بنگلہ دیش کی عوامی تحریک کی تاریخی فتح اور پاکستان کا مستقبل

|تحریر: آدم پال|

بجلی کے بلوں کے مارے پاکستان کے عوام بنگلہ دیش میں عوامی تحریک کی تاریخی فتح کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت اور مہنگائی اور بیروزگاری کے حملوں سے تنگ آئے طلبہ اور عوام نے بالآخر 5 اگست کو اس کا تختہ الٹ دیا۔ پاکستان میں صورتحال مختلف نہیں اور یہاں بھی آئے روز مہنگائی اور بیروزگاری کے نئے حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی تحریک کی کامیابی نے یہاں کے حکمرانوں پر بھی لرزہ طاری کر دیا ہے اور ان کے گماشتے عوام میں اس تحریک کے خلاف سازشی نظریے پھیلا رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے محنت کش عوام اپنے سابقہ ہم وطنوں کی اس تحریک کو خوشی سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے دلوں میں بھی ایسی ہی تحریک برپا کرنے اور یہاں کے حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کا جذبہ ابھر رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں تحریک کا آغاز طلبہ کے احتجاجوں سے ہوا جو بڑھتی بیروزگاری سے تنگ آ کر غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس ناانصافی پر مبنی کوٹے کے خلاف 2018ء میں تحریک ابھری تھی جس کو شیخ حسینہ نے مطالبات منظور کر کے ختم کروا دیا تھا۔ لیکن اس سال ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے ذریعے یہ کوٹہ دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف طلبہ نے تحریک کا آغاز کیا۔

طلبہ تحریک

جولائی کے آغاز میں جب احتجاجوں کا آغاز ہوا تو یہ چند یونیورسٹیوں تک ہی محدود تھے۔ ان کی قیادت کوئی سیاسی پارٹی یا اس کا طلبہ ونگ نہیں کر رہا تھا بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو کر الگ ہونے والے طلبہ کے ایک نئے گروپ چھاترا شکتی یا سٹوڈنٹ پاور نامی گروپ کر رہا تھا۔ اس گروپ کے 65 کے قریب قائدین ان احتجاجوں کو ڈھاکہ یونیورسٹی، چٹاگانگ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں منظم کر رہے تھے۔ اس صورتحال میں جب ان احتجاجوں پر بد ترین پولیس تشدد اور ریاستی جبر کا آغاز ہوا تو یہ احتجاج کم ہونے کی بجائے مزید پھیلتے چلے گئے اور سماج کی زیادہ وسیع پرتیں اس میں شامل ہوتی گئیں۔ اس صورتحال میں اس تحریک کی قیادت نے بھی کسی بھی جگہ مفاہمت یا پسپائی کا رستہ اختیار نہیں کیا اور ہر اہم موقع پر مشکل ترین حالات میں بھی جرات اور ہمت کا ثبوت دیتے ہوئے آگے بڑھنے کا ہی پروگرام دیتے رہے۔

آغاز میں ان احتجاجوں کو عوامی لیگ کے سٹوڈنٹ ونگ چھاترا لیگ کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی لیکن حکمران طبقے کے اس گماشتہ گروہ کا طلبہ نے گھیراؤ کیا اور انہیں ہاسٹلوں سے نکالنے کا عمل شروع کیا۔ اس کے بعد پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی مدد سے طلبہ پر منظم ریاستی جبر کا آغاز کر دیا گیا۔ طلبہ کے احتجاجوں پر پولیس اور چھاترا لیگ کے غنڈے گولیاں چلانے لگ گئے جس سے طلبہ کی ہلاکتوں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اس کے علاوہ طلبہ کو گھروں اور ہاسٹلوں سے گرفتار کر کے تھانوں اور خفیہ ایجنسیوں کے ٹارچر سیلوں میں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس صورتحال میں بھی طلبہ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھتے گئے اور اپنے سینے چھلنی کرواتے گئے، لیکن ہار نہیں مانی۔ اس کے بعد شیخ حسینہ نے ملک میں کرفیو کا اعلان کر دیا، موبائل فون اور انٹرنیٹ بند کر دیا گیا، فوج بلا لی گئی اور دیکھتے ہی گولی مارنے کے آرڈر جاری کر دیے گئے۔ اس کے باوجود بھی احتجاجوں کا سلسلہ جاری رہا اور پولیس اور فوج کے ساتھ طلبہ کی جھڑپیں جاری رہیں۔ اس دوران جولائی میں 205 طلبہ کی ہلاکتوں کی خبروں کی باقاعدہ تصدیق ہو گئی تھی لیکن مختلف اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ لوگ اس جبر کے دوران ہلاک ہوئے تھے جبکہ زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔

