لینن نے ہیگل کا مطالعہ کیسے کیا؟

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: صبغت وائیں |

1914ء کی خزاں کے دن تھے جب لینن نے ہیگل کی تحاریر کا مطالعہ شروع کیا۔ اس کے نوٹس اس جدلیاتی طریق کار کی گہری فہم کے غماز ہیں جس میں لینن کو کمال درجے کی مہارت حاصل تھی۔ اس آرٹیکل میں حمید علی زادے نے اس طریقِ کار کے ضروری پہلوؤں پر اور کمیونسٹ تحریک کی بنیادی اہمیت کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔

1914ء کے موسم گرما میں یورپ میں جنگ چھڑ گئی اور دنیا کی تاریخ کا دھارا راتوں رات تبدیل ہو گیا۔ غدار سوشل ڈیموکریٹک لیڈروں کی آشیرباد سے یورپی بورژوازی انسانیت کو ایسے وحشیانہ قتل عام کی جانب گھسیٹ لے گئی، جس میں کروڑوں محنت کشوں اور کسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

قیادت کی غداری نے عالمی مزدوروں کی تحریک کی مرکزی تنظیم دوسری انٹرنیشنل کو پھاڑ ڈالا، جس سے عالمی پرولتاریہ بے یار و مددگار ہو گیا کیونکہ ہر جانب مزدور دشمن حالات نے اپنے بدنما پنجے گاڑ رکھے تھے۔ دریں اثنا، انقلابی مارکسزم کی قوتیں ایک چھوٹی سی اقلیت تک محدود ہو چکی تھیں، جو پورے یورپ میں بکھری پڑی تھیں اور وہ بھی بغیر کسی واضح بنیاد یا کسی قیادت کے۔

جنگ شروع ہوئی تو لینن اس وقت پولینڈ میں موجود تھا اور اسے جلد بازی میں سوئٹزر لینڈ جانا پڑا۔ تب تک اس کو انٹرنیشنل کے رہنماؤں کی غداری کا اندازہ نہیں تھا اور شروع میں تو وہ یہ خبر سن کر صدمے میں آ کر رہ گیا تھا کہ جرمن پارٹی نے پارلیمنٹ (رائخستاگ) میں جنگ کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اب انٹرنیشنل برباد ہو چکی تھی، روس میں طبقاتی جدوجہد جنگ کی وجہ سے پسپائی کا شکار تھی اور لینن اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ ہر طرف سے تنہا ہو چکا تھا۔

اس سب کے باوجود، عین اس وقت جب کہ فوری طور پر در پیش تنظیمی اور سیاسی کام پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر سامنے پڑے تھے، لینن نے خود کو ہیگلیائی فلسفے کے گہرے مطالعے میں غرق کر دیا۔ لیکن کوئی بھی اٹھ کر یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس نے اس طرح کے بحرانی دور میں اپنے آپ کو تجریدی نظریاتی سوالات میں کیوں غرق کر لیا؟ میکانی انداز میں سوچنے والوں کے لیے ایسا کرنا عجیب اور مضحکہ خیز بھی ہو سکتا ہے۔ پارٹی کی ”ضروریات“ کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ لازمی طور پر ایسی صورت حال میں فوری طور پر عملی معاملات پر توجہ دی جانی چاہیے!

لازماً اسی طرح کا ردِ عمل ہو گا جو کہ لینن کی خود ساختہ بورژوا شبیہ کے ساتھ میل کھاتا ہو گا۔ ایک غیر مہذب، ایک نام نہاد باعمل؛ ایک خود سر، ضدی، ”سازشوں کا ماہر“ جس کا اس قسم کے لطیف فلسفیانہ معاملات کے ساتھ کوئی تال میل نہیں بنتا تھا۔۔۔ ایک ایسی شبیہ جو لینن کے سٹالنسٹ کیری کیچر کے خاصی قریب بنتی ہے۔

در حقیقت، ایسا نقطہ نظر لینن کے اور عمومی طور پر مارکسزم کے حقیقی طریقہ کار سے بالکل تضاد میں ہے۔ جو چیز لینن کو دوسری انٹرنیشنل کے باقی لیڈروں سے ممتاز کرتی ہے اس میں سب سے پہلی اور سب سے اہم بات اس کا طبقاتی پوزیشن پر ایک واضح مؤقف کے ساتھ مضبوطی سے ڈٹا ہونا تھا۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جو مکمل طور پر اس کی نظریاتی بصیرت پر مبنی تھیں۔

1914ء میں جنگ نے دنیا کے حالات کو ایک تند و تیز طوفان کی طرح تاراج کر دیا تھا۔ اس نے اپنے رستے میں ٹک سکنے والی مضبوط سے مضبوط چیز کو بھی خس و خاشاک کی مانند اڑا ڈالا۔ دنیا کا ہر ملک پُر تشدد ہنگامہ آرائیوں کی زد میں آ گیا تھا۔ تمام سیاسی رجحانات آزما لیے گئے اور معمولی ترین کمزوری کو بھی بے نقاب کرنے میں معاف نہ کیا گیا۔ ایسے حالات میں تاثراتی اصلاح impressionist improvization بالکل کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔

مارکسسٹ جنگ کی پیش بینی کر چکے تھے۔ پھر بھی یہ ایک نئی صورت حال تھی جس کے لیے پارٹی کو بڑی مشاقی کے ساتھ نئے سرے سے استوار کرنے کی ضرورت تھی۔ یہی وہ تناظر تھا جس میں لینن نے فطرت اور سماج کے قوانین کے بارے اپنی تفہیم کو واضح کرنے کے لیے فلسفے کو ذریعہ مان کر اس دنیا میں ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔

اس دور میں لکھی ہوئی اس کی نوٹ بکس اور خاص طور پر جو اس نے ہیگل کی سائنس آف لاجک پر نوٹس لیے وہ نہ صرف خیالات کا خزانہ ہیں بلکہ وہ ہمیں نظریے کے بارے میں اس کے نقطہ نظر اور اس کے رویے سے بھی روشناس کرواتے ہیں۔

لینن کا میتھڈ

فلسفہ یا خاص طور پر ہیگل لینن کے لیے کسی بھی طرح سے اجنبی نہیں تھے۔ اس نے مارکس اور اینگلز کے فلسفیانہ کاموں کے ساتھ ساتھ پلیخانوف کی فلسفیانہ تحریروں کا بھی گہرائی سے مطالعہ کر رکھا تھا، جس نے روس میں مارکسسٹ انقلابیوں کی ابتدائی کھیپ تیار کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اس نے 1905ء کے انقلاب کے بعد ایک سنجیدہ فلسفیانہ مطالعے کا آغاز بھی کیا تھا اور رجعتی بورژوا فلسفے کے گھن چکر میں پھنسے بالشویک راہنما بوگدانوف کے ترمیم پسند نظریات کے خلاف مادیت اور تجربی تنقید کے نام سے کتاب لکھی تھی۔

اس طرح، جیسا کہ اس کی فلسفیانہ نوٹ بک سے پتہ چلتا ہے، لینن 1914ء سے پہلے ہی جدلیات کا ماہر تھا۔ اس کے باوجود، لینن میں سیاسی اور نظریاتی سطح پر سہل پسند خود اطمینانی کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ اپنی تمام زندگی میں لینن نے ایک عام طالب علم کی انکساری اور جاں فشانی کے ساتھ ہر نظریے کو جاننے کی کوشش کی اور یہی تمام عظیم اساتذہ کا خاصہ رہا ہے۔

اس نے نہایت ہی منظم طریقے کے ساتھ ہیگل کی کتاب منطق کی سائنس کو کھنگالا، تفصیلی نوٹس لیے اور اس میں پیش کیے گئے ہر ایک تصور پر مغز ماری کی۔ یہ کسی بھی طرح سے کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے خود کے الفاظ کے مطابق ”کتاب کے بعض حصے تو درد سر بٹورنے کے بہترین نسخے ہیں!“ لیکن ایک سنگھرش کے بغیر تو کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا اور اعلیٰ و پیچیدہ ترین تصورات کی فہم کے لیے سنجیدہ اور جان توڑ مشقت ہی جزوِ اعظم ہے۔

اس کے نوٹس میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ لینن نے ایک اناٹومسٹ کی طرح ہیگل کے کام میں موجود تصورات کا جائزہ لینے کے لیے ان کو بطور ایک کُل کے لینے سے قبل محتاط انداز میں کیسے اس کے حصے بخرے کیے۔ ایسا کرتے ہوئے، اس نے نہ صرف ہیگل کے طریق کار میں مہارت حاصل کی، بلکہ اس پر تنقید کرتے ہوئے زندگی سے جڑے تعقلی مغز کو مردہ بھوسے سے الگ بھی کیا۔ لینن کے مطالعہ کرنے کا طریقہ کار خود اپنے آپ میں جدلیات کا ایک شاہکار تھا۔ ٹراٹسکی نے اپنے ایک آرٹیکل میں لینن کی اس صلاحیت کے متعلق وضاحت سے لکھا ہے۔ ٹراٹسکی اپنے مضمون ”لینن نے مارکس کو کیسے پڑھا“ میں لکھتا ہے:

