|تحریر: ایلن ووڈز|
(ہم فن اور طبقاتی جدوجہد کے موضوع پر ایلن ووڈز کے خطاب کے ٹرانسکرپٹ کا دوسرا اور آخری حصہ شائع کر رہے ہیں۔ یہ خطاب جولائی 2001ء میں بارسلونا، سپین میں منعقدہ مارکسی سکول میں کیا گیا۔)
حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
زر اور فن
اس نئے آرٹ کی بنیاد ایک نیا صارف طبقہ ہے،خوشحال تاجر،جس کے پاس بہت بڑا گھر ہے جس میں بہت سی دیواریں ہیں جنہیں ڈھانپنے کی ضرورت ہے۔ہر جگہ تصویریں ہی تصویریں تھیں، دکانوں میں، سراؤں میں اور شراب خانوں میں۔اب آرٹ کوئی اسرار نہیں رہا تھا جیسا کہ ’’فن برائے فن‘‘ کے حوالے سے کہا جاتا ہے۔ یہ تجارت خیال کی جاتی تھی جیسے کسی بھی قسم کی تجارت ہوتی ہے۔ ورمیر نے اپنے آبائی قصبے ڈلفٹ کی بہت سی تصاویر بنائی تھیں۔ اس قصبے کے نانبائی کے پاس اس کی دو تصاویر تھیں جن کی مالیت اس وقت لاکھوں پاؤنڈ ہے۔ اس نانبائی کے پاس یہ تصاویر اس لیے موجود تھیں کہ انہیں روٹی خریدنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا کیونکہ ورمیر کے پاس روٹی خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ بہت سے عظیم فنکاروں کی طرح وہ بھی غربت کے عالم میں اس جہاں سے رخصت ہوا اور آج سرمایہ دار حضرات ان تصاویر کے عوض لاکھوں کما رہے ہیں۔
سرمایہ داری کے ابھار کے ساتھ ساتھ ہمیں زر کی اہمیت، لالچ اور اشیاء کی ملکیت کی خواہش کے عناصر فروغ پاتے دکھائی دیتے ہیں۔ سترھویں صدی میں انگلینڈ میں بورژوا انقلاب برپا ہوا۔یہاں بھی نئے مذہب اور فنکارانہ تصورات کے ساتھ جاگیر دارانہ مطلق العنانیت کا وہی تصادم دکھائی دیتا
ہے۔ ڈچ مصور وان ڈانگ کی بنائی ہوئی تصاویر ملاحظہ فرمائیں جن میں سے کئی ایک نیشنل گیلری میں موجود ہیں۔ یہ انتہائی مزین تصاویر ہیں جن میں نفیس کپڑوں اور زیورات سے لدی پھندی جاگیر دار طبقے کی شخصیات نظر آتی ہیں۔ ان کے دشمن ’Puritan‘ سیاہ لباس زیبِ تن کرتے تھے اور انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ یہاں ہمیں جمالیات کے دو مختلف تصورات،دو مختلف اخلاقیات دکھائی دیتی ہیں جو دو متحارب طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ایک مشہور واقعہ ان دو طبقات کی سوچ کے فرق کو بہت واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ جب انگریز انقلابی اولیور کرامویل نے ایک مصور سے اپنی تصویر بنوائی تھی۔ وہ ایک اچھا بورژوا انقلابی تھا لیکن وہ کوئی خوبصورت شخص ہرگز نہیں تھا۔ کرامویل نے مصور سے کہا تھا’’میری تصویر ایسی ہی بناؤ جیسا کہ میں ہوں، کیل مہاسوں سمیت!‘‘ فن میں ایک نئی روح سما چکی تھی۔ برطانوی انقلاب نے کئی عظیم ادیب پیدا کیے جن میں Paradise Lost کا مصنف جان ملٹن اور اینڈریو مارویل جیسے شاندار شاعر شامل ہیں۔ لیکن میرے پاس تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے۔
قدیم بادشاہت اور فرانسیسی انقلاب
اگر ہم فرانس کو دیکھیں تو یہاں بھی ہمیں دو طبقات کا تصادم نظر آتا ہے اسکے علاوہ آرٹ میں بھی ہمیں دو ثقافتوں کا تصادم دکھائی دیتا ہے۔یقیناًیہ بات میں ایک بار پھر دہرانا چاہوں گا کہ ہمیں بالکل طے شدہ رشتوں کو متعین کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، یہ ایک غلطی ہوگی۔ اس کے باوجود بعض اوقات ایک عجیب و غریب اور مسخ شدہ شکل میں آپ کو سماجی رشتوں کے مدہم خدوخال آرٹ میں نظر آئیں گے۔ ہمیشہ نہیں، صرف کبھی کبھی۔ یہاں تک کہ بعض اوقت یہ چیز آپ کو باغبانی جیسے شعبے میں بھی نظر آسکتی ہے۔ کیا آپ کو فرانس میں ورسائی جانے کا اتفاق ہوا ہے؟ شائد آپ نے وہاں کے مشہور باغات بھی دیکھے ہوں، آپ کو وہاں کیا چیز نظر آئی؟ جیومیٹری کی اشکال اور خطوطِ مستقیم۔
یہ تصور کس چیز کی عکاسی کرتا ہے؟ یہ بھی ایک بیان ہے۔ فرانس کی مطلق العنان جاگیر دار اشرافیہ ہر شے پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھی، یہاں تک کہ فطرت پر بھی۔ ورسائی کے باغات اس تصور کو پیش کرتے ہیں کہ ہم ہر چیز کو قابو میں لا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم فطرت کو، درختوں کو اور دریاؤں کو بھی قابو میں لا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ گھاس پر بھی ہماری اطاعت لازم ہے۔ اس تصور کا فن کارانہ اظہار کلاسیکیت (Classicism) ہے جس میں ڈرامے کے لئے انتہائی سخت اور نپے تلے ضابطے بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس کی بنیاد ارسطو کی باتوں کے بارے میں غلط فہمی ہے۔ ڈرامہ جو چوبیس گھنٹوں پر محیط اور ایک ہی جگہ ہونا چاہیے، اس میں المیہ (Tragedy) اور طربیہ (Comedy) کی آمیزش نہیں ہونی چاہیے۔ یہ لوگ شیکسپیئر کو جاہل اور وحشی سمجھ کر اس کا مضحکہ اڑاتے تھے کیونکہ وہ المیہ اور طربیہ کو ملا دیتا تھا۔
انقلاب کے وقت فرانسیسی ریاست دیوالیہ ہو چکی تھی اور بادشاہت کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک رہی تھی۔ اس لیے یہ بات کسی حد تک متوقع تھی کہ اس دور میں حکمران طبقے کے آرٹ میں بڑی حد تک فراریت کا عنصر موجود تھا۔ Watteau کی تصاویر میں ہمیں جو غیر حقیقی دنیا نظر آتی ہے وہ خوابوں کی اس دنیا کی بالکل سچی عکاسی ہے جس میں تباہی کے دہانے پر کھڑا فرانس کا زوال پذیر حکمران طبقہ زندگی گزار رہا تھا۔میری انتوانت (ملکہ فرانس) نے اپنی جاگیر میں جھوٹ موٹ کے ’’کھیت‘‘ بنا رکھے تھے جہاں وہ چرواہن کا بھیس بدل کر گھومتی تھی۔ لیکن حقیقی دنیا میں حقیقی فرانس چروا ہے اور چرواہنیں جن مصائب کا شکار تھیں، ملکہ کی مصنوعی دنیا میں ان کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔
حکمرانوں پر ہر شے کو قابو میں لانے یہاں تک کہ خوابوں کی دنیا کو بھی اپنے ماتحت کرنے کا جنون طاری تھا۔ 1789ء میں اس کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ فرانسیسی انقلاب نے ہر شے کو الٹ کر رکھ دیا۔قبل ازیں فرانسیسی انقلاب کی راہ ایک نظریاتی جدوجہد کے ذریعے ہموار ہوئی تھی جو بالخصوص فلسفے کے حوالے سے کی گئی تھی۔ انقلاب اس جدوجہد کو آرٹ کے شعبے میں لے گیا جہاں ابتدائی طور پر اس کا اظہار ’نئی کلاسیکیت‘ کی شکل میں ہوا جس میں عظیم انقلابی مصور ڈیوڈ کی تصاویر خصوصی اہمیت رکھتی تھیں۔ بعد ازاں اس کا اظہار رومانویت (Romanticism) کی شکل میں ہوا۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ پرانی کلاسیکیت اور نئی کلاسیکیت میں فرق کیا ہے؟ فرق موجود ہے۔ مطلق العنانیت کی کلاسیکیت کی بنیاد سلطنت روم کا زوال پذیر آرٹ تھا جبکہ فرانسیسی انقلاب کی کلاسیکیت جمہوریہ روم کے حوالے سے تھی اور اس کا کردار انقلابی تھا۔ اس کو عزم و جرات، مشترکہ مفاد کے لئے ایثار و قربانی اور حب الوطنی کے جذبوں نے جلا بخشی تھی۔ یہ وہ خوبیاں تھیں جن کی انقلابی بورژوازی کو ضرورت تھی تاکہ وہ پرانے نظام کا تختہ الٹ سکے اور یورپ بھر کی بادشاہتوں کے خلاف اپنے اقتدار کا دفاع کر سکے۔
