|تحریر: زلمی پاسون|
یکم جولائی 2023ء کو ضلع چاغی کے علاقے گردی جنگل میں جرگہ کے سربراہ کے حکم پر لڑکی (ش ر) کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے کے بعد لیویز فورس نے کاروائی کرتے ہوئے سید محمد ولد بچہ ماما نامی شخص سکنہ گردی جنگل کو گرفتار کر لیا جو مبینہ طور پر اپنی بہن کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعے میں ملوث ہے۔ پھر 4 جولائی کو بلوچستان کے ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی کے علاقے بٹے تیر میں غیرت کے نام پر ایک شخص نے فائرنگ کرکے بیس سالہ نوجوان محمد ہاشم اور اپنی منگیتر خاتون (ن) کو قتل کر دیا اور موقع سے فرار ہو گیا۔ 5 جولائی کو ایک اور دل دہلا دینے والی رپورٹ کے مطابق ڈیرہ مراد جمالی کے قریب گاؤں مولا بخش پندرانی میں 20 سالہ شادی شدہ عورت (ر) بی بی ساسولی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئی۔ خاتون کے شوہر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی بیوی نے پستول سے فائر کر کے خودکشی کی ہے جبکہ خاتون کے والد نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کی بیٹی کو اس کے شوہر نے قتل کیا ہے۔ واقعے کے متعلق پولیس نے قتل کی ابتدائی رپورٹ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
یہ واقعات سماج میں موجود خواتین کے گھمبیر سوال کا ہولناک اظہار ہیں۔ انقلابی سیاست میں سرگرم محنت کشوں، نوجوانوں اور سیاسی تنظیموں کے لئے یہ مسئلہ سر فہرست ہونا لازمی ہے اور اس کا درست تجزیہ کرتے ہوئے ایک انقلابی سیاسی حل پیش کرنا فرض ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ یہ مسئلہ ثقافتی بنیادوں پر مستقر (Firmly Fixed) ہے، جس کی جڑیں اس خطے کی گہری روایات، ثقافت اور مذہبی عقائد میں پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا پُر تشدد عمل ہے جس میں ’غیر شرعی‘ جنسی تعلقات کے الزام پر فرد کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ ہر برس ان گنت خواتین اور مرد اس قسم کے وحشیانہ جرائم کا شکار بنتے ہیں جن میں خواتین کا حصہ نمایاں ہوتا ہے۔
بلوچستان میں عام طور پر اس عمل کو ’سیاہ کاری‘ کہا جاتا ہے جو حرفی طور پر ’سیاہ کاموں‘ کے معنی رکھتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی روایت پیچیدہ، المناک اور غیر منطقی ہے۔ اگر کسی نے شادی سے قبل یا شادی کے بعد ’غیر شرعی‘ تعلقات قائم کیے ہوں تو عام تصور یہ ہوتا ہے کہ اس نے خاندان اور معاشرے کی عزت کو روند دیا ہے۔ یہ خیال رائج ہے کہ عزت کی بحالی صرف اس فرد کی موت سے ممکن ہو سکتی ہے جس نے اس کی خلاف ورزی کی ہو۔ اپنی بنیاد میں یہ مسئلہ نجی ملکیت اور وراثت کے سوال سے جڑا ہوا ہے جس میں عورت کی ذہنی اور جسمانی غلامی کے ذریعے جائز اولاد کے سماجی اور قانونی تصور کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ لیکن ملکیت اور وراثت کا مسئلہ اولاد کے ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ اس سوال سے بھی جڑا ہے کہ کون سے خاندان کے ساتھ قانونی اور سماجی رشتہ قائم کر کے روایت، ملکیت، کاروبار یا سیاست کو فروغ دیا جائے گا۔ ظاہر ہے اس کا فیصلہ حاکم مرد ہی کریں گے جو کبھی باپ کبھی بھائی کی شکل میں یہ فیصلہ کرتے ہیں۔ اس حاکمیت کو قائم رکھنے کے لئے معاشی، شخصی یا جنسی آزادی ناممکن ہے اور اس کے لئے اس قسم کے قتل نہ صرف کسی قسم کی بغاوت کو کچلنے کا عمل ہیں بلکہ سماج میں دیگر افراد کو خبرداری بھی ہے کہ اس قسم کی کسی روش کی کوئی جگہ ہے نہ اجازت۔ اس کے ساتھ گھریلو غلامی جس میں گھریلو کام، خاندان کی خدمت اور اولاد کی پرورش شامل ہیں، اس کے لئے بھی لازم ہے کہ خواتین کے سوال کو مذہبی حد بندیوں اور سماجی روایات کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جائے۔ اس لئے پاکستانی سماج میں ایک عورت کی شخصیت ایک انسان کے برعکس اس کے مختلف سماجی کرداروں جیسے بیٹی، بہن، بیوی، بہو وغیرہ میں قید کر کے رکھی جاتی ہے اور کبھی یہ سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کیا ایک عورت سب سے پہلے انسان ہے یا نہیں؟
