ہانگ کانگ: ملزمان کی حوالگی کا بل واپس‘ طبقاتی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی!

|تحریر: ڈینئیل مورلے و پارسن ینگ، ترجمہ: اختر منیر|

 

ہانگ کانگ کی عوامی تحریک نے اپنا بنیادی مطالبہ حاصل کرلیا ہے جو ملزمان کی حوالگی کے قانون کی واپسی تھا جس کے تحت بیجنگ حکومت جسے چاہتی شک کی بنیاد پر اپنی تحویل میں لے سکتی تھی۔ لیکن پولیس کے جبر کی آزادانہ تحقیقات سمیت دیگر چار مطالبات منظور نہیں ہوئے۔

ہانگ کانگ دنیا کا سب سے زیادہ عدم مساوات پر مبنی علاقہ ہے جہاں سب کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اس تحریک نے (حکومتی  ہٹ دھرمی اور جبر کے مقابلے میں)  ہانگ کانگ کو اس قدر تبدیل کردیا ہے  کہ یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ صورتحال کا کوئی حل نکالا جاسکتا ہے اور سٹیٹس کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی حتمی شکست تک تحریک کو جاری رکھنا ہوگا۔

تحریک کے آغاز سے ہی ہانگ کانگ کے باسیوں کو پولیس کے بدترین جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران لوگوں کو اشتعال دلانے اور تحریک کو توڑنے اور کمزور کرنے کی غرض سے جبر میں اضافہ کیا گیا۔

مگر پولیس کے مسلسل تشدد اور حال ہی میں اس میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے پولیس اور ریاست سے متعلق لوگوں کی تمام غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ لاکھوں لوگ اب ان سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ مسلح غنڈوں کے جتھے ہیں جن کا کام امراءکی ملکیت کا تحفظ اور ان کے حق میں حالات سازگار رکھنا ہے۔

14اگست کو ایم ٹی آر (ماس ٹرانزٹ ریلوے) کے محنت کشوں نے میٹرو سٹیشنز اور ٹرینوں میں بلا امتیاز آنسو گیس کے استعمال کے خلاف درخواست دائر کی۔ پچھلے تین مہینوں کے دوران عملی طور پر آنسو گیس ہانگ کانگ کی آب و ہوا کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں فارماسسٹوں کی یونین نے  اعلانیہ مطالبہ کیا کہ پولیس اس کا استعمال بند کرے اور حکومت شہریوں کو گیس ماسک مہیا کرے۔ پروفیسر مانیکا کراؤٹر نے بھی اس بات پر زور دیا کہ بند جگہوں پر آنسو گیس کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں ہے، کیونکہ کہ اس سے ایسے کیمیائی مادے خارج ہوتے ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں اور انہیں بند جگہ سے مکمل طور پر خارج ہونے میں کم از کم ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔

حسب توقع اس کا پولیس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔  31 اگست کی رات کو پولیس نے پرنس ایڈورڈ میٹرو اسٹیشن پر دھاوا بول دیا اور ایک عینی شاہد کے مطابق،’’پولیس ڈبے میں گھس آئی اور تمام لوگوں کو بلا تفریق پیٹنے لگی چاہے وہ احتجاج میں شامل تھے یا نہیں۔‘‘

’’انہوں نے ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق ضابطے کی خلاف ورزی کی اور ڈبے میں آنسو گیس کا استعمال کیا جو کہ جان لیوا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بے گناہ لوگوں کو مار مار کر شدید زخمی کر دیا۔ کچھ مسافروں نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ان سے رحم کی اپیل کرنا چاہی مگر اس کے جواب میں انہیں زیادہ شدت سے پیٹا گیا اور ان پر مرچوں والا سپرے کیا گیا۔‘‘

یہ واقعہ اس دل دہلا دینے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے:

https://youtu.be/g4Lfn2I-sg0

پولیس کے بے تحاشا اور شدید تشدد کی وجہ سے ہسپتالوں میں شدید زخمی مریضوں کی بھیڑ لگ گئی۔ اس کے نتیجے میں 13 ہسپتالوں میں وہاں کام کرنے والے سینکڑوں محنت کشوں نے پولیس کے خلاف دھرنا دے دیا۔