”مطالعہ جو کہ محض ایک بے معنی تکرار نہ ہو، اس میں ایک تخلیقی کاوش بھی شامل ہوتی ہے، بلکہ اس کے برعکس کہیں تو: کسی دوسرے کے کام کے خلاصے کا مطلب اس کی منطق کے ڈھانچے پر سے ہر چیز کو اتار پھینکنا ہے۔ جیسے کہ ثبوت، وضاحتیں اور مثالیں۔ مسرت اور ولولے کی سرشاری میں ڈوب کر لینن نے اس دشوار گزار راہ پر چلتے ہوئے ایک ایک باب کی تلخیص لکھی، کبھی کبھار تو صرف ایک صفحہ پڑھ کر ہی سوچتا اور اس کی منطقی ساخت، جدلیاتی حرکت اور اصطلاحات ہی کی تصدیق میں لگا رہتا۔ نتائج پر قابو پاتے ہوئے اس نے اس طریق کار کو اپنا لیا۔ کسی دوسرے شخص کے بنائے ہوئے نظام کو بتدریج سر کرتے ہوئے اس طرح چھا گیا جیسے کہ یہ سب وہ نئے سرے سے خود تعمیر کر رہا ہو۔ اس طرح اس سب نے اس کے عظیم الشان کاسہء سر کے اندر موجود حیرت انگیز طور پر منظم دماغ میں مضبوطی سے اپنی جگہ بنا لی۔“ (ٹراٹسکی، لینن نے مارکس کا مطالعہ کیسے کیا)

لینن کی فلسفیانہ بیاضیں اس کے پُر عزم ذہن کی غماز ہیں، جو لگاتار نئے خیال اور نئی جہتوں کی تلاش میں رہا جن سے اس کی اپنے گرد موجود دنیا کی تفہیم میں اضافہ ہو سکے۔ وہ تنظیمی سوالات کا سامنا انتہا کے لچک دار انداز میں کرتا تھا، نظریاتی وضاحت پر اس کے اصرار نے لینن کو بطور ایک عالی شان لیڈر کے اور بالشویک پارٹی کو اپنے وقت کے واحد انقلابی رجحان کے نمایاں کر دیا تھا۔

کیا ہمیں فلسفے کی ضرورت ہے؟

”انقلابی نظریے کے بغیر انقلابی تحریک ممکن نہیں۔ اس تصور پر ایک ایسے وقت میں ضرورت سے زیادہ اصرار نہیں کیا جا سکتا جب موقع پرستی کی فیشنی تبلیغ عملی سرگرمی کی ہر شکل کے عشق میں فریفتہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گامزن ہوں۔“ (لینن، کیا کِیا جائے؟)

بہت سے کمیونسٹ لینن کے معروف الفاظ کو۔۔ کم از کم پہلے فقرے کو۔۔ دوہرا سکتے ہیں اور وہ ایسا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی اہمیت کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں؟ واقفیت دھوکا دے سکتی ہے۔ یہ لوگوں کو یقین کے جھوٹے احساس میں مبتلا کر سکتی ہے اور اس طرح چیزوں کی گہری حقیقت کو پانے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

یہاں ہم مارکسزم اور اس تجربیت پسندی کے درمیان فرق دیکھتے ہیں جو آج بورژوا فلسفے کی خصوصیت رکھتا ہے۔ مارکسسٹوں کے لیے، عدم ارتباطی immediate ]جو محض اپنے آپ میں ہو۔ جس پر غور نہ کیا گیا ہو اور جس کو اس کے اندر سے اور انسان کے اپنے حاصل کردہ علم سے ارتباط یا تعلق میں لا کر جانچا یا سوچا نہ گیا ہو۔ مترجم[ معاملہ محض ایک تصویر کی طرح ہے؛ کسی دیے گئے مظہر کا محض ایک رتی بھر جزو یا محض ایک پہلو، جس کا لازمی طور پر مطالعہ کیا جانا چاہیے، اسے کھولا جانا چاہیے اور اس کو اس کی کُلیت میں سمجھا جانا چاہیے۔ تجربیت پسند کے لیے جو بھی کچھ ہے محض عدم ارتباطی ہی ہے اور باقی سب کچھ ایک ایسی سربمہر کتاب ہے جو سات صندوقوں میں بند ہے۔

اصلاح پسند بورژوا فلسفے کو کسی بھی قسم کی تنقید کیے بغیر اپناتے ہیں، اور اپنے آقاؤں کی طرح نام نہاد ”جانی مانی حقیقت“ کے سامنے سر بسجود ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پر موقع پرستی کی فلسفیانہ بنیاد پڑتی ہے۔

عالمی جنگ کے متعلق نقطہ نظر ایک مثال ہے۔ یورپ کے حکمران طبقے میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے تنگ نظری پر مبنی قومی مفادات کے نقطہ نظر سے اس جنگ کی تعبیر کی، جس کا جواز انہوں نے ’مادر وطن کا دفاع‘ یا ’قوموں کے حقِ خود ارادیت‘ جیسی بلند و بالا تجریدات کے حوالے سے پیش کیا۔

اور پھر ہوا یوں کہ آرچ ڈیوک فراز فرڈینینڈ کے قتل کے بعد ایک کے بعد ایک قوم کے حکمران جنگ میں شامل ہوتے چلے گئے، ان میں سے ہر ایک دوسرے پر دشمنی کو ہوا دینے کا الزام لگاتا رہا۔ تفہیم کی یہی وہ حد ہے جہاں تک بورژوا نے پہلی عالمی جنگ کو جانا، یعنی حکمرانوں کے ایک سلسلے کی جانب سے کیے گئے فیصلے اور معاہدے۔ چیزوں کی سطح کی حد تک، واقعات کا یہی سلسلہ تھا جو کہ وقوع پذیر ہوا، لیکن یقینی طور پر، یہ معاملہ اس کی سطحی ظاہری شکل سے کافی زیادہ مختلف تھا۔

اس وقت کے سوشل ڈیموکریٹس نے بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی بھاشن بازی کے باوجود بالکل انہی خطوط پر بحث کی۔ آسٹریا کے سوشل ڈیموکریٹس کی جانب سے ویانا میں جنگی پارٹی کے روس مخالف اور سرب مخالف جذبات کی بازگشت دوہرائی گئی۔ پلیخانوف اور روسی سوشل ڈیموکریسی میں موجود موقع پرستوں نے رجعتی جرمن سامراج کے خطرے اور مظلوم سربیا کی مدد کے لیے نکلنے کی ضرورت کے بارے میں بات کی۔ دریں اثنا، جرمن سوشل ڈیموکریٹس نے رجعت پسند روسی سامراج کو روکنے کی ضرورت کی بنیاد پر جنگی کریڈٹ کے حق میں ووٹ دیا، وغیرہ وغیرہ۔

ان سب نے جنگ کو صرف اور صرف اپنے قومی سرمایہ دار طبقے کے نقطہ نظر سے دیکھا اور اسی بنیاد پر انہوں نے لاکھوں محنت کشوں کو موت کی وادی میں دھکیل کر بے تابی سے ووٹ دیتے ہوئے ’مادر وطن کے دفاع‘ کی جانب پیش قدمی کی۔

دوسری طرف لینن نے وضاحت کی کہ یہ جنگ سرمایہ دارانہ ارتقا کے پورے سابقہ دور کا نتیجہ تھی۔ دیوہیکل صنعتی اجارہ داریوں کے عروج اور مالیاتی سرمائے کے غلبے نے سرمایہ داری کی تاریخ میں ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا، جس میں سرمائے کی برآمد کی مسلسل ضرورت نے ترقی یافتہ سامراجی ممالک کو سرمایہ کاری کے شعبوں، منڈیوں اور ایسی جگہوں کی تلاش میں جہاں اختیار قائم کیا جا سکے دنیا کو تقسیم اور باز تقسیم کے لیے ایک زبردست کشمکش کی جانب دھکیل دیا۔

ایسے حالات میں، لینن نے وضاحت کی کہ ’مادرِ وطن کا دفاع‘ ہر قوم کے حکمران طبقوں کے تنگ نظر مفادات کے دفاع کے لیے محض ایک نقاب تھا- یعنی پرولتاریہ اور محنت کش غریب عوام کا استحصال کرنے والے جابروں کا مفاد۔

یہاں ہم عملی طور پر شعوری انقلابی فلسفیانہ مؤقف اختیار کرنے کے مقابلے میں حکمران طبقے کے غالب فلسفے کو اندھا دھند قبول کرنے کا فرق دیکھتے ہیں۔

سرمایہ داری کے عروج کے مرحلے میں، بورژوا فلسفے کو کیتھولک چرچ میں جاگیر داری اور اس کے نظریاتی محافظوں کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ سائنس اور تعقل کے جھنڈے تلے اس نے جاگیر دارانہ سماج کی منافقت اور خرد دشمنی کو بے نقاب کیا۔

لیکن سرمایہ دار طبقے کے بند گلی میں پہنچنے کے ساتھ ہی اس کے فلسفے کی نوعیت بھی بدل گئی ہے اور اب یہ مکمل طور پر رجعت پسند ہو گئی ہے۔ چرچ کے اُن عقیدوں کی طرح جن کے ساتھ کبھی اس نے جنگ کی تھی، ہمارے دور کے بورژوا عقائد اس کہن زدہ نظام کو قائم رکھنے کے لیے اس کے دفاع میں کھڑے ہیں۔

