(تحریر: سلمیٰ ناظر)

بیوٹی انڈسٹری اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ منافع کمانے والی سرمایہ دار انڈسٹریوں میں سے ایک ہے۔ یہ انڈسٹری ہر سال اربوں ڈالر کا منافع کماتی ہے جو کہ ہر سال منافع کی نئی بلندی پر پہنچتا جا رہا ہے۔ 2023ء میں عالمی سطح پر اس انڈسٹری کا حجم تین سو ارب ڈالر کے قریب تھا اور ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک یہ مسلسل 6فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔پاکستان میں یہ انڈسٹری 2025ء میں 785 ملین ڈالر سے زیادہ کمانے کا ٹارگٹ رکھتی ہے۔اس صنعت کا سب سے بڑا ہدف خواتین ہی ہوتی ہیں اور ان میں احساس کمتری پیدا کر کے اپنی اشیا بیچ کر بھاری منافع کمائے جاتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے دیگر شعبوں کی طرح یہ صنعت بھی سماج میں موجود غلاظتوں اور طبقاتی تفریق کو ابھار کر اپنے منافع بٹورتی ہے۔ بہت سے لبرل اس صنعت کو جدت اور خواتین کے حقوق کا علمبردار بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے اور یہ صنعت خواتین کے استحصال میں سب سے آگے ہے۔ اس صنعت کی تشہیری مہم میں بھی اکثر خواتین کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور بظاہر خواتین کو جدید طرزِ زندگی کی جانب لے جانے کا پیغام دیا جاتا ہے لیکن اس مکارانہ چالبازی کے پیچھے منافع کی ہوس اور خواتین کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنے کی کوشش موجود ہوتی ہے۔ یہ صنعت بہت سی این جی اوز اور ان کی سرگرمیوں کی بھی مالی امداد کرتی ہے اور خواتین کے حقوق کا دھندا کرنے والی یہ این جی اوز خواتین کی فلاح کے نام پر اس منافع خور صنعت کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ صنعت ملائیت کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتی اور دوسری طرف خواتین کے حقوق کے دشمن ملا بھی پیسے کے لیے اس صنعت کے لیے کام کرنے پر خوش رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ داروں کے منافعوں کے لیے ملاؤں اور لبرل این جی اوٹک رجحانات کا گٹھ جوڑ نظر آتا ہے۔
اس صنعت کی تشہیری مہم کے مطابق خواتین کو خوبصورت یا تر و تازہ رہنے کے لیے ان کی کمپنی کی بنائی گئی اشیا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے یہاں کے ٹی وی اور اخبار سیاہ رنگت کو کم تر اور ناقابل قبول بنا کر پیش کرتے تھے اور ایک ایسا سماج جس میں بھاری اکثریت کی رنگت گندمی ہے انہیں گورا رنگ نہ ہونے کے احساس کمتری میں مبتلا کرتے تھے۔ اب عالمی سطح پر خواتین کی تحریکوں کی بدولت اس میں تبدیلی کی گئی ہے اور وہی کریمیں اور لوشن اب جلد کو ترو تازہ اور چمکدار رکھنے کے لیے فروخت کی جاتی ہیں۔یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں کیا جا رہا ہے جس میں ایک رپورٹ کے مطابق 57 فیصد کے قریب خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اس ملک میں پانچ سال کی عمر تک کے نصف کے قریب بچے ویسے ہی خوراک کی کمی کے باعث سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی ا ور بیروزگاری کے باعث خواتین کی خوراک اور علاج معالجے کی سہولیات میں بھی مزید کمی آئی ہے اور کروڑوں خواتین غربت کی چکی میں پس رہی ہیں۔ کسی بھی گھر میں آنے والے معاشی بحران کا سب سے زیادہ بوجھ خواتین پر ہی پڑتا ہے۔ ان کی تعلیم، علاج اور حتیٰ کہ خوراک بھی خاندان کی آخری ترجیح ہوتی ہے اور لڑکوں کو واضح طور پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ظلم کی انتہا اتنی ہو چکی ہے کہ الٹرا ساؤنڈ جیسی جدید ٹیکنالوجی کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کرنے کی بجائے بچیوں کو ماں کی کوکھ میں ہی قتل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس صورتحال میں کریموں اور لوشن کے ذریعے چہرے کو ترو تازہ رکھنے کا پیغام انتہائی بھونڈا بن جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی سرپرستی میں چلنے والے ڈرامے، فلمیں، فیشن شوز، اخباراور ٹی وی بھی اسی نفسیات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پہ ہمیں اکثر و بیشتر ایسے مارننگ شوز کی بھر مار نظر آتی ہے جن میں خواتین کی ”خوبصورتی“ اور ”بد صورتی“ جیسے موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں اور گھنٹوں پر مشتمل بکواس میں رنگ گورا کرنے، بالوں کو لمبا کرنے، دبلا پتلا ہونے یا دِکھنے اور خوبصورت لگنے کے لیے مختلف ٹوٹکے اور کریمیں تجویز کی جاتی ہیں۔
اس وقت ڈرامے دکھانے والے ٹی وی چینلوں کی بھرمار ہے اور ہر چینل میں درجنوں ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں۔ ان تمام ڈراموں میں خواتین کے کرداروں کے حوالے سے بھی سماج میں موجود غلاظت اور عورت دشمن رویے بھرپور انداز میں نظر آتے ہیں۔ جیسے سماج کا معاشی اور سیاسی بحران برھ رہا ہے ویسے ہی ان ڈراموں میں عورت دشمنی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کچھ ڈراموں کے ہیرو تو عورتوں پر گھریلو تشدد کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور اس کو ایک قابل تعریف امر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی مرضی سے زندگی گزارنے والی خواتین کو آوارہ اور بدچلن بنا کر پیش کرنا بھی عام ہے۔ اگر ان ڈراموں کا موازنہ تین سے چار دہائی قبل بننے والے ڈراموں سے کیا جائے تو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ عورتوں کے کردار کی پیشکش میں کتنا زوال آچکا ہے جو درحقیقت اس سماج کے زوال کی ہی عکاسی ہے۔ماضی میں میڈیا کے ذرائع زیادہ تر سرکاری تحویل میں تھے اور سرمایہ دار حکمران طبقہ ہونے کے باوجود اتنے کھل کر اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کر پا رہے تھے۔ اس وقت ملک میں مزدور تحریک کی اٹھان بھی موجود تھی جبکہ کمیونسٹ نظریات کی باز گشت بھی پورے سماج میں وسیع پیمانے پر موجود تھی۔ آج ذرائع ابلاغ کے نجی ہاتھوں میں جانے کے باعث سرمایہ دار طبقے کی منافع کی ہوس کھل کر اپنا اظہار کر رہی ہے اور عورتوں کا استحصال بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ ماضی میں عورتوں کے کرداروں میں بغاوت بھی نظر آتی ہے اور سیاسی اور انقلابی جدوجہد بھی دکھائی دیتی ہے لیکن آج عورت کے کردار کو مجہول بنا دیا گیا ہے۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد شادی کو ہی بنا دیا گیا ہے اور اگر شادی ہو چکی ہے تو طلاق کے ہونے یا نہ ہونے کے گرد پوری کہانی بنائی جاتی ہے۔ خواتین کے کرداروں کو عمومی سماجی زندگی سے مکمل طور پر کاٹ دیا گیاہے اور انہیں ہر وقت گھریلو سازشیں کرتے ہوئے یا ان کا مقابلہ کرتے ہی دکھایا جاتا ہے۔
اسی طرح سرمایہ دار طبقے کے منافعوں کے لیے پہلے ایک خوبصورتی یا اعلیٰ طرز زندگی کا ایک جھوٹا پیمانہ طے کیا جاتا ہے اور پھرپورے سماج کو وہ پیمانہ اپنانے کی دوڑ میں لگا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے دیہاتوں یا قصبوں میں ہسپتال اور تعلیمی ادارے موجود نہیں لیکن بیوٹی پارلر موجود ہیں۔ یہ نظام خواتین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کے بنائے ہوئے خوبصورتی کے معیار کے تابع بنیں اور جو اس کے معیار پہ پورا نہیں اترتا ہمارے سماج میں ان خواتین اور لڑکیوں کو دھتکارا جاتا ہے، انہیں غیر شائستہ، پھوہڑ اور نا اہل جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کی لڑکیاں اس گھن چکر کا سب سے زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
