کمیونسٹ انٹرنیشنل کن اصولوں پر تعمیر کی گئی

|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: پارس جان|

(پہلی عالمی جنگ نے اپنے اوائل میں دوسری انٹرنیشنل کے انہدام اور اپنے اواخر میں انقلابات کی نئی لہر کو جنم دیا۔ انہی حالات میں لینن نے عالمی انقلاب کو فتح مند ہونے کے لیے درکار لازمی قیادت مہیا کرنے کے لیے کئی ممالک میں طاقتور سیکشن پر مشتمل تیسری (کمیونسٹ) انٹرنیشنل تعمیر کی۔ اس مضمون میں فریڈ ویسٹن نے جہاں ایک طرف ان عوامل کی وضاحت کی ہے جن کے ذریعے یہ انٹرنیشنل تشکیل دی گئی تھی، وہیں آئندہ اہداف کے حصول کے لیے کمیونسٹوں کی ایک تازہ دم نسل کی تعلیم و تربیت میں لینن اور ٹراٹسکی کے کردار کا سیر حاصل تجزیہ بھی کیا ہے۔)

سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے لہٰذا اس کے خاتمے کی جدوجہد کے لیے بھی عالمی ہونا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس اور اینگلز کے دور سے لے کر انقلابی کمیونسٹوں نے پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی انٹرنیشنل تنظیمیں تعمیر کر کے خود کو ہمیشہ عالمی سطح پر منظم کرنے کی کوشش کی۔ آج ہمیں ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے بحران کا سامنا ہے۔ ہم جہاں بھی نظر دوڑائیں ہمیں جنگیں، خانہ جنگیاں، قحط، ماحولیاتی تبدیلی، گزر بسر کی بڑھتی ہوئی لاگت، کبھی نہ دیکھے گئے قرضوں کے انبار، ایک کے بعد دوسرے ملک میں سیاسی بحرانوں اور دائیں سے بائیں برق رفتار تغیر و تبدل نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً ہم ساری دنیا میں انقلابی ابھار دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ برس ہم نے سری لنکا اور رواں برس کینیا اور بنگلہ دیش میں انقلابات دیکھے۔ دنیا ہر جگہ سماجی انقلاب کی طرف لڑھک رہی ہے۔ ان حالات میں لینن کے عہد کی طرح ایک ایسی انٹرنیشنل تنظیم کی ضرورت پھر سر اٹھا رہی ہے جو دنیا بھر کے انقلابی کمیونسٹوں کو متحد اور مجتمع کر سکے۔ اسی لیے ہم نے انقلاب کی ضرورت کا فہم رکھنے والے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے ایک امید کے محور کے طور پر انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمارا مقصد ایک ایسی عوامی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے ہمیشہ ہمیشہ کے خاتمے کے لیے آئندہ انقلابات کی لہر کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرنے والی قیادت مہیا کر سکے تاکہ ماضی کی طرح ان انقلابات کو بھی ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ آج جب ہم انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے سیکشنز تعمیر کر رہے ہیں تو ایسے میں تیسری (کمیونسٹ) انٹرنیشنل جسے کامنٹرن (Comintern) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کے ابتدائی چند سال کے قیمتی تجربات ہماری رہنمائی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کس طرح ہماری آج کی چھوٹی قوتوں کو آنے والے سالوں میں طاقتور عوامی کمیونسٹ پارٹیوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

ایک نئی انٹرنیشنل کی ضرورت

اگست 1914ء میں ایک عالمی جنگ کا آغاز عالمی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ یورپ کی سامراجی قوتوں نے غارت گری پر مبنی اپنے جنگی عزائم کے پیشِ نظر اپنے اپنے محنت کش طبقات کو ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے لیے متحرک کر دیا۔ ایسے میں جنگ کے بخار کے خاتمے اور سامراجی جنگ کو ایک طبقاتی جنگ میں بدلنے کے لیے ایک واضح بین الاقوامیت پسند قیادت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت تھی۔ لیکن دوسری انٹرنیشنل کی تمام پارٹیوں کے لگ بھگ سارے ہی لیڈر دباؤ میں آ گئے اور اپنے اپنے سرمایہ داروں کے حامی بن گئے۔ اس غداری کے بیج ان اہم حقائق میں تلاش کرنے چاہئیں کہ دوسری انٹرنیشنل 1889ء میں بنائی گئی تھی اور اس کی تعمیر سرمایہ داری کے عروج کی دہائیوں میں ہوئی تھی۔ اس عہد میں طبقاتی جدوجہد کے دم پر ریفارمز یا اصلاحات جیتنے کی محنت کشوں کی صلاحیت نے لیڈران کی ذہنیت کو مسخ کر دیا تھا اور وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ بتدریج اصلاحات کے ذریعے سوشلزم کا حصول ممکن ہے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کی جگہ طبقاتی مفاہمت اور اصلاح پسندی یا ریفارم ازم نے لے لی۔

اگرچہ اس موقع پرستانہ رجحان کے خلاف بہت سینظریاتی مباحث کیے گئے، لیکن سطح کے نیچے زوال پذیری کی گہرائی کی وسعت کہیں زیادہ تھی۔ روزمرہ کی سرگرمیوں میں مقامی نمائندوں کی اکثریت نے طبقاتی مصالحت پر مبنی رویہ اختیار کر لیا تھا۔ اگرچہ پہلے تو جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سرکاری پوزیشن مارکسزم کے موافق ہی تھی، تاہم جنگ کے آغاز پر اس پارٹی کے قائدین کی تحریریں پڑھ کر لینن پر سکتہ سا طاری ہو گیا تھا اور پہلے پہل تو اس نے ان تحریروں کو جرمن جنرل سٹاف کی جعلسازی سمجھ لیا تھا۔ جب اس پر یہ غداری بالکل واضح ہو گئی تو اس نے درست تشخیص کی کہ اب عالمی سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کے مقصد کے لیے یہ انٹرنیشنل عملاً مر چکی ہے اور اس نے نومبر 1914ء میں ہی تیسری انٹرنیشنل کی ضرورت کو اجاگر کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن سامراجی جنگ کے حالات میں جب محنت کشوں کی تنظیمیں خالی پڑی تھیں اور سوشلسٹ لیڈر غدار ہو چکے تھے، نئی انٹرنیشنل کی تعمیر کے لیے موافق حالات موجود نہیں تھے۔ در حقیقت 1915ء میں جنگ مخالف زمروالڈ (Zimmerwald) کانفرنس میں لینن کو کہنا پڑا کہ آج ساری دنیا میں بین الاقوامیت پسند اتنے کم رہ گئے ہیں کہ وہ چند تانگوں میں سفر کر سکتے ہیں۔ نئی انٹرنیشنل کی تعمیر کے لیے درکار قوتوں کا حصول اس کے بعد کے واقعات کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا جن میں 1917ء کا روس کا انقلاب سر فہرست تھا۔

نظریات کی اہمیت

ایک انقلابی انٹرنیشنل کی از سر نو بنیادیں استوار کرتے ہوئے لینن کا سب سے بنیادی فریضہ حقیقی مارکسی میتھڈ اور پروگرام کو موقع پرستوں کے چنگل سے آزاد کرنا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے بعد لینن ہیگل کے مفصل مطالعے میں غرق ہو گیا تھا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ ہیگل کی جدلیات کی تفہیم کے بغیر مارکس کے میتھڈ پر عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جو نام نہاد سوشلسٹ جنگ کے دوران اپنے اپنے سرمایہ داروں کی حمایت کو جواز فراہم کرنے کے لیے مارکس کے اقتباسات کو غلط انداز سے پیش کر رہے تھے، انہیں منہ توڑ جواب دینے کے لیے لینن نے فنکارانہ مہارت کے ساتھ اسی (جدلیاتی) میتھڈ کو استعمال کیا۔ اسی لیے اس دور کی لینن کی تصانیف مارکسی نظریات کا قیمتی خزانہ ہیں۔ ان میں دوسری انٹرنیشنل کا انہدام (1915ء)، اس کا پمفلٹ سوشلزم اور جنگ (1915ء) اور مشہورِ زمانہ سامراج سرمایہ داری کی آخری منزل (جنوری، جون 1916ء) شامل ہیں۔

لینن کے مارکسی نظریات کے دفاع اور توضیحات نے بالشویکوں کو اکتوبر انقلاب کی فتح مند قیادت کے اہل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ مارچ 1917ء میں دور دراز سے لکھے گئے اس کے خطوط، پھر اپریل تھیسس اور اس کی تاریخی دستاویز ریاست اور انقلاب (اگست ستمبر 1917ء) کی صورت میں واضح ہے، کیونکہ یہ تمام تصانیف انقلاب کے غیر معمولی لمحات میں بالشویک قائدین کی ممکنہ تمام لغزشوں کے انسداد کے لیے بے حد اکسیر ثابت ہوئیں۔ بالشویک پارٹی کی تاریخ انقلابی پارٹی کی تعمیر کے اہم ترین اسباق سے لبریز ہے۔ اسے زیر زمین، نامساعد حالات میں چھوٹے چھوٹے سرکلز اور پھر عوامی سطح پر کام (1905ء کا انقلاب) کے مختلف الانواع تجربات سے گزرنا پڑا۔ بالشویک پارٹی کے یہ ضخیم تجربات ہی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی چار کانگریسوں (1922ء-1919ء) میں نظریاتی سنگ بنیاد ثابت ہوئے۔ یہ ان کانگریسوں میں ہونے والی بحثوں کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اگر ہم پہلی چار کانگریسوں کی قرار دادوں، تقاریر اور دستاویزات کا جائزہ لیں تو لینن اور ٹراٹسکی کے معلمانہ کردار سے مارکسی نظریات کی تاریخ میں ان دو انسانوں کی عظمت اور قد و قامت کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ ان کا بنیادی فریضہ اپنے مجتمع شدہ تجربات اور نظریات کو کمیونسٹ رہنماؤں کی نئی اور تازہ دم نسل تک منتقل کرنا ہے۔ اسی طریقے سے وہ معرض وجود میں آنے والی نئی کمیونسٹ پارٹیوں کو فتح کے لیے درست حکمت عملی اور سائنسی میتھڈ سے مسلح کر سکتے تھے۔

پہلی کانگریس، کمر کس لیں!