انقلابِ فرانس کے اثرات
انقلابِ فرانس نے صرف فرانس پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پیمانے پر زبردست اثرات مرتب کیے۔انگلینڈ میں بہت سے عظیم شاعروں نے جنم لیا مثلاً بائرن، شیلے، ورڈز ورتھ، کولرج اور سکاٹ لینڈ میں رابرٹ برنز۔ ولیم بلیک ایک انتہائی انوکھا مصنف اور فنکار تھا جو اس دور سے اتنا آگے تھا کہ اسے دیوانہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر مجھ سے غلطی نہیں ہو رہی تو اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام پاگل خانے میں گزارے تھے۔اور اب اسے ایک عظیم فنکار اور مصنف تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان سبھی عظیم مصنفین نے زبردست جوش و خروش کے ساتھ انقلابِ فرانس کی حمایت کی تھی اگرچہ ایسا کرنا خطرناک تھا۔ برطانیہ میں جبر کی کیفیت بہت خوفناک تھی۔ ولیم بلیک نے لکھا تھا کہ اگر یسوع مسیح برطانیہ میں موجود ہوتے تو انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا۔ ورڈز ورتھ انقلاب کے وقت فرانس میں موجود تھا اور اس نے اپنی عظیم نظم ’The Prelude‘ میں کہا تھا کہ :
’’ اس صبحِ صادق کے وقت زندگی سعادت تھی
لیکن نوجوانی جنت مکانی سے کم نہ تھی۔‘‘
بعد ازاں جب انقلابی ریلا پیچھے ہٹ گیا اور بونا پارٹسٹ رجعت پرستوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا کولرج اور ورڈز ورتھ نے اس راستے کو ترک کر دیا۔ روسی انقلاب کی سٹالنسٹ سیاسی ردِ انقلاب کے ہاتھوں بربادی کے بعد بھی کچھ اسی قسم کی کیفیت دیکھنے میں آئی تھی لیکن ہر کسی نے شکست تسلیم نہیں کی۔شیلے ایک زبردست شاعر تھا جو نوجوانی میں ہی المناک موت کا شکار ہو گیا تھا۔ مارکس شیلے کا زبردست مداح تھا جو اپنے انقلابی عقائد پر سختی سے قائم رہا۔ عظیم سکاٹش شاعر رابرٹ برنز بھی اسی طرح ڈٹا رہا۔ صرف برطانیہ میں ہی نمایاں مصنفین اور فنکاروں نے انقلابِ فرانس سے تحریک حاصل نہیں کی۔ جرمنی میں گوئٹے اور شلر نے بھی جوش و خروش سے انقلابِ فرانس کو خوش آمدید کہا اور موسیقی کے شعبے میں تاریخ کے عظیم ترین موسیقار لڈوگ وان بیتھوون نے انقلابِ فرانس کے مقاصد کی حمایت تمام عمر جاری رکھی اور اس کے پاؤں کبھی نہیں لڑکھڑائے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا انقلاب کے تصور کو موسیقی کے تصور کے ذریعے پیش کیا جا سکتا ہے؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ بیتھوون موسیقی کے شعبے سے تعلق رکھنے والا انقلابی تھا اور انقلاب سے تحریک حاصل کرتا تھا۔ اگر آپ بیتھوون کی موسیقی (Symphonies) کا موازنہ سابقہ موسیقی سے کریں تو آپ کو فوراً احساس ہوگا کہ یہ بالکل نئی ہے۔ اور سارے عظیم فن کا جوہر یہ ہے کہ اس میں کوئی نئی بات ہونی چاہیے، کوئی ایسی چیز جو ہم سے کوئی نئی بات کہے۔
آپ میں سے کچھ لوگ شائد بیتھوون کی تیسری سمفنی کی کہانی سے واقف ہوں جسے ’’Eroica Symphony‘‘ یعنی ایک ہیرو کی سمفنی کہا جاتا ہے۔ اس موسیقی میں ہمیں انقلابِ فرانس کی حقیقی روح ملتی ہے۔ شائد آپ سمجھتے ہیں کہ میں مبالغہ آرائی کر رہا ہوں لیکن اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔بیتھوون کا خیال تھا کہ نپولین انقلابِ فرانس کا ہی تسلسل ہے اور وہ اپنی تیسری سمفنی نپولین کے نام سے منسوب کرنا چاہتا تھا۔ در حقیقت وہ اس کا نام نپولین کی سمفنی رکھنا چاہتا تھا۔
ابھی وہ اسے لکھ ہی رہا تھا کہ اسے نپولین کے شہنشاہ بننے کی خبر ملی۔ اس نے فوراً ہی قلم اٹھایا اور نپولین کا نام کاٹ دیا۔ کاغذ کا یہ ٹکڑا اب بھی موجود ہے جسے عجائب گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس نے یہ نام اس قدر غصے کے عالم میں کاٹا ہے کہ کاغذ میں سوراخ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی سمفنی کا نیا نام رکھا۔ایک ہیرو کی یاد میں۔
آپ میں سے بہت سے لوگ شائد کلاسیکی موسیقی پسند نہیں کرتے۔ یہ افسوس کی بات ہے۔ لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ سمفنی کو آغاز سے محض دو سیکنڈ کے لئے سنیں۔ یہ موسیقی میں ایک انقلاب ہے۔ اس سے پہلے لوگ،ظاہر ہے کہ امیر لوگ، موسیقی (Symphonic Concert) سننے کے لئے جاتے تھے اور وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ سو جاتے تھے یا چند خوشگوار دھنیں گنگناتے گھر چلے جاتے تھے۔ آپ بیتھوون کے ساتھ اس قسم کا سلوک نہیں کر سکتے۔ اور ہیرو کی سمفنی کا آغاز دو بھاری حربوں سے ہوتا ہے جیسے کوئی میز یا دروازے پر مکے مار رہا ہو۔ یہ موسیقی نہیں اور نہ ہی کوئی ٹیون یا تان ہے۔ یہ توجہ دلانے بلکہ ہتھیار اٹھانے کی دعوت ہے۔
بیتھوون کی پانچوں سمفنی بہت جانی پہچانی ہے۔ اس کا آغاز ایک انتہائی مشہور تھیم یا موضوع سے ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی تان نہیں ہے۔ ایک ڈچ موسیقار کا کہنا ہے کہ ’’یہ کوئی موسیقی نہیں ہے۔یہ سیاسی ایجی ٹیشن ہے۔ یہ ہم سے کہتی ہے کہ یہ دنیا بری ہے۔ خراب ہے ہمیں اس دنیا کو تبدیل کر دینا چاہیے۔ اٹھو چلو !‘‘ یہ میرا نہیں ہارننکورٹ کا کہنا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک انگریز موسیقار جان ایلیٹ گارڈنر نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ بیتھوون کی پانچویں سمفنی کی بنیاد فرانسیسی انقلابی گیتوں پر رکھی گئی ہے۔ ہاں، موسیقی انقلاب کا اظہار کر سکتی ہے اور انقلاب کا اظہار کرتی ہے۔
فنکار اور سماج کے درمیان تعلق جدلیاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ آرٹ فرد کے اندر سے ابھرنا چاہیے۔ اس کے دل کی آواز ہونا چاہیے۔ لیکن ایسے لمحات بھی آ سکتے ہیں جب کسی فرد کے داخلی تضادات وسیع تر سماجی تضادات سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ اور اس سے عظیم آرٹ تخلیق ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ بیتھوون کی مثال سے ظاہر ہے۔ بیتھوون کی ذاتی زندگی المیوں سے بھری پڑی تھی۔ اٹھائیس سال کی عمر میں وہ بہرے پن کا شکار ہو گیا۔ اپنی نویں سمفنی کی تکمیل تک وہ مکمل طور پر بہرہ ہو چکا تھا۔
