|تحریر: یاسر ارشاد|
وادی کشمیر اس وقت تاریخ کی سب سے سرکش اور طاقتور بغاوت کی لپیٹ میں ہے۔ وادی کے درجنوں مختلف علاقوں سے طلبہ کے مظاہروں سمیت بڑے احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان کی حکومت کی جانب سے وادی میں سماجی رابطوں کی 22 ویب سائیٹوں تک رسائی بند کردی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مئی کے آغاز میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کے مختلف دیہاتوں کو تقریبا 30 ہزار ہندوستانی فوجیوں نے محاصرے میں لے کرگھر گھر تلاشیوں جیسے وحشیانہ اورننگے جبر کو تین دن تک ان علاقوں کے عوام پر ایک قہر کے طور پر مسلط کیے رکھا۔ ان محصور علاقوں کے نوجوانوں، عوام اور خواتین کے اس محاصرے کے خلاف مسلسل احتجاجی مظاہروں اورفوج کے ساتھ تصادم کی خبریں بھی منظر عام پر آ تی رہی ہیں۔ محصور کئے گئے علاقوں میں وحشیانہ ریاستی جبر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی بجائے ان کو زیادہ جرات مندانہ مزاحمت میں ابھارنے کا باعث بن رہا ہے اور کشمیر میں جاری موجودہ سرکشی کی شدت اور طاقت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی ایک ثبوت کافی ہے۔ درحقیقت کشمیر کی اس وقت جاری تحریک آزادی کئی حوالوں سے ماضی کی تمام تحریکوں سے نہ صرف یکسر مختلف ہے بلکہ یہ ماضی کی تمام تحریکوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور طاقتوربھی ہے۔ اس تحریک کی قوتِ محرکہ، اس کی قیادت اور اس کا کردار بھی ماضی کی کسی تحریک سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔ 15 اپریل سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک کو حکمرانوں کے تمام اہل دانش اور تجزیہ نگار بھی اس تحریک کا ایک منفرد پہلو قرار دینے پر مجبور ہیں۔ موجودہ تحریک دراصل گزشتہ سال جولائی میں برہان وانی کی شہادت سے شروع ہونے والی تحریک کا نہ صرف تسلسل ہے بلکہ اپریل 2017ء میں رونما ہونے والے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ تحریک ایک بلند مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
اس سال فروری اور مارچ میں کئی ایسے واقعات کی خبریں منظر عام پر آئیں جن میں مختلف علاقوں میں فوج نے جب مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کسی علاقے میں کاروائی کرنے کی کوشش کی تو گردونواح کے علاقوں کے تمام لوگ، جو اس سے پہلے فائرنگ کی آواز سن کر گھروں میں چھپ جایا کرتے تھے فائرنگ کے مقام کی جانب دوڑ کر آتے اور فوج پر پتھراؤ شروع کر دیتے تا کہ مسلح جدوجہد کرنے والوں کو وہاں سے فرار کرایا جا سکے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ہندوستان کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کو 15 فروری کو یہ بیان دینا پڑا’’مقامی لوگ عوام دوست فوجی کاروائیوں کے باوجود فوج کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ جن مقامی لوگوں نے ہتھیار اٹھا لئے ہیں یا جو دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں انہیں قوم کا دشمن تصور کیا جائے گااور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘(NDTV ویب سائٹ 15 فروری 2017ء)
اسی خبر میں اس صورتحال کے بارے میں مندرجہ ذیل تبصرہ بھی شائع ہوا’’گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے راستے میں مشتعل ہجوم سب سے بڑا مسئلہ بن رہے ہیں‘‘۔ ’’سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے انسپکٹر جنرل ذوالفقار حسن نے کہا کہ ہجوم سپاہیوں کا گھیرا توڑ کر دہشت گردوں کو فرار ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور یہ ہمارے لئے سب سے بڑی مشکل ہے۔ ‘‘
اسی طرح 30 مارچ کو NDTV کی ویب سائٹ پر پولیس چیف کشمیر کا ایک بیان شائع ہوا جس کا عنوان ہے’’کشمیر میں آپریشن یا کاروائی کے مقامات پر نوجوانوں کا آنا خودکشی کے مترادف ہے‘‘۔ لیکن عنوان سے دلچسپ داستان پولیس چیف کے بیان کی تفصیلات میں ہے جس میں بہت واضح طور پر پولیس چیف کو کشمیری نوجوانوں کی دلیری اور بے خوفی کو نہ صرف تسلیم کرنا پڑا بلکہ اس کی حیرت اور بے یقینی بھی صاف جھلک رہی ہے۔ کشمیری نوجوان اس وقت جس جرات اور بے خوفی کے ساتھ ہندوستانی ریاست کے تمام جبر اور وحشت کو للکار رہے ہیں انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت کمیاب ہیں۔ پولیس چیف نے گزشتہ روز بڈگام میں ہونے والے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’سپاہی بھی اس قسم کی کاروائی کے دوران کسی گاڑی یا گھر کی آڑ لیتے ہیں ‘‘۔ یعنی سپاہی اس قسم کی کاروائیوں کے دوران اسلحہ اور حفاظتی جیکٹوں کے باوجود کسی چیز کی آڑ لیتے ہیں لیکن کشمیر کے نوجوان نہتے ہونے کے باجود جس دیدہ دلیری سے اس وحشیانہ ریاستی جبرکا مقابلہ کرنے کے لئے آپریشن کے مقامات پر چلے آتے ہیں اور فوج پر پتھراؤ کرتے ہیں اس بے خوفی پر پولیس چیف کو یقین نہیں آتا کہ ایسا کس طرح ممکن ہے اسی لئے وہ اسے خودکشی قرار دے رہا ہے۔ ایک پولیس چیف کی کھوپڑی میں آزادی، انقلاب اور بغاوت جیسے انسانی آدرشوں کا سودا ویسے بھی نہیں سما سکتا اس لئے اس کے لئے یہ سب خودکشی سے ہی ملتی جلتی کوئی چیز ہو سکتی ہے لیکن درحقیقت یہ کشمیر کی نئی نسل کی ایک انقلابی بغاوت ہے جو تخت دہلی اور اسلام آباد کو لرزا رہی ہے۔
