|تحریر: سلمیٰ|
تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حیثیت
آج نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حیثیت ایک سیلزمین سے زیادہ نہیں جو اپنے آنے والے ہر کسٹمر (سٹوڈنٹ) کا جب وہ سکول میں داخل ہوتو بناوٹی انداز میں ’’گڈ مارننگ، ہاؤ آر یو‘‘ کہہ کر استقبال کرے، صرف استقبال ہی نہیں بلکہ سارا دن اپنے کسٹمر کے ناز نکھرے بھی اٹھا رکھے اور بلا چوں چراں والدین کا ایسا رویہ بھی برداشت کرے کہ جیسے انہوں نے استاد کو خریدا ہوجبکہ استاد کی اتنی بھی مجال نہیں کہ سر اٹھا کراپنی صفائی میں دو لفظ ہی کہہ سکے۔
بیکن ہاؤس، ایل جی ایس، روٹس وغیرہ جیسے بڑی سطح کے نجی تعلیمی اداروں میں یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ان اداروں کے مالکان(دکاندار) والدین سے براہ راست رابطہ کر کے اساتذہ کے ان کے بچوں کے ساتھ رویے کے بارے دریافت کرتے ہیں اور بس ان معزز والدین کو بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ہاتھ لگ جاتا ہے۔ شکایتوں کا انبار لگا دیا جاتا ہے جس پر مالکان اندھا دھند یقین بھی کر لیتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ سچ بھی ہے یا نہیں اور بعد میں اس اندھے یقین کا پہاڑ استاد کے سر پر ٹوٹتا ہے۔ بھاری بھرکم فیسوں کی وجہ سے ہی مالکان والدین کو اتنا سر پر چڑھاتے ہیں کہ وہ بعد میں جب دل چاہے اساتذہ کے سر جوتیاں برسائیں، اس سے مالکان کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ان سکولوں میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی پائی جاتی ہے جن کا مزاج خاصہ بگڑاہوا ہوتا ہے اور اس پر بھی والدین کا شدید مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے سکول میں ’’دی بیسٹ‘‘ ہوں۔ اب غیر متوازن دماغی حالت کے بچے کو ’’دی بیسٹ‘‘ بنانا تو دور انہیں عموماً پڑھانا بھی کوئی تر نوالہ نہیں جسے آسانی سے نگلا جا سکے مگر مالکان کا کیا، انہوں نے کبھی بچوں کو پڑھایا ہو توانہیں کچھ پتہ ہو، انہیں توبس اپنی تجوری فیسوں سے لدی ہوئی چاہیے۔
نو دولتیے پیٹی بورژوا
ایلیٹ سکولز کا سب سے بڑا مسئلہ ’’انگریزی طوطے‘‘ تیار کرنا ہے جوانہیں ہر وقت انگریزی زبان میں ٹیں ٹیں کرتے ادھر ادھر پھڑپھڑاتے نظر آئیں۔ ان اداروں کی اسی کشش سے متاثر ہوئے پیٹی بورژوا لوگ بھی اپنے بچوں کو لیے یہاں بھاگے چلے آتے ہیں کہ بس کسی طرح ان کے بچے کے منہ سے انگریزی کے دو لفظ پھوٹیں اور کب ان کے کلیجے کو ٹھنڈک ملے، اسی مقصد کے لیے وہ اپنے بچے ایلیٹ سکولوں میں پھینک دیتے ہیں۔ دوسری طرف بیچارے استاد کی جان بھی حلق میں اٹکی رہتی ہے کہ کب وہ اپنا ’’ فرض منصبی‘‘ پورا کر سکے، حالانکہ ان بچوں کو گھر سے ہی ایسا ماحول میسر نہیں ہوتا کہ وہ انگریزی بول یا سمجھ سکیں کیونکہ گھر میں ان کے والدین پنجابی زبان بھی، جسے ایلیٹ سکولوں نے ’’ گھٹیا زبان‘‘ قرار دیا ہوتا ہے، بولتے ہیں اور استاد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کوئی جادوئی چھڑی گھما کر چند دنوں میں بچے کو انگریزی زبان کا ماسٹر بنا دے۔ یہ پہلو ایلیٹ سکولوں کے گرتے معیار کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح نو دولتیے بھی اپنی دولت کی نمائش کے لیے ان اداروں میں بھرتی ہوئے جارہے ہیں اور اپنی نئی نئی دولت کی نمائش کے لیے انہیں ایسا کرنا بھی پڑتا ہے کیونکہ سرمایہ داری میں جب تک آ پ اپنی دولت کی نمائش نہیں کریں گے تب تک لوگوں کو پتہ کیسے چلے گا کہ آپ کے پاس بھی دولت نام کی کوئی شے ہے یعنی آپ کی ملکیت آپ کے وجود کا تعین کرے گی۔