اس وقت بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کی شادی کی اوسط عمر بھی بڑھ چکی ہے اور ماضی کے مقابلے میں آج شادیاں دیر سے ہورہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ جہیز بھی ہے۔ جہیز کی لعنت بھی آج اکیسویں صدی میں اس سماج میں بھرپور انداز میں موجود ہے بلکہ حکومت خود اس فرسودہ رسم کو پروموٹ کرتی ہے۔ اس بحران کو بھی سرمایہ دار اپنے منافعوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور خواتین کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان کی شادی نہ ہونے کہ وجہ ان میں موجود کوئی کمی ہے۔ یہ کمی بھی زیادہ ترکسی نہ کسی شکل میں جسمانی نقص کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس میں رنگت، قد، بال اور جسم کے دیگر حصوں کو ہدف بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پھر اسی مناسبت سے اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔سیاسی پارٹیوں اور میڈیا میں بیٹھے عوام دشمن لیڈروں اور ”دانشوروں“ سمیت سماج کے تمام حصے اس کو ہی سچ مان کر اس کا پراپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں جبکہ خواتین کی اکثریت بھی اس مسئلے کا حل سماجی بحران کی بجائے اپنے جسم میں ہی تلاش کرنے لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح مہنگے لباس اور زیورات سے اس کمی کو دور کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جو پھر ایک نئی بے ہنگم دوڑ کو جنم دیتا ہے۔ بہت سی خواتین اس دوڑ میں ذہنی مسائل، ڈپریشن اور مختلف مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات خود کشی تک نوبت آن پہنچتی ہے۔
سرمایہ دار طبقے کے مسلط کردہ اس معیار پر اس طبقے کی خواتین کے لیے پورا اترنا آسان ہوتا ہے اور وہ اپنی دولت کی نمائش سے دیگر خواتین کو بھی حقارت کا پیغام دیتی ہیں۔ درحقیقت اس دوڑ میں بھی سماج میں موجود طبقاتی تفریق کھل کر عیاں ہوتی ہے اور امیر طبقے کی خواتین کی مزدور دشمنی اس پہلو میں بھی کھل کر اپنا اظہار کرتی ہے۔ نت نئے فیشن متعارف کروانا یا نئے کاسمیٹکس یا زیورات کو منڈی میں لانا اسی دوڑ کا حصہ ہے۔ محنت کش خواتین اور لڑکیاں کم عمر دِکھنے اور اپنے اندر خوبصورتی کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے اپنی استحصال زدہ محنت کی کمائی کا ایک بڑا حصہ برانڈڈ کپڑے، جوتے، بیوٹی پراڈکٹس خرید کر دوبارہ سرمایہ داروں کو لوٹا دیتی ہیں تاکہ سماج میں ان کا ”وقار“ برقرار رہ سکے۔
کمیونسٹ خوبصورتی کے یا خواتین کے خوبصورت دِکھنے، ان کے بننے سنورنے کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے بنائے گئے خوبصورتی کے معیار اور اس کے تحت خواتین کے ہونے والے استحصال اور سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خاتمے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حکمران طبقہ جان بوجھ کر ”خوبصورت دِکھنے“ کی نفسیات پھیلاتا ہے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ مہم اور تحریک چلائی جاتی ہے تاکہ حقیقی مسائل سے خواتین کی توجہ ہٹا کر انہیں نان ایشوز کے گھن چکڑ میں جکڑا جا سکے۔کسی خاتون کی شخصیت، اس کے نظریات اور اس کے اعلیٰ کردار کوسماج میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور صرف اس کا ظاہر ہی سب کچھ بنا دیا گیا ہے۔
حقیقی خوبصورتی تو کسی بھی شخص کاکردار اور اس کے نظریات ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بہترین جسمانی نشو نما کے لیے بہترین خوراک کی ضرورت ہے، علاج معالجے کی جدید سہولیات کی ضرورت ہے اور توہم پرستی اور جہالت کے خاتمے کے لیے جدید تعلیم کی ضرورت ہے۔ لیکن اس ملک کا حکمران طبقہ یہ بنیادی ضروریات بھی چھینتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف فرسودہ اور رجعتی نظریات بھی مسلط کرتا جا رہا ہے تاکہ محنت کش طبقہ اس سب کو اپنی تقدیر سمجھ کر خاموش رہے۔
