|تحریر: صبغت وائیں|
آج ایک دوست نے ہیلی کاپٹر پر ہونے والے خرچے پر ایک بریگیڈیئر صاحب کی ویڈیو دیکھنے کو کہا جس میں سرکار اس کے انتہائی کم خرچ ہونے پر عاقلانہ اور پیشہ ورانہ وضاحت فرما رہے تھے۔ میں نے کچھ دیر کے لیے سنا اور مجھے وہ دوست یاد آ گئے جو فائیو سٹار ہوٹل کے کھانوں کو بہت ’ہائی جینک‘ بتاتے ہیں اور وہاں رہنا حقیقت میں سستا ہی بتاتے ہیں۔ اور وہ بھی جو کہ بیکن ہاؤس میں ہونے والے خرچے کو جائز بتاتے ہیں۔ اور وہ بھی جو امریکن لائسیم کے ایک بچے کی ایک لاکھ سترہ ہزار روپے مہینے کی فیس کو جائز اور کم خرچ بالا نشین بتاتے ہیں۔ ہم غریب بھلا کیسے ان باتوں میں چھپے فلسفوں کو جان سکتے ہیں، کہ بھٹو فرانس سے منگوایا گیا پانی کیوں پیتا تھا وغیرہ۔۔۔ صرف بھٹو نہیں۔ ہمارا سارا حکمران طبقہ یہی کچھ کرتا ہے۔ عمران خان نے اپنی جوانی کے دنوں میں بندوق پکڑ کر ڈھونڈ ڈھونڈ کر نایاب پرندے اور ہرن مار مار کر کھائے۔ آئے دن اس پر پرچہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ہرن کا گوشت کھایا کرتا تھا اور اس کے دودھ کی بوتلیں بھی انگلینڈ سے آیا کرتی تھیں۔ ہر روز اتنی مچھلی، اتنا گوشت اتنا۔۔۔ یعنی سیون ڈیڈلی سنز میں پایا جانے والا گلٹنی کے گناہ کی چار یا چھ جتنی بھی علامات بزرگوں نے بتائی ہیں وہ سب۔۔۔
زرداری کے گھوڑوں کو سیب کا مربہ دیا جاتا تھا، سب نے سنا ہو گا۔ لیکن ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ ایک دوست کا نواز شریف کے گھرجانا ہوا۔ وہاں اس کے سامنے جو کھانے پینے کی اشیاء رکھی گئیں ان میں ایک جگ میں دودھ بھی تھا۔ اس نے سوچا دیکھتا ہوں کہ یہ ڈرنک کون سا ہے۔
کہتا ہے کہ پی کر دیکھا تو دودھ ہی تھا۔ لیکن دودھ انتہائی لذیذ، شیریں اور خوشبودار سا تھا۔ تھا دودھ ہی۔ اس کی ہلکی ہلکی آروما انتہائی مسحور کن تھی۔ اس نے کہا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا ڈرنک ہے۔ میزبان نے بتایا کہ یہ دودھ ہے۔ پوچھا کہ یہ کس جانور کا دودھ ہے۔ تو جواب ملا کہ یہ گائے کا دودھ ہے۔ پوچھا اس میں کیا ملایا گیا ہے۔ جواب ملا کچھ بھی نہیں۔ یہ سب اس کو ملنے والے گتاوے کا کمال ہے۔ ہم ان گائیوں کو پستہ، بادام، کاجو، اخروٹ اور انجیریں و دیگر خشک میوجات و فواکہات بطور گتاوا دیتے ہیں۔ جس کی بنا پر یہ اتنا خوشبودار، گاڑھا اور لذیذ و فرحت بخش دودھ دیتی ہے۔
میں نے دوست سے التجا کی کہ اگر تیرا تعلق اندر تک ہے تو اس گائے کا گوبر منگوا لیا کر۔ ادھر ہم غریب لوگ پاتھیاں لگا کر چائے کے ساتھ سنیک کے طور پر استعمال کر لیا کریں گے۔
بہت کچھ یاد آیا۔ لیکن سب سے زیادہ یاد اپنے استاد ابن حسن صاحب کی آئی۔
آپ نے ایک واقعہ سنایا تھا:
ہوا یوں کہ انیس سو ستر کے قریب کی بات ہے کسی سوشل ورک والے نے طوائفوں پر ایک ریسرچ کرنی تھی استاد محترم ان کے ساتھ ایک بوڑھی طوائف سے ملنے چلے گئے۔ وہ چارپائی پر بیٹھی تھی اور اس نے سخت گرمی میں رضائی لی ہوئی تھی۔ کمرے میں ایک کی بجائے دو ونڈو ایئر کنڈیشنر جنرل کے چل رہے تھے۔ ابن حسن صاحب کہتے ہیں کہ ان کو ٹھنڈ لگنے لگی۔ آخر انہوں نے کہہ ہی دیا کہ آپ ایک اے سی چلا لیں ایک تو آپ کو رضائی نہیں لینا پڑے گی دوسرا خرچہ بھی بچ جائے گا۔
