|رپورٹ: صفدر جبار|
یوں تو ہر سال کراچی میں مختلف سیاسی پارٹیوں، لیبر فیڈریشنز، ٹریڈ یونینوں اور این جی اوز وغیرہ کی طرف سے یومِ مزدور پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی اس سلسلے میں بہت سی تقریبات کراچی پریس کلب سمیت دیگر مختلف جگہوں پر منعقد کی گئیں۔ مگر ان تقریبات میں مزدوروں کی حقیقی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ فوٹو سیشنز کرنے کے لئے تو بہت سے لوگ مزدوروں کا نام لیتے ہیں مگر حقیقت میں محنت کشوں کی طبقاتی لڑائی کو منظم کرنے کا کوئی سنجیدہ لائحہ عمل پیش نہیں کیا جاتا۔ اس سلسلے میں کئی سالوں کے بعد محنت کشوں کے اس شہر میں دوبارہ ایک بڑی با وقار اور پر مغز سیاسی تقریب کا انعقاد کرنے کا سہرا اس بار جنرل ٹائر ورکرز یونین کے سر بندھا۔
جنرل ٹائر ورکرز یونین نے کئی ماہ قبل ہی ارادہ اور عزم کر لیا تھا کہ اب کی بار یومِ مئی پر پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی علاقے لانڈھی اور کورنگی میں محنت کشوں کی حقیقی سیاسی جدوجہد کی روایت کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یوں لانڈھی اور کورنگی کی دیگر یونینوں سے رابطہ مہم تیز کی گئی۔ اس مہم کا بہت شاندار رسپانس دیکھنے میں آیا۔ خاص طور پر آدم جی انجینئرنگ اور پکسار کی CBAیونینوں نے یومِ مئی منانے کے لیے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اس ضمن میں دس ہزار سے زائد پمفلٹس لانڈھی اور کورنگی انڈسٹریل ایریا میں تقسیم کیے گئے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کی طرف سے شائع کیے جانے والے ایک ہزار سے زائد پوسٹر کراچی بھر میں چسپاں کیے گئے جن میں سے 300 پوسٹر لانڈھی کورنگی انڈسٹریل ایریا میں لگائے گئے تھے۔ پوسٹر اور پمفلٹ دونوں میں موجود سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل کو محنت کشوں کی بڑی تعداد نے سراہا۔
یکم مئی کے دن تحریکِ انصاف کی طرف سے بھی لانڈھی میں ایک جلسہ عام منعقد کیا جانا تھا جس سے عمران خان نے خطاب کرنا تھا۔ اس وجہ سے سکیورٹی کے پیشِ نظر بہت سے علاقے اور راستے سیل کر دیئے گئے تھے جس کی وجہ سے محنت کشوں کو کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سب مسائل کے باوجود صبح سے ہی لانڈھی اور کورنگی کی مختلف فیکٹریوں کے محنت کشوں نے ریلیوں کی شکل میں جلسہ گاہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ سرخ پرچم تھامے ،لڑاکا نعرے لگاتے ہوئے یہ ریلیاں چلچلاتی دھوپ میں بھی نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں۔
کورنگی میں ریلی کا آغاز آدم جی انجینئرنگ سے ہوا جو میرٹ پیکجز، پکسار اور کورنگی لیبر کالونی سے ہوتی ہوئی تعداد اور معیار میں مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ ان تمام ریلیوں کی منزل ہسپتال چورنگی کے قریب واقع گوندل لان تھا جہاں جلسہ گاہ کو سرخ جھنڈوں اور بینروں سے سجایا گیا تھا جن پر شکاگو کے محنت کشوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کے مسائل اور مطالبات درج تھے۔
جلسہ کی کاروائی کا آغاز صفدر جبار نے کیا اور رسمی کاروائی کے بعد سٹیج ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) کے رہنما پارس جان کے حوالے کر دیا جنہوں نے باقاعدہ نظامت کے فرائض سرانجام دیئے۔ جلسہ کی صدارت سندھ لیبر فیڈریشن کے صدر شفیق غوری نے کی جبکہ معروف مزدور رہنما بابا غیاث الدین مہمانِ خصوصی تھے۔
جلسہ میں شبیر ٹائلز، جانسن اینڈ جانسن کمپنی، پکسار، آدم جی انجینئرنگ، میرٹ پیکجز ، آئی آئی ایل پائپ،جنرل ٹائرز، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، پی آئی اے، پاکستان سٹیل، گندھارا نسان، سلفی ٹیکسٹائل، نووا لیدر کمپنی، پورٹ قاسم اور دیگر کئی مقامی اداروں کے محنت کشوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
