|تحریر: ساؤ زک، ترجمہ: یار یوسفزئی|
حالیہ دنوں میں ہانگ کانگ کے اندر گرفتار کیے گئے حزبِ اختلاف کی 47 سیاسی شخصیات کو عدالت میں ”ریاستی طاقت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے“ کی دفعات کے تحت عدالت میں پیش کیا گیا۔ ہانگ کانگ حکومت نے یہ گرفتاریاں ان نئے نیشنل سیکیورٹی قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں کی تھیں، جو پچھلے موسمِ گرما میں خود مختار شہر پر چینی کمیونسٹ پارٹی نے مسلط کیے تھے۔ یہ ہانگ کانگ کے عوام پر اس جبر کا تسلسل ہے جو ان پر 2019ء میں جمہوری حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی وجہ سے جاری ہے۔ صرف ایک طبقاتی تجزیے کے ذریعے ہی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا کِیا جائے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بڑے پیمانے پر سیاستدانوں کی گرفتاریاں
مذکورہ 47 شخصیات کو اس سال 6 جنوری کو گرفتار کیا گیا، جس کی وجہ پچھلے سال جولائی میں پین ڈیموکریٹک پارٹیوں کے زیرِ انتظام منعقد کردہ پرائمری انتخابات میں حصّہ لینا تھی۔ یہ اتحاد ان سیاسی رجحانات کے ملغوبے پر مشتمل ہے جو دو سال پہلے ابھرنے والی ایکسٹراڈیشن مخالف (Anti-Extradition) تحریک کی حمایت کرتے رہے ہیں، جس کے عروج پر اس میں بیس لاکھ سے زائد لوگ شامل ہو چکے تھے اور اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے دیگر جمہوری حقوق کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ گو کہ عوامی تحریک کی قیادت پین ڈیموکریٹک پارٹیوں کے پاس نہیں تھی، تاہم انہوں نے اندرونی سطح پر پرائمری انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تاکہ ستمبر میں ہونے والے قانون ساز کونسل (LegCo) کے انتخابات کے لیے چین کے حامی سیاست دانوں کے خلاف اپنے امیدواروں کی ایک مشترکہ فہرست تیار کر سکیں۔
اس وقت پرائمری انتخابات کی وکالت کرنے والوں کا ماننا تھا کہ اس حکمتِ عملی کے ذریعے قانون ساز کونسل میں چین مخالف سیاست دانوں کی اکثریت کو جتوایا جا سکتا ہے، جس کے بعد موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہانگ کانگ کی مقامی حکومت اور چینی حکومت پر تحریک کے مطالبات تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جا سکے گا۔ یقیناً اس طریقہ کار کے ذریعے ایسا کرنا بالکل نا ممکن بھی نہیں تھا۔ ضلعی کونسل کے نومبر 2019ء والے انتخابات میں پین ڈیموکریٹک سیاست دانوں نے چین کے حامیوں کے خلاف بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی، اگر چہ اس عرصے میں سڑکوں کے اوپر تحریک ماند پڑ گئی تھی۔ متعدد چھوٹی پارٹیوں میں بٹنے کی بجائے مشترکہ محاذ پر متحد ہونے کی وجہ سے پین ڈیموکریٹک کیمپ کے پاس قانون ساز کونسل کو اپنے قابو میں کرنے کا موقع تھا، جس کے ذریعے کلیدی قانون سازی کی جا سکتی ہے، جیسا کہ بجٹ کی منظوری دینا اور چیف ایگزیکٹیو کو برطرف کرنا۔
Avery Ng of the League of Social Democrats told reporters after the hearing that the Justice Dept's decision to appeal against the extension of bail for 15 democrats was "disappointing" and "inhumane." https://t.co/1VMP75pM0M @HKFP @holongsze pic.twitter.com/pxBt9jRpZa
— Hong Kong Free Press HKFP (@hkfp) March 4, 2021