جہاں پرانے کلیسیائی عقائد ایمان اور صحائف کو سچائی کی راہ کے طور پر بتاتے تھے، وہیں آج کے مدرسانہ پروہت اور دیگر تنخواہ دار پنڈت فطرت اور سماج کے عدم تعقلی irrational ]جس کو جانا نہ جا سکے۔ مترجم[ ہونے کا پرچار کرتے ہیں اور عدم ارتباطی immediate ]جو کسی دیگر چیز یا سوچ کے ساتھ تعلق میں نہ آیا ہو۔ مترجم[ موضوعی تجربے کو سچائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جو کچھ بھی موجود ہے، ان کے موضوعی تجربے ہی کی بدولت ماضی میں، مذہبی راہنما، ’چیزوں کی الوہی ترتیب‘ کے بارے تبلیغ کیا کرتے تھے، جس میں سب سے اوپری درجے پر بادشاہ ہوا کرتا تھا، جس کے بعد جاگیر دار اور سب سے نیچے عوام۔ آج سرمائے کے پجاری سرمایہ داری کے ناقابلِ شکست ہونے کی تبلیغ میں مرے جا رہے ہیں۔۔۔ منڈی، نجی ملکیت، قومی ریاست اور اس تمام رجعتی اخلاقی الا بلا کو انسان کے ناقابلِ تغیر جوہر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

بورژوا فلسفہ اپنی لازمیت کے ہاتھوں مجبور خود اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سچائی کو سامنے لانے کی بجائے اب سرکاری مذہب، میڈیا اور سکول وغیرہ کے ذریعے پھیلائے جانے والے نظریات کا اصل مقصد سچائی کو چھپانا بن چکا ہے۔

اس لیے سچائی محنت کش طبقے کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔ اس سے پہلے کے تمام انقلابی طبقات کی طرح، پرولتاریہ اگر سرمایہ داری کے ہتھکنڈوں کو جاننا اور اس نظام کا خاتمہ چاہتا ہے تو ان کو ایک شعوری انقلابی فلسفہ اپنانا ہو گا۔

تجریدی سوچ

”سچائی مقرونی concrete ہے۔“ (لینن، ایک قدم آگے دو قدم پیچھے) لینن ہیگل کی پیروی میں اس بات کو اکثر دوہرایا کرتا تھا اور مارکسزم سب سے پہلے سچائی کو رکھتا ہے اور سب سے زیادہ اہمیت بھی اسی کو دیتا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ تجریدی سوچ اس طرح سے ناسچائی ہے۔ حقیقت اس سے مختلف ہے۔

جیسے کہ لینن اپنے کیے ہوئے ہیگل کی منطق کے خلاصے میں لکھتا ہے:

”سوچ مقرون سے تجرید کی جانب سفر کرتی ہے— بشرطیکہ یہ درست ہو۔ (ضروری نوٹ) اس سے سوچ سچائی سے دور نہیں ہوتی بلکہ اس کے مزید قریب آتی ہے۔ مادے کی، کسی فطرتی قانون کی، یا قدر کی تجرید، وغیرہ، مختصر کہیں تو تمام سائنسی (درست، سنجیدہ، لایعنی پھکڑپن کو چھوڑ کے) تجریدات فطرت کو زیادہ گہری، صحیح معنوں میں اور مکمل طور پر سامنے لاتی ہیں“۔ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

حقیقی علم حقائق کو نرا ایک دوسرے کے اوپر رکھتے چلے جانے کا نام نہیں۔ اصل کام تو ان حقائق کے مابین آپسی تعلق کو سمجھنا ہے۔ یہی فلسفے کا کردار ہے: دنیا کے بارے ہمیں ایک مخصوص نکتہ نظر سے لیس کرتے ہوئے فطرت اور ہمارے گِرد موجود سماج کی تفہیم کے لیے ایک طریق کار مہیا کرنا۔ جہاں تک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے تجریدی سوچ درست ہے۔ بنیادی سوال بہرحال یہی ہے کہ ہم سچائی کو کیسے پا سکتے ہیں۔

جدلیات

فلسفے میں ہیگل کے انقلاب کا تعلق اس کی معروضیت پسندی ہے۔۔۔ یعنی اس کے نظریے کے مطابق ہماری اس دنیا کا وجود بنی نوع انسانی کا محتاج نہیں، اور یہ خود اپنے اندرونی قوانین ہی کے سہارے چلتی ہے۔ اس حساب سے سائنس اور فلسفے کا کام جادوئی نظام کھڑے کر کے دنیا کو ان پر چلنے پر مجبور کرنا نہیں ہے، بلکہ دنیا جیسی ہے اس کے اپنے بارے میں تحقیق کر کے ان قوانین کا پتا چلانا ہے جو کہ اس کو چلاتے ہیں۔

اپنی منطق میں ہیگل خود سائنسی تفکر پر نہایت مشاقی کے ساتھ یہ طریق کار برتتا ہے۔ قدم بقدم وہ انسانی سوچ کی تلاش میں اس کے اپنے اندر سے اسے کھولتا چلا جاتا ہے۔ سادہ ترین اور عمومی ترین ممکن تصور سے شروع کر کے آگے بڑھتے ہوئے وہ ان قوانین کو واشگاف کرتا چلا جاتا ہے جو کہ انسانی سوچ پر راج کرتے ہیں۔

اپنی کتاب کے آغاز میں وہ ہمیں ”نرے وجود“ ]pure being[ صرف وجود، یا وجودِ محض۔ جو صرف ”ہے“ کے سادہ سے تصور پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہیگل کا یہاں سادہ سے مطلب غیر متعین اور ہر قسم کی توصیفات کے بغیر ہے، جس کی کوئی حدود نہیں ہیں، کوئی مخصوص خاصے نہیں ہیں اور نہ ہی ایسی کوئی دیگر خاص بات ہے جو کہ اس کو بیان کر سکے— یہ بس نرا ہے ]’ہے‘ یعنی ہونا[۔ جیسا کہ ہیگل کہتا کہ ہم اس کے بارے میں سوچنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں، ہم اس طرح کے ہونے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ بھی کہنے سے عاجز ہیں جیسے ہی ہم اس کے بارے میں کچھ کہتے ہیں یہ اس کو محدود کر کے اس کی وضاحت کر دیتا ہے اور اس طرح سے یہ مزید ”نرا“ نہیں رہتا۔

اس طرح سے اس نری ]خالص، یا محض[ شکل میں حقیقی طور پر جب ہم کسی بھی مخصوص ہونے پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ”نرا ہونا“ کسی بھی طرح سے ”نہ ہونے“ سے مختلف نہیں ہے۔ نرا ہونے کا تصور دوسرے لفظوں میں ہمیں فوراً ہی نہ ہونے کے تصور کی جانب لے جاتا ہے۔ سوچ بچار کرنے کے بعد بہرحال ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہماری منزل یہ نہیں ہے۔ اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ”نرے نہ ہونے“ کا تصور اپنے خالی پن اور غیرمتعین حالت میں نرے ہونے سے مختلف نہیں ہے۔

جیسے ہی ہم اپنی سوچوں میں ان دو تصورات کو بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں یہ فوراً ہی ایک دوسرے میں تبدیل ہو جاتے ہیں: ”ان میں سے ہر ایک اپنے مخالف میں غائب ہو جاتا ہے۔“ (ہیگل، سائنس آف لاجک) اور اس طرح سے ہم ہونے اور نہ ہونے کے ادغام سے ایک نئے رمزیے category سے جا ملتے ہیں، جس کو ہم بننے کے نام سے پکارتے ہیں؛ یہ پہلے سے ایک قدم اوپر کا تصور ہے جو کہ ہونے اور نہ ہونے کو اپنے اندر سموئے ہے۔ اس سادی سی مثال، یا فکری تجربے میں ہیگل نے اس بنیادی اصول سے آغاز کرتے ہوئے کہ ہر چیز بلاتعطل وجود میں آنے اور معدوم ہونے کے جیسی تبدیلی کی حالت میں ہے، ساری جدلیات کی بنیاد کو واضح کر دیا ہے۔

”کمال درجے کی ہوشیاری اور چالاکی!“ لینن لکھتا ہے، ”ہیگل ان تصورات کا تجزیہ کرتا ہے جو کہ عام طور پر مردہ نظر آتے ہیں اور وہ دکھا دیتا ہے کہ ان میں حرکت ]زندگی کی رمق[ باقی ہے۔ محدود؟ اس کا مطلب ہے کسی حد کی جانب حرکت کرتا ہوا! کچھ؟— یعنی یہ وہ نہیں جو اس کا مخالف ہے۔ وجود عمومیت میں؟— اس غیر یقینیت کا مطلب یہ ہے کہ ہونا = نہ ہونا“۔ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