اس کی زندگی اذیت سے عبارت تھی جس کا عکس ہمیں بلاشبہ اس کی موسیقی میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بیتھوون ایک نابغہ روزگار تھا۔ اسکی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو برباد ہو جاتا لیکن وہ نہ صرف یہ کہ برباد نہیں ہوا بلکہ اپنی ذاتی صورتحال سے بلند تر ہوتا گیا اور اس نے اپنی موسیقی میں ذاتی مسائل کو نہیں بلکہ جبر و ستم کی شکار انسانیت کو درپیش المیوں اور تضادات کو اجاگر کیا۔
رومانویت (Romanticism)
انیسویں صدی کے اول نصف کے دوران حاوی فنکارانہ رجحان رومانویت کا تھا۔ رومانویت کا مطلب کیا ہے؟ وہ کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے؟
فرانس نے 1789-93ء میں ایک زبردست چھلانگ لگائی۔ اس نے آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی بنیاد پر ساری نسلِ انسانی کو ایک بہتر مستقبل کا خواب دیا۔ یہ بہت اعلیٰ مقاصد پر مبنی نعرے تھے۔ بورژوازی نے انہیں عوام کو لڑائی پر اکسانے کے لئے استعمال کیا۔ لیکن اس دور کی پیداواری قوتوں کی سطح کے پیش نظر انقلابِ فرانس ایک بورژوا انقلاب کی شکل میں سامنے آیا اور یہ صرف ایک بورژوا انقلاب ہی ہو سکتا تھا۔ بورژوا حکمرانی کے مستحکم ہوتے ہی فنکاروں اور اہلِ فکر کے وہ تمام خواب چکنا چور ہو گئے جنہیں انقلاب نے جنم دیا تھا۔ آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی بجائے انہیں بینکاروں، تاجروں اور سود خوروں کی حکمرانی ملی۔ سماج پر بورژوا طبقے کی سنگدلانہ لالچ کا غلبہ تھا جس کی عکاسی بالزاک نے اپنے ناولوں میں بہت عمدہ طریقے سے کی ہے۔
اس کے خلاف ردِ عمل کے طور پر بہت سے فنکاروں اور ادیبوں نے ایک قسم کا متبادل پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ بورژوا طبقے اور دولت کی حکمرانی کے خلاف اٹل جارحانہ رویہ رکھتے تھے۔ اور بلاشبہ آرٹ کو ہمیشہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔ حقیقی آرٹ کو آزادانہ طور پر اس چیز کا اظہار کرنا چاہیے جو میرے اندر موجود ہے نہ کہ کوئی ایسی چیز جو کسی بھی طور پر باہر سے جبراً لاگو کی گئی ہو۔کیونکہ اس قسم کا آرٹ ہمیشہ خراب ہوتا ہے۔ لہٰذا آرٹ ریاستی غلبے کو بھی اسی طرح مسترد کرتا ہے جیسے وہ مذہب اور چرچ کی آمریت کو مسترد کرتا ہے۔ وہ منڈی کی غنڈہ گردی کو مسترد کرتا ہے جو کہ فن اور تخلیق کی اٹل دشمن ہے۔ 1848ء کے انقلاب کی شکست تک یعنی انیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بہت سے فرانسیسی شاعر اور ادیب ایسے تھے جن میں انقلاب کی تڑپ موجود تھی۔ ڈیلا کوا، گوٹیئے، ڈومئے اور بودیلیئر سبھی نے 1848ء کے انقلاب کی حمایت کی اور اس میں حصہ لیا۔برسبیل تذکرہ میں موجودہ موضوع کے حوالے سے آپ کو تھوڑا سا حیران کرنا چاہتا ہوں۔ جرمنی میں جن لوگوں نے سرگرمی سے انقلاب میں حصہ لیا ان میں ایک نوجوان موسیقار بھی شامل تھا جس کا نام رچرڈ واگنر تھا۔ اس وقت وہ باکونن نامی انارکسٹ کا ذاتی دوست تھا۔اور اس نے ایک قدرے طویل اور اچھا مضمون تحریر کیا جس کا نام تھا ’’ سوشلزم اور آرٹ‘‘، اس میں وضاحت کی گئی تھی کہ سچا آرٹ اور موسیقی سرمایہ داری سے میل نہیں کھاتے۔
تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے فنکاروں کی اکثریت محنت کش طبقے اور 1848ء کے انقلاب کے ساتھ تھی لیکن پیٹی بورژوازی ایک انتہائی غیر متوازن طبقہ ہے۔ خاص طور پر دانشور نہایت ہی غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی شکست کے بعد وہ دل برداشتہ ہو گئے۔ محنت کش طبقے پر ان کا اعتماد تیزی سے ختم ہو گیا اور وہ داخلیت کا شکار ہو گئے۔ یہ ہے ’’فن برائے فن‘‘ کے نام کی تھیوری کی تاریخی بنیاد جس کا ذکر ہم نے آغاز میں کیا تھا۔
علامتیت (Symbolism) کی تحریک کا بانی دراصل بودیلیئر تھا جو ایک انتہائی زبردست شاعر تھا۔ لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا اعتماد 1848ء کے بعد انقلاب سے اٹھ گیا تھا۔ اس نے داخلیت کا شکار ہو کر جنسیت اور تصوف جیسی چیزوں کو اپنا موضوع بنا لیا جیسا کہ ہر انقلاب کی شکست کے بعد اکثر و بیشتر دانشور کرتے ہیں۔ آپ کو یہ مظہر بارہا دیکھنے کو ملے گا۔
میں آپ کو ذاتی زندگی سے ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ میں 1975ء کے انقلاب کے موقع پر پرتگال میں تھا۔ پچاس سالہ فاشسٹ آمریت کے بعد اس وقت محنت کشوں کی ایک زبردست تحریک موجود تھی۔ لزبن کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے آپ کو سینکڑوں لوگ گرما گرم سیاسی بحثیں کرتے نظر آتے تھے اور کتابوں کی دکانیں مارکس، لینن، ٹراٹسکی اور ماؤزے تنگ کی کتابوں سے بھری پڑی تھیں۔ انقلاب کی شکست کے چند سال بعد جب میں دوبارہ وہاں گیا تو بائیں بازو کی تمام کتابیں غائب تھیں اور ان کی جگہ فحش، مذہبی اور صوفیانہ کتابوں نے لے لی تھی۔
انقلاب کی شکست کے بعد رجعتی ثقافتی رجحانات کا ابھرنا ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن جب گہرے سماجی بحرانوں کے باعث انقلاب کی لہر واپس آتی ہے تو آپ کو دانشوروں کے حلقے میں وہی پہلے جیسا جوش و خروش دکھائی دیتا ہے لیکن مجھے اپنی بات مختصر کرنی پڑے گی۔ کیونکہ ہم نے اس موضوع سے بھی نپٹنا ہے کہ آج فن کا مقام کیا ہے اور ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کرنی ہے کہ آیا فن اور طبقاتی جدوجہد کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے۔
فن اور طبقاتی جدوجہد
اس سوال کے کئی مختلف جوابات دیئے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا ہمیں تمام آرٹ کو مارکسی نظریئے اور طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے پرکھنا چاہیے تو میرے خیال میں ایسا کرنا مضحکہ خیز ہوگا۔ آرٹ لازمی طور پر انقلابی نہیں ہوتا اور ہمیں ایسا عظیم ادب بھی مل سکتا ہے جو قدامت پسندانہ یا رجعتی ہو۔ ہم آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔
فرانسیسی ادیب بالزاک جو کہ مارکس کا پسندیدہ ناول نگار تھا سیاسی طور پر قدامت پرست تھا بلکہ وہ مطلق العنانیت کا حامی تھا۔ تاہم جیسا کہ مارکس نے بھی کہا کہ وہ ایک ایسا عظیم حقیقت نگار تھا کہ آپ کسی بھی دوسری تحریر کے مقابلے میں اس کے ناولوں کو پڑھ کر انیسویں صدی کے اول نصف کی فرانسیسی تاریخ کے بارے میں زیادہ جان سکتے ہیں اور انقلابی نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔
بیسویں صدی کی تاریخ میں بھی بعض اوقات آرٹ نے انقلابی تصورات کی عکاسی کی ہے۔ مثال کے طور پر پابلو پکاسو کوئی سیاسی آدمی نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ اسے پسند بھی نہ کرتے ہوں لیکن وہ ایسا شخص تھا جس نے پچھلی صدی کے آغاز میں سپین کی زرخیز ثقافتی زمین پر پرورش پائی تھی۔ یہ سپین میں زبردست شورش کا زمانہ تھا۔ پکاسو، فیڈریکو گارسیا لورکا کا دوست تھا جو بائیں بازو سے ہمدردی رکھتا تھا۔ لورکا غالباً جدید سپین کا عظیم ترین شاعر تھا جو فاشسٹوں کے ہاتھوں 1936ء میں قتل ہو گیا تھا۔
اس ملک میں بہت سے فنکار، شاعر، ادیب اور موسیقار ایسے پیدا ہوئے ہیں جن پر سماج کے عمومی ابھار نے اثرات مرتب کئے تھے۔ انہوں نے 1931-37ء کے انقلاب میں حصہ لیا اور ان میں سے کچھ لڑاکا بھی تھے۔ خاص طور پر میگیل ہر نانڈیز جو ایک عظیم شاعر تھا اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی زندگی فاشسٹوں کی قید میں تمام ہوئی۔
آیئے ایک لمحے کیلئے ہم درمیانے طبقے کے اس احمقانہ تعصب کی جانب واپس لوٹیں کہ عوام کو کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں اس میں کسی حد تک کچھ صداقت موجود ہے۔ کیونکہ عوام محسوس کرتے ہیں کہ بورژوا کلچر پر حکمران طبقے کا اجارہ ہے۔ یہ ہمارے لئے نہیں ہے۔ یہ کوئی انجان سی چیز ہے جس کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی سوچ موجود ہے۔ اور اس کی وجہ سے عام لوگ بعض اوقات آرٹ اور کلچر کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہاں یہ درست ہے لیکن یہی بات سیاست کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ طبقاتی سماج میں معمول کے حالات میں عوام اہم باتیں دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں یعنی مقامی کونسلر، ٹریڈ یونین لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ وغیرہ۔
لہٰذا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عوام کو کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں تو ہم دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ طبقاتی سماج کے معمول کے حالات میں عوام غور و فکر کا کام عمومی طور پر دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی ہے کہ انقلاب کا جوہر ہی یہ ہے کہ عام مرد و زن بڑی تعداد میں سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ خود کو حقیقی انسانوں کی سطح تک بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے کچھ مفادات و ضروریات بھی ہیں، جن کا انہیں قبل ازیں احساس نہیں تھا، کہ ان کا دماغ بھی ہے،ان کی شخصیت بھی ہے،ان میں انسانی وقار بھی ہے اور وہ ایک روح کے مالک بھی ہیں۔ انقلاب کے دوران یہ سب کچھ سامنے آجاتا ہے۔
میگیل ہرنانڈیز محاذِ جنگ پر جا کر خندقوں میں لڑنے والے ریپبلکن فوجیوں کو اپنی انقلابی شاعری سناتا تھا۔ محنت کش اور کسان ہر جگہ اس کا پر جوش استقبال کرتے تھے۔ ثقافت کے بارے میں دلچسپی عوام کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوتی ہے لیکن یہ غیر منصفانہ اور وحشیانہ طبقاتی سماج اسے جبراً کچل ڈالتا ہے۔ لیکن انقلابی حالات میں یہ ابھر آتی ہے۔ اور ایک حقیقی انقلابی رجحان کے لئے ضروری ہے کہ اس کو سمجھے اور اس کو دل وجان سے عزیز رکھ کر پروان چڑھائے۔
سرریلزم (Surrealism) جیسی چیزوں میں ہمیں ایک مسخ شدہ شکل میں انقلاب کا عکس نظر آتا ہے۔ دادایت (Dadaist) کی تحریک سرریلسٹ تحریک کی پیش رو تھی جو پہلی عالمی جنگکے لگ بھگ بالخصوص جرمنی میں ابھری جہاں کچھ نمایاں فنکاروں اور ادیبوں نے عسکریت پسندی اور سرمایہ داری کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ انہوں نے کئی شاندار شاہکار تخلیق کئے۔ میرے ذہن میں خاص طور پر جارج گروس،کرٹ ویل اور برٹولڈ بریخت کے نام آ رہے ہیں۔ آخرالذکر دو ادیبوں نے مل کر ’’Threepenny Opera‘‘ لکھا تھا جو ایک مشہور نغمے ’میک دی نائف‘ (Mack the Knife) سے شروع ہوتا ہے۔
اس اوپرا میں جو گانے ہیں ان میں کچھ انتہائی شاندار مصرعے موجود ہیں خاص طور پر آخری گانے میں:
’’چونکہ کچھ لوگ اندھیرے میں رہتے ہیں اور کچھ لوگ روشنی میں،
آپ کو وہی نظر آتے ہیں جو روشنی میں ہوتے ہیں،
آپ کو وہ دکھائی نہیں دیتے جو اندھیرے میں رہتے ہیں۔‘‘
دادایت اور سرریلسٹ تحریکوں نے سرمایہ داری کے تضادات کو چبھنے والی مضحکہ خیز شکلمیں اجاگر کیا۔ ٹراٹسکی اس فن و ادب کی انقلابی صلاحیت سے بخوبی آگاہ تھا، خاص طور پر ادب اور سماج میں آمریت (فاشسٹ اور سٹالنسٹ) کے خلاف ہتھیار کی حیثیت سے وہ سرریلسٹ
تحریک میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔ درحقیقت اس نے فرانسیسی سرریلسٹ آندرے بریٹن کے ساتھ مل کر فن اور انقلاب پر ایک مینی فیسٹوبھی تحریر کیا تھا۔
یہاں تک کہ کیوب ازم (Cubism) بھی کسی نہ کسی طور سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کس چیز کی عکاسی کرتا ہے؟ جنگیں اور انقلابات زبردست ہیجان ہوتے ہیں جو ہر شے کو تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں،لوگوں کے ذہن اور زندگیاں تبدیل کر دیتے ہیں۔ لوگ دنیا کو بالعموم کس طرح دیکھتے ہیں، کیوب ازم اس میں ایک گہری تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ 1914ء سے پہلے سرمایہ داری میں بتدریج ابھار کا ایک طویل دور آیا تھا۔ یہ کسی حد تک اس دور سے مشابہہ تھا جو ابھی ابھی گزرا ہے۔ اور پھر یکا یک یہ خواب، یہ سراب پہلی عالمی جنگ اور روسی انقلاب نے چکنا چور کر دیا تھا۔ اس کے بعد جرمنی اور ہنگری میں انقلاب آئے اور پھر اٹلی میں فاشزم کو عروج حاصل ہوا۔ ان باتوں نے لوگوں کی دنیا کو پارہ پارہ کر دیا۔ یہاں تک کہ انتہائی قدامت پرست افراد کی نفسیات بھی تبدیل ہو گئی۔یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کی عکاسی آرٹ میں نہ ہوتی؟
آئیں ایک لمحے کے لئے پہلی عالمی جنگ سے پہلے کے آرٹ کو ذہن میں لائیں۔ اس وقت غالب رجحان تاثریت یا ارتسامیت (Impressionism) کا تھا جس نے انیسویں صدی کے آخری عشروں میں فرانس میں جنم لیا تھا۔ ذاتی طور پر مجھے تاثریت پسند ہے۔ یہ ایک پر سکون اور پر امن تصور پیش کرتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں پھول ہیں، دھوپ ہے اور لان میں پکنک منائی جا رہی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد اس قسم کی دنیا کی جانب واپسی کس طرح ممکن تھی؟ اس کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا تھا؟