جیسے ہی پرائمری انتخابات کا وقت قریب آیا تو چائنیز کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے ہانگ کانگ میں موجود اپنے نمائندہ دفتر کے ذریعے اس کی شدید مخالفت شروع کر دی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کی وجہ سے ”انتخابات کی غیر جانبداری متاثر ہوگی“ اور الزام لگایا کہ حزبِ اختلاف کی شخصیات قانون ساز کونسل کو اپنے قابو میں کرنے کی سازش کر رہے ہیں تاکہ ”بجٹ کو مسترد کریں، مقامی حکومت کو جام کر سکیں، ہانگ کانگ کو مکمل طور پر کمزور کریں اور ریاست کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکیں۔“ آخر الذکر بات قومی تحفظاتی قانون کے تحت بہت بڑا جرم تھا۔ پرائمری انتخابات جولائی میں ہو چکے تھے مگر ہانگ کانگ حکومت نے چیف ایگزیکٹیو کیری لیم کی سربراہی میں انہیں غیر قانونی قرار دیا اور تمام شرکاء کو قومی تحفظاتی قانون توڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کے بعد ستمبر کے مہینے میں حکومت نے قانون ساز کونسل کے انتخابات ایک سال کے لیے ملتوی کر دیے۔ جنوری میں بڑے پیمانے پر تمام امیدواروں کو گرفتار کیا گیا اور ان کو اب پہلی دفعہ عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اس مقدمے میں انہی الزامات کی بنیاد پر دفعات لگائے گئے جو چین کے نمائندہ دفتر نے پرائمری انتخابات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے لگائے تھے، یعنی یہ کہ حزبِ اختلاف قانون ساز کونسل کو قابو میں کرنے کی سازش کر رہی ہے تاکہ جیتنے کے بعد ریاستی ساکھ کو نقصان پہنچا سکے۔ یہ سادہ حقیقت جان بوجھ کر نظر انداز کی جا رہی ہے کہ ہانگ کانگ کے بنیادی قوانین اور بورژوا جمہوری اصولوں کے تحت منتخب شدہ پارلیمنٹ ممبران ایگزیکٹیو برانچ پر نظر رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس عمل سے ایک واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہانگ کانگ کے اندر قانون ساز کونسل کا واحد مقصد یہی ہے کہ اوپر سے جو بھی احکامات جاری ہوں، انہیں لاگو کرے۔
مقدمے میں نہایت چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنوائی کو 31 مئی تک ملتوی کیا گیا کیونکہ پولیس کو تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار تھا، مگر اس کے ساتھ عدالت سے ضمانت منظور نہ کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔ یہ ایک کھلے عام اعلان ہے کہ ریاست اگر چاہے تو مطلوبہ تحقیقات کیے بغیر بھی کسی کو گرفتار کر کے دو مہینوں کے لیے حراست میں رکھ سکتی ہے۔
سرمائے کی آمریت
یہ گرفتاریاں چائنیز کمیونسٹ پارٹی (CCP) کی جانب سے ہانگ کانگ کے عوام سے ان چند جمہوری حقوق بھی چھیننے کی ایک کوشش ہے جو فی الوقت انہیں دستیاب ہیں۔ قومی تحفظاتی قوانین کے نفاذ کے بعد آزادی اظہارِ رائے اور عام لوگوں کے اکٹھ پر بڑے پیمانے پر پابندیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ایکسٹراڈیشن مخالف تحریک میں لگنے والے نعروں کو تو غیر قانونی قرار دیا گیا مگر گرفتاریاں ان لوگوں کی بھی کی گئیں جنہوں نے سنسرشپ کے خلاف ہونے والے احتجاج میں خالی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
1/ A long queue formed outside the West Kowloon Magistrates' Courts again at around 9 am on Thursday – an hour before 47 pro-democracy figures charged under the national security law are brought to court for the 4th consecutive day. pic.twitter.com/zlTxJwZlUD
— Hong Kong Free Press HKFP (@hkfp) March 4, 2021
