|تحریر: میرلوٹ، ترجمہ: سلمیٰ ناظر|
یہ خبر کہ ایور گرینڈ کمپنی نے امریکہ میں دیوالیہ سے تحفظ کی درخواست کی ہے، چین کی ریئل سٹیٹ صنعت کی حتمی موت کا نقارہ بجاتی ہے۔ کارپوریٹ دیوالیوں کا سلسلہ، ریئل سٹیٹ کی منڈی میں کساد بازاری، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور عوام کی خرید و فروخت میں گراوٹ نے چین کی حکمران نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کے چین کے اندر ”مضبوط معاشی بڑھوتری“ کے جھوٹے دعوے کو بے نقاب کر دیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے لیے چاہے جتنی بھی طاقت مرکوز کی جائے، چینی کمیونسٹ پارٹی (CCP) کے بیوروکریٹ سرمایہ داری کے بحران کو حل نہیں کر سکتے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا زیادہ سے زیادہ مزدور اور نوجوان احساس رکھتے ہیں۔
کچے دھاگے سے لٹکی ریئل سٹیٹ صنعت
ایور گرینڈ گروپ، جو کہ چین کے ریئل سٹیٹ سیکٹر میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، کسی وقت میں ہزارہا ارب ڈالر کی سلطنت تھی، اور 2017ء میں چیئرمین ہوئی کئین کی چین کے امیر ترین آدمی کے طور پر تاج پوشی کی گئی تھی۔ مگر 2021ء میں بحران کا شکار ہونے سے لے کر اس سال 17 اگست کو امریکہ میں دیوالیہ پن سے تحفظ کیلئے درخواست کرنے تک، ایور گرینڈ کی موت کی اذیت نے چین کی گرتی ہوئی ریئل سٹیٹ مارکیٹ کو گھیر لیا ہے۔
17 جولائی کی شام، ایور گرینڈ نے کمپنی کی کارکردگی کی رپورٹ نکالی جو دکھاتی تھی کہ 2021ء اور 2022ء کے دو سالوں میں اس کمپنی کا نیٹ نقصان 812.03 ارب RMB (112.5 ارب ڈالر) ہے۔ 2022ء کے آخر تک، ایورگرینڈ کے کل قرضہ جات قریباً 2.4 ٹریلین RMB (330 ارب ڈالر) تھے، جبکہ اس کے اثاثے صرف 1.8 ٹریلین RMB تھے۔ چنانچہ یہ دیوالیہ پن تھا، جس کے قرضہ جات اندازاً چین کے جی ڈی پی کا تقریباً 2 فیصد تھے۔
لیکن ایورگرینڈ ایک اکیلی ایسی کمپنی نہیں ہے۔ 12 اگست کو ریئل سٹیٹ کی ایک اور بہت بڑی کمپنی، کنٹری گارڈن (Country Garden)، نے یہ اعلان کیا کہ ان کی کمپنی کے گیارہ ڈومیسٹک کارپوریٹ بانڈ معطل ہو جائیں گے۔ کمپنی 7 اگست کو دو امریکی بانڈز کی ادائیگی کرنے میں بھی ناکام رہی۔ کنٹری گارڈن چین کی نمبر ون ریئل سٹیٹ کمپنی کہلائی جاتی رہی ہے، اور اسے حکومت اور صنعت کی جانب سے بطور ایک ’مثالی کمپنی‘ کے گردانا گیا تھا۔ تاحال اس کی جان ایک دھاگے کے ساتھ لٹک رہی ہے۔
چین کی ڈھیروں پراپرٹی کی کمپنیاں پوری صنعت پر محیط کساد بازاری کے دہانے پہ کھڑی ہیں۔ پراپرٹی کے بلبلے کا پھٹنا مکمل طور پر سرمایہ داری کا منطقی نتیجہ ہے، کرونا نے اس عمل کی رفتار اور شدت میں محض اضافہ کیا۔
ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کاری، جو دہائیوں سے بڑھتی جا رہی تھی، حتیٰ کہ وبا کے دوران بھی شرح نمو 8 سے 10 فیصد تک رہی، یہ 2022ء میں پچھلے سال کی نسبت 10 فیصد کمی کا شکار ہوئی۔ 2023ء کے نصف میں ہی اس کی سرمایہ کاری میں پچھلے سال کی نسبت 8.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ریئل سٹیٹ سیکٹر میں 60 فیصد سے زیادہ کمپنیاں جنہوں نے 2023ء کے پہلے چھ مہینوں پر مشتمل اپنی کارکردگی کی رپورٹیں شائع کیں، وہ حالیہ برس اپنے نیٹ منافع میں کمی کی توقع رکھتی ہیں۔