پکاسو نے شروع شروع میں یعنی نام نہاد ’Blue Period‘ کے دوران جو تصاویر بنائی تھیں ان میں آپ کو غریبوں کی دنیا کی ایک ایسی جھلک دکھائی دے گی جس میں رحم دلی کا جذبہ موجزن ہے۔ ان میں زبردست تکنیکی مہارت نظر آتی ہے اور ایک وزن کا احساس بھی موجود ہے۔ ایک تصویر میں کرتب دکھانے والی لڑکی کو بہت بڑی گیند کے اوپر دکھایا گیا ہے۔ پیش منظر میں ایک زبردست ورزشی جسم کا مالک مرد اتھلیٹ ہے جو ایک بہت بڑے بلاک پر بیٹھا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا لڑکی تیر رہی ہے اور کششِ ثقل سے بے نیاز ہے۔ جبکہ دوسرا جسم ایک قسم کے وزن یا نیچے کی جانب کھینچنے والی کششِ ثقل کا احساس دلاتا ہے۔
یہ تکنیکی، کم و بیش جیومیٹری جیسی جہت رفتہ رفتہ ایک نئے مکتبہ فکر کی شکل اختیار کر گئی۔ انسانی جسم کو ایک عام سے انداز میں دکھایا جاتا ہے جسے ہم حقیقت نگاری (Realism) کہتے ہیں۔ انسانی ہیئت کو مختلف زاوئیوں سے یوں دکھایا جاتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں ممکن نہیں۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ آرٹ نہیں ہے۔ لوگ اس طرح کے تو نہیں ہوتے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاؤں یہاں ہو، ایک ہاتھ کہیں ہو اور سر کے دونوں جانب چہرہ ہو؟
تاہم عظیم آرٹ کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ چیزوں کو اسی طرح پیش کر دیا جائے جیسی وہ ہیں یا بظاہر دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فلسفے کے لئے ضروری قرار دے دیا جائے کہ وہ چیزوں کو جوں کا توں پیش کرے۔ آرٹ اور فلسفے کا حقیقی نصب العین یہ ہے کہ دنیا کی دکھنے والی ظاہریت کا نقاب نوچ کر حقیقت اور افراد کو اسی طرح دکھایا جائے جیسے وہ واقعتا ہیں۔
یہ پکاسو نہیں تھا جس نے لوگوں کو ان اجزائے ترکیبی میں تقسیم کیا۔ 1914ء سے 1918ء کے درمیانی دور میں وردیوں میں ملبوس کروڑوں افراد کو دھماکہ خیز مواد اور سنگینوں کی مدد سے کاٹ کر ان کو اجزائے ترکیبی میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اگر یہ آرٹ صدمے کا باعث ہے تو یہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے سماج کے مقابلے میں کہیں کم صدمے کا باعث ہے۔
میرے ذہن میں پکاسو کی ایک تصویر خاص طور پر آ رہی ہے جسے ’’The Portrait of Lady‘‘ کہا جاتا ہے۔ غور فرمایئے کہ یہ کسی عورت کی تصویر نہیں بلکہ ’’خاتون‘‘ کی تصویر ہے۔اس میں جنسی اعضاء کو مبالغہ آمیز انداز میں بڑا کرکے پیش کیا گیا ہے مثلاً چھاتیاں وغیرہ لیکن اس کے ہاتھ نہیں ہیں۔ اس خاتون کے ہاتھ کیوں نہیں ہیں،کیوں کہ خاتون کام نہیں کرتی۔اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون کا واحد فریضہ افزائش نسل کیلئے استعمال ہونے والے جانور کی حیثیت سے خدمات انجام دینا ہے۔ برسبیل تذکرہ پکاسو نے ایک بار اپنے مطالعے کے کمرے کے دروازے پر یہ تحریر چسپاں کی تھی کہ’’میں کوئی بھلا مانس نہیں ہوں‘‘۔ اس سلسلے میں مزید گفتگو ہو سکتی ہے مگر میرے پاس وقت نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پکاسو کا عظیم ترین شاہکار اس کی پینٹنگ ’گوورنیکا‘ (Guernica) تھی۔ یہ غالباً تاریخ کا پر زور ترین فنکارانہ اعلامیہ ہے۔ پکاسو نے ایک بار کہا تھا کہ آرٹ آرائش و زیبائش کیلئے نہیں ہے۔ اسے جدوجہد کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس تصویر کو غور سے دیکھیں جس میں باسک قصبے پر بمباری کی دہشت ناکی کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ لڑاکا آرٹ کی بہترین مثال ہے۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ آرٹ لڑاکا ہو سکتا ہے۔
بیسویں صدی نے ڈیگوریویرا جیسے کئی لڑاکا فنکار پیدا کیے ہیں۔ اور کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ ٹریڈ یونین کے، نوجوانوں کے اور دیگر قسم کے کاموں کے ساتھ ساتھ ہم جدید ادیبوں اور فنکاروں میں موجود بہترین عناصر تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ انہیں محنت کش طبقے کے لڑاکا اتحادیوں میں تبدیل کیا جا سکے؟ مجھے پختہ یقین ہے کہ آرٹ ایک انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ ہم فنکاروں میں موجودبہترین عناصر کے ساتھ کھلے دل و دماغ کے ساتھ مکالمے کرنے کو تیار ہیں تاکہ انہیں محنت کش طبقے کی سرگرم خدمت کی غرض سے اپنے ساتھ جوڑا جا سکے۔
آرٹ اور اکتوبر انقلاب
کارل مارکس نے ایک بار کہا تھا کہ انقلاب تاریخ کو چلانے والا انجن ہے۔ اور اکتوبر انقلاب بذاتِ خود اس کا ایک شاندار ثبوت ہے۔ روسی انقلاب ایک ایسا زلزلہ تھا جس نے ہر حوالے سے انسان کو آزاد کیا۔ اس نے محض پرولتاریہ کو ہی نہیں بلکہ عورتوں، محکوم قوموں، یہودیوں اور بذاتِ خود آرٹ کو آزادی دلائی۔
اکتوبر انقلاب نے آرٹ کو جکڑ بندیوں سے آزاد کر دیا۔ بالشوازم کے دشمنوں کی دشنام طرازیوں کے برعکس بالشویکوں نے کبھی بھی آرٹ پر اپنی پارٹی لائن مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اکتوبر انقلاب کے بعد کی دہائی پر جوش اور آزادانہ مباحث، تجربات اور دریافتوں کی دہائی تھی۔ روسی انقلاب کے بعد کے سالوں،بالخصوص 1920ء کی دہائی میں فنکاروں کی ایک کہکشاں تھی جس نے فن کے آسمان کو روشن کر دیا تھا۔آرٹ اور کلچر کو شاندار فروغ حاصل ہوا۔ ہمیں مایا کووسکی کی نظمیں ملتی ہیں جو ایک عظیم انقلابی شاعر تھا اور 1905ء سے بالشویکوں میں شامل تھا۔ اسے انقلاب کا نقیب بھی کہا جاتا تھا۔
اکتوبر انقلاب کے بعد ایک شاندار احیاء کا آغاز ہوا۔ تھیٹر میں مئیر ہولڈ، سینما میں آئزن سٹائن جسے میں تاریخ کا عظیم ترین ہدایت کار سمجھتا ہوں، موسیقی میں شوستا کووچ جسے محض انقلاب کے بعد موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع حاصل ہوا اور اس نے 1928ء میں غالباً 26 سال کی عمر میں پہلی سمفنی تحریر کی۔
آئزک بیبل جیسے انوکھے ادیب جس نے خانہ جنگی پر ایک شاندار کتاب ’’Red Cavalry‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔مایا کووسکی کا میں نے ابھی ذکر کیا لیکن اس کے علاوہ اور بھی لوگ تھے جو بالشویک نہیں تھے لیکن انقلاب کے زیرِ سایہ پھلے پھولے۔
لیکن یہ خوبصورت اور خوشبودار پھول سٹالنزم کے بوٹ تلے بری طرح کچلا گیا۔ میرہولٹ کا انتقال ایک جبری مشقت کے کیمپ میں ہوا،بیبل بھی جبری مشقت کے کیمپ میں مرا،مایا کووسکی نے خود کشی کر لی، مینڈل شٹم بھی جبری مشقت کے کیمپ میں مارا گیا۔ ان کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے فنکاروں اور ادیبوں کی جو ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔کلچر کے شعبے میں سٹالنزم نے جو جرائم کئے ہیں یہ اس کی محض ایک جھلک ہے۔