نئے آئیڈیاز
آج کل سکولوں میں ’’نئے آئیڈیاز‘‘کے فارمولے کا بڑا فیشن نظر آتا ہے کہ اساتذہ نئے آئیڈیاز (آؤٹ آف دا باکس آئیڈیاز)لائیں، یعنی نئے آئیڈیاز اساتذہ(نچلا طبقہ) لائے اور ان آئیڈیازکے بل بوتے پر سرمایہ دار طبقہ مال بنائے۔ ’’آؤٹ آف دا باکس آئیڈیا‘‘ لانے میں محنت کش طبقہ اپنا وقت اور اپنی قوت صرف کر کے مرکھپ جائے اور ترقی ہو ان سرمایہ داروں کے اداروں کی، استاد کے ہاتھ آئی تو صرف ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی‘‘۔ کیونکہ تدریسی مزدور کو جو اجرت دی جاتی ہے وہ اس کی کلاس کے سبھی بچوں میں سے صرف ایک بچے کی ماہانہ فیس پر مشتمل ہوتی ہے یا زیادہ سے زیادہ دو ماہ کی فیس پر۔ فرض کریں کہ اگر بیکن ہاؤس میں ایک بچے کی ماہانہ فیس تیرہ ہزار ہے تو یہ فیس ایک ’’ ٹی اے (ٹیچر اسسٹنٹ)‘‘ کی ماہانہ اجرت مقرر پائے گی لیکن چونکہ بیکن ہاؤس والے ایک بچے کی دو ماہ کی فیس اکٹھی لیتے ہیں تو یہ دو ماہ کی فیس (یا شاید چند ہزار روپے زیادہ)ایک ٹیچر کی ماہانہ اجرت مقرر پائے گی۔ باقی سارا منافع مالکان کی تجوریوں میں بھرتا رہے گا۔
بقول اساتذہ کے، وہ ان نئے آئیڈیاز کے لیے رات دوبجے تک جاگتی ہیں۔ کبھی ان آئیڈیاز کو سبق کی پلاننگ کی صورت میں بنا جاتا ہے تو کبھی انہیں رنگ برنگے کاغذوں کی شکل میں دیواروں پرلگایا جاتا ہے۔ بس یہی حیثیت بچتی ہے ان ’’نئے آئیڈیاز‘‘ کی۔
ایلیٹ ادارو ں کی ترقی کے نام پر اساتذہ کا استحصال
ایلیٹ اداروں میں اساتذہ کی ایک خاص طرز کی سوچ تیار کی جا رہی ہے اور بالآخر یہ سوچ کام بھی کرتی ہے۔ وہ سوچ یہ ہے کہ:
1۔ اساتذہ ایلیٹ اداروں کی ’’ترقی اور فلاح و بہبود‘‘ میں اپنا ’’تعاون‘‘ پیش کریں۔ اس ’’تعاون‘‘ سے مراد ہے کہ اساتذہ اوقات کار سے زیادہ کام کریں، گھر بھی کام کرنے کے لیے لے جائیں، آدھی آدھی رات تک ان اداروں کے لیے ’’کری ایٹو اور نئے آئیڈیاز‘‘ تلاش کریں اور انہی اداروں کے نام پر اپنی ہفتے کی چھٹی بھی قربان کردیں۔ آئیڈیاز تشکیل دینے کے لیے جو مواد درکار ہو و ہ بھی اساتذہ اپنی ہی محنت سے کمائی ہوئی اجرت میں سے خریدیں۔ یعنی محنت کش طبقہ ان اداروں کی ترقی میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دے لیکن جب اسی طبقے کوان اداروں سے تعاون کی ضرورت آن پڑے تو اس کے لیے ایک ہی آپشن چھوڑا جاتا ہے کہ وہ استعفیٰ دے اور کسی دوسری جگہ اپنی محنت کا سودا کرے۔
2۔ اساتذہ کو گھروں میں آن لائن ٹریننگ کورسز کروائے جاتے ہیں مثلاً جیسے بیکن ہاؤس والے اپنے اساتذہ کوآن لائن ’’ڈی آر پی، ٹی ایف سی انڈکشن‘‘ کورسز کرواتے ہیں جو کہ بقول اساتذہ آدھی رات تک چلتے ہیں۔ ان کورسز کا مقصد بھلے جو بھی ہو لیکن یہ کورسزتربیت سے زیادہ کام کے زمرے میں آتے ہیں۔ سکول میں سارا دن ذہنی و جسمانی مشقت کے بعد اساتذہ گھر آ کر بھی ان کے نام نہاد کورسز اٹینڈ کریں۔ یہ ہے ان کا تعاون۔