مسلح جدوجہد
دہشت گردی یا مسلح جدوجہد اس انقلابی بغاوت کا تاحال ایک چھوٹا سا اور نسبتاً کم اہم پہلو ہے۔ لیکن یہ مسلح جدوجہد اپنے مواد، کردار اور اثرات کے حوالے سے 90ء کی دہائی کی جدوجہد سے نہ صرف مکمل طور پر مختلف ہے بلکہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ 90ء کی دہائی میں ابھرنے والی تحریک پر مسلح جدوجہد کا طریقہ کار نہ صرف مکمل طور پر حاوی تھا بلکہ یہ مسلح تحریک اپنی داخلی کمزوریوں کے باعث بیرونی خاص کر پاکستانی ریاست کی امداد اور پشت پناہی پر انحصار کے باعث اپنے کردار کے حوالے سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی پراکسی زیادہ اور تحریک آزادی کم تھی اسی لئے اس تحریک کو لاکھوں کشمیریوں کے جان و مال کی قربانیوں کے باجود پاکستانی ریاست کی حمائیت یافتہ ہونے کے الزام سے داغدار ہونا پڑا۔ موجودہ تحریک کے پاس نہ صرف اس تحریک کے اسباق موجود ہیں بلکہ اس تحریک کی پسپائی کے بعد 2004ء میں شروع ہونے والے پاک وہند کے حکمرانوں کے مابین ایک دہائی کے عرصے پر محیط بے معنی مذاکرات کی ناگزیر ناکامی کے اسباق کا بھی ایک پورا خزانہ موجود ہے۔ کشمیر میں جاری حالیہ انقلابی بغاوت میں مسلح جدوجہد کا عنصر اپنے حجم کے حوالے سے تاحال بہت چھوٹا ہے۔ ہندوستانی خفیہ اداروں کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق تقریبا 150 سے 200 سنگ باز نوجوانوں نے باقاعدہ مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ تمام نوجوان کشمیر کی 2010ء میں ابھرنے والی سنگبازوں کی تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ یہ مسلح جدوجہد بڑی حد تک مقامی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس پر کسی کے حمائیت یافتہ ہونے کا کوئی الزام کوششوں کے باوجود نہیں لگایا جا سکا۔ دوسری جانب یہ مسلح نوجوان اگرچہ حزب المجاہدین یا لشکر کے پلیٹ فارم کا ہی حصہ بن کر ہندوستانی ریاستی جبر کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن یہ ان جہادی تنظیموں کے ماضی کے کارکنان کی طرح انتہا پسند نہیں ہیں بلکہ ان کی اکثریت جدید تعلیم سے آراستہ ترقی پسند سوچوں کے حامل نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کسی متبادل پلیٹ فارم کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی آزادی کی جدوجہد پر ہونے والے ریاستی جبر کے خلاف یہ راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ 10 فروری 2017ء کو الجزیرہ کی ویب سائٹ پر کشمیر کے چند مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوانوں سے لئے گئے انٹرویو کی ویڈیو شائع ہوئی جس میں ان نوجوانوں نے اپنی جدوجہد کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں یہ وضاحت کی کہ وہ اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ چند سو ہتھیار بند نوجوان ہندوستان کی بھاری بھر کم فوج کو شکست نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان کے ہتھیار اٹھانے کا یہ مقصد ہے بلکہ ان کی اصل جدوجہد سیاسی ہے وہ محض ہندوستانی ریاست کے جبر کا خوف توڑنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہندوستانی ریاست مسلح جدوجہد کے پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے تاکہ نہتے مظاہرین پر کئے جانے والے ریاستی جبر کو جواز فراہم کیا جا سکے لیکن ریاستی جبر کی اس پالیسی پر خود ریاستی اداروں کے اندر اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ 16 مارچ 2017ء کو پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان فہیم عبدل منیب جو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں سیاسیات کا طالبعلم ہے، کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں شمالی کمانڈ کے سربراہ لفٹنینٹ جنرل ڈی ایس ہودہ جو اب ریٹائر ہو چکا ہے، کا تحریک کے بارے میں دیئے گئے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ڈی ایس ہودہ نے کشمیر کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’میں اس بات پر اطمینان محسوس نہیں کر رہا کہ ہجوم کی موجودگی میں بھی فوجی کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔ عسکری بنیادوں پر جو کچھ ہم پہلے ہی کر چکے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ہم دراصل اپنے مؤقف کی جنگ ہار رہے ہیں‘‘۔ ہندوستان کے سنجیدہ ریاستی اہلکاروں اور پالیسی سازوں کی جانب سے اس قسم کے بے شمار تبصرے گزشتہ عرصے میں مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں جن میں حکمرانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ موجودہ تحریک کو 90ء کی دہائی میں ابھرنے والی تحریک سمجھنا ایک بڑی غلطی ہو گی۔ ان بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کے کچھ سنجیدہ عناصر بھی اس تبدیل شدہ صورتحال اور تحریک کے مختلف کردار سے آگاہ ہیں اگرچہ ان کا مقصد موجودہ حکمرانوں کو اس تحریک سے درپیش خطرات سے نپٹنے کے لئے ان کو صورت حال کی گھمبیرتا سے آگاہ کرنا ہے۔ مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوانوں کی محدود سی تعداد کو کشمیری عوام اور نوجوانوں کی غالب اکثریت کی حمائیت حاصل ہے۔ ہندوستانی ریاست کے جبر اور دہلی کے گماشتے حکمرانوں کے خلاف نفرت ان انتہاؤں کو چھو رہی ہے کہ ان کے خلاف کسی بھی شکل میں آواز بلند کرنے والا کشمیری عوام اور نوجوانوں کی ہمدردیاں حاصل کرلیتا ہے۔ مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف ہونے والی ہر فوجی کاروائی میں مقامی لوگوں کی بڑے پیمانے پر فوج کے خلاف پرتشدد مداخلت اس تحریک کا ایک طاقتور پہلو ہے جس نے حکمران طبقات کے تمام جبر کو شکست و ریخت سے دوچار کر دیا ہے۔
طلبہ تحریک
کشمیر کی موجودہ انقلابی بغاوت کا سب سے شاندار پہلو وسط اپریل سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک ہے۔ کشمیر کی 30 سالہ جدوجہد کی حالیہ تاریخ میں ہمیشہ نوجوان اور طالب علم جدوجہد کا ہر اول دستہ رہے ہیں لیکن اس عرصے میں کبھی بھی ایک منظم طلبہ تحریک کا ابھار دیکھنے میں نہیں آیا۔ گزشتہ برس سے شروع ہونے والی تحریک کے روح رواں بھی نوجوان اور طالب علم ہی ہیں لیکن حالیہ طلبہ تحریک جو کشمیر کی تاریخ کا انوکھا واقع ہے، 15 اپریل کوسنٹرل ریزرو پولیس فورس(CPRF) کی جانب سے پلوامہ ڈگری کالج میں کچھ طلبہ کی گرفتاری کے لئے مارے جانے والے چھاپے سے شروع ہوئی۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے 12 اپریل کو پلوامہ ڈگری کالج میں تلاشی کی غرض سے داخل ہونے کی کوشش کی لیکن طلبہ نے مزاحمت کر کے پولیس کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ پولیس نے 15 اپریل کو دوبارہ کالج میں چھاپہ مارا تاکہ 12 اپریل کو پولیس کو کالج کے احاطے میں داخل ہونے سے روکنے والے مبینہ سنگ باز طلبہ کو گرفتار کیا جاسکے۔ عینی شاہدین کے مطابقCPRF کے اہلکاروں نے کالج کے اندر داخل ہو کر آنسو گیس اور پیلٹ گن کی فائرنگ سے طلبہ کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس واقع کے دوران 60طلبہ زخمی ہوئے جن میں 15 طالبات بھی شامل تھیں۔ ہندوستانی ریاستی اہلکاروں کی جانب سے تعلیمی اداروں میں گھس کر تلاشیوں اور تشدد کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں تھالیکن واقعات کے تسلسل میں یہ وہ آخری واقعہ ضرور تھا جس نے سطح کے نیچے پلنے والے غم و غصے کو ایک دھماکے کی شکل میں پھٹ کر ایک منہ زور طلبہ تحریک کے ابھرنے کے لئے چنگاری کا کام کیا۔ 17 اپریل کو سری نگر کے تقریباً تمام بڑے کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات پلوامہ کالج کے طلبہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف سڑکوں پر امڈ آئے۔ احتجاجی مظاہروں کی یہ تحریک سری نگر کے علاوہ دوسرے اضلاع تک بھی پھیل گئی اور تقریباًہر ضلع میں طلبہ نے احتجاجی ریلیا ں نکالیں اور کئی ایک مقامات پر پولیس کے ساتھ طلبہ کے تصادم بھی ہوئے۔ آغاز کے لمحے ہی اس تحریک کی وسعت اور طاقت اتنی زیادہ تھی کہ حکومت کو فوری طور پر تمام تعلیمی ادارے بند کرنے پڑے۔ ہائر سیکنڈری اور ہائی سکول کے بچے اور بچیاں بھی کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے شانہ بہ شانہ آزادی کے نعرے لگانے لگے۔ 17 اور 18 اپریل کو ابھرنے والی طلبہ تحریک میں کشمیر کے مختلف کالجز کی ہزاروں طالبات کی شمولیت نے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ بیگ اپنے کاندھوں پر لٹکائے کالج یونیفارم میں ملبوس یہ نوجوان طالبات ابتدائی طور پر پلوامہ کالج کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لئے ایک پرامن احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلیں لیکن خوفزدہ ریاست کے تشدد نے ان طالبات کو کشمیر کی طلبہ تحریک کا نہ صرف سب سے لڑاکااور ہر اول دستہ بلکہ اس تازہ دم طلبہ تحریک کی جرات اور حوصلے کے ایک زیادہ بلند معیار کی علامت بنا دیا۔ طلبہ تحریک سے خوفزدہ حکومت نے پہلے ایک دن کے لئے اور پھر پانچ روز کے لئے وادی کے تمام تعلیمی اداروں کو بند کردیا۔ تعلیمی اداروں کی بندش کے باوجود طلبہ کے مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ 18 اپریل کو وسطی کشمیر کے ایک قصبے بانہال میں CPRF کی جانب سے طلبہ پر تشدد کے ایک اور واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سینکڑوں طلبہ نے سری نگر جموں ہائی وے کو چھ گھنٹے تک بند رکھاجسے پولیس آفیسران کی جانب سے تحقیقات کی یقین دہانی کے بعد کھول دیا گیا۔ اسی اثناء میں کشمیر یونیورسٹی کی ہاسٹل میں رہائش پذیرطالبات نے پولیس کے طلبہ پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ 20 اور 21 اپریل کو بھی طلبہ اور طالبات کے الگ الگ مظاہرے جاری رہے۔ 21اپریل کو رائزنگ کشمیر اخبار میں طالبات کے احتجاجی مظاہرے کی ایک تصویر مندرجہ ذیل شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی۔ ۔ ’’احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اس کے باوجود کہ تعلیمی ادارے تین روز سے بند ہیں‘‘۔ 24 اپریل کو ایک ہفتہ بند رہنے کے بعد جونہی کالج دوبارہ کھلے تو طلبہ کے احتجاجوں کی نئی لہر نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رائزنگ کشمیر کی رپورٹ کے مطابق ’’ریاست کے مسلح اہلکاروں نے ایس پی ہائر سیکنڈری سکول اور ایس پی کالج کے طلبہ کی احتجاجی ریلی کو شہر کی اہم شاہراہ مولانا آزاد روڈ پر آنے سے روکنے کے لئے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا لیکن طلبہ نے پتھراؤ کر کے پولیس کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا اور تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر کے تجارتی مرکز لال چوک کو بند کردیا۔ طلبہ نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے پولیس اور فوج کی آمدورفت کو بھی بند کردیا۔ دوسری جانب گورنمنٹ کالج فار ویمن ایم اے روڈ کی طالبات نے بھی کلاسز کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاجی ریلی نکالی۔ کالج انتظامیہ نے طالبات کو کالج گیٹ سے باہر جانے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن طالبات تمام رکاوٹیں توڑتی ہوئی سڑک پر نکل آئیں۔ اسی طرح گرلز ہائی سکول کوٹھی باغ کی طالبات نے بھی سکول کے نزدیکی چوک کو بند کر کے احتجاجی مظاہرہ کیا‘‘۔
26 اپریل کوہندوستان ٹائمز کی ویب سائٹ پر کشمیر کی طلبہ تحریک پر عاشق حسین کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی جس کا عنوان تھا’’بمشکل سن بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیاں؛ کشمیر میں احتجاج کا نیا تشخص‘‘ عاشق حسین لکھتا ہے’’وہ نوجوان ہیں اور تقریباً سبھی اپنے کالج یا سکول کا یونیفارم پہنے ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ان کے سکول بیگ ان کے کاندھوں پر لٹک رہے ہوتے ہیں لیکن اب ان کے ہاتھوں میں پتھر بھی ہیں‘‘۔ اسی رپورٹ میں ویمن کالج سری نگر کی ایک طالبہ کا مختصر انٹرویو بھی شائع ہوا ہے۔ اپنا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے 21 سالہ طالبہ نے موجودہ طلبہ تحریک میں شمولیت کے حوالے سے کہا’’ہم کیوں خوفزدہ ہوں؟جو کچھ کشمیر میں ہو چکا ہے اس سے بدتر تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھی ہیں ہم نے اپنے بہن بھائیوں کے پیلٹ گن کی فائرنگ سے مسخ ہوتے ہوئے چہرے دیکھے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ہم بھی مارے جائیں گے!‘‘ کشمیر میں 80ء کی دہائی کے اواخر میں شروع ہونے والی تحریک کے بعد سے خواتین بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں شریک ہوتی آئی ہیں لیکن اس طلبہ تحریک میں شامل طالبات کی سرفروشی اور جنون نے سب کو حیراں کر دیا ہے۔ سری نگر کی ایک خاتون صحافی نے موجودہ صورتحال کا 90ء کی تحریک کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا ’’90ء کی دہائی کے آغاز میں جب ہم سکول جایا کرتے تھے تو فائر کی ایک آواز پر ہم کانپ جایا کرتے تھے۔ آنسو گیس یا گرنیڈ کے پھٹنے کی آواز سن کر ہم چھپنے کے لئے پناہ تلاش کرتے تھے۔ میں کسی ڈراؤنے خواب کے طور پر بھی یہ تصور نہیں کر سکتی کہ لڑکیاں ہاتھوں میں پتھر لے کر پولیس کی گاڑی کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ کشمیر میں صورتحال خوفزدہ کر دینے والی ہے لیکن خواتین کا یہ سب کرنا دل دہلا نے والا ہے‘‘۔ 26 اپریل کو الجزیرہ ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں شمالی کولوراڈویونیورسٹی کی پروفیسر اطہر ضیاکشمیر کی طلبہ تحریک کے حوالے سے لکھتی ہیں’’2017ء کا سال ابھی نصف بھی نہیں گزرا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اسے طلبہ کی سرکشی کا سال قرار دیا جا چکا ہے۔ ۔ ۔ واقعات کے بہاؤ میں یہ ایک بینظیر اور تاریخی تبدیلی ہے چونکہ کشمیر کے طلبہ نے پہلے کبھی بھی اس قسم کے احتجاجوں میں اس طرح اجتماعی طور پر حصہ نہیں لیا۔ ۔ ۔ کشمیر میں پہلے ہی احتجاج کرنے والے طلبہ قابل تقلید بن چکے ہیں جو اس جانب اشارہ ہے کہ اس خطے کے نوجوا نوں کو ایک طویل جدوجہد کا بوجھ ورثے میں ملا ہے۔ ایک شدید جابرانہ فوجی تسلط کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے کشمیر کے یہ نوجوان ہندوستانی فوج کا سامنا اس بے خوفی سے کرتے ہیں جیسے وہ تاریخ کی کلاس میں نوٹس لے رہے ہوں‘‘۔