آرٹ اور سوشلزم
اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں کافی طویل گفتگو کر رہا ہوں پر جن نکات پر میں بات کرنا چاہتا تھا ان کا چوتھا حصہ بھی نہیں کر پایا۔ لیکن سوشلزم کے تحت آرٹ کے مستقبل کے سلسلے میں کچھ اظہارِ خیال ضرور کروں گا۔ ہمارا بنیادی فریضہ، ہمارا انتہائی ضروری فریضہ سرمایہ داری کا تختہ الٹنا ہے کیونکہ سرمایہ داری کے تسلسل سے محض معاشی زندگی کو ہی خطرہ نہیں بلکہ یہ انسانی تہذیب و ثقافت کیلئے بھی ایک جان لیوا خطرہ ہے۔ کیونکہ گزشتہ دس ہزار سالوں میں اگرچہ انسانی تہذیب نے انتہائی شاندار پیش رفت کی ہے تاہم انسانی کلچر اور تہذیب واقعتا ایک باریک تہہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
تہذیب حقیقت میں بہت نازک ہے اور کلچر کی اس باریک سی جھلی کے نیچے قدیم بربریت کی قوتیں ابھی تک موجود ہیں۔ آپ نے اس کا مشاہدہ ہٹلر کے جرمنی میں کیا ہوگا۔ اور ابھی حال ہی میں ہم نے بلقان کے خطے میں بھی اس کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ اگر محنت کش طبقے نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں نہ لیا تو انسانی تہذیب و ثقافت کا مستقبل شدید خطرے سے دو چار ہو جائے گا۔ لیکن اس سوال کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
جدید حالات میں،پیداواری قوتوں،سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبردست ترقی کے باعث ایک سوشلسٹ انقلاب، خاص طور پر عالمی سطح پر برپا ہونے والا انقلاب تیزی سے ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی طرف لے جائے گا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ سرمایہ داری کے عظیم ترین جرائم میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے عام انسانوں کی ان صلاحیتوں کو کچل کر رکھ دیا ہے جن سے کام لے کر وہ نئی چیزوں کو دریافت کرتے ہیں، تخلیق کرتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت کو کبھی یہ موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ ٹراٹسکی نے ایک بار کہا تھا کہ ’’کتنے ارسطو ہیں جو سوروں کے ریوڑ چرا رہے ہیں اور کتنے سور ہیں جو تخت نشین ہیں۔‘‘
صدیوں سے آرٹ پر مٹھی بھر لوگوں کی اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ وسیع تر اکثریت کے سامنے اسے پر اسرار،دشوار اور نا قابلِ رسائی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ فنکار کو ایک خاص قسم کے انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے پیدائشی طور پر نوازا گیا ہے اور وہ ہمارے جیسا نہیں ہے۔ ہم اس بات کی تردید نہیں کرتے کہ ہماری تشکیل میں ایک جینیاتی عنصر موجود ہے جو ہمیں ارتقاء کیلئے خصوصی امکان فراہم کرتا ہے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ ہر کوئی موزارٹ جیسا موسیقار نہیں بن سکتا۔
موزارٹ کی جینیاتی تشکیل ایسی تھی جو اسے ایک عظیم موسیقار بننے کا امکان فراہم کرتی تھی۔لیکن اس امکان میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے اس ماحول نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جس میں اس کی پرورش ہوئی تھی۔ اس کا باپ لیوپولڈ موزارٹ ایک جانا پہچانا موسیقار تھا جو اپنے بچے کو بہت بلندیوں پر دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بچپن ہی سے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ موسیقی میں دلچسپی لے۔ اس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس بچے موزارٹ میں ایک عظیم موسیقار بننے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن کیا کوئی شخص سنجیدگی سے اس بات پر یقین کر سکتا ہے کہ اگر وہ ایک خوشحال موسیقار کے گھر پیدا ہونے کی بجائے کسی ہندوستانی مزارعے کے گھر پیدا ہوتا تو پھر بھی وہ یہ عظیم موسیقی تخلیق کر پاتا ؟ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں تھا۔
اٹھارہویں صدی کے ایک انگریز شاعر نے کہا تھا:
’’ان گنت بے داغ موتی سمندری غاروں کی تاریک گہرائیوں میں دفن ہیں۔
ان گنت پھول نظروں سے اوجھل کھل کر مرجھا جاتے ہیں
اور صحرا کی باد سموم میں اپنی خوبصورتی لٹا جاتے ہیں۔‘‘
سرمایہ داری کے تحت انسانی صلاحیتیں جس طرح ضائع ہو رہی ہیں انہیں کس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
اگر آپ سوشلزم کی بنیادی تعریف جاننے کے خواہاں ہیں تو آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ نسلِ انسانی میں جو صلاحیتیں موجود ہیں انہیں حقیقت کا روپ دیا جائے۔ اگر آپ انسانیت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اس میں موزارٹ جیسے فطین انسانوں کی تعداد کس قدر کم ہے۔بہت ہی کم ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا بھر میں جو اربوں انسان بستے ہیں ان میں سے ہر ایک انسان موزارٹ بن سکتا ہے کیونکہ ایسا کہنا غلط ہوگا۔ لیکن اس بات میں رتی بھر شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ان میں بے شمار لوگ ایسے موجود ہیں جن میں مختلف شعبوں میں اس قسم کی فطانت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ذرا اپنے سکول کے دنوں کو یاد کریں۔ وہاں آپ کے جاننے والے کتنے بچے ایسے تھے جو مختلف حالات کے تحت ڈاکٹر، موسیقار، رقاص، فٹبال کے کھلاڑی بن سکتے تھے۔اور ان کا انجام کیا ہوا؟کیا ہم سبھی ایسے خواب نہیں دیکھتے؟ لیکن سرمایہ داری لوگوں کے ان خوابوں کو جلد ہی کچل ڈالتی ہے۔ وہ سنگدل اور وحشی بن جاتے ہیں اور بعض کی حالت تو جانوروں جیسی ہو جاتی ہے۔ نو عمری میں ہی ان کی صلاحیتیں کچل دی جاتی ہیں۔ سوشلزم کا حقیقی معنی یہ ہے کہ ان امکانی صلاحیتوں،انسانی صلاحیتوں کو بار آور کیا جائے۔
کامریڈز سوشلزم کا حقیقی مقصد روٹی کے ٹکڑے کے لئے لڑنا نہیں ہے۔ہم اس کیلئے نہیں لڑ رہے ہیں۔یہ محض پہلا قدم ہے اور یقیناًانتہائی اہم بھی ہے۔ بائبل میں لکھا ہے ’’انسان محض روٹی کھا کر ہی زندگی نہیں گزارے گا‘‘ اور درحقیقت انسان کبھی بھی محض روٹی کیلئے زندہ نہیں رہا۔ سوشلسٹ سماج میں مردو زن غربت اور محرومی سے آزاد ہوں گے اور ان کے پاس حقیقی معنوں میں انسان بننے کے لئے درکار وقت کی بھی کمی نہیں ہوگی۔ پہلی بار وہ خود کو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے ترقی دینے اور اپنی شخصیت کو نکھارنے کیلئے آزاد ہوں گے۔