بڑے واقعات انقلابی حالات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران ان واقعات کو جنم دیتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے فوری بعد 1917ء کے روسی انقلاب نے اس عہد کی رونمائی کی جس نے یورپ بھر میں انقلابی لہر کا ابھار دیکھا۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں انقلاب کے لیے معروضی حالات پک کر تیار ہو چکے تھے یا تیار ہو رہے تھے۔ جنوری 1918ء میں آسٹرو ہنگری میں انقلابی مضمرات سے لبریز ایک عام ہڑتال ہوئی اور اسی سال نومبر میں جرمن انقلاب کا آغاز ہوا جس نے قیصر کے اقتدار کے ساتھ ساتھ جنگ کا بھی خاتمہ کیا۔ اقتدار جرمن سوشل ڈیموکریٹوں کی جھولی میں آ گرا اور انہوں نے اسے واپس سرمایہ داروں کو لوٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انقلاب پھر واپس آسٹریا پہنچا جہاں بالکل ایسے ہی آسٹریا کے سوشل ڈیموکریٹوں نے پھر اس انقلاب سے غداری کی۔ اسی اثنا میں دوسری انٹرنیشنل تین بڑے کیمپوں میں منقسم ہو گئی۔ پہلا کیمپ علی الاعلامی شاونسٹوں کا تھا جنہوں نے جنگ کے دوران کھلم کھلا غداری کی تھی۔ دوسرا کیمپ کاؤتسکی کی قیادت میں موقع پرستوں پر مشتمل تھا، جنہیں لینن ’درمیانے‘ کہتا تھا۔ یہ لوگ اپنی موقع پرستی پر انقلابی لفاظی کا پردہ ڈالنے کے ماہر تھے اور تیسرا قدرے انقلابی کیمپ تھا جن میں سے بہت سے لوگ دوسری انٹرنیشنل سے الگ ہو کر اپنے اپنے ممالک میں کمیونسٹ پارٹیاں بنا رہے تھے۔

بین الاقوامی سطح پر ان مختلف انقلابی رجحانات کو جوڑنے کے مقصد کے تحت کمیونسٹ انٹرنیشنل یا کامنٹرن کی پہلی کانگرس 2 سے 6 مارچ 1919ء کے دوران ماسکو میں منعقد ہوئی۔ خانہ جنگی کے باعث ماسکو پہنچنے میں در پیش مشکلات اور شعور کی انقلابی تبدیلی کے محض ابتدائی مراحل کے مخصوص حالات کے باعث صرف 52 مندوبین ہی کانگریس میں شریک ہو سکے۔ اس لحاظ سے یہ کانگریس بڑی لڑائی سے قبل ’مسلح ہونے‘ کی ایک کال کے مترادف تھی۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ کانگریس عالمی انقلاب کی پیش رفت کے باعث بین الاقوامی سیاست کے افق پر نمودار ہونے والے نومولود بائیں بازو کے لیے امید کا ایک اہم حوالہ تھی۔ اس کانگریس نے ایک مینی فیسٹو کا اجراء کیا جسے لیون ٹراٹسکی نے تحریر کیا تھا۔ یہ مینی فیسٹو جرأت سے اعلان کر رہا تھا کہ، ”یہ پرولتاریہ ہی ہو گا جسے حقیقی یعنی کمیونسٹ نظم و ضبط رائج کرنا ہے، سرمائے کے غلبے کا خاتمہ کرنا ہے، جنگ کو ناممکن بنانا ہے، ریاستی سرحدوں کا صفایا کرنا ہے، ساری دنیا کو ایک معاون دولت مشترکہ میں تبدیل کرنا ہے اور حقیقی انسانی بھائی چارے اور آزادی کو یقینی بنانا ہے۔“

کانگریس کے اہم مقاصد میں سے ایک اپنے اور دوسری انٹرنیشنل کے موقع پرستوں اور کاؤتسکی والے ’درمیانوں‘ کے مابین ضروری حدِ فاصل وضع کرنا تھا۔ جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر بحثیں ’پرولتاریہ کی آمریت‘ اور سوویت جمہوریت یا مزدوروں کے اقتدار کے دفاع پر مرتکز تھیں جس کی اصلاح پسند مخالفت کر رہے تھے۔ یوں کانگریس نے عالمی انقلاب کے بینر کو دنیا بھر کے محنت کشوں کی توجہ کا مرکز بنانے کے لیے جرأت سے نمایاں کیا اور آنے والے طوفانی واقعات میں نئی انٹرنیشنل لاکھوں لوگوں کے لیے توجہ اور امید کا مستند حوالہ بن گئی۔

برق رفتار انقلابی جستیں

طبقاتی جدوجہد دہائیوں پر محیط ہوتی ہے لیکن ایسے ادوار بھی آتے ہیں جب ہم محنت کشوں کے شعور میں تیز ترین انقلابی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔ برطانیہ میں 1919ء میں 35 ملین اور 1921ء میں 86 ملین لوگوں نے ہڑتالوں میں حصہ لیا اور ٹریڈ یونینوں کی رکنیت جو 1914ء میں اکتالیس لاکھ تھی 1920ء میں بڑھ کر تراسی لاکھ تک پہنچ گئی۔ اسی دوران لیبر پارٹی کی حمایت میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ جرمنی میں 1919ء میں 3682 ہڑتالیں ہوئیں۔ ہڑتالوں کی تعداد 1922ء میں بڑھ کر 4342 ہو گئی۔ سوشلسٹ ٹریڈ یونین کی رکنیت 1918ء میں 18 لاکھ سے بڑھ کر 1919ء میں 55 لاکھ ہو گئی۔ یعنی صرف ایک سال میں چالیس لاکھ محنت کشوں کا اضافہ ہوا۔ 1920ء تک سوشلسٹ ٹریڈ یونین سمیت تمام ٹریڈ یونینوں کی رکنیت ایک کروڑ تک پہنچ گئی۔ یہ اس انقلاب کا شماریاتی اظہار تھا جس کا آغاز 1918ء میں ہوا تھا۔ اٹلی میں 1918ء میں سوشلسٹوں کی زیرِ قیادت ٹریڈ یونین کنفیڈریشن CGL کی رکنیت ڈھائی لاکھ سے بڑھ کر 1920ء میں اکیس لاکھ ممبران تک جا پہنچی۔ اسی عرصے میں اطالوی سوشلسٹ پارٹی (PSI) کی رکنیت میں تین گنا (1918ء میں ساٹھ ہزار سے 1920ء میں دو لاکھ دس ہزار) اضافہ ہوا۔ ان دو سالوں میں بڑے پیمانے پر ہڑتالی لہر ابھری اور ستمبر 1920ء میں فیکٹریوں پر قبضوں کا آغاز ہوا۔

دیگر بہت سے ممالک سے بھی ایسے ہی اعداد و شمار سامنے آئے۔ صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ ہر جگہ ٹریڈ یونینیں تیزی سے پھیل رہی تھیں اور محنت کشوں کی پارٹیوں کی قوتوں میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی دوران ہم نے ہر جگہ ٹریڈ یونین قیادتوں کا قدامت پسندانہ یعنی محنت کشوں کو پیچھے دھکیلنے کا کردار بھی دیکھا جبکہ محنت کشوں کی سیاسی قیادتوں کی کھلی غداریاں بھی دیکھنے میں آئیں۔ انہی تجربات سے سوشلسٹ پارٹیوں میں بائیں بازو کے رجحانات کو بھی تقویت ملی۔ بعد ازاں انہی رجحانات سے جرمنی، فرانس اور اٹلی میں یورپ کی اہم کمیونسٹ پارٹیاں برآمد ہوئیں۔ ہمارے پاس ایسا کوئی فارمولہ نہیں جس کو ہر جگہ لاگو کر کے یہ سمجھا جا سکے کہ یہ عمل ہر جگہ کیسے آگے بڑھا۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی میں کمیونسٹ پارٹیاں پرانی سوشل ڈیموکریسی کے بطن سے ہی پیدا ہوئیں۔ دیگر جگہوں مثلاً برطانیہ میں چھوٹے انقلابی گروپوں کا انضمام ہوا اور وہ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے قومی سیکشن بن گئے۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی زیادہ تر کمیونسٹ پارٹیوں کی بنیاد مٹھی بھر ابتدائی کیڈرز پر رکھی گئی، چین اس کی بہترین مثال ہے۔