کشمیری نوجوانوں کی موت کے خوف سے آزادی نے آبادی کے تناسب سے دنیا کی سب سے زیادہ فوج کی تعیناتی کے باوجود ہندوستانی حکمران طبقے کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کے دوران جرات اور بہادری کی انفرادی مثالوں کی کوئی کمی نہیں رہی لیکن ایسا تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک پوری نوجوان نسل موت کے خوف کو فتح کر کے ہندوستانی ریاست کے جبر کے سامنے سینہ سپر ہو گئی ہے خاص کر نوجوان خواتین و طالبات جس بلا کی جرات اور بے خوفی سے ریاستی جبر کے خلاف لڑ رہی ہیں وہ نہ صرف فقیدالمثال ہے بلکہ شکست خوردہ اور مایوس سیاسی کارکنان سے لے کر حکمران طبقے تک، اور اہل صحافت و دانش سے لے کر عام لوگوں تک لڑائی کے ان مناظر کی تصاویر کے حقیقی ہونے پر یقین کرنا مشکل ہے۔ کشمیر کی طالبات نے انہونی کردکھائی ہے، انہوں نے خاک سے اٹھ کر کئی آسمانوں کو تہہ خاک ملا دیاہے، انہوں نے جرات، بہادری اوربے خوفی جیسے لفظوں کے مفہوم و معنی کو نئی وسعتیں عطا کر دی ہیں۔ اگرچہ یہ سب کچھ اس نظام کے رکھوالوں کے لئے ناقابل یقین ہے چونکہ ان کے لئے تاریخ کی حرکت اور سماجوں کی تبدیلی جیسے مظاہر وجود نہیں رکھتے۔ لیکن اگر ہم عمومی طور پر اس عہد کا جائزہ لیں تو اس عہد کا عالمی سطح پر کردار ہی ایسا ہے جس میں چند سال پہلے جن واقعات کا ہونا ناممکن لگتا تھا آج ان واقعات کا رونما ہونا بہت سی صورتوں میں لازمہ بنتا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں کے بطن میں جدلیاتی فکر اور انقلابی رجائیت سے محروم افراد کے لئے آج رونما ہونے والے واقعات سے کئی گنا بڑے اور زیادہ حیران کن واقعات کی پرورش ہو رہی ہے۔ کشمیر کی طلبہ تحریک نے کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور تبدیلی کا یہ عمل نہ تو کشمیر تک محدود ہے اور نہ اسے وہاں تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔
جمہوریت کا استرداد
اپریل کے مہینے میں کشمیر میں دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ سری نگر بڈگام کی سیٹ PDP کے ایک سینئر رہنما طارق حمید کے استعفیٰ دینے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی جس نے گزشتہ برس کی تحریک پر ریاستی تشدد کے خلاف لوک سبھا کی ممبر شپ سے احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا۔ 9 اپریل کو بڈگام کے حلقے میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا جس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے جن کو روکنے کے لئے پولیس نے ریاستی طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے 8 لوگوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کیا۔ احتجاجی مظاہروں کی اس شدید لہرکے باعث ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم یعنی محض 6.5 فیصد رہی جبکہ 40 سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر کشیدگی کے باعث پولنگ ملتوی ہوگئی۔ 6.5 فیصد ووٹوں کی شرح گزشتہ 30 سال کی سب سے کم ترین شرح ہے جس نے بھارتی سامراجی سنگینوں کے سائے تلے ہونے والے اس انتخابی ڈھونگ کی اصلیت کو بڑے پیمانے پر بے نقاب کر دیا۔ ہندوستانی ریاست اور الیکشن کمیشن نے اپنی ہزیمت دور کرنے کے لئے 38 پولنگ اسٹیشنوں پر اگلے روز دوبارہ پولنگ کرانے کا اعلان کیا۔ سنگ بازی اور احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے ان پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس اور فوج کی بھاری نفری لگا کر ایک مکمل مگر غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر کے پولنگ کرائی گئی۔ اگرچہ کرفیو کے باعث احتجاج تو نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود ووٹ ڈالنے کی شرح شرم ناک حد تک کم محض 2 فیصد رہی۔ 38 میں سے صرف 11 پولنگ اسٹیشنوں پر چند لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے آئے جبکہ 27 مکمل خالی رہے۔ مزید ذلت و ہزیمت سے بچنے کے لئے حکومت ہند نے دو روز بعد اننت ناگ کے حلقے میں ہونے والے انتخابات کو پہلے 25 مئی تک ملتوی کیا جبکہ طلبہ تحریک ابھرنے کے بعد ان انتخابات کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا ہے۔ کشمیر کی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر انتخابات کا بائیکاٹ کبھی نہیں ہوا۔ گزشتہ 70 سالوں کے دوران کشمیر کے انتخابات ہمیشہ سے ہی بھارتی ریاست کے سامراجی قبضے کو ایک جمہوری لبادے میں چھپانے کی کوشش رہی ہے لیکن پہلے کبھی اس بڑے پیمانے پر انتخابات کو مسترد نہیں کیا گیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ(PDF )کے سربراہ اور ممبر کشمیر اسمبلی حکیم محمد یا سین، جسے خان صاحب بھی کہا جاتا ہے، نے کشمیر لائف ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’میں اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ یہ بائیکاٹ کسی جبر کی بنیاد پر تھابلکہ یہ مکمل رضاکارانہ تھا۔ دوبارہ پولنگ کے دن اتنے بڑے پیمانے پر سکیورٹی فورسز موجود تھیں پھر بھی لوگ گھروں سے نہیں نکلے اور جہاں لوگوں نے ووٹ دینا چاہا انہوں نے دیا بھی۔ 2014ء کے انتخابات میں حریت کے تمام دھڑوں کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود لوگوں نے بڑے پیمانے پر انتخابات میں شمولیت اختیار کی تھی‘‘۔
انتخابات کے مسترد ہونے کے بعد تمام پالیسی ساز حیرت زدہ ہیں کہ یہ بائیکاٹ کس کے کہنے پر ہوا؟ چونکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 2010ء کی تحریک کے ابھار نے پرانی تمام سیاسی پارٹیوں اور قیادتوں کو مسترد کردیا تھا۔ گزشتہ برس حکومت ہند کے وفد نے کشمیر کے متعدد دورے کئے کہ تحریک کی قیادت تلاش کر کے ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں لیکن ان کوشدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ یہ تحریک حریت کانفرنس اورعلیحدگی پسند تنظیموں سمیت کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں ہے۔ یہ قیادتیں تحریک کی قیادت کرنے کی بجائے تحریک کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ اس تحریک کو قیادت کے بغیر تحریک قرار دیا جا رہا ہے۔ ہم نے 2010ء میں یہ وضاحت کی تھی کہ پرانی تمام قیادتیں اور پارٹیاں مسترد ہو چکی ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس تحریک کی کوئی قیادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس نوجوان اجتماعی طور پر اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں اس لئے کسی فرد کی صورت میں اس تحریک کی قیادت کو تلاش کرنا نا ممکن ہے۔ کشمیر لائف ویب سائٹ نے بھی اس سوال کے جواب میں کہ یہ سب کس کی قیادت میں ہو رہا ہے ایک دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار گل وانی کے اسی قسم کے خیالات شائع کئے۔ ’’یہ ایک غیر معمولی واقع ہے کہ لوگوں نے پہلی بار تحریک کی ملکیت(قیادت)اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ مسلح جدوجہد، پاکستان اور حریت میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ ایسا کر سکیں‘‘۔ ممبر کشمیر اسمبلی حکیم محمد یاسین بھی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے’’یہ بہت بڑا دھچکا ہے، شائد 1947ء کے بعد سب سے بڑا۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جس کے عالمی اثرات ہوں گے۔ جمہوریت مسترد ہو چکی ہے۔ یہ ایک نئے باب کا آغاز ہے جس نے مرکزی دھارے کی جوازیت کا خاتمہ کر دیا ہے‘‘۔ (کشمیر لائف 22 اپریل 2017ء)
اسی طرح 26 اپریل کو الجزیرہ ویب سائٹ پر PDP یوتھ ونگ کے سربراہ وحیدالرحمن کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں حالیہ انتخابی بائیکاٹ اور کشمیر کی عمومی صورتحال کے حوالے سے وہ لکھتا ہے کہ ’’سالوں پر محیط کشیدگی کے باعث کشمیر میں سماجی تانے بانے بری طرح ٹوٹ چکے ہیں۔ لوگوں کا قیادت پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ وہ جن کی پرورش کشیدگی کے حالات میں ہوئی ہے وہ تشدد کے واقعات سے مزید شکتی حاصل کرتے ہیں، سمارٹ فون کو متبادل ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور سڑکوں اور گلیوں کو اپنا پلیٹ فارم سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا 60 فیصد نوجوان ہیں اور آج یہی نوجوان باقی لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر جانے سے روکتے ہیں اور نوجوان ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ انتخابات پرامن طور پر نہ ہوں‘‘۔
ہندوستان کے حکمران کشمیر کے انتخابات کو دو دھاری تلوار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں، ایک جانب کشمیر پر اپنے سامراجی قبضے کے مکروہ چہرے کو ان انتخابات کے ذریعے ایک جمہوری نقاب میں چھپانے کی کوشش کرتے آئے ہیں تو دوسری جانب ان جھوٹے انتخابی نتائج کو آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں کہ کشمیر کی اکثریت ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے محض کچھ شر پسند عناصر وادی کے امن کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے حالیہ انتخابات کا اس بڑے پیمانے پر مسترد ہو جانا ہندوستان کے حکمران طبقات اور کشمیر میں ان کے گماشتوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ 93 فیصد سے زائد آبادی کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ نہ تو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے اور نہ ہی اس عمل پر لوگوں کے خلاف ملک سے غداری کے الزام میں کوئی FIR درج کی جا سکتی ہے۔ ہندوستان کے آئین اور جمہوریت کے ذریعے ہی کشمیر کی غالب اکثریت نے اسی آئین اور جمہوریت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