جبکہ مرکزی حکومت ان بحرانات کے سامنے بالکل لاچار اور غیر فعال نظر آتی ہے، جو دوسری پرائیویٹ مصیبت زدہ کمپنیوں کو بچانے کے لیے محض ’مشاورت‘ اور ’اپیلوں‘ جیسی امداد تک محدود ہے، مگر صوبائی اور لوکل حکومتوں نے انتہائی سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ 3 اگست کو ہیبیئر کی ژینگ ژو شہر کی حکومت نے مقامی ریئل سٹیٹ کمپنیوں کو بچانے کیلئے ’15 آرٹیکلز (15 Articles)‘ نامی پالیسیاں متعارف کرائیں، جن میں ٹیکس چھوٹیں، فروخت پر عائد پابندیوں کے خاتمے، اور اسی طرح ”گھروں کو تسلیم کرنا مگر قرضوں کو نہیں“ جیسی پالیسیاں شامل ہیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے باقی شہر بھی ژینگ ژو کی طرز پر کام کرنا شروع ہو گئے۔ مثلاً سیچوان صوبے کے ’یاآن‘ نامی شہر نے تو ملک گیر سطح پر گھروں کی فروخت پر عائد قیمتوں کی سرکاری حدود کو بھی ماننے سے انکار کر دیا، اور یہ اجازت دے دی کہ سرکاری طور پر عائد کم از کم قیمت کی حد کو بالائے طاق رکھ کر پراپرٹی خریدی جا سکتی ہے۔
ریئل سٹیٹ چین کی معاشی ترقی میں ایندھن کا کردار ادا کرتی ہے، یہ بہت بڑا صنعتی حجم رکھتی ہے اور کسی بھی سیکٹر کے جی ڈی پی کی بڑھوتری میں اہم کردا ادا کرتی ہے۔ یہ کسی بھی دوسرے سیکٹر کی نسبت زیادہ ماتحت اور منحصر انڈسٹریز (مثلاً تعمیراتی انڈسٹری، فنانس، مارکیٹنگ وغیرہ) سے جڑی ہوئی ہے۔ ریئل سٹیٹ بینکوں سے لیے ہوئے 76.4 فیصد سود سمیت قرضی اثاثے رکھتی ہے جو 10 ٹریلین یوان سے تجاوز کرتے ہیں۔
ریئل سٹیٹ وہ نقطہ ہے جہاں بیوروکریٹوں اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات آپس میں ملتے ہیں۔ منسٹری آف فنانس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2018ء میں زمین کی خرود و فروخت سے لوکل حکومتوں کو حاصل ہونے والی آمدن 6.5 ٹریلین یوان تک جا پہنچی، اور اب لوکل حکومتوں کی کل آمدن کا 66.5 فیصد حصہ اسی خرود و فروخت سے حاصل ہو رہا ہے۔ ریئل سٹیٹ چینی معیشت میں ایک کمزور کڑی کی حیثیت رکھتی ہے،ا ور ریئل سٹیٹ میں نہ رُکنے والا زوال چین کی پوری معیشت میں وقوع پذیر ایک نہ رُکنے والے بحران کا اظہار ہے۔
ژونگ ژی، شیڈو بینکنگ (غیر رسمی بینکاری) اور بڑھتا ہوا ناگزیر بحران
حالیہ برس جولائی کے آخر میں، ایسا سننے میں آیا تھا کہ چین کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایسٹ مینیجمنٹ (Private Asset Management) کمپنی، ژونگ ژی (Zhongzhi، جو قریباً ایک ٹریلین یوان کے اثاثہ جات سنبھالتی ہے اور اس میں 10 ہزار سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں)، مشکلات کی زد میں رہی ہے اور اس کی بیلنس شیٹ کی جانچ پڑتال انٹرنیشنل فرم KPMG کرتی ہے۔ اس خبر کے فوری طور پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔
چند ہفتوں بعد ہی، ژونگ رونگ ٹرسٹ (Zhongrong Trust) جو ژونگ ژی کے ماتحت ایک کمپنی ہے، اپنے واجبات کی ادائیگی کے سلسلے میں دیوالیہ ہونا شروع ہوئی۔ کئی ایسی کمپنیاں جنہوں نے ژونگ رونگ ٹرسٹ سے انویسٹمنٹ پراڈکٹ خریدے ہوئے تھے، یکے بعد دیگرے اعلان کیا کہ انہوں نے ”اندھی کھائی میں چھلانگ لگا دی ہے“ اور انہیں ان کا سرمایہ اور انویسٹمنٹ کے واجبات واپس نہیں دیے گئے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا ایک چھوٹا گروہ اپنی انویسٹمنٹ کی ادائیگی کے لیے ژونگ رونگ بھی گیا۔
