|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
30 اپریل2021ء کی شام کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایک ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک بچے کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا جس کے سر میں ایک گروہی، ذاتی یا غالباً خاندانی لڑائی کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں گولی لگی تھی اور اس کے دماغ تک کو متاثر کر چکی تھی۔
ہسپتال میں ایمرجنسی ڈاکٹرز اور باقی عملے نے فوری طبی امداد دی اور اس کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کی مگر اس کے بچنے کے امکانات پہلے ہی سے ختم ہو چکے تھے۔
ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بچے کو پہلے ہی نیم مردہ حالت میں ہسپتال میں لایا گیا مگر پھر بھی ہسپتال کے عملے نے موجودہ سخت صورتحال، مریضوں اور کام کے شدید دباؤ کے باوجود اس کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہے۔
اس وقت پشاور میں کورونا وبا کی ایمرجنسی حالت میں سب سے بڑے ہسپتال (ایل آر ایچ) کو مکمل طور پر کورونا مریضوں کیلئے مختص کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا (ایل آر ایچ) کے عام مریضوں کو بھی (کے ٹی ایچ) اور (ایچ ایم سی) کی طرف منتقل کیا جا چکا ہے۔
اس حال میں ڈاکٹر اور باقی تمام عملہ انتہائی دباؤ کے باوجود دن رات اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں اور ان ہسپتالوں میں اس وقت مستقل طور پر ایمرجنسی کی حالت بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں اس کورونا وبا سے شہید ہونے والے شعبہ صحت کے کارکنوں کی تعداد 80 سے بڑھ چکی ہے جس میں 65 ڈاکٹر شامل ہیں۔
اس تمام تر کیفیت کے باوجود ڈاکٹروں نے اس بچے کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ لیکن تھوڑی دیر میں پتہ چلا کہ فوت ہونے والے بچے کے اقرباء کوئی معمولی غریب لوگ نہیں ہیں بلکہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والا ایک زبردست بدمعاش ٹولہ ہے جس کو صوبائی اسمبلی کے ارکان نگہت اورکزئی اور ایم پی اے شفیق آفریدی کی سرپرستی حاصل ہے۔
پرونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے میڈیا کو بتایا کہ اس غنڈہ گرد ٹولے نے اپنی خاندانی لڑائی کو ہسپتال میں بھی گھسیٹنے کی کوشش کی اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایک ہنگامہ برپا کرتے ہوئے عام مریضوں کے ساتھ ساتھ تمام طبی عملے اور ڈاکٹرز کو یرغمال بنایا گیا۔ دھمکیاں دی گئیں، ہسپتال کے سامنے روڈ بلاک کرکے ماحول کو متاثر کیاگیا، ڈاکٹرز کو شدید ہراساں کیا گیا اور ہسپتال کو بند کرنے کی کوششیں کی گئی۔
اس تمام تر ہنگامی صورتحال میں ڈاکٹر تنظیمیں حرکت میں آئیں۔ پرونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، نرسز قائدین، پیرامیڈکس اور باقی تنظیموں نے فوری طور پر احتجاج کا آغاز کیا اور ہسپتال کے باہر روڈ پر پرامن احتجاج کرکے شعبہ صحت کے عملے کو تحفظ دینے میں مکمل ناکامی پر حکومت کے خلاف شدید نعرہ بازی کی گئی۔
اس کے بعد ان تمام تنظیموں اور شعبوں کے قائدین نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں مندرجہ ذیل فیصلہ جات کیے گئے:
1۔ تمام ایلکٹیو سروس سے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا اور جب تک ان سیاسی غنڈوں (نگہت اورکزئی اور شفیق آفریدی) کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی اور ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی، تب تک بائیکاٹ جاری رہے گا۔
2۔ اگر پیر کے دن تک ان کی خلاف کاروائی نہیں کی گئی تو پیر کے دن سے کرونا سروس اور ایمرجنسی سروس کا بھی بائیکا ٹ کیا جائے گا۔
3۔ ایک ہفتے تک اگر سیکورٹی ایکٹ کا نفاذ نہیں کیا گیا تو بائیکاٹ کا دائرہ کار پورے صوبے تک پھیلایا جائے گا۔
پروونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ وہ ہسپتالوں میں کسی قسم کی سیاسی غنڈہ گردی اور سیکورٹی ایکٹ کے نفاذ میں مزید تاخیر برداشت نہیں کر سکتی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ شعبہ صحت کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بھرپور حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شعبہ صحت کو اس وقت مکمل طور پر برباد کیا جا رہا ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کو سات سال پہلے نافذ کیا گیا تھا جس کے ذریعے جہاں ایک طرف ہسپتالوں کی نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے وہیں دوسری طرف شعبہ صحت کے محنت کشوں کے اوپر جبر اور استحصال میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے بعد صوبائی اسمبلی میں بیٹھے سیاسی غنڈے اپنے منظور نظر لوگوں، ڈائریکٹر سے لے کر کلرکوں تک کو لوٹ مار کیلئے باہر سے لاکر مسلط کرتے رہتے ہیں جنہوں نے شعبہ صحت کے پروفیشنل کارکنوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ہسپتالوں کی نجکاری کرکے عام عوام سے معمولی مفت علاج کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اس تمام تر بدمعاشی، حکومت کے شعبہ صحت پر اس ڈاکے اور شعبہ صحت کے محنت کشوں کے شدید ترین استحصال کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور ان محنت کشوں کی جرات کو سلام پیش کرتا ہے جو ہر وقت ان تمام حملوں کے خلاف بہادری سے ڈٹ کر لڑتے آرہے ہیں۔ آج بھی صوبہ بھر کے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر تمام شعبوں کے اہلکار حکومت کی ان عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ ہم ان تمام مشکلات میں ان کی آواز بلند کرنے اور ان کے ساتھ عملی جدوجہد میں شریک ہونے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں شعبہ صحت پر مزید حکومتی حملوں کے امکان کے پیش نظر تمام محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اپنی جدوجہد کو منظم کرنے کی ضروت ہے تاکہ اس ظالم نظام اور حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا مستقل طور پر راستہ روکا جا سکے۔