آخری دنوں میں شیخ حسینہ نے دوبارہ کرفیو لگانے کا حکم دے دیا تھا اور انٹرنیٹ اور موبائل فون بند کر دیے تھے۔ اس دوران طلبہ کی قیادت کو گرفتار کر کے تشدد بھی کیا گیا اور انہیں زیر حراست ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے تحریک ختم کرنے کا اعلان بھی زبردستی پڑھوایا گیا جسے باہر موجود طلبہ نے ماننے سے انکار کر دیا۔ ان طلبہ نے رہائی کے بعداگست کے آغاز میں عدم تعاون کی تحریک کا اعلان کر دیا اور کہا کہ عوام بجلی، گیس اور پانی کے بل جمع نہ کروائیں۔ صنعتوں اور اداروں میں کام پر نہ جائیں۔ حکومت کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں۔ دوسرے الفاظ میں ایک عام ہڑتال کی کال دی گئی۔ اس میں مزدوروں سے بھی یکجہتی کی اپیل کی گئی۔ حکومت نے اس تحریک کو بھی کچلنے کی پوری کوشش کی اور پورے ملک میں بد ترین ریاستی جبر کا ایک نیا آغاز ہوا۔ اس دوران ہر روز ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔

اس کے بعد 5 اگست کے روز طلبہ قیادت نے لانگ مارچ کی کال دے دی اور تمام لوگوں کو ڈھاکہ پہنچنے کا کہا۔ اس روز لاکھوں لوگ دوسرے شہروں سے ڈھاکہ پہنچ گئے۔ کچھ اندازوں کے مطابق ان کی تعداد پچاس سے ساٹھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس میں ابھی ڈھاکہ کے مقامی لوگ شامل نہیں تھے۔ اس میں گارمنٹس انڈسٹری کے مزدور بھی شامل تھے اور عام لوگ اور طلبہ بھی۔ اس دن ہی پھر شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا کیونکہ لوگ اس کی رہائش گاہ وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو گئے تھے۔

اس کے بعد ایک عبوری حکومت قائم کی جا رہی ہے۔ جرنیل اپنی مرضی کی عبوری حکومت مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن طلبہ اور تحریک کی قیادت اپنی مرضی کی عبوری حکومت لانا چاہتے ہیں۔ تحریک کی قیادت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اقتدار میں عوامی لیگ کا کوئی فرد شامل نہیں ہو گا اور نہ ہی اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی BNP کا کوئی شخص شامل ہو گا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ تحریک کی قیادت کچھ ہفتے پہلے سے ہی اقتدار پر قبضے کا اعلان کر رہی تھی۔ انہوں نے کہیں بھی اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا کہ وہ اقتدار ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے بلکہ ان کے تمام اقدامات اور پروگرام اسی حوالے سے تھے کہ شیخ حسینہ کے جانے کے بعد اقتدار اس تحریک کے ہاتھ میں ہو گا۔ وہ جرنیلوں سے مدد کی اپیل نہیں کر رہے تھے بلکہ عام سپاہیوں کو تحریک کی حمایت میں دستبردار ہونے کی اپیل کر رہے تھے۔ اسی طرح وہ اپوزیشن پارٹیوں کے کردار کے حوالے سے بھی واضح تھے اور جماعت اسلامی اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کی بی این پی کی کسی بھی صورت حمایت لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

در حقیقت اسی پروگرام اور نکتہ نظر کے باعث انہیں عوام کی وسیع ترین پرتوں کی حمایت بھی ملی۔ اگر وہ کسی بھی کرپٹ سیاستدان، جرنیل، جج یا بیوروکریٹ کی حمایت لیتے یا کسی سامراجی گماشتے کے ساتھ امیدیں وابستہ کرتے ہوئے تحریک چلانے کی کوشش کرتے تو انہیں عوامی حمایت نہیں مل سکتی تھی۔ دوسری جانب تحریک کی کامیابی سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عوام اپنے دم پرمنظم ہو کر تحریکوں کو فتح یاب کر سکتے ہیں اور انہیں کسی جرنیل یا حکمران طبقے کے فرد کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح امریکہ اور چین و دیگر سامراجی طاقتوں سمیت اقوام متحدہ اور دیگر اداروں نے بھی عوام کے مقابلے میں شیخ حسینہ کی ہی حمایت کی۔ طلبہ تحریک کی قیادت کی بہت سی کمزوریاں بھی نظر آئیں جہاں وہ اقوام متحدہ اور ”عالمی کمیونٹی“ سے حمایت کی اپیل کر رہے تھے۔ انقلابی کمیونسٹوں نے اس پر تنقید بھی کی اور عالمی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی جانب سے عالمی سطح پر مزدور اور طلبہ یونینوں کے ذریعے یکجہتی کی مہم چلائی۔

