|تحریر: اسماء شوکت|
سرمایہ دارانہ نظام جہاں باقی زندگیوں کے لیے ایک خطرناک سرطان کی صورت اختیار کر چکا ہے وہیں پر عورت کے استحصال کا سوال بھی بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ عورت کے استحصال پر سوال تو بہت ہیں لیکن اس نظام میں جواب نداردہیں۔ آخر کون دے گاان سوالوں کے جواب۔ ۔ کس کے پاس ہے ان مسائل کا حل؟کیا حکومت کے پاس ہے؟ یا اس سرمایہ دارانہ نظام کے پاس؟ کسی کے پاس بھی نہیں۔
یہ کیسی حکومتیں ہیں جوبظاہر تو عوام کے سماجی و انفرادی مسائل کے حل کے لیئے بنائی جاتی ہیں لیکن اس سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کے سماجی و انفرادی مسائل حل ہونا تو درکنار بلکہ یہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر تے جا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ نظام اپنی عمر پوری کر کے اب ایک خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نظام کے پاس کسی بھی مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں۔
پاکستانی حکومت کے موجودہ اقدامات پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی سبھی پالیسیاں یہ صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ ان کا مقصد پرولتاریہ کو ملیامیٹ کرنا ہے۔ تعلیم کے کاروبار سے لے کر صحت کے کاروبار تک، غریب کے استحصال میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جا رہی۔ ہر وہ شعبہ جو عوام کو تھوڑی بہت سہولت مہیا کرتا تھا، حکومت گدھوں کی طرح ان پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ عوامی اداروں کو کوڑیوں کے دام بیچ کر اپنے دوزخ نما پیٹ بھرنے اور اربوں روپے کے کمیشنز کھانے کی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔
نجکاری کا یہ کینسر اب صحت کے شعبے تک پھیل چکا ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ملتان میں کڈنی سنٹر کی نجکاری کی گئی اور اس سے بہت سے غریب محنت کشوں کو بے روزگار کر دیا گیا۔ کڈنی سنٹرکے محنت کش جو مخصوص تنخواہوں کے عوض اپنی محنت بیچتے تھے اور انہیں تھوڑی بہت تنخواہوں کو ہی ایک نعمت سمجھتے تھے۔ اس قلیل رقم سے بھی انہیں محروم کر دیا گیا۔ اور اب نجکاری کی یہ وبا صحت کے دوسرے تمام اد اروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ سرکاری اداروں کو بیچنے کا یہ عمل محنت کش طبقے پر بری طرح اثر انداز ہو گا۔ محنت کش طبقہ میں اگر خواتین کے حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت یہ سب سے زیادہ ظلم کا شکار ہیں۔ کم تنخواہیں، لمبے اوقاتِ کار، کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا دباؤ اور سب کے ساتھ ساتھ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا، سب مل کر اس شعبے کی خواتین کی زندگیاں بدترین بنائے ہوئے ہیں۔
سرمایہ دارانہ حکومت کا سرکاری اداروں کو بیچنے کے اس جابرانہ فیصلے کی وجہ سے محنت کش عورت کی زندگی مزید برباد ہو جائے گی۔ ایک محنت کش عورت ہزاروں ذمہ داریوں اور خاندانی مسائل کو ساتھ لے کر گھر سے قدم باہرنکالتی ہے اور پھر محنت مزدوری میں جت جاتی ہے۔ اسے اس کی محنت کے معاوضہ کا ایک حصہ بھی با مشکل دیا جاتا ہے۔ نجکاری کا یہ ظالمانہ فیصلہ محنت کش خواتین سے یہ تھوڑی بہت آمدن بھی چھین لے گا۔ گھر کا چولہا جلانے اور بچوں کا پیٹ پالنے میں عورت جہاں مردوں کے ساتھ قدم ملا کر ہمت کے ساتھ مسلسل کڑی دھوپ اور سماج کے سرد ہواؤں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کر رہی ہے وہاں اسے ہاتھ پاؤں کاٹ کے کھڑا کر دیا جائے گاکہ اب زندگی کی بھیک مانگو اور پھر طبقاتی تقسیم و معاشی نظام کے تھپیڑے اسے موت کی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیں گے۔ نجکاری کے امکانات نے محنت کش خواتین کو ذہنی و نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن محنت کش خواتین اس سب کے باوجود بھی اپنا اور اپنے ساتھیوں کا روزگار بچانے کے لیے حکومت وقت کی اس نجکاری سے لڑنے کو تیار ہیں، ابھی تک ہم اپنے اداروں کا دفاع کر رہے ہیں اور آگے بھی کریں گے، کیونکہ اسی لڑائی کے تجربے نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے، خاص کر اس نظام کو سمجھنے میں مدد فراہم کی ہے۔ ایسی ہی لڑائیوں میں شریک ہو کر محنت کش خواتین اس نظام کے خاتمہ کی لڑائی لڑنے کا شعور حاصل کریں گی۔ کیونکہ حکومتوں نے نجکاری سے باز نہیں آنا، انہیں شکست دینے انہیں روکنے کے لیے ہمیں ان کے نظام کا خاتمہ ہی کرنا پڑے گا۔