ژونگ ژی کے بحران کے اثرات بہت زیادہ ہیں، ژونگ ژی چین کے سب سے بڑے ’شیڈو بینک‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ چین کے معاشی نظام میں بہت زیادہ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ’شیڈو بینک‘ اہم صنعت کے طور پر ابھرے اور انہوں نے قرضے دینے اور مالیاتی داؤ پیچ کے ذریعے بہت وسیع پیمانے پر چین کی معیشت کے لیے منافع جات پیدا کیے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ چینی معیشت میں مالیاتی سرمائے کا کردار ادا کرنے لگے۔ ایک خاص وقت پر آ کر بہت سے ’شیڈو بینک‘ اپنی ذاتی صنعتی سرگرمی سے زیادہ مالیاتی معاملات کے ذریعے پیسہ کمانے لگے۔
ہم نے اس مظہر کی وجوہات اور نتائج کی وضاحت دو سال پہلے کر دی تھی (پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)، جب پہلی بار ایور گرینڈ کی مشکلات کی خبر پھیلی تھی:
”جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی، قرض سرمائے کو اس فطری حدود سے باہر نکلنے کی اجازت تو دے دیتا ہے اور بحران پر بھی عارضی حد تک قابو پا لیتا ہے، مگر ایسا کرنے کے لیے اسے پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑے بحران کی صورت میں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جب وہ تمام قرضے واپس کرنے ہوتے ہیں۔
”جتنا زیادہ قرض لیا جاتا ہے، وہ اتنا ہی غیر مؤثر بنتا جاتا ہے۔ اب چینی معیشت میں ایک ڈالر گروتھ کی پیداوار کرنے کے لیے 4 ڈالر کا قرضہ لینا پڑتا ہے، جبکہ اس سے پہلے یہی کام 1.40 ڈالر میں ہو جاتا تھا۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ موجودہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے پہلے سے کہیں بڑے پیمانے پر قرضے لیے جاتے ہیں، ناقابلِ برداشت قرضے، جو نئی پیداواری قوت بنانے کی بجائے پچھلے قرضوں کی ادائیگی میں صَرف ہوتے ہیں۔“
اس دوران ژونگ ژی 2021ء سے مصیبت میں دھنسی ہوئی ہے، آج یہ جس گہرے بحران سے دوچار ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ہم ”بہت بڑے بحرانات“ کے عہد سے گزر رہے ہیں۔ شیڈو بینکنگ کے غیر واضح کردار کی وجہ سے ژونگ ژی کے بحران کے دائرہ کار اور اس کے نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہے، مگر یہ غیر متوقع حد تک وسعت رکھتا ہے اور CCP کی حکومت کی برداشت کی حدود سے کوسوں دور ہے۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی ’پُر اسراریت‘
اس وقت جہاں دیو ہیکل سرمایہ دار کمپنیاں مصیبتوں میں جکڑی ہوئی ہیں، اسی دوران چین کا محنت کش طبقہ ایک دوسرے سماجی تضاد سے دوچار ہے۔ جیسا کہ مارکس نے اپنی کتاب ’سرمایہ‘ میں وضاحت کی ہے کہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے کے اندر، سرمائے کی زیادتی کی ضرورت کے نتیجے میں بڑی سطح پر بے روزگار افراد کی ضرورت ہر وقت موجود رہتی ہے جو صنعت کے لیے محنت کرنے والی فوج کا کام سر انجام دے سکیں۔ اس لیے سرمایہ دارانہ سماج میں بے روزگاری کو قائم رکھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023ء کے پہلے چھ مہینوں میں چین میں بے روزگاری کی شرح 5.3 فیصد رہے گی۔ لیکن وہ 5 فیصد کے اس جادوئی اعداد و شمار تک کیسے پہنچے ہیں؟ جب ہم اس بات سے واقف ہوں کہ حال ہی میں گریجویٹ ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے تو اس بات کی سچائی مشکوک ہو جاتی ہے؛ 10 فیصد سے زیادہ مزدوروں نے وبا کے تین سالوں عرصے میں بے زورگاری کا سامنا کیا ہے؛ اور جب ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ وبا سے پہلے کی نسبت اب 16 سے 40 سال کی عمر کے بے روزگار افراد کی تعداد میں 6.2 فیصد سے 7.5 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے؟