پولیس کے جبر کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں بیان کرنا ناممکن ہے۔ لیکن جو چیز ہمیں باقاعدگی سے نظر آرہی ہے وہ خواتین مظاہرین کی پولیس کے ہاتھوں ہراسانی ہے۔  ایک اور چیز جو باقاعدگی سے ہوتی نظر آرہی ہے وہ واٹر کینن سے نیلی سیاہی ملے پانی کے حملے ہیں جن سے مظاہرین (یا پاس سے گزرنے والے لوگ) آئندہ کئی دنوں تک رنگے رہتے ہیں اور انہیں پولیس با آسانی پہچان لیتی ہے۔

اس ظلم و جبر کو نہ صرف ہراول کارکنان بلکہ ہانگ کانگ کے معاشرے کی اکثریت دیکھ اور سمجھ رہی ہے،  خاص طور پر نوجوان اور محنت کش طبقہ۔ لہٰذا پولیس کے مظالم کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے جسے حکومت اب تک ماننے سے انکار کر رہی ہے۔ ریاست اپنے وجود کے ایک اہم ستون کے متعلق حقیقی تحقیقات کی کبھی اجازت نہیں دے سکتی۔ عوام کو انصاف دلانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حکومت کا تختہ الٹا جائے۔

 

حکومت کے طبقاتی حملے

حکومت مظاہرین کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر حملے کر رہی ہے، جس کے لیے وہ مختلف اداروں سے کہہ کر انہیں کام سے نکلوا رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی ’’نیشنل‘‘ ایئر لائن کیتھے پیسیفک کو بیجنگ کی جانب سے پابندی کی دھمکی ملی ہے اور ان ملازمین کو چین میں آنے والی فلائٹس پر کام کرنے سے روکا جا رہا ہے جو مظاہرے  میں حصہ لیتے پکڑے گئے ہوں۔ کم از کم دو پائلٹس کو نوکری سے نکالا چکا ہے۔

23 اگست کو کیتھے ڈریگن فلائٹ اٹینڈنٹ یونین کی صدر ربیکا سائی کو ایک میٹنگ میں بلا کر اسے اس کی فیس بک پروفائل کے عکس دکھائے گئے جن میں اس نے 5 اگست کی عام ہڑتال کی حمایت کی تھی (اس نے کیتھے میں کام کرنے والے اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ عام ہڑتال میں شرکت بھی کی تھی) ۔ بعد ازاں اسے فلائیٹ اٹینڈنٹ کی نوکری سے برخاست کردیا گیا۔

سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ جیسی یونیورسٹیوں میں طلبہ کو مظاہروں میں شرکت اور یہاں تک کہ سیاست پر بات کرنے  سے بھی باز رہنے کا کہا گیا۔ اور 17 جون کے روز:

’’یہ خبر سامنے آئی کہ پولیس ہسپتال اتھارٹی کے سسٹم تک آزادانہ رسائی حاصل کر سکتی ہے تا کہ وہ زخمی ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات حاصل کر سکے۔ ہسپتال اتھارٹی نے پولیس کو یہ معلومات دینے سے انکار کر دیا، مگر پھر بھی پولیس نے کم از کم پانچ مظاہرین کو گرفتار کر لیا جو علاج کی غرض سے ہسپتال آئے تھے۔‘‘ (ہانگ کانگ فری پریس، 28اگست)

2 ستمبر کو کوئین میری ہسپتال کے سینکڑوں ملازمین پولیس کے جبر کے خلاف ہڑتال پر چلے گئے۔

ہانگ کانگ انسانی حقوق کے حوالے سے کافی شہرت رکھتا ہے۔ ایک ایسی شہرت جو ہمیشہ سے ایک فریب ہے۔ کیونکہ یہاں تمام آبادی کو ووٹ دینے تک کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ روزمرہ کے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ محنت کشوں کی اکثریت کے اوقات کار دنیا میں سب سے طویل ہیں۔ مگر فریب کے پردے ہٹ چکے ہیں اور یہ سامنے آیا ہے کہ حکومت کے اثر و رسوخ کو بامعنی طور پر للکارنے کی کسی بھی کوشش کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 

اشتعال انگیزی

 حکومت کا منصوبہ ہے کہ تحریک کے غیر منظم کردار کو اسے تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسے علم ہے کہ ہراول مظاہرین خطرناک اور انتہائی اقدامات اٹھانے کی طرف جا سکتے ہیں، جیسا کہ ہانگ کانگ کی پارلیمنٹ پر حملہ۔

حکام کو یہ امید ہے کہ ایسے اقدامات پر مجبور ہراول مظاہرین خود کو تنہا کر لیں گے، جس سے مزید جبر کا جواز پیدا ہو گا اور تحریک زائل ہو جائے گی۔