فرانس

فرانس میں SFIO (ورکرز انٹرنیشنل کا فرانسیسی سیکشن) کی صفوں میں فرانسیسی بحران اور روسی انقلاب دونوں کے اثرات بیک وقت محسوس کیے گئے۔ 1920ء میں پارٹی کی دو کانگریسیں منعقد ہوئیں۔ پہلی کانگریس اپریل میں ہوئی جس میں ایک سوویت یونین کا دورہ کرنے کے لیے ایک وفد تشکیل دیا گیا جس نے اسی سال دسمبر میں ہونے والی دوسری کانگریس میں اس دورے کی رپورٹ پیش کی۔ SFIO کے جنرل سیکرٹری لڈووِک آسکر فراسارڈ اور پارٹی کے اخبار کے مدیر مارسل کیچن نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی رکنیت کی غیر مشروط حمایت کی۔ دائیں بازو نے اس کی مخالفت کی جس کی قیادت لیون بلم کر رہا تھا جبکہ ایک تیسری پوزیشن جین لنگویٹ کی بھی تھی جو مخصوص شرائط کے ساتھ یعنی انٹرنیشنل کے اصولوں اور پروگرام سے مکمل اتفاق کیے بغیر انٹرنیشنل میں شمولیت کا حامی تھا۔

کانگریس میں یہ تینوں مختلف نقطہ ہائے نظر سننے کے بعد مندوبین کی اکثریت یعنی 1022 کے مقابلے میں 3252 نے انٹرنیشنل کا حصہ بننے کے حق میں ووٹ دیا۔ پارٹی کے نوجوان یعنی سوشلسٹ یوتھ کچھ ماہ قبل ہی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں شمولیت کا فیصلہ کر چکے تھے۔ کچھ ماہ کے بعد انہوں نے اپنا نام کمیونسٹ پارٹی یعنی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے فرانسیسی سیکشن (PC-SFIC) رکھ لیا جس کے ایک لاکھ دس ہزار رکن تھے۔ لیون بلم نے پارٹی سے علیحدہ ہو کر چالیس ہزار ارکان کے ساتھ SFIM کو از سر نو تشکیل کیا۔

اٹلی

مارچ 1919ء میں اطالوی سوشلسٹ پارٹی (PSI) نے کمیونسٹ انٹرنیشنل میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ اس پارٹی کی کانگریس اکتوبر 1919ء میں Bologna میں منعقد ہوئی جس میں اٹلی میں کمیونز تشکیل دینے اور بورژوا جمہوریت کے خاتمے تک کی قرار دادیں منظور کی گئیں۔ لیکن یہ سب فیصلے محض لفاظی ہی رہے اور اس پارٹی نے ان فیصلوں پر عملدر آمد کے لیے عملی اقدامات سے گریز کیا۔ اس کانگریس نے پارٹی کے عام کارکنوں کی خواہشات کی درست عکاسی تو کی مگر اصلاح پسند اور ’درمیانے‘ قائدین کی نا اہلی ان خواہشات پر غالب آ گئی۔ ستمبر 1920ء میں فیکٹریوں پر قبضوں کے وقت اصلاح پسند قائدین کے غدارانہ کردار کے باعث حقیقی انقلابی عناصر اور اصلاح پسندوں میں پارٹی کی داخلی کشمکش شدت اختیار کر گئی۔

ٹراٹسکی اور سراتی

جب 15 جنوری 1921ء کو پارٹی کی کانگریس کا اجلاس ہوا تو کمیونسٹ انٹرنیشنل میں شمولیت کے لیے انٹرنیشنل کی طرف سے اصلاح پسندوں سے فیصلہ کن لاتعلقی کے لیے عائد کردہ 21 شرائط پر بحث کی گئی۔ اس بحث سے واضح طور پر پارٹی کے اصلاح پسند عناصر اور ان کے قائدین بالخصوص فیلیپو تراتی اور گوئسپے موڈیگلیانی کو پارٹی سے نکال باہر کرنے کے سوال نے جنم لیا۔ اومیڈیو بارڈیگا جس نے کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر بننا تھا، نے تمام 21 شرائط کو مکمل طور پر قبول کرنے کے حق میں دلائل دیے۔ پارٹی کے سنٹراسٹ رجحان کے لیڈر گیاسنٹو سراتی نے اس کی مخالفت کی۔ کانگریس کے سامنے تین قرار دادیں پیش کی گئیں۔ سراتی کی قرارداد کو ایک لاکھ ووٹوں سے اکثریت حاصل ہوئی جبکہ دائیں بازو کو پندرہ ہزار اور کمیونسٹوں کو اٹھاون ہزار ووٹ ملے۔ نتیجتاً کمیونسٹوں نے مزدوروں کا عالمی ترانہ گاتے ہوئے کانگریس کو خیرباد کہا اور کمیونسٹ پارٹی یعنی کامنٹرن کے اطالوی سیکشن کی بنیاد رکھی۔

جرمنی

جرمنی میں اگرچہ واقعات کے عمومی بہاؤ کی سمت یہی تھی مگر فرانس اور اٹلی کی طرح یہ پراسیس اتنا ہموار نہیں تھا۔ مستقبل کی جرمن کمیونسٹ پارٹی کے زیادہ تر ارکان SPD سے ہی آئے تھے اور عالمی جنگ کے اختتام کے فوری بعد شروع ہونے والی انقلابی لہر کے باعث SPD کی بڑھوتری کی رفتار بہت تیز ہو گئی تھی۔ ابتدا میں حقیقی انقلابی عناصر انٹرنیشنل گروپ کے گرد جمع ہوئے اور بعد ازاں یہ گروپ SPD کے اندر سپارٹیسسٹس (Spartacists) کے نام سے مشہور ہوا۔ اپریل 1917ء میں ہونے والی ایک بڑی پھوٹ کے نتیجے میں ’انڈیپینڈنٹس‘ USPD کی تشکیل ہوئی۔ سپارٹیسسٹس پھوٹ کا حصہ تھے لیکن نومبر 1918ء میں جرمنی میں انقلابی تحریک پھوٹ پڑنے کے بعد وہ USPD سے علیحدہ ہو گئے اور 1918ء کے اختتام پر انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کا سنگِ بنیاد رکھا۔

SPD کے اصلاح پسند اور کاؤتسکی کے موقع پرست رجحانات کے ردعمل کے طور پر KPD اپنے جنم سے ہی الٹرالیفٹ ازم کے جراثیم سے آلودہ تھی۔ مثال کے طور پر انہوں نے ٹریڈ یونینوں کا بائیکاٹ کر دیا اور جنوری 1919ء میں منعقدہ انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ ان میں مہم جوئی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اظہار جنوری 1919ء کی غیر پختہ سپارٹیسسٹس سرکشی میں ہوا۔ اس سرکشی کی ناکامی کے بعد کی ریاستی یلغار میں پارٹی کے دو اہم ترین رہنما کارل لائبنخت اور روزا لکسمبرگ کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور ان کے بعد پارٹی کو ایسی کوئی سمجھدار قیادت میسر نہ آ سکی جو اس مہم جوئی اور الٹرا لیفٹ ازم کا سدِباب کرنے کی اہل ہوتی۔

USPDیعنی SPD آزاد سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری جس کے ارکان کی تعداد مارچ 1919ء میں تین لاکھ کے لگ بھگ تھی اور اپریل 1920ء میں یہ آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ محنت کش طبقے کے شعور میں ہونے والی انقلابی تبدیلی کی عکاسی اب انڈیپنڈنٹس کے ذریعے ہی ہو رہی تھی جس کے نتیجے میں اکتوبر 1920ء میں ہونے والی USPD کی کانگریس نے انٹرنیشنل کی تمام 21 شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے کمیونسٹ انٹرنیشنل میں شمولیت کے حق میں فیصلہ دیا اور KPD میں ضم ہو گئی۔ اسی عمل میں پارٹی درمیان سے ٹوٹ کر اپنے دائیں بازو سے محروم ہو گئی اور یوں سوویت یونین سے باہر دنیا کی سب سے بڑی یعنی پانچ لاکھ ارکان پر مشتمل کمیونسٹ پارٹی کا جنم ہوا۔

برطانیہ

جرمنی، فرانس اور اٹلی میں ہمارے پاس سابقہ سوشل ڈیموکریسی کے بائیں بازو سے کمیونسٹ پارٹیوں کی تخلیق کی ٹھوس مثالیں نظر آتی ہیں۔ تاہم برطانیہ میں کمیونسٹ پارٹی کا جنم 1920ء میں چھوٹے چھوٹے کمیونسٹ سرکلز اور گروپوں کے انضمام سے ہوا جن میں برطانوی سوشلسٹ پارٹی، سوشلسٹ لیبر پارٹی کا کمیونسٹ یونٹی گروپ اور جنوبی ویلز کی سوشلسٹ سوسائٹی بھی شامل تھے۔ ایک سال بعد سکاٹش کمیونسٹ لیبر پارٹی بھی اس میں شامل ہو گئی۔ تاہم ابتدا میں جرمنی اور اٹلی کی طرح پارٹی میں الٹرا لیفٹ رجحانات کے جراثیم بدرجہ اتم موجود تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پارٹی کو پارلیمانی نظام سے قطع تعلق کر لینا چاہیے اور لیبر پارٹی سے بھی کسی قسم کے رابطے استوار نہیں کرنے چاہئیں۔

تاہم اس سوال سے کسی صورت اجتناب نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ برطانوی محنت کش آج بھی لیبر پارٹی کو اپنے لیے ایک معتبر حوالے کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لینن نے اپنی تصنیف ’بائیں بازو کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری‘ کا ایک اہم سیکشن برطانوی کمیونسٹوں کی اصلاح کرنے اور انہیں لیبر پارٹی کی طرف پھر سے رجوع کرنے کی تلقین کرنے میں صرف کیا اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس میں ایک پورا سیشن اس اہم مباحثے کے لیے مختص کیا گیا۔

