|تحریر: آدم پال|
ریاست کا بحران تیزی سے شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ معیشت، سیاست سمیت سماج کے ہر حصے کا بحران انتہاؤں کے قریب پہنچ رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سی مقداری تبدیلیاں اب ایک معیاری تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہاں موجود تمام کرائے کے دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار صورتحال کا درست ادراک کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہو چکے ہیں اور ان کی حالت ایسے ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں سوئی تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ان کے پاس تجزیہ کرنے اور تناظر تخلیق کرنے کے جو تمام اوزار ہیں وہ اس تیز ترین تبدیلی کے دور میں ناکارہ ہو چکے ہیں۔ یہ تمام لوگ موجودہ صورتحال کا موازنہ ماضی میں ملتی جلتی صورتحال سے کرتے ہیں اور پھر اسی کے مطابق‘ اس جیسا ہی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے تمام تر تجزیوں کی بنیاد یہی ہے کہ صورتحال میں کوئی بنیادی تبدیلی موجود نہیں اور سب کچھ تقریباً پہلے جیسا ہی ہے اور اس بحران کا نتیجہ بھی پہلے جیسی ہی کسی صورتحال جیسا ہو گا۔ اگر سیاسی بحران کی بات کی جائے تو اس کا موازنہ جہاں 1990ء کی دہائی میں ہونے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے آنے جانے سے کیا جاتا ہے وہاں مختلف ادوار میں لگنے والے مارشل لاؤں سے قبل کی صورتحال کو بھی بیان کیا جاتا ہے اور اس سے مشابہت گھڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ 1971ء میں ملک ٹوٹنے والے واقعات پر زور دے رہے ہیں اور اس جیسے نتائج سے خوفزدہ کرتے ہوئے اپنے مؤقف کو اہم بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کچھ ٹیکنو کریٹ حکومت کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں اور کچھ مار شل لا کی آمد کا راگ الاپ رہے ہیں۔ لیکن واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان بوسیدہ اوزاروں کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی شخص صورتحال کا درست تجزیہ نہیں کر پا رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا بد ترین زوال عالمی سطح پر موجود اسٹیٹس کو کو توڑ چکا ہے۔ عالمی مالیاتی بحران نے جہاں امریکی سامراج کو کمزور کیا ہے اور اس کے اس خصی پن کو پوری دنیا پر عیاں کیا ہے وہاں ابھی تک اس کا کوئی متبادل بھی ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ چین، روس اور دیگر علاقائی سامراجی قوتیں جیسے ترکی، ایران، سعودی عرب وغیرہ امریکی سامراج کی خالی کی ہوئی جگہ پُر کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہاں نظام کا بحران ان کی ریاستوں اور معیشتوں کو بھی کھوکھلا کرتا چلا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر جاری سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اس نظام کی تشکیل کی گئی ریاستوں کو بھی توڑنے کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے صورتحال مزید خونریزی اور پیچیدگی کی جانب بڑھ چکی ہے۔ جہاں مشرقِ وسطیٰ میں پہلی عالمی جنگ کے بعد بنائی گئی بہت سی ریاستیں ٹوٹ کر بکھر چکی ہیں اور تحلیل ہو گئی ہیں وہاں یورپی یونین اور وہاں موجود ریاستیں بھی بحران کا شکار ہو گئی ہیں۔ جہاں گزشتہ سال بریگزٹ نے کھلبلی مچا دی تھی اور یورپی یونین کے زوال کا نقارہ بجا دیا تھا جس سے اب تک برطانیہ اور یورپ نہیں سنبھل سکے ، اب وہاں کیٹالونیا کی آزادی کی شکل میں اسپین کی ریاست توڑنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اسپین کا حکمران طبقہ اس ریاست کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہاہے اور کیٹالونیا کے حکمرانوں کا خصی پن ان کا معاون ثابت ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود صورتحال کبھی بھی پہلے جیسی شکل میں واپس نہیں آ سکتی اور ریاست کی شکست و ریخت کا عمل شدت کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