جولائی میں 16 سے 24 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 21.4 فیصد تک پہنچ چکی تھی، جس کا مطلب ہے کہ (سرکاری طور پر) 16 سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں 10 میں سے 2 لوگ بے روزگار ہیں، اور بے روزگاری کی اصل شرح ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ جولائی میں چلنے والی لہر کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے، سرکاری ادارہ شماریات نے اگست میں اعداد و شمار شائع نہیں کیے اور ”ٹیکنیکل مسائل“ پیدا ہونے کا بہانہ بنایا۔ ان مسائل کا سامنا ہونے کا یہ کیا ہی صحیح وقت ہے!
CCP کی حکومت بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے قابل نہیں ہے اور حتمی تجزیے میں یہ سرمایہ دارانہ نظام بھی اس قابل نہیں ہے جس کی یہ حمایت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب زوال کا جھٹکا لگتا ہے تو نوجوانوں میں بے روزگاری پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر لیتی ہے۔
معاشی زوال اور کم ہوتی قوت خرید
چین کی وزارت خارجہ کے ایک نمائندے کے مطابق: ”چین کی معیشت سنبھل رہی ہے، اس میں ترقی اور بہتری آ رہی ہے، اور عالمی معاشی ترقی میں بطور ایک اہم انجن اپنا کردار ادا کرتی رہے گی!“ بیوروکریٹوں کی ان اونچی بھڑکوں کے باوجود اعداد و شمار بالکل مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔
سرمایہ کاری، برآمدات اور کھپت چینی معیشت کو چلانے والے تین اہم ستونوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اب ان تین ستونوں میں سے دو یعنی سرمایہ کاری اور برآمدات تو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
فکسڈ ایسٹ انویسٹمنٹ (Fixed Asset Investment) کی مجموعی بڑھوتری مارچ میں 5 فیصد سے کم ہو کر جولائی میں 3.4 فیصد رہ گئی تھی۔ مینیوفیکچرنگ پی ایم آئی (Purchasing Managers’ Index، جو صنعتی ترقی کی صورت میں 50 فیصد سے اوپر اور کمی کی صورت میں 50 فیصد سے نیچے ہے) 49.3 فیصد تھا جو اپریل کے مہینے سے 50 فیصد سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔
چین کے ادارے جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز (General Administration of Customs) کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق درآمدات اور برآمدات کی کل قدر میں جولائی کے مہینے سے پچھلے سال کی نسبت 8.3 فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے۔ چین کی درآمدات اور برآمدات کی مجموعی قدر اس سال کے پہلے سات مہینوں میں 3.4 ٹریلین ڈالر تھی، جس میں پچھلے سال کی نسبت 6.1 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
امریکہ اور یورپ چینی معیشت سے علیحدگی اختیار کرنے مسلسل کوشش کر رہے ہیں، موجودہ سال کے پہلے سات مہینوں میں امریکہ اور چین کی تجارت میں 15.4 فیصد کمی آئی ہے۔ اپنی برآمدات کے بلبوتے پر چلنے والی معیشت کے لیے غیر ملکی تجارت کا سکڑنا اس معیشت پر ایک کاری ضرب ثابت ہو سکتا ہے۔