دوسری کانگریس

عالمی سطح پر محنت کش طبقے کے ایک حصے کے شعور میں ہونے والی انقلابی تبدیلی کا اظہار 19 جولائی تا 7 اگست تک منعقد ہونے والی کامنٹرن کی دوسری کانگریس کی ترکیب و اہداف کے اندر ہوا۔ جہاں پہلی کانگریس دنیا بھر کے چھوٹے چھوٹے گروپوں اور رجحانات کو اکٹھا کرنے کی ایک سعی تھی وہاں دوسری کانگریس میں دنیا بھر سے 54 پارٹیوں کے 218 مندوبین انٹرنیشنل کے پروگرام اور حکمتِ عملی کا تعین کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ جیسا کہ بہت سی سوشلسٹ پارٹیوں کے بنیادی کارکنان کامنٹرن کا حصہ بننے کے خواہشمند تھے، تو اس صورتحال میں یہ خدشات بھی سر اٹھا رہے تھے کہ بہت سے پرانے اصلاح پسند لیڈر اور ان پارٹیوں کے سرخیل بھی محض اپنے اثر و رسوخ اور اپنی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے ساتھ ہی انٹرنیشنل میں نہ گھس آئیں۔ مثال کے طور پر اطالوی سوشلسٹ پارٹی اس وقت کی انقلابی لہر کے زیرِ اثر اپنی صفوں میں مسلسل بڑھتے ہوئے انقلابی رجحانات کے دباؤ میں بطور پارٹی کامنٹرن کا حصہ بن گئی۔ تاہم تراتی اور موڈیگلیانی کی قیادت میں پارٹی کا اصلاح پسند دھڑا ابھی تک پارٹی کا حصہ تھا اور انٹرنیشنل کے نظریات کے خلاف کام کر رہا تھا۔ ان خدشات کو دوسری کانگریس کے آغاز سے ہی اجاگر کیا گیا تھا۔ اصلاح پسندوں سے کمیونسٹ پروگرام کو ممتاز کرنے کے لیے کمیونسٹ پارٹیوں اور سوویتوں کے کردار اور طریقہ کار پر یکے بعد دیگرے بہت سے مباحث ہوئے۔ ان مباحث کو خود لینن کی تجویز کردہ 21 شرائط کی شکل میں ترتیب دیا گیا۔

”وہ پارٹیاں اور گروپ جو حال ہی میں دوسری انٹرنیشنل سے منسلک ہوئے تھے، اگرچہ وہ ابھی تک صحیح معنوں میں کمیونسٹ بھی نہیں ہیں لیکن دھڑا دھڑ کامنٹرن کا حصہ بننے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔ دوسری انٹرنیشنل کا واضح طور پر صفایا ہو چکا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ دوسری انٹرنیشنل سے اب کوئی امید رکھنا بے کار ہے، ’درمیانے‘ رجحانات کی پارٹیاں اور گروپ مسلسل پھلتی پھولتی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس حد تک کر خود مختاری کی بھی توقع کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ سابقہ موقع پرست اور سنٹراسٹ پالیسیوں کو بھی جاری رکھ سکیں۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل ایک خاص حد تک مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ ’درمیانے‘ رجحانات کے مخصوص بڑے گروپوں کی ہمارے ساتھ جڑنے کی خواہش اس حقیقت کا بالواسطہ اظہار ہے کہ تیسری انٹرنیشنل طبقاتی شعور یافتہ محنت کشوں کی اکثریت میں مسلسل مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور آئے روز پہلے سے بڑی قوت بنتی جا رہی ہے۔ ان مخصوص حالات میں تیسری انٹرنیشنل کو در پیش سب سے بڑا خطرہ ان ڈانواں ڈول اور متزلزل گروپوں سے ہے، جنہوں نے ابھی تک دوسری انٹرنیشنل سے مکمل نظریاتی لاتعلقی نہیں کی ہے۔“

نئی انٹرنیشنل کو اس متعدی مرض سے خاص طور پر محفوظ رکھنے کے لیے نکتہ نمبر 7 میں درج کیا گیا کہ، ”یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کہ تراتی اور موڈیگلیانی جیسے مصمم اصلاح پسندوں کو خود کو تیسری انٹرنیشنل کا رکن سمجھنے کی اجازت دے دی جائے۔“ اس نکتے کا مقصد ان ناقابلِ اصلاح طبقاتی غداروں اور طبقاتی مصالحت کے برملا علمبرداروں کے خلاف فیصلہ کن عملی اقدام تھا جو تیسری انٹرنیشنل کے مختلف سیکشنز کے رکن بننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

پروگرام اور طریقہ ہائے کار

دوسری کانگریس میں انتہائی اہم سوالات پر مفصل اور عمیق مباحث ہوئے۔ مثال کے طور پر لینن نے ایک سنجیدہ الٹرا لیفٹ غلطی کے طور پر ’سرمایہ داری نظام کے مستقبل قریب میں فوری خاتمے‘ کے تصور کی نشاندہی کی۔ اس نے کانگریس کے مندوبین کو خبردار کیا کہ اس حقیقت کے باوجود بھی کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں انقلابی بحرانات موجود ہیں، جب تک سرمایہ دار طاقت میں رہیں گے وہ اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ضرور نکال لیں گے اور نتیجے کا حتمی دار و مدار ہر ملک میں انقلابی پارٹی پر ہی ہو گا۔ انقلاب کی کامیابی کی کوئی پہلے سے طے شدہ ضمانت نہیں ہوتی۔ لینن نے دیگر کلیدی نظریاتی سوالات پر بھی خاص توجہ مرتکز کی۔ اس نے کانگریس کے لیے ’قومی اور نو آبادیاتی سوالات پر مجوزہ مقالے‘ کو تحریر کیا اور پھر اس میں ضروری رد و بدل کیا۔ مذکورہ مقالے نے دوسری انٹرنیشنل کی ان بہت سی پارٹیوں کے متذبذب مؤقف سے فیصلہ کن لاتعلقی کا اعلان کیا جن میں اصلاح پسند دائیں بازو کو نو آبادیات میں یورپ کی ’تہذیب کاری کا منصوبہ‘ نظر آتا تھا اور وہ اپنے قومی سرمایہ دار کے سامراجی عزائم کی حمایت کا جواز ڈھونڈتے تھے۔

کمیونسٹ انٹرنیشنل کھل کر نو آبادیات کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اس نے ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں سے ان مظلوموں کی سامراجی قوتوں کے خلاف جدوجہد کی حمایت کرنے کی اپیل کی۔ اس نے مظلوم اور ظالم اقوام میں واضح امتیاز وضع کیا۔ اس طرح کے اصولی مؤقف کے بغیر نو آبادیاتی ممالک میں انٹرنیشنل کے سیکشنز کی تعمیر ناممکن تھی۔ یہاں ہم پھر دیکھ سکتے ہیں کہ تنظیم کی تعمیر میں نظریات ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

چن ڈاگزیو

چین کی مثال لیجیے جو اس وقت ایک نیم نو آبادیاتی ملک تھا، وہاں کمیونسٹ پارٹی کی ابتدائی قوتیں تعمیر کرنے میں ان نظریات نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس پارٹی کے ابتدائی کیڈرز نے پروفیسر چن ڈاگزیو کی زیرِ سرپرستی بیجنگ یونیورسٹی میں ایک مارکسی سٹڈی گروپ کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ ابتدا میں گروپ چند دانشوروں پر مشتمل تھا جنہوں نے بعد ازاں جولائی 1921ء میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کی تاسیسی کانگریس میں 59 ارکان کی نمائندگی کرنے کے لیے 12 مندوبین جمع ہوئے۔ انتہائی کم قوتیں ہونے کے باوجود وہ پارٹی کے قیام کا اعلان کرنے سے باز نہ آئے، ایسی پارٹی جو عملاً صفر سے ہی تعمیر کی جانی تھی۔ یہ چھوٹا سا ابتدائی گروپ مئی 1925ء تک زیادہ تر جامعات کے طلبہ اور دانشوروں پر مبنی ایک ہزار کی ممبرشپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر 27-1925ء کے انقلاب کی شکل میں وہ تاریخی واقعات رونما ہوئے جنہوں نے پارٹی کے سامنے وسیع امکانات کے در وا کر دیے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ صرف دو سالوں میں پارٹی اراکین کی تعداد ساٹھ ہزار تک جا پہنچی۔ انقلابِ روس کے عالمی سطح پر دیوہیکل اثرات مرتب ہوئے تھے۔ دیگر بہت سے ممالک میں بھی کمیونسٹ پارٹیاں اور گروپ نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مثال کے طور پر لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں چھوٹے سرکلز سے آغاز کرنے والے کمیونسٹ گروپ اور پارٹیاں بعد ازاں محنت کشوں کی وسیع متحرک پرتوں سے رابطے استوار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