تبدیلی کا راستہ

”حرکت اور ’خود حرکتی‘ self movement (یہ انتہائی اہم! صوابدیدی (آزاد)، بے ساختہ، داخلی طور پر لازمی حرکت)، ”تبدیلی“، ”حرکت اور زندگی“، ”تمام خود حرکتی کا اصول“، ”تسلسل“، ”حرکت“ اور ”سرگرمی“ کی جانب— ”مردہ وجود“ کا متضاد— اس بات پر کون یقین کرے گا کہ یہ ہیگلزم کا جوہر ہے، تجریدی اور ادق (دقیق، لایعنی؟) ہیگلزم؟؟ اس جوہر کی کھوج لگانے کی، اس کو سمجھنے کی، ]بچانے کی[، پرتیں کھولنے کی، تطہیر کرنے کی ضرورت ہے، مختصر یہ کہ جس طرح سے مارکس اور اینگلز نے کیا۔“ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

پیٹی بورژوا تجربیت پسند کی نظر میں چیزیں یا تو وہی رہتی ہیں جو کہ وہ ہیں یا پھر وہ اپنی بہترین حالت میں ایک دائروی سفر میں گامزن رہتی ہیں۔ جیسے آج کا دن گزرے کل جیسا دن تھا، اسی طرح آنے والا کل پھر سے ویسا ہی ہو گا۔ موجودہ حالات اس کے سامنے قادرِ مطلق کی حیثیت رکھتے ہیں اور لہٰذا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ اس پر مسلسل آہ و زاری کی جائے، اور ساتھ ہی ساتھ حالات کو پلٹنے کی ہر کوشش کو مسترد کرتے رہا جائے۔

وہ ہمیشہ ایسے راستے ڈھونڈے گا کہ وہ ثابت کر سکے کہ سرمایہ داری کو دوام حاصل ہے، یہ کہ محنت کش طبقہ کبھی متحرک نہیں ہو گا، یا یہ کہ انقلابی پارٹی کبھی نہیں بن سکتی یا نہیں بنائی جانی چاہیے، اور اسی طرح کی باقی بک بک۔ جہاں تک اس کے تبدیلی کو تسلیم کرنے کی بات ہے، وہ اس کو بیرونی قوتوں کی مہربانی بتاتا ہے۔ آخری تجزیے میں وہ ”سٹیٹس کو“ کے آگے ہتھیار ڈال دے گا، کیوں کہ اس کے تصور میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی کہ یہ سب تبدیل ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں پھر بھی یہ ارتقاء ناگزیر ہوتا ہے۔

ہیگل لکھتا ہے، ”زمین اور آسمان میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے، جہاں کوئی ایک ایسی چیز پائی جاتی ہو جس کے اندر ہونا اور نہ ہونا دونوں نہ ہوں“۔ (ہیگل، سائنس آف لاجک) البتہ ہیگل ہمیں ایک بھی آسمانی مثال فراہم نہیں کرتا، زمین تو ان سے بھری پڑی ہے۔

تبدیلی ہی سارے مادے کے ہونے کی طرز ہے۔ تمام وجود میں آنے والی چیزیں اپنی بربادی کا سامان خود اپنے اندر لے کر آتی ہیں۔ پرانے اور نئے کے، اور ہونے اور نہ ہونے کے مابین جاری یہ جدوجہد ہی ارتقاء کی بنیاد ہے— لہٰذا سرمایہ داری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

وہ طاقتیں جو کسی نظام کو اس کی بربادی کی جانب لے کر جاتی ہیں اسی نظام کی اپنی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، جیسے جدید پرولتاری۔ پرولتاریہ کا سب سے امتیازی خاصہ یہ ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جس کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں ہے اور جو کہ زندہ رہ پانے کے لیے اپنی قوت محنت کو سرمایہ دار کے ہاتھوں بیچنے پر مجبور ہے۔ اس کے مفادات ان ستونوں سے براہ راست متصادم ہیں جو سرمایہ داری کو تھامے کھڑے ہیں جیسے کہ: ذرائع پیداوار کا نجی ملکیت میں ہونا اور قومی ریاست۔ سرمایہ داری کے ارتقا میں اٹھایا گیا ہر قدم محنت کشوں کو بورژوازی کے مقابلے میں ایک خوفناک طبقے میں ڈھالتا چلا جاتا ہے، جو کہ اس حکمران طبقے کو نابود کرنے کی تیاری میں جٹا ہے۔ لیکن یہ کسی ایک سیدھی لکیر میں چلنے والا تدریجی عمل نہیں ہے، سرمایہ داروں کے لیے انقلابات انتہائی چالاک اور کرشماتی لیڈروں کے کام ہیں جو کہ منظر پر اچانک سے نمودار ہوتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے کہ ہڑتالوں کا الزام کسی ’احتجاج کرنے والے‘ پر لگا دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں ہر انقلاب لمبے عرصے تک ابھرنے والے سماجی تضادات کا نتیجہ ہوتا ہے جہاں حکمران طبقے کے مفادات پرولتاریہ کے مفادات سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔

ایسا ہو سکتا ہے کہ سال ہا سال تک حکومت کو کوئی فرق پڑتا نظر نہ آئے۔ محنت کش اپنے مالکوں کی ہر بات سر جھکا کر مانتے رہیں۔ جلد یا بدیر بہرحال حالات ایک ایسے نقطے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں پر ایک حادثاتی واقعے سے دبا ہوا غم و غصہ باہر آ جاتا ہے۔ بند ٹوٹ جاتے ہیں اور سواد اعظم کے سیلاب سیاسی منظر نامے پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ ظاہری استحکام اتنی ہی شدید ہنگامہ رائی کو جنم دیتا ہے۔ اسی دوران انقلابی قوتیں جن کا کل تک مزدور طبقے کی تحریک  کے ساتھ کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا تھا، ایک دم سے خود کو عین سٹیج کے اوپر پاتی ہیں۔ یہ سب کچھ انتہائی اچانک اور پرتشدد انداز میں بغیر کسی پیشگی چتاونی کے رونما ہوتا ہے۔ 

وہ اصلاح پسند جو کل تک محنت کش طبقے کو نام نہاد ”کمتر درجے کے شعور کا حامل“ اور غیر منظم لکھ رہے تھے، ان واقعات کو دیکھ کر گنگ رہ جاتے ہیں جن کی نہ تو وہ توقع کرتے ہیں، اور نہ ہی جن پر ان کا کوئی اختیار ہوتا ہے۔ اس سے ان کی سوچ کی سطحیت واشگاف ہوتی ہے۔

”کہتے ہیں کہ فطرت میں کوئی جست نہیں ہوتی“، ہیگل کی لکھی اس سطر کو لینن نے نمایاں طور پر انڈر لائن کیا ہے۔ ہیگل مزید لکھتا ہے، ”اور عام انسان کے تخیل کو جب ان ابھرتی اور مٹتی چیزوں کا تصور کرنا ہوتا ہے، سوچتا ہے کہ اس نے ان کو (…) بتدریج ابھرنے یا غائب ہونے کے طور پر تصور کیا ہے۔“ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

حقیقت میں اس کے برخلاف بات درست ہے ارتقا کبھی بھی ایک سیدھی لکیر میں یا تسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اس میں ایک طرف تو چھوٹے چھوٹے مقداری اور مسلسل تبدیلیوں کے وقفے ہوتے ہیں، جو کہ وقت آنے پر یکایک رونما ہونے والی فوری معیاری جستوں کی راہ ہموار کرتے ہیں؛ اور دوسری جانب معیاری جستیں مقداری تبدیلیوں کے لیے راستہ بناتی ہیں۔

ہیگل آگے لکھتا ہے: ”پانی ٹھنڈا کیا جانے پر آہستہ آہستہ سخت نہیں ہوتا، کہ وہ مکمل طور پر برف بننے سے پہلے دھیرے دھیرے گاڑھا ہوتا چلا جائے، بلکہ یہ ایک دم سے سخت ہو جاتا ہے؛ یہ اپنے نقطہ انجماد تک پہنچ کر بھی مکمل طور پر مائع حالت ہی میں رہتا ہے (اگر یہ ساکت حالت میں ہو تو)، یہاں اس کو ایک ہلکی سی ٹھوکر ایک دم سے جما دیتی ہے۔“ (ایضاً، صفحہ 124)

مقدار کی معیار میں تبدیلی اور اس کے برعکس– یا پھر دوسرے لفظوں میں جستیں – ہر قسم کے ارتقا کی بنیادی خصلت ہے۔ تاہم ان تبدیلیوں کے پیچھے متحرک قوتوں کو سمجھنے کے لیے کہ وہ کس جانب کو ارتقا پذیر ہوں گی، ہمیں ”معمول کے تعقل“ common sense کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں ان قوتوں کو نزدیک سے دیکھنے کی، اور یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ سطح کے نیچے آخر کیا چل رہا ہے جس کو نری خالی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔

سطح کے نیچے کیا ہے؟

چیزوں کو سطحی انداز میں دیکھنے پر، جیسا کہ ہم اپنی روزانہ کی زندگی میں انہیں دیکھتے ہیں وہ سادی اور ساکت جامد نظر آتی ہیں۔ ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ایک آدمی آدمی ہے، ایک کتا کتا ہے، یہ یہ ہے، وہ وہ ہے، اور اسی طرح سے ہر چیز کے بارے میں۔ لیکن جیسے ہی ہم اپنی آنکھیں کسی ایک چیز پر مرکوز کرتے ہیں یہ یقین ہوا ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر ہم اصلی اور بنیادی کتے کی کھوج شروع کرتے ہیں تو ہمیں فوراً ہی یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ایسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے تمام کتے مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم اپنے ذاتی کتے فیڈو ہی کو لیں تو بھی ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آج کا فیڈو وہ نہیں ہے جو وہ کل تھا۔ یہ اس پلے سے قطعی طور پر مختلف ہے جو ہم نے برسوں پہلے پالا تھا اور یہ اگلے لمحوں میں کوئی اور فیڈو ہو گا، یہ وہ نہیں ہو گا جو یہ اب ہے۔ جیسے ہی ان تصورات کو ہم اپنے ذہن میں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں تمام کے تمام ساکت جامد اور ٹھوس تصورات ہمارے ہاتھوں سے پھسل کر اس لامحدود طور پر متنوع دنیا میں کہیں تحلیل ہو جاتے ہیں۔

اس نقطے پر آ کر پوسٹ ماڈرنسٹ رک جاتے ہیں اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ”مختلف ہونا“ ہی اس دنیا کا جوہر ہے۔ وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہر چیز ہر چیز سے مختلف ہے لہٰذا ہمارے عمومی تصورات اور کیٹگریز ہماری قوت متخیلہ کے ”گھڑے ہوئے“ چھلاوے ہیں۔

لیکن یہ لوگ بولتے وقت کچھ جلد بازی سے کام لے جاتے ہیں۔ کیونکہ جیسے ہی ہم اس لامحدود امتیازات سے بھری دنیا کو غور سے دیکھتے ہیں تو ہر شے کی حالت میں مسلسل تبدیلی کی بجائے ہمیں مماثل نمونوں کی ایک تکرار اور قوانین سے پالا پڑتا ہے جو کہ ]اس دنیا پر[ آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کر رہے ہیں۔

پہلی نظر میں دیکھیں تو کوئی دو کتے ایک جیسے نہیں ہیں۔ لیکن چند ایسے لازمی خاصے تمام کتوں میں ایک جیسے ہیں جو کہ ان کو کتا بناتے ہیں۔ اور اس کے باوجود کہ فیڈو کے جسم کا ہر خلیہ، ایٹم اور ہر مالیکیول ایک مستقل حرکت اور تبدیلی کی حالت میں ہے، اس کے باوجود فطرتی طور پر کچھ ایسا رہ جاتا ہے جو کہ ہمارے دوست اس کتے کے معاملے میں ہر قسم کی عارضی اور حادثاتی مثال سے بالاتر ہے۔ چیزوں کی مماثلت ان کے اختلافات سے الگ وجود نہیں رکھتی بلکہ ان کے ذریعے سے ہوتی ہے۔

پرانے افلاطونی فلسفے میں چیزوں کے جوہر خیالی ]تبدیل نہ ہونے والے[ اجسام پر مشتمل تھے، جو کہ ہمارے سامنے موجود اس زندگی سے بھرپور اور رنگ بدلتی دنیا کے مقابلے میں کہیں اوپر موجود تھے۔ پوسٹ ماڈرنسٹوں کے نزدیک چیزوں کے جواہر محض انسانی ذہن کی صوابدیدی اختراعات ہیں، جنہیں ہم بیرونی حقیقت کے طور پر پیش کرتے پھرتے ہیں۔

اس سوال پر لینن لکھتا ہے:

زیادہ بال کی کھال اتارنے کے شوقین فلسفی زیادہ تر اس بات پر الجھتے رہتے ہیں کہ ہمیں بنیادی کے طور پر جوہر کو لینا چاہیے یا اس چیز کو جو کہ ہمارے سامنے موجود ہے (کانٹ، ہیوم، تمام ماخ پرست)۔ بجائے یا کے ہیگل یہاں اور کو رکھتا ہے اور اس ”اور“ کے مقرونی مواد کی وضاحت کرتا ہے۔ (ایضاً، صفحہ 134)

جیسے کہ جدید سائنس بار بار یہ ثابت کر چکی ہے کہ چیزوں کا جوہر– جو کہ ان کو بناتا ہے، جو کہ وہ ہیں – محض چیزوں کے آپسی موروثی تعلقات کا نام ہے۔ یہ مادے کی اندرونی حرکیات ہیں، جو کہ اسی میں سے ابھرتی ہیں اور خود کا ان گنت شکلوں اور تشکیلات میں اظہار کرتی ہیں جو کہ فطرت کے طور پر ہمارے گرد موجود ہیں۔

چارلس ڈارون اپنی حیاتیاتی ارتقا کی تھیوری میں وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح سے تمام حیات نے تبدیلی کے فطرتی انتخاب کے ذریعے ارتقاء کیا جس سے اس کی بقا کی صلاحیت میں اضافہ ہوا اور اپنی نسل کو آگے بڑھایا۔ وہ لکھتا ہے، ”بالکل سادے سے آغاز سے ان گنت خوبصورت ترین اور حیران کر دینے والی صورتیں ارتقاء پذیر ہو چکی ہیں اور مسلسل ہو رہی ہیں۔“ (چارلس ڈارون، اوریجن آف اسپیشز، صفحہ 529)

ارتقا کا قانون زندہ جانداروں سے کہیں الگ وجود نہیں رکھتا، یہ ان کے ارتقا پذیر ہونے کا طرز ہے۔ جو چیز انسان کو دوسرے جانوروں سے علیحدہ کرتی ہے وہ ہماری چیزوں کے ان پہلوؤں کو تجرید کرنے کی صلاحیت ہے، یہ وہ پہلو ہیں جو کہ ننگی آنکھ کے ذریعے دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے، ان پر غور کرنے کے لیے اور ان مظاہر کی بطور ایک کلیت کے تفہیم حاصل کرنے کے لیے ]ہم یہ تجرید سازی کرتے ہیں۔ مترجم[۔

دوسرے لفظوں میں ہمارے خیالات اور عمومی تصورات انہی حقیقی قوانین اور تعلقات کے قریب تر ہیں جو کہ اس دنیا کو چلاتے ہیں۔ جتنا زیادہ ہم چیزوں کی گہرائی میں جانے کے قابل ہوتے چلے جاتے ہیں، اسی قدر ہم ان کے تعلقات کو بے نقاب کرنے کے بھی قابل ہوتے چلے جاتے ہیں، اور اتنی ہی زیادہ درستی کے ساتھ ہمارے خیالات چیزوں کے جواہر کی عکاسی کر سکتے ہیں۔

جیسا کہ لینن نے لکھا ہے: فطرت بیک وقت مقرونی ]concrete[ بھی ہے، اور تجریدی بھی، یہ مظہر بھی ہے اور جوہر بھی، یہ حرکی لمحہ ]moment[ بھی ہے اور تعلق بھی ]یعنی یہ بیک وقت دونوں طرح سے ہے[۔ انسانی تصورات اپنی تجرید کے لحاظ سے موضوعی نوعیت کے ہیں، کٹے ہوئے اور الگ تھلگ، لیکن اپنی کلیت کے اعتبار سے یہ معروضی ہیں، ہمہ وقت عمل میں، کلیت میں، کسی جانب میلان رکھتے ہوئے، کسی ماخذ میں۔ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

تضاد

عام آدمی کی سوچ کسی مظہر کے صرف ایک سامنے آنے والے پہلو ہی کو لے کر مکمل طور پر اسی پہ غور کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں یہ طریق کار بالکل درست ہے۔ لیکن اگر ہم اس کا بغور جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت اتنی یک رخی اور سادہ نہیں ہے، بلکہ کثیر پہلو اور پرتضاد ہے۔

یک رخی تجریدیں مردہ ہیں، ہیگل کے وضاحت کردہ ایک پیراگراف کو لینن نے نشان زد کیا ہے، ”لیکن تضاد ہی ہر طرح کی حرکت اور زندگی کی بنیاد ہے، اور یہ صرف تضاد ہی ہے جس کی بنا پر کسی چیز میں حرکت، تحریک یا سرگرمی ہوتی ہے۔“ (ایضاً، صفحہ 139)

ہیگل ہمیں بتاتا ہے کہ ”کوئی چیز جب حرکت کرتی ہے تو ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ وقت کے ایک لمحے میں یہاں ہے اور دوسرے میں وہاں ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ وقت کے ایک ہی لمحے میں یہاں ہے بھی، اور یہاں نہیں بھی ہے، اور اس یہاں پر وہ ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔“ (ہیگل، سائنس آف لاجک) ہر طرح کی حرکت اور ارتقاء کا یہی چلن ہے۔

جدلیات دنیا کو دیکھنے کے اس روز مرہ کے یک رخے نظریے کو مکمل طور پر رد نہیں کرتی؛ یہ اس کو ایک اعلیٰ تر حقیقت کے ایک پہلو کے طور پر خود میں سمو لیتی ہے۔ یہ ایک مظہر کے تمام پہلوؤں کو خود میں سمو لیتی ہے۔ تمام اندرونی و بیرونی تعلقات سمیت۔ اور یہ ان مظاہر کو ان کے تمام تضادات کے ہمراہ ایک پیچیدہ کلیت کے طور پر لیتی ہے۔ جب ہم ایک بار اس بات کو جان لیتے ہیں تو ایک بالکل نئی دنیا اپنے دروازے ہمارے لیے وا کر دیتی ہے۔ ایک مربوط دنیا، جہاں اجزاء کا کل کے ساتھ ایک دو طرفہ تعلق ہے؛ جہاں ہونا نہ ہونے میں اور نہ ہونا ہونے میں، مقدار معیار میں اور معیار مقدار میں مسلسل تبدیل ہو رہا ہے؛ جہاں ہم آہنگی identity اور عدم ہم آہنگی ایک دوسرے میں مدغم ہیں؛ جہاں بنتر اور مافیہا ایک جہد مسلسل کی حالت میں گرفتار ہیں؛ جہاں بلا کے پیچیدہ عوامل کی بنیاد میں انتہا کے سادہ قوانین موجود ہیں؛ ہر جانب یہی کچھ جاری و ساری ہے۔

