|ریڈ ورکرز فرنٹ، حیدر آباد|
حفاظتی سامان کی عدم فراہمی کے باعث سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں واقع کوہسار گورنمنٹ جنرل ہسپتال میں 10 ڈاکٹرز اور 20 کے قریب پیرا میڈیکل اسٹاف کرونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ اس بڑے پیمانے پر طبی عملے کے متاثر ہونے کے باعث ہسپتال بند کر دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کے بلند و بانگ دعووں اور میڈیا کیمپین کے برعکس سندھ میں صورتحال باقی صوبوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
متاثرہ طبی علمے کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی بھی سہولت نہیں دی گئی۔ حفاظتی آلات کی عدم دستیابی کے باوجود ہم طبی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں جس کا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہیں۔ صوبائی حکومت اور ان کے اشاروں پر ناچنے والی افسر شاہی فقط جھوٹے دعوے کر کے عوام کو گمراہ کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کرونا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ہیلتھ ورکرز کو کسی قسم کی سہولت میسر نہیں تو یہ عوام کو کیسے سہولیات مہیا کریں گے۔ لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں سلیوٹ اور سفید جھنڈے نہیں حفاظتی کٹس چاہئیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ سندھ حکومت کی اس مزدور دشمنی کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ کرونا وبا سے مقابلہ کرنے والے ہیلتھ سٹاف کو فی الفور حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں۔زمینی حالات میڈیا پر پیش کی جانے والی تصویر کے برعکس ہیں۔ اندرون سندھ صورتحال تو اور زیادہ گھمبیر ہے جہاں ایک طرف علاج معالجے کی سہولت دستیاب نہیں تو دوسری جانب لاک ڈاؤن نے عوام کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے دیا جانے والا راشن ایک بھونڈے مذاق سے کم نہیں۔ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ، سندھ وائی ڈی اے، پیرا میڈیکل اسٹاف اور ینگ نرسز ایسویشن سے اپیل کرتی ہے کہ حکمران طبقے کی بے حسی اور اس بحران سے بنٹنے کے لیے اور آپسی اتحاد بنا کر خیبرپختونخوا اور پنجاب کے طرز پر گرینڈ ہیلتھ الائنس جیسا اتحاد تشکیل دیا جائے تاکہ اس مشکل وقت میں حکومتی بے حسی اور نااہلی کا بخوبی مقابلہ کیا جا سکے۔ مزید برآں، کرونا وبا کے خلاف ایک ملک گیر حکمت عملی اور ایکشن پلان ترتیب دینے کے لیے پورے ملک کے ہیلتھ سٹاف کا اتحاد ناگزیر ہوچکا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کرونا وبا سے مقابلے کے لیے ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے پیش کیے گئے مرکزی پروگرام کو دہراتے ہوئے حکومت وقت سے فوری طور پر درج ذیل اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں:
1۔ صحت پر ریاستی اخراجات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے فی الفور جی ڈی پی کے کم از کم 10فیصد کے برابر کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے درکار وسائل مہیا کرنے کے لئے کم از کم ایک سال تک تمام بیرونی و داخلی حکومتی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی معطل کر دی جائے۔ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں، بڑے نجی کاروباری اداروں وصنعتوں اورنجی بینکوں پر عائد کارپوریٹ ٹیکس میں فوری طور پراضافے کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی صحت ٹیکس بھی عائد کیا جائے۔ فوج کے تمام کاروباری اداروں پر بھی اسی طرح کا ہنگامی صحت ٹیکس لگایا جائے۔ طبقہ امرا پر عائد انکم ٹیکس میں بھی فوری طور پر اضافہ کیا جائے نیز ختم کر دیے جانے والے ویلتھ ٹیکس کو بھی بڑھا کر واپس نافذ کیا جائے۔ اسی طرح سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور بینکاروں کو حاصل تمام ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے تا کہ یہ وسائل بھی کرونا کی وبا کیخلاف لڑائی کے مختص کئے جا سکیں۔ اگر سرمایہ دار طبقہ ”کاروبار میں مندی کی وجہ سے گنجائش نہیں ہے“ کا واویلا مچا کر ان اقدامات کی مخالفت کرے تو اسے کہاجائے کہ وہ اپنی کمپنیوں، بینکوں اور اداروں کے کھاتے پبلک آڈٹ کے لئے پیش کریں۔