حکمران چاہتے ہیں کہ خواتین اپنے حقوق کی لڑائی لڑنا تو دور اس کے بارے میں سوچنے سے بھی دور رہیں۔ خواتین یہ نہ سوچیں کہ انہیں کم تنخواہ کیوں مل رہی ہے، مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے، ہراسمنٹ اور ریپ کیسز کیوں بڑھتے جا رہے ہیں، کیوں ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا اور صحت حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، بجلی کا بِل کیوں زیادہ آ رہا ہے، بھوک کیوں بڑھتی جا رہی ہے، ان کا استحصال کیوں کیا جا رہا ہے، کیوں کوہلو کے بیل کی طرح ان کی زندگی گھر کے کاموں کی چکی میں پستے ہوئے گزر جاتی ہے۔ ان تمام مسائل کی وجوہات کیا ہیں اور ان کو حل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ حکمران طبقے کو یہی خطرہ رہتا ہے کہ کہیں خواتین اپنے اصل مسائل اور ان مسائل کی حقیقی وجہ کا ادراک نہ حاصل کر لیں، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے حقیقی جدوجہد کے میدان میں اترتی ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ یہاں ایک اور بات وضاحت طلب ہے کہ حکمران طبقے کی خواتین، جو محنت کش طبقے کے مرد و خواتین کے استحصال میں حکمران طبقے کے مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں، بھلے ہی کروڑوں کی مالیت کے ملبوسات رکھتی ہوں، کتنے ہی مہنگے ہینڈ بیگ اور بیوٹی پراڈکٹس استعمال کرتی ہوں اور سرمایہ داری کے قائم کردہ خوبصورتی کے معیار پہ پورا اترتی ہوں، اپنے عوام دشمن کردار کے باعث ہمارے لیے وہ سب سے زیادہ قابلِ نفرت ہیں، ہمیں ان سے گھِن آتی ہے۔ بھلے ہی وہ دنیا کی مہنگی ترین خوشبو خرید کر استعمال کر سکتی ہیں، لیکن ہمیں ان سے سرانڈ کی بو آتی ہے، کیونکہ حکمران طبقے اور ان کی خواتین کی تمام تر عیاشیاں محنت کش طبقے کے مرد و خواتین کی محنت سے پیدا کی گئی دولت کی لوٹ مار کے دم سے ہی جاری رہتی ہیں۔
خواتین کا حقیقی مسئلہ یہ نہیں کہ انہیں کس طرح ”خوبصورت بننا“ ہے، بلکہ حقیقی مسئلہ اس تفریق کا خاتمہ کرنا ہے جس سے ان مسائل کا جنم ہونا ہوتا ہے۔ وہ امیر اور غریب کا مسئلہ ہے، طبقاتی تفریق کا مسئلہ ہے جو اِس نظام کی بنائی ہوئی ہے۔ ان تمام مسائل کو ختم کرنے کے لیے ان کی حقیقی وجہ کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جہاں تمام غیر انسانی معیارات کا خاتمہ ہو سکے اور کسی بھی انسان کی قدر و قیمت اس کی نام نہاد خوبصورتی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی قابلیت، صلاحیت اور انسان دوست سوچ کی بنیاد پر ہو گی۔
ایک ایسا سماج جہاں کوئی کسی کو بد صورت یا کمتر نہ سمجھے اور نہ ہی کوئی انسان خود اپنی ذات کو لے کر احساس کمتری کا شکار ہو سکے، جہاں کوئی بھی انسان اپنے مستقبل کے ختم ہونے خوف سے سرمایہ داری کی پیدا کردہ خباثتوں کو اپنانے پہ مجبور نہ ہو، جہاں کوئی بھی انسان بِلا تفریق معاشرے کی ترقی اور اسے آگے لے کر جانے میں یکساں کردار ادا کر سکے، جہاں خواتین اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کو حقیقی معنوں میں تعمیر کر سکیں اور اسے برقرار رکھ سکیں۔ ایسا مثالی سماج تعمیر کرنے کے لیے موجودہ انسان دشمن سرمایہ داری کے نظام کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہو گا اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سوشلسٹ بنیادوں اس سماج کی تعمیرنو کرنی ہو گی جو کہ محنت کش طبقے کے مرد و خواتین کی مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