دنیا کے تمام عوام کے علم کی شرط ان کی ”خود حرکتی“ میں، ان کا اپنا خود کا ارتقاء، ان کی اپنی حقیقی زندگی میں، ان کے متناقضات کے انضمام (unity of opposites) میں ہے۔ لینن یہاں مزید لکھتا ہے، ”ارتقا نقیضین opposites کے مابین ’کش مکش‘ کا نام ہے“۔ (لینن، جدلیات کے سوال پر)

قانون پسندی

کسی مظہر کے ہم جتنی زیادہ گہرائی میں اتر سکنے کے قابل ہوں گے اور جتنی زیادہ بہتری کے ساتھ ہم اس کے اندرونی تضادات کو جان لیں گے، ہمارے لیے اس کی صوابدیدیت اور غیر یقینیت اسی قدر کم ہوتی چلی جائے گی۔ بلکہ یوں کہیں کہ دھیرے دھیرے جو صورت ہمارے سامنے آئے گی وہ اس کے ارتقاء کا لازمی- دوسرے لفظوں میں، اس کا قانونی- چلن ہو گا۔

یہاں ہمارے پاس دنیا کو دیکھنے کا انداز بورژوا فلسفے کے مردہ مقولوں categories سے بالکل مختلف ہے۔ جدلیاتی نقطہ نظر نہ صرف کسی مظہر کی بیرونی توصیفات یا اس کے عارضی مراحل کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ اس کے وجود میں آنے سے لے کر اس کے لازمی خاتمے تک کے پے در پے مراحل میں نشوونما کی مجموعی عکاسی کرتا ہے۔ یہ طریقہ کار مارکسزم کی بنیادوں میں ملتا ہے۔

لینن لکھتا ہے:

”سرمایہ میں، مارکس بورژوا (اشیا کے) سماج کے سب سے سادے، سب سے معمولی اور بنیادی، سب سے عام اور روزمرہ کے تعلق کا سب سے پہلے تجزیہ کرتا ہے، ایک ایسا رشتہ جس سے اربہا بار پالا پڑا، یعنی اشیا کا تبادلہ۔ اس انتہائی سادہ مظہر میں (بورژوا سماج کے اس ”خلیے“ میں) تجزیہ جدید سماج کے تمام تضادات (یا تمام تضادات کے جراثیم) سامنے لے آتا ہے۔ اس کے بعد کی وضاحتی تفصیل ہمیں ان تضادات اور اس سماج کے انفرادی حصوں کے ]مجموعے[ میں ارتقاء (نمو اور حرکت دونوں) دکھاتی ہے۔ اس کے آغاز سے انجام تک۔ (…) جدلیات کی عمومی وضاحت (یعنی مطالعہ) کا طریقہ بھی لازماً ایسا ہی ہونا چاہیے (کیونکہ مارکس کے نزدیک بورژوا سماج کی جدلیات، جدلیات کا محض ایک مخصوص معاملہ ہے)۔“ (لینن، جدلیات کے سوال پر)

جدلیاتی طریقہ کار کے اطلاق کے ذریعے مارکس اور اینگلز نے سرمایہ دارانہ نظام کے قوانین کا پردہ فاش کیا۔ اور اس بنیاد پر وہ درست پیشین گوئی کرنے کے قابل ہو پائے، سرمایہ دارانہ سماج کے پورے ارتقاء کا ایک اجمالی خاکہ؛ ایک ایسا ارتقاء جو ان کی موت کے بعد بھی لازمی طور پر پرولتاریہ کے اقتدار میں آنے اور نجی ملکیت اور قومی ریاست کے خاتمے کی طرف لے کر جاتا ہے۔

کمیونسٹوں کے پروگرام کی تشکیل کی بنیاد تناظر پر ہے، جو کہ مارکس اور اینگلز نے ابتدائی طور پر تیار کیا تھا۔ ایک ایسا تناظر جس کی بنیاد انسانی تاریخ کے مطالعے پر ہے، اور جو روز بروز درست ثابت ہو رہا ہے۔ اسی لیے، لینن نے لکھا: ”مارکس کے سرمائے کو اور خاص طور پر اس کے پہلے باب کو سمجھنا مکمل طور پر ناممکن ہے، جب تک کہ ہیگل کی منطق کا مکمل مطالعہ کر کے اس کو سمجھ بھی لیا جائے۔ نتیجتاً، نصف صدی بعد بھی مارکسسٹوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مارکس کو سمجھ سکا ہو!!“ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

ہیگل کو سیدھا کر کے پڑھنا

ہیگل نے شاندار طریقے سے جدلیات کی سب سے جامع تشریح کو حرکت اور تبدیلی کی سائنس کے طور پر تیار کیا۔

آج کے دن تک، اس کے نظریات سرمایہ دار طبقے کے سرکاری فلسفیانہ نظریات کی پشت پر کھڑے ہیں۔ لیکن ہیگل کے ہاتھوں جدلیات کو ایک متصوفانہ اور عینیت پرست شکل ملی ہے۔ یہاں فطرت کے اپنے داخلی قوانین کے بجائے وہ قوانین ارتقاء کے سزاوار ہیں جنہیں اس نے روح مطلق یا مطلق خیال کہا ہے۔ ہیگل نے لکھا ہے خیال ”فطرت ]یعنی مادے[ کا خالق بن جاتا ہے،“ جس کا جواب لینن نے صرف یہ دیا ہے: ”!!ہاہا!“ (ایضاً، صفحہ 174)

ہیگل کے لیے، منطقی رمزیے (categories) جیسے کہ ہونا، ]عدمnothing کا ترجمہ کیا ہے۔ ہیگل کی منطق پڑھتے وقت نہ ہونا not being اور عدم nothing میں فرق ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ نہ ہونا کا مطلب عدم نہیں ہے۔ مثال کے طور پہ تالاب میں مچھلیاں ہیں، یہ ہونا ہے۔ تالاب میں مچھلیاں نہیں ہیں، یہ نہ ہونا ہے۔ مچھلیاں کہیں تو ہیں۔ لیکن عدم سے مراد ہے، کچھ بھی نہ ہونا، کہیں بھی نہ ہونا۔ اسی لیے غیرمتعین ہونا، یعنی جس کی کسی قسم کی کوئی توصیف بیان نہ کی گئی ہو، جو ”یہ“ یا ”وہ“ کے ساتھ بھی نہ جڑا ہو، ہیگل کے مطابق اس کا ہونا، نہ ہونے ہی کے جیسا ہے: مترجم[ بننا، مقدار، معیار، جوہر، ظاہر، وغیرہ ایک عظیم خیال کے لازمی اجزا ہونے کے لحاظ سے ایک آزاد وجود کے حامل ہیں، جس نے خود کو فطرت کے ذریعے ظاہر کیا ہے۔ ایک بار جب یہ فطرت میں خود کو ظاہر کر دیتا ہے، تو تعقلی سوچ میں مطلق خیال اپنی اعلیٰ ترین شکل کا حصول کر کے ہیگلیائی فلسفے کے روپ میں عروج کو پہنچ جاتا ہے۔

ہیگل نے انسانی سرگرمی پر تجریدی فکر کی حتمی ترجیح پر اصرار کیا۔ جہاں تک اس نے سرگرمی کو اپنی منطق کے کلیدی جزو کے طور پر شامل کیا، منطقی رمزیے کے طور پر ایسا پہلی بار ہوا تھا اور یہ بہت اہم بات تھی۔ اپنی پوری منطق میں وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ قاری کو بیرونی دنیا کو چھوڑ کر صرف ”خالص فکر“ ہی کی دنیا میں رہنا چاہیے۔

لیکن اس کے باوجود اس کو خود اپنی ہی منطق کے ہاتھوں مجبور ہو کر، اور اپنی باتوں کو ثابت کرنے کی خاطر بار بار مادیت کی جانب مڑنا پڑتا تھا۔ جیسا کہ لینن نے نوٹ کیا: ”ہیگل کے کاموں میں سے اس سب سے زیادہ عینیت پسند کام میں سب سے کم عینیت اور سب سے زیادہ مادیت ہے۔ ”متضاد“، لیکن ایک حقیقت!“ (ایضاً، صفحہ 234)

ہیگل کا تعلق فلسفیانہ عینیت پرستی کے دھڑے سے تھا، جس کے مطابق ذہن حقیقت کا بنیادی جزو ہے اور یہ کہ بیرونی دنیا، کسی نہ کسی طریقے سے، ذہن کی اخذ کردہ یا عکس ہے۔ تمام مذاہب فلسفیانہ عینیت پرستی کے کیمپ میں آتے ہیں اور ہیگل نے اس بات کو ہرگز راز میں نہیں رکھا کہ وہ ایک مذہبی نظام کی تشکیل کر رہا تھا۔