چین کی معیشت کے تیسرے انجن، یعنی کھپت کی کیا صورتحال ہے؟ اس سال کرونا کے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد 2023ء کے پہلے چار مہینوں میں مقامی لوگوں کی قوت خرید میں بہت گراوٹ آئی ہے۔ اپریل کے مہینے میں شرح نمو بڑھ کر 18.4 فیصد کی بلندی تک پہنچ گئی تھی، لیکن جلد ہی جولائی میں قوت خرید کی شرح نمو نمایاں کمی کے ساتھ 2.5 فیصد تک پہنچ گئی۔
جولائی کے مہینے میں اشیائے صَرف کی مجموعی فروخت کے اعداد و شمار عوام کی قوتِ خرید میں گراوٹ کی واضح عکاسی کرتے ہیں، جس میں کھانا، سگریٹ، الکوہول اور ادویات جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی شامل ہیں۔ جبکہ، دوسری بہت سی اشیاء کے استعمال میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، ایسی اشیا اور خدمات جو ماضی میں آسانی سے حاصل کی جا سکتی تھیں، اب پُر تعیش بن گئی ہیں جن تک رسائی کے لیے اچھی آمدنی کا ہونا بہت ضروری ہے۔
معاشی زوال اور کم قوتِ خرید کی اس خوفناک معاشی تصویر نے حکومت کو خوفزہ کر دیا ہے، اور اس نے فوراً قوتِ خرید کو بڑھانے کا نوٹس (Notice on Expansion of Consumption جسے ’Twenty Articles‘ بھی کہا جاتا ہے) جاری کر دیا۔ یہ نوٹس بے کار اور غیر عملی تدابیر سے بھرا ہوا ہے۔
کچھ پالیسیاں محنت کشوں کے نقطہ نظر سے بالکل مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں، جیسا کہ شہریوں کو پیسے ادھار لے کر خرچ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ محنت کشوں کو رعائتیں اور خریداری کیلئے سرکاری رسیدیں دینے کی بجائے، چینی ریاست انہیں کاغذ کا ایک ٹکڑا دے رہی ہے۔ جلد ہی وقت یہ ثابت کر دے گا کہ آیا کاغذ کے ان ٹکڑوں سے قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔
سرمایہ داری کا امن ختم ہو گیا، بحران اور انقلاب ہی مستقبل ہیں
چینی معیشت کو اس وقت ایک غیر معمولی بحران کا سامناہے۔ یہ 2008ء کے بحران سے بالکل مختلف ہے، جب چینی معیشت کم نجی اور سرکاری قرض کے ساتھ معاشی طور پر ابھر رہا تھا، اور اس کی صنعت بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ موجودہ معاشی بحران بہت گہرا بحران ہے اور جب سے چین نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اپنے قدم جمائے ہیں تب کے بعد سے اب پہلی بار چین کو ایسے بحران سے نمٹنا پڑ رہا ہے، اور CCP اس بحران کو پھیلنے سے روکنے میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔
حالیہ مسلسل چلنے والے بحرانات نے ’چینی خصوصیات کا حامل سوشلزم‘ کے نظریے پر مبنی بحث کو بُری طرح رد کیا ہے، جس کے مطابق سرمایہ داری کے تضادات کو ایک طاقتور ریاست کی بھرپور مداخلت کے ذریعے موثئر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے (جسے وہ ”پارٹی کی روشن خیال قیادت“ کا نام دیتے ہیں)۔
CCP کی مداخلت نہ صرف ایور گرینڈ کے بحران کو حل کرنے میں ناکام ٹھہری ہے، بلکہ یہ نئے جنم لینے والے دھماکوں کی روک تھام میں بھی ناکام ثابت ہو گی۔ کنٹری گارڈن اور ژونگ ژی کا بحران اپنی نوعیت کا آخری بحران نہیں ہو گا، بلکہ ان سے بھی وسیع بحرانات کا آغاز ہو گا۔
