رات کام کر کے اس بوجھ کو ادا کرتا ہے ۔
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی نا انصافی اوراستحصال موجود ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور انصاف دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ اور ایک کی صورت میں دوسرے کا ہونا ناممکن ہے۔ اور اس نا انصافی واستحصال کے خاتمے کے بغیر غربت، بے روزگاری، بھوک، جسم فروشی اور دیگر جرائم کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس ناانصافی و استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے سرمایہ دار حکمران طبقے سے سیاسی اقتدار چھیننا ضروری ہے۔ اس نا انصافی پر مبنی نظام کے خاتمے کے لیے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں دینا ہوگا اور پیداوار کا مقصد منافع کا حصول نہیں بلکہ انسانی ضرورت کی تکمیل ہونا چاہئے۔ اقلیتی صاحب ملکیت طبقہ سے ملکیت چھین کر اور اسے اکثریتی محنت کش طبقے کے حوالے کر کے ہی سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ طبقاتی استحصال کا خاتمہ کر کے ہی قومی، مذہبی، لسانی، نسلی اور صنفی استحصال کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ناانصافی پرمبنی اس نظام کا خاتمہ کر کے ہی ان تمام وجوہات کو ختم کیا جاسکتا ہے جن سے چوری، ڈکیتی، قتل و غارت، جسم فروشی اور دوسرے جرائم جنم لیتے ہیں۔
آج کے عہد کا تقاضا اور انصاف صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے ظلم و بربریت، استحصال ونا انصافی پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ۔ اس سے ہٹ کے کسی او ر جدوجہد کا نعرہ جس کا تعلق اس نظام کے خاتمے سے نہ ہو کسی حکمران کا یا حکمرانوں کے دلالوں، مفاد پرستوں، موقع پرستوں کا فریب تو ہو سکتا ہے، انصاف نہیں۔ اس نظام کی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے حقیقی انصاف کا حصول نا ممکن ہے۔