ہانگ کے اندر موجود اختلافات پر چین کا بڑھتا ہوا عدم برداشت اس خوف کی عکاسی کرتا ہے کہ کہیں ہانگ کانگ کی تحریک کے اثرات چین کے محنت کش طبقے پر نہ پڑنا شروع ہو جائیں۔ شی جن پنگ کے اقتدار پر بڑھتے ہوئے تسلط اور چین کی معیشت کے کرونا وباء سے دیگر ممالک کی نسبت بہتر بحالی کے باوجود سرمایہ داری کے تضادات اب بھی وہاں موجود ہیں اور طبقاتی تضادات میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب ریاست بڑھتے ہوئے قرضے اور انفرادی سرمایہ داروں کی حرکتوں سے پورے نظام کو لاحق خطرات سے بچانے کی کوششوں میں ہے، جس سے سارے نظام کے عدم استحکام کا خطرہ موجود ہے۔ تو دوسری جانب مختلف سانحوں کے رد عمل میں انٹرنیٹ پر ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے، اور ان محنت کش کارکنان کو مسلسل شدید جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو اپنے مالکان کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ سطور لکھتے وقت ایک تازہ واقعہ فوڈ ڈیلیوری ڈرائیورز کی تنظیم سے وابستہ ایک قائد کی گرفتاری ہے۔ اس صورتحال میں چین، ہانگ کانگ کو آزادی اظہارِ رائے اور اکٹھ کے حقوق دے کر یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ دو سال پہلے ابھرنے والی تحریک کی طرز پر کسی تحریک کا آغاز کریں، جو پھر چین میں بھی پھیل جائے۔
ایک دوسرا عنصر ہانگ کانگ اور چین کے بیچ سرمایہ دارانہ تعلقات میں تبدیلی بھی ہے۔ دہائیاں قبل ہانگ کانگ کی بورژوازی غیر ملکی (خصوصاً مغربی) سرمائے کے چین میں داخلے کے حوالے سے ایک اہم کردار ادا کرتی تھی، جس کا نتیجہ آخرکار چین کے اندر سرمایہ داری کی بحالی کی صورت نکلا۔ ان حالات کے پیشِ نظر ہانگ کانگ کی بورژوازی کو وسیع پیمانے پر خود مختاری دی گئی تھی اور ”ایک ملک، دو نظام“ کا خیال عام کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد چین کے اندر سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا تھا، جو ہانگ کانگ کی بورژوازی اور مغربی سامراجی ممالک کو ہانگ کانگ میں ایک حد تک خود مختاری دے کر یقینی بنایا گیا۔
آج کی عمومی صورتحال کافی مختلف ہے۔ ایشیا کے اندر امریکی ریاست اور مغربی سامراجی قوتوں کی بجائے چین کا اثر و رسوخ بڑھ چکا ہے۔ آج چین کے لیے ہانگ کانگ سرمائے کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ وہ خود چین سے امداد کا طالب بن چکا ہے۔ ہانگ کانگ اب چینی سرمایہ کاروں کے سٹاک کی تجارت کے لیے مشہور مقام بن چکا ہے۔ ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق جنوری 2021ء کے اختتام پر ہانگ کانگ میں موجود 2 ہزار 545 کمپنیوں میں 52 فیصد چینی کمپنیاں تھیں، اسی طرح سٹاک مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کا حصّہ 81 فیصد تھا اور 90 فیصد تجارت انہی کی رہی تھی۔ چین میں سٹاک ایکسچینج سے وابستہ افراد، جنہیں وہاں پر سخت قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نے حالیہ مہینوں کے اندر ہانگ کانگ میں سٹاک کی خریداری میں اضافہ کیا ہے اور اس پر اربوں لگائے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے نتیجے میں ہانگ کانگ کے اندر چینی سرمایہ کار بینکوں کی تعداد جلد ہی بین الاقوامی بینکوں سے بڑھ جائے گی۔
لینن نے ایک دفعہ وضاحت کی تھی کہ سیاست معیشت کا مجتمع شدہ اظہار ہے۔ معاشی توازن میں تبدیلی آنے سے سیاسی توازن میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہانگ کانگ کے اندر مغربی ممالک کا اثرورسوخ اور ہانگ کانگ کی بورژوازی کے مفادات اب سی سی پی کی جانب سے اپنی ریاست کو مستحکم رکھنے کیلئے ہانگ کانگ میں کی جانے والی مداخلت کو مات نہیں دے سکتے۔ 2019ء کی تحریک نے اس عمل کو مزید تیز کیا ہے۔ عوام کو قابو میں رکھنے کیلئے سی سی پی ہانگ کانگ کے اندر موجود روایتی بورژوا قوتوں پر مزید بھروسہ نہیں کر سکتی۔ سی سی پی کو اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے براہِ راست طریقہ کار اپنانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