اب بحرانات کے دوران CCP کے عہد یداران نے ڈائریکٹ بیل آؤٹ پیکجز لینے اور نیشنلائزیشن سے اجتناب برتا ہے اور اس کی بجائے ان بحرانات سے نمٹنے کے لیے کئی دوسری نجی کمپنیوں کا سہارا لیتے ہوئے پس پردہ بہت سی تدابیر اختیار کی ہیں۔
اس طریقے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا، اور نہ ہی اس طرح سے ان نجی کمپنیوں سے بیل آؤٹ پیکجز لینے سے بچا جا سکتا ہے۔ ڈائریکٹ سرکاری بیل آؤٹ پیکجز کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ لہٰذا، ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوا تو دوسری بحران زدہ کمپنیاں بھی سرکاری امداد حاصل کرنا چاہیں گی۔
زائد پیداوار کا بحران سرمایہ داری کی ناقابلِ علاج بیماری ہے، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی افراتفری سے سماج سراسر منتشر ہو جاتا ہے اور طبقاتی تضاد شدت اختیار کرتا ہے۔ بورژوا طبقہ اور بیورو کریٹ چاہے کتنا بھی ”استحکام“ اور ”امن و امان“ کا شور مچالیں لیکن CCP سرمایہ داری کے بحران کو حل کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ سانڈ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھی سینگ رکھتے ہوں۔
تاہم، وہ محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے غصے کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی ظلم و جبر استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جیسک جدوجہد (Jasic struggles)، ہینان بینک ڈپوزیٹر احتجاج (Henan Bank Depositor Protests)، فوکس کان ہڑتالوں (Foxconn Strikes) جیسے واقعات نے ہمیں اندوہناک اسباق دیے ہیں۔ پارٹی کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے ذریعے حاصل کیے گئے استحکام کا مطلب بس یہی ہے کروڑوں محنت کشوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرا دو تاکہ وہ خاموش رہیں۔
چین کی ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے 1949ء کے چینی انقلاب کی حاصلات سے ہاتھ دھو بیٹھنے اور سرمایہ داری کو ابھارنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ وہ بڑا جھوٹ تھا جو اس (پارٹی) نے محنت کش طبقے کے ساتھ بولا تھا۔
چین کے سرمایہ داری کی طرف مُڑنے کے بعد کچھ وقت تک CCP نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اپنے قدم جما کر اپنا مقام برقرار رکھا۔ بیس سالوں بعد موجودہ زوال نے محنت کش طبقے کو یہ ثابت کر دیا ہے کہ ”مستحکم ترقی“ کا ”سنہری دور“ اب ختم ہو چکا ہے۔ اب صرف پُر زور طبقاتی جدوجہد ہی آگے کا راستہ ہے۔
معاشرے میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ سب لوگ ایک اچھی زندگی گزار سکیں۔ اس کے لیے مادی بنیادیں بھی وافر مقدار میں موجود ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی بھی کافی جدید ہو چکے ہیں۔ صرف محنت کش طبقہ ہی انقلاب کے ذریعے CCP اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتا ہے، اور سرمایہ داری کی پُر انتشار اور بے نظم و ضبط معیشت کو ختم کر کے جمہوریت پر مبنی منصوبہ بند معیشت قائم کر سکتا ہے۔
صرف اسی صورت میں چین اور پوری دنیا کو سرمایہ داری کی بربریت سے آزادی حاصل ہو سکتی ہے اور جبر و استحصال سے پاک کمیونسٹ سماج کی تعمیر کے لیے پیداواری قوتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