اس سال کے ابتدائی مہینوں سے لے کر اب تک بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے 9 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایک این جی او عورت فاؤنڈیشن نے اپنی 2021ء کی سالانہ رپورٹ میں بلوچستان میں غیرت کے نام پر 49 قتل کا ذکر کیا جن میں سے 27 صرف نصیرآباد ضلع میں ہوئے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی 2022ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں غیرت کے نام پر کم از کم 35 قتل ہوئے جن میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اکثریت واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اور درحقیقت اس ظلم و جبر کی تعداد ان اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کا شکار اکثر وہ افراد ہوتے ہیں جو سماجی حدود و قیود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواتین کے لئے اپنے کپڑوں، تعلیم، پیشے کا انتخاب، زبردستی کی شادیوں کی مخالفت، خاندان کی مرضی کے بغیر شادی، طلاق کی درخواست دینا یا شادی سے پہلے یا بعد میں جنسی تعلقات رکھنا۔۔۔یہ سب غیرت کے نام پر قتل کی وجہ ہو سکتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ”غیرت کے نام پر زیادہ تر قتل خواتین اور لڑکیاں ہوتی ہیں“۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان واقعات میں مرد بھی قتل ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد تھوڑی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات جرگوں اور ذاتی مفاہمت کے ذریعے مسئلہ حل کیا جاتا ہے جس میں پھر متاثر دیگر اور خواتین ہی ہوتی ہیں۔ پس پردہ معاشی، سماجی یا سیاسی محرکات کو جائز قرار دینے اور قبولیت کے لئے ’مذہبی روایات‘ کو استعمال کیا جاتا ہے جس میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے مذہبی شخصیات ہمیشہ دستیاب رہتی ہیں۔ 2008ء کا ایک نمایاں واقعہ غیرت کے نام پر قتل کی ہولناکیوں اور اس کے ساتھ جڑی ذہنیت کی گواہی دیتا ہے۔
2008ء میں بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں عُمرانی قبیلے کے لوگوں نے غیرت کے نام پر پانچ خواتین کو بربریت سے قتل کیا تھا۔ جب یہ ہولناک واقعہ پاکستان کی سینیٹ میں اُٹھایا گیا تو اسرار اللہ زہری، جو کہ ایک وزیر اور سابقہ وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کا بھائی ہے، نے قتل کا دفاع کیا اور انہیں ”ہماری صدیوں پرانی روایت“ کہا اور ان کی حمایت کرنے کی قسم بھی کھائی۔ اس قسم کے رجعتی اور مکروہ اعلان پر پارلیمنٹ، عدلیہ یا کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے مذمت یا تادیبی کاروائی نہ ہونا بذات خود نجی ملکیت کے محافظ حکمران اشرافیہ، ریاست اور اس کے اداروں کا گھناؤنا چہرہ ننگا کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف ان واقعات کو خوف و ہراس پھیلانے اور سماج میں کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے وہیں ریاست اور اس کے تمام ادارے خاموش تماشائی بنے رہنے کے ساتھ معاونت کے لئے بھی تیار نظر آتے ہیں۔ اس لئے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے نام نہاد قوانین کی اوقات اس سیاہی سے زیادہ نہیں جو کاغذات کو محض سیاہ کرنے میں ہی ضائع ہوئی ہے۔