شرکا کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ سٹیج سیکرٹری نے انقلابی شاعری اور نعروں سے جلسے کو خوب گرمایا۔جلسہ میں محنت کشوں کے واحد سنجیدہ اخبار ’ورکرنامہ‘ کے ایڈیٹر راشد خالد نے خصوصی طور پر لاہور سے شرکت کی۔ان کے علاوہ جلسہ سے جانسن اینڈ جانسن کمپنی کے فرمان، پکسار CBA یونین کے جنرل سیکرٹری فرقان احمد، شبیر ٹائلز یونین کے صدر دلبر خان ، آدم جی انجینئرنگ کے جنرل سیکرٹری عادل،پی آئی اے کے شیخ مجید، NLFکے عبدالاسلام، عوامی لیبر فیڈریشن کے سیف الرحمان کنڈی، پاکستان اسٹیل کے مرزا مقصود،ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) کی کامریڈ انعم پتافی،اے این پی کے لیبر سیکرٹری رعنا گل آفریدی اور جنرل ٹائر ورکرز یونین کے سیکرٹری جنرل ظہور اعوان نے خطاب کیا۔ مقررین نے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کو آڑے ہاتھوں لیا اور حکمران طبقات کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ خود مزدور قیادتوں کے مزدور دشمن رویے پر بھی کڑی نکتہ چینی کی۔
کامریڈ انعم پتافی نے خاص طور پر جلسہ کی سب سے بڑی کمزور ی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر خواتین محنت کشوں کا نہ ہونا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ نظام ان کا دوہرا اور تہرا استحصال کرتا ہے اور ان کے اندر اس نظام کے خلاف نفرت بھی مرد محنت کشوں سے تین چار گنا زیادہ ہی ہوتی ہے۔ ان کو جدوجہد میں شامل کیے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی ۔انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ کے تمام بڑے انقلابات میں خواتین محنت کشوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ہماری خواتین بھی تاریخ کے میدان میں اتریں گی۔ یہ نیا عہد ہے جو محنت کش طبقے کو تحریکوں اور انقلابات کی طرف لے کر جا رہا ہے۔
ایڈیٹر ورکرنامہ کامریڈ راشد خالد نے کہا کہ ہم محنت کشوں کو مذہب ، نسل ، زبان ، فرقے ، علاقے اور قوم کے نام پر تقسیم کرنے کی ہر کوشش کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ ، امریکہ سمیت دنیا کے تمام خطے تحریکوں کی لپیٹ میں ہیں۔ برازیل میں آج بھی عام ہڑتال چل رہی ہے ۔انڈیا میں 18کروڑ محنت کشوں کی عام ہڑتال پاکستان کے محنت کشوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے۔ ہمیں ایک عام ہڑتال کی طرف بڑھنا ہو گا۔ بدعنوان ٹریڈ یونین قیادتیں اب بے نقاب ہو رہی ہیں۔ تازہ دم مزدور قیادت ابھرے گی جو سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرے گی۔بزرگ مزدور کامریڈ راجہ فتح نے اس موقع پر انقلابی شاعری پیش کی ۔ظہور اعوان صاحب نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور خاص طور پر شبیر ٹائلز کے محنت کشوں کو اپنی انتظامیہ کے خلاف جدوجہد میں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر شبیر ٹائلز کی انتظامیہ نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو ہم شبیر ٹائلز کے گیٹ پر تاریخی دھرنا دیں گے۔ یہ مزدور یکجہتی کی درخشندہ روایت ہے اور ساتھ ہی نئی طبقاتی جنگ کا طبل بھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ میدان سجنے والا ہے اور انقلابی حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں۔
جنرل ٹائر کے انقلابی کارکن اسرار احمد نے کچھ قراردادیں حاضرین کے سامنے پیش کیں جن کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔اس کے بعد مہمانِ خصوصی بابا غیاث نے کامیاب جلسے کے انعقاد پر جنرل ٹائر ورکر یونین کو خراجِ تحسین پیش کیا اور آگے بڑھتے رہنے کی تلقین کی۔ جنابِ صدر نے آخر میں کہا کہ مزدوروں کو سیاست سے دور رکھا جاتا ہے۔ نظام کی تبدیلی کے لیے مزدوروں کا سیاست میں حصہ لینا بے حد ضروری ہے۔
اس تقریب میں ورکرنامہ کی طرف سے ایک سٹال بھی لگایا گیا تھا جہاں انقلابی لٹریچر، سہ ماہی لال سلام، پاکستان و عالمی تناظر کی دستاویزات موجود تھیں جن میں مزدوروں کی گہری دلچسپی نے ثابت کر دیا کہ محنت کشوں میں نظام کے خلاف نفرت اور نئے انقلابی نظریات سیکھنے کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے جو کسی بہت بڑے انقلابی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