3۔ یہ ہتھکنڈا تعلیمی اداروں میں بڑے دھڑلے سے استعمال کیا جاتا ہے اور محنت کش طبقے کے خلاف سرمایہ دار طبقے کا بڑا موثر ہتھیار ہے کہ محنت کش طبقے میں تفریق پیدا کی جائے، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون، خود کواداروں کا وفادار ثابت کرنے کی سوچ، دوسروں کے نقصان میں اپنا نفع بنانے کی سوچ۔ ہر ادارے میں کچھ لوگ مالکان کے دُم چھلے ہونے کا کردار ادا کرتے ہیں، ایلیٹ اداروں میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی زیادہ ضرورت رہتی ہے۔ یہی لوگ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے ملازمین کے نقصان کا بھی باعث بنتے ہیں۔
اب فرض کریں کہ اگر کوئی دُم چھلا ملازم خود کو وفا دار ثابت کرنے کے لیے اوقات کار سے زیادہ کام کر لیتا ہے یا ’’آؤٹ آف دی باکس آئیڈیا‘‘ کہیں سے نکال لاتا ہے تو اس ایک ’’وفادار‘‘ ملازم کی وجہ سے باقی تمام ملازمین کی واٹ لگ جائے گی کہ اگر وہ ایک بندہ اتنا شاندار کام کر سکتا ہے توپھر باقی ملازم کیوں نہیں کر سکتے؟؟؟حا لانکہ زائد کیا جانے والا کام ملازمین کی اجرت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کرتا۔ ایسی چیزیں محنت کش طبقے میں عدم یکجہتی، نا اتفاقی، بغض و حرص اور نفرت کا باعث بنتی ہیں۔ مالکان کے دُم چھلے ان کی ابدی ضرورت ہیں تاکہ پس پردہ اصلی دشمن نظر نہ آئے۔
4۔ اداروں میں ملازمین کے درمیان انفرادیت کی سوچ پھیلائی جاتی ہے کہ ان کا انفرادی فائدہ ہی ان کے لیے سب کچھ ہے، وہ بھول جائیں کہ اجتماعیت انفرادیت سے بڑی ہے، ان کانفع نقصان ایک ہے، وہ اپنے اصل دشمن کو بھول کر آپسی جھمیلوں میں پڑے رہیں اور اپنی قوت و جڑت کو اداروں کے دوٹکے کہ اصولوں کے سامنے ہیچ جانیں۔
5۔ ایلیٹ اداروں میں انکریمنٹ کا معیار یہ رکھا جاتا ہے کہ ملازمین اپنا زیادہ سے زیادہ استحصال کروائیں۔ جوجتنا استحصال کروائے گا اس کا اتنا ہی تگڑا انکریمنٹ لگے گا۔ اب نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے پاس انکریمنٹ کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہوتا تو چپ سادھے انہیں اپنے ساتھ ہونے والا استحصال، ظلم اورسر پڑنے والا ہر جوتا برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پھر جس مقابلہ بازی میں انہیں ڈال دیا جاتا ہے وہ ایک الگ المیہ ہے۔
6۔ اساتذہ پر اس بات کا زور دیا جاتا ہے کہ ان کا بناؤ سنگھارعمدہ ہو تاکہ وہ (اساتذہ) ایلیٹ تعلیمی اداروں کے سٹینڈرڈ پر پورا اتریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو چار چاند لگانے کے لیے سرمایہ داروں کے ہی بر انڈ خرید کر ان برانڈز کو ہی نفع پہنچائیں۔ یعنی تدریسی مزدور اپنی تنخواہ کاخاصاحصہ ان اداروں کے لیے ہی ’’ خوبصورت‘‘ بننے پر اڑا دے۔ کئی ’’ عقل مند‘‘ اساتذہ اپنی تنخواہ کادس ہزار صرف اپنے بال خوبصورت بنانے پر لگا دیتی ہیں، کپڑوں اور جوتوں کے اخراجات اس سب کے علاوہ ہیں۔ اساتذہ اورملازمین میں ایسی بیگانگی پیدا کی جاتی ہے کہ وہ کپڑوں کی بجائے ’’اونچے سے اونچا برانڈ‘‘ پہنیں، کہ ہم نے فلاں قیمت میں فلاں برانڈ پہنا ہے۔