بنگلہ دیش میں اس وقت مودی کی ہندوستان میں قائم حکومت کے خلاف بھی شدید عوامی نفرت موجود ہے اور شیخ حسینہ کو درست طور پر مودی کی کٹھ پتلی بھی کہا جاتا تھا۔ اس حوالے سے شیخ حسینہ کی شکست مودی کے خطے میں سامراجی عزائم کی بھی شکست ہے اور تحریک کی کامیابی میں یہ عنصر بھی موجود تھا۔ ہندوستان بالخصوص مغربی بنگال کے انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں نے بھی بنگلہ دیش کے عوام کی حمایت کی۔

پاکستان کے لیے اسباق

پاکستان کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ بجلی کے بلوں کی صورتحال سب کے سامنے ہے اور بجلی جیسی بنیادی ضرورت عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ نوجوانوں کے لیے یہاں بھی مستقبل تاریک ہے۔ روزگار کے مواقع یہاں بھی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ علاج سے لے کر خوراک جیسی بنیادی ضرورت بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

اکثر گھروں میں فاقے ہیں، بیماری اور بدحالی ہے۔ دوسری جانب حکمرانوں کی عیاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ان کی دولت کے ذخائر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کے بلوں سے حاصل ہونے والی رقم نجی بجلی گھروں کے مالکان کی تجوریوں میں جا رہی ہے اور اس ملک کے تمام حکمران اس میں پورا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ سرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں پر ٹیکس لگانے کی بجائے مالیاتی بحران کا تمام تر ملبہ عوام پر گرا دیا جاتا ہے۔

2023ء میں پاکستان کے بینکنگ کے شعبے نے 642.2 ارب روپے (2.3 ارب ڈالر) کا خالص منافع کمایا جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہو گیا۔ گزشتہ دو سالوں میں صرف بینکنگ کے شعبے میں 45 فیصد گروتھ ہوئی ہے جو 2021ء تک ایک دہائی کے عرصے میں صرف 9 فیصد تھی۔ مرکزی بینک کی بلند شرح سود کے باعث بینکوں کے منافع کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ اس منافع سمیت ملٹی نیشنل کمپنیوں بشمول کوکا کولا، پیپسی، یونی لیور، نیسلے، ہونڈا، سوزوکی و دیگر کے منافعوں پر ٹیکس لگا دیا جاتا تو نہ بجلی کے بلوں میں کسی بھی اضافے کی ضرورت تھی اور نہ ہی پٹرول اور دیگر ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کے بجائے ان کو بہتر کرنے اور نئے تعمیر کرنے کے عمل کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔

لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت صرف ایک کمیٹی ہوتی ہے جو سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس حکومت سے سرمایہ داروں پر ٹیکس لگانے کی امید کرنا بھی بیوقوفی ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی ادارے بھی اپنے مفادات کے لیے ان حکومتوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ ان اداروں کے قرضوں کے سود کی ادائیگی میں سالانہ بجٹ کے تمام تر ریونیو کا پچاس سے ساٹھ فیصد خرچ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ قرضے کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس وقت ملکی جی ڈی پی اور قرضوں کا تناسب 74 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے اور ملک تکنیکی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ بیرونی قرضے بڑھنے کے علاوہ اندرونی قرضوں کا حجم بھی بڑھ رہا ہے اور یہ اس وقت جی ڈی پی کے نصف کے قریب 43 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ ایک دہائی قبل یہ 11 ٹریلین روپے تھا۔

اس صورتحال میں دنیا بھر کے معیشت دان اس معیشت سے مایوس ہو چکے ہیں اور بحالی کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ آئی ایم ایف سے اگر نیا معاہدہ ہو جاتا ہے تو آئندہ چار سالوں میں 7 ارب ڈالر ملے گا لیکن اس سے زیادہ رقم ان سالوں میں آئی ایم ایف کو واپس کرنی ہے۔ دوسری طرف پاکستان اب چین، سعودیہ اور عرب امارات سے حاصل کردہ قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کر رہا ہے۔ یہ بھی آئی ایم ایف کی اہم شرط ہے اور اس کو پورا کیے بغیر قرضے کا حصول مشکل ہے۔ در حقیقت پاکستان وہ اقدام کر رہا ہے جو کوئی بھی ملک دیوالیہ ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اس صورتحال میں مہنگائی اور بیروزگاری کی صورتحال میں بہتری کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