اسی لیے وہ ہانگ کانگ کا ”جمہوری“ پردہ چاک کرنے سے خوفزدہ نہیں ہے، جہاں پر محنت کش طبقے نے جمہوری حقوق کبھی پوری طرح سے دیکھے بھی نہیں ہیں۔ سی سی پی کا ہانگ کانگ اور ماکاؤ افیئرز آفس (HKMAO) کے ڈائریکٹر نے 22 فروری کو تقریر کرتے ہوئے اس سراب کی بجائے ایک ایسے اصول کی ضرورت کا اظہار کیا، جس کے تحت ”محب وطن ہانگ کانگ پر حکومت کر سکیں۔“ اس ”اصول“ کا مطلب یہ ہے کہ ہانگ کانگ کی حکمرانی محض چینی محب الوطنوں پر مشتمل ہونی چاہیئے۔ ڈائریکٹر شیا نے بڑی وضاحت کے ساتھ بات کی کہ ایسی حب الوطنی عملی طور پر کس طرح کام کرے گی:
”محب الوطن ہر صورت قوم کے بنیادی نظام اور ہانگ کانگ کے آئین کا احترام کرتے ہیں اور اسے برقرار رکھتے ہیں۔ قوم کوئی مجرد چیز نہیں اور نہ ہی حب الوطنی ایسی ہے۔ محب وطن ہونے کا مطلب عوامی جمہوریہ چین سے محبت کرنا ہے۔ (چین کا) آئین قوم کا بنیادی قانون ہے اور یہ ہانگ کانگ کے قوانین کا ماخذ بھی ہے۔ (چینی) آئین کی پہلے شق کے مطابق: ’سوشلسٹ نظام عوامی جمہوریہ چین کا بنیادی نظام ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت چینی خصوصیات پر مشتمل سوشلزم کا سب سے اہم خاصہ ہے۔“‘
چین کے اندر سوشلزم کی موجودگی کے صریح جھوٹ کے علاوہ سی سی پی کا پیغام واضح ہے؛ ہانگ کانگ میں سیاست کرنے کی اجازت صرف ان کو مل سکتی ہے جو سی سی پی حکومت کے وفادار ہوں۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے HKMAO نے شینزین کے اندر فروری کے اواخر میں دو اجلاس منعقد کیے اور ہانگ کانگ میں انتخابات کے قوانین کی تبدیلی پر بات چیت کی گئی۔ ممکن ہے کہ ان تجاویز کو اس مہینے میں ہونے والی نیشنل پیپلز کانگریس میں منظور کیے جائیں، جس کے بعد انہیں ہانگ کانگ پر لاگو کر دیا جائے گا۔
ضروری اسباق
جمہوری حقوق اور کسی بھی اختلافی بات پر تب تک حملے ہوتے رہیں گے جب تک سی سی پی حکومت اور چینی سرمایہ داری کا وجود باقی رہے گا۔ مارکس وادی سارے محنت کشوں اور نوجوانوں کے جمہوری حقوق کا دفاع کرتے ہیں۔ مگر ان جمہوری حقوق کو حاصل کرنے کیلئیانقلابی طریقہ کار اپنانا ہوگا۔
ایکسٹراڈیشن بل کے خلاف چلنے والی شاندار تحریک میں یقیناً بے پناہ قوت مضمر تھی، جس سے متاثر ہو کر لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب عام شرکاء کے ایک حصّے کو احساس ہوا کہ محض پر امن احتجاجوں سے حکومت مطالبات تسلیم نہیں کرے گی تو انہوں نے سیاسی عام ہڑتالوں کی کال دی اور انہیں منظم کرنے کے لیے کاوشیں بھی کیں۔ البتہ عام ہڑتال کو عمل میں نہیں لایا جا سکا جس کی وجہ سے تحریک جمود کا شکار ہو کر گزرتے وقت کے ساتھ زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔ تحریک کے عروج پر جب عوام متحرک ہو کر سڑکوں پر تھے، اس وقت سی سی پی اور کیری لیم کی جانب سے وار کرنا ممکن نہیں تھا۔ عوام کی قوت کے سامنے ان کی طاقت جواب دے چکی تھی۔ مگر جب سڑکوں پر جاری احتجاجوں کا سلسلہ کم ہونا شروع ہوا، جس میں کورونا وباء نے بھی کردار ادا کیا، تو حکومت اپنے مخالفین پر ٹوٹ پڑی۔
تحریک کے قائدین بھی محنت کش طبقے کو متحرک کرنے کا کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں لا پائے۔ انہوں نے سماجی اور معاشی مسائل کے مطالبات کی بجائے خود کو لبرل جمہوری مطالبات تک محدود رکھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو محنت کش اور نوجوان اس نظام سے لڑنے کی خاطر زیادہ تعداد میں تحریک کا حصہ بن جاتے جو انہیں ذلت آمیز اور بگڑتے ہوئے حالات میں جینے پر مجبور کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ تحریک کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے قیادت عام لوگوں پر مشتمل جمہوری کمیٹیاں بنانے کی طرف نہیں گئی، جس کی صورت میں با اثر عام ہڑتال منظم کرنے جیسے مشترکہ اقدامات بڑے پیمانے پر اٹھائے جا سکتے تھے۔ اس کی بجائے غیر منتخب شدہ لبرلز پر مشتمل بے ترتیب اور بے قاعدہ ڈھانچہ تحریک پر حاوی رہا۔