آپ ذرا غور کریں کہ کتنی زبردست تخلیقی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں گی۔ اس کی حاصلات کے مقابلے میں نشاۃِثانیہ بچوں کا کھیل معلوم ہوگی۔ تاریخ میں پہلی بار آرٹ از سرِ نو زندگی کا حصہ بنے گااور عجائب گھروں کی چاردیواری تک محدود نہیں رہے گا۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ عجائب گھر آرٹ کیلئے جبری مشقت کے کیمپوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضروری ہے کہ آرٹ کو اس قید خانے سے آزاد کروا کر زندگی سے دوبارہ جوڑا جائے۔آآرٹ اور مستقبل
اکیسویں صدی کے آغاز پر انسانیت کو ایک انتہائی اہم مسئلے یعنی نام نہاد عالمگیریت کا سامنا ہے۔معاشی کے ساتھ ساتھ اس کے ثقافتی پہلو بھی ہیں۔ مارکسی ہونے کے ناطے ہم بین الاقوامیت پسند ہیں اور ہمارے اندر قوم پرستانہ تعصب کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔ مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں وضاحت کی تھی کہ سرمایہ داری کا ارتقاء عالمی معیشت کے رجحان کو پیدا کرے گا جس سے بالآخر ایک عالمی کلچر نمودار ہوگا۔
یہ بات کسی حد تک پہلے ہی حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ پچھلے بیس تیس سالوں میں عالمی سطح پر ایک زبردست تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ عملاً آپ جہاں بھی جائیں، بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں اور روز افزوں کم ترقی یافتہ ممالک میں بھی، نوجوان ایک جیسے کپڑے پہنتے ہیں، ایک جیسی موسیقی سنتے ہیں اور معیار کی یکسانیت کی طرف ایک عام رجحان پایا جا رہا ہے۔ یہ اچھی چیز ہے یا بری؟ اس مسئلے پر ہمیں احتیاط کرنی چاہیے تاکہ ہم ایک جاہلانہ قوم پرستی پر مبنی موقف کا شکار نہ ہو جائیں۔ کیونکہ بہت سی گندگی اور غلاظت کی صفائی کے نتیجے میں بالآخر سوشلزم کے تحت ایک عالمی انسانی کلچر تشکیل پائے گا۔ تاہم سرمایہ داری کے تحت اس عالمی ’’کلچر‘‘ کا گھناؤنا ثقافتی غلبہ ہے جو اپنے منافع خوری کے مفادات کے لئے تمام دوسری ثقافتوں کو کچلتا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہو سکتی۔
برسبیل تذکرہ یہاں کسی نے ’’مزدوروں کی موسیقی‘‘ یا ’’مزدوروں کے آرٹ ‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ حقیقت میں اس قسم کی چیزوں کا کوئی وجود نہیں۔ مارکس نے بہت پہلے وضاحت کر دی تھی کہ ہر عہد کے غالب خیالات حکمران طبقے کے خیالات ہوتے ہیں۔ اور ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ پرولتاریہ انقلاب سے پہلے اپنا کلچر تخلیق نہیں کر سکتا کیونکہ سرمایہ داری کے تحت اس کے حالاتِ زندگی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ دوسری جانب سوشلسٹ انقلاب برپا ہونے کے بعد جو کلچر ابھرے گا وہ مزدوروں کا کلچر نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک انسانی اور سوشلسٹ کلچر ہوگا۔
کامریڈز ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی نظروں کو ذرا بلند کریں اور اپنے افق کو وسیع تر کریں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ موجودہ غلاظت،موجودہ بحران اور کرۂ ارض کے ساتھ موجودہ بلادکار کے نتیجے میں ایک نئی چیز بھی نمودار ہونے کو ہے۔ تاریخ میں جب بھی کوئی نظام موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح بحران کا شکار ہوتا ہے تو اس حقیقت کا اظہار کئی طریقوں سے ہوتا ہے۔ خاندان کا بحران، اخلاقیات کا بحران، ثقافت کا بحران اور اب سرمایہ داری کے تحت یہ سبھی عناصر موجود ہیں۔
گلنے سڑنے کے عمل کے ساتھ ساتھ زوال اور بیماری کا عام احساس بھی پایا جا رہا ہے جس نے آرٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس وقت جو فن تخلیق ہو رہا ہے ذرا اس کو ملاحظہ فرمائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں ایک کھلے ذہن کا شخص ہوں، میں فنکارانہ تجربات کے حق میں ہوں، مجھے نئے خیالات میں دلچسپی ہے لیکن جب میں لندن میں فنکاروں کی نمائش میں جاتا ہوں جہاں ایک مردہ بھیڑ کو محفوظ کرنے والے محلول میں ڈال کر اسے ایک فن پارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو میں تذبذب میں پڑ جاتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ یہ بھی زوال پذیری اور گراوٹ کی ہی علامت ہے کہ لوگ اس کیلئے بہت سا پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ کچھ فنکاروں نے اپنے بول و براز سے فن پارے تخلیق کئے ہیں۔ میں یہ بات مکمل سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ انہیں منڈی میں فروخت کرنے کیلئے رکھا جاتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان سے بہت سا پیسہ بنایا جاتا ہوگا۔ انگریزوں کے ہاں ایک پرانی کہاوت ہے کہ ’’جہاں غلاظت کا ڈھیر ہو وہاں پیتل بھی ہوتا ہے۔‘‘ اور سرمایہ داری کی دنیا میں جہاں بول و براز ہے وہاں پیسہ ہے۔ بورژوا طبقہ ہمیشہ کی طرح کسی بھی چیز سے پیسہ بنا سکتا ہے۔
اگر فن ایک آئینہ ہے جس میں سماج اپنا عکس دیکھ سکتا ہے تو یہ چیز پوری ایمانداری سے اکیسویں صدی کے بورژوا سماج کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ کلچر کے بحران اور اس کی حتمی زوال پذیری کی نشاندہی کرتی ہے۔لیکن ایک حوالے سے اس فن میں بھی کچھ نہ کچھ ہے جو وہ ہمیں بتاتا ہے۔وہ ہمیں بتاتا ہے کہ سرمایہ داری کے تحت کلچر اب مزید ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک سنجیدہ پیغام ہے۔لہٰذا سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے بورژوا طبقے کی طرح پرولتاریہ پر بھی یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اس تمام گندگی اور غلاظت کو صاف کرکے ایک نئے سماجی نظام کیلئے راستہ ہموار کرے۔
میں یہ بات زور دے کر کہتا ہوں کہ یہ محض ایک معاشی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ دار طبقہ ان بے پناہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے جن کے ذریعے صنعت، زراعت اور ٹیکنالوجی کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ اگر محنت کش طبقہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی بنیاد پر انسانی ترقی کیلئے بے پناہ امکانات روشن ہو جائیں گے۔