بڑھتا غم و غصہ اورابھرتی بغاوتیں

حکمران طبقہ اس صورتحال کو بخوبی سمجھ رہا ہے اور عوام پر بد ترین ریاستی جبر اور تشدد کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا، مزدور تنظیموں اور دیگر شعبوں پر قدغن کے حوالے سے نئے عوام دشمن اقدامات اور قوانین کا بننا اسی کا اظہار ہے۔ دوسری جانب ریاستی پشت پناہی سے تحریک لبیک اور دوسری رجعتی اور عوام دشمن قوتوں کو بھی مسلط کیا جا رہا ہے اور عوام کو فرقہ وارانہ، قومی اور دیگر تعصبات کی جانب دھکیلنے کا عمل بھی تیز کیا جا رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں کے تمام تر جبر کے باوجود تحریکیں بڑھتی جا رہی ہیں اور رجعتی قوتوں کو حمایت نہیں مل پا رہی۔

اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں بڑی عوامی تحریکیں موجود ہیں۔ ان تحریکوں کو ایک طرف تو بد ترین ریاستی جبر، تشدد اور قتل و غارت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری جانب ان تحریکوں کو آپس میں جڑنے، دوسرے علاقوں میں پھیلنے اور ملک کے عوام کی وسیع تر اکثریت تک پہنچنے سے روکا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں گوادر میں بلوچ عوام کے شاندار اجتماع نے ریاست کے مظالم کے خلاف عوام کے غم و غصے کا کھل کر اظہار کیا۔ اس کو بد ترین جبر اور تشدد کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں لوگ نہ صرف اس میں شامل ہوئے بلکہ ریاستی جبر کے خلاف کئی دن تک دھرنا بھی دیا۔

اسی طرح پشتون علاقوں میں بھی ریاستی جبر، دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف بہت بڑی تحریک موجود ہے جس میں ہر علاقے میں ہزاروں افراد جلسے جلوسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ بنوں میں ہونے والے ہزاروں افراد کے جلسے میں ریاستی اہلکاروں کی جانب سے براہ راست فائرنگ کی گئی اور عوام کے پُر امن احتجاج کو خون میں نہلانے کی کوشش کی گئی۔ اس حوالے سے فوجی آپریشنوں اور طالبان کی دہشت گرد کاروائیوں کا بلی چوہے کا کھیل بھی جاری ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی آپریشن کیے جا چکے ہیں جن سے دہشت گردی کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا ہے جبکہ آپریشن کرنے والے جرنیل اربوں ڈالر کما کر بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کی ریاستی پشت پناہی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان قوتوں کو عوامی تحریکوں کے خلاف استعمال کرنے کی پرانی تاریخ بھی موجود ہے۔

اس کے علاوہ ”آزاد“ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی عوامی تحریکیں موجود ہیں۔ کشمیر کی تحریک کی کامیابی نے تو حکمرانوں کے ایوان لرزا دیے ہیں اور پورے ملک کے عوام کو آگے کا رستہ دکھایا ہے۔ ہر جگہ اس تحریک کے اسباق پر گفتگو ہو رہی ہے اور عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے بجلی کے بلوں، آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کامیاب تحریک چلانے کا فارمولا ہر کوئی استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نئی تحریک کے امکانات

اس صورتحال میں یہاں ان تحریکوں کے پھیلنے اور نئی عوامی تحریکوں کے ابھرنے کے امکانات موجود ہیں اور صورتحال بجلی کی سی تیزی سے تبدیل ہو سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی ایک مہینے یا پھر آخری پندرہ دنوں میں جو کچھ ہوا وہ اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہاں بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے اور صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی۔ اس کے وقت اور مقام کا تعین نہیں کیا جا سکتا لیکن حالات و واقعات کا تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ یہاں بھی بڑی عوامی تحریکوں کے ابھرنے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔ انقلاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے کے وقت میں اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ یہ سب ناممکن ہے لیکن جب وہ آ جاتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا، حالات اسی کا تقاضا کر رہے تھے۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے اور کوئی بھی ایک واقعہ پوری صورتحال کو نئے معرکوں اور نئی تحریکوں کی جانب لے جا سکتا ہے۔