پولیس کے مسلسل تشدد اور حال ہی میں اس میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے پولیس اور ریاست سے متعلق لوگوں کی تمام غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ لاکھوں لوگ اب ان سے نفرت کرتے ہیں۔

انہی وجوہات کی بنا پر 30 اگست جمعہ کے روز نامور مظاہرین اور ڈیموسسٹو پارٹی کے رہنماؤں جوشوا وانگ اور ایگنیس چاؤ کو پارلیمان کے ممبران جرمی ٹیم اور او نوک ہن سمیت دن دیہاڑے گرفتار کر لیا گیا۔ ایک اور جانے مانے احتجاجی جمی شیم تسز کٹ کو گرفتاری کے دوران تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔

بدقسمتی سے اشتعال انگیزی کام کر گئی۔ بجائے اس کے کہ گرفتاریوں کو احتجاج کے محرک کے طور پر استعمال کرتے ہوئے زیادہ شدت سے احتجاج کیا جاتا، سول ہیومن رائٹس فرنٹ کے رہنماؤں کی جانب سے ہفتے کے روز ہونے والا عوامی احتجاج منسوخ کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کچھ سو ہراول مظاہرین کا ایک چھوٹا سا گروہ تنہا رہ گیا۔

مایوس ہوکر یا پھر چھوٹے سے مظاہرے میں جوش بھرنے کی غرض سے انہوں نے وان چائی میں ایک پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کر لیا اور اس پر پٹرول بم پھینکے۔ اس کے جواب میں پولیس نے ان پر اپنے نئے واٹر کینن سے سیاہی ملا پانی برسایا گیا اور پرنس ایڈورڈ سٹیشن پر بلا امتیاز حملہ کر دیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

 

لبرل ازم کے خطرات

یہ جارحانہ مگر بے سود اقدامات تحریک کی لبرل اور غیر منظم قیادت کی وجہ سے ہیں۔ درحقیقت تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنا اس سے کہیں زیادہ جارح اور موثر ہوتا۔ اس سے مراد ایک طاقتور عام ہڑتال ہے جس کے لیے ضروری حالات موجود ہیں۔ ایسا ہوتا تو تحریک کو ایک منظم اور مربوط شکل ملتی کیونکہ ہڑتال کی تیاریوں میں محنت کش اور طلبہ عوامی جلسے اکٹھ منعقد کرتے اور  ہڑتالی کمیٹیاں قائم کرتے جس سے غیر ضروری اور بے سود اقدامات روکے جا سکتے تھے۔

 

مہاجرین کی جدوجہد میں شمولیت کی ضرورت

ہانگ کانگ  ایک ایسا شہر ہے جہاں کئی ملکوں کے لوگ بستے ہیں۔ یہاں  3 لاکھ 85 ہزار سے زائد تارکین وطن محنت کش موجود ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق فلپائن اور انڈونیشیا سے ہے اور وہ گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی کل آمدن میں 3.9 فیصد حصہ ڈالنے کے  باوجود یہ محنت کش اپنے مالکان کی جانب سے شدید ترین جبر، غنڈہ گردی اور جنسی تشدد کا شکار اور ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہانگ کانگ فری پریس کے مطابق صرف 18 فیصد بدیسی محنت کشوں کا اپنا بینک اکاؤنٹ ہے اور 85 فیصد قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

موجودہ تحریک کے خالص لبرل جمہوری مطالبات ان سرمایہ دارانہ معاشی تضادات کو حل کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں جن سے اس سماجی دھماکے نے جنم لیا ہے، بدیسی محنت کشوں کے استحصال کی بات تو دور کی ہے۔ بہرحال حالات کے دباؤ نے بدیسی محنت کشوں کو بھی اپنا موقف رکھنے پر مجبور کیا ہے۔  28 اگست کو ہانگ کانگ میں فلپائنی محنت کشوں کی یونین نے یہ اعلان کیا کہ بہت سے مالکان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدیسی ملازمین کو پہلے سے ہی نہ ہونے کے برابر آرام کے دنوں سے بھی دستبردار ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ انڈونیشین محنت کشوں کی یونین  نے بھی یہ واضح کیا کہ بہت سے محنت کش خود کو اس نئے معمول کے مطابق ڈھالنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