مارکسسٹ فلسفیانہ مادیت پسند ہیں۔ عینیت پرستوں کے برخلاف، ہمارا ماننا ہے کہ صرف ایک ہی دنیا ہے، یعنی مادی دنیا جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں اور جس کے ساتھ ہم رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ انسانی ذہن اس مادی دنیا کی پیداوار ہے اور ہمارے خیالات محض اس کے عکس ہیں۔

لینن نے لکھا ہے: ”میں عمومی طور پر ہیگل کو مادیت پسندانہ نکتہ نظر سے پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہیگل مادیت پسندی ہی ہے جو اپنے سر پر کھڑی ہے… یعنی، میں نے ہیگل پڑھتے وقت اس میں آنے والے الفاظ خدا، مطلق، خالص خیال وغیرہ کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔“ (ایضاً، صفحہ 104)

لینن ایسا کر سکتا ہے کیونکہ مطلق خیال کا تصور ہیگل کے نظریات کے لازمی پہلوؤں میں کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کرتا۔ در حقیقت، جیسا کہ فریڈرک اینگلز نے نوٹ کیا، ہیگل مطلق خیال کے بارے میں ”مطلقاً کچھ بھی نہیں“ کہتا۔ (اینگلز، لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ)

مارکسسٹ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ جدلیات کا فطرت سے الگ تھلگ کوئی وجود ہے۔ جدلیات کے قوانین تصورات کے قوانین نہیں ہیں، بلکہ خود فطرت کی اپنی داخلی قانونی حیثیت کو انتہائی عمومی سطح پر ظاہر کرتے ہیں۔ ہم انسان اس دنیا کے ساتھ اپنے روابط کے ذریعے، ان قوانین کو گہری اور مزید گہری سطح پر دریافت کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ یہی
مارکسی فلسفہ کی بنیاد ہے: یعنی جدلیاتی مادیت۔ لینن نے لکھا ہے، ”منطق فکر کی بیرونی بنتروں کی سائنس نہیں ہے، بلکہ یہ تمام ”مادی، فطرت اور روحانی چیزوں“ کے ارتقائی قوانین کی سائنس ہے، یعنی دنیا کے تمام مقرونی مافیہا اور اس کے اِدراک کے ارتقاء کی، یعنی مجموعی طور پر دنیا کے تمام علم کی تاریخ کا لُبِ لباب۔“ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

یہ مارکس اور اینگلز کی عظیم حاصلات میں سے ایک تھی کہ جدلیات کو ہیگل کی مردہ عینیت پرستی کے طوق و سلاسل سے نجات دلائی اور ”اس کو الٹا کر سیدھے رُخ کھڑا کیا“۔ اور اگرچہ فطرت کی جدلیات ہر گزرتے دن کے ساتھ سائنس اور ثقافت کی ترقی کے ساتھ سامنے آ رہی ہے، لیکن ہیگل کی عینیت پرستی- یعنی اس کی روحِ مطلق- محض ایک بے روح کینچلی بن کے رہ چکی ہے۔ نیچے موجود حقیقی زندہ جاندار کی نشوونما کے لیے اس کھال کو زندہ رکھنا لازمی ایک امر تھا۔

نظریہ اور عمل

خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ یہ من موہنی پریت آتمائیں ہماری کلپناؤں کے داخلی ستھانوں میں بھٹک رہی ہیں؛ ان کے مخصوص مواخذ عرصہ دراز قبل فراموش کیے جا چکے ہیں، اسی کارن انسان نے انہیں ہزار ہا سال سے پُر اسراریت کا لبادہ اوڑھا دیا ہے۔ عینیت پرستی میں، خیالات فطرت اور سماج سے بالا مہیب اور دیوہیکل قوتوں کا روپ دھارن کر کے انسان کے سامنے آتے ہیں۔

لیکن خیالات کا ]انسان سے باہر[ کوئی آزاد وجود نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ اس طرح سے ہیں جیسا کہ موضوعیت پرست ان کے بارے کلپنا کرتے ہیں، کہ انسان اور باہری دنیاؤں کے درمیان کوئی ناقابلِ عبور روکیں موجود ہیں۔ ذہن ہماری پرجاتیوں کو چلانے والا عمل ہے، جو ]انسانی ہاتھ کی[ محنت کے ذریعے ہمارے، اور ہمارے ارد گرد کی فطرت کے مابین موجود فاصلوں پر پُل باندھتا ہے۔

مارکس کہتا ہے، ”خیالات، تصوراتِ کلی، اور شعور کی پیداوار اپنی بنیاد میں انسانوں کی مادی سرگرمی اور ان کے مادی تعلقات کی بنتر میں گُندھی پڑی ہے جو حقیقی زندگی کی زبان ہے“۔ (مارکس، جرمن آئیڈیالوجی)

اپنے ارد گرد کے ساتھ مسلسل نبرد آزما رہنے سے– جس کو مارکس ”انسان اور فطرت کے بیچ رد و نمو“ ]metabolism کے جاندار رشتے[ کا نام دیتا ہے– تصورات پیدا ہوتے ہیں جو ہمیں اپنے ماحول کو سمجھنے اور اس کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے قابل بناتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم خود کو بھی تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہمارے خیالات، جیسے منطق کے رمزیے، کوئی ماورائے قدرت مظاہر نہیں ہیں۔ وہ محض فطرت اور اس کی جڑوں کی عکاسی کرتے ہیں، جن ]ہمارے خیالات[ کی بنیاد انسانی سماجی سرگرمی میں ہے۔

لینن نوٹ کرتا ہے: ”ہیگل کے ہاں، عمل اور سرگرمی ایک منطقی ”قیاس“ ]syllogism[، ایک منطقی استعارہ۔ اور یہی حقیقت ہے! اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ منطق کے پیکر کا انسانی سرگرمی میں کوئی دوسرا وجود ہے (=مطلق عینیت)، بلکہ اس کے بالکل الٹ: انسانی عمل، خود کو ارب ہا بار دوہرانے کی وجہ سے انسانی شعور میں تجسیم پا کر منطقی صورت اختیار کر گیا ہے۔ مختصر یہ کہ (اور صرف ایسے ہی ہے) اس طرح ارب ہا ارب بار کی تکرار کے نتیجے میں ہی ان (منطقی) استعاروں کو ایک تعصبی دوام حاصل ہوا ہے، ایک مُسَلَّم کردار۔“ (لینن، ہیگل کی سائنس آف لاجک کی بیاض)

فکر کا وہ جدلیاتی کردار جس کا نقشہ ہیگل نے اپنی منطق میں کھینچا ہے، دوسرے لفظوں میں، یہ محض اس فطرت کا عکس ہے جس کے ساتھ انسان ]اپنے عمل کے ذریعے[ تعلق میں آتے ہیں۔ لینن ہیگل کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”فطرت، یہ عدم ارتباطی کُلیت immediate totality ]فطرت کو ایک ایسا کُل کہ رہا ہے جس کے ساتھ انسان ابھی تعلق میں نہیں آیا، یا جس سے ابھی انسان کا ارتباط نہیں ہوا: مترجم[، خود کو منطقی خیال میں ظاہر کرتی ہے۔“ اس سے آگے کہتا ہے: ”منطق جانکاری کی سائنس ہے۔ یہ نظریہء علم ہے۔ علم انسان کی جانب سے فطرت ہی کی سوچ ]انسان کے فطرت کے ساتھ کثیر پہلو تعلق میں آنے کے بعد ذہن میں بنے عکس[ ہے۔ لیکن یہ اتنی سادی بات بھی نہیں ہے، محض ایک عدم ارتباطی بھی نہیں، نہ ہی یہ ایک قطعی طور پر مکمل عکس ہے، بلکہ یہ تجریدوں کے ایک سلسلے کا عمل ہے جو تصوراتِ کُلی، قوانین وغیرہ کی تشکیل اور ان کی نشوونما، (سوچ، سائنس =”منطقی خیال“) مشروط طور پر قریب قریب، یونیورسل، متحرک، تبدیل ہوتی ہوئی اور ارتقاء پذیر قوانین پر چلنے والی فطرت کا احاطہ کرتا ہے۔

ہزاروں سال کی سعی و خطا کے ذریعے فطرت کی گونا گوں جہتوں میں غوطہ زن ہونے کے بعد ہم نے خیالات اور تصوراتِ کُلی کو تشکیل دیا ہے، یہ خیالات انسانی تجربے کا مجسم جوہر بن چکے ہیں۔ اس سلسلے کا اہم ترین حاصل جدلیات ہے۔ لیکن علم کوئی یک طرفہ سلسلہ نہیں ہے، جو کہ ہماری سرگرمیوں کے نتیجوں کو ہمارے دماغوں پر چھاپتا چلا جائے۔ حرکت میں ایک ہی وقت میں ایک بالکل الٹا عمل بھی ساتھ ہی ساتھ چلتا ہے: ان قوانین کی چھتر چھایا تلے چلتی دنیا کے مختلف پہلوؤں سے اخذ کرتے ہوئے تجریدی سوچ ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم ان پر غور کرتے ہوئے اپنے عمل کو مزید بہتر بنائیں۔ یہاں ہمارے خیالات کا پالا خارجی دنیا کے ساتھ پڑتا ہے جس کی وہ عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ وہ عمل ہے جس کے توسط سے وہ معروضیت کا حصول کر پاتے ہیں: نظریاتی خیال کی (علم کی) اور عمل کی کُلیت– یہ انتہائی ضروری ہے۔ اور یہ کُلیت نظریہ علم میں قطعیت کی حامل ہے، کیوں کہ اس سب کا نتیجہ ]معروضی خیال[ ہے“۔ (ایضاً، صفحہ 219)