2۔ حکومت کم از کم وبا کی مکمل روک تھام تک کے عرصے کے لئے تمام بڑے نجی ہسپتالوں اوردوا ساز کمپنیوں کو ریاستی کنٹرول میں لے تاکہ نہ صرف عوام کو ان کی منافع خوری سے محفوظ رکھا جا سکے بلکہ ان وسائل کا بہتر اور منظم انداز میں استعمال بھی کیا جا سکے۔ حکومت کو ادویات اور میڈیکل مشینری کی امپورٹ ایکسپورٹ کو بھی فوری طور پر ریاستی کنٹرول میں لینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح شہروں میں موجودہوٹلوں، خالی نجی عمارتوں، پلازوں اور دیگر کارپوریٹ بلڈنگز کو بھی عارضی طور پر ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے میک شفٹ کرونا ہسپتالوں میں تبدیل کیا جائے۔ مزید برآں، شہروں کے مضافات میں واقع پوش رہائشی کالونیوں میں خالی پڑے سینکڑوں محل نما گھروں کو بھی عارضی ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے آئیسولیشن سنٹرز میں بدلا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، بڑے بڑے سرکاری ایوانوں کو بھی فوری طور کرونا کے علاج کے مراکز میں تبدیل کر دیا جائے۔ ہر متاثرہ شہری کو علاج کی تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں اور علاج کے دوران کھانے پینے کی سہولیات بھی حکومت کی جانب سے فراہم کی جائیں۔
3۔ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لئے سخت ترین اقدامات کئے جائیں اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو سمری ٹرائل کے بعد سزائے موت دی جائے۔ ضرورت پڑنے پر خوراک سمیت دیگر اشیائے ضرورت کی ہول سیل تجارت اور ترسیل بھی عارضی مدت کے لئے ریاستی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔
4۔ تمام غیر لازمی پیداوار ی صنعتوں (آٹو انڈسٹری، الیکٹرانکس وغیرہ)، شعبوں اور نجی اداروں کو وبا پر قابو پائے جانے تک بند اور ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو پوری اجرت کیساتھ رخصت پر بھیجا جائے۔ اسی طرح، تمام غیر لازمی سرکاری اداروں کو بھی بند کر دیا جائے اور ان کے محنت کشوں کو تنخواہ کیساتھ چھٹی پر بھیج دیا جائے جس کا شمار ان کی پہلے سے مختص کردہ سالانہ چھٹیوں میں نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اپنے سٹاف کو بھی بمعہ اجرت رخصت پر بھیجیں اور طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہونے کی صورت میں ان سے کوئی اضافی فیس وصول نہ کی جائے۔ فیکٹری مالکان کی طرف سے کرونا کی وبا اور معاشی بحران کا جواز بنا کر ڈاؤن سائزنگ کرنے پر سخت پابندی عائد کی جائے۔ اگر کوئی سرمایہ دار ایسا کرے تو فوری طور پر اس کی فیکٹری یا کاروباری ادارے کا پبلک آڈٹ کیا جائے اور اگر اس میں خسارہ ثابت نہ ہو تو بطور سزا اس کی فیکٹری قومی تحویل میں لے لی جائے۔ اسی طرح، اگر کسی لازمی پیداواری شعبے کا سرمایہ دار کسی بھی وجہ سے پیداوار بند کرے تو اس کی فیکٹری کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے پیداوار جاری رکھی جائے۔ نجی و سرکاری شعبے میں تمام ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
5۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایم ٹی آئی ایکٹ کو فی الفور واپس لیا جائے اور حکومت آئندہ ہسپتالوں کی نجکاری سے باز رہنے کی تحریری یقین دہانی کرائے۔ کروناکیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر موجود شعبہ صحت کے محنت کشوں کو فی الفور بہترین معیار کی حفاظتی کٹس وافر مقدار میں مہیا کی جائیں۔ اسی طرح، لازمی پیداوار اور خدمات کے شعبے سے منسلک نجی صنعتوں اور سرکاری اداروں کے محنت کشوں کو بھی فوری طور پر عالمی معیار کی حفاظتی کٹس مالکان اور حکومت کی جانب سے فراہم کی جائیں تا کہ ان کی حفاظت یقینی ہو سکے۔ اسی طرح، لازمی پیداوار سے منسلک تمام نجی صنعتوں میں فوری طور پر ٹھیکیداری نظام پر پابندی عائد کی جائے اور صحت سمیت تمام لازمی خدمات سر انجام دینے والے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز، ایڈہاک اور کنٹریکٹ محنت کشوں کو فی الفور مستقل کیا جائے تا کہ یہ محنت کش معاشی تحفظ پاتے ہوئے کرونا کی آفت کا بلند حوصلگی کیساتھ مقابلہ کر سکیں۔
6۔ نجی بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ چھوٹے تاجروں و دیگر چھوٹے کاروباریوں،کسانوں اور عام صارفین کی طرف سے لئے گئے بینک قرضوں اور ان پر سود کی واپسی کو کم ازکم ایک سال کے لئے معطل کر دیں۔
7۔ فوجی اشرافیہ، ججوں، سول افسر شاہی، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ ریاستی حکام کو تنخواہوں کے علاوہ دی جانے والی تمام مراعات فی الفور اور مستقلاً واپس لے لی جائیں اور ان وسائل کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جائے۔ تمام غیر دفاعی فوجی اخراجات کا مستقلاً خاتمہ کیا جائے اور ان وسائل کا رخ عوام کو صحت کی سہولیات مہیا کرنے کی طرف موڑا جائے۔