7۔ ٹی اے اوراے ٹی: ایلیٹ اداروں کے تدریسی مزدوروں میں ایک پرت ’’ٹی ایز (ٹیچر اسسٹنٹ)‘‘ اور ’’ اے ٹیز (اسسٹنٹ ٹیچر)‘‘ کی بھی ہے۔ تین لوگ ان کے سر پر ڈنڈا لیے کھڑے ہوتے ہیں، ایک پرنسپل، دوسری کوآرڈینیٹر اور تیسری انچارج ٹیچر۔ یہ تین قسم کے لوگ اپنے اپنے ماتحت پر کام کا اس قدر بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی سکون کا سانس نہ لے سکے۔ ٹی اے کا کام سارا دن اپنے کسٹمر کے آگے پیچھے ذلیل و خوار ہونا اور ہر آئے دن سکول کی دیواروں کو طرح طرح کے ’’اُلو باٹوں‘‘ سے سجانا ہے، بس۔ جی ہاں۔ ۔ ۔ اسسٹنٹ، نواب زادوں کے نواب زادے سنبھالے، رنگ برنگے چڑیاں طوطے بنائے، اوقات کار سے زیادہ کام کرے، گھربھی کا م لے کر جائے مگر تنخواہ انچارج ٹیچر کو ٹی اے (ٹیچر اسسٹنٹ) کی نسبت ایک گنازیادہ ملتی ہے۔
سرمایہ داروں کی نام نہاد ’’پالیسیاں اور اصول‘‘ انہیں (سرمایہ داروں کو) اس قدر عزیز ہوتے ہیں کہ جب کوئی ان کے خلاف سر اٹھائے توان کی دکھتی رگیں دکھ جاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ (باغی) ایسی گندی مچھلی ہے جو تالاب کی باقی مچھلیوں کو بھی گندا کرے گی۔ اسے تنگ کرنے کے لیے اس پر کام کا اس قدر بوجھ بڑھا دو کہ یہ گندی مچھلی خود ہی تالاب چھوڑ دے۔
8۔ ایلیٹ اداروں کے ڈھکوسلے:مارکس نے کہا تھا کہ سماج انسانی شعور کا تعین کرتا ہے۔ جیسا کہ آج کل ’’پازیٹو تھنکنگ‘‘ وغیرہ کا بڑا فوارہ پھوٹا پڑا ہے، ٹھیک اسی طرح اس سوچ کا بڑا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ زیادہ فیسوں والے (ایلیٹ) سکولوں میں زیادہ اچھی پڑھائی ہوتی ہے اور یہ ادارے ’’روشن مستقبل‘‘ کے ضامن ہیں۔ ایلیٹ اداروں کے اساتذہ کو یہ ’’سہولت‘‘ فراہم کی جاتی ہے کہ ان کے بچے ان اداروں میں مفت تعلیم حاصل کریں گے۔ مثلاً بیکن ہاؤس، جہاں کھوتے تیار کیے جاتے ہیں، کے اساتذہ کو اپنے بچوں کا ’’روشن مستقبل‘‘انہیں اداروں میں پروان چڑھانے کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ یہ لوگ انسانی جذبات سے عاری ہو کر اپنا بے حد استحصال صرف اس غرض سے کرواتے ہیں کہ انکے بچوں کو روشن مستقبل مل جائے اور انہیں اتنی مہنگی تعلیم کے لیے بھاری بھرکم فیسیں نہ بھرنی پڑیں۔ بیکن ہاؤس میں آپ کو سینکڑوں ایسے اساتذہ رلتے مل جائیں گے جو اٹھارہ اٹھارہ سالوں سے وہاں اپنی جوتیاں گھسیٹتے آ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ’’ مفت تعلیم‘‘صرف نام تک ہی محدود رہ جاتی ہے کیونکہ جن اساتذہ کے بچے ان اداروں میں پڑھتے ہیں، وہ او لیول میں آدھی اور اے لیول میں پوری فیس ادا کرتے ہیں۔
دوسری طرف ان اساتذہ کے بچے ایلیٹ اداروں میں تعلیم حاصل کر نے کے بعد خود بھی مزدوری ہی کرتے ہیں، وہ ان اداروں میں سے کوئی بزنس مین بن کر باہرنہیں نکلتے اور بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ ایک مزدور کابچہ آخر کار مزدور ہی رہتا ہے اور یہاں بات کی جاتی ہے ’’روشن مستقبل‘‘ کی۔ ہاں اگر ان میں کچھ الگ بات نظر آئے گی تو صرف یہ کہ وہ تھوڑی بہت انگریزی جھاڑ سکیں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ’’روشن مستقبل‘‘ نام کی یہ بتی اسسٹنٹ اور غیر تدریسی عملے کو کیوں نہیں ملتی؟؟؟ ان اداروں میں دی جانے والی تعلیم کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہاں صرف انگریزی طو طے اور رنگ برنگے کاغذی اُلو با ٹے بنائے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ بس!
