مہنگائی میں بد ترین اضافہ ہو چکا ہے اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ملکی کرنسی کی قدر میں تیز ترین گراوٹ ہو رہی ہے ۔ سونے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے جس سے واضح ہے کہ محنت کشوں کی قوت خرید میں بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے۔لیکن اس دوران مزدور کی کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو محنت کشوں کی حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے۔تعلیم اور صحت پر ہونے والے اخراجات سے لے کر بجلی، گیس ، ٹرانسپورٹ اور دیگر تمام تر اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے واضح ہے کہ محنت کشوں کے معیار زندگی میں بھی بڑے پیمانے پر مزید کمی ہو چکی ہے۔
پہلے ہی مزدور آٹھ گھنٹے کی بجائے سولہ سولہ گھنٹے کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہفتہ وار چھٹی ماضی کا قصہ بن چکی ہے جبکہ تہواروں پر بھی چھٹی کے پیسے کاٹ لیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ مستقل روزگار کے مواقع مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں اور عارضی روزگار اور ٹھیکیداری نظام کی بیہودگی پھیلتی جا رہی ہے۔جہاں پہلے گھر کا ایک فرد اپنے روزگار کے ذریعے خاندان کا پیٹ پالتا تھا اب تمام افراد بھی نوکری کر کے بمشکل اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھ پاتے ہیں۔مہنگائی کی نئی لہر نے اس معیار زندگی کو برقرار رکھنا بھی ناممکن کر دیا ہے اور اب محنت کشوں کو بچوں کی تعلیم یا بزرگوں کے علاج میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔دو وقت کی روٹی میں سے بھی ایک وقت کا کھانا ختم کرنا پڑتا ہے ۔پرانے کپڑوں اور جوتوں کی پیوند کاری کے ذریعے ہی شدیدسردی اور گرمی کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔چھوٹی موٹی بیماری کا مقابلہ تو بلند حوصلے سے کرلیا جاتا ہے لیکن بیماری کے بڑے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔یا پھر قسمت کا لکھا جان کر سب کچھ قبول کرنا پڑتا ہے۔ کیا اس کے علاوہ ان محنت کشوں کے پاس کوئی رستہ نہیں؟
ایک رستہ ہے اور وہ جدوجہد کا رستہ ہے۔اپنے آپ کو اور اپنے مزدور ساتھیوں کو منظم کرنے کا رستہ ہے۔ان حکمرانوں سے کسی بھی قسم کی رعایت ملنے کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہو گی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی۔ حکمران محنت کشوں پر مزید حملے کریں گے اور ان سے ان کا رہا سہا روزگار بھی چھیننے کی کوشش کریں گے۔ان سے تعلیم اور علاج کی سہولت تو وہ تقریباً چھین ہی چکے ہیں، اب ان کے تن سے لباس اور منہ سے نوالا بھی چھیننے کی طرف جا رہے ہیں ۔ جب کچھ بھی نہیں بچے گا تو وہ محنت کش عوام کا گوشت اور ہڈیا ں نوچیں گے ، خون پیئیں گے اور کھال فروخت کر دیں گے۔یہ اپنے منافعوں میں کبھی کمی نہیں ہو نے دیں گے اور اپنی عیش و عشرت کی زندگی سے کبھی رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہو ں گے۔ان کے محلاتمحنت کشوں کے خون سے ہی منور ہیں۔ان کے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں محنت کشوں کا ہی خون پسینہ بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ان کے گالف کلبوں اور کھیل کے دیگر میدانوں کی خوشنما گھاس ، ان کے گالوں پر لالیاں اور قہقہے، خوشبو دار بدن، مرغن کھانے اور قیمتی لباس و زیورات سب اسی وقت تک قائم و دائم رہ سکتے ہیں جب تک محنت کشوں کا استحصال جاری رہے اور ان کو تنگ و تاریک بد بو دار گلیوں میں سڑنے اور مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
اس لیے ضروری ہے کہ محنت کش اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم ہوں اور اپنی محنت کا پورا صلہ وصول کریں۔ مزدوروں کی یونینوں پر پہلے ہی بد ترین حملے کر کے انہیں تقریباً ناپید کر دیا گیا ہے۔جو بچی کھچی یونینز موجود ہیں ان میں بھی اکثر پر حکمرانوں کے ٹاؤٹوں کا قبضہ ہے۔ایسے میں محنت کشوں کو نئے سرے سے خود کو منظم کرنا ہو گا اور ان کالی بھیڑوں کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔محنت کشوں کو سب کچھ قسمت کا لکھا تصور کرنے کی بجائے اپنی تقدیرکو خود اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔جب ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں محنت کش باہر نکلیں گے تو حکمرانوں کے ایوان تھر تھر کانپیں گے۔اس وقت ہی محنت کش اپنے مطالبات ان حکمرانوں سے منوا سکتے ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کیے بغیر اجرتوں میں اضافہ کروانا اور کام کے بہتر حالات حاصل کرنا ممکن نہیں۔کوئلے کے محنت کشوں کی حالیہ اموات کے بعد بھی ان حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور ابھی تک کسی کان کے مالک کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ایسے میں جدوجہد کے بغیر اجرتوں میں اضافے کا خواب دیکھنا بیوقوفی ہو گی۔مہنگائی کے تناسب سے اجرتوں میں اضافہ ہر محنت کش کا حق ہے لیکن اس پر کبھی کوئی میڈیا، سیاسی پارٹی یا ٹریڈ یونین لیڈر بات نہیں کرے گا کیونکہ سب ان حکمرانوں کے دلال ہیں اور مزدوروں کے دشمن ہیں۔اس لیے محنت کشوں کو خود اس جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا اور یہ مطالبہ کرنا ہو گا کہ کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر مقرر کی جائے۔
اجرتوں میں اضافے کی جدوجہد صرف آغاز ہے، اس کا انجام سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کا خاتمہ ہے۔ یہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔ اس انقلاب کے بعد کلیدی صنعتوں، بینکوں اور جاگیروں سمیت تمام ذرائع پیداوارمزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں آ جائیں گے اور وہ اپنی تقدیروں کا فیصلہ خود کریں گے۔ علاج، تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات مزدور ریاست کی جانب سے مفت مہیا کی جائیں گی اور ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہو گا۔ روٹی، کپڑا اور مکان ہر شخص کو مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی اور عدلیہ، پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کے تمام تر مظالم اورجبر کا مکمل خاتمہ ہو گا۔خواتین کو دوہرے جبر اور استحصال سے نجات ملے گی اور معاشی و سماجی آزادی حاصل ہو گی۔چائلڈ لیبر جیسے بھیانک جبر کا خاتمہ ہوگا اور تمام بچوں کی تعلیم ،علاج اوردیگر ضروریات مہیا کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔
یہ سب کچھ یقیناًحاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکمران طبقے کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کرنا ہوگااور انہیں ایک کامیاب انقلاب کے ذریعے شکست دینی ہوگی۔محنت کش طبقے سمیت اس وقت پوری انسانیت کی نجات کا واحد رستہ یہی ہے کہ اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے۔