نظریہ بہترین طور پر عام آدمی کے تجسس کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن یہ نظریے اور سرگرمی کا دو طرفہ جدلیاتی عمل ہے، جس میں ہر ایک دوسرے کی طرف لے کر جاتا ہے، جو کہ ”کسی چیز، مظاہر، عوامل وغیرہ کے بارے میں انسانی علم کے مسلسل گہرائی میں اترنے کے لامتناہی عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔ ظاہر سے ماہیت کی جانب اور کم گہری ماہیت سے عمیق تر ماہیت کی جانب۔“ (ایضاً، صفحہ 222)

یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک ہی وقت میں فطرت پر انسان کے اختیار کو بڑھاتا بھی ہے اور اس کو وسیع بھی کرتا ہے۔ دنیا کو چلانے والے ان قوانین کے بارے میں ہمارا علم جتنا گہرا ہوتا چلا جاتا ہے، اتنے ہی زیادہ مؤثر طریقے سے ہم اپنے مقاصد اور خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اور یہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ کمیونسٹوں کے لیے نظریے کی کیا اہمیت ہے۔

جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی ہے، ”وہ شخص بلا کا سخت جان اور متوازن ہوتا ہے جو نظریے کو عمل کے لیے رہنما سمجھتا ہے۔ ایک تھڑے باز تشکیکی علم طب کا پھکڑ اڑا کر بھی آرام سے زندگی گزار سکتا ہے، لیکن ایک سرجن سائنسی غیر یقینیت کی فضا میں نہیں رہ سکتا۔ ایک انقلابی کو عمل کی رہنمائی کے طور پر نظریے کی ضرورت جس قدر زیادہ ہوتی ہے، وہ اس کی حفاظت کرنے میں اتنا ہی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ولادیمیر اولیانوف نے جعلی لوگوں اور جعلی نظریات پر کبھی اعتماد نہیں کیا۔ مارکسزم میں جس چیز کو اس نے سب سے زیادہ اہمیت دی وہ اس کا سخت نظم و ضبط اور اس کی اپنے طریق کار پر عمل کروانے کی پابندی تھی۔“ (ٹراٹسکی، لینن نے مارکس کا مطالعہ کیسے کیا؟)

حیرت پر پیش بینی کی فتح

ٹراٹسکی نے ایک بار مارکسی نظریے کی تعریف ”حیرت پر پیش بینی“ کی فتح کے طور پر کی تھی۔ اور بالکل یہی دور اندیشی اور گہری فہم تھی جس نے لینن اور بالشویکوں کو ہر طرف سے شدید مشکلات میں گھرے ہونے کے باوجود فتح یاب کیا۔

پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں بالشویکوں کو- طاقت، اثر و رسوخ اور وسائل کے اعتبار سے- یورپ کے کمزور ترین سیاسی رجحانات میں سے ایک کے طور پر بیان کیا جا سکتا تھا۔ حب الوطنی کی لہر کے اثرات کے تحت، جسے زار پرست حکام اور قومی یک جہتی کے مزاج نے مہمیز کیا تھا، پارٹی نے روسی محنت کش طبقے میں اپنی اکثریت کی حمایت کھو دی تھی۔ جنگ سے پہلے روس میں جو انقلابی لہر چل رہی تھی اسے فوری طور پر ختم کر دیا گیا اور زار ازم عارضی طور پر طاقت ور ہو گیا۔

انقلابی عناصر کو ایک بار پھر قید خانوں میں بھیج دیا گیا۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے بہت سے شاندار کارکنوں کو اپنی فیکٹریوں اور دیگر جگہوں پر اپنی سرگرمیوں کی سزا کی پاداش میں محاذ جنگ پر بھیج دیا گیا۔ بالشویکوں کے مرکزی رہنماؤں کا زیادہ تر حصہ یورپ میں جلاوطنی کاٹ رہا تھا جہاں جنگ کی وجہ سے مواصلات کی لائنیں منقطع ہو چکی تھیں یا بری طرح سے متاثر تھیں۔

ردِ انقلاب سر اٹھا رہا تھا اور یہ پورے یورپ میں پھیلتا جا رہا تھا اور محنت کش طبقہ پسپائی کی حالت میں تھا۔ بندوقوں، ٹینکوں اور بموں سے لیس، یورپ کے بورژوا سارے براعظم میں ہر جانب قتل عام کر رہے تھے- اور جو بھی ان کے راستے میں کھڑا ہوتا اسے بڑی آسانی کے ساتھ ایک طرف دھکیل دیا جاتا، یا ضرورت پڑنے پر محاذ پر بھیج کر ختم کروا دیا جاتا۔ دریں اثنا، یورپی سوشل ڈیموکریٹک رہنما، جو اپنے اپنے حکمران طبقوں کا دُم چھلہ بنے تھے، اپنے بورژوا آقاؤں کی گود میں سکون سے بیٹھے نظر آئے۔

بالشویکوں کے لیے، کمزور مالیات کے ساتھ، بہت کم یا بغیر آلات کے، اور جنگ کے باعث پارٹی کی تنظیموں کے مکمل طور پر بدحالی کا شکار ہونے کی وجہ سے اقتدار سنبھالنے کا خیال پہلے کی نسبت کہیں بہت زیادہ دور دکھائی دے رہا تھا۔ اور ابھی جنگ شروع ہونے کے صرف تین سال بعد، یہ سب کچھ اپنے الٹ میں تبدیل ہو گیا اور بالشویک پارٹی 1917ء کے اکتوبر انقلاب میں قیادت کرتے ہوئے روس کے مزدوروں اور کسانوں کو اقتدار کی جانب لے جا رہی تھی۔ جدلیات کے اس سے بڑے مظاہرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا!

یہاں ہم نظریات کی طاقت کو عمل میں دیکھتے ہیں۔ بالشویکوں کی کامیابی کو مارکسی طریق کار کی کامیابی، یعنی جدلیاتی مادیت کی کامیابی کہا جائے تو بالکل درست ہو گا۔ لینن اور بالشویکوں نے محنت کش طبقے کا ساتھ دینے پر ہی اصرار کیا اور قومی شاونزم کو معمولی سی رعایت دینے سے بھی انکار کر دیا جس کو جنگ نے پورے یورپ میں ابھار دیا تھا۔

اور جہاں جنگ نے ابتدا میں حکمران طبقے کو مضبوط کیا تھا، وہی جنگ بعد ازاں سماج میں طبقاتی تضادات کو تیزی سے سامنے لا کر انقلاب کی سب سے بڑی محرک بن گئی تھی۔ اس طرح بالشویکوں کا انقلابی پیغام، جس کو جنگ کے ابتدائی دنوں میں کوئی مقبول آواز نہیں ملی تھی، روسی عوام کی چیخ و پکار بن گیا، اور اس نے دنیا کے حکمران طبقوں میں دہشت پھیلا دی۔ موقع پرستی کا مطلب ہے کہ فوری مختصر المدتی مقاصد پر طویل مدتی تناظر کو قربان کر دینا۔ جدلیات ایک ایسی سائنس ہے جو ظاہر سے آگے گزر کر پیچیدگی میں اتر کر عوامل کو ان کی کُلیت میں سمجھتے ہوئے باہر نکالتی ہے۔ یہ نظریے کے ساتھ وابستگی اور جدلیات میں مہارت ہی تھی جس نے لینن کو اپنے دشمنوں پر زبردست برتری دلائی۔

سیاست میں چیزوں کے سطحی ظاہر کے ساتھ جلد بازی میں جڑی جذباتیت کھوکھلی نعرے بازی اور ”عملی سرگرمی کے سطحی نمونوں کے ساتھ وابستگی“ کی جانب لے جاتی ہے۔ تاہم لینن اور بالشویک ظاہر سے بالاتر ہو گئے اور اس بات سے پارٹی پر پڑنے والے فوری اثرات سے قطع نظر انہوں نے چیزوں کی ماہیت کی بات کی، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ آخرکار صرف سچ ہی ان کو محنت کش طبقے کی فتح کے قریب لے کر جائے گا۔ یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔

لیون ٹراٹسکی نے اس معاملے کا خلاصہ یوں کیا: ”یہ تاریخی تجربہ ہے کہ جملہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کی قیادت اس پارٹی نے نہیں کی جس کا آغاز بموں سے ہوا تھا، بلکہ اس پارٹی نے کی جس کا آغاز جدلیاتی مادیت سے ہوا تھا۔“ (ٹراٹسکی، مارکسزم کے دفاع میں، صفحہ 106)

Comments are closed.