ایسے مزید بے شمار ڈھکوسلوں کے چمچ بھر بھر کر ایلیٹ اداروں کے اساتذہ کے منہ میں ڈالے جاتے ہیں۔ کبھی کسی ہوٹل میں دو چار ہزار کا کھانا کھلا دینا، کبھی کسی آؤٹنگ پر لے جانا، سال میں ایک دفعہ ٹیچرزڈے منا کر کوئی پچاس ساٹھ روپے کی پیسٹری دے دینا یا کبھی کبھار ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ پر تالیاں بجا دینا وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام ڈھکوسلوں کا مقصد صرف یہ رکھا جاتا ہے کہ اساتذہ کی مزاحمت کو دبائے رکھا جائے۔ یعنی اساتذہ اوقات کار سے زیادہ کام کریں، گھر بھی کام لے کر جائیں، مالکان کے جوتے بھی کھائیں، والدین کی بدسلوکی بھی برداشت کریں اور منہ بھی بند رکھیں۔
9۔ سیکیورٹی ہتھیانا: تمام اداروں میں اصول ہے کہ ہر ملازم کی تنخواہ میں سے، جب تک وہ ادارے میں کام کرے، ہر ماہ کچھ پیسے بطور سیکیورٹی کاٹے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ادارہ چھوڑنے پر یہ کاٹی گئی رقم واپس مل جائے گی۔ بظاہر یہ بات محنت کش کے مفاد میں نظر آتی ہے کہ ملازمت چھوڑنے پراس کی محنت کے پیسے مل جائیں گے لیکن درحقیقت ایسے تمام اصول بنائے ہی محنت کش کی جیب کاٹنے کے لئے جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کاٹی گئی تنخواہ اسی صورت میں ملے گی جب کوئی ملازمت چھوڑنے سے ایک ماہ پہلے اس کی اطلاع ادارے کو دے۔ ورنہ وہ اسی طرح اپنی تنخواہ کو بھول جائے جیسے ہزاروں لوگ ہر سال ایک ادارے سے دوسرے میں جاتے ہوئے ’’بھولا ‘‘کرتے ہیں۔
اگرکسی کو دوسری جگہ پر پہلے سے بہتر ملازمت ملتی ہے، بہتر تنخواہ یا کوئی اور سہولت جیسے کہ کم اوقات کار یا پھر گھر سے کم فاصلہ، اور یہ دوسرا ادارہ اسے فوری طور پر بلا بھی لیتا ہے تو وہ یہ تو نہیں دیکھے گا کہ پہلے ادارے کے اصول کیا کہتے ہیں۔ وہ تو اسے فوراً ہی اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہونے کا کہیں گے۔ اب اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی بھول جائے، اور یا پھر دوسرے ادارے سے کہے کہ وہ سیکیورٹی لینے کی خاطر ایک ماہ بعدہی حاضر ہو سکتا ہے۔ اس طرح دوسری جگہ جانے والاسیکیورٹی کی وہ رقم چھوڑ جانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جو کہ اس کو ملازمت چھوڑنے پر واپس دی جانے کے وعدے پر کاٹی گئی تھی۔
ایلیٹ اداروں کے اساتذہ اور ملازمین کے ساتھ ہونے مظالم کی فہرست تو اتنی لمبی ہے کہ کئی جلدیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن اس کی نہ تو یہاں جگہ ہے اور نہ ہی میں قاری کی برداشت کا امتحان لینا چاہتی ہوں۔ اپنے اور دوسرے ہزاروں اساتذہ کے دل پر لگنے والے زخم دکھانے کے بعد صرف اتنا ہی کہوں گی کہ یہ کوئی ہمارا مقدر نہیں ہے کہ ہم پوری زندگی اسی طرح خوار ہوں۔ ہمیں اپنے حالات کو بدلنے کے لئے لڑنا ہو گا۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہو گا۔ آپس میں طبقاتی بنیادوں پر جڑت بنانی ہو گی۔ بغاوت کرنا ہو گی۔ ۔ ۔ صرف اسی میں ہی ہم سب کی نجات ہے۔