ایسے میں انقلابی کمیونسٹوں کے فرائض اور بھی بڑھ جاتے ہیں اور انہیں اس انقلابی تحریک کے ابھرنے سے پہلے اپنی قوتوں میں تیز ترین اضافہ کرنا اور انہیں نظریاتی بنیادوں پر منظم کرنا ہے۔ مشکل ترین مالی و سماجی حالات کے باوجود اس فریضے کی ادائیگی سے کوتاہی کرنا اس وقت جرم ہو گا۔ اسی طرح ابھرنے والی تحریکوں میں درست نعروں، پروگرام اور نظریے کے تحت جانا اور دشمن نظریات اور سیاسی حملوں کا مقابلہ کرنا بھی بہت اہم ہے۔ حکمران طبقے کی گماشتہ سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں بھی انقلابی قوتوں پر بد ترین حملے کرتی ہیں۔ آج بھی قوم پرستی کا نظریہ عوامی تحریکوں پر مسلط کیا جا رہا ہے جو مقامی اور سامراجی حکمرانوں کے لیے نہایت ہی کار آمد ہے۔ اسی نظریے کے تحت تحریکوں کو نہ صرف زہریلے قومی تعصب کی بنا پر ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے بلکہ انہیں مزدور طبقے کے ساتھ بھی جڑنے نہیں دیا جاتا۔

بنگلہ دیش میں دنیا نے دیکھا کہ جب طلبہ نے اپنی تحریک کو عوام کی وسیع تر پرتوں کے ساتھ جوڑا اور خاص طور پر مزدور طبقے کو شامل ہونے کی دعوت دی تو صورتحال دو دن میں ہی حکمرانوں کے کنٹرول سے باہر ہو گئی۔ مزدوروں کی ہڑتال نے پانسہ پلٹ دیا اور شیخ حسینہ دم دبا کر بھاگ گئی۔ اس حوالے سے تحریکوں کے دوران قیادت کی نظریاتی اور سیاسی بلوغت اور دیانتداری بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اگر طلبہ صرف اپنے ابتدائی نعروں تک ہی محدود رہتے تو انہیں کچھ بھی نہیں ملنا تھا۔ لیکن وہ تحریک کے ہر مرحلے پر اپنے نعروں اور مطالبات کو وسعت دیتے رہے اور آخر میں قاتل حکومت سے مذاکرات سے انکار کر دیا اور شیخ حسینہ کے وزیروں کی معافی کو بھی رد کر دیا گیا۔ اسی طرح عدم تعاون کی ملک گیر تحریک اور عام ہڑتال کی کال بھی فیصلہ کن تھی۔ شیخ حسینہ کے فرار کے بعد بھی وہ جرنیلوں کی حکومت رد کر رہے ہیں اور درست طور پر اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں۔ تحریک کی قیادت میں کچھ لوگ عوامی کمیٹیوں کے ذریعے ملک کو چلانے کا پروگرام دے رہے ہیں اور عوام کو منظم کرتے ہوئے کمیٹیوں کے ذریعے خود ریاستی امور سنبھالنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

آنے والے عرصے میں حکمران طبقہ اس تحریک پر مزید حملے کرے گا جبکہ تحریک کی قیادت کی نظریاتی کمزوریاں اور سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کو تسلیم کرنے کے باعث غلط فیصلے نظر آئیں گے۔ اس تحریک میں انقلابی کمیونسٹ اپنے نعروں اور پروگرام کے ساتھ موجود ہیں اور آنے والے عرصے میں تحریک کی قیادت کسی مفاہمت یا مصالحت کی جانب بڑھتی ہے تو ہم اس پر کڑی تنقید بھی کریں گے۔ یہاں ایک وسیع بنیادیں رکھنے والی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی عدم موجودگی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے جو کہ اگر موجود ہوتی تو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو سکتی تھی۔

اس حوالے سے یہاں کے انقلابی کمیونسٹوں کے فرائض اور بھی بڑھ جاتے ہیں اور انہیں اپنی نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی تیاری کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمنوں کے حملوں اور تحریکوں کے اتار چڑھاؤ میں وہ درست نعروں اور حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتریں اور تحریکوں کو کامیابی کی جانب لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی موجودہ بڑھوتری، ارادوں اور جوش و جذبے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان تحریکوں کا آغاز کہیں بھی ہو لیکن آگے بڑھتے ہوئے یہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد ہی بنیں گی اور پورے کرہ ارض سے اس ظالمانہ نظام کے خاتمے کا آغاز کریں گی۔

Comments are closed.