الٹرا لیفٹ ازم کے خلاف

کمیونسٹ انٹرنیشنل ماضی قریب کے انقلابی واقعات سے متاثر بہت سے لڑاکا نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنے انقلابی بینر کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ تاہم بشمول ان کے رہنماؤں کے ان نئی کمیونسٹ پارٹیوں کے کارکنان کی بھاری اکثریت مارکسی حکمتِ عملی اور میتھڈ کے حوالے سے نا تجربہ کار تھی۔ ان نئے کمیونسٹوں میں سے بہت سے لوگ پارلیمانیت تک خود کو محدود کر دینے والی دوسری انٹرنیشنل کی موقع پرستی کو سختی سے رد کر چکے تھے اور بہت سے ایسے تھے جو تحریک پر روک لگانے والی اصلاح پسند ٹریڈ یونین قیادتوں سے نالاں تھے۔ تاہم ایک وسیع پرت ایسی تھی جو اس سے انتہائی غلط نتائج برآمد کر رہی تھی کہ محض انقلابی ہٹ دھرمی اور ہر قسم کے سمجھوتے کی یکطرفہ مخالفت کرنا ہی بالشوازم ہے۔ انہیں لگتا تھا کہ بس بورژوا جمہوریت پر لعن طعن کر کے اور خالص انقلابی ٹریڈ یونینیں بنا کر کمیونسٹ پارٹی کو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایک ولندیزی کمیونسٹ ہیمن گورٹر نے تو لینن پر شدید تنقید کی تھی اور پارلیمان اور ٹریڈ یونینوں میں کام کی وکالت کرنے کے باعث لینن پر موقع پرستی کے الزامات عائد کر دیے تھے۔

لینن نے اس رویے کو الٹرا لیفٹ یا الٹرا لیفٹ وِنگ کا کمیونزم قرار دیا تھا۔ اس نے زور دیا کہ صرف سرمایہ داری کو گالیاں نکالنا اور لوگوں کی انقلابی پارٹی میں شمولیت کا انتظار کرنا ہی کافی نہیں ہوتا۔ عوام کو جیتنا پڑتا ہے، جس کے لیے حکمتِ عملی کا بے پناہ لچکدار ہونا ضروری ہے۔ یہ بالشویک پارٹی کی مکمل تاریخ کا سب سے کلیدی سبق ہے۔ لینن سمجھ چکا تھا کہ جب تک پورے انہماک سے ان فرقہ پرور غلطیوں کا ازالہ نہیں ہو گا کمیونسٹ انٹرنیشنل کے یہ تمام سیکشنز انقلاب کا سامنا کرنے سے پہلے ہی انحطاط کا شکار ہو جائیں گے۔ مزید براں لینن نے ان غلطیوں کو طفلانہ یعنی عدم بلوغت کی پیداوار قرار دیا اور اس کے خیال میں صبر کے ساتھ وضاحت اور مباحث کے ذریعے ان سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لینن نے دوسری کانگریس میں خاص طور پر اسی مسئلے کو نمٹانے کے لیے اپریل، مئی 1920ء میں اپنی کتاب ’بائیں بازو کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری‘ تحریر کی۔ اس کتاب میں لینن نے بالشویک پارٹی کے 1905ء سے لے کر 1917ء تک روس میں برپا ہونے والے تین اہم انقلابات میں مداخلت اور پھر اقتدار حاصل کرنے کے بعد کی صورتحال کے ضخیم تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ اس نے موقع پرستی اور الٹرا لیفٹ ازم دونوں خدشات سے نبرد آزما ہونے کی تلقین کی ہے۔

اسے جرمن، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں شائع کیا گیا تھا تاکہ دوسری کانگریس کے تمام مندوبین کانگریس میں شرکت سے قبل اس کا سیر حاصل مطالعہ کر سکیں۔ لینن کے لیے یہ مدعا کس حد تک اہم تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لینن نے مذکورہ کتاب کی کمپوزنگ اور پرنٹنگ تک میں خود دلچسپی سے کام کیا۔ اس نے اس بات کو ہر ممکن یقینی بنایا کہ کانگریس کے شروع ہونے سے پہلے کتاب کی اشاعت مکمل ہو جائے۔ دونوں لینن اور ٹراٹسکی حقیقی کمیونسٹ نظریات اور حکمتِ عملی کو صبر کے ساتھ وضاحت اور انٹرنیشنل کی کانگریسوں میں مباحث کے ذریعے عیاں کرنے میں پُر عزم تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے مفصل مضامین لکھے اور لمبی لمبی تقاریر بھی کیں۔ اسی مثال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ لینن زیادہ تر سیاسی مسائل کو تنظیمی طریقے کے برعکس سیاسی بحث مباحثے سے حل کرنے کا عادی تھا۔ لینن نے اس اہم فریضے پر بہت سا وقت صرف کیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ حقیقی، سوچ وچار کرنے والے انقلابی کمیونسٹوں کو فرمان جاری کر کے ان کی تربیت اور اصلاح نہیں کی جا سکتی۔ ان طریقوں سے فرمانبردار احمق ہی پیدا کیے جا سکتے ہیں جو طبقاتی جدوجہد اور انقلابی تھپیڑوں کا سامنا کرنے کے کبھی اہل نہیں ہو سکتے۔

ٹریڈ یونینیں

دوسری اور تیسری کانگریسوں میں ٹریڈ یونینوں کے سوال پر بھی تفصیلی بحث مباحثے ہوئے۔ دوسری کانگریس میں زیر بحث آنے والے ’ٹریڈ یونین تحریک، فیکٹری کمیٹیاں اور تیسری انٹرنیشنل‘ نامی مقالے میں صاف صاف درج ہے کہ ”جنگ کے دوران عام طور پر ٹریڈ یونینیں بورژوازی کے فوجی ساز و سامان کا حصہ ہی ثابت ہوئی ہیں جنہوں نے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے محنت کشوں کے بھرپور استحصال میں معاونت کا کام کیا ہے۔ یونینوں نے ہنرمند محنت کشوں کو نسبتاً زیادہ تنخواہوں کے دم پر انہیں شعبہ جاتی تنگ نظری تک محدود کر کے اور عوام سے کٹی ہوئی افسر شاہانہ بیڑیوں میں قید حوصلہ شکن قیادتوں کے ذریعے نہ صرف سماجی انقلاب بلکہ روزمرہ زندگی میں تھوڑی بہت بہتری کی جدوجہدوں سے بھی غداری کی ہے۔“ اس برملا اور دو ٹوک اعلان کے بعد اسی مقالے میں مزید کہا گیا ہے کہ ”لیبر یونینوں سے باہر غیر متحرک رہنے والی محنت کشوں کی وسیع پرتیں بھی اب جوق در جوق یونینوں کا حصہ بن رہی ہیں۔ تمام سرمایہ دارانہ ممالک میں ٹریڈ یونینوں کی تعداد میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ ٹریڈ یونینیں اب صرف ہر اوّل پرتوں کی ہی نہیں بلکہ پرولتاریہ کی عوامی تنظیموں میں بدل چکی ہیں۔ یونینوں میں شامل ہو کر محنت کش عوام انہیں اپنی جنگ کے اوزار بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ طبقاتی مخاصمت کی شدت ٹریڈ یونینوں کو زیادہ سے زیادہ ہڑتالوں کی قیادت کرنے پر مجبور کر رہی ہے جس سے ساری سرمایہ دارانہ دنیا میں پیداوار اور تبادلے کے عمل میں تعطل پیدا ہو رہا ہے۔ اپنے اصراف اور بڑھتی ہوئی قیمتوں میں پہلے سے زیادہ حصے کی وصولی کے مطالبات کے ذریعے محنت کش طبقات سارے سرمایہ دارانہ تخمینوں اور ہر طرح کے معاشی و انتظامی بندوبست کی اکھاڑ پچھاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ وہی یونینیں جو جنگ کے دنوں میں محنت کش عوام پر مسلط جبر کے اوزار بن چکی تھیں، اب سرمایہ داری کے خاتمے کے اوزار بنتی جا رہی ہیں۔“

یہاں ہمیں لینن کا جدلیاتی طریقہ کار صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے کمیونسٹ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح چیزیں اپنی بڑھوتری اور تغیر کے عمل میں اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ٹریڈ یونینوں کو بھی دو قطعی مخالف طبقات کے متصادم مفادات کے دباؤ کا سامنا تھا۔ ایک طرف سرمایہ دار محنت کش طبقے کو اپنا مطیع رکھنے کی غرض سے یونین قیادتوں کو بدعنوان کرنے کی شعوری کوششیں کر رہے تھے۔ دوسری طرف بد سے بدتر ہوتے ہوئے کام کے حالات اور مہنگائی کا شکار عام یونین کارکنان قیادتوں پر اپنے مفادات کے لیے لڑنے کا دباؤ بڑھا رہے تھے۔ اسی وجہ سے مقالے میں لکھا گیا کہ، ”کمیونسٹوں کو تمام ممالک میں ان یونینوں کا حصہ بننا ہو گا۔“ اور ان یونینوں سے علیحدگی اختیار کرنے یا اپنی الگ یونینیں بنانے کی ہر کوشش ”کمیونسٹ تحریک کے لیے بہت بڑا خطرہ“ ثابت ہو گی اور ان اقدامات سے سب سے زیادہ باشعور اور ہر اوّل محنت کشوں کو بدعنوان قیادتوں کے حوالے کر کے کمیونسٹ سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہی کھیل رہے ہوں گے۔

اس طرح کے تمام مباحث میں ہمیشہ یکطرفہ اور میکانکی توضیح کا خدشہ سر اٹھاتا ہے۔ کیا ہر صورت میں ٹریڈ یونینوں میں شامل ہونے کا یہ اصول کمیونسٹوں کے لیے کسی بھی دوسری ممکنہ صورت میں ان یونینوں سے الگ ہونے کے امکان کو ہر جگہ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رد کر دیتا ہے؟ لینن کا طریقہ ہمیشہ لچکدار ہوتا تھا اور وہ ہمیشہ ان ٹھوس حالات کو مدنظر رکھتا تھا جن میں کمیونسٹوں کو کام کرنا ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے عین اسی دستاویز میں کچھ سطور کے بعد وہ یوں رقمطراز ہوتا ہے، ”ان ٹریڈ یونینوں میں انقلابی کام کے تمام راستے مسدود ہو جانے کے بعد کمیونسٹوں کو ان تنظیموں میں پھوٹ سے کسی صورت بھی ہچکچانا نہیں چاہیے۔ جبکہ بیک وقت انہیں یہ بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوتا ہے کہ پھوٹ کی ضرورت کے باوجود اس سوال پر مسلسل اور انہماک سے غور و خوض لازم ہے کہ کہیں اس طرح کی پھوٹ سے کمیونسٹ محنت کشوں سے کٹ کر تو نہیں رہ جائیں گے۔“