ہم اسی چیز کے لئے لڑ رہے ہیں۔ہم محض پرولتاریہ کی معاشی آزادی کے لئے ہی نہیں لڑ رہے بلکہ ہم نسل انسانی کی روح کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے سماج کے لئے لڑ رہے ہیں جس میں ہر کسی کی صلاحیتیں پوری طرح پھل پھول سکیں۔ سرمایہ داری کی ذلت آمیز غلامی سے نجات حاصل کرکے ہم بالآخر حقیقی انسانی رتبے کو پا سکیں اور پھر ستارے ہماری پہنچ سے زیادہ دور نہیں ہوں گے۔
ایک سوشلسٹ سماج میں لوگ موجودہ بدہیت،غلیظ اور گنجان آباد عفریت نما شہروں کی جگہ نئے اور خوبصورت شہر آباد کریں گے۔ لوگ خوبصورت مکانوں میں رہنے کا حق رکھتے ہیں اور یہ حق انہیں ضرور ملنا چاہیے۔ وہ زندگی گزارنے کے لئے حقیقی معنوں میں انسانی حالات تخلیق کریں گے۔ گھر، کام کرنے کی جگہ اور گلی کوچے تک خوبصورت ہو جائیں گے ۔فن تعمیر دیگر فنون کا غریب رشتہ دار نہیں رہے گا بلکہ اس پر گرما گرم مباحثے ہونگے۔ اسے دوبارہ وہ مرکزی حیثیت اور وقار حاصل ہو جائے گا جو اسے قدیم ایتھنز میں ملا تھا۔
آرٹ، کلچر اور سائنس کو بے نظیر فروغ حاصل ہوگا اور اعلیٰ ترین اور اہم ترین فن یعنی بذاتِ خود زندگی گزارنے کا فن بھی بے مثال ترقی کرے گا۔ زندگی کو خوبصورت بنانے سے بڑا نصب العین اور کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہمیں صرف ایک ہی زندگی ملتی ہے۔ جدلیاتی مادیت کو ماننے والوں کی حیثیت سے ہم موت کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں کی زندگیاں خالی اور بے معنی نہ رہیں۔ بلکہ ہر کوئی بھرپور زندگی گزار سکے اور جب اس کو موت آئے تو وہ اس دنیا سے بغیر کسی پشیمانی اور افسوس کے رخصت ہو سکے۔
اینگلز کے الفاظ میں یہ ’’ جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم تک انسانیت کی چھلانگ‘‘ ہوگی۔ ہم اس نصب العین کیلئے لڑ رہے ہیں۔یہی وہ نصب العین ہے جس کیلئے لڑنا ایک اعزاز ہے۔ان تصورات سے مسلح ہو کر تقویت حاصل کرتے ہوئے ہم بالآخر فتحیاب ہوں گے۔
بارسلونا جولائی 2001ء
اختتامیہ
مندرجہ بالا سطور میں ایک ایسے موضوع کا محض معمولی سا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو نہایت وسیع اور پیچیدہ ہے۔ مجھے اس موضوع پر بات کرنے کیلئے پورا دن چاہیے ہوگا اور ہمیں اس پر بحث کے لئے پورا ہفتہ درکار ہوگا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں اس موضوع سے انصاف کرنے کے لئے اس پر ایک کتاب لکھنی پڑے۔
آسٹریا کے مارکسسٹ ارنسٹ فشر نے سوال کیا تھا کہ آرٹ کا مطلب کیا ہے؟ آرٹ کیا ہے؟ اور اس نے جواب میں کہا کہ بھرپور زندگی کیلئے انسانیت کی جستجو کا نام آرٹ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ طبقاتی سماج میں نہ عورتیں مکمل عورتیں ہیں اور نہ مرد مکمل مرد۔ بہترین صورت میں ہم محض نیم انسان کے درجے تک پہنچتے ہیں۔اگرچہ لوگوں کو اس بات کا مکمل ادراک نہیں ہوتا ۔ اکثر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں ہے کہ کیوں لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں کسی چیز کی کمی ہے۔
لوگوں کی بہت بڑی اکثریت کیلئے سوال یہ نہیں کہ ’’آیا موت کے بعد بھی کوئی زندگی ہے‘‘۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ ’’آیا موت سے پہلے بھی کوئی زندگی ہے‘‘۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو لوگوں کیلئے باعث اذیت ہے۔ جب لوگ اپنی زندگی پر سوچنا ترک کردیتے ہیں تو اپنے آپ سے پوچھتے ہیں:’’کیا یہی سب کچھ ہے؟ کیا زندگی میں بس یہی سب کچھ ہے؟‘‘ وہ موت کے بعد کی زندگی کی توقع اس لئے رکھتے ہیں کہ انہوں نے حقیقت میں زندگی جی ہی نہیں ہوتی۔ اور یہیں سے آرٹ کا عمل دخل شروع ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کو خواب دیتا ہے،انہیں ایک وسیع افق فراہم کرتا ہے۔ وہ خواب دیکھتے ہیں کہ معاملات بہتر ہو سکتے ہیں،زندگی بہتر انداز میں گزاری جا سکتی ہے۔ جن مردوں اور عورتوں کی زندگیاں پیار سے خالی ہیں وہ سینما گھروں میں جا کر احمقانہ قسم کے معاشقوں پر بنائی گئی فلمیں دیکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ حقیقی انسانی پیار، احساسات اورجذبات کے تمنائی ہوتے ہیں۔ انہیں رنگ میں کشش اس لئے محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان کی اپنی زندگیاں بے رنگ ہوتی ہیں۔ انہیں مذہب میں بھی دلچسپی اسی لئے ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک روح سے عاری دنیا میں رہتے ہیں۔ میں عوام کی بات کر رہا ہوں، دانشوروں کی نہیں۔ بہت سے لوگ سینما گھروں میں جاکر فلمیں دیکھتے ہیں، بہت سے لوگ ٹی وی پر وہ بے ہودہ پروگرام دیکھتے ہیں جنہیں انگلینڈ میں ’سوپ اوپیرا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقی زندگی کا ایک انتہائی خراب متبادل ہیں مگر انہیں لاکھوں کروڑوں لوگ صرف اس لئے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی زندگی ہی نہیں ہے۔ سینما گھروں یا ٹی وی کی سکرین کے سامنے بیٹھ کر گھڑی بھر کیلئے وہ ایکشن دیکھتے ہیں، جوش و خروش دیکھتے ہیں جس سے انہیں سرمایہ داری کی دی ہوئی ذلت آمیز بوریت سے بھری زندگی میں تھوڑا سا سکون محسوس ہوتا ہے۔ آرٹ کی اہمیت یہ ہے: یہ ایک خواب ہے جو چاہے کتنے ہی مبہم انداز میں سہی یہ ضرور سمجھاتا ہے کہ انسانیت ایک زندگی، حقیقی زندگی کی مالک بھی ہو سکتی ہے۔ اور وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ مرد و زن اپنے دلوں کی گہرائیوں میں ایک مختلف قسم کی زندگی کی آرزو رکھتے ہیں، ایک ایسی زندگی کہ جو موجودہ زندگی سے بہتر ہو۔
لہٰذا ایک حوالے سے تمام آرٹ میں انقلابی عنصر کی موجودگی کا احتمال ہوتا ہے کیونکہ جو کچھ موجود ہے وہ اس سے عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ بلاشبہ ہم آرٹ کی حدود کو سمجھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آرٹ کا میدان ہماری جدوجہد کے لئے اولین ترجیح نہیں ہے۔لیکن ہمیں اس شعبے پر بات کرنی چاہیے اور مداخلت کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔اور بلاشبہ ہمیں فنکاروں میں سے بہترین کے ساتھ رابطے اور مکالمے کا اجراء کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ٓٓآرٹ جن تضادات کا اظہار کرتا ہے انہیں آرٹ کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ سماج کے تضادات ہیں اور فن میں محض ان کی عکاسی کی جاتی ہے لیکن سماج میں انہیں صرف انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی
حل کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا آرٹ میں سچائی اور آزادی کی مستقل جستجو لازماً بالآخر سماجی انقلاب اور مارکسزم کے نظریات و پروگرام کی طرف لے کر جاتی ہے۔
(ختم شد)