کشمیر کی اس تحریک کے مختلف کردار کے باعث ہی پاکستان کی سامراجی ریاست اور ذرائع ابلاغ اس تحریک کی منافقانہ حمائیت کا ڈھونگ بھی کھل کر نہیں رچا پا رہے۔ حالیہ تحریک پر ریاستی جبر کے خلاف جموں کے علاقے سمیت پورے ہندوستان کے عام لوگوں اور خاص کر طلبہ میں نفرت پائی جاتی ہے جو اس تحریک کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگرچہ یہ عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن کشمیر کے انقلابی نوجوانوں کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ ہندوستانی حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کے جھوٹے پروپیگنڈے کی یلغار کو چیرتے ہوئے اس نظام اور ہندوستانی ریاست کے وحشیانہ جبر سے نجات کی اپنی جدوجہد کا حقیقی چہرہ ہندوستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو دکھانے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ابتدائی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان نواز پارٹیوں کو مکمل طور پر رد کیے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا چونکہ یہ تمام پارٹیاں اور قیادتیں نہ صرف تحریک کو بیرونی حمائیت یافتہ ہونے کے الزام سے داغدار کرنے کا باعث بنتی ہیں بلکہ پاکستانی ریاست کے مذموم مقاصد کی ترجیحات کے پیش نظر تحریک کو بھی غلط سمت میں لے جا کر اس کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں۔ اس حوالے سے کشمیر کے نوجوانوں کی صرف یہی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنی جانوں کی بے دریغ قربانی دے کر تحریک آزادی کی مشعل کو جلا بخشیں بلکہ اس کے ساتھ ان کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ تحریک میں موجود ایسے تمام عناصر جو تحریک کے لئے نقصان کا باعث بن رہے ہیں ان کے خلاف بھی غیر مصالحانہ جدوجہد کرتے ہوئے انہیں اپنی صفوں سے باہر نکالیں۔ کشمیر کے انقلابی نوجوانوں کو بھارتی ریاستی جبر اور سرمایہ دارانہ نظام کے وحشیانہ استحصال سے نجات کی لڑائی میں کسی بھی ملک یا خطے کے حکمرانوں کی حمائیت کی ضرورت نہیں ہے چونکہ ہر خطے کے حکمران اپنے اپنے ملک کے عوام اور نوجوانوں پر اسی قسم کا جبر(کم یا زیادہ شدت کے ساتھ)مسلط کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے خطوں یا ممالک کے مظلوم عوام کی اپنے سامراجی مقاصد یا سفارتی ضروریات کے پیش نظرمنافقانہ حمائیت کی بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کی طلبہ تحریک میں طالبات کی شمولیت جہاں اس تحریک کو ایک بلند مرحلے تک لے جانے کا باعث بن رہی ہے وہیں تحریک کے رجعتی حصوں کے لئے ایک خطرہ بھی اسی لئے ہمیں حزب المجاہدین کی قیادت کی جانب سے اس قسم کے بیانات نظر آتے ہیں جن میں طالبات کو احتجاجی مظاہرے نہ کرنے اور گھر بیٹھ جانے کی اپیل کی جاتی ہے کہ ابھی ان کے بھائی زندہ ہیں۔ اس قسم کی سوچ تحریک کے لئے زہر قاتل ہے جو آبادی کے نصف حصے کو جدوجہد کے عمل سے دور کرنے کا باعث بنے گی اس لئے اس کی بھرپور مذمت اور مخالفت کی ضرورت ہے اور اس کے برعکس ہمیں بڑے پیمانے پر طالبات کے ساتھ محنت کش خواتین کی تحریک میں شمولیت کے لئے جدوجہد کرنے پڑے گی۔ تحریک آزادی کوئی مردوں کی پہلوانی کا اکھاڑہ نہیں جہاں یہ رجعتی اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے ہندوستانی ریاست کو چت کر کے آزادی کی ٹرافی لے آئیں گے اور تما م کشمیریوں کو آزادی مل جائے گی بلکہ یہ اس خطے کے تمام مظلوموں، مردوزن، کی اجتماعی جنگ ہے جس میں کامیابی کے لئے سب کو نہ صرف جدوجہد میں شریک ہونا پڑے گا بلکہ اجتماعی کوششوں اور مداخلت کے ذریعے اس جدوجہد کو درست سائنسی نظریات کی مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے ساتھ درست طریقہ کار اور حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اس کو آگے بڑھانا ہو گا۔