تیسری کانگریس میں ”کمیونسٹ پارٹیوں کے خواتین میں کام کے طریقے اور اشکال پر مقالہ“ بھی زیرِ بحث لایا گیا جس میں کمیونسٹ پارٹیوں کے خواتین میں کام کو بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات پر سیر حاصل بحث موجود تھی۔ کانگریس میں دنیا بھر کے نوجوانوں کے شعور میں ہونے والی انقلابی پیش رفتوں کا بھی احاطہ کیا گیا اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے لازمی جزو کے طور پر کمیونسٹ یوتھ انٹرنیشنل کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا جو ایک الگ تھلگ وجود کی بجائے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نظم و ضبط کے تابع ہی کام کرے گی۔

بحران اور شعور

کمیونسٹ انٹرنیشنل کی کانگریسوں میں بین الاقوامی سطح پر طبقاتی جدوجہد کے نشیب و فراز پر بحث مباحثے ہوئے۔ اس وقت زیر بحث سوالات میں ایک اہم موضوع معاشی عروج و زوال اور طبقاتی جدوجہد کا باہمی تعلق بھی تھا۔ اس تعلق کی سادہ اور میکانکی تفہیم سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جاتا ہے کہ معاشی زوال کا مطلب ہر صورت میں طبقاتی جدوجہد کا عروج ہی ہو گا اور معاشی عروج سے ہر صورت میں نظام مستحکم ہو گا۔ انٹرنیشنل کے اکابرین نے قومی سیکشنز کو اس سوچ کے منفی نتائج سے خبردار کیا تھا اور کمیونسٹ پارٹیوں کے قائدین اور کارکنان کو اپنی نظریاتی بصیرت منتقل کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ وہ باخبر تھے کہ ان غلط نتائج سے سنجیدہ تجزیاتی غلطیاں جنم لے سکتی ہیں۔

21جون تا 12 جولائی 1921ء کو منعقد ہونے والی تیسری کانگریس میں یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ جنگ کے فوری بعد کے سالوں میں سرمایہ داری کے شدید بحران نے جنم لیا اور اس کے ساتھ سارے یورپ میں طبقاتی جدوجہد کا بھی عروج نظر آیا۔ لیکن اصلاح پسندوں کی غداریوں کے باعث 1921ء تک نظام دوبارہ مستحکم ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ معیشت کے نئے ابھار سے وہ تمام کمیونسٹ لیڈر ہیجان کا شکار ہو گئے جو طبقاتی جدوجہد کی حرکیات کو میکانکی طریقے سے دیکھتے تھے۔ اپنی ’عالمی معاشی بحران اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نئے فرائض پر رپورٹ‘ میں ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ، ”یہ کہنا سراسر غلط اور یکطرفہ ہو گا کہ بحران ناگزیر طور پر انقلابی سرگرمی کو جنم دیتے ہیں اور اس کے برعکس معاشی عروج محنت کش طبقے کو ساکت کر دیتے ہیں۔“ اس رپورٹ میں ٹراٹسکی نے بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں روسی انقلاب اور طبقاتی جدوجہد کے اتار چڑھاؤ کے دوران اپنے ذاتی تجربات کو بنیاد بنایا اور لایعنی تسہیل کا جواب دیتے ہوئے وضاحت کی کہ:

”بہت سے کامریڈوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر موجودہ عہد میں کوئی معاشی بہتری ہوتی ہے تو وہ ہمارے انقلاب کے لیے مہلک ثابت ہو گی۔ نہیں، کسی بھی حالت میں نہیں۔ عام طور پر پرولتاری انقلابی تحریک کا بحران پر کوئی آٹومیٹک انحصار نہیں ہوتا بلکہ صرف جدلیاتی باہمی تعلق ہی ہوتا ہے۔“ (ٹراٹسکی نے یہ بات پر زور دیتے ہوئے کہی)

ٹراٹسکی نے نشاندہی کی کہ طبقاتی جدوجہد میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب معاشی زوال طبقے کی لڑائی کی استطاعت کو دھندلا دے اور صرف اس وقت جب معیشت بحالی کی طرف بڑھنے لگے تو محنت کش مالکان کے مقابلے میں خود کو زیادہ طاقتور محسوس کرنے لگیں اور اسی لیے بظاہر متضاد طور پر محنت کش لڑاکا جدوجہد پر اتر آئیں۔ کسی معاشی عروج یا زوال کے طبقاتی جدوجہد پر اثرات فوری اور میکانکی نہیں ہوتے۔ یہ تاخیر زدہ ہو سکتے ہیں اور ان کا انحصار سیاق و سباق یعنی اس سے قبل رونما ہونے والے مخصوص حالات و واقعات پر ہوتا ہے۔ ٹراٹسکی نے نتیجہ نکالا تھا کہ جب سرمایہ دار معاشی توازن کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو اس سے سیاسی و سماجی عدم توازن جنم لیتا ہے۔ طبقاتی جدوجہد کا ٹھہراؤ ہی ایک وقت میں جا کر عالمی انقلاب کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ لہٰذا کامنٹرن (Comintern) کا فریضہ لوگوں کو جیتنے کی اہل حکمتِ عملی کے ذریعے کمیونسٹ پارٹیوں کو تعمیر کرتے ہوئے آئندہ ابھار کی تیاری کرنا تھا۔

حملے کا نظریہ

یہ بحث ایک سال قبل جرمن کمیونسٹ کے ’مارچ کے اقدامات‘ کے پس منظر میں خاص طور پر اہمیت کی حامل تھی۔ جرمنی 1918ء سے انقلاب اور رد انقلاب کے تھپیڑوں کا شکار تھا۔ اس وقت جرمن کمیونسٹ پارٹی KPD سوویت یونین سے باہر دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی تھی جس کی پانچ لاکھ سے زائد ممبر شپ تھی۔ تاہم مارچ 1921ء میں انقلابی لہر کی پسپائی کے باوجود جرمن کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے مصنوعی طور پر پارٹی کی سرگرمیوں کے دم پر نئی انقلابی لہر کو ابھارنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ کچھ کمیونسٹوں نے ورکرز کوآپریٹو سوسائٹی ہیڈ کوارٹر کو آگ لگا کر اس کا الزام پولیس پر لگا دیا۔ یہ اقدام نام نہاد حملے کے نظریے کے تحت اٹھایا گیا تھا۔ کچھ الٹرا لیفٹ کامریڈوں کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کو معروضی حالات سے قطع نظر محنت کشوں کو انقلابی جدوجہد پر اکسانے کے لیے جارحانہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ محنت کشوں کی حقیقی تحریک پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اسی لیے نام نہاد ایکشن کا خاتمہ مکمل تباہی پر ہوا۔ ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور دو لاکھ سے زائد کارکنان یا تو پارٹی چھوڑ گئے یا غیر فعال ہو گئے۔ اس سب کے باوجود پارٹی میں موجود الٹرا لیفٹ والوں نے اپنے اقدامات کا دفاع کیا۔ راڈک، بخارن اور زینوویف جیسے ’حملے کے نظریے کے حامی‘ کامنٹرن کے نامور رہنماؤں نے بھی ان کی حمایت کی۔ ہنگری، چیکو سلواکیہ، اٹلی اور فرانس کے ’بائیں بازو‘ والوں نے بھی مارچ کے اقدامات کو سراہا اور انہیں قابلِ تقلید قرار دیا۔

اسی لیے کامنٹرن کی تیسری کانگریس میں ان الٹرا لیفٹ غلطیوں کو سدھارنے کی ذمہ داری لینن اور ٹراٹسکی کے کاندھوں پر آن پڑی۔ انہوں نے واضح کیا کہ کمیونسٹوں کی اپنی جرأت اور ہیرو ازم انقلاب کی کامیابی کے لیے کافی نہیں۔ اس کے لیے عوام کو جیتنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ کرنے کے لیے کمیونسٹ پارٹیوں کو ایسی قیادت درکار تھی جو معروضی حالات کا درست تجزیہ کرنے کی اہل ہو اور جو یہ سمجھ سکتی ہو کہ وہ انقلابی عمل کے کس مخصوص مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یوں طبقاتی جدوجہد کی جدلیاتی سمجھ بوجھ اور کسی بھی مخصوص مرحلے پر عوامی شعور کا درست تجزیہ ہی فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انقلابی حالات ذاتی خواہشات سے تخلیق نہیں کیے جا سکتے۔ محنت کش طبقے کو عملی اقدامات کے احکامات دینے کی بجائے کمیونسٹ پارٹیوں کو عوام سے حقیقی مکالمے کا فن سیکھنا چاہیے۔ یعنی انہیں محنت کشوں کے شعور کی موجودہ کیفیت سے جڑتے ہوئے اسے اقتدار کے حصول کی ضرورت کے ادراک تک بلند کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ لیکن ایک کامیاب سرکشی کی قیادت اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب انقلابی صورت حال مکمل تیار ہو اور کمیونسٹ عوام کی اکثریت کو جیت چکے ہیں۔