طبقاتی نظاموں کی پیداوار اس پدرسری معاشرے نے محنت کش عورت کو حقیر تر اور مظلوم ترین بنا دیا ہے، اس معاشرے کی اسی ذہنیت نے عورت کو گھٹ گھٹ کر جینے اور پھر یونہی اسی حال میں مرجانے کوعورت کا اخلاقی فرض بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس بڑھتے استحصال اور نوکریاں چھن جانے کے خوف نے زندگیوں کی بنیادوں کو خطرناک حد تک ہلا کر رکھ دیا ہے کہ اچھی خاصی محنت کش عورت ذہنی الجھاؤ اور ڈپریشن کی وجہ سے مزید مایوسیوں کے سمندر میں ڈوبتی جا رہی ہیں۔
اس پدرسری معاشرے میں عورت کو ویسے ہی کم تر سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو گھر کے کام کاج بچے سنبھالنے اور خاص کر بچے پیدا کرنے والی مشین سے زیادہ اور کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ لیکن اب وہ وقت نہیں رہا کہ جب عورتیں گھر کی چار دیواریوں میں ساری زندگی بچے سنبھالنے اور گھروں کو سنوارنے میں گزار دیتی تھیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اب عورت کوگھر کی چار دیواری سے نکل کر، سماج کا ایندھن بن کے مرد مزدوروں کے شانہ بشانہ اپنی محنت کو سستے داموں بیچنا پڑتا ہے تب جا کے کہیں گھر کا چولہا جلتا ہے۔ پاکستان میں عورت کو معاشی جبر کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور ثقافتی جبر کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے۔ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ گھر کے کام اور بچوں کے دیکھ بھال جیسے فرائض بھی عورت کو ہی سر انجام دینا پڑتے ہیں۔
ہزار طرح کی بری نظروں اور نفسیاتی جبر کے ساتھ ساتھ اگر وہ محنت کش مرد جتنی محنت کرتی ہے تو بھی اسے اس کی محنت کا معاوضہ مرد کی نسبت بہت کم دیا جاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ ایک عورت ہے، جس کو کم تر سمجھ کر اس کی سستی محنت کو نچوڑنے کے لیے ہی سرمایہ داری نے اسے گھر سے باہر نکالا ہے۔ محنت کش خواتین کو ہر طرح کا جبر اور نا انصافی سہنے کے باوجود بھی محنت مزدوری کرنا ہی ہوتی ہے، کیونکہ روزگار ان کے لیے اور ان کے گھرانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔
ہم مارکس وادی عورت پر ہونے والے اس ظلم اور استحصال کی اصل وجہ اس طبقاتی تفریق پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کوسمجھتے ہیں۔ کیونکہ اگر محنت کش عورت کی نسبت امیر اور سرمایہ دار عورت کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک پر تعیش اور حاکمانہ زندگی کے مزے لوٹ رہی ہوتی ہے۔ وہ کبھی بھی ایک غریب محنت کش عورت کے مسائل کو سمجھنا تو دور کی بات، ان سب کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کروادی جاتی ہے کی عورت ہمیشہ سے ایک صنف نازک یا مظلوم رہی ہے اور رہے گی۔ تو سوال یہ بھی ہے کہ کیا عورت واقعی ہمیشہ ہی ذلت آمیز زندگی گزارتی آئی ہے؟ کیا یہ واقعی میں ازل سے صنف نازک، ٹیڑھی پسلی یا مظلوم ہے؟
نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتیں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انقلابِ روس، 1871ء کے پیرس کمیون، صنعتی انقلاب اور اسی طرح بہت سے انقلابات میں خواتین کا کتنا کلیدی کردارتھا۔ ایک محنت کش عورت اپنے طبقے، اپنے حق کے لیے زیادہ ولولہ اور ہمت رکھتی ہے۔ لیکن ضرورت اس ہمت کو یکجا کرنے کی ہے۔ عورت کی آزادی و نجات محنت کش مرد و عورت کے استحصال کا خاتمہ، طبقاتی تقسیم اور سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ کیونکہ جب تک طبقاتی تقسیم کا انت نہیں ہو گا پرولتاریہ کا استحصال بڑھتا رہے گا۔ اور اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ اپنی طاقت کو پہچان کر اسے مجتمع کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں کا منہ توڑ جواب صرف او ر صرف سوشلسٹ انقلاب میں ہی ہے۔ محنت کش خواتین کے لیے یہی وہ انقلاب ہوگا جس کے بعد زندگی سزا نہیں بلکہ زندگی سچ میں زندگی محسوس ہو گی۔ میں دنیا بھر کی محنت کش خواتین کو آج یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہم ہی وہ کر سکتے ہیں جس کی آج ضرورت ہے۔ ایک ہونے کا وقت آچکا، آؤ سماج کو بدل ڈالیں۔ آؤ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔ ۔ ۔ !