یہ ہانگ کانگ کے محنت کش طبقے کا ایک انتہائی اہم حصہ ہیں جو ایک ثابت قدم سوشلسٹ قیادت کی موجودگی میں حالیہ تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں جس میں ان کے مطالبات کی نمائندگی بھی موجود ہو۔ محنت کش طبقے کے اس حصے کی شمولیت سے طبقاتی جدوجہد کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے، جس سے نہ صرف چین کے سامراجی عزائم کو دھچکا لگے گا بلکہ اس تحریک کو بھی تقویت ملے گی۔ مثال کے طور پر دائیں بازو کے فلپائنی صدر نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا جس کا مقصد چینی سرمائے کی مدد سے فلپائنی سرمایہ دار طبقے کے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش تھا۔ اسی دوران ایک فلپائنی ٹریڈ یونین نے اگست کے آخر میں اپنی کانگریس میں حوالگی کے قانون کے خلاف چلنے والی اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔

تحریک کو اپنے مطالبات میں واضح طور پر بدیسی محنت کشوں کی مانگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جو ایک لڑاکا سوشلسٹ پروگرام کا حصہ ہوں، جس سے تمام محنت کش برابر مستفید ہو سکیں۔ اگر ان مطالبات کو پر جوش طریقے سے پیش کیا جائے تو اس سے مہاجر محنت کشوں کی حمایت جیتی جاسکتی ہے، جس سے تحریک کا طبقاتی کردار بہت حد تک تبدیل ہو جائے گا اور اس طرح چین کے محنت کشوں کو بھی احساس ہو گا کہ یہ جدوجہد اس قابل ہے کہ اس کا حصہ بنا جائے۔ یہ کمیونسٹ پارٹی نواز میڈیا کو بھی ایک کرارا جواب ہوگا جو چین اور ہانگ کانگ کے محنت کشوں کو تقسیم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مہاجر محنت کشوں کی شمولیت کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ تحریک ان کے بورژوا اور پیٹی بورژوا آقاؤں سے دور ہوجائے گی جو فی الحال حوالگی کے بل کے خلاف تحریک میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 

لڑاکا کارکن‘ ڈرپوک قیادت

بدقسمتی سے اس تحریک کا حصہ بننے والی موجودہ مزدور قیادت کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جو تحریک کو اپنی پوری صلاحیت تک لے کر جا سکے۔ ہانگ کانگ کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز(HKCTU)، جسے بہت سے محنت کش اپنی قیادت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے، ایک متاثر کن کردار ادا کرنے کی بجائے سست روی کا باعث بن رہی ہے۔ اپنے کارکنان کی طرف سے ہڑتالوں کی طرف ہانکے جانے کے باوجودHKCTU کی قیادت کسی بھی قسم کی مزدور جدوجہد کو قانون کے دائرے میں رکھنا چاہتی ہے اور یوں سماجی مطالبات پر مبنی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لے جانے کی بجائے لبرل جمہوری مطالبات کے دم چھلے کا کردار ادا کر رہی ہے۔

ابھی تک HKCTU محنت کشوں کو چھٹی لے کر مالکان کی اجازت سے ’’ہڑتال‘‘ کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف چھوٹی چھوٹی ہڑتالی کمیٹیاں بننا شروع ہو گئی ہیں۔ مثال کے طور پر 29 اگست کو 21 صنعتوں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے گمنام نمائندوں نے ایک پریس کانفرنس کی۔ HKCTUان حالات میں محض تالیاں بجانے کا کام کر رہی ہے بجائے اس کے کہ وہ آگے بڑھ کر محنت کشوں کی شرکت کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس کا نتیجہ بار بار محنت کشوں کی کم تعداد میں شرکت کی شکل میں سامنے آرہا ہے جو اس سے قبل ہونے والے ملین مارچ اور HKCTUکی اپنی اعلان کردہ ممبرشپ سے بھی کم ہے۔  2 اور 3 ستمبر کو ہونے والی حالیہ ہڑتال میں 40 ہزار سے زیادہ  محنت کشوں نے دلیری سے حصہ لیا، لیکن اگر HKCTUعام ہڑتال کے لیے سنجیدہ کوشش کرتی تو اس سے کہیں زیادہ محنت کشوں کو متحرک کیا جاسکتا تھا۔ یہ مزدور تحریک کو پورے ہانگ کانگ کے تعلیمی اداروں میں ہڑتال کرنے والے طلبہ کے ساتھ جوڑنے میں بھی کسی قسم کا کردار نہیں کر رہی۔

تحریک کو آگے بڑھنے کے لیے ایک سوشلسٹ پروگرام درکار ہے تاکہ تحریک کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے سماج کے بنیادی مسائل کو حل کیا جا سکے، جن کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے۔