اس عمل نے اسکاٹ لینڈ سمیت مختلف خطوں میں پرانی ریاستوں کے ٹوٹنے اور نئی تحریکوں کے ابھرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ فلسطین، کردستان اور کشمیر سمیت پوری دنیا کے متنازعہ علاقے اور ان میں جاری تحریکیں بھی نئے مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایک طرف مختلف متحارب سامراجی قوتیں اور ان خطوں کے حکمران طبقات ان تنازعات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب محنت کشوں کا غم و غصہ پہلے سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے اور حکمران طبقات سے نفرت اپنے عروج پر ہے۔
کشمیر میں جاری نوجوانوں کی انقلابی تحریک کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن فوج کے تمام تر جبر اور پاکستان و ہندوستانی سامراجی ریاستوں کے کٹھ پتلی لیڈروں کی غداریوں کے باوجود وہ پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ہندوستان کا سابق وزیر داخلہ و خزانہ پی چدمبرم یہ بیان دینے پر مجبور ہو چکا ہے کہ کشمیر کو خود مختار خطہ بنانا ہندوستان کی مجبوری بن چکا ہے۔ گوکہ اس بیان میں اس نے ہندوستان کے آئین میں موجود شقوں کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہندوستانی ریاست کے سنجیدہ حلقے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنا نا ممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس بیان کی مودی نے شدید مذمت کی ہے جبکہ کانگریس نے اسے ایک شخص کا ذاتی مؤقف قرار دیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ اب مزید فوجی جبر اور کٹھ پتلی لیڈروں کے کرتب سے تحریک کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عمل پاکستان کی کمزور ریاست کے لیے بھی تکلیف دہ ہے جو پہلے ہی بہت بڑے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے اور کسی ایک سرحد پر اسٹیٹس کو کا ٹوٹنا خود پاکستان کی ریاست کے لیے جان لیوا ہو سکتا ہے۔
عالمی سطح پر جاری بحرانوں کے باعث پاکستان کی معیشت اور سماج میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور یہ تبدیلیاں سیاست اور ریاست کے تضادات میں بھی اہم اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ ایسے میں موجودہ سیاسی و معاشی بحران کو درست طور پر سمجھنے کے لیے اسے بالکل ایک نئے بحران کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں اور ان کے یہاں کی ریاست اور سیاست پر پڑنے والے اثرات میں موجود ہیں۔ گو کہ یہ تمام تبدیلیاں ایک لمبے عرصے سے جاری عمل کے نتیجے میں ہی رونما ہوئی ہیں اور اسی کا تسلسل ہیں لیکن یہ صورتحال معیار ی حوالے سے ماضی سے مختلف بھی ہے۔
اس معیاری تبدیلی کا اظہار یہاں کی تمام سیاسی پارٹیوں کی بد ترین ٹوٹ پھوٹ میں بھی ہوتا ہے جن میں موجود ہر شخص دوسرے سے لڑ رہا ہے۔ اس وقت یہاں رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں سماج سے بالکل کٹ چکی ہیں اور ہوا میں معلق ہیں۔ ایم کیو ایم کے پہلے ہی کئی حصے ہو چکے ہیں اور ان کی جتنی صلح کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اتنے ہی نئے دھڑے بن جاتے ہیں۔ اب ن لیگ کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل منظر عام پر آ چکا ہے جو پہلے سطح سے نیچے جاری تھا۔ گو کہ یہ پارٹی ابھی بھی اقتدار میں ہے اور سب لوگ محنت کشوں کی پیدا کی ہوئی دولت کی لوٹ مار میں دن رات مگن ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے شدید اختلافات ابھر کر سامنے آ چکے ہیں۔ بہت سے جغادری ان دھڑوں کی صلح کروانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ لوٹ مار کے اس عمل میں رخنہ نہ آنے پائے۔ بظاہر اقتدار کا فارمولا بھی طے کر لیا گیا ہے اور شہباز شریف کو آئندہ وزیر اعظم بنانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس پارٹی میں موجود لڑائی کو کسی طور پر بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مریم نواز اگر بیان دینے چھوڑ دے تو مسئلہ حل ہو جائے گا اور کچھ لوگوں کے خیال میں حمزہ شہباز کے ملک سے باہر جانے سے پرا من بقائے باہمی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ظاہری لڑائی سطح سے نیچے موجود شدید تضادات کا اظہار ہے اور یہ تضادات کسی بھی صورت حل ہونے والے نہیں ہیں۔ اگر شریف خاندان کے تمام افراد کی صلح بھی ہو جائے، جو اس وقت ناممکن ہے، تو بھی یہ تضادات کسی دوسری شکل میں پھٹ کر اپنا اظہار کریں گے۔ یہ پارٹی اور اس کے ساتھ ایم کیو ایم بھی ضیا الباطل کے جبر کے دوران پروان چڑھائی گئی تھی اور اس وقت مزدور تحریک اپنی قیادت کی غداریوں کے باعث پسپائی کا شکار تھی اور سماج میں طبقاتی کشمکش ماند ہو رہی تھی۔ ایسے میں ان پارٹیوں کو درمیانے طبقے کے رجعتی حصوں میں بنیادیں ملی تھیں جس کے باعث یہ چار دہائیوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی ر ہیں۔ لیکن اب ان طبقات کی کیفیت مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور یہ پارٹیاں اپنی حمایت کھو چکی ہیں جس کا اظہار مختلف شکلوں میں سامنے آ چکا ہے۔ اسی تمام تر کیفیت کا اظہار ان پارٹی کی شدید داخلی لڑائیوں اور ٹوٹ پھوٹ میں ہوتا ہے جو آنے والے عرصے میں شدت اختیار کرے گی۔
پیپلز پارٹی جو پاکستان کے محنت کش طبقے کی امنگوں کا مرکز ہوا کرتی تھی وہ بھی اپنی حمایت مکمل طور پر کھو چکی ہے اور محنت کش طبقے کی اب اس پارٹی سے کوئی امید وابستہ نہیں رہی۔ اس وقت پاکستان میں محنت کش طبقے کے تمام حصے کسی نہ کسی شکل میں احتجاجوں اور تحریکوں میں شامل ہیں لیکن کسی بھی حصے نے پیپلز پارٹی کی جانب رخ تک نہیں کیا بلکہ درحقیقت جہاں پر پیپلز پارٹی کی حکومت موجود ہے وہاں محنت کشوں کی لڑائی ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے جو اس وقت ایک نفرت اور کرپشن کا استعارہ بن چکی ہے۔ صرف گزشتہ چند ماہ میں کسانوں، طلبہ، پیرا میڈیکل، نرسوں، اساتذہ، نجی صنعتوں کے محنت کشوں اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد نے درجنوں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کی ہیں لیکن کہیں بھی کسی سیاسی پارٹی بشمول پیپلزپارٹی کا جھنڈا نظر نہیں آیا اور نہ ہی ان مظاہرین کی کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی امید وابستہ ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی واضح طور پر ریاست کے ایک دھڑے کی نمائندہ بن چکی ہے اور سماج سے اس کا تعلق مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔ یہی حال تحریک انصاف سمیت دوسری پارٹیوں کا بھی ہے۔
تحریک انصاف ن لیگ کی ٹوٹ پھوٹ اور سیاسی بحران کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے اور ریاست کے ایک مضبوط دھڑے کی آشیر باد سے مختلف علاقوں میں جلسے جلوس کر کے ن لیگ سے مایوس حکمران طبقے کے افراد کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج یہ امر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ان جلسوں کا انعقاد کیسے کیا جاتا ہے۔ علاقے میں موجود حکمران طبقے کے دولت مند افراد اپنی سیاسی دھاک بٹھانے کے لیے کرائے پر مجمع اکٹھا کرتے ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں بر سر اقتدار آ کر لوٹ مار کا بازار گرم کر سکیں۔ عوام کی ان جلسوں اور تقریروں میں دلچسپی ختم ہو چکی ہے اور یہ جلسے ان کے لیے محض پیسہ کمانے اور وقتی تفریح کا ذریعہ رہ گئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب جب بھی عوام کا کوئی بھی حصہ سیاسی طور پر متحرک ہوتا ہے یا اپنے معاشی مطالبات کے لیے احتجاج کرتا ہے تو نہ ہی دولت مند افراد کی ان میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی احتجاج کرنے والوں کو ان سے کسی قسم کی کوئی امید ہوتی ہے۔