تو بڈھی طوائف نے ایک انتہائی عالمانہ اور فلسفیانہ جواب مرحمت فرمایا تھا جو کہ کچھ یوں تھا:
’’اساں ایہہ بِل کیہڑا اپنی جیب چوں دینا ہوندا اے۔‘‘
(ہم نے بجلی کا بل کونسا اپنی جیب سے دینا ہوتا ہے)۔
استاد فرماتے ہیں۔ اس بات کو عرصہ گزر گیا۔
اسی کی دہائی میں پڑھ لکھ کر نوکریوں پر لگ چکے تھے۔
اپنے ایک دوست کی طرف اس کو ملنے چلے گئے جو اس وقت سی ایس ایس کر کے اسسٹنٹ کمشنر لگ چکا تھا۔
اتفاق سے تب بھی گرمی ہی کے دن تھے۔ اس کے کمرے میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں اس کے کمرے میں دو اے سی شپا شپ چل رہے تھے۔ اور بیوروکریٹ صاحب تھری پیس سوٹ جون کے مہینے میں پہنے دفتر میں براجمان ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد ٹھنڈ لگنے لگی۔
آپ کہتے ہیں کہ وہ پہلا واقعہ بھول چکے تھے۔ انہوں نے دوست سے کہا کہ اتنی ٹھنڈ کی ہوئی ہے ایک اے سی چلا لیا کرو۔
تو دوست نے ایسا جواب دیا کہ آپ کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ جواب تھا:
’’اساں ایہہ بِل کیہڑا اپنی جیب چوں دینا ہوندا اے۔‘‘
(ہم نے بجلی کا بل کونسا اپنی جیب سے دینا ہوتا ہے)۔
آخر میں انقلابِ فرانس سے پہلے کی حکمران اس ملکہ کی یاد بالکل نہیں آئی جس نے کہا تھا کہ یہ لوگ کیوں محل کے باہر شور مچا رہے ہیں۔ جس کو ملازم نے بتایا تھا ملکہ عالیہ ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے بھوک سے بے تاب ہیں۔ تو ملکہ معظمہ نے فرمایا تھا کہ روٹی اگر نہیں ہے تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟
حکمران طبقہ اتنا ہی احمق ہوا کرتا ہے۔
ہمارے اوپر بارہ ارب ڈالرفوری واجب الادا ہے۔یہ وہ قسط ہے جو ہم نے گزشتہ لیے گئے قرضوں کے سود کی قسط ادا کرنا ہے۔اب ہمیں یہ سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضہ ہی لینا پڑے گا۔
پچانوے ارب ڈالر کے قرضوں میں ہمارا بال بال جکڑا ہوا ہے اور ان حکمرانوں کی عیاشیوں پر ان کے بغل بچے ہمیں یہ طفل تسلیاں دے رہے ہیں کہ عمران خان کا ہیلی کاپٹر میں دن کے دو دو پھیرے بنی گالا کے لگا کر آنا اس سے سستا پڑتا ہے جتنا کہ ہالینڈ کے وزیر اعظم کا سائیکل پر اپنے دفتر جانا۔
یہ انقلاب سے پہلے کے حالات ہیں۔
ہمارے تمام سول اور فوجی حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہو جانا چاہیے کہ عمران خان کی اصلاح پسندی کا ناٹک زیادہ لمبا عرصہ نہیں چل سکتاجس پر وہ عوام کو مزید بکرا بنا جائیں گے۔
شیر کی کھال صرف فوج نے نہیں کھینچی۔ عوام کی بے نیازی ہمارے سامنے ہے۔ پنجاب کے کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں ایک سیٹ بھی ایسی نہیں جہاں شیر نے یوتھیوں کو شکست دے کر دھول نہ چٹائی ہو۔ لیکن انہی ضلعوں میں نواز شریف کی گرفتاری کے خلاف دس بندوں کا احتجاج بھی سامنے نہیں آیا۔
اس میں ایسے علاقے بھی ہیں جو کل پیپلز پارٹی کا قلعہ کہلاتے تھے۔ آج یہاں پیپلز پارٹی کا نام لیں تو لوگ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ آخری چانس ہے۔
اس کے بعد کسی اور کی نہیں بلکہ غریب عوام کی ڈائریکٹ باری چاہیے۔
انقلاب زندہ باد!!!