آخرکار انہوں نے ہانگ کانگ تک خود کو محدود کر لیا اور چینی محنت کشوں اور نوجوانوں کو اپیل کرنے سے انکار کر دیا، جو خود انہی حالات اور آمروں کے جبر کا شکار ہیں۔ اگر وہ آپس میں طبقاتی جڑت کا مظاہرہ کرتے تو تحریک چین تک پھیل کر وہاں کی حکومت کو گرا دینے کی اہلیت رکھتی تھی۔
اس کی جگہ تحریک کی لبرل قیادت نے امریکی سامراج سے امداد کی درخواست کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے ”جمہوریت کا دفاع“ کرنے کے مضحکہ خیز مطالبے کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ ہانگ کانگ کے عوام چین کے عوام سے کٹ کر تنہا رہ گئے۔
تحریک کے اندر موجود بائیں بازو سے وابستہ اور مزدور قائدین کو اپنا آپ ان لبرلز سے واضح طور پر علیحدہ کرنا چاہیئے تھا جو پوری تحریک کی جانب سے رجعتی حکمت عملی کی وکالت کر رہے تھے، اور محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے ایک سیاسی متبادل پیش کرنا چاہیئے تھا تاکہ لڑائی کو حتمی مراحل میں داخل کیا جاتا۔ جنوری میں پولیس کے چھاپے میں گرفتار ہونے والے متعدد افراد میں ہانگ کانگ کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کی چیئر پرسن کیرول نگ اور ”لمبے بالوں والا“ کے نام سے یاد کیا جانے والا بائیں بازو سے وابستہ قانون ساز لیونگ کووک ہنگ بھی شامل تھے۔ ہم ان لوگوں کے اوپر ریاستی جبر کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان کی فوری رہائی اور جمہوری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ البتہ ہم اس بات کی نشاندہی بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اس حیثیت کے افراد مذکورہ بالا اقدامات لینے کی طرف جاتے تو آج حالات کافی مختلف ہوتے۔
Hong Kong democrats trial: Police cordon off area outside court, warn supporters that slogans may violate security law https://t.co/LxTSM4zoyK pic.twitter.com/8blOZ9pATi
— Hong Kong Free Press HKFP (@hkfp) March 1, 2021
ماضی کی لڑائیوں کے نتائج کے باوجود جنگ کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا اور ہانگ کانگ کے عوام حالیہ اقدامات سے خوف کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔ ہانگ کانگ بھر میں ریاست اور سی سی پی حکومت کے خلاف شدید نفرت اب بھی پائی جاتی ہے اور مظاہرین کی سب سے با شعور پرتوں نے اہم نتائج اخذ کیے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے یونین میں شمولیت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ ریاست کے خلاف جدوجہد کے اگلے مراحل کے لیے خود کو تیار رکھ سکیں۔ انہیں مجرد جمہوری مطالبات کی محدودیت نظر آنا شروع ہوئی ہے۔
یہ درست سمت میں لیے جانے والے بنیادی اقدامات ہیں۔ ہمیں تحریک کے اندر طبقاتی تفریق کا عمل دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلے سالوں کے تلخ تجربات کی بنیاد پر عوام دھیرے دھیرے جاگ رہے ہیں اور انہیں تحریک کی قیادت میں موجود بورژوا لبرلز اور اپنے مفادات میں فرق دکھائی دے رہا ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ اس سارے عمل کو سوشلسٹ قیادت پر مشتمل محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کی تعمیر کے خیال کے ساتھ جوڑنا ہے، جس کے ذریعے ہانگ کانگ کے محنت کش اور نوجوان اپنے چینی بہن بھائیوں کے ساتھ طبقاتی جڑت بنا پائیں گے۔ ایسی کسی تحریک کا راستہ روکنا چینی سرمایہ داری اور سی سی پی حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا۔