ایسی صورتحال میں بہت سے تجزیہ نگار ایک نئے مارشل لا کی چتاونی دے رہے ہیں اور نواز شریف کو اداروں سے ٹکراؤ نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ورنہ مارشل لا آ جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوج سمیت ریاست کے ادارے اس وقت شدید داخلی خلفشارکا شکار ہیں اور تیزی سے ٹوٹ کر بکھرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کور کمانڈرز کے سات گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کی پریس ریلیز نہ آنے کے باعث بہت سی چہ مگوئیاں بھی سنائی دی کہ اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ کچھ کا خیال تھا کہ کسی نئی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کا ٹھیکہ وجہ تنازع تھا اور کچھ کسی دوسرے مالیاتی معاملے پر رائے زنی کر رہے تھے جس کے مطابق فوج کو معاشی بحران پر تشویش ہے۔ امریکی سامراج کی جنوبی ایشیا کی نئی پالیسی کے باعث بھی پاکستانی ریاست اور فوج کشمکش اور ہیجان کا شکار ہے۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ کا ہندوستان پر انحصار کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے اور پاکستانی ریاست کو افغانستان میں پسپائی کا سامنا ہے۔ ایسے میں کچھ دھڑے چین کونئے آقا کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کو غلامی کے لیے مطالبات کی فہرست بھی پیش کر چکے ہیں۔ لیکن خود چین ایک کمزور سامراجی قوت ہے اور پاکستان کو مکمل طور پر گود لینے کی پوزیشن میں نہیں گوکہ اس کی ایسی خواہش ضرور موجود ہے۔ چین کا موجودہ حکمران طبقہ عالمی سطح پر اب تک کسی بڑی جنگ کا بھی حصہ نہیں رہا اس لیے امریکہ کے ساتھ تنازعہ کے نتیجے میں اس پر مکمل طور پر بھروسہ کرنا بھی مشکل ہے۔ اس کے علاوہ چین کی سامراجی یلغار کے باعث یہاں کی مقامی معیشت شدید بحران کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ امریکی سامراج نے معاشی عروج کے دور میں اپنے غلام ممالک سے امریکہ میں تیار مصنوعات درآمد کرنے کے کوٹے دے رکھے تھے ۔ در حقیقت پوری عالمی معیشت کا انحصار امریکی صارف کی قوت خرید پر تھا اور پوری دنیا سے امریکہ مال برآمد کیا جا تا تھا۔ لیکن چین کی حالت مختلف ہے اور وہ دنیا کے سب سے بڑا برآمدی(ایکسپورٹ) ملک ہے اور اس کی خواہش ہے کہ چین میں موجود پیداواری قوت کو استعمال کرنے کے لیے پوری دنیا اس سے مال درآمد کرے۔ اس سے پاکستان میں ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتیں شدید بحران کا شکار ہو چکی ہیں اور لاکھوں مزدور تیزی سے بیروزگار ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے معاشی بحران کے باعث ڈالر کی قدر بھی حقیقی قدر سے زائد ہو چکی ہے اور کسی بھی وقت روپے کی قدر میں تیزی ترین گراوٹ آ سکتی ہے۔ ان امکانات پر بہت سے معیشت دان حکومت کو بارہا تنبیہہ کر چکے ہیں۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ بھی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ عالمی بانڈ مارکیٹ میں بلند ترین شرح سود پر بانڈ فروخت کرنے سے وقتی طور پر تو گزارا کیا جا سکتا ہے لیکن معاشی بحالی ممکن نہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے بھی امریکی سامراج کے احکامات اور پالیسی کے پابند ہیں اور دوسری جانب خود آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے بحران کا شکار ہیں۔ ٹرمپ نے ورلڈ بینک کو مالی امداد فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور آئی ایم ایف کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کا کہا ہے۔ جبکہ چین کے پاس مانیٹری فنڈنگ کرنے کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ وہ صرف انفراسٹرکچر کے لیے قرضے دے سکتا ہے اور ان کی شرح سود بھی انتہائی زیادہ ہے۔