دوسری طرف کیمونسٹ پارٹی کی کٹھ پتلی ہانگ کانگ فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز (HKFTU) اب بھی ہانگ کانگ کے محنت کشوں کی اکثریت کو اپنی مٹھی میں لیے ہوئے ہے، جس کی وجہ اس کا وہ لڑاکا کردار تھا جو اس نے برطانوی نوآبادیاتی دور میں ادا کیا تھا، لیکن اب یہ بہت عرصے سے ہانگ کانگ کے سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں محنت کشوں کو قابو میں رکھنے کا اوزار ہے۔ HKFTU کی جانب سے سرمایہ داروں کی چاپلوسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کچھ رہنما 1992ء میں ڈیموکریٹک الائنس فار دی بیٹرمنٹ اینڈ پراگرس آف ہانگ کانگ(DAB) کے بانی اراکین تھے، جو آج یہاں کی سب سے بڑی بیجنگ نواز سرمایہ دار پارٹی ہے۔  1990ء میں HKCTU اپنی طرف سے محنت کش طبقے کے لیے ایک لڑاکا متبادل کے طور پر وجود میں آئی تھی، کیونکہ HKFTU پوری طرح سے زوال کا شکار ہو چکی تھی۔

اگر HKCTU کے پاس ایک لڑاکا سوشلسٹ قیادت موجود ہوتی تو وہ اس خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے HKFTU کے ہراول کارکنان کو اپنی جانب کھینچتے کر ہانگ کانگ کے محنت کش طبقے کی واحد غیر متنازع قیادت کے طور پر سامنے آ سکتی تھی۔ مگر HKCTU کی قیادت کے اصلاح پسند اور ڈرپوک رویے کی وجہ سے یونین یہ مقام حاصل نہیں کر پائی۔

طبقاتی شعور رکھنے والے ان محنت کشوں اور نوجوانوں کو، جوHKCTU کا حصہ ہیں، یہ چاہیے کہ وہ یونین کے اندر ایک ایسا متاثر کن پروگرام پیش کریں جو سنجیدہ طور پر موجودہ قیادت کے ڈرپوک رویے کو للکارتے ہوئے محنت کشوں کی تمام پرتوں میں ہڑتالی کمیٹیوں کا قیام عمل میں لا سکے تا کہ وہ سب ایک لڑاکاHKCTU کے پرچم تلے اکٹھے ہو سکیں۔ انہیں طبقاتی آزادی پر مبنی موقف رکھتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہیے کی ہڑتالوں کے لیے مالکان کی رضا مندی ضروری نہیں ہے اور سرمایہ دارانہ آمریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہانگ کانگ کے محنت کش طبقے کے ہاتھ میں محنت کش طبقے کی اپنی عوامی پارٹی کا اوزار ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پروگرام میں انہیں ہر حال میں چینی اور بدیسی محنت کشوں کی مانگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

 

بے باک پروگرام اور تنظیم کی ضرورت

تحریک کو آگے بڑھنے کے لیے ایک سوشلسٹ پروگرام کی ضرورت ہے تا کہ اس کی دسترس کو بڑھایا جا سکے اور ہانگ کانگ کے سماج میں موجود مسائل حل کیے جا سکیں، جو سرمایہ داری کے مسائل ہیں، صرف آمریت کے نہیں۔

ناقابل برداشت حالات زندگی، رہائش کے خرچے، اجرتیں اور اوقات کار وہ مسائل ہیں جن سے روزانہ کی بنیاد پر ہانگ کانگ کے محنت کش طبقے کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ انہیں جمہوری حقوق کی ضرورت ہے تاکہ وہ سماج کو اپنے حق میں تبدیل کر سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں ایک سوشلسٹ پروگرام کی ضرورت ہے۔ ہانگ کانگ کی حکومت کے پیچھے بیجنگ کی حکومت کھڑی ہے، جو تب تک ہار نہیں مانے گی جب تک اسے اس کے گھر پہنچ کر نہ ڈرایا جائے۔ ہانگ کانگ کے محنت کش طبقے کے بھی وہی مسائل ہیں جو جو ان کے چینی بہنوں اور بھائیوں کے ہیں۔ ایک سوشلسٹ پروگرام کے ذریعے  وہ چین میں بھی ایک عوامی تحریک کا شعلہ بھڑکا سکتے ہیں جو بیجنگ حکومت اور چین کے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک خطرہ ہو گا۔ حتمی طور پر ہانگ کانگ کی نجات کا یہی ایک واحد ذریعہ ہے۔

متعلقہ: 

ہانگ کانگ: عام ہڑتال کی پہلی کوشش نے سماج کو جھنجھوڑ دیا

Comments are closed.