اس بحث کو سم اپ کرتے ہوئے ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ، ”کوئی سادہ لوح ہی انقلابی حکمت عملی کو محض حملے تک محدود کر سکتا ہے۔“ قیادت کے فن کا تعلق صرف دستیاب قوتوں کو حملے کے لیے استعمال کرنے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ جاننا بھی اہم ہوتا ہے کہ کب پسپائی ضروری ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک منظم اور مستقبل کے لیے اپنی قوتوں کو محفوظ کرتے ہوئے پسپائی اور مکمل لاچاری سے کی گئی پسپائی میں فرق ہوتا ہے۔ آخر میں کانگریس میں لینن اور ٹراٹسکی کی پوزیشن کو قبول کر لیا گیا جس کا بنیادی اصول تھا ”عوام کو جیتو۔“

متحدہ محاذ

لینن اور ٹراٹسکی جیسے لیڈر کوشاں تھے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کے مقامی قائدین سے آغاز کرتے ہوئے انٹرنیشنل کے عام پارٹی کارکنان کے سیاسی معیار کو بلند کیا جائے۔ ایک اہم سوال جسے وہ تمام کارکنان کو از بر کروانا چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ ایک ایسی کمیونسٹ پارٹی کو محنت کش طبقے کی شعور یافتہ پرت یعنی ہر اوّل دستے کو جیت چکی ہو، وہ اس عوام کو کیسے اپنی طرف مائل کر سکتی ہے جو ابھی تک اصلاح پسند لیڈران کے زیرِ اثر ہوں۔ جب بڑے واقعات رونما ہوتے ہیں تو عوام کی بہت بڑی تعداد جدوجہد کے دور میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس عمل میں وہ اپنی قیادتوں کو امتحان میں ڈالتے ہیں۔ لڑائی سے انکار کرنے اور تحریک پر روک لگانے کے لیے اپنی پوزیشن کو استعمال کرنے والے ٹریڈ یونین لیڈروں کو نکال باہر کیا جاتا ہے اور ان کی جگہ زیادہ دلیر لیڈر آ جاتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر بھی لوگ ایسے لیڈروں کو ڈھونڈ نکالتے ہیں جن کے پاس نظام کے بحران کے مؤثر جواب موجود ہوں یا کم از کم وہ ایسا تاثر دیں۔ یعنی ایسے لیڈر جو نظام کے خلاف لڑائی کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ تاہم انقلابی شعور کی ترقی میں کوئی بِگ بینگ طرز کی تحریک کار فرما نہیں ہوتی۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہوتا بلکہ ایک عدم استحکام کے دور میں تمام تر نشیب و فراز لیے یعنی طبقاتی جدوجہد کی جستوں اور پسپائیوں پر مشتمل واقعات کا ایک تسلسل ہوتا ہے جو شعور کی تند و تیز چھلانگوں کا باعث بنتا ہے۔ محنت کش طبقے کی مختلف پرتیں مختلف انداز اور رفتار سے آگے بڑھتی ہیں۔ طبقے کی ایسی ہر اوّل پرتیں ہوتی ہیں جو باقیوں سے پہلے نتیجے اخذ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہی وہ پرت ہوتی ہے جسے انقلابی پارٹی میں جیتنا اور منظم کرنا ہوتا ہے، اس کی تربیت کرنی ہوتی ہے اور پھر اسے محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے۔

اس خیال کو خارج از امکان سمجھنا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے طوالت پر مبنی عروج کے ادوار میں، یعنی ایسے وقتوں میں جب نظام محنت کش طبقے کو رعایتیں دے سکتا ہو، انقلابی پارٹی عوام کو جیت سکتی ہے۔ ایسے وقتوں میں اصلاح پسند غالب رہتے ہیں جیسا کہ ہم نے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں دیکھا تھا۔ اگر یہ نظر آ رہا ہو کہ سرمایہ داری اشیا کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے تو پھر اسے اکھاڑ پھینکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے ادوار میں حقیقی مارکسی اپنی قوتوں کو متحد رکھتے اور انقلابی مارکسزم کے نظریات کا دفاع کرتے ہوئے سماج کی چھوٹی سی اقلیت بن کر رہ جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب ایسے طویل ادوار کے بعد نظام بحران کی طرف لڑھکنے لگتا ہے تو شروع شروع میں انقلاب کی ناگزیریت کی بجائے اچھے اور پرانے دنوں کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے اور ان کی طرف واپسی کا رجحان ہی غالب رہتا ہے۔ انسانی شعور قدامت پسند واقع ہوا ہے اور یہ معروضی حقائق سے ہم آہنگ ہونے میں ہمیشہ وقت صرف کرتا ہے۔ یہی عوامل وضاحت کرتے ہیں کہ کیوں ابتدائی مراحل میں تحریک کے انقلابی عناصر ہمیشہ چھوٹی سی اقلیت ہوتے ہیں جبکہ محنت کش طبقے کی اکثریت زیادہ ’حقیقت پسندانہ‘ اور آسان راستوں کی تلاش میں ہوتی ہے اور کیوں ابتدا میں اصلاح پسند لیڈر ہی عوام میں زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔

اسی وجہ سے 5 نومبر سے 5 دسمبر 1922ء کے دوران ہونے والی چوتھی کانگریس میں ’متحدہ محاذ‘ پر مقالہ منظور کیا گیا تھا جس میں اصلاح پسندانہ توہمات کے احیاء اور ’محنت کشوں میں از خود اتحاد کے رجحان‘ کی نشاندہی کی گئی تھی۔ معروض میں کوئی انتہائی اہم تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی تھی۔ جیسا کہ گزشتہ کانگریس میں تاکید کی گئی تھی انقلابی لہر پسپا ہو رہی تھی اور نظام عارضی طور پر مستحکم ہونے لگا تھا۔ مقالے میں کہا گیا تھا کہ:

”جوں جوں غیر مفاہمتی اور لڑاکا عناصر پر اعتماد بڑھ رہا ہے توں توں محنت کش طبقے میں بحیثیت مجموعی اتحاد کی خواہش بھی تقویت پکڑ رہی ہے۔ سیاسی طور پر نا تجربہ کار مزدوروں کی سرگرم ہونے والی نئی پرت مزدوروں کی تمام پارٹیوں، حتیٰ کہ تمام مزدور تنظیموں کو متحد دیکھنے کی خواہشمند ہے۔ انہیں امید ہے کہ ایسا کرنے سے سرمایہ دار طبقے کی جارحیت کا مؤثر جواب دیا جا سکتا ہے۔“

اس پیرائے میں برطانوی لیبر پارٹی، جرمن SPD، اطالوی PSI جیسی اصلاح پسند پارٹیوں کی محنت کشوں میں مقبولیت کہیں زیادہ تھی۔ ان حالات میں سوال یہ تھا کہ ان محنت کشوں کو انقلابی کمیونزم کے نظریات پر کیسے جیتا جائے۔ فرقہ پرور تاثر اور گالم گلوچ کے ذریعے ایسا کرنا ناممکن تھا۔ محنت کشوں کے متحدہ محاذ کی حکمتِ عملی کے اطلاق کے لیے بڑی مہارت کی ضرورت تھی۔ بنیادی تصور یہ تھا کہ اصلاح پسند تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کے عام کارکنوں کو جیتنے کے لیے کمیونسٹوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ محنت کشوں کے متحدہ محاذ میں جدوجہد کرنے کی آمادگی اور مستعدی کا مظاہرہ کریں۔ اس کا مطلب تھا اصلاح پسند لیڈروں کے آگے مطالبات رکھتے ہوئے اور محنت کش طبقے کے بحیثیت مجموعی عمومی مفادات کو اجاگر کرتے ہوئے فوری طبقاتی مفادات اور مطالبات کے لیے مستقل مزاجی سے لڑائی لڑنا۔ کیونکہ روزمرہ کی جدوجہدوں میں عملاً یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ محنت کشوں کے مفادات کے لیے مسلسل اور مستقل لڑائی لڑنے والے دراصل وہ ہیں اور یوں طبقاتی مفاہمت کرنے والے لیڈروں کو آسانی سے بے نقاب کیا جا سکتا ہے تاکہ ان کے متاثرین کو کمیونسٹوں کے پروگرام یعنی سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام پر جیتا جا سکے۔

متحدہ محاذ کے اطلاق کا طریقہ ہر ملک میں مخصوص مقامی حالات اور اصلاح پسند پارٹیوں کے مقابلے میں انفرادی کمیونسٹ پارٹیوں کی قوت کے مطابق ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن اس پالیسی کا جوہر بہرحال ہمیشہ ایک جیسا ہی ہو گا۔ اٹلی میں اس کا اطلاق رجعتیت کے مسلسل بڑھتے ہوئے خطرات کے مد مقابل مزاحمت تعمیر کرنے کی ٹھوس ضرورت کے اندر ہوا۔ اکتوبر 1922ء میں بادشاہ نے مسولینی کو وزیراعظم نامزد کر دیا تو متحدہ محاذ کی عملی توضیح یہ بنتی تھی کہ اطالوی کمیونسٹ پارٹی وہاں کی سوشلسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونینوں کو فسطائی اشتعال انگیزی سے نمٹنے کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کی دعوت دے۔ برطانیہ میں کمیونسٹ پارٹی کی نسبتی عددی کمزوری کے باعث مقالے میں بیان کیا گیا کہ، ”برطانوی کمیونسٹوں کو لیبر پارٹی میں شامل ہونے کی ایک ولولہ انگیز کمپیئن شروع کرنی ہو گی۔۔۔ برطانوی کمیونسٹوں کو سرمایہ داروں کے خلاف متحدہ انقلابی محاذ کے نعرے کے ساتھ محنت کش طبقے کی صفوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی ہر ممکن اور ہر قیمت پر ثابت قدمی سے کوشش کرنی ہو گی۔“