پاکستان سعودی عرب پر بھی مالی اور نظریاتی حوالے سے انحصار کرتا رہا ہے لیکن اس وقت خود سعودی عرب شدید معاشی بحران کا شکار ہے جس کی ایک وجہ عالمی سطح پر تیل کی کم ترین قیمتیں ہیں۔ یہ بحران سعودی عرب کی ریاست کا بحران بن چکا ہے اور اس کی شکست و ریخت کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی بہت سی ریاستیں منہدم ہو چکی ہیں اور اب یہ بحران خلیجی ممالک کی جانب بڑھ رہا ہے جس کا اظہار قطر سعودی تنازعے اور دیگر واقعات میں ہوتا ہے۔ سعودی عرب کی ریاست کا بحران جہاں لاکھوں پاکستانی محنت کشوں کو بیروزگار کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے وہاں پاکستانی ریاست کی نظریاتی بنیادوں پر بھی کاری ضرب لگا رہا ہے۔ پہلی عالمی جنگ سے قبل اس خطے پر سلطنت عثمانیہ کا تسلط تھا۔ اس جنگ کے اختتام پر جب سلطنت عثمانیہ کے ظالم اور رجعتی حکمرانوں کودیگر سامراجی قوتوں سے بد ترین شکست ہوئی اور اس خطے پر ان کے تسلط کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان کی مسلمان اشرافیہ میں شدید بے چینی پھیل گئی تھی۔ عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹنے اور اس کا انتقام لینے کے لیے بہت سی تحریکیں بھی ابھریں لیکن وقت اور حالات کے بھنور میں یہ رجعتی تحریکیں بکھر کر ریزہ ریزہ ہو گئیں اور کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کر سکیں۔ آج ایک صدی بعد صورتحال بڑے پیمانے پر تبدیل ہو چکی ہے اور سعودی عرب اور ایران کی سامراجی لڑائی کے اثرات پاکستان سمیت پورے خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی ایک بڑا واقعہ پاکستانی ریاست کی بنادیں مزید ہلانے کی طرف جائے گا۔
آنے والے عرصے میں پاکستانی ریاست کے بحرانوں کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور اس کا اظہار سیاست میں بھی نظر آئے گا۔ ریاست کے تمام دھڑوں کی کوشش ہے کہ اس بحران کو کسی نہ کسی طرح بے قابو ہونے سے بچایا جائے اور اسے مختلف دھڑوں کے ٹکراؤکی بجائے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کنٹرول کیا جائے۔ لیکن ان مختلف دھڑوں کی مالیاتی بنیادیں انہیں کسی بھی طرح ہم آہنگ نہیں ہونے دیں گی اور ان کی لڑائی مسلسل شدت اختیار کرتی چلی جائے گی۔ خواہ فوج براہ راست اقتدار میں آ کر اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرے یا اپنے کسی کٹھ پتلی کے ذریعے سماج کو چلانے کی کوشش کرے اس بحران کو زیادہ لمبے عرصے تک لگام دینا کسی کے بس میں نہیں۔ انتخابات کا انعقاد اگر ہوتا بھی ہے تو بھی بحران حل ہونے کی بجائے شدید ہو گا۔ عالمی سطح پر جاری سامراجی طاقتوں کا ٹکراؤپاکستان میں پوری شدت کے ساتھ اپنا اظہار کرے گا۔ قومی سوال سمیت ا س ریاست میں موجود تمام دراڑوں کو سامراجی طاقتیں استعمال کرنے کی کوشش کریں گی جس سے ریاست مسلسل کمزور ہو گی۔ معیشت اور سماج کی بہتری کسی بھی طریقے سے اب اس نظام میں رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ سماجی و معاشی بحران عوام کی مزید پرتوں کو معاشی و سیاسی تحریکوں میں کھینچ کر لائے گا اور سماج کے زیادہ بڑے حصے ان حالات میں ریڈیکلائز ہوں گے۔ اس صورتحال میں جہاں مارکسی بنیادوں پر صورتحال کا درست تجزیہ کرنا ضروری ہے وہاں کسی بھی وقتی طوفانی واقعات کی لہروں میں بہنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ مارکسی نظریات سے لیس انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں پر مشتمل ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کا عمل تیز ترین کر دیا جائے۔ اگر آنے والے عرصے میں یہاں ایک ایسی پارٹی مضبوط نظریاتی بنیادوں پر موجود ہوئی تو ان طوفانی واقعات کے بھنور سے ایک سوشلسٹ انقلاب کشید کیا جا سکتا ہے جو یہاں پر امن وآشتی، قومی آزادی اور سماجی و معاشی ترقی کا واحد ضامن ہے۔