|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، مٹھی|
گزشتہ روز سندھ کے ایک پسماندہ شہر مٹھی میں پولیس گردی کا انتہائی وحشت ناک واقعہ سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا جس میں واضح طور پر ایک شخص ماتم کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ سینا پیٹ پیٹ کر پولیس سٹیشن کے سامنے اعلان کررہا ہے کہ میرے بھائی بھاگ چند میھگواڑ کو پولیس والوں نے قتل کردیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس ریاستی قتل میں پیپلز پارٹی مٹھی کی خواتین ونگ کی لیڈر سمترا منجانی بھی شامل تھی، جس کے کہنے پر بھاگ چند کو قتل کیا گیا۔ اس وڈیو کے وائرل ہوتے ہی عوام کی طرف سے سخت غم و غصّے کا اظہار کیا گیا اور چند ہی گھنٹوں میں مٹھی شہر سے بڑی تعداد میں لوگوں نے پولیس سٹیشن کا گھیراؤ کرکے احتجاجی دھرنا دے دیا اور مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔ اس کے باوجود پولیس کی بے حسی کا عالم یہ تھا کہ ایک دن گزرنے کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کی گئی، مگر بالآخر عوامی احتجاج کی وجہ سے مجبوراً مقامی ایس ایچ او سمیت دیگر پولیس اہلکاروں، اور پیپلز پارٹی مٹھی کی خواتین ونگ کی لیڈر سمترا منجانی پر ایف آئی آر درج کر دی گئی۔ اسی طرح علاقائی وزراء اور ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے وزراء کی طرف سے بھی محض روایتی مذمتی بیان ہی جاری کیے گئے ہیں۔
اس واقعے نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کا عوام دشمن چہرہ سب کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ اسی طرح یہ پولیس گردی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں، نہ ہی اقلیتوں پر جبر کی کوئی نئی کہانی ہے۔ اس سے قبل سانحہ ساہیوال، سرفراز شاھ قتل، نقیب اللہ محسود، صلاح الدین، اسامہ ستی، حیات بلوچ، سلطان مرزا، عرفان جتوئی، بابر خانزادہ سمیت آئے روز جعلی مقابلے، جبری گمشدگی، پولیس سٹیشن میں لوگوں کے قتل اور یہاں تک سرعام لوگوں کو گولیاں مار کر قتل کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر ریاست اور اس کے اداروں کے کردار پر نوجوان نسل میں بحث کا آغاز کردیا ہے۔
درحقیقت ریاست کا وجود ہی طبقات کے ناقابل مصالحت تضاد کا نتیجہ ہے اور اسی طرح سرمایہ دارانہ ریاست، سرمایہ دار طبقے کے جبر کا وہ آلہ ہے جو سرمایہ دار طبقے کی ملکیت کو جبراً و قانونی حفاظت فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا کھلے عام مقامی وڈیروں کے کہنے پر عام لوگوں کا قتل ہوگا اور اس پر عدالتوں سمیت تمام ادارے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھیں گے۔ پولیس ریاستی جبر کا وہ مستقل ادارہ ہے جس کو ریاست اور حکمران طبقہ ظاہری طور پر شہریوں کے محافظ بنا کر دیکھاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس پولیس حقیقت میں مزدوروں، طلبہ، کسانوں اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کی مزاحمت کو کچلنے اور امیروں کی ملکیت کے دفاع کا ادارہ ہے۔ حالیہ عرصے میں ہی کوئٹہ میں شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز (وائی ڈی اے) پر احتجاج کرنے کی پاداش میں آنسو گیس پھینکنا اور لاٹھیاں برسانا، بلوچستان گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے قائدین پر مقدمات، پنجاب اسمبلی کے سامنے کسان رہنما اشفاق لنگڑیال کا بہیمانہ قتل اور سندھ کے مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ پر ثقافتی سرگرمیاں کرنے کی پاداش میں بغاوتوں کے مقدمات اور نہ جانے کتنے ایسے گھناؤنے کام مسلح جتھوں کا روز کا مشغلہ ہے۔ ہمیں اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پولیس گردی کے بڑھتے ہوئے یہ واقعات حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ ریاست کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری، ٹھوٹ پھوٹ اور بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔
آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر مکمل کرکے آخری سانسیں لے رہا ہے جس کے سبب روز منافع کی ہوس پر مبنی یہ اژدھا نما سماج انسانی جانوں کو نگلتا جارہا ہے۔ حکمران طبقہ جب عوام کو بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے تو اپنی عیاشیوں کو جاری رکھنے کیلئے جہاں ایک طرف مہنگائی مٹاؤ، اور عدم اعتماد کے نعرے تلے آپسی نورا کشتی میں مصروف ہیں عین اسی وقت جمہوریت، سول سپرمیسی، اخلاق اور دیگر ”عظیم“ نعروں کے پردے کے پیچھے عوام پر جبر کا سہارا لیتے ہوئے ظلم و بربریت جاری رکھے ہوئے ہے۔ مختصراً اپوزیشن کا نام نہاد اتحاد ہو یا تبدیلی سرکار، فوجی جرنیلوں کی مسلط کردہ آمریت ہو یا سرمایہ داروں کی جمہوریت، تمام محنت کشوں پر جبر قائم رکھ کر اپنی تجوریاں بھرنے کی تگ و دو میں ہی ہیں۔ لہٰذا اس جبر کا مقابلہ ایک عوامی اور خاص طور پر منظم محنت کش طبقے، نوجوانوں اور کسانوں کی متحدہ طاقت کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ آنے والے وقت میں مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی اور غربت کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں پر جبر اور اس طرح کے سفاکانہ پولیس گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گا، جس کے خلاف ایک عوامی سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا ہے۔ محنت کش عوام کو محلوں، فیکٹریوں، گاؤں، اور شہروں میں عوامی حفاظتی کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا جو تمام تر جبر کی جڑ ہے۔