بلوچستان کے کچھ خاص علاقوں جیسے نصیرآباد، جعفرآباد اور سندھ کے ساتھ سرحدی علاقوں میں، عزت کے نام پر قتل کی ایک تشویشناک وجہ خواتین کے وراثتی حقوق کی نفی کرنا ہے۔ بہت سے خاندانی مرد خواتین کو ان کے جائز حقوق حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ ان مردوں کا عموماً یہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ وہ خواتین پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں تاکہ وہ زمین اور دیگر وراثتی اثاثے اپنے قبضے میں لے سکیں۔ نتیجتاً ایسے الزامات عزت کے نام پر قتل کی وجہ بنتے ہیں۔
قبائلی سردار یا ’تمندار‘ اور سید، جو کمیونٹی کے روحانی رہنما ہوتے ہیں، کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر عزت کے نام پر قتل کی اہمیت کو بڑھاتے اور اس کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں کیونکہ یہ انہیں متاثرہ خاندانوں کے درمیان صلح کروانے کے ذریعے بڑی مقدار میں مالی فوائد حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ سردار اور سید مصالحت کی رقم کا بڑا حصہ حاصل کرتے ہیں اور اپنے اختیارات کو خطے میں مضبوط بنا تے ہیں۔ محض یہی نہیں بلکہ وہ عموماً متاثرہ خواتین کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ بعض اوقات غیر رضا مندانہ جنسی عمل پر بھی ان کو مجبور کرتے ہیں۔ خواتین اس معاملے کے بوجھ تلے دبے ہونے کی وجہ سے اپنی باقی زندگی اس جہنم نما قید میں گزارتی ہیں۔ سردار مسلسل تلاش میں ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کے ذریعے وہ مالی فائدہ حاصل کر سکیں۔ گزشتہ سال ہونے والے ایک واقعے میں ایک نوجوان مرد اور ایک بڑی عمر کی خاتون پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا۔ مقامی سردار نے اس مقدمے کو ’غیرت‘ کا مسئلہ بنا لیا اور مطالبہ کیا کہ ملزم یا تو کچھ رقم ادا کرے یا موت کا سامنا کرے۔ وہ بڑی عمر کی خاتون شہر میں گھومتی رہی، لوگوں کو یہ بتاتی رہی کہ ’یہ لڑکا میرے پوتوں سے بھی کم عمر ہے! میں اس کے ساتھ ایسی حرکت کیسے کر سکتی ہوں؟‘ بالآخر عوامی دباؤ میں سردار کو مجبوراً اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
لیویز، جو بلوچستان کے اکثر علاقوں میں انتظامی کنٹرول رکھتے ہیں، قبائلی اشرافیہ کی لوٹ مار اور استحصال میں معاونت کے ساتھ اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ، پولیس وغیرہ کا کام ان علاقوں میں نام نہاد قانون کی بالادستی یا متاثرہ کی داد رسی کرنے کے برعکس کسی بھی واقعہ سے مالی مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پھر اگر متاثرہ خاندان غریب ہو تو ویسے ہی ریاست اور اشرافیہ کا دیوہیکل ہتھوڑا ان کی ہمت اور اکثر اوقات جسموں کو بھی کچل ڈالتا ہے۔ اس لئے ان علاقوں میں مقدمات کم ہی رجسٹر ہوتے ہیں، عدالت تک پہنچنا تو دور کی بات ہے۔
اگرچہ باقی دنیا میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پدر شاہی اور اس سے جڑا خواتین کا استحصال موجود ہے لیکن بہرحال تہذیبی ارتقاء، سرمایہ داری کی ترقی اور دیوہیکل محنت کش خواتین و مردوں کی جدوجہد کے نتیجے میں خواتین کو کچھ حقوق ملے ضرور ہیں۔ اگرچہ اب سرمایہ داری کے انحطاط اور تباہی و بربادی کے عہد میں یہ حاصلات واپس چھینی جا رہی ہیں۔ پھر ’انسانی حقوق‘ اور ’خواتین کے حقوق‘ کو مغربی سامراجی قوتیں اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے اور دیگر ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان پر بھی مختلف ادوار میں قانون سازی اور دیگر سطحی سرگرمیوں کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ پھر یہاں غلیظ لبرلز اور این جی اوز کا ایک مافیا بھی موجود ہے جو سماج کے ماتھے پر لگے ان بدنما داغوں کو بیچ کر ایک طرف جیبیں بھرتا ہے اور دوسری طرف محنت کش طبقے اور غرباء کو جدوجہد کی راہ سے بھٹکا کر اسی نظام میں ممکنہ اصلاحات کا چورن بیچ کر مفلوج کرتا ہے۔ ظاہر ہے اسی نظام زر سے ان کا مالی اور نجی ملکیتی مفاد جڑا ہوا ہے اور اگر یہ مسائل حل ہو جاتے ہیں تو دکان کے اجڑنے کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔ اس لئے ان کی تمام تر سرگرمیاں حکمران طبقے کی دلالی میں وقف ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کو غیر قانونی بنانے کی نام نہاد کوششیں انہی حقائق کا تسلسل ہیں۔ ان کوششوں کا پہلا مرحلہ تقریباً دو دہائیوں پہلے 2004ء میں شروع ہوا جب قومی اسمبلی نے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے خلاف قانون منظور کیا جس نے مرتکبین کو سزایاب کرنا شروع کیا۔ لیکن اس قانون میں چالاکی سے ایک خلاء چھوڑ دی گئی جس کے تحت رشتہ داروں کو اسلامی قانون ’دیہ‘ کے ذریعے اپنے قریبی مجرموں کی حمایت کرنے کا حق دے دیا گیا۔ اس کمی کے تحت متاثرہ فرد کے وارث قاتل کو معاف کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں مجرم کو کوئی سزا نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ اس کے تحت کچھ ’دے دلا‘ کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے اور آج کے شدید معاشی بحران کے دور میں یہ قانون اور بھی کارآمد ہو چکا ہے۔ 2016ء میں ’اینٹی – ہانر کلنگ‘ قانون منظور کیا گیا۔ یہ قانون اوپر ذکر کی گئی کمی کو ختم کرنے کے مقصد سے تیار کیا گیا تھا اور اس نے مجرم کو زندگی بھر کی قید کا حکم دیا، حتیٰ کہ اگر متاثرہ شخص کے وارثوں نے قتل کو معاف بھی کر دیا ہو۔ لیکن اس قانون کی بھی اتنی ہی حیثیت ہے جتنی اس ملک میں دیگر قوانین کی اوقات ہے۔
قندیل بلوچ کے بھائی کے ہاتھوں قتل کے معروف مقدمے میں مجرم کو آخر کار بری کر دیا گیا۔ اس کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ یہ قانون قتل کے بعد منظور کیا گیا تھا اور اس لئے اس مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ قندیل بلوچ کی ماں نے اپنے بیٹے کو معاف کر دیا اور جج نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ کوئی ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد انصاف کی اندھی دیوی کا بھی وہی حال ہے جو ملک میں خواتین کا عمومی حال ہے۔
سوال یہ ہے کہ خواتین کے اوپر ہونے والے صنفی جبر کی ہر شکل کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ غیرت کے نام پر خواتین کا قتل، وٹا سٹا، ونی اور دیگر غیر انسانی اعمال کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہ تمام تر سوالات انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں مگر ظاہر ہے ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ان مسائل کی جڑ تک پہنچنا ہوگا جو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور پدرشاہانہ سماج کی موجودگی ہے۔ ان تمام تر غیر انسانی افعال کے خلاف سیاسی طور پر محنت کش طبقے کو بالعموم اور محنت کش خواتین کو بالخصوص اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ گو کہ بلوچستان جیسے نیم قبائلی سماج کے اندر خواتین انتہائی اذیت اور مشکلات کا شکار ہیں لیکن خواتین کی ایک بڑی تعداد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھنے کے ساتھ صحت، تعلیم اور دیگر شعبہ جات سے منسلک بھی ہے۔ ان خواتین کو اپنے حقوق کے لئے متحرک ہونا ہو گا اور یہ کام سرگرم انقلابی طلبہ اور مرد محنت کشوں کے ساتھ ایک طبقاتی جڑت بناتے ہوئے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے گوادر میں جنم لینے والی احتجاجی تحریک میں نا صرف خواتین کا کلیدی کردار تھا بلکہ مرد محنت کشوں کے ساتھ مشترکہ جدوجہد اس عظیم الشان طاقت کا واضح ثبوت ہے۔ ایک ایسی جدوجہد جس کا مقصد اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور اس میں موجود تمام غلاظتوں کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ ہو تاکہ محنت کش طبقہ بالعموم اور خواتین بالخصوص ایک آزاد، انسانی اور خوشگوار زندگی گزار سکیں۔