اسی طرح مسلح جدوجہد کے پہلو کا بھی ایک سنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے عہد میں کشمیر کی مخصوص صورتحال میں یہ طریقہ کار کس حد تک کا رآمد ہے۔ بظاہر یہ دلیل درست ہے کہ جس وحشیانہ جبر کا سامنا کشمیریوں کو کرنا پڑ رہا ہے اس میں بھارتی ریاست کے جبر کے خلاف مسلح بغاوت ایک فطری ردعمل ہے۔ لیکن ہمیں اس فطری ردعمل کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ٹھوس مؤقف اس لئے اپنانا پڑے گا کیونکہ ہم اس خطے کی مکمل آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ایک جنگ رد عمل کی بجائے سنجیدہ تیاری اور منصوبہ بندی کے ذریعے ہی لڑی اور جیتی جاتی ہے اور ہر ایسا طریقہ کار رد کرنا پڑتا ہے جس کے لڑائی پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ یہ درست ہے کہ بھارتی ریاست کا جبر بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو بغاوت کی ان انتہاؤں کی جانب دھکیل رہا ہے جہاں کسی ٹھوس سائنسی نظرئیے، پروگرام اور جدوجہد کے لئے حقیقی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کے باعث کچھ نوجوان مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے کی جانب راغب ہو رہے ہیں لیکن مسلح جدوجہد کرنے والے ماضی کے وہی گروہ ہیں جن کے پاس کشمیر کی آزادی کا نہ تو کوئی ٹھوس پروگرام ہے نہ ہی نظریہ بلکہ محض ہندوستانی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے مظالم کی دردناک داستانوں کے ذریعے نوجوانوں کو فوج کے خلاف مسلح کاروائیوں پر اکسا کر اس قسم کی چھاپہ مار کاروائیاں کی جاتی ہیں جن سے ایک جانب ان جہادی گروہوں کو نئی ریکروٹمنٹ ملتی رہتی ہے تو دوسری جانب ان کاروائیوں کو جواز بنا کر ہندوستانی ریاست کو پہلے سے زیادہ وحشت ناک جبر کا جواز ملتا رہتا ہے۔ اگرچہ اس وقت آبادی کی بڑی اکثریت ہندوستانی فوج سے نفرت کے سبب ان مسلح کاروائیوں کی حمائیت کرتی ہے لیکن یہ صورتحال طوالت اختیار کر جانے کے باعث ایک تکلیف دہ ٹھہراؤ کو جنم دے گی جو تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے اس کی زوال پذیری کا باعث بنے گی۔ آبادی کی بڑی اکثریت مسلسل کرفیو، فوجی جبر اور گھر گھر تلاشیوں کی صورتحال کا شکار ہو کر تحریک کے اس پہلو سے خاص کر اور عمومی طو ر پر سیاسی عمل سے پھر کچھ عرصے کے لئے مایوسی کا شکار ہو جائیں گے چونکہ مسلح جدوجہد کا طریقہ کار ہمیشہ لوگوں کے اجتماعی سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کی بجائے اس کو پیچھے لے جانے کا باعث بنتا ہے۔ تحریک کو چند مسلح نجات دہندوں کی بجائے آبادی کی اکثریت کی سیاسی شمولیت درکار ہے اور اس شمولیت کو یقینی بنانا تمام با شعور انقلابیوں کی ذمہ داری ہے اور ہر ایسے طریقہ کار کی سختی سے مخالفت کرنے کی ضرورت ہے جو وسیع ترعوام کی سیاسی شمولیت کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
تحریک کی موجودہ کیفیت میں اگر کشمیر سمیت خطے کے تمام محنت کشوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تو فوری طور پر صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ کشمیر کے طلبہ، نوجوانوں اور عوام کی جاری سرکشی کو اگر ہندوستان بھر کے محنت کشوں کی سرگرم حمایت میسر آجائے توآئندہ ہونے والی ملک گیر عام ہڑتال میں اس تحریک آزادی کے ساتھ حمایت کا نعر ہ اور مطالبہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس سے جاری تحریک نہ صرف ایک نئے زیادہ بلند مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے بلکہ پورے ہندوستان پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں سے بھی اسی قسم کے اقدام کی اپیل کی جا سکتی ہے جو پاکستانی ریاست کی سامراجی مداخلت کے بھی انجام کا باعث بنے گی۔ اسی سلسلے کو بڑھاتے ہوئے دنیا بھر کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں سے اس انقلابی اقدام کی حمایت کی اپیل کرتے ہوئے دنیا بھر سے یکجہتی حاصل کی جا سکتی ہے جو ہندوستان اور پاکستان کی قابض ریاستوں سمیت تمام سامراجی ریاستوں پر بڑے پیمانے پر دباؤ کا باعث بنے گی۔ عالمی مارکسی رجحان(IMT) اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
ہزاروں فوجیوں کو قتل کرنے اور بم دھماکے کرنے سے اس کا عشر عشیر دہائیوں کے عرصے میں بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا جو کچھ ایک عام ہڑتال کے ذریعے موجودہ بد عنوان حکومت کا خاتمہ کرنے جیسے سیاسی عمل کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آزادی کی تحریک کو عمومی نعروں کے ساتھ آبادی کے تمام مختلف حصوں اور پرتوں کو درپیش مسائل کے حل کے ٹھوس پروگرام اور نعروں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ فوجی جبر کے خاتمے کے ساتھ مفت تعلیم، صحت کی مفت و معیاری سہولیات اور روزگار کی فراہمی کے ساتھ سرمایہ دارانہ ملکیت کے خاتمے جیسے پروگرام کو کشمیر سمیت برصغیر کے اربوں محکوم و مظلوم عوام اور نوجوانوں کی جانب سے مکمل اور سرگرم حمایت ملے گی جو کشمیرکی آزادی کو حقیقت کا روپ دینے کا باعث بنے گی۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو کشمیر کی دہائیوں سے جاری تحریک آزادی کومنطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے اور اس کے ساتھ پورے بر صغیر کے محکوم عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کی وحشتوں سے نجات کا راہ دکھا سکتا ہے۔