تاہم اس حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار ”اسے بروئے کار لانے والی حقیقی کمیونسٹ پارٹی کی مضبوطی، اتحاد اور نظریاتی طور پر غیر متزلزل قیادت پر ہی تھا۔“ یہی وہ مقصد تھا جس کے لیے لینن اور ٹراٹسکی نے انٹرنیشنل کی کانگریسوں کے دوران تمام توانائیاں صرف کیں۔ بد قسمتی سے وہ ہر بار کامیاب نہیں ہو سکے۔ نومولود کمیونسٹ پارٹیوں کی اکثر نوجوان قیادتوں کا معیار اور سمجھ بوجھ کی سیاسی سطح حالات سے موافقت نہیں رکھتے تھے۔ اطالوی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی اگر بات کی جائے تو بارڈیگا (Bordiga) جیسے قائدین نے لینن اور ٹراٹسکی کے مشوروں پر کبھی عمل نہیں کیا۔ یوں وہ عین اس وقت جب بورژوازی جوابی حملے کر رہی تھی، محنت کشوں کی قوتوں کو تقسیم کرنے کے گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوئے۔ اطالوی حکمران طبقہ مزدور تحریک کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔ اس مقصد کے لیے حکمران طبقے نے مزدور تحریک کو زندہ لاش میں بدلنے کے لیے ہزاروں مقامی قائدین کے قتل اور کئی کی گرفتاریوں کے ذریعے سرمائے کی ننگی آمریت مسلط کر دی جسے سیاسی لغت میں فسطائیت کا نام دیا گیا۔

قیادت کی اہمیت

اس عہد پر واپس نظر دوڑائیں تو ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ معروضی حالات میں ہونے والی تیز ترین اتھل پتھل ہی تھی جو چھوٹی چھوٹی کمیونسٹ تنظیموں اور گروپوں کو بڑی عوامی پارٹیاں بننے کے مواقع فراہم کر رہی تھی۔ عالمی جنگ، عوامی سطح پر بیروزگاری اور افراطِ زر کی بلند شرح کا باعث بننے والے شدید معاشی بحران نے انقلابی واقعات کے لیے راہ ہموار کی۔

تاہم انقلابی نظریات پر سیر حاصل عبور کے بغیر سارا انقلابی پوٹینشل ضائع ہو سکتا ہے۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ابتدائی سالوں میں انقلابی حالات سے بہت پہلے انقلابی کیڈرز کی تیاری اور انقلابی پارٹیوں میں قیادت کی اہمیت کھل کر سامنے آ گئی۔ فروری 1917ء میں روسی انقلاب کے آغاز پر جب اصلاح پسندی کا دباؤ بھی شدید ہوا تو قیادت کی اہمیت نے کھل کر اپنا اظہار کیا۔ جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ انقلاب کے ابتدائی مراحل میں محنت کش عوام عام طور پربظاہر زیادہ پریکٹیکل، آسان مختصر یہ کہ اصلاح پسندوں کے راستے کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ 1917ء کے ابتدائی مہینوں میں منشویک اور سوشلسٹ انقلابی ہی تحریک پر سیاسی طور پر چھائے رہے۔ اس کے روس میں موجود کامینیف اور سٹالن جیسے بالشویک لیڈروں پر بھی اثرات مرتب ہوئے جو دباؤ برداشت نہیں کر پا رہے تھے اور عبوری حکومت کی حمایت اور سمجھوتے کرنے کی بات کر رہے تھے۔ اس وقت میں لینن نے انقلابی مؤقف پر ثابت قدم رہتے ہوئے اور دھارے کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر پارٹی کی درست سمت میں رہنمائی کی۔ یہ فریضہ لینن جیسا مکمل طور پر مارکسی نظریات کا ماہر اور مارکسی میتھڈ یعنی جدلیاتی مادیت کے ٹھوس حالات پر اطلاق کی بصیرت رکھنے والا لیڈر ہی سر انجام دے سکتا تھا۔ یعنی یہ ماہرِ جدلیات لینن ہی تھا جس نے فروری 1917ء کے بعد دباؤ کا سامنا کیا اور اپنی انقلابی پوزیشن پر قائم رہا۔ وہ مقامی بالشویک لیڈروں سے کہیں آگے تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ منشویک قیادت بالآخر غداری کی مرتکب ہو گی جس سے محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں میں ان کی حمایت گرے گی اور وہ بالشویکوں کے زیادہ انقلابی مؤقف کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ اگر ان فیصلہ کن لمحات میں لینن پارٹی کی قیادت نہ کر رہا ہوتا تو اکتوبر میں ملنے والا موقع بالشویکوں کے ہاتھ سے نکل جاتا۔

آسٹریا، ہنگری، جرمنی، اٹلی اور دیگر جگہوں پر قیادت کے کردار کی اہمیت نے منفی انداز میں اپنے آپ کو ثابت کیا۔ بدقسمتی سے زیادہ تر نو آموز کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس لینن اور ٹراٹسکی جیسے قد و قامت کے لیڈر موجود نہیں تھے۔ لہٰذا اس وقت جب انقلابی حالات بار بار ابھر رہے تھے کامنٹرن کا فوری فریضہ ہر جگہ پر ایسی قیادت تیار کرنے کی کوشش ہی تھا تاکہ اس طرح کی غلطیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ اٹلی اور دیگر ممالک بالخصوص جرمنی میں انقلاب کی شکست نے خود روسی انقلاب پر خطرناک نتائج مرتب کیے اور انقلاب کو ایک ملک میں تنہائی کا شکار کر دیا۔

یہ روس کی معاشی اور ثقافتی پسماندگی کے ساتھ ساتھ بالشویک پارٹی کی افسر شاہانہ زوال پذیری کا سب سے اہم معروضی سبب تھا۔ اس زوال پذیری نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی قیادت میں بھی اظہار کیا۔ خاص طور پر مارچ 1923ء میں بیماری کے باعث لینن کے غیر فعال ہو جانے کے بعد زینوویف (Zinoviev) کے گرد کامنٹرن (Comintern) کی ایگزیکٹو نے سیکشنز کی مقامی قیادتوں کی طرف حاکمانہ رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر 1930ء کی دہائی کے وسط تک کامنٹرن عالمی انقلاب کے اوزار سے سوویت افسر شاہی کی خارجہ پالیسی میں تبدیل ہو چکی تھی۔

اسباق

لینن کے دنوں میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کے تجربات سے دوہرے اسباق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اوّل تو یہ کہ انقلابی نظریات پر مکمل عبور کتنا ضروری ہوتا ہے۔ تجزیے کی ایک سنجیدہ غلطی چاہے وہ موقع پرستانہ ہو یا فرقہ پرور، اگر درست نہ کی جائے تو انقلابی قوتوں کو برباد کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کامریڈوں کی نظریاتی تربیت کے لیے بے پناہ توانائی صرف کرتے ہیں۔ نظریاتی کوتاہیاں عمل میں سنجیدہ غلطیوں کا موجب بن سکتی ہیں۔ مثال کے طور 24-1921ء کے دور میں اطالوی کمیونسٹوں کے الٹرالیفٹ ازم نے نو عمر پارٹی کو فی الوقت اطالوی سوشلسٹ پارٹی کے زیرِ اثر محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں سے کنارہ کش کرنے میں انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ جرمنی میں بھی سنجیدہ غلطیاں کی گئیں۔ لہٰذا لینن کی تصانیف کے ساتھ ساتھ اس عہد کا عمومی مطالعہ آج انقلابی قوتوں کی تعمیر کے لیے از حد ضروری ہے۔

دوسرا سبق یہ ہے کہ نظریاتی عبور اور پختگی کو طریقہ کار میں لچک بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ لینن کی قیادت میں بالشویک پارٹی کا خاصہ تھا جسے ٹراٹسکی کے الفاظ میں ”انقلابی حکمتِ عملی کے اصول“ کا خاصہ رکھنے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی چار کانگریسوں میں منظور کی جانے والی بحثوں، قرار دادوں اور تقاریر میں صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ابتدائی سالوں میں مختلف مقامی سیکشنز مختلف ٹھوس حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف طریقوں سے کام کر رہے تھے۔ ہمیں آج بھی مستقبل کے تناظر کے حوالے سے اسی اپروچ سے کام لینا ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم بھی ابھرنے والے انقلابی مواقع ضائع کر دیں گے۔

جوں جوں سرمایہ داری کے بحران اور شدت اختیار کرتی طبقاتی جدوجہد کے باعث معروض تبدیل ہوتا جائے گا تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے سامنے اپنی قوتوں میں اضافے کے بے پناہ مواقع جنم لیں گے۔ لیکن ان مواقعوں سے درست طور پر مستفید ہونے کے لیے ہمیں مارکسی نظریات سے مسلح تاریخی عمل کی بصیرت اور معروضی تقاضوں کے مطابق لازمی لچک اور جرأت رکھنے والی ایک تربیت یافتہ پارٹی کی ضرورت پڑے گی۔ آج ہمارا نعرہ یہ ہونا چاہیے: لینن کی طرف واپسی! آج اور ابھی سے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کرو! عالمی سوشلسٹ انقلاب کی طرف آگے بڑھو!

Comments are closed.